تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 191498 / ڈاؤنلوڈ: 4747
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

جن کے بارے میں لوگ اطلاع نہیں رکھتے، وہ کون ہے؟ جس نے معدہ کو محکم اعصاب سے مجہز کیا، اور اسے سخت غذا کے ہضم کرنے کے قابل بنایا ، وہ کون ہے؟ جس نے جگر کی بناوٹ ، نازک اور باریک نالیوں سے انجام دی تاکہ صاف اور لطیف غذا کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کرے، اور معدہ سے زیادہ نازک و لطیف کام انجام دے ، سوائے اُس خداوند متعال کے اور کوئی نہیں کہ جو قادر اور قوی ہے، کیا تم اس بات کو کہہ سکتے ہو کہ محض اتفاقات نے ان میں سے کسی ایک کام کو بھی انجام دیا ہے ؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ تمام کام اُس مدبر کی حکمت و تدبیر کے تحت ہیں، جس نے اپنی تدبیر سے انہیں پیدا کیا ،اور کوئی بھی چیز اُسے عاجز نہیں کرتی ، وہ لطیف و آگاہ ہے۔

( اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں )

اے مفضل ذرا غور کرو، آخر کیوں خداوند عالم نے نازک مغز کو محکم و مضبوط ہڈیوں کے درمیان رکھا؟ سوائے اس کے کہ وہ محکم ہڈیاں اُسے محفوظ رکھیں، آخر کیوں خون کو رگوں کے حصار میں قرار دیا، جیسے کہ پانی برتن میں ہو، کیا رگوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہے کہ جواُسے جسم میں منتشر ہونے سے بچائے، آخر کیوں؟ ناخنوں کو سر انگشت پر جگہ عطا کی؟ سوائے اس کے کہ وہ انگلیوں کو محفوظ رکھیں اور انگلیوں کے کام کرنے میں ان کی مدد کریں ، آخر کیوں؟ کان کا اندرونی حصہ پیچیدگی صورت اختیار کئے ہوئے ہے؟ سوائے اس کے کہ آواز اس کے ذریعہ وارد ہوکر کان کے اندر ختم ہوجائے (اور کان کے پردے کو کسی بھی قسم کے ضرر کا سامنا کرنا نہ پڑے) کیونکہ اس پیچیدگی ہی کہ وجہ سے ہوا کا زور ٹوٹ جاتا ہے ، اور کان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، آخر کس مقصد کے تحت ران اور کولھوں کو گوشت کا لباس پہنایا؟ سوائے اس کے کہ زمین پر بیٹھتے وقت انہیں تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے،اور زمین کی سختی ان پر اثر انداز نہ ہو، جیسا کہ اگر کوئی لاغر و کمزور آدمی زمین پر بیٹھتے وقت اپنے نیچے کوئی چیز نہ رکھے، تو اُسے درد محسوس ہوتا

۶۱

ہے، وہ کون ہے؟ جس نے انسان کو نر و مادہ کی صورت میں پیدا کیا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور ہے ، جو یہ چاہتا ہے کہ نسل انسانی باقی رہے، کون ہے جس نے انسان کو صاحب نسل قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ جس نے اسے صاحب آرزو خلق کیا، کون ہے جس نے اُسے اپنی حاجت کو پورا کرنے والا بنایا، کون ہے جس نے اُسے حاجت بنایا؟ سوائے اس کے کہ جس نے اس بات کہ ذمہ داری اپنے سر لی، کہ اِسے پورا کریگا، کون ہے، جس نے اُسے کام کاج کے لئے أعضاء و جوارح عطا کئے، کون ہے، جس نے اسے کام کے لئے قدرت و طاقت عطاکی، کون ہے ، جس نے درک و فہم کو فقط اس کے ساتھ مخصوص کیا، کون ہے، جس نے انسان پر شکر کو واجب قرار دیا، کون ہے جس نے اُسے فکر و اندیشہ گری سیکھائی؟ سوائے اس کے کہ جس نے اُسے اُس کی قوت عطاکی، کون ہے جس نے انسان کو قدرت ، طاقت وتوانائی جیسی نعمت سے نوازا؟ کون ہے جس نے انسانوں پر اپنی حجت تمام کی، کہ جو ناچارگی و بے کسی کے عالم میں کفایت أمر کرتاہے، کون ہے، کہ جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے ، ادا نہیں ہوتا،اے مفضل ذارا غور کرو، کہ کیا تم اس بیان شدہ نظام میں اتفاقات کا مشاہدہ کرتے ہو؟ خداوند متعال بلند و برتر ہے، ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

( دل کا نظام )

اے مفضل ، اب میں تمہارے لئے دل کی تعریف بیان کرتا ہوں ، جان لو کہ دل میں ایک سوراخ ہے جو اُس سوراخ کے سامنے ہے جو پھیپھڑوں میں مشاہدہ کیا جاتا ے، جس کے وسیلہ سے دل کو ہوا اور سکون ملتا ہے، اگر یہ سوراخ ایک دوسرے سے دو ر یا جابجا ہوجائیں اور دل تک ہوا نے پہنچے تو انسان ہلاک ہوجائے، کیا کسی صاحب عقل کے لئے یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ یہ عمل محض اتفاق کا نتیجہ ہے ، اس کے باوجود کہ وہ ایسے شواہد کا مشاہدہ کرتا ہے ، کہ جو اسے اس گفتار سے روکتے ہیں، اگر تم دو

۶۲

دروازوں میں سے ایک کو دیکھو کہ اُس میں کُنڈی لٹکی ہوئی ہے ، تو کیا تم یہ کہو گے کہ اس کے بنانے والے نے اسے بے فائدہ اور بے مقصد بنایا ہے، ہرگز نہیں ، بلکہ تم سوچوگے کہ یہ دروازے آپس میں ملنے کے لئے ہیں ، اور یہ کنڈی ہے کہ جو انہیں ملانے کا کام انجام دیتی ہے ، اور ان کے ملنے ہی میں مصلحت ہے، تو بس تم حیوانات میں نر کو بھی اسی طرح پاؤگے کہ اسے ایک ایسا ہی آلہ عطا کیا گیا ہے ، تاکہ وہ اپنی مادہ کے ساتھ نزدیکی کرے کہ جس میں اس کی نسل کی بقاء ہے، اب ان فلسفیوں پر نفرین کی جائے کہ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں ، کہ وہ اس عجیب و غریب خلقت میں تدبیر و ارادہ کا انکار کرتے ہیں، اگر مرد کا آلہ تناسل ہمیشہ آویزاں ہوتا، تو کس طرح نطفہ رحم تک پہنچتا، اور اگر ہر وقت کھڑا ہوتا ، تو کس طرح سے بستر پر کروٹ لے سکتا تھا، اور اس حالت میں وہ کس طرح سے لوگوں کے درمیا ن راہ چلتا، اس کے علاوہ اگر ایسا ہوتا تو یہ منظر قباحت پر مشتمل ہوتا، اور مرد وزن کی شہوت کو ہر وقت متحرک کرتا، لہٰذا خداوند متعال نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ اکثر اوقات مردوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے، اور ان کے لئے زحمت ومشقت کا باعث نہ ہو، لیکن اس میں ایک ایسی قوت عطا کی کہ ضرورت کے وقت کھڑا ہوجائے، اس لئے کہ اس میں بقاء نسل پوشیدہ ہے۔

( مقام مخرج )

اے مفضل، اب ذرا غور کرو،بڑی نعمتوں میں سے کھانے، پینے اور فضلات کے بدن سے بآسانی خارج ہونے پر، مگر کیا مقام مخرج کی بناوٹ وساخت کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ تھا کہ اُسے پوشیدہ ترین اور مخفی جگہ پر قرار دیا جائے، کہ جو نہ انسان کی پشت پر ہو اور نہ آگے لٹکی ہوئی، بلکہ اُسے ایسی پوشیدہ اور مناسب جگہ قرار دیا ، جسے رانوں اور کولھوں کاگوشت چھپائے ہوئے ہے، اور جب انسان خلاء کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور ایک خاص انداز میں بیٹھتا ہے تو اس کی جائے مخرج مہیا ہے ، اور ہمیشہ فضولات کا رخ نیچے کی طرف ہے، کس قدر مبارک ہے وہ ذات جس کی نعمتیں مسلسل اور بے شمار ہیں۔

۶۳

( دندان کی وضعیّت )

اے مفضل، فکر کرو، اُن دانتوں پر جو غذا کو پیستے اور ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں، کہ جنہیں خدا وند متعال نے انسانوں کی سہولت کے لئے پیدا کیاہے، اُن میں سے بعض تیز اور نوکیلے ہیں، جو غذا کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اور بعض پھیلے ہوئے ہیں کہ جو غذا کو چبانے اور نرم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں، یہ صفت اُن میں تاحد ضرورت موجود ہے۔

( بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر )

اے مفضل ، بالوں اور ناخنوں کے حسن صناعت پر غور کرو، یہ مسلسل بڑھتے ہیں، اور انسان انہیں تراشنے پر مجبور ہوتا ہے، لہٰذا انہیں بے حس قرار دیا گیا ہے ، تاکہ ان کے تراشنے سے انسان کو درد کا سامنا کرنا نہ پڑے، اگر ان کے تراشنے سے انسان درد کا احساس کرتا تو اس کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوجاتی اور اگر درد کی وجہ سے انہیں نہ تراشتا اور بڑھتا ہوا چھوڑ دیتا تو ایسی صورت میں یہ اس کے لئے باعث زحمت و مشقت بنتے، یا پھر یہ کہ انسان درد کو برداشت کرے۔

مفضل کا بیان ہے میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا، ان کی خلقت اس طرح کیوں نہیں ہوئی کہ یہ بڑے ہی نہ ہوں، اور انسان ان کے تراشنے پر مجبور نہ ہو؟ امام ـنے ارشاد فرمایا: اے مفضل ، خداوند عالم کی اس عظیم نعمت پر شکر کرو کہ جس کی حکمت اس کے بندے نہیں جانتے ، جان لو کہ بدن کے جراثیم و فضلات انہی کے ذریعے جسم سے خارج ہوتے ہیں، لہٰذا انسان کو ہر ہفتے نورہ لگانے، بال کٹوانے، اور ناخن تراشنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ بال اور ناخن تیزی سے بڑھیں اور ان کے ذریعے

۶۴

انسان کے بدن سے جراثیم اور مختلف فضلات دور ہوں، اگر انہیں تراشا نہ جائے تو ان کے بڑھنے کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے، جس سے بدن میں جراثیم اور فضلات باقی رہ جاتے ہیں اور انسان مریض ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بھی فائدے ہیں اور بعض ان مقامات پر کہ جہاں بالوں کا اُگنا خلل اور نقصان کا باعث بنتا، وہاں انہیں اُگنے سے روکا گیا ہے (اب ذرا دیکھو کہ ) اگر بال آنکھوں کے اندر اُگتے تو کیا آنکھوں کو اندھا نہیں کردیتے؟ اور اگر منھ میں اُگتے تو کیا کھانے ، پینے وغیرہ کے لئے ناگوار معلوم نہ ہوتے اور اگر ہتھیلی پر اُگتے تو کیا لمس کے لئے مانع نہ ہوتے؟ اور اسی طرح اگر عورت کی شرمگاہ یا مرد کے آلہ تناسل پر بال اگتے تو کیا لذت جماع کو ختم نہ کردیتے، غور کرو کہ کس طرح بال بعض مقامات پر نہیں اُگتے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے، اور یہ أمر فقط انسانوں کے اندر ہی نہیں، بلکہ چوپاؤں اور درندوں میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کی تمام جلد تو بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے، مگر وہ مقامات کہ جن کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے بالوں سے خالی ہوتے ہیں ، حاصل مطلب یہ کہ ذرا غور کرو کس طرح سے فائدہ اور نقصان کو مدنظر رکھا گیا ہے اور جن چیزوں میں انسان کے لئے فائدہ اور اس کی بھلائی ہے، انہیں فراہم کیا گیا ہے۔

