تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 191535 / ڈاؤنلوڈ: 4749
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

5.بخاری اور مسلم نے پنجشنبہ کی مصیبت کے نام جو واقعہ مشہور ہے اس کا تذکرہ کیا ہے پنچشنبہ اپنی زندگی کے آخری پنجشنبہ کو جب پیغمبر(ص) نے چاہا تھا کہ ایسی تحریر و حوالے کر دیں کہ آپ کی امت قیامت تک گمراہی سے محفوظ ہوجائے پیغمبر(ص) کے اس ارادے کو رد کر دیا گیا تھا دونوں محدثین یعنی بخاری اور مسلم نے اس واقعہ کو تو لکھا ہے لیکن اس جسور کا نام گول کر گئے ہیں جس نے نبی(ص) کو رد کیا تھا اسی طرح رد کرنے والے کا یہ جملہ نہیں لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) ہذیان بک رہے ہیں.(1) لیکن جب کسی مجبوری کے تحت رد کرنے والے کا نام بتانا ہی پڑتا ہے تو پھر بڑی ذہانت سے عمر کی زبان سے نکلے ہوئے جملے میں تحریف کر دی اور یہ لکھا کہ قول پیغمبر(ص) کو رد کرنے والے تو عمر ہی تھے اور انہوں نے یہ کہہ کے پیغمبر(ص) کی تردید کردی کہ نبی(ص) پر درد کا غلبہ ہے.(2)

6. اس جھوٹی عمر ابن عاص کی یہ حدیث بھی آپ کی نظروں سے گذر چکی ہے جس میں حضور(ص) نے فرمایا کہ آل ابوطالب میرے اولیا نہیں ہیں بلکہ میرا ولی اللہ اور صالح المومنین ہے(3) اس حدیث کو مسلم اور بخاری دونوں نے لکھا ہے.

7. اس جھوٹی اور نا معقول حدیث کو بھی بخاری اور مسلم نے لکھنا بہت ضروری سمجھا ہے جو ابھی گذر چکی ہےکہ مسلمانوں نے ابوسفیان سے معاملہ کر لیا اور وہ نبی کے پاس اپنی گذارشات لے کے آیا تھا حالانکہ وہ مورخین کے اجماع کے صریحا خلاف ہے مورخین کا اس بات پر اجماع ہے کہ نیی(ص) نے ابوسفیان کے اسلام لانے کے پہلے ام حبیبہ سے عقد کیا تھا.

نمونے کے طور پر چند حدیثیں دونوں حضرات کی کتاب سے پیش کی گئی ہیں تاکہ ثابت ہوسکے کہ یہ لوگ دشمنان اہل بیت(ع) کو حدیثوں کے اندر کتنا اوپر اٹھاتے ہیں اور اہل بیت(ع) کی کتنی تخفیف

......................................

1.صحیح بخاری، ج3، ص111. کتاب الجہاد والسیر، صحیح مسلم، ج3، ص1259.

2.صحیح بخاری، ج5، ص2146، صحیح مسلم، ج3، ص1259.

3.پہلے سوال کے جواب میں ان کے مصادر کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، ج2، ص59.

۱۶۱

اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جمہور اہل سنت کی صحاح خصوصا اصح الکتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رجحان فکر اہل بیت کے خلاف ہے اور ترجیحات اہل بیت(ع) کی ضد میں ہیں.

مسلم اور بخاری کی اہمیت کا سبب

شاید مسلم اور بخاری کی اہل سنت کے نزدیک خصوصیت خاصہ کی وجہ بھی یہی ہے لاشعوری طور پر سہی اہل سنت مسلم اور بخاری کی طرف اسی وجہ سے زیادہ متوجہ ہیں اور ان کتابوں کی تعظیم و احترام میں کوتاہی حرام سمجھتے ہیں سابقہ سوالوں کے تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جا چکا ہے اہل سنت حضرات اہل بیت(ع) سے انحراف کو بہت ضروری خیال کرتے ہیں اور جہاں اہل بیت(ع) کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہاں ان کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں ورنہ حدیث کی ہزاروں کتابوں میں مسلم اور بخاری کو خاص ترجیح دینا کوئی معنی نہیں رکھتا.

امام احمد کی تعظیم ان کی مسند سے بے توجہی

میرے مندرجہ بالا دعوے کی روشن دلیل اہل سنت کے امام احمد بن حنبل کے بارے میں متضاد نظریہ ہے امام احمد کی شخصیت اہل سنت کے یہاں بہت اہمیت رکھتی ہے اصول میں ان کو مقدم سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ انہوں نے اپنے نظریہ کی وجہ سے تازیانے کھائے ہیں علی بن مدینی کہتے ہیں خدا نے اس دین کی تائید ود آدمیوں کے ذریعہ کی ہے ایک یوم ردہ کے ذریعہ ابوبکر سے اور دوسرے یوم محنت کے ذریعہ احمد سے(1) ابوعبید کہتے ہیں علم از افراد پر منتہی ہوتا ہے جس میں امام احمد سب سے بڑے فقیہ ہیں(2) شافعی کہتے ہیں میں جب بغداد سے نکلا تھا اور تو بغداد شہر میں امام احمد سے افضل اعلم اور افقہ کوئی نہیں تھا(3) امام احمد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ حنابلہ کے امام ہیں آپ جانتے ہیں کہ حنابلہ اپنے فرعی مسائل میں کتنے سخت ہیں اور ان کا مذہب اصول ستہ کے پہلے بھی موجود تھا چاہے وہ امام

.........................................

1.2.3.تذکرة الحفاظ، ج1، ص432 احمد بن حنبل کے ترجمے میں.

۱۶۲

بخاری ہوں یاان کے بعد آنے والے، ( تو آپ نے دیکھا کہ امام احمد کی اہل سنت کے نزدیک کیا حیثیت ہے اب تاریخ کا ایک عجوبہ ملاحظہ کریں) مترجم غفرلہ.

انہیں امام احمد نے حدیث کی ایک جامع کتاب لکھی گئی مقصد یہ تھا کہ امت اپنے اصول و فروع کے مسائل میں ان کی کتاب کو مرجع قرار دے چنانچہ ابو موسی علی ابن عمر مدینی اپنی سند سے لکھتے ہیں کہ مجھ سے احمد بن حنبل نے کہا میں نے اپنی اس کتاب میں سات سو پچاس سے زیادہ احادیث پیغمبر(ص) جمع کر دی ہیں اور جو بھی رکھا ہے بہت ٹھوک بجا کے رکھا ہے مسلمانوں کے درمیان ہر مختلف فیہ مسئلہ کا جواب اس کتاب میں حدیث پیغمبر(ص) سے دیا گیا ہے پس تم لوگوں کے لئے اس کتاب کو مرجع قرار دیا اور یہ سمجھ لو کہ اس کتاب کے باہر جو کچھ ہے وہ بہر حال حجت نہیں ہے.(1)

عبداللہ بن احمد بن حنبل اپنی سند سے کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ وضع کتاب کو کیوں مکروہ سمجھتے ہیں جب کہ آپ نے خود ایک مسند لکھی ہے کہنے لگے میں نے اس کتاب کو امام قرار دیا ہے کہ جب بھی لوگ سنت پیغمبر(ص) میں اختلاف کریں( فیصلہ کے لئے) اسی کتاب کی طرف رجوع کریں.(2)

ابوموسی جن کا تذکرہ ابھی گذر چکا ہے کہتے ہیں امام صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہیں حدیث لی مگر صرف ان افراد سے جن کی صداقت اور دیانت ان کے نزدیک ثابت تھی پس جس کی امانت مخدوش تھی امام صاحب نے ان سے کوئی حدیث نہیں لی پھر اپنی اسی بات کا ثبوت بھی دیا ہے(3) یہی وجہ ہے کہ سبکی کہتے ہیں احمد بن حنبل کی مسند امت کی اصولی کتاب ہے،(4) اور سیوطی کہتے ہیں مسند احمد میں جو کچھ ہے وہ مقبول ہے.

........................................

1.خصائص مسند احمد، ص13. التقید، ص161، المعقد الارشد،ج1، ص366، حنبل بن اسحاق بن حنبل کے ترجمے میں.

2.خصائص مسند احمد، ص14، التقید، ص161.

3.خصائص مسند احمد، ص14.15.

4.طبقات الثافعیتہ الکبری، ج2، ص21، احمد بن حنبل کی سوانح حیات کے ضمن میں.

۱۶۳

بلکہ جو ضعیف ہے وہ بھی حسن کے قریب ہے(1) ان تمام باتوں کے باوجود احمد بن حنبل کی مسند کا نام صحاح ستہ کی فہرست میں نہیں ہے چہ جائیکہ اس کتاب کو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے مقارن قرار دیا جائے اور ان سے افضل سمجھا جائے بلکہ ہمارے اکثر بھائی تو اس حدیث کو محض اس لئے معمولی بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے رجحانات کے خلاف ہے تو کہتے ہیں یہ حدیث سواء مسند احمد ابن حنبل کے کہیں نہیں پائی جاتی ( یعنی اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے) مترجم غفرلہ.

آخر کیوں مسند احمد اتنی غیر اہم کیوں ہوگئی مسند اتنی نا قابل توجہ کیوں ہوگئی آئیے میں آپ کو بتائوں امام صاحب نے ایک بڑی سیاسی غلطی کر دی ہے اس کتاب میں انہوں نے علی اور اہل بیت پیغمبر(ص) کے بہت سارے فضائل نقل کر ڈالے ہیں جب کہ دوسری کتابوں نے اس سے اجتناب کیا ہے اگر برادران اہل سنت اس کتاب کو بھی صحاح میں شمار کرتے یا صحاح سے مقدم مانتے تو اس نظریہ کا نتیجہ ان کے لئے پریشان کن ہوتا اور اس عمل کے نتیجہ سے جو پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے ان سے چھٹکار مشکل ہوجاتا.

اب و کتاب احمد کو اصول ستہ سے مقدم بھی سمجھتے ہیں اس کتاب میں مندرجہ حدیثوں کے قبول کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن اس کے اندر خامیاں ہیں کہ وہ مقام عمل میں اس کی حدیثوں پر بھروسہ نہیں کرتے جب تک ان

حدیثوں کو علم تنقید سے نہیں گذارتے اور ان اصول ضوابط پر پیش نہیں کرتے، یہ تو صحیح ہے کہ اہل سنت مسند احمد کو اصول ستہ سے مقدم جانتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی مسند میں جو حدیثیں ہیں ان کو قبول کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کتاب میں سلبیات نہیں ہیں اس لئے اس کی ان حدیثوں کو جو منفی پہلو رکھتی ہیں اس وقت تک قبول نہیں کیا جاسکتا جب تک انہیں حجیت کے اصول و ضوابط پر پیش نہ کر دیا جائے ایسے اصول و ضوابط جو صاحبان عقل کے نزدیک شرعی طور پر قابل قبول ہیں، برادران اہل سنت کو بھی اس بات کو

........................................

1.کشف الحخفاء للعجلونی، ج1، ص9 کنز العمال، ج1، ص10.

۱۶۴

سمجھنا چاہئے کہ مسند احمد کی تعریف میں اتنے پر جوش الفاظ استعمال کرنے کا فائدہ کیا ہے، آپ کسی کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں اس کی مرکزیت ثابت کرنے کے لئے حسین ترین الفاظ سے اس کے گرد پھول اگا دیں تقدس کی جالی اور تعظیم کے خوبصورت غلاف سے اس کو مزین کردیں مگر اس کا فائدہ کیا ہوگا؟

آپ نے تو مسلم اور بخاری کو کتاب باری کے بعد اصح الکتب قرار دیا آپ کے دہلوی صاحب نے فیصلہ کر دیا کہ جو بخاری اور مسلم کے مندرجات کو کمتر سمجھتا ہے وہ بدعتی اور غیر سبیل مومنین کا راہی ہے، اور بہت سی وہ باتیں بھی لکھی گئیں اور کہی گئیں جو آپ کی تقلید اور شخصیت پرستی کا تقاضہ ہیں لیکن اس سے فائد کیا ہوا اس بوقلمونی کا نتیجہ قرآن مجید کی اس آیت کو پڑھ کے معلوم کر لیں حس میں ارشاد ہوتا ہے، “ جیسے چمکتا ہوا سراب جس کو پیاسا دور سے پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے قریب پہونچتا ہے تو وہاں کچھ نہیں ملتا البتہ اللہ کو اپنے پاتا ہے اور اللہ اس کا پورا پورا حساب کر دیتا ہے اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے.(1) میرا خیال ہے کہ اس طویل گفتگو کے بعد آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ برادران اہل سنت کے اضطراب کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس حدیث کے قبول کرنے کا کوئی معیار نہیں، نہ عقلی اصول ان کے پاس ہیں نہ شرعی دلیلیں، جو قیامت میں خدائے تعالی کے سامنے عذر بنا کے پیش کی جاسکیں.جس دن دوست دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہونچائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی.(2)

پس چہ باید کرد

اب تک کے معروضات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل سنت کو چاہئے پہلے اپنے اصول جرح و تعدیل کو ٹھیک کریں یعنی نقد و جرح اور رد و قبول احادیث کے لئے ایک اصول بنائیں جو شرع و عقل کے مطابق اور تمام امور میں تمام لوگوں کے نزدیک قابل قبول ہو پھر تھوڑی ہمت سے کام لے کے اور تھوڑی شجاعت کا

.................................

1.سورہ النور، آیت39.

2.سورة الدخان، آیت 41.

۱۶۵

مظاہرہ کر کے اسی اصول پر تمام حدیثوں کو جانچ لیں اور تعصبات و جذبات کو دل سے نکال کے جو حدیثیں اس اصول کے مطابق ہوں اس کو قبول کریں ورنہ رد کردیں.

شیعوں کی سلامت روی

اس معاملے میں الحمد للہ شیعہ سلامت روی کے قائل ہیں دلیلوں کو لازم سمجھتے ہیں اور اپنی دلیلوں پرقائم بھی رہتے ہیں ان کی دلیلیں بندگی یا اجتہاد کا نتیجہ نہیں ہوتیں اور نہ وہ اپنے دین میں تقلید ہی کے قائل ہیں وہ اس طرح کی حدیثوں پر نہ عمل کرتے ہیں نہ قبول کرتے ہیں جو حدیثیں اصول جرح و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں اور جب تک ان کی حجیت معین نہیں ہوجاتی تسلیم نہیں کرتے.

اصول جرح و تعدیل میں بھی وہ صرف اس میزان کو تسلیم کرتے ہیں جو شرع اورعقل کے مطابق ہو اور دین و شریعت کی بنیاد پر ہو اس حیثیت سے کہ جرج و تعدیل میں حق و حقیقت کا لحاظ رکھا جائے اور جرج و تعدیل کے ذریعہ حق تک پہنچا جائے پس ان کے یہاں تعصب اور جذبات کی جرح و تعدیل میں کوئی گنجائش نہیں ہے.

اسی طرح حدیثوں کی بھی صرف ان کتابوں پر اعتماد کرتّے ہیں جن کے مولفین کی دینی اور عرفانی حیثیت تسلیم شدہ ہوتی ہے اور جن کا تورع نا قابل انکار ہوتا ہے اور کوئی بھی نا ائز تنقید ان کے وثوق کو ساقط نہیں کرتی.

پھر بھی وہ اپنی کتابوں کی تمام حدیثوں کو مقطوع الصحت نہیں مانتے حالانکہ ان کے علماء نے ان حدیثوں پر عمل بھی کیا ہے ان کی تصحیح بھی کی ہے لیکن پھر بھی شیعہ پہلے ان حدیثوں کی اسانید پر توجہ دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ اپنے موضوع پر دلالت کرتی ہے یانہیں نیز ان ضوابط کے تقاضے پورے کرتی ہے یا نہیں جن پر ہر متجہد اعتماد کرتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کی تحقیق کے لئے الحمد للہ ان کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ کھلا ہا ہے اور تقلید خارج از دین ہے تقلید صرف وہ کرسکتا ہے جو عامی محض ہےاور ان امور پر نظر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا.