( فرقہ مانویہ کے اعتراضات )

اے مفضل ، وہ تمام کلمات و شبہات جو فرقہ مانویہ خلقت کے بارے میں رکھتا ہے، کہ اس کائنات کے اندر قصد و ارادہ نام کی کوئی چیز نہیں ، مثلاً وہ بغل اور زیرناف بال اُگنے کو بیہودہ اور عبث تصور کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ مقامات رطوبت کے جاری ہونے کے لئے ہیں ، لہٰذا اُن مقامات پر بالوں کا اُگنا بالکل اُسی طرح ہے جس طرح نہر اور ندی وغیرہ کے کنارے گھاس وغیرہ اُگتی ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ مقامات رطوبت کے جاری اور بہنے کے لئے دوسرے تمام مقامات

۶۵

سے زیادہ پوشیدہ اور پنہاں ہیں اور پھر یہ کہ ان کے اُگنے اور کٹوانے کے بعد انسان مرض وغیرہ کی تکلیف میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے اور ان ہی کے بدن سے صاف ہونے کہ وجہ سے حرص و کثافت طبیعی طور پر انسان سے دور ہوجاتی ہے اور ان سب کا دور ہونا انسان کو سرکشی ، تجاوز اور فراغت سے بچاتا ہے اور انسان خوش و خرم رہتا ہے۔

( آب دہن خشک ہونے سے انسان کی ہلاکت )

اے مفضل ، آب دہن اور اس کے فوائد پر غور کرو، یہ ہمیشہ منہ میں جاری ہے تاکہ گلے اور خنجرہ کو تر رکھے ، کہ اگر یہ خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاک ہوجائے ، اس کے علاوہ کھانا بھی بآسانی نہیں کھا سکتا کیونکہ یہی رطوبت لقمہ کو حرکت دیتی ہے لہٰذا تم مشاہدہ کروگے کہ یہ رطوبت مرکب غذا ہے اور یہی رطوبت ہے جو نلی کی طرف جاری رہتی ہے ، جس میں انسان کی بھلائی ہے کہ اگر یہ رطوبت خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

( انسان کا شکم لباس کے مانند کیوں نہ ہوا؟ )

( اے مفضل) بعض جاہل افراد جو اپنے آپ کو اہل کلام کہلواتے ہیںاور کچھ ضعیف فلسفی جو اپنی کم علمی اور اپنی کم دسترسی کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ شکم انسان، لبا س کی مانند ہونا چاہیے تھا کہ جسے جب بھی طبیب چاہتا کھول کر معائنہ کرتا، اور اپنے ہاتھ کو اندر ڈال کر جس طرح کا معالجہ ممکن ہوتا، انجام دیتا۔ تو کیا یہ اس سے اچھا نہ ہوتا کہ اُسے ایک مستحکم بند کے ذریعہ بند کیا ہوا ہے ؟ کہ وہ ہاتھ و آنکھ کی دسترسی سے بھی دور ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس کے اندر کیا ہے، مگر یہ کہ مختلف راہوں ، طریقوں اور

۶۶

تجربوں سے اس کا معائنہ کیا جائے کہ اس کے اندر پیشاب اور اس قسم کی دوسری بیہودہ ، فالتو چیزیں ہیں کہ جو انسان کی ہلاکت کا باعث ہیں؟ اگر یہ جاہل افراد جان لیں کہ وہی ہوتا جو یہ کہتے ہیں ، تو اس کا پہلا نقصان یہ ہوتا کہ انسان سے موت و مرض کا ڈر ساقط و ختم ہوجاتا، اس لئے کہ جب وہ اپنے آپ کو صحیح وسالم دیکھتا ، تو اس عالم میں مغرور ہوجاتا،اور یہ چیز اس کے طغیان اور تجاوز کا سبب بن جاتی، اس کے علاوہ وہ رطوبت جو اس کے شکم میں ہے ، اس کے شکم سے چھلکتی اور یہ مسلسل اُسے پلٹاتا ، اور اس کا لباس اور آلات زینت خراب ہوجاتے، بلکہ یوں کہوں کی کلی طور پر اس کی زندگی آلودہ ہوکر رہ جاتی ، اس کے علاوہ معدہ، جگر ، اور دل اپنے عمل کو اس حرارت کی موجودگی میں انجام دیتے ہیں جو خداوند متعال نے شکم میں رکھی ہے ، اگر شکم انسان میں سوراخ ہوتا کہ آنکھ، اور ہاتھ کے وسیلہ سے اس کا معالجہ کیا جاسکتا، تو ایسی صورت میں سرد ہوا اس کے جسم میں داخل ہوکر حرارت کو ختم کردیتی اور یہ تمام اعضاء دل ، معدہ ، جگر اپنا عمل کرنا چھوڑدیتے اور اس صورت میں انسان کی ہلاکت یقینی ہوجاتی ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو چیزیں اوہام سے وجود میں آتی ہیں وہ سب ان کے علاوہ ہیں جو خداوندعالم نے پیدا کی ہیں، اور اوہام سے وجود میں آنے والی چیزیں باطل و خطاہیں۔

اے مفضل، انسانوں کے وجود میں قرار دیئے گئے کاموں کی تدبیر پر غوروفکر کرو ، جیسے کھانا، پینااور جماع کہ یہ تمام انسان کے اندر تحرک پیدا کرتے ہیں جب انسان انہیں انجام دینا چاہتا ہے تو ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، جیسے انسان کا بھوکا ہونا اسے غذا کے طلب کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس کے حاصل ہونے سے انسان کے بدن کی نشوونما ہوتی ہے سستی اور اُونگھنا علامت ہے کہ اُسے سونے کی ضرورت ہے۔ جس میں اس کیلئے راحت و آرام پوشیدہ ہے شہوت کا اُبھرنا اُسے جماع کی طرف مائل کرتا ہے ،جو انسان کی بقاء اور دوام نسل کا واضح ثبوت ہے۔اگر انسان فقط ضرورت بدن کے لئے غذا کھاتا، اور کوئی چیز اس کے وجود میں ایسی نہ ہوتی کہ جو اسے غذا کے کھانے پر مجبور کرتی ، تو مسلم طور پر

۶۷

انسان کبھی اپنی سستی و کاہلی کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دیتا ، ایسا ہونے سے اس کا بدن تحلیل ہونے لگتا اور آہستہ آہستہ وہ ہلاک ہوجاتا۔ جس طرح سے کبھی دوا کا محتا ج ہوتا ہے جسے کھا کر وہ اپنے بدن کی اصلاح کرے، مگر وہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے لاپروائی کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا بدن فاسد وضعیف و لاغر ہوجاتا اور یہ بات اس کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے ، اسی طرح اگر سونا فقط اس لئے ہوتا کہ اس کے بدن کو راحت و آرام ملے اور اس کی قوت باقی رہے تو وہ اس میں بھی سستی سے کام لیتا، اور سونے سے پرہیز کرتا اور ہلاک ہوجاتا، اسی طرح اگر طلب اولاد کے لئے جماع کرتا ، تو یہ بعید نہ تھا کہ وہ اس میں بھی سستی کرتا، یہاں تک کہ نسل انسان کم ہوجاتی یا یہ کہ بالکل ہی منقطع ہوکر رہ جاتی، اس لئے کہ بعض افراد اولاد کی طرف رغبت نہیں رکھتے اور اولاد کو اہمیت نہیں دیتے ، اب ذرا غور کرو ، ان کاموں پر کہ جن میں انسان کی بھلائی ہے کس طرح ان کے وجود میں تحرک رکھا گیا ہے کہ وہ انسان کے اندر حرکت ایجاد کرتے ہوئے اسے ایسے کاموں کے انجام دینے پر مائل کریں۔

( انسان کے اندر چار حیرت انگیز قوتیں )

اے مفضل ، جان لو کہ بدن انسان میں چار قوتیں ہیں۔

1۔ قوت جاذبہ : جوکھانے کو قبول کرکے معدہ تک پہنچاتی ہے۔

2۔ قوت ماسکہ: جو کھانے کو اُس وقت تک محفوظ رکھتی ہے جب تک اس میں طبیعی طور پر عمل شروع نہ ہوجائے۔

3۔ قوت ہاضمہ : جو غذا کو معدہ کے اندر حل کرتی ہے اور خالص و صاف غذا کو نکال کر بدن کے اندر پھیلاتی ہے۔

4۔ قوت رافعہ: جب قوت ہاضمہ اپنے عمل کو انجام دے لیتی ہے ، تو یہی قوت رافعہ باقی غذا کو بدن سے باہر نکال دیتی ہے۔

۶۸

پس ان قوتوں کے میزان ، اندازہ ، اور ان کے عمل ،فوائد اور ان کی تدبیر و حکمت پر غور کرو، جوان میں جاری ہے اگر قوت جاذبہ نہ ہوتی، تو کس طرح انسان اُس غذا کی طرف کھینچا چلا جاتا کہ جس میں اس کے بدن کی قوت محفوظ ہے اور اگر قوت ماسکہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا بدن انسان میں معدہ کے عمل کے انتظار میں ٹھہری رہتی اگر قوت ہاضمہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا حل ہو کر معدہ سے باہر آتی کہ بدن اس سے تغذیہ کرکے اپنی حاجت کو پورا کرے اسی طرح اگر قوت دافعہ نہ ہوتی تو کس طرح بچی ہو ئی غذا تدریجی طور پر جسم سے باہر آتی، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ خداوند عالم نے اپنے لطف و صنعت و حسن تدبیر کے سبب کس طرح ان قوتوں کو محافظ بدن قرار دیا، اور تمام وہ چیزیں جو بدن انسان کے لئے ضروری تھیں انہیں فراہم کیا گیاہے۔ اور اب میں تمہارے لئے مثال بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ انسان کا بدن بادشاہ کے محل کی مانند ہے اور اس کے اعضاء اس کے محل کے ملازمین اور کام کرنے والوں کی طرح ہیں ، ان میں کچھ اس محل کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اور کچھ محل میں داخل ہونے والی چیزوں کو قبول کرنے کے بعد استعمال میں لانے کے لئے، کچھ اس محل کو منظم و مرتب ، صاف ستھرا اور آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے اور کچھ فضول چیزوں کو محل سے باہر نکالنے کے لئے ہیں۔ اس مثال میں بادشاہ وہی خدائے حکیم ہے جو عالمین کا بادشاہ ہے اور وہ محل بدن انسان ہے اور اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں اور جو امور خانہ داری کا کام انجام دیتی ہیں وہ چار قوتیں ہیں ، شاید کہ تم خیال کرو کہ ان چار قوتوں کی دوبارہ یادآوری اور ان کے کام کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جا چکاہے ، وہ زائد اور بے مورد ہے حالانکہ ان کے ذکر سے مراد وہ نہیں جو تم اطباء کی کتابوں میں پڑھتے ہو، بلکہ یہاں ہماری گفتگو ان کی گفتگو سے جدا ہے ، اس لئے کے وہ فقط چار قوتوں کے بارے میں بحث طب کے ارتباط اور طبابت کی ضرورت کے لحاظ سے کرتے ہیں ، لیکن ہماری بحث اصلاح دین اور نفوس کو

۶۹

گمراہی اور غلطی سے بچانے کیلئے ہے ، جس طرح سے مثال کے ذریعہ ان کے شافی ہونے پر تفصیلی بحث کرچکا ہوں کہ جس میں ان کی تدبیر و حکمت پر اشارہ کیا گیا ہے۔

( انسان کو قوت نفسانی کی ضرورت )

اے مفضل، انسان کے اندر قوت نفسانی ( فکر، وہم، عقل، حفظ) اور اس کی قدر وقیمت پر غور کرو، کہ اگر قوت حفظ انسان سے سلب ہوجائے، تو اس کی کیا حالت ہوجائے،بہت سے نقصانات اس کے أمر معاش اور اس کے تجربات میں مشاہدہ کئے جائیں گے، کہ وہ اُن چیزوں کو بھلا دیتا جس میں اس کا فائدہ یا نقصان ہے یا پھر وہ نہ جانتا کہ اس نے کیا دیکھا کیا سنا اُس نے کیا کہا اس کے بارے میں کیا کہا گیا کس نے اُس کے ساتھ نیکی کی اور کس نے بدی کی اور وہ اچھی بری چیز کو بھی نہ جانتا ایک مدت تک راستہ پر آمدو رفت کے باوجود اُسے نہ پہچانتا۔ عرصہ دراز تک تحصیل علم کے باوجود کسی بھی چیز کو حفظ نہیں کرسکتا تھا۔ ایسی صورت میں نہ اُسے کوئی قرض دیتا۔ اور نہ وہ لوگوں کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکتا تھا گویا گذشتہ کسی بھی حقیقت سے عبرت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ درحقیقت وہ دائرہ انسانیت ہی سے خارج ہوجاتا۔

( حفظ و نسیان نعمت خداوندی ہیں )

اے مفضل ، غور کرو کہ انسان کو کتنی عظیم نعمتیں عطا کی گئی ہیں کہ اُن میں سے ہر ایک کی قدر و قیمت دوسرے کے مقابلے میں عظیم ہے ، اب ذرا دیکھو کہ اگر انسان کے لئے قوت نسیان نہ ہوتی تو کوئی شخص بھی اپنی مصیبت سے کبھی فارغ نہ ہوتا اور اس کی حسرت کبھی ختم نہ ہوتی اور نہ ہی کبھی کینہ و عداوت دور ہوتی ، گویا دنیا کی کسی بھی نعمت سے بہرہ مند نہ ہوتا اس لئے اس کی مصیبتیں اور آفتیں مسلسل اس کے

۷۰

سامنے رہتیں ، اور نہ وہ کبھی بادشاہ سے بھولنے کی امید رکھتا اور نہ کسی حاسد سے حسد کے ختم ہوجانے کی کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح خداوند عالم نے انسان کے اندر حفظ و نسیان کو رکھا ہے، اگرچہ یہ دو متضاد چیزیں ہیں لیکن ہر ایک کے اندر انسان کیلئے بھلائی ہے اور وہ لوگ جو ان متضاد چیزوں کی تقسیم بندی کرتے ہیں ، کس طرح وہ انہیں دو خالق کی طرف نسبت دیتے ہیں ، حالانکہ ان دو متضاد چیزوں کے جمع ہونے ہی میں انسان کی بھلائی ہے۔

( انسان کے لئے حیاء کا تحفہ )

اے مفضل ، ذرا غور کرو، اس چیز پر کے جسے خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کے لئے مخصوص کیا ہے، کہ جس کی وجہ سے انسان کی فضیلت تمام مخلوق پر عظیم و اعلیٰ ہے اور وہ چیز حیاء ہے، اس لئے کہ اگر حیاء نہ ہوتی تو نہ مہمان نوازی ہوتی، نہ کوئی وعدہ وفا ہوتا، اور نہ کوئی حاجت پوری ہوتی، گویا کام بہتر طور پر انجام نہ دیئے جاتے، اور نہ ہی کوئی برے کاموں سے بچتا بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ یوں کہوں کہ بعض واجب کام بھی حیاء ہی کی بدولت انجام پاتے ہیں۔ جن کے پاس حیاء نہیں ہوتی نہ تو وہ اپنے والدین کے حق کا خیال رکھتے ہیں اور نہ صلہ رحمی سے کام لیتے ہیں، نہ وہ امانت کو ادا کرتے ہیں، اور نہ ہی برے کاموں سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح اُن تمام صفتوں کو انسان کے اندر جمع کیا گیا ہے کہ جس میں اس کی اور اس کے تمام کاموں کی بھلائی ہے۔

۷۱

( قوت نطق اور کتابت فقط انسان کیلئے ہے )

اے مفضل۔ اس نعمت نطق پر بھی غور کرو، جو خداوند عزوجل نے انسان کو عطا کی، جس کے وسیلے سے انسان اپنے مافی الضمیراور جو کچھ دل میں ہے گزرتا ہے اُس کا اظہار کرتا ہے اور اپنی فکر کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اگر قوت نطق نہ ہوتی تو انسان بھی چوپاؤں کی طرح مہمل ہو کر رہ جاتا، نہ اپنی بات کسی کو سمجھا سکتا تھا، اور نہ کسی دوسرے کی سمجھ سکتا تھا، اور اسی طرح ایک نعمت خداوندی کتابت ہے جس کے وسیلہ سے گذشتہ لوگوں کی خبریں حاضرین اور حاضرین کی خبریں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم و أدب کی کتابیں ابھی تک باقی ہیں اسی کے وسیلہ سے انسان ایک دوسرے کے درمیان معاملات و حساب کو محفوظ کرتے ہیں اگر کتابت نہ ہوتی تو ایک زمانے کی باتیں یا خبریں دوسرے زمانے کے لئے اور اسی طرح وطن سے دور لوگوں کی خبریں اہل وطن سے پوشیدہ ہوکر رہ جاتیں۔ علوم وآداب وغیرہ بھی سب ضائع ہوجاتے، خلاصہ یہ کہ لوگوں کے امور و معاملات میں ایک بہت بڑا خلل واقع ہوتا اور وہ ان چیزوں سے خالی ہوتے کہ جن کی انہیں دینی امور میں انہیں ضرورت پڑتی ، اور جو کچھ ان کے لئے روایت کی جاتی یہ اُس سے بے خبر ہوتے۔ شاید تم گمان کرو کہ نطق وکتابت وہ چیزیں ہیں جو حیلہ و ہوشیاری سے حاصل کی گئی ہیں اور انہیں خلقت اور طبیعت انسان میں عطا نہیں کیا گیا اور اسی طرح کلام کہ جسے لوگوں نے خود ایک دوسرے کے درمیان ایجاد کیا ہے ، اسی لئے بات چیت کرتے وقت قوموں اور ملتوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے، اور اسی طرح کتابت میں بھی جیسے عربی، سریانی ، عبرانی، رومی اور دوسری مختلف کتابت کہ جن میں ملتوں کے درمیان کلام کی طرح اختلاف پایا جاتا ہے ، جنہیں خود ان ملتوں نے ایجاد کیا ہے ، اب ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جائے، جو اس بات کا مدعی ہو، یہ صحیح ہے کہ انسان کے ان کاموں میں اس کی فعالیت وحیلہ کا دخل

۷۲

ہے، لیکن وہ چیز کہ جس کے تحت یہ فعالیت و حیلہ کارگر ہیں، وہ خود خدا کا ایک عطیہ و تحفہ ہے کہ جو خدا نے انسان کو اس کی خلقت میں عطا کیا ہے، اس لئے کہ اگر کلام کرنے کے لئے زبان اور امور کی ہدایت کے لئے ذہن نہ ہوتا تو انسان کبھی بھی کلام نہیں کرسکتا تھا ، اور اسی طرح اگر لکھنے کے لئے ہتھیلی و انگلیاں نہ ہوتیں تو وہ کبھی بھی کتابت میں کامیاب نہ ہوتا، پس ان حیوانات سے عبرت حاصل کرو کہ جنہیں اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ نہ وہ بولنا جانتے ہیں اور نہ لکھنا خداوند عالم کا یہ اپنے بندوں پر خاص احسان ہے، اب جو اس کا شکر ادا کریگا اُسے اس کا اجر و ثواب عطا کریگا ، اور جو کفر اختیار کریگا تو خدا غنی اور بے نیاز ہے۔

( وہ علوم جوانسانوں کو عطا کئے۔ اور وہ علوم جو عطا نہ کئے دونوں میں ان کی بھلائی ہے )

اے مفضل فکر کرو، اس علم پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کیا اور وہ علم جو اُسے عطا نہ کیا ، خداوند عالم نے وہ تمام علوم اپنے بندوں کو عطا کئے جن میں اس کے دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہے اور وہ علم جس میں اس کے دین کی بھلائی ہے ، وہ خدا وند عالم کی معرفت اُن شواہد و دلائل کے ساتھ ہے جو خلقت میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں، اور وہ علم کہ جن کا جاننا اس کے لئے واجب ہے۔جیسے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کو قائم کرنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا، امانتوں کو ادا کرنا، نیاز مندوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا اور اس قسم کے دوسرے کام جن کی معرفت ہر اُمت کو فطری اور طبیعی طور پر عطا کی گئی ہے ، چاہے وہ اس کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے اور اسی طرح تمام وہ علوم کہ جس میں اس کی دنیا کی بھلائی ہے ، جیسے زراعت ، درخت کاری، کنویں کھودنا، جانور کا پالنا، پانی تلاش کرنا، دواؤں کا جاننا ( جن کے ذریعہ بہت سے مرض دور ہوتے ہیں) معادن کا تلاش کرنا ،کہ جس کے ذریعہ مختلف جواہر حاصل ہوتے ہیں، کشتی پر سواری کرنا، دریاؤں میں غوطہ لگانا (اس کے علاوہ) وحشی جانوروں،

۷۳

پرندوں اور مچھلیوں کے شکار کے لئے مختلف حیلوں اور چالاکیوں کا علم ، مختلف قسم کی صنعت و تجارت کا علم اور اس کے علاوہ دوسری ایسی چیزوں کا علم کہ جن کی تشریح اور وضاحت کی فہرست طویل اور تعداد بہت زیادہ ہے، جس میں اس کے لئے بھلائی اور نفع ہے۔ اور ان کے علاوہ دوسرے علوم کے جاننے کو انہیں منع کیا وہ انہیں نہ جانیں اس لئے کہ وہ ان کی طاقت نہیں رکھتے۔ مثلاً ، علم غیب، اور جو کچھ مستقبل میں ہوگا اور جو کچھ آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے ہے جو کچھ دریا کہ تہہ میں ہے اور جو کچھ عالم کے چاروں گوشوں میں ہے اور جو کچھ لوگوں کے دل میں گزرتا ہے اور کچھ رحم مادر میں ہے، اور اس قسم کی بہت سی چیزیں کہ جو انسان سے پوشیدہ ہیں کبھی بہت سے لوگ ان چیزوں کے جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ جلد ہی ان تمام چیزوں کے بارے میں باطل ہوکر رہ جاتا ہے، اور ان کی خطا آشکار ہوجاتی ہے ، ذرا غور کرو کہ کس طرح سے انسان کو ان چیزوں کا علم عطا کیا گیا، کہ جن میں اس کے دین اور دنیا دونوں کی بقاء ہے اور اس کے علاوہ باقی علوم کو اس پوشیدہ رکھا گیا، تاکہ وہ ان کی قدر و قیمت جان لے اورسمجھ لے کہ جو کچھ خدا نے اُسے علم عطا کیا اور جو علم عطا نہیں کیا ہر دو میں اس کی بھلائی ہے۔

( انسان سے کیوں اس کی عمر حیات کو پوشیدہ رکھا؟ )

اے مفضل۔ اب ان چیزوں میں غور کرو کہ جن کا علم خدا نے اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھا ۔ جیسے اس کی زندگی کا علم اگر وہ اپنی زندگی کے مدت کو جان لیتا اور اس کی عمر حیات تھوڑی ہوتی ، تو ایسے میں اس کے لئے زندگی گزارنا ناخوش گوار ثابت ہوتا، بلکہ یہ آدمی اُس شخص کی مانند ہوتا کہ جس کا مال اس کے ہاتھ سے چلا گیا ہو، یا نزدیک ہو کہ چلا جائے کہ وہ مال کے چلے جانے سے فقر کی تنگی سے خوفزدہ ہے، اور عمر کے ختم ہو جانے کا خوف تو اُس خوف سے بھی کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ مال کے چلے جانے پر وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ دوبارہ مل ہوجائے گا، اور خود کو اس کے لئے تیار کرتا ہے لیکن اگر کسی کو اپنی