۱۶۶

یہ اہل بیت اطہار(ع) کا احسان ہے کہ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کے ذہن کی تربیت و تادیب ہی اسی انداز سے کی ہخ ان کے اذہان علمی استدلال کے راستوں پر سوچتے ہیں اور اسی علمی استدلا ک اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں ہمارے ائمہ(ع) نے اس طریقہ استدلال کو ہمارے یہاں متعارف کرایا ہے اور ہمار علمی ماجول دینی آب و ہوا میں اسی طریقہ استدلال کا حامل رہا ہے، اس اللہ کی حمد جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اگر وہ ہدایت نہیں دیتا تو ہم ہدایت نہیں پاسکتے تھے.(1) ہم اس کے شکر گذار ہیں وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین وکیل اور بہترین دوست ہے اور بہترین مددگار ہے.

مطلب الثانی

آپ نے اپنے اس سوال میں کہا: شیعوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اہل بیت کی حدیثوں پر اعتماد کریں جب کہ اہل سنت کے لئے یہ ضروری نہیں ہے یعنی شیعوں کی کتابوں پر اعتماد کرنا اس لئے کہ وہ براہ راست پیغمبر(ص) سے اسانید کے واسطے سے روایت لیتے ہیں اور یہ ان کے لئے کافی ہے کیونکہ وہ ائمہ(ع) کی عصمت کے قائل نہیں ہیں.

میں کہتا ہوں کہ آپ کی باتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کی کتابوں پر اعتماد نہ کرنا قابل تعریف عمل سمجھتے ہیں.

پیغمبر(ص) کی حدیثوں کو سمجھنے سے اہل بیت(ع) کی حدیثوں سے اعراض صحیح نہیں ہے.

1.یہ بات تو بہر حال قابل تعریف ہے کہ اہل سنت احادیث نبی کو کافی سمجھتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ائمہ ہدی علیہم السلام کی حدیثوں سے رو گردانی کر کے وہ کوئی بہت قابل تعریف کام

...........................................

1.سورہ اعراف، آیت43.

۱۶۷

کر رہے ہیں اس لئے کہ اگر احدیث نبوی(ص) کی طرف رجوع کرنا واجب ہے تو پھر احادیث نبوی ہی کی طرف جوع کرنا چاہیئے، چاہے اسناد اور طریقے مختلف ہوں یعنی اہل سنت کے اسناد اور طریقے اگر حجیت کے شرائط کو پورا کرتے ہیں تو ان کے ذریعہ حدیث نبوی کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اسی طرح ائمہ اہل بیت(ع) کی حدیثیں بھی جو نبی تک منتہی ہوتی ہیں اور جن کی اسناد میں ائمہ ہدی علیہم السلام راوی ہیں ان کے ذریعہ نبی(ص) کی طرف رجوع کرنا واجب ہے.

بعض احادیث نبوی کو کافی سمجھ کے دوسری احدیث نبوی کی طرف توجہ نہیں دینا بے مطلب بات ہے ورنہ شیعہ بھی ایساکرتے یعنی جو حدیثیں ائمہ اہل بیت(ع) سے شیعوں تک پہنچی ہیں صرف انہیں کو کافی سمجھ کے اہل سنت کے طریقوں سے جو حدیثیں پہنچی ہیں انہیں چھوڑ دیتے لیکن شیعہ ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ ان حدیثوں کو بھی قابل توجہ سمجھتے ہیں جو اگرچہ اہل سنت کے طریقوں سے مروی ہیں لیکن حجیت اور دلالت کے معیار پر پوری اترتی ہیں، میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اہل سنت حضرات صرف مرویات نبوی(ص) کے کافی ہونے کا دعوی کس طرح کرتے ہیں اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں جب احادیث نبوی(ص) میں انہیں مسائل کا جواب نہیں ملتا تو یہی حضرات دوسرے راویوں کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور احکام حاصل کرنے کے لئے قیاس، استحسان، اور اہل شہرت کے عمل کی طرف رجوع کرتے ہیں اس لئے کہ ان احکام کے سلسلے میں ان کے پاس حدیث نبوی(ص) موجود نہیں ہوتی.

ایک طرف تو یہ حضرات حدیث نبوی(ص) کے کافی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے بڑے عالم ابوالمعالی جوینی یہ لکھتے ہیں کہ اہل تحقیق کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو قیاس کا منکر ہے اس کو علماء امت شمار نہیں کرنا چاہئے نہ وہ حامل شریعت ہوسکتا ہے اس لئے کہ ایسے لوگ خواہ مخواہ کا عناد رکھنے والے اور ان چیزوں میں ہٹ دھرمی کرنے والے ہیں جس کی حقانیت اور فیض تواتر سے ثابت ہوچکا ہے شریعت کا بڑا حصہ اجتہاد سے ثابت ہوا ہے ورنہ نصوص کی مقدار تو شریعت کے دسویں حصہ کو بھی کافی نہیں ہے( یعنی نصوص ہمارے پاس بہت کم موجود ہیں اگر صرف نصوص پر اکتفا کی

۱۶۸

جائے تو احکام شرعی کا دسواں حصہ بھی نہیں معلوم ہوگا(1) اس لئے قیاس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے قیاس کا مخالف امت کا عالم نہیں ہوسکتا) مترجم غفرلہ

ائمہ اہل بیت(ع) کی طرف رجوع کرنے کے فائدے

ائمہ اہل بیت(ع) کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنے سے اہل سنت کو بہت سے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں.

1. بہت سے اپنے مسائل میں جن میں ائمہ اہل بیت(ع) کے طریقوں سے حدیث موجود ہے لیکن اہل سنت کے

طریقوں سے حدیث نبوی(ص) موجود نہیں ہے اگر اہل سنت یہ طے کر لیں کہ طریق ائمہ سے جو حدیث حاصل ہوتی ہے ان مذکورہ مسائل میں انہیں حدیثوں پر عمل کیا جاسکتا ہے تو پھر قیاس وغیرہ کا محتاج ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اس لئے کہ اہل سنت کے طریقے سے نہ سہی ائمہ اہل بیت(ع) کے طریقے سے ہی نص تو ان کے پاس بہر حال موجود ہوگی.

2. یہ بھی ہوتا ہے کچھ مسائل کے بارے میں طریق اہل سنت سے بھی حدیث موجود ہے اور طرق ائمہ اہل بیت(ع) سے بھی لیکن طریق اہل بیت(ع) سے جو حدیث ہے وہ اہل سنت کے حدیث کی تشریح اور تفسیر کرتی ہے

اور اس کخ ذرقعہ مقام تفسیر میں جو اختلاف موجود ہے اس کو رفع کیا جاسکتا ہے چونکہ دو حدیثوں میں جمع کی صورت نکالی جاسکتی ہے اور طرق ائمہ سے وارد حدیث طریق اہل سنت سے حاصل شدہ حدیث رفع کرتی ہے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر کرتی ہے تو اہل سنت اس نقطہ نظر سے ائمہ اہل بیت(ع) سے بھی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں.

.........................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج13، ص105، دائود بن علی کے ترجمے میں.

۱۶۹

3. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث طریق اہل سنت سے اور اس کے متعارض دوسری حدیث طریق اہل بیت(ع) سے وارد ہوتی ہے دونوں حدیثیں ایک دوسرے کے متعارض اور متنافی ہیں دونوں میں جمع کی کوئی صورت نہیں ہے نہ ان میں سے ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہے کہ دونوں حدیثوں میں راجح حدیث کو لے لیا جائے جب ترجیحی پہلو نہیں نکلتا ہے تو توقف کرنا طے ہے ایسی صورت میں توقف کا فائدہ حاصل ہوتی ہیں تو وہ لوگ توقف کرتے ہیں اور دونوں میں جمع کی صورت نہیں پیدا ہونے کی وجہ سے دونوں کو ساقط کر دیتے ہیں.

حاصل گفتگو یہ ہے کہ صرف اس لئے کہ اہل سنت کی کتابوں میں صرف احادیث نبوی(ص) کو اپنے طریقوں پر جمع کر دیا ہے اہل بیت(ع) کے طریقوں سے وارد حدیثوں کو چھوڑ دینا اور ان سے روگردانی کرنا قابل تعریف ہے نہ فائدہ مند اس لئے حق کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے کے لئے کفایت نہیں کرتا.

( بلکہ ہٹ دھرمی اور تعصب سے دامن بچا کے ہم جب بھی غیر جانبدارانہ نظر ڈالتے ہیں تو عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اہل بیت(ع) کی احادیث کو غیروں پر مقدم کرنا بہت ضروری اور عقل کا تقاضہ ہے.) مترجم غفرلہ.

عقل تقاضہ کرتی ہے کہ طریق اہل بیت(ع) کی حدیثوں کو دوسروں پر مقدم رکھا جائے

ایک نظر اسلام کے قرن اولی کی تاریخ پر ڈالیے اور دیکھیے کہ احادیث نبوی(ص) کو کن آفتوں اور حادثوں سے گذرنا پڑا ہے پھر آپ کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی کہ اہل بیت اطہار(ع) کے واسطوں سے حاصل شدہ حدیثوں کو مقدم رکھنا کیوں ضروری ہے؟

۱۷۰

جب آپ دیکھیں گے کہ تاریخ حدیث نبوی(ص) سے کیا بدسلوکی کرتی ہے اور حدیث نبوی(ص) کو تدوین سے پہلے ہی سیرت نبی کو مٹانے اور حق کو ضائع کرنے کی کتنی منظم سازشیں کی گئی ہیں.

حدیث نبوی(ص) کے بارے میں امیرالمومنین(ع) کا خطبہ

امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ مولا یہ نئی نئی حدیثوں اور لوگوں کے پاس موجود حدیثوں میں اتنا واضح اختلاف کیسے ہوا؟

آپ نے فرمایا، لوگوں کے پاس حق بھی ہے اور باطل بھی، صدق بھی ہے اور کذب بھی، ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ہے، عام بھی ہے اور خاص بھی، محکم بھی ہے اور متشابہ بھی، محفوظ بھی ہے موہوم بھی، پیغمبر(ص) پر تو آپ کی زندگی میں جھوٹ باندھا گیا یہاں تک کہ آپ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو مجھ پر جان بوحھ کے جھوٹ باندھے اس کی بیٹھک کو آگ سے بھر دیا جائے گا تمہارے پاس حدیث پہچانے والے چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں پانچواں نہیں.

1.وہ مرد منافق جو ایمان کا اظہار کرتا ہے اسلام میں بناوٹ کرتا ہے اور رنجیدہ نہیں ہوتا نہ کوئی حرج محسوس کرتا ہے پیغمبر(ص) پر عمدا جھوٹ باندھتا ہے اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہ جھوٹا اور منافق ہے تو اس سے نہ حدیث قبول کریں اور نہ اس کی تصدیق کریں لیکن تو یہ کہتے ہیں وہ پیغمبر(ص) کا صحابی ہے اس نے پیغمبر(ص) سے براہ راست سنا ہے اور حدیثیں حاصل کی ہیں نتیجہ میں لوگ اس سے اسی کے لفظوں میں حدیث لیتے ہیں حالانکہ خدا نے تو تمہیں منافقین کے بارے میں خبردار کر دیا ہے اور اچھی طرح منافقین کو پہچنوا دیا ہے یہ منافقین نبی(ص) کے بعد بھی باقی رہے اور انہوں نے گمراہ اماموں کے دربار میں کذب و افتراء کا بازاز گرم کیا، بہتان اور جھوٹ کے ذریعہ جہنم کی طرف دعوت دینے والے اماموں سے ملے ایسے ہی لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا اور لوگوں کی گردنوں پر حاکم بنا دیا اور ان کے ذریعہ دنیا حاصل کی لوگ تو بادشاہ اور دنیا کے ساتھ رہتے ہی ہیں مگر صرف وہ لوگ جنہیں اللہ بخشنے کی توفیق دے چار میں سے ایک کا تعارف تو ہوگیا.

۱۷۱

2.دوسرا وہ جس نے حدیث نبی(ص) سے سنی ضرور لیکن اس کو یاد نہیں رکھ سکا نتیجہ میں وہم کا شکار ہوگیا وہ عمدا جھوٹ تو نہیں بولتا لیکن اپنے وہم کو حدیث سمجھ کے اپنے سامنے رکھتا ہے اور اسی کی روایت کرتا اور اسی پر عمل کرتا ہے اور یہ کہا ہے کہ میں نے ہر بات رسول اللہ(ص) سے سنی ہے، پس اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کو وہم ہوا ہے تو اس سے حدیثیں قبول نہیں کریں گے وہ خود بھی اگر یہ جان جائے کہ اس کی روایتیں وہم کا نتیجہ ہیں تو انہیں چھوڑ دے گا.

3.تیسرا وہ ہے جس نے نبی(ص) کو کسی چیز کے بارے میں امر کرتے ہوئے سنا لیکن آپ نے جب اس کام کی نہی کی تو وہ موجود نہی تھا اس لئے نہیں سن سکا یا کسی چیز کی نہی سنا اور اس کے بارے میں جب نبی(ص) نے امر کیا تو نہیں سن سکا اب وہ اوامر و نواہی کے بارے میں نہیں جانتا اس کو منسوخ یاد ہے ناسخ نہیں معلوم اور اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے منسوخ ہے تو اس کو چھوڑ دے گا اور مسلمانوں کو بھی اگر معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس منسوخ حدیثیں ہیں تو لوگ اس سے حدیثیں قبول نہیں کریں گے.

4.چوتھا آدمی وہ ہے جو پیغمبر(ص) پر اور خدائے پیغمبر(ص) پر جھوٹ نہیں باندھتا بلکہ خوف خدا اور تعظیم پیغمبر(ص) کی بنیاد پر جھوٹ کا دشمن ہے اس کو وہم نہیں ہوتا بلکہ اس نے نبی(ص) سے جیسا سنا ویسا یاد رکھا اس میں نہ زیادتی کی نہ ہی کمی اس کے پاس ناسخ محفوظ ہے اسی پر عمل کرتا ہے اور منسوخ بھی محفوظ ہے جس سے وہ پرہیز کرتا ہے خاص اور عام کو پہچانتا ہے اور ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے محکم اور متشابہ کو پہچانتا ہے.

کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کلام پیغمبر(ص) کے دو رخ ہوتے تھے کلام خاص اور کلام عام سننے والا سن تو لیتا تھا لیکن اس کو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا خدا اور خدا کے رسول(ص) نے اس کلام سے کیا مراد لیا ہے وہ حدیث کو لیتا تھا اور چونکہ معنی سے واقف نہیں تھا اس لئے غیر معنی کی طرف توجیہ کر دیتا تھا اس کو یہ نہیں معلوم کہ اس حدیث کا مقصد کیا ہے اور حدیث کی حدوں سے خارج ہے پیغمبر(ص) کا ہر صحابی آپ سے سوال بھی نہیں کرتا تھا اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا بلکہ اصحاب پیغمبر(ص) تو چاہتے تھے کہ

۱۷۲

کوئی اعرابی یا مسافر آکے پیغمبر(ص) سے مسئلہ پوچھے تو وہ جواب سن کے فائدہ اٹھا لیں لیکن میرے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ آتا تھا میں پیغمبر(ص) سے بخ تکلف ہو کے پوچھتا تھا اور اس کو یاد رکھتا تھا وہ مجھے اب تک یاد ہے یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں حدیثوں کا اختلاف پایا جاتاہے نیز کمزور حدیثیں روایت کرنے کی بھی یہی وجہ ہے.

پوچھنے والے کا انداز سوال بتا رہاہے کہ بدعتی حدیثیں اور خبروں میں اختلاف اتنا جاری و سار ہوگیا تھا ہ لوگ مقام حیرت و شک میں تھے اور حق کی تمیز کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے یہاں تک کہ سائل نے امیرالمومنین(ع) سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی اور امیر المومنین(ع) کے جواب دینے کا انداز یہ بتا رہا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ حدیثوں میں آلودگی ہو چکی ہے اور حدیث نبوی کو وہم و گمان ور کذب و افترا سے خلط ملط کر کے بیان کیا جارہا ہے عام مسلمان اس اختلاط سے غافل تھے ان کے پاس جو حدیثیں بھی پہونچی تھیں ان پر وہ آنکھ بند کر کے عمل کرتے تھے اور اندھا اعتماد کرتے تھے محض اس لئے کہ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حدیثیں صحابی کے ذریعہ آرہی ہیں اور حدیث کے معاملے میں صحابی رسول (ص) پر افترا نہیں کرسکتا ان کے گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ صحابی جھوٹا اور منافق بھی ہوسکتا ہے وہ تو صحابی کو صحابی کی حیثیت سے جانتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ صحابی جھوٹ نہیں بول سکتا نہ اس کو وہم ہوسکتا ہے اور ناسخ و منسوخ سے بھی خوب واقف ہے.

حدیث شریف آفتوں کی زد پر کیوں؟

ہر صاحب نظر کو یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ آخر حدیث نبی(ص) ہی پر اتنی آفتیں کیوں آتی ہیں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ حدیث نبوی(ص) حکام وقت کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اس لئے ہر مسلمان حکومت نے اس پر سختی سے پابندیاں عائد کیں اور ان کی تالیف و تدوین سے روکنے کی بھرپور کوشش کی اصحاب پیغمبر(ص) کو حدیث کی نشر و اشاعت کا بہت کم موقع دیا گیا اور اگر حدیث پیغمبر(ص) کو نشر و اشاعت کی اجازت دی بھی گئی تو سخت پابندیوں کے دائرے میں دی گئی صرف

۱۷۳

ایسی حیدثیں عام کرنے کی کوشش کی گئی جو بظارہ حکام وقت اور حکومت سے متعارض نہیں ہیں یہ بات میں سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کرچکا ہوں.

محض اس خوف سے کہ سیرت نبوی(ص) اور حدیث رسول عوام تک پہونچ جائے گی اکابر اصحاب کو مدینہ کے باہر جانے سے روکا جاتا رہا اور کبھی اجازت دی بھی گئی تو حکومت کی سخت نگرانی میں جس کی وجہ سے اصحاب پیغمبر(ص) آزادی کے ساتھ حدیث پیغمبر(ص) کی نشر و اشاعت نہیں کرسکے یا تو اس لئے کہ حکومت ان کے اوپر بے تحاشہ ظلم کرتی تھی یا وہ اس بات سے خوف زدہ تھے کہ اگر حدیثوں کی اشاعت کی جائے گی تو وہ ان کے عتاب کا شکار ہو جائیں گے نتیجہ یہ ہوا کہ حدیثیں جمود کا شکار ہوگئیں اور خصوصا عمر کے دور میں حدیثیں کچھ زیادہ ہی اس آفت کا شکار ہوئیں.

اس لئے کہ عمر نے اصحاب پیغمبر(ص) کو مدینہ سے باہر دوسرے شہروں میں جانے سے سختی سے روک دیا تھا اور ان کے ارکان حکومت میں منافقین مولفتہ القلوب (سست عقیدہ) اور فتح مکہ والے مسلمانوں کی کثرت تھی جو حکومت کے کرتا دھرتا تھے اور اس طرف امیرالمومنین(ع) نے اپنے کلام میں اشارہ فرمایا ہے جو گذشتہ صفحات میں پیش کیا گیا اور میں نے اس کلام کی طرف آپ کے ان سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب بھی اشارہ کیا تھا.

یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے حدیثوں میں ملاوٹ ہوئی اور لوگ حق اور باطل کو سمجھنے سے قاصر رہے مسلمانوں کے معاملات خراب ہوئے اب مسلم عوام ہر اس حدیث پر عمل کرتے تھے جو ان تک پہونچتی تھیں اور اس حدیث کو سچا کہہ کر پیش کیا جاتا تھا اس لئے وہ حقیقت حال سے غافل اور حکومت انہیں غافل رکھنا بھی چاہتی تھی خاص خاص افراد کو اس بات کا ادراک تھا بھی تو وہ حیران تھے کہ کس کو مانیں اور کس کو چھوڑیں یہاں تک کہ ایسے لوگ امیرالمومنین(ع) سے سوال کرنے پر مجبور ہوتے تھے.

تاریخ کا عجوبہ ہے یہ بات کہ یہ کچھ وفات پیغمبر(ص) کے فورا بعد صرف تین دہائیوں میں ہوتا

۱۷۴

رہا لیکن کسی صحابی نے اس کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی ایسی بات نہیں تھی کہ صحابہ موجود نہیں تھے ان تین دہائیوں میں صحابہ کی وافر تعداد موجود تھی اور اکثر صحابہ متورع پاک دامن اور صاحب کردار تھے لیکن حکومت خوف زدہ اور دار و رسن سے دہشت زدہ تھے جب عثمان کے آخری دور میں حکومت کی پکڑ کمزور ہوئی تو انھیں حق بیان کرنے کی کچھ آزادی ملی خصوصا مولائے کائنات کے دور میں تو حکومت نے ان کا خوب ساتھ دیا اور انہوں نے بھی اپنے عقیدے ایمان اور احادیث پیغمبر(ص) کی کھل کے نشر و اشاعت کی اپنے سوال کا جواب دیکھیں.

امیرالمومنین(ع) کے دور میں اعلان حق اور تصحیح حدیث کی کوششوں کی ابتداء

امیرالمومنین(ع) کے دور میں اعلاء کلمہ حق اور مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کو سدھارنے کی کوشش شروع ہوئی اور بہت حد تک کامیابی بھی ہوئی مگر کاش یہ الت برقرار رہتی تاکہ امیر المومنین(ع) اہل بیت اطہار(ع) بہتر محتاط صحابہ اور تابعین جو نیکیوں میں ان کی پیروی کرنے والے اور مقدس صحابہ سے حدیثیں لینے والے تھے مسلسل اپنی کوششیں جاری رکھتے تو اسلام کی کچھ اور ہی شکل ہوتی اور حقیقی اسلام ان کے ہاتھ میں ہوتا اس لئے کہ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی صداقت گفتار میں مشہور تھے اس کے علاوہ عوام پر خاصہ اثر بھی رکھتے تھے اور عوام کو حق کی طرف متوجہ کرنے اور حق کو یاد دلانے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے انھوں نے حق کا بار اٹھایا تھا اس باتیں غور سے سنی تھیں اور اس کے ذریعہ حدیثیں بیان کرتے تھے اور اسی کی طرف دعوت دیتے تھے سختیوں کو جھیل کے طویل مدت تک حق کی ترویج کررہے تھے حکومت کے ظلم و سرکشی میں اعانت کرنے کے لئے انہوں نے حق کا ناحق استعمال نہیں کیا تھا عوام الناس بھی ان کے تقدس، خلوص اور بے غرضی سے متاثر تھے.

جوزجانی نے اپنے کلام میں اسی طرح کے شیعیان اہل بیت(ع) کی طرف اشارہ کیا ہے حالانکہ جو

۱۷۵

ز جانی اور نواصب کوئی بھی ان کے مذہب سے راضی نہیں ہے پھر بھی ان کی دیانت داری اور تقدس و خلوص کا اعتراف کرتے ہوئے جوزجانی نے یہ عبارت لکھی ہے اہل کوفہ میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جس کا مذہب قابل تعریف نہیں تھا وہ لوگ اہل کوفہ کے محدثین کے راس و رئیس جیسے ابو الاسحق، منصور، زبید بن حارث یامی، اعمش اور ان کے معاصر محض صداقت گفتار کی وجہ سے انہیں برداشت کرتے تھے.

امیرکائنات(ع) کی شہادت اور اہل بیت اطہار(ع) کے ہاتھ سے حکومت نکل جانے کی وجہ سے تصحیح و اعلان حق کی کوشش سرتاج ہوگئی( دم توڑ گئی)

میں کہتا ہوں کاش اس طرج کے لوگوں کی کوششیں کچھدنوں تک اور جاری رہتیں اور تصحیح کا عمل بیان حق کےساتھ اسی طرج چلتا رہتا تو آج تاریخ اس دور پر فخر کرتی لیکن افسوس کہ اہل بیت(ع) کے ہاتھ سے حکومت نکل گئی اور غضب یہ ہوا کہ معاویہ جیسے مکار اور دنیا پرست انسان کے ہاتھ میں حکومت چلی گئی جس کے بارے میں مولائخ کائنات نے فرمایا ہے اس کاگمراہ کن ہونا ظاہر ہے اس کی بے حیائی سب کے سامنے ہے اپنی مجلس میں صاحب کرم اور با عظمت انسان کو عیب دار بناتا ہے اور صاحب حکمت کو اپنے پاس بیٹھا کے اس کی عقل کو ضبط کر کے بیوقوف بنا دیتا ہے وہی معاویہ مملکت اسلامیہ کا بلا شرکت غیرہ حاکم ہوتا ہے اور مقام نخیلہ میں حکومت حاصل کرنے کے بعد پہلے خطبہ میں ڈیگیں مارتا ہوا انتہائی بے حیائی سے اعلان کرتا ہے اور اپنی حکومت کی پالیسی کا اظہار کرتا ہے مسلمانوں کا حاکم ہے لیکن اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان ان لفظوں سے کرتا ہے ابھی تو کوفہ میں داخل بھی نہیں ہوا ہے مقام نخلیہ میں اس کے خطبے کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں کہتا ہے سنو! لوگو! میں نے تم سے اس لئے قتال نہیں کیا کہ تم روزے رکھو نمازیں پڑھو حج کرو اور زکوة نکالو یہ سب تو تم کرتے ہی ہو یہ میں جانتا ہوں میری جنگ صرف اس لئے تھی کہ میں تم پر حکومت حاصل کروں اللہ نے میرا مقصد مجھے دیا اگر چہ تم لوگوں کو ناگوار ہے.

۱۷۶

سنت نبوی(ص) میں تحریف کرنے اور اس کے ضائع کرنے کا نیا دور شروع ہوتا ہے

سنت نبوی(ص) ایک بار پھر تحریف کا نشانہ بنتی ہے معاویہ کوفہ میں اپنی پالیسی واضح کر کے نام کا واپس آتا ہے اور سنت نبوی(ص) کو بدلنے اور اس کو ضائع کرنے کا نیا دور شروع ہوتا ہے شام والوں میں وہ خطبہ دیتا ہے اے لوگو پیغمبر(ص) نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے بعد تم خلافت حاصل کرو گے تو تم اس مقدس سرزمین کو اختیار کر لو کیونکہ اس سر زمین میں ابدال( بزرگ علماء) سو رہے ہیں تو میں نے تمہیں اور تمہاری سرزمین کو اپنے لئے منتخب کیا ہے پس تم ابوتراب پر لعنت کرو پس لوگوں نے ان پر لعنت کی، دوسرے دن اس نے ایک مضمون لکھا پھر اہل شام کو جمع کرکے ان سامنے پڑھا اس میں لکھا تھا یہ وہ مکتوب ہے جسے امیرالمومنین معاویہ نے لکھا ہے معاویہ جو اس خدا کی وحی کا دوست ہے جس نے محمد(ص) کو نبی مبعوث کیا محمد(ص) نا خواندہ تھے نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے تو خدا نے ان کی اہل سے ان کے لئے ایک وزیر منتخب کیا جو امانت دار لکھنے والا تھا لہذا وحی جو محمد(ص) پر نازل ہوتی تھی میں لکھا کرتا تھا محمد(ص) یہ نہیں جانتے تھے کہ میں نے کیا لکھ دیا ہے میرے اور خدا کے درمیان اس معاملے میں کوئی نہیں تھا.

شام میں جو لوگ اس وقت حاضر تھے سب نے کہا آپ نے سچ فرمایا: اے امیرالمومنین!(1)

حدیث نبوی(ص) کو دوبارہ نشر و اشاعت سے روکا گیا

معاویہ کے اس تاریک دور میں عہد صحابہ کو پس پشت ڈال دیا گیا اور صاحبان ایمان کی سرگرمیاں آہستہ آہستہ ختم نہیں ہوئیں بلکہ اچانک رک گئیں اسلامی ثقافت کی تصحیح کی طرف ان کے بڑھتے قدم

..............................................

1.شرح نہج البلاغہ، ج4، ص72.

۱۷۷

رک گئے آوازیں دھیمی پڑ گئیں اور بہت سے حقائق مخفی ہوگئے معاویہ اپنے اسلاف کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے سنت نبوی کی بھی روک تھام شروع کردی اس نے کہا اے لوگو! پیغمبر(ص) سے کم روایتیں بیان کرو اگر حدیث ہی بیان کرنا چاہتے ہو تو صرف وہ حدیثیں بیان کرو جو عمر کے عہد میں بیان کی جا چکی ہیں(1) بلکہ معاویہ کے در میں فتنوں کا دریا اپنی طغیانی کے نقطہ کمال تک پہونچ گیا اور سر کشی کی انتہا ہوگئی.

آپ کے ان سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں میں نے اس سلسلے میں بہت کچھ عرض کیا ہے جہاں میں نے لکھا ہے کہ صحابہ امیرالمومنین(ع) کی نصرت کرتے رہے اور آپ کی شہادت کے بعد عہد اموی میں اس نصرت کی وجہ سے سزائیں بھی جھیلتے رہے.

موضوع ( من گھڑھٹ) حدیثوں کا سیلاب

یوں لگائی نقب اسلام کی دیواروں میں

مال چوری کا بکا شام کی بازاروں میں

(پیام)

پھر تو عہد اموی میں موضوع حدیث کی ایک باڑھ سی آگئی اور حکومت نے فضائل امیرالمومنین(ع) اور فضائل اہل بیت(ع) کی حدیثوں پر سختی سے روک تھام لگا دی.

میں کہتا ہوں ان سوالوں کے چوتھے نمبر کے سوال کے جواب میں موضوع حدیثوں کے بارے میں عرض کیا ہے وہیں پر یہ بھی عرض کیا ہے کہ امام ابو جعفر باقر(ع) کے ساتھ ہی مدائنی اور نفطویہ نے اس سلسلے میں کیا افادات کئے ہیں.

..............................

1.کنز العمال، ج10، ص291، حدیث29473؛ المعجم الکبیر، ج19، ص370.

۱۷۸

موضوع( جعلی) حدیثوں کے انتشار کے بعد سنت نبوی(ص) کی تدوین ہوتی ہے

تاریخ شاہد ہے کہ سنت نبوی(ص) کی تدوین عمر بن عبد العزیز کے دور ہی میں ہوئی ان کے پہلے کے بادشاہوں نے سنت کو جامد اور معطل کرنے کی کوشش کی ہے مدون کرنے کی کوشش نہیں کی ہے عمر بن عبدالعزیز کا دور موضوع حدیثوں کی اشاعت کے بہت بعد کا دور تھا ظاہر ہے کہ مولائے کائنات(ع) کی ظاہری حکومت کے پہلے بھی کافی حدیثیں گڑھی گئیں اور آپ کی حکومت کے بعد بھی بہت زیادہ حدیثیں بنائی گئیں جب ان موضوع اور جعلی حدیثوں کو دیانت دار افراد کئی مرتبہ روایت کرچکے اور لوگ ان کے حق ہونے کا یقین کرچکے بلکہ عقیدہ بنا چکے اس لئے کہ ان کا شیوع اور ان کی روایت اس کثرت سے ہوئی کہ لوگ ان کو حق ماننے پر مجبور تھے جیسا کہ امام باقر(ع) اور علامہ مدائنی نے ذکر کیا ہے تو بہت بعد میں عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا اور حکومت نے اپنی نگرانی میں سنت نبوی کی تدوین شروع کی تو نتیجہ ظاہر ہے.