۷۴

موت کا یقین ہوجائے تو نا اُمیدی اُس پر پوری طرح غالب ہوجاتی ہے اور اگر اس کی عمر حیات طویل ہوتی اور وہ اس بات کو جان لیتا تو پھر وہ کمر بستہ طور پر لذتوں اور معصیتوںمیں غوطہ ور ہوجاتا، اور وہ برے کاموں کو تمام عمر اس امر کے ساتھ انجام دیتا کہ جب وہ اپنی خواہشات کو پورا کر لے گا، تو توبہ کرلے گایہ وہ طریقہ ہے کہ جو خداوند عالم اپنے بندوں سے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتا اور نہ وہ اس پر راضی ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر تمہارا کوئی غلام ہو اور وہ سال بھر تمہاری نافرمانی کرے ، اور تمہارا کوئی کام اور کسی بھی قسم کی خدمت انجام نہ دے، اور پھر ایک دن یا ایک ماہ وہ تمہیں راضی کرنے میں لگادے تو تم اُسے ہرگز قبول نہ کروگے، اور وہ تمہارے لئے ایک بہترین غلام ثابت نہ ہوگا، سوائے اس کے کہ یہ غلام تمہارے ہر أمر پر سرتسلیم خم کرے اور ہمیشہ تمہارا خیرخواہ ہو، اور اگر تم کہو کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی انسان ایک مدت تک معصیت میں مبتلا رہتا ہے، اور پھر توبہ کرتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے ، تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا اُس صورت میں ہوتا ہے جبکہ انسان پر شہوت کا غلبہ ہو اور وہ اپنی خواہشات پر قابو نہ پاسکے اور وہ اس کام کو پہلے سے بجالانے کا قصد و ارادہ بھی نہیں رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں خداوند، اس سے درگذر کرتاہے اور ا س کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کا ارادہ کرے کہ معصیت کو انجام دیتا رہے، اور بعد میں توبہ کرلے گا تو وہ ایسی ذات کو دھوکہ و فریب دینا چاہتا ہے ، جو کسی کے دھوکے اور فریب میں آنے والی نہیں ، کہ وہ پہلے معصیتوں سے لذت حاصل کرتارہے اور بعد میں توبہ کرنے کے وعدے کرتا رہے کہ ایسے میں وہ کبھی بھی اپنے اس وعدے کو وفا نہیں کر سکتا، اس لئے کہ لذتوں اور خوشگوار زندگی سے ہاتھ اٹھانا اور توبہ کرنا وہ بھی اس ضعیفی اور کمزوری کے عالم میں خاصہ مشکل ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ توبہ کے لئے آج و کل کرتا ہوا موت کے منہ تک پہنچ جائے اور بغیر توبہ کئے ہوئے اس دنیا سے کوچ کرجائے جس طرح سے کوئی مقروض جو ایک وقت میں قرض ادا کرنے پر قادر ہوجاتا ہے ، لیکن قرض

۷۵

واپس دینے سے گریز کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کا تمام مال خرچ ہوجاتا ہے اور قرض اس کی گردن پر اُسی طرح باقی رہ جاتا ہے، پس اس لئے انسان کے لئے یہ بہتر ہے کہ اس کی عمر حیات اس ے پوشیدہ رہے ، تاکہ ساری زندگی موت کی فکر میں رہ کر معصیتوں کو چھوڑ دے اور نیک کام انجام دے ، اب اگر تم یہ کہو کہ جبکہ خداوند عالم نے انسان کی عمر حیات کو اس سے پوشیدہ رکھا اور انسان ہمیشہ اس کے انتظار میں ہے اس کے باوجود وہ برے کاموں کو انجام دیتا ہے، اور خدا کی حدود کا خیال نہیں کرتا تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس میں تدبیر وہی ہے جو بیان کی گئی ہے بالآخر اگر انسان اس کے باوجود بھی گناہوں سے دوری اختیار نہیں کرتا تو یہ اس کے دل کی قساوت کا نتیجہ ہے تو ایسی صورت میں برائی طبیب کے لئے نہیں بلکہ مریض کے لئے ہے ، اس لئے کہ اس نے طبیب کی نافرمانی کی ہے اور جب انسان موت کے انتظار میں رہ کر گناہوں سے دوری نہیں کرتا ، تواگر اُسے اپنی طول زندگی کا پتہ چل جاتا اور مطمئن ہو جاتا تو پھر وہ اس سے بھی کہیں زیادہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ، پس اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انتظار موت ہر حال میں بہتر ہے اور اگر کچھ لوگ موت سے غافل ہیں اور اُس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تو مسلم طور پر دوسرے لوگ اس سے ضرور نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہیں ، اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں ، فقراء و مساکین کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے بہترین چیزیں اور مختلف حیوانات کو ان کے لئے صدقہ کرتے ہیں ، لہٰذا یہ بات خلاف عدل ہے کہ اُن لوگوں کی خاطر جو انتظار موت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اُن لوگوں کو بھی اس أمر سے محروم کردیا جائے جو اسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

۷۶

( خواب میں حسن تدبیر )

اے مفضل۔ فکر کرو خواب پر کہ اس میں کیا تدبیر کار فرما ہے سچ ، جھوٹ میں ملا ہوا ہے اگر سب خواب سچے ہوتے تو تمام لوگ انبیاء ہوجاتے ، اور اگر سب کے سب خواب جھوٹے ہوتے تو خواب کے وجود سے کوئی فائدہ نہ ہوتا، اور وہ ایک زائد و بے معنی چیز ہو کر رہ جاتی، کبھی وہ سچے ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور اس کے وسیلے سے ہدایت پاتے ہیں، یا بعض خواب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے وسیلے سے انہیں خبر دار کیا جاتا ہے زیادہ تر خواب جھوٹے ہوتے ہیں تاکہ لوگ اس پر اعتقاد ِ کامل نہ رکھیں۔

( جہان میں تمام چیزیں انسان کی احتیاج و ضرورت کے مطابق ہیں )

اے مفضل۔ فکر کرو ان تمام چیزوں پر جو عالم میں موجود و مہیا ہیں، مٹی تعمیرات کے لئے ، لوہا صنعت کے لئے، لکڑ ی کشتی وغیرہ کے لئے، پتھر چکی وغیرہ کے لئے، پیتل برتن کے لئے، سونا و چاندی معاملات و ذخیرہ کے لئے ، دالیں غذا کے لئے، پھل لذت حاصل کرنے کے لئے،گوشت کھانے کے لئے، عطر خوشبو کے لئے، دوائیں مریض کی شفا کے لئے، چوپائے باربرداری کے لئے، سوکھی لکڑیاں جلانے کے لئے، خاکستر کلس(1) کے لئے، شن زمین کے لئے ، اور اس قسم کی بے انتہا چیزیں کہ جنہیں شمار کرنے والا اگر شمار کرنا چاہے تو ہرگز شمار نہیں کرسکتا، کیا تم نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گھر میں داخل ہو جس میں وہ تمام چیزیں جو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہیں، آمادہ و ذخیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سنہری کلخی کہ جو گنبد کے نوک پر لگائی جاتی ہے۔

۷۷

ہوں، تو کیا وہ اس بات کو تسلیم کرسکتا ہے، کہ یہ سب چیزیں محض اتفاق کا نتیجہ ہیں، اور بغیر قصد و ارادہ کے وجود میں آئی ہیں۔ لہٰذا کس طرح اُس شخص کو اس عالم اور بیان شدہ أشیاء کے بارے میں یہ اجازت دی جائے کہ وہ انہیں محض اتفاق کا نتیجہ کہے۔

اے مفضل ۔ عبرت حاصل کرو کس طرح چیزوں کو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، اور کس قسم کی تدبیر اُس میں رواں دواں ہے کہ اس نے دانے کو پیدا کیا کہ وہ انسان کے لئے غذا ہو۔ اور اس نے انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس کا آٹا بنائے، آٹے کا خمیر بنائے اور پھر اسے پکا کر روٹی بنائے، اُون کو لباس کے لئے خلق کیا اور انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس سے دھاگہ حاصل کرکے اسے سلائی اور کڑھائی کے استعمال میں لائے۔ درختوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ان کے اُگانے اور ان کی آبیاری و دیکھ بھال کے لئے انسان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ دواؤں کو مریض کی شفا کے لئے خلق کیا گیا کہ مریض انہیں استعمال میں لاکر تندرستی حاصل کرے اور ان کے ملانے، اور بنانے پر انسان کو ذمہ دار بنایا، اور اس طرح کی دوسری وہ تمام چیزیں جنہیں تم دیکھتے ہو۔

ذرا غور کرو کس طرح بعض چیزوں کو مہیا کیا گیا ہے ، کہ جن کے اندر انسان کی فعالیت کا دخل نہیں ہے جبکہ بعض چیزوں میں انسان کے لئے فعالیت اور عمل کو رکھا ہے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے اگر تمام کام انسان کے لئے آمادہ ہوتے اور کوئی شغل باقی نہ رہتا تو انسان باغی ہوجاتا اور زمین اسے برداشت نہ کرتی، اس لئے کہ وہ زمین پر اس طرح کے کام انجام دیتا کہ خود اس کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ، اس کے علاوہ یہ کہ انسان کی زندگی خوشگوار اور لذت بخش نہ ہوتی۔ مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر مہمان کے طور پر جائے اور ایک مد ت تک وہ اس کے گھر قیام کرے اور جس چیز کی اُسے ضرورت ہو، مثلاً کھانے، پینے ، نوکر وغیرہ کی وہ سب اس کے لئے حاضر ہوں تو وہ اپنی فراغت کی

۷۸

وجہ سے تنگ آجاتا ہے اور اس کا نفس اسے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھے تو پھر کس طرح اس کی زندگی گزرتی جبکہ ساری زندگی اُسکی فراغت پر مشتمل ہوتی کہ تمام کام اس کے لئے آمادہ ہوتے، اور وہ کسی بھی چیز کا محتاج نہ ہوتا ، یہ حسن تدبیر ہے کہ جن چیزوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے اُن میں اُس کے لئے فعالیت و عمل کو رکھا گیا ہے ، تاکہ اس کی فراغت اس کی سستی و کاہلی کا باعث نہ بنے اور ان کاموں میں مشغول رہنا اسے اُن کاموں کے انجام دینے سے بچاتا ہے کہ جن کے انجام دینے پر نہ وہ قادر ہے اور نہ ان میں اس کا کوئی فائدہ ہے ۔

( انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی )

اے مفضل۔ جان لو کہ انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی ہے ، ذرا غور کرو کہ ان میں کس طرح تدبیر استعمال ہوئی ہے۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ انسان روٹی سے زیادہ پانی کا محتاج ہوتا ہے اور بھوک پر صبر پیاس پر صبر سے زیادہ کرسکتا ہے، اور جن چیزوں میں انسان پانی کا محتاج ہوتا ہے وہ روٹی کی احتیاج سے کہیں زیادہ ہیں اس لئے کہ پانی پینے، وضو کرنے، غسل کرنے ، لباس دھونے ، چوپاؤں اور کھیتی کو سیراب کرنے اور اس قسم کی بہت سی ضروریات کے استعمال میں آتا ہے اسی وجہ سے پانی فراوان ہے اور خریدا نہیں جاتا ، تاکہ طلب آب کی زحمتیں انسان سے ساقط ہوجائیں، لیکن روٹی کو مشقت میں رکھا کہ وہ اسے اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ چارہ اندیشی اور فعالیت سے کام نہ لے، اس لئے کہ انسان کے لئے کوئی شغل ہو کہ جو اسے فراغت ، بیکاری ، فالتو اور بے ہودہ کاموں سے بچائے رکھے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ ادب سیکھنے سے پہلے ہی معلم کے سپرد کردیا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ ابھی بچہ ہے اور ابھی اس کی قوت فہم اور ادراک تعلیم کے لئے کامل نہیں ، ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ وہ بیہودہ اور فضول کاموں سے محفوظ رہے، اور زیادہ کھیل کود اور بیکار کاموں