فطری طور پر نتیجہ یہ نکلا

آپ خود ہی فیصلہ کر لبں کہ اس تدوین کے نتیجے میں امت کو کیا ملنا چائے کیا حقیقی سنت نبوی(ص) سے مسلمان بہرہ یاب ہوسکتا ہے عمر بن عبدالعزیز کے پہلے سنت نبی(ص) کے متعلق کتنے حقائق گذشتہ حکومتوں میں ضائع ہوچکے ہیں یا حکومت کے ہاتھوں عمدا ضائع کئے جا چکے ہیں اور ان کی جگہ پر راویوں نے حسن نیت کی بنیاد پر کتنی محرف حدیثوں کو حدیث بنا کے پیش کر دیا ہے یا گمراہ کن سازشوں اور منافقین کی کارستانیوں کے ہمراہ میں کتنی تحریف شدہ حدیثیں دین میں داخل ہوچکی ہیں اس کا حساب کس کے پاس ہے، موضوع حدیثوں کے معارض کتنی حقیقی حدیثیں ہیں جن کے ذریعہ امت میں شبہ و شک کی بھر مار ہوگئی ہے اور کتنی حدیثیں وہ ہیں جو تحریف سے محفوظ ہیں اس کا جواب

۱۷۹

کون دے گا مسلمان کیسے پہچانے گا کہ ان حدیثوں میں حق کون ہے اور باطل موضوع کون ہے اور اصل کون اور لوگوں کے سامنے جب سائل آئیں گے تو وہ کس طرح عمل کریں گے اس لئے کہ عوام تو اس بات کے محتاج ہیں کہ انہیں دین کی تعلیم دی جائے اور احکام دین کی معرفت کرائی جائے پھر کس حدیث پر عمل کرنے سے عوام کو روکا جائے گا اور کس پر عمل کرنے کی ہدایت کی جائے گی؟

یہی حال ان واقعات کا ہے جو نبی(ص) کے بعد واقع ہوئے ظاہر ہے کہ نبی(ص) کے بعد جو حالات سامنے آئے ان کے بارے میں عوام الناس کے لئے سنت نبوی(ص) میں کوئی حدیث دستیاب نہیں تھی پھر وہ کس طرف رجوع کریں گے اور کس ہدایت پر عمل کریں گے.

یہ سارے مسائل تو نبی(ص) کے فوار بعد پید ہوئے تھے ابھی نبی(ص) کو گذرے ہوئے تیس سال بھی نہیں ہوئے تھے(پھر آج جب کہ چودہ سو سال ہوچکے ہیں ظاہر ہے کہ اس وقت حدیث نبوی سے حق تلاش کرنا تقریبا نا ممکن ہے) مترجم غفرلہ.

سنت نبوی(ص) کی تدوین کے بعد بہت ساری مشکلات

لیکن سنت نبوی(ص) کی تدوین کے بعد ایسا نہیں ہے کہ سیرت مقدسہ مشکلات سے آزاد ہوگئی بلکہ ہوا یہ کہ مشکلوں میں کچھ اضافہ ہی ہوا اور اس کثرت سے مسائل پیدا ہوئے کہ میں اس موضوع کو چاہے جتنا وسعت دوں ان مسائل کو پیش کرنے سے قاصر ہوں.

حدیث کی کتابیں لکھنے والوں نے بہت سی حدیثوں کی روایت تو کی لیکن اپنی کتابوں میں انہیں شامل کرنا ممنوع سمجھا ہے

1.حاملان حدیث نے بہت سی حدیثوں کو جن کی انہوں نے خود روایت کی ہے اپنی کتابوں میں تدوین کے وقت داخل نہیں کیا.

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

جہاد كا سبب: ۹/۸۶، ۸۸;جہاد كو ترك كرنے والے : (يہ اور زكات ۹/۱۰۳);جہاد كو دوست ركھنے والے : (انكى دلجوئي ۹/۹۳);جہاد كى اجازت ۹/۸۳، ۸۶; جہاد كى اہميت ۹/۲۰، ۲۴، ۴۱، ۴۴، ۵۳، ۱۲۲;جہاد كى پاداش۹/۲۱، ۸۹، ۱۱۱، ۱۲۰، ۱۲۱;جہاد كى تشويق ۹/۱۳، ۴۰; جہاد كى سختى : (اسكے آثار ۹/۱۱۷); جہاد كى قدر و قيمت ۹/۱۹، ۲۰، ۲۴، ۳۸، ۴۱، ۴۶، ۸۱، ۸۷، ۸۸، ۱۱۱;جہاد كے احكام ۹/۴۱، ۴۳، ۸۳، ۹۱، ۹۲، ۱۱۱، ۱۲۲;جہاد كے عوامل ۹/۴۴; جہاد كے موانع ۹/۸۱;جہاد ميں بہانے بنانے والے : (انكو تنبيہ ۹/۸۱);جہاد ميں ترجيحات: ۹/۱۲۳ ;جہاد ميں تيارى : (اسكى پاداش ۹/۱۲۱); جہاد ميں رخنہ اندازى كرنا: (اس كا جرم ۹/۸۲); جہاد ميں سست ايمان والے ۹/۴۷; جہاد ميں سستى : (اسكے آثار ۹/۳۹; اسكے عوامل ۹/۳۸، ۴۱); جہاد ميں شجاعت: ۹/۱۱۱; جہاد ميں شركت : (اسكے عوامل ۹/۱۲۳); جہاد ميں شركت نہ كرنا: ۹/۱۶، ۳۸، ۴۱، ۸۶، ۸۷، ۹۵(اس كا جرم۹/۸۲; اس كا سبب ۹/۲۴، ۸۶،۹۳; اس كا گناہ ۹/۹۳; اسكى كيفر ۹/۴۲،۹۳; اسكى سزا ۹/۹۱; اسكے آثار ۹/۳۹، ۴۲، ۹۰، ۹۳; اسكے عوامل ۹/۴۲، ۸۱، ۸۳، ۸۶; اسكے موانع ۹/۴۴); جہاد ميں شركت نہ كرنے والے ۹/۵۰، ۸۱;ان سے روگردانى كرنے كا ضرورى ہونا ۹/۹۵;(ان سے روگردانى كرنے كا فلسفہ ۹/۹۵); ان سے روگردانى كرنے كى اہميت ۹/۹۵ ; ان سے متاثر ہونا ۹/۹۵; انكا انجام ۹/۹۵; انكا بہانے بنانا ۹/۴۹، ۵۰; انكا جھوٹ بولنا ۹/۴۲; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۹/۹۳; انكا راز افشا كرنا ۹/۹۴; انكا عذر پيش كرنا ۹/۹۴; انكا عمل ۹/۵۳; انكا فسق ۹/۵۳، ۹۶; انكا گناہ ۹/۴۹; انكو تنبيہہ ۹/۸۱; انكو دھمكى ۹/۲۴، ۳۹، ۸۱، ۹۴; انكو نظر انداز كرنا ۹/۸۳، ۹۵; انكى آرزو ۹/۵۰; انكى اخروى رسوائي ۹/۹۴; انكى پليدى ۹/۹۵; انكى تحقير ۹/۸۳، ۹۳; انكى توبہ كى قبوليت ۹/۹۴; انكى ذلت ۹/۹۳; انكى رسوائي ۹/۹۴; انكى سرزنش ۹/۳۸، ۸۷; انكى سزا ۹/ ۵۲; انكى سزا كا نزديك ہونا ۹/۹۰; انكى قسم كى پروانہ كرنا ۹/۹۵; انكى محروميت ۹/۹۶; انكى ہلاكت ۹/۴۲; انكے جھوٹ كى پروانہ كرنا ۹/۹۵; ان كے دل پر مہر كا لگنا ۹/۸۷، ۹۳; انكے ساتھ سلوك ۹/۴۳; انكے عذر كو رد كرنا ۹/۴۳،۹۴; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۹/۵۰; يہ اوراسلام ۹/۵۰; يہ اور سرور ۹/۸۲; يہ اور غم و اندوہ ۹/۸۲; يہ جہنم ميں ۹/۹۵); جہاد ميں شك ۹/۴۵; جہاد ميں شكست: (اسكے عوامل ۹/۴۷); دشمن كے ساتھ جہاد: ۹/۳۸، ۱۱۱; كافر راہنماؤں كے ساتھ جہاد ۹/۱۲; كفار كے ساتھ جہاد ۹/۳۷،۱۲۳;مالى جہاد:۹/۴۱، ۴۴ (اس سے معذور لوگ ۹/۹۱ ; اس كا سبب ۹/۸۸; اسكى اہميت ۹/۲۰، ۴۱، ۸۸، ۱۱۱; اسكى پاداش ۹/۸۹ ، ۱۱۱،۱۲۱; اسكى قدر و قيمت ۹/۲۰، ۴۱، ۱۱۱; اسكے آثار ۹/۲۰); محاربين كے ساتھ جہاد ۹/۳۶; مشركين كے ساتھ جہاد ۹/۳۶; منافقين كے ساتھ جہاد ۹/۷۳

۶۶۱

نيز رك : آرزو ، امتحان، انفاق، باديہ نشين لوگ، بوڑھے ، عورت ، كفار، محبت، محمد(ص) ، مسلمان، معذور لوگ اور منافق لوگ اور مؤمنين

جہالت :اسكى مذمت ۹/۹۷; اسكى نشانياں ۹/۹۷، ۹۸; اسكے آثار ۹/۹۳، ۹۷،۱۰/۷; ۳۹نيز رك آيات خدا ، احكام ، اقدار، انبياء ، انسان، جاہليت ، جزيرة العرب ، دنيا ، دين ، عمل، مشركين ، مصالح ، منافقين اور مؤمنين

جہان: رك جہان خلقت//جہان بيني: رك كائنات كا مطالعہ

جہان خلقت:اس كا با ہدف ہونا ۱۰/۳، ۵; اس كا تحت قانون ہونا ۱۰/۳; اس كا حاكم ۹/ ۲، ۱۰/۳; اس كا خالق ۱۰/۶، ۳۴; اس كا رب ۱۰/۱۰، ۳۷; اس كا فلسفہ ۱۰/۱۱; اس كا مالك ۱۰/۵۵، ۶۶; اس كا مبدا ۱۰/۴; اس كا مركز ۱۰/۳; اس كا مطالعہ ;(اسكے مطالعہ كى اہميت ۱۰/۱۰۱: اسكے مطالعہ كے اثار ۱۰/۱۰۱); اسكا مطيع ہونا ۱۰/۹۲; اس كا منظم ہونا ۱۰/۵;اس كا نظام : اسكے نظام ميں تكامل ۹/۱۲۹; اسكى اہميت ۱۰/۲۴; اسكى تدبير ۱۰/۳۱،۳۲: (اسكا دائمى ہونا ۱۰/۳; اسكا مركز ۱۰/۳; اسكا وسيلہ ۱۰/۳) خصوصيات ۱۰/۳۴; اسكى خلقت ۱۰/۳۴;(اسكى اہميت ۱۰/۲۴) اسكى وابستگى ۱۰/۳۱; اسكے عالم ۱۰/۳۷ ; اسكے موجودات: (انكى شناخت ۱۰/۱۰۱) ; اس كا نظام ; اسكے نظام ميں تكامل ۹/۱۲۹; اس ميں تدبر: اسكى اہميت ۱۰/۶;اس ميں ربوبيت ۱۰/۶۶; اس ميں مالكيت ۱۰/۶۶; يہ آيات خدا ميں سے ۱۰/۵

نيز: رك توحيد اور خد

جہنم:اسكا بھى موجود ہونا۹/۴۹

اس كا ہميشہ رہنا ۹/۶۸;جہنم كا عذاب ۹/۳۵ (اسكى خصوصيات ۹/۶۸);جہنم كى آگ: (اس كا محيط ہونا ۹/۴۹; اسكى تمازت ۹/۸۱); جہنم كى دھمكى ۹/۸۱;جہنم كے موجبات ۹/۷۳، ۸۲، ۱۰۹_۱۰/۴،۸; جہنم ميں ذلت ۹/۶۳;جہنم ميں ہميشہ رہنا ۹/۶۳،۶۸(اسكے موجبات ۹/۶۳) ; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۹/۱۷، ۶۳، ۶۸، ۱۰/۸، ۲۷نيز ر ك پليد لوگ ، ثروت اندوز لوگ ، جہاد ، ذكر ، قيامت ، كفار ، گناہگار لوگ ، مشركين اور منافقين

جہنمى لوگ: ۹،۳۴، ۴۹،۶۳، ۶۸،۷۳، ۹۵،۱۰۹ ،۱۱۳، ۱۰/۸ ،۲۷ان كا انجام ۹/۱۱۳; انكا دائمى ہونا ۹/۶۳، ۶۸; ان كا شكنجہ ۹/۳۵;ان كا عذاب ۹/۶۸ ;انكے لئے استغفار ۹/۱۱۳(اس استغفار كا ممنوع ہونا ۹/۱۳)نيز رك اظہار برا ء ت

جھوٹ :اس كا گناہ ۹/۷۷; اسكى سزا ۹/۷۷; اسكے آثار

۶۶۲

۹/۷۷; اسكے موارد ۹/۷۷نيز رك :جھوٹ بولنا جھوٹ بولنے والے اور قسم

جھوٹ بولنا:(اسكى نشانياں ۹/۱۱۹)نيز رك جہاد، جھوٹ بولنے والے ، غزوہ تبوك اور منافقين

جھوٹ بولنے والے :(انكى تشخيص ۹/۴۳)

''چ''

چاند:چاند كو نورانى كرنے والا ۱۰/۵;چاند كى خلقت ۱۰/۵; چاند كى گردش ۱۰/۵; چاند كى نورانيت ۱۰/۵

چشمہ : ر ك بہشت

چناؤ: رك امام على (ع) اور صادقين

چوپائے:انكى غذا كے منابع ۱۰/۲۴نيز رك انسان

''ح''

حاجي: (حجاج)حاجيوں كو پانى پلانا: ( اسكى فضيلت ۹/۱۹; يہ جاہليت ميں ۹/۱۹)نيز رك قياس

حب: رك محبت

حج:اسكے اقتصادى آثار ۹/۲۸;حج اكبر: (اس سے مراد ۹/۳،حج اكبر كے دن سے مراد ۹/۳);حج كے اعمال: (سب سے عظيم عمل ۹/۳);حج كے دن :(انكى خصوصيات ۹/۳);حج ميں اظہار برائت : (اس كا اعلان ۹/۳)

حدود:انكے احكام ۹/۱۲نيز رك غلام

حدود خدا :انكے پاسدار ۹/۱۱۲; حدود خدا كى خصوصيات ۹/۹۷;حدود سے جہالت : ۹/۹۷(اس كا سبب ۹/۹۷)

نيز رك ذكر اور مؤمنين

حرام خوري: رك عيسائي علما، يہودى علم

۶۶۳

حرمت والے مہينے ۹/۵،۳۶:

انكا فلسفہ ۹/۳۶; انكا قديم ہونا ۹/۳۶; انكى حرمت: (اسكى تحليل ۹/۳۷; اسكى حفاظت ۹/۳۶; اسكى ہتك حرمت ۹/۳۶) انكے احكام ۹/۲،۵،۳۶;ان ميں امنيت ۹/۲ ; ان ميں تبديلى ۹/۳۷(اسكے آثار ۹/۳۷) يہ اديان ميں ۹/۳۶; يہ جاہليت ميں ۹/۳۷نيز رك جنگ، كافر لوگ، مشركين اورمقابلہ بہ مثل

حروف مقطعہ :(ان سے مراد ۱۰/ ۱ ; انكى اہميت ۱۰/۱)

حزن :رك غم و اندوہ//حساب:شرعى حساب: (اس كا معيار ۱۰/۵)

حسد :رك منافقين//حسرت: رك منافقين

حسن نيت :اسكے آثار ۹/۹۱نيز رك جہاد

حشر:اسكى خصوصيات ۱۰/۴۵نيز رك انسان،باطل معبود ، قيامت اور مشركين

حق: ۱۰/۱۰۸حق پر صبر: (اسكى پاداش ۹/۱۱۷ ;اسكى قدر و قيمت ۹/۱۱۷;اسكے آثار ۱۰/۱۰۹; );حق دشمن لوگ ۱۰/۷۴(انكا ايمان ۱۰/۵۱; انكا فساد پھيلانا ۱۰/۸۲; انكا مجرم ہونا ۱۰/۸۲; انكى شكست ۱۰/۸۲; انكى شكست كاحتمى ہونا ۱۰/۸۱; يہ مہلك عذاب كے وقت ۱۰/۵۱);حق دشمني: (اس كاسبب ۹/۷۴، ۱۰/۸۲; اسكے آثار ۱۰/۷۴; اسكے عوامل ۱۰/۴۴);حق سے روگردانى :( اس كا گناہ ۹/۷۷ ; اسكى سزا ۹/۷۷; اسكے آثار ۹/۷۴ ); حق شناسى : (اسكى اہميت ۱۰/۱۰۸; اسكے موانع ۱۰/۱۰۱);حق شنوائي : (اس سے محروم لوگ ۱۰/۴۲);حق كا استمرار :۱۰/۸۲ (اسكے اسباب ۱۰/۸۲);حق كا نقش و كردار ۱۰/۳۲;حق كو بيان كرنا: (اسكى اہميت ۹/۷۰);حق كو قبول كرنا: (اسكى اہميت ۱۰/۶۷، ۹۴; اسكے موانع ۱۰/۷۵);حق كو قبول كرنے والے اور توحيد ۱۰/۶۷;حق كو قبول نہ كرنا: (اس كاسبب ۱۰/۷۵; اسكے آثار ۹/۸، ۷۰; اسكے عوامل ۱۰/۷۵);حق كو قبول نہ كرنے والے :۹/۸ (انكى ہدايت ۱۰/۴۲);حق كى اتباع : ۱۰/۱۰۹ (اسكى مشكلات ۱۰/۱۰۹);حق كى اہميت : ۹/۳۳، ۱۰/۳۲;حق كى دعوت : (اسكى پاداش ۱۰/۷۲);حق كى كاميابى ۹/۴۸ (اس كا حتمى ہونا ۱۰/۸۲; اسكے عوامل ۱۰/۸۲);حق كى مشكلات : (ان پر صبر ۱۰/۱۰۹);حق و باطل ۱۰/۸۱

نيز رك : امتيں ، انبياء، جہاد، حق طلب لوگ، حق طلبى ، عيش و عشرت ميں رہنے والے لوگ;فرعون ، كفار، مبلغين، محمد(ص) ; مسرفين اور منافقين//حقانيت :

۶۶۴

اس كا معيار ۹/۳۱، ۳۳

حقائق:حقائق سے محروم ہونا ۹/۸۷; حقائق كا ظاہر ہونا: (اسكے عوامل ۹/۴۲); حقائق كو برعكس پيش كرنا ۹/۴۸; حقائق كو ثابت كرنا: (اسكے لئے قسم ۱۰/۵۳); حقائق كو درك كرنا: ( اخروى حقائق كو درك كرنے سے محروم لوگ ۹/۸۱;اخروى حقائق كو درك كرنے كى اہميت ۹/۸۱)نيز رك قيامت ، منافقين اور موت

حق طلب لوگ:حق طلب لوگوں كى دعا(اس كا قبول ہونا ۱۰/۸۹); حق طلب لوگوں كى ذمہ دارى ۱۰/۴۱

يہ اور مستكبرين ۱۰/۸۹

حق طلبى :حق طلبى ميں سستى : (اسكى مذمت ۱۰/۸۹)نيز رك حق طلب لوگ

حقوق:امربالمعروف والا حق ۹/۷۱; حقوق ميں مساوات ۹/۱۱; حق ولايت ۹/۷۱; نہى عن المنكر والا حق ۹/۷۱

نيز رك انسان ، بنى اسرائيل ، رشتہ دار ، رشتہ دارى ، مسلمان اورمؤمنين

حكومت :آئيڈيل حكومت ۹/۱۲۳; عالمى دينى حكومت ۹/۱۲۳

حكومت اسلامي:اسكى ذمہ دارى ۹/۶۰نيز رك اہل كتاب

حلال :اسكو حرام كرنا ۹/۳۱، ۱۰/۵۹، ۶۰

حماقت: رك مؤمنين

حمد:حمد خدا : ۹/۱۱۲، ۱۰/۱۰نيز رك بہشتى لوگ، مجاہدين اورمؤمنين

حمد كرنے والے :ان سے مراد ۹/۱۱۲//حمزہ:انكے فضائل ۹/۱۹//حوصلہ بڑھانا:رك جہاد، متقين اور مجاہدين

حوصلے كا كمزور ہونا:اسكى نشانياں ۹/۸۷

حيات:اسكے اسباب ۹/۸۹; حيات اخروي:(اس كا دائمى ہونا ۹/۲۲، ۶۳، ۶۸، ۷۲; اس كا سبب۹/۱۰۰;اسكى اہميت ۹/۱۰۰; اسكى برترى ۹/۳۸; )دائمى حيات:۹/۸۹;يہ جنكے شامل حال ہے ۹/۲۲

حيات جسمانى : (يہ آخرت ميں ۹/۸۲);حيات دنيوى : (اسكى قدر و قيمت ۹/۳۸);حيات كا خير ہونا ۹/۸۹;حيات كا دوام:(اسكے عوامل ۱۰/۶۷);حيات كا سرچشمہ ۹/۱۱۶، ۱۰/۵۶; حيات معنوى : (يہ آخر ت ميں ۹/۷۲)نيز رك عقيدہ

خاندان:خاندان كى ضرورت پورى كرنا (اس سے عاجز ہونا ۹/۹۱)خانہ سازي: رك بنى اسرائيل

۶۶۵

''خ''

خبرو احد:اسكى حجيت ۹/۱۲۲//خدا :خدا اور اولاد ۱۰/۶۸،۶۹،۷۰; خدا اور جہالت ۱۰/۱۸; خدا اور زكات لينا ۹/۱۴۰; خدا اور ظلم ۹/۷۰، ۱۰/۴۴، ۵۴;خدا اور عاجز ہونا ۹/۷۱;خدا اور عزت ۱۰/۶۵; خدا اور مسجد ضرار بنانے والے ۹/۱۱۰; خدا اور نقص ۱۰/۱۰، ۱۸، ۶۸ ; خدا سے مختص امور۹/۲، ۳، ۱۳، ۳۱، ۶۲، ۷۴، ۱۰۴، ۱۱۱، ۱۱۶، ۱۱۸، ۱۲۹; ۱۰/۳، ۴، ۵، ۱۰، ۱۸، ۲۰، ۳۰، ۳۱، ۳۴، ۳۵، ۳۸، ۴۰، ۴۹، ۵۵، ۵۶، ۵۹، ۶۵، ۶۸، ۱۰۴،۱۰۶، ۱۰۹(اسكى نشانياں ۱۰/۶۶); خدا شناسى : (اس كا سبب ۱۰/۶; اسكے دلائل ۱۰/۱۷; اسكے راستے ۱۰/۱۰۱; ناقص خداشناسى كے آثار ۹/۷۸; يہ تاريخ ميں ۱۰/۱۹; يہ سختى ميں ۱۰/۲۲; يہ غرق ہونے كے وقت ۱۰/۲۲; يہ مجبورى كے وقت ۱۰/۲۲);خدا كا اتمام حجت كرنا ۱۰/۴۷;خدا كا احسان : ۹/۲۵، ۱۲۸;خدا كااذن : ۹/۱۰۳، ۱۰/۳; خدا كا ارادہ ۹/۳۲، ۳۳، ۵۲، ۵۵، ۱۱۱(اس كاحتمى ہونا ۹/۷۴; اس كا دائرہ كار ۱۰/۴۹; اس كا وقوع پذير ہونا ۹/۴۰، ۸۵; اسكى تاثير ۹/۱۱۶; اسكى حكمرانى ۹/۶۴; اسكے وقوع پذير ہونے كا سبب ۹/۳۳، ۵۲; اسكے وقوع پذير ہونے كا مقام ۹/۱۴، ۴۰; اسكے وقوع پذير ہونے كى نشانياں ۹/۴۸); خدا كا ارادہ تكوينى ۱۰/۱۰۷;خدا كا ازلى ہونا ۹/۱۱۶;خدا كا اظہار براء ت ۹/۳ ;خدا كا افشا كرنا: ۹/۸، ۴۲، ۵۶، ۶۴، ۶۵;خدا كا بے نظيرہونا ۹/۳۱، ۶۲; ۱۰/۱۰; خدا كا توبہ كو قبول كرنا ۹/۱۰۴، ۱۱۸; خدا كا حكم ۹/۸۴ ;خدا كا درگزر ۹/۴۳; خدا كا ڈرانا ۱۰/۷۳;خدا كا رازق ہونا: ۱۰/۳۱، ۳۲، ۵۹;خدا كاراضى ہونا: ۹/۲۱، ۲۲، ۵۹، ۶۲، ۱۰۰، ۱۱۵(اس كا سبب ۹/۱۰۰، اسكى اہميت ۹/۶۲، ۷۲، ۹۶، ۱۰۰، ۱۰۹; اسكى برترى ۹/۶۲، ۷۲; اسكى طرف توجہ نہ كرنے كے آثار ۹/۶۳; اسكے آثار ۹/۷۲، ۱۰۰; اسكے عوامل ۹/۲۱، ۶۲، ۹۶، ۱۰۹; اسكے موانع ۹/۹۶);خدا كاعدل و انصاف ۱۰/۴،۲۷ ،۴۷ ، ۵۴ ; خدا كاعذاب ۹/۳۹، ۵۲، ۵۵، ۶۶، ۷۰، ۷۹، ۸۰، ۸۵، ۱۰/۲۱ (اس كا حتمى ہونا ۹/۶۹; اسكى خصوصيات ۱۰/۷۱); خدا كا علم : ۹/۱۵، ۲۸، ۴۲، ۴۴، ۹۴، ۱۰۱، ۱۰۳ ، ۱۱۰، ۱۱۶، ۱۰/۲۳، ۳۶ (اسكى خصوصيات ۹/۶۰، ۷۸، ۹۴، ۱۱۵; اسكى نشانياں ۹/۶۰; اسكے آثار ۹/۱۰۶،۱۱۵; خدا كا علم عالم خلقت كے بارے ميں ۱۰/۱۸); خدا كا علم غيب: ۹/۸، ۱۶، ۴۴، ۴۷، ۷۴، ۷۸، ۹۴، ۹۸، ۱۰۵، ۱۰۷، ۱۰/۲۰(اسكے آثار ۹/۱۰۵); خدا كا علمى احاطہ : ۹/۱۰۱، ۱۰۵، ۱۰/۱۸، ۶۱; خدا كا عہد ۹/۱۱۱(اسكى وفا كى شرائط ۹/۱۱۲); خدا كا غضب : ۹/۷۴، ۱۱۵(اس سے نجات كى روش ۹/۱۱۸); خدا كا غفار ہونا : (اسكى نشانياں ۱۰/۱۰۷); خدا كا فضل :۹/۲۸، ۷۴، ۱۰۲، ۱۱۵،

۶۶۶

۱۰/۱۰۷; (اس كا دوام ۱۰/۶۰; اس كا سبب ۹/۵۹، ۷۵; اس كا عام ہونا ۱۰/۶۰; اسكى اہميت ۱۰/۵۸; اسكى خصوصيات ۱۰/۶۰;اسكى نشانياں ۹/۲۸، ۱۲۱ ، ۱۰/۵۸، ۶۰; اسكے موارد ۹/۷۵، ۷۶); خدا كا فضل و تفضل۹/۲۸،۷۴، ۱۰۲، ۱۱۵، ۱۰/۱۰۷; (اس كا اخروى فضل ۱۰/۲۷);خدا كا فيض: (اس سے محروم رہنے كے عوامل ۹/۱۱۵; اس كا واسطہ ۹/۷۴); خدا كا كافى ہونا ۹/۵۹، ۱۲۹; خدا كا كمال: ۱۰/۱۰، ۱۸;خدا كا گمراہ كرنا ۹/۱۱۵; خدا كا لطف و كرم: (اس سے محروم ہونے كے عوامل ۹/۶۷; اس كا سبب ۹/۶۷; اسكے آثار ۱۰/۱۲; خدا كاخاص لطف ۹/۴۳); خدا كى طرف سے مذاق اڑايا جانا ۹ /۶۸، ۷۹; خدا كا مكر : ۱۰/۲۱ (اسكى خصوصيات ۱۰/۲۱; اس كے آثار ۱۰/۲۱); خدا كا نجات دينا ۱۰/۱۰۳;خدا كا نقش و كردار ۱۰/۱۰;خدا كا نور: ۹/۳۲(اس كا دائمى ہونا ۹/۳۲; اسے خاموش كرنا۹/۳۲; اسے مكمل كرنے كا سبب ۹/۳۳); خدا كو نقصان پہنچانا ۹/۳۹; خدا كى امداد ۹/۲۵، ۲۶، ۴۰، ۱۲۳; ۱۰/۷۳(اس سے محروم ہونے كے عوامل ۹/۲۶; اسكے آثار ۹/۲۵، ۲۶); خدا كى بخشش: ۹/۶۶، ۹۱(اسكى خصوصيات ۹/۵، ۱۰۶; اسكى نشانياں ۹/۵، ۲۷، ۹۱، ۱۰۲; اسكے آثار ۹/۹۹); خدا كى بشارتيں ۹/۲، ۱۴، ۲۱، ۱۰۰، ۱۱۱، ۱۱۲; ۱۰/۶۴، ۸۷(انكا سبب ۱۰/۶۴; انكى اہميت ۱۰/۶۴; انكے آثار ۱۰/۶۴; انكے وقوع پذير ہونے كے عوامل ۹/۷۱); خدا كى بے نيازى ۹/۴۱، ۱۰/۳۵، ۶۸(اسكى نشانياں ۹/۳۹، ۴۰; اسكے دلائل ۱۰/۶۸); خدا كى پاداش ۹/۲۲، ۷۱، ۷۲، ۱۲۰، ۱۲۱(خدا كى اخروى پاداش ۹/۱۰۵; خدا كى پاداش ميں فضل۱۰/۲۷);خدا كى پاداش كى ضمانت كے عوامل ۹/۱۰۵; خدا كى پيشين گوئي:(اس كاسرچشمہ ۹/۱۱۰); خدا كى تعليمات ۱۰/۳۴، ۳۵، ۳۸; خدا كى تنزيہہ ۹/۳۱، ۷۰; ۱۰/۱۰، ۱۸، ۴۴، ۶۸; خدا كى حكمت :۹/۱۵، ۲۸، ۶۰، ۷۱، ۱۱۰(اسكى نشانياں ۹/۴۰، ۶۰; ۱۰/۵; اسكے آثار ۹/۱۰۶); خدا كى حكمرانى : ۹/۲، ۱۱۶، ۱۲۹; ۱۰/۳، ۳۲، ۱۰۹(اس كا سبب ۹/۱۱۶; اسكى نشانياں ۹/۱۱۶); خدا كى خاص رحمت: ۹/۲۱، ۷۱(اسكے عوامل ۹/۷۱); خدا كى خالقيت : ۱۰/۳، ۴، ۶، ۳۱، ۳۲; خدا كى چاہت۹/۸۴، ۱۰۲، ۱۱۸، ۱۲۶; خدا كى طرف سے دعوت: ۹/۱۵، ۷۴، ۱۱۹، ۱۰/۲۵، ۵۱(اس كى خصوصيات ۹/۱۵); خدا كى دوستى : (اسكے آثار ۱۰/۶۲); خدا كى دھمكياں : ۹/۲، ۳،۱۶، ۲۴، ۳۹، ۷۴، ۸۱، ۹۴، ۱۰۱; ۱۰/۲۰، ۲۱، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۶۰، ۷۳، ۹۳، ۱۰۲ ; خدا كى دھمكياں ۹/۶۶، ۶۸; خدا كى را فت : (اسكے آثار ۹/۱۷ ;اس كا سبب ۹/۱۱۷); خدا كى ربوبيت: ۱۰/۲، ۳، ۱۵، ۱۹، ۳۲، ۳۷، ۵۷، ۷ ۶; (اسكو جھٹلانا ۱۰/۳۱; اسكى اہميت ۱۰/۳، ۳۱، ۸۵; اسكى شؤوں ۱۰/۹۶; اسكى نشانياں ۱۰/ ۵، ۶، ۲۲، ۲۴، ۳۱، ۳۲; اسكے آثار ۱۰/۲، ۳، ۹، ۱۹، ۳۳، ۳۷، ۵۳، ۵۷، ۶۱، ۸۸، ۹۳، ۹۴، ۹۶، ۹۹، ۱۰۸ ; اسكے دلائل ۱۰/۶، ۱۰۱; اسے جھٹلانے كے عوامل ۱۰/۷; خدا كى