۷۹

سے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو زحمت میں نہ ڈالے ، اسی طرح اگر انسان کے پاس کوئی شغل نہ ہوتا تو وہ شرارت اور بیہودہ کاموں کی طرف کھینچا چلا جاتا اور تم اس مطلب کو اس شخص کی زندگی سے درک کرسکتے ہو جو امیرانہ اور خوشگوار زندگی بسر کرتا ہوکہ کس قسم کے کام اُس سے صادر ہوتے ہیں۔

( انسان کا ایک دوسرے سے شبیہ نہ ہونا حکمت سے خالی نہیں )

اے مفضل۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ انسان ایک دوسرے کے مشابہ نہیں جس طرح سے پرندے اور جانور آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں کہ ہرنوں اور پرندوں کو ایک دوسرے سے پہچانا نہیں جا سکتا، لیکن اگر تم انسانوں کو دیکھو تو وہ شکل و صورت اور خلقت میں مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ تم دو آدمیوں کو بھی ایک جیسا نہیں پاؤگے، اس لئے کہ انسان اپنی زندگی میں جسمانی اور صفات کے اعتبار سے پہچانے جانے کا محتاج ہے۔ اس لئے کہ ان کے درمیان معاملات طے ہوتے ہیں لیکن حیوانات کے درمیان کسی بھی قسم کے معاملات طے نہیں ہوتے کہ جس کی وجہ سے وہ پہچانے جانے کے محتاج ہوں، اور کیا تم نہیں دیکھتے کہ پرندوں کا ایک دوسرے سے شبیہ ہونا ان کے لئے کسی قسم کے ضرر کا باعث نہیں بنتا ، لیکن انسان ہرگز اس طرح نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر دو آدمی ایک دوسرے کی شبیہ ہوں تو لوگوں کے لئے زحمت کا باعث بن جاتے ہیں، لہٰذا معاملات میں ایک کو دوسرے کے بدلے لے لیا جاتا ہے، اور ایک کو دوسرے کے بدلے میں بے گناہ گرفتار کرلیتے ہیں اور کبھی یہ شباہت دوسرے کاموں میں بھی مداخلت کا باعث بنتی ہے وہ کون ہے؟ جس نے صحیح راہ کی تشخیص کے لیے اپنے بندوں پر لطف کیا اور ایسے لطیف کام انجام دیئے جہاں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں ہے سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ جس کی رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اگر تم ایک تصویر کو دیوار پر نقش دیکھو اور کوئی تم سے کہے کہ اس تصویر کا کوئی بنانے والا نہیں ہے بلکہ خود بخود وجود میں آئی ہے تو کیا تم

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

جہاد كا سبب: ۹/۸۶، ۸۸;جہاد كو ترك كرنے والے : (يہ اور زكات ۹/۱۰۳);جہاد كو دوست ركھنے والے : (انكى دلجوئي ۹/۹۳);جہاد كى اجازت ۹/۸۳، ۸۶; جہاد كى اہميت ۹/۲۰، ۲۴، ۴۱، ۴۴، ۵۳، ۱۲۲;جہاد كى پاداش۹/۲۱، ۸۹، ۱۱۱، ۱۲۰، ۱۲۱;جہاد كى تشويق ۹/۱۳، ۴۰; جہاد كى سختى : (اسكے آثار ۹/۱۱۷); جہاد كى قدر و قيمت ۹/۱۹، ۲۰، ۲۴، ۳۸، ۴۱، ۴۶، ۸۱، ۸۷، ۸۸، ۱۱۱;جہاد كے احكام ۹/۴۱، ۴۳، ۸۳، ۹۱، ۹۲، ۱۱۱، ۱۲۲;جہاد كے عوامل ۹/۴۴; جہاد كے موانع ۹/۸۱;جہاد ميں بہانے بنانے والے : (انكو تنبيہ ۹/۸۱);جہاد ميں ترجيحات: ۹/۱۲۳ ;جہاد ميں تيارى : (اسكى پاداش ۹/۱۲۱); جہاد ميں رخنہ اندازى كرنا: (اس كا جرم ۹/۸۲); جہاد ميں سست ايمان والے ۹/۴۷; جہاد ميں سستى : (اسكے آثار ۹/۳۹; اسكے عوامل ۹/۳۸، ۴۱); جہاد ميں شجاعت: ۹/۱۱۱; جہاد ميں شركت : (اسكے عوامل ۹/۱۲۳); جہاد ميں شركت نہ كرنا: ۹/۱۶، ۳۸، ۴۱، ۸۶، ۸۷، ۹۵(اس كا جرم۹/۸۲; اس كا سبب ۹/۲۴، ۸۶،۹۳; اس كا گناہ ۹/۹۳; اسكى كيفر ۹/۴۲،۹۳; اسكى سزا ۹/۹۱; اسكے آثار ۹/۳۹، ۴۲، ۹۰، ۹۳; اسكے عوامل ۹/۴۲، ۸۱، ۸۳، ۸۶; اسكے موانع ۹/۴۴); جہاد ميں شركت نہ كرنے والے ۹/۵۰، ۸۱;ان سے روگردانى كرنے كا ضرورى ہونا ۹/۹۵;(ان سے روگردانى كرنے كا فلسفہ ۹/۹۵); ان سے روگردانى كرنے كى اہميت ۹/۹۵ ; ان سے متاثر ہونا ۹/۹۵; انكا انجام ۹/۹۵; انكا بہانے بنانا ۹/۴۹، ۵۰; انكا جھوٹ بولنا ۹/۴۲; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۹/۹۳; انكا راز افشا كرنا ۹/۹۴; انكا عذر پيش كرنا ۹/۹۴; انكا عمل ۹/۵۳; انكا فسق ۹/۵۳، ۹۶; انكا گناہ ۹/۴۹; انكو تنبيہہ ۹/۸۱; انكو دھمكى ۹/۲۴، ۳۹، ۸۱، ۹۴; انكو نظر انداز كرنا ۹/۸۳، ۹۵; انكى آرزو ۹/۵۰; انكى اخروى رسوائي ۹/۹۴; انكى پليدى ۹/۹۵; انكى تحقير ۹/۸۳، ۹۳; انكى توبہ كى قبوليت ۹/۹۴; انكى ذلت ۹/۹۳; انكى رسوائي ۹/۹۴; انكى سرزنش ۹/۳۸، ۸۷; انكى سزا ۹/ ۵۲; انكى سزا كا نزديك ہونا ۹/۹۰; انكى قسم كى پروانہ كرنا ۹/۹۵; انكى محروميت ۹/۹۶; انكى ہلاكت ۹/۴۲; انكے جھوٹ كى پروانہ كرنا ۹/۹۵; ان كے دل پر مہر كا لگنا ۹/۸۷، ۹۳; انكے ساتھ سلوك ۹/۴۳; انكے عذر كو رد كرنا ۹/۴۳،۹۴; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۹/۵۰; يہ اوراسلام ۹/۵۰; يہ اور سرور ۹/۸۲; يہ اور غم و اندوہ ۹/۸۲; يہ جہنم ميں ۹/۹۵); جہاد ميں شك ۹/۴۵; جہاد ميں شكست: (اسكے عوامل ۹/۴۷); دشمن كے ساتھ جہاد: ۹/۳۸، ۱۱۱; كافر راہنماؤں كے ساتھ جہاد ۹/۱۲; كفار كے ساتھ جہاد ۹/۳۷،۱۲۳;مالى جہاد:۹/۴۱، ۴۴ (اس سے معذور لوگ ۹/۹۱ ; اس كا سبب ۹/۸۸; اسكى اہميت ۹/۲۰، ۴۱، ۸۸، ۱۱۱; اسكى پاداش ۹/۸۹ ، ۱۱۱،۱۲۱; اسكى قدر و قيمت ۹/۲۰، ۴۱، ۱۱۱; اسكے آثار ۹/۲۰); محاربين كے ساتھ جہاد ۹/۳۶; مشركين كے ساتھ جہاد ۹/۳۶; منافقين كے ساتھ جہاد ۹/۷۳

۶۶۱

نيز رك : آرزو ، امتحان، انفاق، باديہ نشين لوگ، بوڑھے ، عورت ، كفار، محبت، محمد(ص) ، مسلمان، معذور لوگ اور منافق لوگ اور مؤمنين

جہالت :اسكى مذمت ۹/۹۷; اسكى نشانياں ۹/۹۷، ۹۸; اسكے آثار ۹/۹۳، ۹۷،۱۰/۷; ۳۹نيز رك آيات خدا ، احكام ، اقدار، انبياء ، انسان، جاہليت ، جزيرة العرب ، دنيا ، دين ، عمل، مشركين ، مصالح ، منافقين اور مؤمنين

جہان: رك جہان خلقت//جہان بيني: رك كائنات كا مطالعہ

جہان خلقت:اس كا با ہدف ہونا ۱۰/۳، ۵; اس كا تحت قانون ہونا ۱۰/۳; اس كا حاكم ۹/ ۲، ۱۰/۳; اس كا خالق ۱۰/۶، ۳۴; اس كا رب ۱۰/۱۰، ۳۷; اس كا فلسفہ ۱۰/۱۱; اس كا مالك ۱۰/۵۵، ۶۶; اس كا مبدا ۱۰/۴; اس كا مركز ۱۰/۳; اس كا مطالعہ ;(اسكے مطالعہ كى اہميت ۱۰/۱۰۱: اسكے مطالعہ كے اثار ۱۰/۱۰۱); اسكا مطيع ہونا ۱۰/۹۲; اس كا منظم ہونا ۱۰/۵;اس كا نظام : اسكے نظام ميں تكامل ۹/۱۲۹; اسكى اہميت ۱۰/۲۴; اسكى تدبير ۱۰/۳۱،۳۲: (اسكا دائمى ہونا ۱۰/۳; اسكا مركز ۱۰/۳; اسكا وسيلہ ۱۰/۳) خصوصيات ۱۰/۳۴; اسكى خلقت ۱۰/۳۴;(اسكى اہميت ۱۰/۲۴) اسكى وابستگى ۱۰/۳۱; اسكے عالم ۱۰/۳۷ ; اسكے موجودات: (انكى شناخت ۱۰/۱۰۱) ; اس كا نظام ; اسكے نظام ميں تكامل ۹/۱۲۹; اس ميں تدبر: اسكى اہميت ۱۰/۶;اس ميں ربوبيت ۱۰/۶۶; اس ميں مالكيت ۱۰/۶۶; يہ آيات خدا ميں سے ۱۰/۵

نيز: رك توحيد اور خد

جہنم:اسكا بھى موجود ہونا۹/۴۹

اس كا ہميشہ رہنا ۹/۶۸;جہنم كا عذاب ۹/۳۵ (اسكى خصوصيات ۹/۶۸);جہنم كى آگ: (اس كا محيط ہونا ۹/۴۹; اسكى تمازت ۹/۸۱); جہنم كى دھمكى ۹/۸۱;جہنم كے موجبات ۹/۷۳، ۸۲، ۱۰۹_۱۰/۴،۸; جہنم ميں ذلت ۹/۶۳;جہنم ميں ہميشہ رہنا ۹/۶۳،۶۸(اسكے موجبات ۹/۶۳) ; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۹/۱۷، ۶۳، ۶۸، ۱۰/۸، ۲۷نيز ر ك پليد لوگ ، ثروت اندوز لوگ ، جہاد ، ذكر ، قيامت ، كفار ، گناہگار لوگ ، مشركين اور منافقين

جہنمى لوگ: ۹،۳۴، ۴۹،۶۳، ۶۸،۷۳، ۹۵،۱۰۹ ،۱۱۳، ۱۰/۸ ،۲۷ان كا انجام ۹/۱۱۳; انكا دائمى ہونا ۹/۶۳، ۶۸; ان كا شكنجہ ۹/۳۵;ان كا عذاب ۹/۶۸ ;انكے لئے استغفار ۹/۱۱۳(اس استغفار كا ممنوع ہونا ۹/۱۳)نيز رك اظہار برا ء ت