۶۶۷

اخروى ربوبيت۱۰/۳۰); خدا كى رحمت: ۹/۵، ۲۱، ۱۱۸، ۱۰/۸۶(اس كا اخروى تقدم ۹/۷۱; اس كا سبب ۹/۹۹، ۱۰۲، ۱۱۷; اس كا مقدم ہونا ۹/۷۴; اسكى اہميت ۱۰/۵۸; اسكى خصوصيات ۱۰/۲۱; اسكى نشانياں ۹/۵، ۶۹، ۹۱، ۱۰۲، ۱۰۴، ۱۱۸، ۱۰/۲۱، ۵۸، ۱۰۷; اسكى وسعت ۱۰/۲۱; اسكے آثار ۹/۱۱۷، ۱۰/۱۲; اسكے موارد ۹/۱۱۸); خدا كى طرف سے سزا: ۹/۶۷، ۶۸، ۷۷، ۷۹، ۸۲، ۱۱۵، ۱۱۸، ۱۲۷; (اسكى طرف سے اخروى سزا ۹/۱۰۵; اسكى خصوصيات ۹/۷۰، ۱۰۶، ۱۱۵، ۱۰/۵۴; اسكى نشانياں ۹/۷۰; اسكے عوامل ۹/۱۰۵); خدا كى سنتيں : ۹/۱۶، ۳۹، ۴۰، ۶۹، ۷۰ ،۱۱۵، ۱۲۱، ۱۲۶، ۱۰/۱۱، ۱۹، ۴۷، ۷۴، ۸۱، ۸۲، ۹۶، ۹۷، ۱۰۲(انكا حتمى ہونا ۱۰/۶۴، ۱۰۳; انكى حكمرانى ۹/۲; انكے آثار ۱۰/۸۱); خدا كى شان : ۹/۱۱۵;خدا كى صفات : ۹/۲۸; (اسكى صفات ذات ۹/۱۱۶); خدا كى ضمانت ۹/۱۱۱ ;خدا كى طرف بيٹے كو نسبت دينا :۹/۳۰(اسكى تاريخ ۹/۳۰); خدا كى طرف جاہلانہ نسبت دينا ۱۰/۶۹ (اسكى مذمت ۱۰/ ۶۸); خدا كى طرف سے امتحان : ۹/۱۶، ۱۲۶; ۱۰/۱۴ (اس كا عام ہونا ۹/۱۶;اسكے آثار ۹/۱۲۶ ;اس كا امتنان ہونا ۹/۲۵،۱۲۸); خدا كى طرف سے تسلى ۱۰/۶۵، ۷۳; خدا كى طرف سے تشويق ۹/۱۰۴; ۱۰/۹۲;خدا كى طرف سے تقدير : ۹/۵۱، ۱۰/۴۹(اس كا حتمى ہونا ۱۰/۴۹); خدا كى طرف سے تنبيہہ: ۹/۱۶، ۳۴، ۴۷، ۶۲، ۶۳، ۷۸، ۹۶، ۹۷، ۱۰۱، ۱۰۵، ۱۰/ ۵۱، ۷۳;خدا كى طرف سے توفيق : ۹/۴۶(اسكى اہميت ۹/۱۱۸) ;خدا كى طرف سے حمايت :۹/۱۲۹; ۱۰/۲۱;(اس كا سبب ۱۰/۹، ۱۰۹;خداكى طرف سے دلجوئي ۹/۹۲، ۹۳، ۱۲۹، ۱۰/۱۰۹ ; خدا كى طرف سے عذاب كا وعدہ ۹/۶۶، ۶۸;خدا كى طرف سے لعنت ۹/۶۸;خدا كى طرف سے مذمت : ۹/۱۳، ۱۹، ۲۴، ۳۰، ۳۱، ۳۵، ۳۸، ۴۳، ۵۴، ۶۲، ۶۹، ۷۰، ۷۸، ۸۱، ۸۳، ۸۷، ۹۰، ۹۳، ۱۲۶، ۱۰/۱۶، ۲۱، ۳۲، ۵۱، ۵۹، ۶۸، ۹۱، ۹۳; خدا كى طرف نسبت دينا: (اسكى شرائط ۱۰/۶۸); خدا كى عزت : ۹/۷۱; ۱۰/۶۵(اسكى نشانياں ۹/۴۰ ; ۱۰/۶۶);خدا كى غيبى امداد: ۹/۲، ۲۵، ۲۶(اسكے آثار ۹/۲۵);خدا كو فراموش كرنا : (اس سے مراد ۹/۶۷، اسكى سزا ۹/۶۷; اسكى نشانياں ۹/۶۷;اسكے آثار ۹/۶۷);خدا كى قدرت : ۹ /۳، ۳۹، ۱۱۶، ۱۱۸، ۱۲۹، ۱۰/۴، ۳۴، ۳۵، ۱۰۷ (اس كا سرچشمہ ۱۰/۵۶; اسكى حكمرانى ۱۰/۱۰۷; اسكى خصوصيات ۹/۳۹; اسكى نشانياں ۹/۴۰، ۷۰، ۱۰/۵۵، ۵۶);خدا كى قضاوت ۱۰/۲۸، ۱۰۹ (اسكى اخروى قضاوت ۱۰/۹۳; اسكى خصوصيات ۱۰/۵۴);خدا كى كتاب ۱۰/۱۶، ۱۷;خدا كا كلام :۹/۶، ۱۰/۱۵(اس ميں عسى ۹/۱۰۲); خدا كى گواہي: ۹/۴۲، ۱۰۷، ۱۰/۴۶ (خدا كى اخروى گواہى ۱۰/۲۹; گواہى كى خصوصيات ۱۰/۲۹); خدا كيلئے علت كى نفى ۹/۱۱۶; خدا كى مالكيت : ۹/۱۷، ۱۸، ۱۲۹، ۱۰/ ۳۰، ۳۱، ۵۵، ۶۶، ۶۸(اس كى اخروى مالكيت

۶۶۸

۱۰/۳۰، اسكے آثار ۱۰/۵۶، ۶۶; خدا كى مالكيت اور توحيد ۱۰/۶۶); خدا كى محبت : (اس كا سبب ۹/۴، اسكے عوامل ۹/۷);خدا كى مشيت : ۹/۱۵، ۲۷، ۲۸، ۵۱، ۵۲، ۱۰۶، ۱۰/۴۹(اس كاحتمى ہونا ۱۰/۹۹; اس كا دائرہ كار ۱۰/۴۹; اس كا سرچشمہ ۹/۲۸; اسكى اہميت ۱۰/۲۵، ۴۹، ۹۹; اسكى تاثير ۹/۱۱۶; اسكى خصوصيات ۹/۱۰۶; اسكے آثار ۱۰/۱۲، ۱۹); خدا كى مہربانى : ۹/۵(اسكى نشانياں ۹/۲۷; اسكے آثار ۹/۹۹);خدا كى طرف سے مہلت : (اس كا سرچشمہ ۱۰/۱۹); خدا كى ناپسندى ۹/۴۶، ۴۷; خدا كى نسبت بے رغبتى : (اسكى نشانياں ۹/۵۹); خدا كى نصرت :۹/۲۶،۴۰(اسكى اہميت ۹/۲۵; اسكى خاص نصرت ۹/۴۰; اسكے آثار ۹/۲۵، ۴۰); خدا كى نصيحت ۹/۲، ۳، ۴، ۷، ۵۳، ۵۵، ۹۵، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۲۹; ۱۰/۱۴، ۲۸، ۸۹، ۱۰۵;خدا كى نظارت :۹/۹۴; ۱۰/۱۴، ۶۱(اسكے عوامل ۱۰/۶۱) ; خدا كى نعمتيں ۹/۲۱، ۴۰، ۱۱۵; ۱۰/۶۷، ۹۳;خدا كى نفرين : ۹/۳۰، ۱۲۷;خدا كى نواہى ۹/۳۶، ۵۵، ۸۴، ۸۵، ۹۴، ۱۰۸، ۱۰/۲۵، ۵۱، ۸۹، ۱۰۵، ۱۰۶;خدا كى ولايت :۹/۵۱، ۱۱۶، ۱۰/۳۰ (اخروى ولايت ۱۰/۳۰);خدا كى ہدايت : ۹/۲۴، ۸۰، ۱۰/ ۲۵، ۳۵(اس سے روگردانى كرنا ۱۰/۳۵; اس سے محروم رہنے كے عوامل ۹/۱۱۵; اس كا سبب ۱۰/۹; اسكے آثار ۹/۹۴،۱۰/۹);خدا كے افعال: ۹/۲۷، ۳۶، ۴۰، ۵۱، ۱۱۸; ۱۰/۲۰، ۲۴، ۳۰، ۴۷، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۸۱، ۸۲، ۸۹، ۹۰، ۹۲، ۹۳، ۱۰۰، ۱۰۳، ۱۰۷ ; (انكا مقام ۱۰/۲۲; ان ميں حكمت ۹/۶۶); خدا كے اوامر ۹/۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۲، ۲۹، ۳۶، ۴۱، ۷۳، ۸۴، ۱۰۳، ۱۲۳; ۱۰/ ۸۷، ۹۲(انكا سرچشمہ ۹/۱۰۳; انكى خصوصيات ۹/۱۵; انكى مخالفت كے آثار ۹/۱۱۵);خدا كے ساتھ عہد :۹/۷۵،۷۶ (اس كا سبب ۹/۷۵);خدا كے عطيے ۹/۲۶، ۵۵، ۷۶; ۱۰/۸۸، ۱۰۳(انكا سبب ۹/۵۹; ان سے راضى ہونا ۹/۵۹ ; ان سے ناخوش ہونا ۹/۵۹);خدا كے كلمات : ۱۰/۸۲(انكا حتمى ہونا ۱۰/۶۴); خدا كے وعدے: ۹/۲۸، ۵۹، ۷۱، ۷۲، ۹۹; ۱۰/۴، ۲۰، ۶۵، ۱۰۹(انكا حتمى ہونا ۹/۱۰۴، ۱۱۱، ۱۰/۴، ۵۵، ۶۴; انكا حق ہونا ۱۰/ ۴، ۵۵; انكا سرچشمہ ۹/۷۱; انكى سند ۹/۱۱۱; انكے وقوع پذير ہونے كى نشانياں ۱۰/۵۵; انكے وقوع پذير ہونے كے عوامل ۹/۷۱، ۱۰/۵۳)

نيز رك : اطاعت ، اقرار، اميدواري، ايمان ، بہتان باندھنا، پناہ طلب كرنا، توكل ، حمد، خدا پر بہتان باندھنے والے; خدا كا فضل; خدا كا لطف، خدا كى امداد، خدا كى را فت ، خدا كے عطيے ، خدا كے كارندے ، خدا كے محبوب، خدا كے مغضوب ، خوف ، دشمن، دشمني، دوستى ، ذكر ، ربوبيت، رضاء خدا، سر تسليم خم كرنا، شكر، ضروريات، عبادت، عقيدہ، غفلت، كفر، محبت، محمد(ص) ، مدد طلب كرنا، نافرمانى ، وسيلہ بنان

خدا پر بہتان باندھنے والے:( انكا انجام ۱۰/۱۷; انكو دھمكى ۱۰/ ۶۰; انكى فطرت ۱۰/۱۷)

۶۶۹

خدا كا فضل:اس سے محروم لوگ ۱۰/۱۰۷; يہ جنكے شامل حال ہے۹/۵۹ ، ۱۰/۱۰۷

خدا كى رضا:اس سے محروم لوگ ۹/۹۶; يہ جنكے شامل حال ہے ۹/۷۲، ۱۰۰

خدا كى سنتيں :امتحان كى سنت ۹/۱۶،۱۲۶; تدريج والى سنت ۹/۵۵; مہلت والى سنت ۱۰/۱۱،۱۹;مہلت عذاب والى سنت ۱۰/۴۷،۱۰۲; نجات دينے والى سنت ۱۰/۱۰۳ ; ہدايت والى سنت ۹/۱۱۵

خدا كى طرف بازگشت : ۱۰/۴، ۳۰، ۵۶، ۷۰، ۱۰۴

(اس كا حتمى ہونا ۹/۹۴، ۱۰۵، ۱۰/۷۰; اس كا وعدہ ۱۰/۴)نيز رك ذكر

خدا كى عطائيں :يہ جن كے شامل حال ہے ۹/۵۹

خدا كى ملاقات :خدا كى ملاقات كا وقت ۹/۷۷، ۱۰/۷، ۱۵;

خدا كى ملاقات كو جھٹلانا:(اسكے آثار ۱۰/۸)نير رك اميد ركھنا اور قيامت

خدا كى مہربانى :اس سے محروم لوگ ۹/۶۷; يہ جنكے شامل حال ہے ۹/۴۳

خدا كے پيغمبر (ص) : ۹/۳۳، ۶۱، ۱۰/۱۶، ۴۷

خدا كے كارندے ۹/۱۴، ۵۲، ۱۰/۳

خدا كے محبوب لوگ: ۹/۴،۷،۴۳،۸۵،۱۰۸،۱۰/۶۲

خدا كے مغضوب لوگ : ۱۰/۲۷

خرافات :رك جاہليت

خرد :رك عقل

خزانہ:اس سے مراد ۹/۳۴; اسكى كيفر ۹/۳۴(اسكى اخروى كيفر۹/۳۵) ; اسكى مقدار ۹/۳۴)

خسارہ: رك نقصان

خشوع :رك ابراہيم

خصومت: رك دشمني

خضوع :اسكى اہميت ۹/۱۷، ۱۸نيز رك دعا

خطا :

۶۷۰

ناقابل بخشش خطا ۹/۴۳نيز رك جنگ ، خطاكار لوگ او ررہبري

خطا كار لوگ:ان كے ساتھ سلوك (اسكى روش ۹/۱۱۸) ان كے ساتھ رابطہ (اسے ترك كرنا۹/۱۱۸)

خلقت: رك خاص موارد

خوارى :رك ذلت

خواہش پرستى :اس سے اجتناب كرنا : (اسكى اہميت ۱۰/۱۵)

خوبصورتى : رك تمايلات

خود:اپنے پر ظلم ۹/۳۶، ۷۰، ۱۰/۲۳; اپنے خلاف اقرار ۹/۷۵; (اسكے آثار ۱۰/۴۴)

خودپسندى :رك عجب

خود سر لوگ :انكا سرور ۱۰/۲۳; يہ آخرت ميں ۱۰/۲۳

خود فراموشى :اس كا سبب ۹/۶۷

خوشبختى : رك سعادت

خوشخبري: رك بشارت

خوش فہمى : رك مسلمان اور مؤمنين

خوشى :رك سرور

خوف:اسكے آثار ۹/۵۶; بنى اسرائيل كے بڑے لوگوں كے شكنجوں كا خوف ۱۰/۸۳;خوف اور اميد ۹/۱۰۲; خوف جنگ : ۹/۳;خوف خدا : (اسكى اہميت ۹/۱۳،۱۸); خوف دور كرنے كے عوامل ۱۰/۶۲، ۶۳، ۶۴،۸۴; دشمن كا خوف ۹/۱۳; عذاب اخروى كا خوف:(اسكے آثار ۱۰/۱۵); غير خدا كا خوف : ۹/۱۳،۱۸; فرعون كے شكنجوں كا خوف ۱۰/۸۳; فقركا خوف : (اسكے آثار ۹/۲۸);نيز ر ك اولياء خدا ، بنى اسرائيل ، ظالم لوگ ، محمد(ص) ، مسلمان اور منافق لوگ

خوف و وحشت : رك سرزمين اور فرعون

خيانت: رك منافقين خيانت كرنے والے : رك اسلام اور محمد(ص)

خير:اس سے محروم لوگ ۹/۶۷، ۸۸; اس كا سبب ۹/۸۸; اسكے عوامل ۹/۱۰۵; اسكے موارد ۹/۳، ۸۹; خير كا استحقاق : (اس كا معيار ۱۰/۱۰۷);خير كا حاصل كرنا ۹/۸۸نيز رك خير خواہ لوگ اور خير خواہي

۶۷۱

خير خواہ لوگ:خدا كے خير خواہ لوگ ۹/۹۱نيز رك محمد(ص)

خير خواہي:اسكے آثار ۹/۹۱; خدا كيلئے خير خواہى ۹/۱۹نيز رك جہاد، خير خواہ لوگ، دين ، دينى راہنما اور محمد(ص)

''د''

دار السلام :(اس سے مراد ۱۰/۲۵)

دارالكفر: ۱۰/۸۶

اس سے ہجرت ۱۰/۸۶نير رك قبطى لوگ

درجہ بدرجہ والى روش : ر ك خدا كى سنتيں

دريا:دريا كا طوفان: (اسكے عوامل ۱۰/۲۲); دريائي موجيں : (انكے عوامل ۱۰/۲۲)نيز رك بنى اسرائيل ، دريانوردى كرنے والے اور دعا

دريانوردى كرنے والے :انكى خوشنودى ; انكى خوشنودى كے عوامل ۱۰/۲۲

دشمن:خدا كے دشمن : ۹/۱۰۷ ،۱۱۴ (انكى شكست ۹/۱۱۱); دشمن پر سختى كرنا ۹/۱۲۳;دشمن پر غضب ۹/۱۲۳; دشمن كا امن۹/۲(اس سے امن چھين لينا ۹/۵); دشمن كا تسلط:(اسكے آثار ۹/۸); دشمن كا محاصرہ : (اس كے اٹھانے كى شرائط ۹/۵); دشمن كا مقابلہ : (اسكے آثار ۹/۲۸); دشمن كو مہلت ۹/۲; دشمن كى امداد:(اسكے آثار ۹/۴،۱۰۹); دشمن كى دوستى : (اس كا ناقابل اعتبار ہونا ۹/۸); دشمن كى ذلت : (اس كا سبب ۹/۱۴; اسكى شرائط ۹/۱۴; اسكے عوامل ۹/۱۴); دشمن كى سركوبي:(اسكى اہميت ۹/۱۳); دشمن كى موت:(اس كا سبب ۹/۱۴);دشمن كى نابودي: (اسكى شرائط ۹/۱۴);دشمن كى ہلاكت: (اسكے عوامل ۹/۱۴); دشمن كے ساتھ رابطہ ۹/۱۶; دشمن كے ساتھ معاہدہ ۹/۴; عہد شكنى كرنے والے دشمن ۹/۲،۱۴نيز ر ك آزر، اسلام ، اظہار براء ت ، جنگ ، جہاد، دوستى ، دين ، قرآن ، محمد (ص) ،مسلمان ، منافقين ، موسى (ع) اور مؤمنين

دشمنى :اسلام سے دشمنى : (اس كا سرچشمہ ۹/۹۸);انبياء سے دشمنى :(اسكى سزا ۱۰/۳۹);توحيد سے دشمنى ۹/۱۳;خدا سے دشمني۹/۶۳(اسكے آثار ۹/۶۳); دشمنى كا سرچشمہ ۱۰/۳۹; محمد (ص) سے دشمنى ۹/۱۳; ۶۳ (اس كا سرچشمہ ۹/۹۸; اسكے آثار ۹/۶۳)نيز ر ك آزر ، دشمن ، عيسائي ، عيسائي علما ، فرعون ،

۶۷۲

فرعونى لوگ ، قوم نوح ، محمد (ص) ، مشركين ، منافقين ، يہودى اور يہودى علم

دعا :اسكى اہميت ۹/۹۹،۱۰/۱۲; اسكے آداب ۱۰/۸۶، ۸۸ ;اس ميں توسل ۱۰/۸۸; اس ميں خضوع ۱۰/۸۸; ب-ے چارگى كے وقت دعا ۱۰/۲۲; پسنديدہ دعا ۱۰/۸۸ ; خالصانہ دعا : (اس كا قبول ہونا ۱۰/۲۳; اسكے آثار ۱۰/۱۲); دريا كے طوفان كے وقت دعا ۱۰/۲۲ ; دعا كا قبول ہونا : (اسكى شرائط ۱۰/۸۹); دعا كے عوامل ۱۰/ ۱۲; دعا ميں استقامت ۱۰/۸۹; سختى ميں دعا ۱۰/۱۲;ظالموں سے نجات كى دعا ۱۰/۸۵; كفار سے نجات كى دعا ۱۰/۸۶; ہجرت كى دعا ۱۰/۸۶

نيز ر ك ابراہيم ، انسان ، انفاق كرنے والے ، بنى اسرائيل ، بہشتى لوگ ، حق طلب لوگ ، دينى خدمت گزار لوگ، دينى راہنما ، زكات ، قبطى لوگ ، گناہ گار لوگ ، محمد (ص) ، مرد ے، مشركين ، منافقين ، موسى (ع) ، مؤمنين اور ہارون

دعوت :اس كا فلسفہ ۱۰/۱۰۸

دفاع:اسكى اہميت ۹/۳۶;دفاع حرمت والے مہينوں ميں ۹/۳۶نيز ر ك جنگ

دل :دل پر مہر لگنا: (اس كا سبب ۹/۸۷، ۹۳; اسكے آثار ۹/۹۳; ۱۰/۷۴،۸۸; اسكے عوامل ۱۰/۷۴)

دل كا كردار و تاثير ۱۰/۷۴، ۸۸; دل كى بيمارى :(اسكى نشانياں ۹/۱۲۵; اسكے آثار ۹/۱۲۵); وہ جن كے دلوں پر مہر ہے (انكا ايمان ۱۰/۸۸ )نيز رك مؤمنين اور منافقين

دلجوئي : ر ك جہاد ، خدا ، گناہ گار لوگ ، مجاہدين اور محمد(ص) (ص)

دن :اس ميں كوشش ۱۰/۶۷;دن اور توحيد ربوبى : ۱۰/۶۷; دن كا روشن ہونا ۱۰/۶۷; دن كى خلقت : (اس كا فلسفہ ۱۰/۶۷); دن كى گردش ۱۰/۶نيز رك شب اور نعمت

دنيا :اس كا بے امن ہونا ۱۰/۲۴; اس كا فريب دينا ۱۰/۲۴; اس كا كردار ۱۰/۱۴; دنيا سے ناپسنديدہ استفادہ ۱۰/۲۳;دنيا كا آنا:(اسكے آثار ۱۰/۲۲)

دنيا كا پشت كرنا(اسكے آثار ۱۰/۲۲); دنيا كا ختم ہو جانا ۱۰/۳۴;دنيا كو آخرت پر ترجيح دينا ۹/۳۸; دنيا كے بارے ميں جہالت : (اسكے آثار ۱۰/۲۴) ; دنيا مقام عمل ۱۰/۲۳، ۲۷، ۳۰نيز ر ك آخرت ، دنيا طلب لوگ ، دنيا طلبي

دنيا طلب لوگ :۹/۹;۱۰/۷

انكو دھمكى ۹/۲۴; انكى خواہش ۹/۳۸نيز ر ك مثاليں

۶۷۳

دنيا طلبي:اس سے اجتناب ۱۰/۲۴; اس سے نہى ۱۰/۲۵; اس كا سبب ۱۰/۷; اس كا فسق ہونا ۹/۲۴; اس كا ناپسنديدہ ہونا ۱۰/۷; اسكى مذمت ۹/۲۴، ۳۸، ۶۹; ۱۰/۷، ۲۴; اسكى نشانياں ۹/۳۸; اسكے آثار ۹/۹; ۲۴; ۳۸; ۹۸; ۱۰/۸; ۲۳; اسكے عوامل ۹/۴۱، ۱۰/۲۴نيز ر ك دنيا طلب لوگ ; عيسائي علما; كفار ; مشركين ، منافقين اور يہودى علم

دور انديشي:اسكى نشانياں ۱۰/۲۴

دوزخ : ر ك جہنم دوزخى لوگ : ر ك جہنمى لوگ

دوستى :اسلام كے دشمنوں كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; حرام دوستى ۹/۲۳;خدا كے ساتھ دوستى ۹/۱۶; دشمن كے ساتھ دوستى ۹/۱۶; دين كے دشمنوں كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; (اس كا حرام ہونا ۹/۲۳)كافر باپ كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; كافر بھائي كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; كافر رشتہ داروں كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; كفار كے ساتھ دوستى ۹/۲۳(اس كا حرام ہونا ۹/۲۳; اسكے آثار ۹/۲۳; اسكے احكام ۹/۲۳); محمد(ص) سے دوستى ۹/۱۶; مؤمنين كے ساتھ دوستى ۹/۱۶

نيز ر ك خدا ، دشمن ، كفار ، محمد (ص) ، مشركين اور مؤمنين

دولت :ر ك حكومت//دو نيكيوں ميں سے ايك:اس سے مراد ۹/۵۲

دين :دشمنان دين ۹/۱۰۷; (انكا انجام ۹/۲۶; انكو مہلت ۱۰/۴۶; انكى امداد كے آثار ۹/۱۰۹; انكى ذلت ۹/۱۴; انكى سازش ۹/۱۲۴; ان كى سزا ۹/۲۶; انكى شكست ۹/۱۴، ۲۶; يہ اور قرآن كے معارف ۹/۱۲۴); دين اور رہائش گاہ ۱۰/۸۷; دين اور سياست ۱۰/۷۸; دين جاويد ۹/۳۲; دين حق ۹/۲۹،۳۳(اس سے مراد ۹/۳۳; اسكى كاميابى ۹/۳۳); دين حنيف ۱۰/۱۰۵(اس سے انحراف ۱۰/۱۰۵); دين سے جاہل ہونا : (اسكے آثار ۹/۹۸); دين سے سوء استفادہ كرنا ۹/۷۴; دين شناسى :(اس كا پيش خيمہ ۹/۱۲۲; اسكى اہميت ۹/۱۲۲)دين فروشى : (اس كا ناپسنديدہ ہونا ۹/۹)

دين كا ادراك كرنا :(اس سے محروم ہونا ۹/۸۷; اس كا سبب ۹/۹۷);دين كا سيكھنا۹/۱۲۲(اس كا فلسفہ ۹/۱۲۲; اسكى اہميت۹/۶);دين كا قبول كرنا ۹/۱۰۰;دين كا محكم و ثابت ہونا : (اس ميں مؤثر عوامل ۹/۱۱۱);دين كا مذاق اڑانا ۹/۶۴; دين كا مقابلہ :(اس كا سبب ۹/۹);دين كو جھٹلانا : (اس كا سبب ۱۰/۳۹ );دين كو سمجھنا ۹/۱۲۲(اس كا فلسفہ ۹/۱۲۲; اس كا وجوب ۹/۱۲۲; اسكى اہميت ۹/۱۲۲;اسكے احكام ۹/۱۲۲);دين كى اجتماعى ذمہ دارى ۱۰/۸۷;دين كى امداد :(اسكے آثار ۹/۱۰۰);دين كى اہانت : (اس كا جرم ۹/۶۵);

۶۷۴

دين كى اہانت كرنے والے:(انكى توبہ ۹/۷۴); دين كى اہميت ۹/۲۸;دين كى تبليغ: (اس كا وجوب ۹/۱۲۲; اسكى اہميت ۹/۱۲۲،۱۰/۱۵;اسكى پاداش ۱۰/۷۲; اسكے احكام ۹/۱۲۲); دين كى تحريف (اس كا گناہ ۱۰/۱۵،اس كا ممنوع ہونا ۱۰/۱۵،اسكے آثار۱۰/۱۵); دين كى حفاظت كرنے والے ۹/۹۰; دين كى حمايت : (اسكى قدر و قيمت ۹/۱۰۰،۱۰۱); دين كى قدر و قيمت ۹/۹، ۴۱، ۱۱۱; دين كى كاميابى ۹/۲; دين كى مخالفت : (اس سے خوش ہونا ۹/۸۱); دين كى وحدت ۱۰/۴۷; دين كے اركان ۹/۱۸; دين كے اصول ۱۰/۱۰۴;دين كے اہداف : ( انكا وقوع پذير ہونا ۹/۱۴);دين كے ساتھ كھيلنا ۹/۶۵ (اس كا حرام ہونا ۹/۶۵);دين كيلئے خير خواہ ہونا ۹/۹۱;دين ميں اجبار:(اسكى نفى ۱۰/۹۹،۱۰۸);دين ميں اختيار ۱۰/۹۹، ۱۰۸(اس كا سرچشمہ ۱۰/۹۹; اسكے دلائل ۱۰/۹۹);ضروريات دين ۹/۱۱

نيز ر ك اديان ، امتيں ، پہلے پہلے انسان ، جزيرة العرب ، جنگ ،دوستى ، ديندارى ، علما ،كفار اور منافقين

ديندارى :اسكے درجے ۹/۱۱۹; اس ميں منافقت ۹/۶۴; يہ تاريخ ميں ۱۰/۱۹; يہ سختيوں ميں ۹/۱۰۰

دينى روابط:انكى اہميت ۹/۱۱۳

دينى رہنما :انكا مقام۹/۱۲۰; انكى اطاعت نہ كرنا۹/۱۲۰; انكى تاثير ۹/۸۳، ۱۰۴; انكى ذمہ دارى ۹/۶۰، ۶۱، ۷۳ ، ۸۴، ۹۴، ۹۹، ۱۰۳، ۱۰۸، ۱۰/۱۵، ۱۶، ۴۱، ۸۹، ۱۰۴، انكى صفات ۹/۶۱; انكے اختيارات : ۹/۴۹ ، ۵۸، ۵۹، ۶۶، ۸۳ (انكا دائرہ اختيار ۹/۱، ۷، ۸۶) ;ان كيلئے خير خواہى ۹/۹۱; دينى راہنما اور زكات لينا ۹/۱۰۳; دينى راہنماؤں كا پيش قدم ہونا۹/۱۰۸(اسكى اہميت ۹/۸۸); دينى راہنماؤں كا شكريہ ادا كرنا: (اسكى اہميت ۹/۹۹); دينى راہنماؤں كى اتباع كرنا ۹/۱۲۰ ; دينى راہنماؤں كى دعا : (اسكے آثار ۹/۱۰۳); دينى راہنماؤں كى شرعى ذمہ دار ى ۹/۱۰۳ ;دينى راہنماؤں كى ہمراہى : (اسكے موانع ۹/۸۳); دينى راہنماؤں كے ہمراہ جنگ كرنا : (اسكى قدر و قيمت ۹/۸۳);يہ اور اطاعت نہ كرنے والے ۹/۹۴; يہ اور صدقات لينا ۹/۱۰۳، ۱۰۴;يہ اور لوگ ۱۰/۱۶; يہ اور لوگوں كى باتوں پر كان دھرنا ۹/۶۱; يہ اور منافقين ۹/۶۶، ۸۴ /نيز رك اطاعت، مسلمان اور منافقين