جھوٹ :اس كا گناہ ۹/۷۷; اسكى سزا ۹/۷۷; اسكے آثار

۶۶۲

۹/۷۷; اسكے موارد ۹/۷۷نيز رك :جھوٹ بولنا جھوٹ بولنے والے اور قسم

جھوٹ بولنا:(اسكى نشانياں ۹/۱۱۹)نيز رك جہاد، جھوٹ بولنے والے ، غزوہ تبوك اور منافقين

جھوٹ بولنے والے :(انكى تشخيص ۹/۴۳)

''چ''

چاند:چاند كو نورانى كرنے والا ۱۰/۵;چاند كى خلقت ۱۰/۵; چاند كى گردش ۱۰/۵; چاند كى نورانيت ۱۰/۵

چشمہ : ر ك بہشت

چناؤ: رك امام على (ع) اور صادقين

چوپائے:انكى غذا كے منابع ۱۰/۲۴نيز رك انسان

''ح''

حاجي: (حجاج)حاجيوں كو پانى پلانا: ( اسكى فضيلت ۹/۱۹; يہ جاہليت ميں ۹/۱۹)نيز رك قياس

حب: رك محبت

حج:اسكے اقتصادى آثار ۹/۲۸;حج اكبر: (اس سے مراد ۹/۳،حج اكبر كے دن سے مراد ۹/۳);حج كے اعمال: (سب سے عظيم عمل ۹/۳);حج كے دن :(انكى خصوصيات ۹/۳);حج ميں اظہار برائت : (اس كا اعلان ۹/۳)

حدود:انكے احكام ۹/۱۲نيز رك غلام

حدود خدا :انكے پاسدار ۹/۱۱۲; حدود خدا كى خصوصيات ۹/۹۷;حدود سے جہالت : ۹/۹۷(اس كا سبب ۹/۹۷)

نيز رك ذكر اور مؤمنين

حرام خوري: رك عيسائي علما، يہودى علم

۶۶۳

حرمت والے مہينے ۹/۵،۳۶:

انكا فلسفہ ۹/۳۶; انكا قديم ہونا ۹/۳۶; انكى حرمت: (اسكى تحليل ۹/۳۷; اسكى حفاظت ۹/۳۶; اسكى ہتك حرمت ۹/۳۶) انكے احكام ۹/۲،۵،۳۶;ان ميں امنيت ۹/۲ ; ان ميں تبديلى ۹/۳۷(اسكے آثار ۹/۳۷) يہ اديان ميں ۹/۳۶; يہ جاہليت ميں ۹/۳۷نيز رك جنگ، كافر لوگ، مشركين اورمقابلہ بہ مثل

حروف مقطعہ :(ان سے مراد ۱۰/ ۱ ; انكى اہميت ۱۰/۱)

حزن :رك غم و اندوہ//حساب:شرعى حساب: (اس كا معيار ۱۰/۵)

حسد :رك منافقين//حسرت: رك منافقين

حسن نيت :اسكے آثار ۹/۹۱نيز رك جہاد

حشر:اسكى خصوصيات ۱۰/۴۵نيز رك انسان،باطل معبود ، قيامت اور مشركين

حق: ۱۰/۱۰۸حق پر صبر: (اسكى پاداش ۹/۱۱۷ ;اسكى قدر و قيمت ۹/۱۱۷;اسكے آثار ۱۰/۱۰۹; );حق دشمن لوگ ۱۰/۷۴(انكا ايمان ۱۰/۵۱; انكا فساد پھيلانا ۱۰/۸۲; انكا مجرم ہونا ۱۰/۸۲; انكى شكست ۱۰/۸۲; انكى شكست كاحتمى ہونا ۱۰/۸۱; يہ مہلك عذاب كے وقت ۱۰/۵۱);حق دشمني: (اس كاسبب ۹/۷۴، ۱۰/۸۲; اسكے آثار ۱۰/۷۴; اسكے عوامل ۱۰/۴۴);حق سے روگردانى :( اس كا گناہ ۹/۷۷ ; اسكى سزا ۹/۷۷; اسكے آثار ۹/۷۴ ); حق شناسى : (اسكى اہميت ۱۰/۱۰۸; اسكے موانع ۱۰/۱۰۱);حق شنوائي : (اس سے محروم لوگ ۱۰/۴۲);حق كا استمرار :۱۰/۸۲ (اسكے اسباب ۱۰/۸۲);حق كا نقش و كردار ۱۰/۳۲;حق كو بيان كرنا: (اسكى اہميت ۹/۷۰);حق كو قبول كرنا: (اسكى اہميت ۱۰/۶۷، ۹۴; اسكے موانع ۱۰/۷۵);حق كو قبول كرنے والے اور توحيد ۱۰/۶۷;حق كو قبول نہ كرنا: (اس كاسبب ۱۰/۷۵; اسكے آثار ۹/۸، ۷۰; اسكے عوامل ۱۰/۷۵);حق كو قبول نہ كرنے والے :۹/۸ (انكى ہدايت ۱۰/۴۲);حق كى اتباع : ۱۰/۱۰۹ (اسكى مشكلات ۱۰/۱۰۹);حق كى اہميت : ۹/۳۳، ۱۰/۳۲;حق كى دعوت : (اسكى پاداش ۱۰/۷۲);حق كى كاميابى ۹/۴۸ (اس كا حتمى ہونا ۱۰/۸۲; اسكے عوامل ۱۰/۸۲);حق كى مشكلات : (ان پر صبر ۱۰/۱۰۹);حق و باطل ۱۰/۸۱

نيز رك : امتيں ، انبياء، جہاد، حق طلب لوگ، حق طلبى ، عيش و عشرت ميں رہنے والے لوگ;فرعون ، كفار، مبلغين، محمد(ص) ; مسرفين اور منافقين//حقانيت :

۶۶۴

اس كا معيار ۹/۳۱، ۳۳

حقائق:حقائق سے محروم ہونا ۹/۸۷; حقائق كا ظاہر ہونا: (اسكے عوامل ۹/۴۲); حقائق كو برعكس پيش كرنا ۹/۴۸; حقائق كو ثابت كرنا: (اسكے لئے قسم ۱۰/۵۳); حقائق كو درك كرنا: ( اخروى حقائق كو درك كرنے سے محروم لوگ ۹/۸۱;اخروى حقائق كو درك كرنے كى اہميت ۹/۸۱)نيز رك قيامت ، منافقين اور موت

حق طلب لوگ:حق طلب لوگوں كى دعا(اس كا قبول ہونا ۱۰/۸۹); حق طلب لوگوں كى ذمہ دارى ۱۰/۴۱

يہ اور مستكبرين ۱۰/۸۹

حق طلبى :حق طلبى ميں سستى : (اسكى مذمت ۱۰/۸۹)نيز رك حق طلب لوگ

حقوق:امربالمعروف والا حق ۹/۷۱; حقوق ميں مساوات ۹/۱۱; حق ولايت ۹/۷۱; نہى عن المنكر والا حق ۹/۷۱

نيز رك انسان ، بنى اسرائيل ، رشتہ دار ، رشتہ دارى ، مسلمان اورمؤمنين

حكومت :آئيڈيل حكومت ۹/۱۲۳; عالمى دينى حكومت ۹/۱۲۳

حكومت اسلامي:اسكى ذمہ دارى ۹/۶۰نيز رك اہل كتاب

حلال :اسكو حرام كرنا ۹/۳۱، ۱۰/۵۹، ۶۰

حماقت: رك مؤمنين

حمد:حمد خدا : ۹/۱۱۲، ۱۰/۱۰نيز رك بہشتى لوگ، مجاہدين اورمؤمنين

حمد كرنے والے :ان سے مراد ۹/۱۱۲//حمزہ:انكے فضائل ۹/۱۹//حوصلہ بڑھانا:رك جہاد، متقين اور مجاہدين

حوصلے كا كمزور ہونا:اسكى نشانياں ۹/۸۷

حيات:اسكے اسباب ۹/۸۹; حيات اخروي:(اس كا دائمى ہونا ۹/۲۲، ۶۳، ۶۸، ۷۲; اس كا سبب۹/۱۰۰;اسكى اہميت ۹/۱۰۰; اسكى برترى ۹/۳۸; )دائمى حيات:۹/۸۹;يہ جنكے شامل حال ہے ۹/۲۲

حيات جسمانى : (يہ آخرت ميں ۹/۸۲);حيات دنيوى : (اسكى قدر و قيمت ۹/۳۸);حيات كا خير ہونا ۹/۸۹;حيات كا دوام:(اسكے عوامل ۱۰/۶۷);حيات كا سرچشمہ ۹/۱۱۶، ۱۰/۵۶; حيات معنوى : (يہ آخر ت ميں ۹/۷۲)نيز رك عقيدہ

خاندان:خاندان كى ضرورت پورى كرنا (اس سے عاجز ہونا ۹/۹۱)خانہ سازي: رك بنى اسرائيل

۶۶۵

''خ''

خبرو احد:اسكى حجيت ۹/۱۲۲//خدا :خدا اور اولاد ۱۰/۶۸،۶۹،۷۰; خدا اور جہالت ۱۰/۱۸; خدا اور زكات لينا ۹/۱۴۰; خدا اور ظلم ۹/۷۰، ۱۰/۴۴، ۵۴;خدا اور عاجز ہونا ۹/۷۱;خدا اور عزت ۱۰/۶۵; خدا اور مسجد ضرار بنانے والے ۹/۱۱۰; خدا اور نقص ۱۰/۱۰، ۱۸، ۶۸ ; خدا سے مختص امور۹/۲، ۳، ۱۳، ۳۱، ۶۲، ۷۴، ۱۰۴، ۱۱۱، ۱۱۶، ۱۱۸، ۱۲۹; ۱۰/۳، ۴، ۵، ۱۰، ۱۸، ۲۰، ۳۰، ۳۱، ۳۴، ۳۵، ۳۸، ۴۰، ۴۹، ۵۵، ۵۶، ۵۹، ۶۵، ۶۸، ۱۰۴،۱۰۶، ۱۰۹(اسكى نشانياں ۱۰/۶۶); خدا شناسى : (اس كا سبب ۱۰/۶; اسكے دلائل ۱۰/۱۷; اسكے راستے ۱۰/۱۰۱; ناقص خداشناسى كے آثار ۹/۷۸; يہ تاريخ ميں ۱۰/۱۹; يہ سختى ميں ۱۰/۲۲; يہ غرق ہونے كے وقت ۱۰/۲۲; يہ مجبورى كے وقت ۱۰/۲۲);خدا كا اتمام حجت كرنا ۱۰/۴۷;خدا كا احسان : ۹/۲۵، ۱۲۸;خدا كااذن : ۹/۱۰۳، ۱۰/۳; خدا كا ارادہ ۹/۳۲، ۳۳، ۵۲، ۵۵، ۱۱۱(اس كاحتمى ہونا ۹/۷۴; اس كا دائرہ كار ۱۰/۴۹; اس كا وقوع پذير ہونا ۹/۴۰، ۸۵; اسكى تاثير ۹/۱۱۶; اسكى حكمرانى ۹/۶۴; اسكے وقوع پذير ہونے كا سبب ۹/۳۳، ۵۲; اسكے وقوع پذير ہونے كا مقام ۹/۱۴، ۴۰; اسكے وقوع پذير ہونے كى نشانياں ۹/۴۸); خدا كا ارادہ تكوينى ۱۰/۱۰۷;خدا كا ازلى ہونا ۹/۱۱۶;خدا كا اظہار براء ت ۹/۳ ;خدا كا افشا كرنا: ۹/۸، ۴۲، ۵۶، ۶۴، ۶۵;خدا كا بے نظيرہونا ۹/۳۱، ۶۲; ۱۰/۱۰; خدا كا توبہ كو قبول كرنا ۹/۱۰۴، ۱۱۸; خدا كا حكم ۹/۸۴ ;خدا كا درگزر ۹/۴۳; خدا كا ڈرانا ۱۰/۷۳;خدا كا رازق ہونا: ۱۰/۳۱، ۳۲، ۵۹;خدا كاراضى ہونا: ۹/۲۱، ۲۲، ۵۹، ۶۲، ۱۰۰، ۱۱۵(اس كا سبب ۹/۱۰۰، اسكى اہميت ۹/۶۲، ۷۲، ۹۶، ۱۰۰، ۱۰۹; اسكى برترى ۹/۶۲، ۷۲; اسكى طرف توجہ نہ كرنے كے آثار ۹/۶۳; اسكے آثار ۹/۷۲، ۱۰۰; اسكے عوامل ۹/۲۱، ۶۲، ۹۶، ۱۰۹; اسكے موانع ۹/۹۶);خدا كاعدل و انصاف ۱۰/۴،۲۷ ،۴۷ ، ۵۴ ; خدا كاعذاب ۹/۳۹، ۵۲، ۵۵، ۶۶، ۷۰، ۷۹، ۸۰، ۸۵، ۱۰/۲۱ (اس كا حتمى ہونا ۹/۶۹; اسكى خصوصيات ۱۰/۷۱); خدا كا علم : ۹/۱۵، ۲۸، ۴۲، ۴۴، ۹۴، ۱۰۱، ۱۰۳ ، ۱۱۰، ۱۱۶، ۱۰/۲۳، ۳۶ (اسكى خصوصيات ۹/۶۰، ۷۸، ۹۴، ۱۱۵; اسكى نشانياں ۹/۶۰; اسكے آثار ۹/۱۰۶،۱۱۵; خدا كا علم عالم خلقت كے بارے ميں ۱۰/۱۸); خدا كا علم غيب: ۹/۸، ۱۶، ۴۴، ۴۷، ۷۴، ۷۸، ۹۴، ۹۸، ۱۰۵، ۱۰۷، ۱۰/۲۰(اسكے آثار ۹/۱۰۵); خدا كا علمى احاطہ : ۹/۱۰۱، ۱۰۵، ۱۰/۱۸، ۶۱; خدا كا عہد ۹/۱۱۱(اسكى وفا كى شرائط ۹/۱۱۲); خدا كا غضب : ۹/۷۴، ۱۱۵(اس سے نجات كى روش ۹/۱۱۸); خدا كا غفار ہونا : (اسكى نشانياں ۱۰/۱۰۷); خدا كا فضل :۹/۲۸، ۷۴، ۱۰۲، ۱۱۵،