''ڈ''

ڈر: ر ك خوف

ڈرانا : ر ك تربيت ، خدا ، قرآن ، قوم نوح ، گمراہ لوگ ، لوگ ، معاشرہ اور ہدايت

۶۷۵

''ذ''

ذكر :آتش جہنم كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۹/۸۲);اخروى سزاؤں كا ذكر كرنا:(اسكے آثار ۹/۸۱); اقتصادى مشكلات كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۹/۲۸); امور كے انجام كا ذكر كرنا ۹/۸۵; تاريخ كا ذكر كرنا ۹/۲۵; توحيد كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۱۰/۱۰۵; اسكے آثار ۹/۱۲۹); جنگ ميں شركت نہ كرنے والوں كے عمل كا ذكر كرنا :(اسكى اہميت ۹/۹۴); حدود خدا كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۹/۱۲۳); حيات اخروى كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۹/۳۸); خدا كا ذكر كرنا : (اس كا سبب ۹/۷۵; اسكى اہميت ۱۰/۱۲; اسكى روش ۱۰/۱۰۴; اسكے آثار ۹/۶۷، ۱۰۸ ; اسكے عوامل ۱۰/۲۲; يہ آسائش كى حالت ميں ۱۰/۱۲; يہ سختى ميں ۱۰/۱۲); خدا كى امداد كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۹/۱۲۳); خدا كى حكمرانى كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۳); خدا كى حمايت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۹/۱۲۳); خدا كى خالقيت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۳); خدا كى خصوصيات كا ذكر كرنا:(اسكے آثار ۱۰/۶۵); خدا كى ربوبيت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۳،۱۵);خدا كى رحمت كا ذكر كرنا ۹/۱۰۴; خدا كيطرف بازگشت كا ذكر كرنا ۹/۹۴; خدا كى عزت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۶۵); خدا كى نظارت كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵; خدا كے توبہ قبول كرنے كا ذكر كرنا ۹/۱۰۴; خدا كے سننے كا ذكر كرنا :(اسكے آثار ۱۰/۶۵); خدا كے علم كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۶۵);خدا كے علم غيب كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵; ذكر كے آثار ۹/۱۰۵; عمل پر نظر ركھنے والوں كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵(اسكے آثار ۹/۹۴); غزوہ حنين كا ذكر كرنا ۹/۲۵; قيامت كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۱۰/۲۸،۴۵); محمد(ص) كى نظارت كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵;محمد(ص) كے فضائل كا ذكر كرنا ۹/۱۲۸; منافقين كى خيانت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۹/۹۴); منافقين كى سازش كا ذكر كرنا:(اسكے آثار ۹/۹۴); منافقين كے عمل كا ذكر كرنا : (اسكى ہميت ۹/۹۴); موت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۱۰۴); مؤمنين كى نظارت كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵; ناپسنديدہ عمل كا ذكر كرنا : (اسكے عوامل ۱۰/۲۲)

ذكر كرنے والے:سختى ميں خدا كا ذكر كرنے والے ۱۰/۱۲

ذلت :اخروى ذلت : (اسكے عوامل ۹/۶۳; اسكے مرتبے ۱۰/۲۷); ذلت كا سبب ۹/۹۳; ذلت كے عوامل ۹/۶۳، ۸۶

نيز ر ك بنى اسرائيل ، ثروتمند لوگ ، جہاد ، جہنم دشمن ، دين ، غزوہ تبوك ، كفار ، گناہ گار لوگ ، مشركين اور منافقين

ذمہ دارى :اجتماعى ذمہ دارياں ۹/۷۱; دينى ذمہ دارياں : (انكى حفاظت كرنا ۹/۱۲۲);ذمہ دارى سے فرار ۹/۴۹، ۷۶; ذمہ دارى كے عوامل ۹/۱۲۰; ذمہ دارى كا سرچشمہ ۹/۷۰;ذمہ دارى كى تقسيم ۹/۱۲۲ (اسكى حفاظت ۹/۱۲۲)

۶۷۶

''ر''

رات:اس ميں آرام ۱۰/۶۷; اس ميں تاريكى ۱۰/۶۷;رات اور توحيد ربوبى ۱۰/۶۷; رات اور دن كا فرق ۱۰/۶;رات كى خلقت : (اس كا فلسفہ ۱۰/۶۷); رات كى گردش ۱۰/۶;رات ميں سونا ۱۰/۶۷نيزرك تشبيہات اور نعمت

راز دارى : رك منافقين

راضى ہونا :اچھے عمل پر راضى ہونا : (اسكے آثار ۱۰/۴۱);خدا سے راضى ہونا ۹/۱۰۰(اسكے آثار ۹/۱۰۰); ناپسنديدہ عمل پر راضى ہونا : (اسكے آثار ۱۰/۴۱)

راہب : رك عيسائي علم

راہ خدا :اسكى اہميت ۹/۱۱۱، ۱۱۲; اسكى قدر و قيمت ۹/۱۹، ۲۰، ۲۴، ۳۴، ۳۸، ۴۱، ۸۱، ۱۲۰; راہ خدا سے ممانعت : ۹/۹ ، ۱۳۴(اس كاسبب ۹/۹); راہ خدا كى تقويت: (اسكى اہميت ۹/۶۰);راہ خدا كى سختى ۹/۱۲۰; راہ خدا كے موانع ۱۰/۸۸

ربوبيت :خدا كى ربوبيت كو جھٹلانے والے ۱۰/۳، ۱۸،۳۱; غير خدا كى ربوبيت : (اس كا باطل ہونا ۱۰/۳۰)

رحمت :اس سے محروم لوگ ۹/۶۸; اس سے محروم ہونا (اسكے آثار ۹/۶۸) اس كا سبب ۹/۱۱۸; اسكے عوامل ۱۰/۱۲; رحمت جنكے شامل حال ہے ۹/۲۱، ۲۲، ۷۱، ۹۹، ۱۱۷، ۱۱۸، ۱۰/۱۰۷; رحمت كا سرچشمہ ۹/۷۴; رحمت كا وعدہ ۹/۹۹

نيز ر ك مؤمنين

رخنہ اندازي:اسكے آثار ۹/۴۷نيز ر ك مجاہدين اورمنافقين

رزق: رك روزي

رشتہ دار :رشتہ داروں كے حقوق: (انكى اہميت ۹/۸، ۱۰; ان كے سلسلے ميں تجاوز كرنے كے عوامل ۹/۱۰); رشتہ داروں كے سلسلے ميں تجاوز كرنے والے ۹/۱۰

كافر رشتہ دار: (انكے ساتھ رابطہ ۹/۲۴)نيز رك دوستى ، محبت

رشتہ داري:(اسكى قدر و قيمت ۹/۱۱۳); رشتہ دارى كے حقوق:(اسے ضائع كرنا ۹/۸; ان سے بے اعتنائي ۹/۸، ۱۰)

نيز رك رشتہ دار، جذبات، محبت ، محمد(ص) اور مشركين

۶۷۷

رفاقت :رك دوستى

رفاہ و آسائش:اسكى اہميت ۱۰/۲۱، اسكے آثار ۹/۷۴، ۱۰/۱۲، ۲۱نيز رك ذكر ، شكر ، كفار، مسلمان، مشركين اور منافقين

رفاہ و آسائش طلبى :رك منافقين

ركوع :اسكى اہميت ۹/۱۱۲نيز رك ركوع كرنے والے ، مجاہدين، مؤمنين اور نماز

ركوع كرنے والے :ان سے مراد ۹/۱۱۲

رمى جمرات ۹/۳

رنج:طويل رنج: (اسكے اسباب ۹/۸۲)

روايت:۹/۱، ۲، ۳، ۵، ۱۸، ۱۹، ۲۳، ۲۵، ۲۶، ۲۸، ۲۹، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۴۰، ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۵۰،۵۲، ۵۵، ۵۸، ۶۰، ۶۱، ۶۶، ۶۷، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۶، ۷۷، ۷۹، ۸۴، ۹۱، ۹۲، ۹۴، ۱۰۰، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۸، ۱۰۹، ۱۱۱، ۱۱۲، ۱۱۴، ۱۱۵، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۲، ۱۲۵، ۱۲۸، ۱۲۹، ۱۰/۱، ۲، ۳، ۹، ۱۰، ۱۸،۲۰، ۲۳، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۳۹، ۴۰، ۴۴، ۵۰، ۵۴، ۵۷، ۵۸، ۶۲، ۶۴، ۷۴، ۸۴، ۸۵، ۸۷، ۸۹، ۹۰، ۹۱، ۹۲، ۹۴

روح:اس كا باقى رہنا ۹/۵۵، ۸۵; اس كا جدا ہونا ۹/۸۵

روزى :اس سے استفادہ كرنا ۱۰/۵۹; اس كا حرام كرنا ۱۰/۵۹;اس كا سرچشمہ ۱۰/۳۱، ۵۹; اس كا فراہم كرنا ۱۰/۳۱; اس كا فلسفہ ۱۰/۵۹; اس كا نازل ہونا ۱۰/۵۹،۶۰; اسكے منابع ۱۰/۳۱نيز رك انسان اور بنى اسرائيل

رہائش گاہ :رہائش گاہ اديان ميں ۱۰/۹۳; رہائش گاہ تيار كرنا : (اسكى اہميت ۱۰/۸۷)نيز رك بنى اسرائيل اور مؤمنين

رہبر:اسكى استقامت ۱۰/۸۹; اسكى اہميت ۹/۱۳; اسكى ذمہ دارى ۹/۴۸، ۱۲۸; اسكى سعادت خواہى ۹/۱۲۸ ; اسكى شان ۹/۸۶; اسكى شرائط ۱۰/۱۰۹; اسكى صفات ۹/۱۲۸;اسكى مہربانى ۹/۱۲۸; اسكے اختيارات ۹/۲۹، ۴۳، ۱۰۳;رہبر كى خطا: (اس سے در گزر كرنا ۹/۴۳);رہبر كى را فت اور نرمى ۹/۱۲۸; رہبر كى ہوشيارى : (اسكى اہميت ۹/۴۸) ; رہبر كے قريبى لوگ : (انكى ذمہ دارى ۹/۱۲۰);يہ اور جاہل لوگ ۱۰/۸۹; يہ اور لوگوں كى سعادت ۹/۱۲۸ نيز رك موسى (ع)

رہنمائي كرنا: ر ك تبليغ

ريا: رك منافقين

۶۷۸

''ز''

زبو ں حالي: رك ذلت

زكات:اس پر مجبور كرنا ۹/۱۰۳; اسكى اہميت ۹/۵، ۱۱،۱۸، ۷۱، ۱۰۳، ۱۰۴; اسكى پاداش ۹/۷۲; اسكے آثار ۹/۵، ۱۸، ۷۱، ۱۰۳، ۱۰۴; اسكے احكام ۹/۶۰، ۱۰۳

زكات ادا كرنا: (اس كا دوام ۹/۷۱);زكات دينے والا: (اسكے سكون كے عوامل ۹/۱۰۳; اسكے لئے دعا ۹/۱۰۳);زكات سے مانعين : (انكا عذاب ۹/۳۵);زكات سے ممانعت: (اس كا گناہ ۹/۳۵);زكات كا جن چيزوں كے ساتھ تعلق ہوتا ہے ۹/۱۰۳; زكات كا فلسفہ ۹/۱۰۳; زكات كى تاريخ ۹/۹۸; زكات كى تشويق ۹/۱۰۴; زكات كے مصارف ۹/۶۰ ;زكات لينے والا: (اسكو نصيحت ۹/۱۰۳; حقيقى زكات لينے والا ۹/۱۰۴);زكات نہ دينا : (اسكے آثار ۹/۱۰۳); زكات نہ دينے والے : (انكى نالائقى ۹/۱۸);يہ صدر اسلام ميں ۹/۹۸نيز رك اميدوارى ، باديہ نشين لوگ، توبہ كرنے والے ، جہاد، دينى رہنما، گناہ گار لوگ، محمد(ص) ، منافقين اور نيك لوگ

زمين :اس كا حادث ہونا ۹/۳۶; اس كا حاكم ۹/۱۱۶، ۱۰/۳; اس كا خالق ۱۰/۳;اس كا مالك ۹/۱۱۶; اسكى تدبير ۱۰/۳; اسكے فوائد ۱۰/۳۱; اسكے موجودات ۱۰/۱۰۱ ;زمين كى خلقت : (اسكى تاريخ ۱۰/۳; اسكى مدت ۱۰/۳; اسكے مراحل ۱۰/۳)

زمين كى زينت ۱۰/۲۴نيز رك انسان

زنا: رك غلام

زندگى :اجتماعى زندگي:(اسكى تاثير ۱۰/۱۶; اسكى تاريخ ۱۰/۱۹);برزخى زندگى : (اس كا وقت ۱۰/۴۵); دنيوى زندگى :(اس كا وقت ۱۰/۴۵);فردى زندگى : (اسكى تاثير ۱۰/۱۶); زندگى كى نعمت ۱۰/۹۳نيز رك انسان ، بنى اسرائيل ، كفار اورمثاليں

زندہ :اسے مرد ے سے نكالنا ۱۰/۳۱نيز رك مردہزہد:اس كا سبب ۱۰/۷; اسكى اہميت ۹/۵۵

زيارت : رك اہل قبور

زيركى :رك منافقين

۶۷۹

''س''

ساجدين :ان سے مراد ۹/۱۱۲

ساحر : رك جادوگر//سازش كرنے والے :انكا عذاب ۱۰/۲۱; انكو دھمكى ۱۰/۲۱نيز رك انبياء

سال اور مہينہ :بارہ مہينوں كا بہت پہلے سے ہونا ۹/۳۶; سال كا كردار ۱۰/۵; سال كے موسموں كا تبديل ہونا ۱۰/۶; سال كے مہينوں كى تعداد ۹/۳۶نيز رك امتحان ، ذى الحج، ذيقعدہ، رجب، صفر، محرم سال كا حساب:اسكے وسائل ۱۰/۵

سالكين :انكى خصوصيات ۱۰/۸۴

سائحين:ان سے مراد ۹/۱۱۲

سپاہ: رك فوج

ستائش :رك حمد

ستم :رك ظلم

ستم گر لوگ: رك ظالم لوگ

سجدہ:اسكى اہميت ۹/۱۱۲

نيزر ك مجاہدين ، مؤمنين ،اور نماز

سچائي : ر ك صداقت

سچے لوگ: رك صادقين

سحر: رك جادوسختى :اسكے آثار ۹/۴۲، ۱۰/۱۲، ۲۲; اس ميں اطمينان ۹/۴۰; راہ خدا ميں سختى برداشت كرنا: ۹/۱۲۰(اسكى پاداش ۹/۱۲۰)اسكى قدر و قيمت ۹/۱۲۰ ; سختى سے نجات :( اسكے عوامل ۱۰/۱۲); سختى كا سبب ۹/۱۲۰; سختى ميں استقامت : (اسكے عوامل ۱۰/۸۴)نيز رك : اطاعت ، افشاء كرنا ، انسان ، ايمان ، جنگ، جہاد، خدا كا ذكر كرنے والے ، دعا، دينداري، عذاب، عمل، غزوہ تبوك، غزوہ حنين، محسنين، مشركين ، منافقين اور مؤمنين

سرتسليم خم كرنا:اسكا مقام (اسكى قدر و قيمت ۱۰/۸۴); خدا كى مشيت كے سامنے سر تسليم خم كرنا ۹/۵۱ ; خدا كے

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746