۶۶۶

۱۰/۱۰۷; (اس كا دوام ۱۰/۶۰; اس كا سبب ۹/۵۹، ۷۵; اس كا عام ہونا ۱۰/۶۰; اسكى اہميت ۱۰/۵۸; اسكى خصوصيات ۱۰/۶۰;اسكى نشانياں ۹/۲۸، ۱۲۱ ، ۱۰/۵۸، ۶۰; اسكے موارد ۹/۷۵، ۷۶); خدا كا فضل و تفضل۹/۲۸،۷۴، ۱۰۲، ۱۱۵، ۱۰/۱۰۷; (اس كا اخروى فضل ۱۰/۲۷);خدا كا فيض: (اس سے محروم رہنے كے عوامل ۹/۱۱۵; اس كا واسطہ ۹/۷۴); خدا كا كافى ہونا ۹/۵۹، ۱۲۹; خدا كا كمال: ۱۰/۱۰، ۱۸;خدا كا گمراہ كرنا ۹/۱۱۵; خدا كا لطف و كرم: (اس سے محروم ہونے كے عوامل ۹/۶۷; اس كا سبب ۹/۶۷; اسكے آثار ۱۰/۱۲; خدا كاخاص لطف ۹/۴۳); خدا كى طرف سے مذاق اڑايا جانا ۹ /۶۸، ۷۹; خدا كا مكر : ۱۰/۲۱ (اسكى خصوصيات ۱۰/۲۱; اس كے آثار ۱۰/۲۱); خدا كا نجات دينا ۱۰/۱۰۳;خدا كا نقش و كردار ۱۰/۱۰;خدا كا نور: ۹/۳۲(اس كا دائمى ہونا ۹/۳۲; اسے خاموش كرنا۹/۳۲; اسے مكمل كرنے كا سبب ۹/۳۳); خدا كو نقصان پہنچانا ۹/۳۹; خدا كى امداد ۹/۲۵، ۲۶، ۴۰، ۱۲۳; ۱۰/۷۳(اس سے محروم ہونے كے عوامل ۹/۲۶; اسكے آثار ۹/۲۵، ۲۶); خدا كى بخشش: ۹/۶۶، ۹۱(اسكى خصوصيات ۹/۵، ۱۰۶; اسكى نشانياں ۹/۵، ۲۷، ۹۱، ۱۰۲; اسكے آثار ۹/۹۹); خدا كى بشارتيں ۹/۲، ۱۴، ۲۱، ۱۰۰، ۱۱۱، ۱۱۲; ۱۰/۶۴، ۸۷(انكا سبب ۱۰/۶۴; انكى اہميت ۱۰/۶۴; انكے آثار ۱۰/۶۴; انكے وقوع پذير ہونے كے عوامل ۹/۷۱); خدا كى بے نيازى ۹/۴۱، ۱۰/۳۵، ۶۸(اسكى نشانياں ۹/۳۹، ۴۰; اسكے دلائل ۱۰/۶۸); خدا كى پاداش ۹/۲۲، ۷۱، ۷۲، ۱۲۰، ۱۲۱(خدا كى اخروى پاداش ۹/۱۰۵; خدا كى پاداش ميں فضل۱۰/۲۷);خدا كى پاداش كى ضمانت كے عوامل ۹/۱۰۵; خدا كى پيشين گوئي:(اس كاسرچشمہ ۹/۱۱۰); خدا كى تعليمات ۱۰/۳۴، ۳۵، ۳۸; خدا كى تنزيہہ ۹/۳۱، ۷۰; ۱۰/۱۰، ۱۸، ۴۴، ۶۸; خدا كى حكمت :۹/۱۵، ۲۸، ۶۰، ۷۱، ۱۱۰(اسكى نشانياں ۹/۴۰، ۶۰; ۱۰/۵; اسكے آثار ۹/۱۰۶); خدا كى حكمرانى : ۹/۲، ۱۱۶، ۱۲۹; ۱۰/۳، ۳۲، ۱۰۹(اس كا سبب ۹/۱۱۶; اسكى نشانياں ۹/۱۱۶); خدا كى خاص رحمت: ۹/۲۱، ۷۱(اسكے عوامل ۹/۷۱); خدا كى خالقيت : ۱۰/۳، ۴، ۶، ۳۱، ۳۲; خدا كى چاہت۹/۸۴، ۱۰۲، ۱۱۸، ۱۲۶; خدا كى طرف سے دعوت: ۹/۱۵، ۷۴، ۱۱۹، ۱۰/۲۵، ۵۱(اس كى خصوصيات ۹/۱۵); خدا كى دوستى : (اسكے آثار ۱۰/۶۲); خدا كى دھمكياں : ۹/۲، ۳،۱۶، ۲۴، ۳۹، ۷۴، ۸۱، ۹۴، ۱۰۱; ۱۰/۲۰، ۲۱، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۶۰، ۷۳، ۹۳، ۱۰۲ ; خدا كى دھمكياں ۹/۶۶، ۶۸; خدا كى را فت : (اسكے آثار ۹/۱۷ ;اس كا سبب ۹/۱۱۷); خدا كى ربوبيت: ۱۰/۲، ۳، ۱۵، ۱۹، ۳۲، ۳۷، ۵۷، ۷ ۶; (اسكو جھٹلانا ۱۰/۳۱; اسكى اہميت ۱۰/۳، ۳۱، ۸۵; اسكى شؤوں ۱۰/۹۶; اسكى نشانياں ۱۰/ ۵، ۶، ۲۲، ۲۴، ۳۱، ۳۲; اسكے آثار ۱۰/۲، ۳، ۹، ۱۹، ۳۳، ۳۷، ۵۳، ۵۷، ۶۱، ۸۸، ۹۳، ۹۴، ۹۶، ۹۹، ۱۰۸ ; اسكے دلائل ۱۰/۶، ۱۰۱; اسے جھٹلانے كے عوامل ۱۰/۷; خدا كى

۶۶۷

اخروى ربوبيت۱۰/۳۰); خدا كى رحمت: ۹/۵، ۲۱، ۱۱۸، ۱۰/۸۶(اس كا اخروى تقدم ۹/۷۱; اس كا سبب ۹/۹۹، ۱۰۲، ۱۱۷; اس كا مقدم ہونا ۹/۷۴; اسكى اہميت ۱۰/۵۸; اسكى خصوصيات ۱۰/۲۱; اسكى نشانياں ۹/۵، ۶۹، ۹۱، ۱۰۲، ۱۰۴، ۱۱۸، ۱۰/۲۱، ۵۸، ۱۰۷; اسكى وسعت ۱۰/۲۱; اسكے آثار ۹/۱۱۷، ۱۰/۱۲; اسكے موارد ۹/۱۱۸); خدا كى طرف سے سزا: ۹/۶۷، ۶۸، ۷۷، ۷۹، ۸۲، ۱۱۵، ۱۱۸، ۱۲۷; (اسكى طرف سے اخروى سزا ۹/۱۰۵; اسكى خصوصيات ۹/۷۰، ۱۰۶، ۱۱۵، ۱۰/۵۴; اسكى نشانياں ۹/۷۰; اسكے عوامل ۹/۱۰۵); خدا كى سنتيں : ۹/۱۶، ۳۹، ۴۰، ۶۹، ۷۰ ،۱۱۵، ۱۲۱، ۱۲۶، ۱۰/۱۱، ۱۹، ۴۷، ۷۴، ۸۱، ۸۲، ۹۶، ۹۷، ۱۰۲(انكا حتمى ہونا ۱۰/۶۴، ۱۰۳; انكى حكمرانى ۹/۲; انكے آثار ۱۰/۸۱); خدا كى شان : ۹/۱۱۵;خدا كى صفات : ۹/۲۸; (اسكى صفات ذات ۹/۱۱۶); خدا كى ضمانت ۹/۱۱۱ ;خدا كى طرف بيٹے كو نسبت دينا :۹/۳۰(اسكى تاريخ ۹/۳۰); خدا كى طرف جاہلانہ نسبت دينا ۱۰/۶۹ (اسكى مذمت ۱۰/ ۶۸); خدا كى طرف سے امتحان : ۹/۱۶، ۱۲۶; ۱۰/۱۴ (اس كا عام ہونا ۹/۱۶;اسكے آثار ۹/۱۲۶ ;اس كا امتنان ہونا ۹/۲۵،۱۲۸); خدا كى طرف سے تسلى ۱۰/۶۵، ۷۳; خدا كى طرف سے تشويق ۹/۱۰۴; ۱۰/۹۲;خدا كى طرف سے تقدير : ۹/۵۱، ۱۰/۴۹(اس كا حتمى ہونا ۱۰/۴۹); خدا كى طرف سے تنبيہہ: ۹/۱۶، ۳۴، ۴۷، ۶۲، ۶۳، ۷۸، ۹۶، ۹۷، ۱۰۱، ۱۰۵، ۱۰/ ۵۱، ۷۳;خدا كى طرف سے توفيق : ۹/۴۶(اسكى اہميت ۹/۱۱۸) ;خدا كى طرف سے حمايت :۹/۱۲۹; ۱۰/۲۱;(اس كا سبب ۱۰/۹، ۱۰۹;خداكى طرف سے دلجوئي ۹/۹۲، ۹۳، ۱۲۹، ۱۰/۱۰۹ ; خدا كى طرف سے عذاب كا وعدہ ۹/۶۶، ۶۸;خدا كى طرف سے لعنت ۹/۶۸;خدا كى طرف سے مذمت : ۹/۱۳، ۱۹، ۲۴، ۳۰، ۳۱، ۳۵، ۳۸، ۴۳، ۵۴، ۶۲، ۶۹، ۷۰، ۷۸، ۸۱، ۸۳، ۸۷، ۹۰، ۹۳، ۱۲۶، ۱۰/۱۶، ۲۱، ۳۲، ۵۱، ۵۹، ۶۸، ۹۱، ۹۳; خدا كى طرف نسبت دينا: (اسكى شرائط ۱۰/۶۸); خدا كى عزت : ۹/۷۱; ۱۰/۶۵(اسكى نشانياں ۹/۴۰ ; ۱۰/۶۶);خدا كى غيبى امداد: ۹/۲، ۲۵، ۲۶(اسكے آثار ۹/۲۵);خدا كو فراموش كرنا : (اس سے مراد ۹/۶۷، اسكى سزا ۹/۶۷; اسكى نشانياں ۹/۶۷;اسكے آثار ۹/۶۷);خدا كى قدرت : ۹ /۳، ۳۹، ۱۱۶، ۱۱۸، ۱۲۹، ۱۰/۴، ۳۴، ۳۵، ۱۰۷ (اس كا سرچشمہ ۱۰/۵۶; اسكى حكمرانى ۱۰/۱۰۷; اسكى خصوصيات ۹/۳۹; اسكى نشانياں ۹/۴۰، ۷۰، ۱۰/۵۵، ۵۶);خدا كى قضاوت ۱۰/۲۸، ۱۰۹ (اسكى اخروى قضاوت ۱۰/۹۳; اسكى خصوصيات ۱۰/۵۴);خدا كى كتاب ۱۰/۱۶، ۱۷;خدا كا كلام :۹/۶، ۱۰/۱۵(اس ميں عسى ۹/۱۰۲); خدا كى گواہي: ۹/۴۲، ۱۰۷، ۱۰/۴۶ (خدا كى اخروى گواہى ۱۰/۲۹; گواہى كى خصوصيات ۱۰/۲۹); خدا كيلئے علت كى نفى ۹/۱۱۶; خدا كى مالكيت : ۹/۱۷، ۱۸، ۱۲۹، ۱۰/ ۳۰، ۳۱، ۵۵، ۶۶، ۶۸(اس كى اخروى مالكيت

۶۶۸

۱۰/۳۰، اسكے آثار ۱۰/۵۶، ۶۶; خدا كى مالكيت اور توحيد ۱۰/۶۶); خدا كى محبت : (اس كا سبب ۹/۴، اسكے عوامل ۹/۷);خدا كى مشيت : ۹/۱۵، ۲۷، ۲۸، ۵۱، ۵۲، ۱۰۶، ۱۰/۴۹(اس كاحتمى ہونا ۱۰/۹۹; اس كا دائرہ كار ۱۰/۴۹; اس كا سرچشمہ ۹/۲۸; اسكى اہميت ۱۰/۲۵، ۴۹، ۹۹; اسكى تاثير ۹/۱۱۶; اسكى خصوصيات ۹/۱۰۶; اسكے آثار ۱۰/۱۲، ۱۹); خدا كى مہربانى : ۹/۵(اسكى نشانياں ۹/۲۷; اسكے آثار ۹/۹۹);خدا كى طرف سے مہلت : (اس كا سرچشمہ ۱۰/۱۹); خدا كى ناپسندى ۹/۴۶، ۴۷; خدا كى نسبت بے رغبتى : (اسكى نشانياں ۹/۵۹); خدا كى نصرت :۹/۲۶،۴۰(اسكى اہميت ۹/۲۵; اسكى خاص نصرت ۹/۴۰; اسكے آثار ۹/۲۵، ۴۰); خدا كى نصيحت ۹/۲، ۳، ۴، ۷، ۵۳، ۵۵، ۹۵، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۲۹; ۱۰/۱۴، ۲۸، ۸۹، ۱۰۵;خدا كى نظارت :۹/۹۴; ۱۰/۱۴، ۶۱(اسكے عوامل ۱۰/۶۱) ; خدا كى نعمتيں ۹/۲۱، ۴۰، ۱۱۵; ۱۰/۶۷، ۹۳;خدا كى نفرين : ۹/۳۰، ۱۲۷;خدا كى نواہى ۹/۳۶، ۵۵، ۸۴، ۸۵، ۹۴، ۱۰۸، ۱۰/۲۵، ۵۱، ۸۹، ۱۰۵، ۱۰۶;خدا كى ولايت :۹/۵۱، ۱۱۶، ۱۰/۳۰ (اخروى ولايت ۱۰/۳۰);خدا كى ہدايت : ۹/۲۴، ۸۰، ۱۰/ ۲۵، ۳۵(اس سے روگردانى كرنا ۱۰/۳۵; اس سے محروم رہنے كے عوامل ۹/۱۱۵; اس كا سبب ۱۰/۹; اسكے آثار ۹/۹۴،۱۰/۹);خدا كے افعال: ۹/۲۷، ۳۶، ۴۰، ۵۱، ۱۱۸; ۱۰/۲۰، ۲۴، ۳۰، ۴۷، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۸۱، ۸۲، ۸۹، ۹۰، ۹۲، ۹۳، ۱۰۰، ۱۰۳، ۱۰۷ ; (انكا مقام ۱۰/۲۲; ان ميں حكمت ۹/۶۶); خدا كے اوامر ۹/۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۲، ۲۹، ۳۶، ۴۱، ۷۳، ۸۴، ۱۰۳، ۱۲۳; ۱۰/ ۸۷، ۹۲(انكا سرچشمہ ۹/۱۰۳; انكى خصوصيات ۹/۱۵; انكى مخالفت كے آثار ۹/۱۱۵);خدا كے ساتھ عہد :۹/۷۵،۷۶ (اس كا سبب ۹/۷۵);خدا كے عطيے ۹/۲۶، ۵۵، ۷۶; ۱۰/۸۸، ۱۰۳(انكا سبب ۹/۵۹; ان سے راضى ہونا ۹/۵۹ ; ان سے ناخوش ہونا ۹/۵۹);خدا كے كلمات : ۱۰/۸۲(انكا حتمى ہونا ۱۰/۶۴); خدا كے وعدے: ۹/۲۸، ۵۹، ۷۱، ۷۲، ۹۹; ۱۰/۴، ۲۰، ۶۵، ۱۰۹(انكا حتمى ہونا ۹/۱۰۴، ۱۱۱، ۱۰/۴، ۵۵، ۶۴; انكا حق ہونا ۱۰/ ۴، ۵۵; انكا سرچشمہ ۹/۷۱; انكى سند ۹/۱۱۱; انكے وقوع پذير ہونے كى نشانياں ۱۰/۵۵; انكے وقوع پذير ہونے كے عوامل ۹/۷۱، ۱۰/۵۳)

نيز رك : اطاعت ، اقرار، اميدواري، ايمان ، بہتان باندھنا، پناہ طلب كرنا، توكل ، حمد، خدا پر بہتان باندھنے والے; خدا كا فضل; خدا كا لطف، خدا كى امداد، خدا كى را فت ، خدا كے عطيے ، خدا كے كارندے ، خدا كے محبوب، خدا كے مغضوب ، خوف ، دشمن، دشمني، دوستى ، ذكر ، ربوبيت، رضاء خدا، سر تسليم خم كرنا، شكر، ضروريات، عبادت، عقيدہ، غفلت، كفر، محبت، محمد(ص) ، مدد طلب كرنا، نافرمانى ، وسيلہ بنان

خدا پر بہتان باندھنے والے:( انكا انجام ۱۰/۱۷; انكو دھمكى ۱۰/ ۶۰; انكى فطرت ۱۰/۱۷)

۶۶۹

خدا كا فضل:اس سے محروم لوگ ۱۰/۱۰۷; يہ جنكے شامل حال ہے۹/۵۹ ، ۱۰/۱۰۷

خدا كى رضا:اس سے محروم لوگ ۹/۹۶; يہ جنكے شامل حال ہے ۹/۷۲، ۱۰۰

خدا كى سنتيں :امتحان كى سنت ۹/۱۶،۱۲۶; تدريج والى سنت ۹/۵۵; مہلت والى سنت ۱۰/۱۱،۱۹;مہلت عذاب والى سنت ۱۰/۴۷،۱۰۲; نجات دينے والى سنت ۱۰/۱۰۳ ; ہدايت والى سنت ۹/۱۱۵

خدا كى طرف بازگشت : ۱۰/۴، ۳۰، ۵۶، ۷۰، ۱۰۴

(اس كا حتمى ہونا ۹/۹۴، ۱۰۵، ۱۰/۷۰; اس كا وعدہ ۱۰/۴)نيز رك ذكر

خدا كى عطائيں :يہ جن كے شامل حال ہے ۹/۵۹

خدا كى ملاقات :خدا كى ملاقات كا وقت ۹/۷۷، ۱۰/۷، ۱۵;

خدا كى ملاقات كو جھٹلانا:(اسكے آثار ۱۰/۸)نير رك اميد ركھنا اور قيامت

خدا كى مہربانى :اس سے محروم لوگ ۹/۶۷; يہ جنكے شامل حال ہے ۹/۴۳

خدا كے پيغمبر (ص) : ۹/۳۳، ۶۱، ۱۰/۱۶، ۴۷

خدا كے كارندے ۹/۱۴، ۵۲، ۱۰/۳

خدا كے محبوب لوگ: ۹/۴،۷،۴۳،۸۵،۱۰۸،۱۰/۶۲

خدا كے مغضوب لوگ : ۱۰/۲۷

خرافات :رك جاہليت

خرد :رك عقل

خزانہ:اس سے مراد ۹/۳۴; اسكى كيفر ۹/۳۴(اسكى اخروى كيفر۹/۳۵) ; اسكى مقدار ۹/۳۴)

خسارہ: رك نقصان

خشوع :رك ابراہيم

خصومت: رك دشمني

خضوع :اسكى اہميت ۹/۱۷، ۱۸نيز رك دعا

خطا :

۶۷۰

ناقابل بخشش خطا ۹/۴۳نيز رك جنگ ، خطاكار لوگ او ررہبري

خطا كار لوگ:ان كے ساتھ سلوك (اسكى روش ۹/۱۱۸) ان كے ساتھ رابطہ (اسے ترك كرنا۹/۱۱۸)

خلقت: رك خاص موارد

خوارى :رك ذلت

خواہش پرستى :اس سے اجتناب كرنا : (اسكى اہميت ۱۰/۱۵)

خوبصورتى : رك تمايلات

خود:اپنے پر ظلم ۹/۳۶، ۷۰، ۱۰/۲۳; اپنے خلاف اقرار ۹/۷۵; (اسكے آثار ۱۰/۴۴)

خودپسندى :رك عجب

خود سر لوگ :انكا سرور ۱۰/۲۳; يہ آخرت ميں ۱۰/۲۳

خود فراموشى :اس كا سبب ۹/۶۷

خوشبختى : رك سعادت

خوشخبري: رك بشارت

خوش فہمى : رك مسلمان اور مؤمنين

خوشى :رك سرور

خوف:اسكے آثار ۹/۵۶; بنى اسرائيل كے بڑے لوگوں كے شكنجوں كا خوف ۱۰/۸۳;خوف اور اميد ۹/۱۰۲; خوف جنگ : ۹/۳;خوف خدا : (اسكى اہميت ۹/۱۳،۱۸); خوف دور كرنے كے عوامل ۱۰/۶۲، ۶۳، ۶۴،۸۴; دشمن كا خوف ۹/۱۳; عذاب اخروى كا خوف:(اسكے آثار ۱۰/۱۵); غير خدا كا خوف : ۹/۱۳،۱۸; فرعون كے شكنجوں كا خوف ۱۰/۸۳; فقركا خوف : (اسكے آثار ۹/۲۸);نيز ر ك اولياء خدا ، بنى اسرائيل ، ظالم لوگ ، محمد(ص) ، مسلمان اور منافق لوگ

خوف و وحشت : رك سرزمين اور فرعون

خيانت: رك منافقين خيانت كرنے والے : رك اسلام اور محمد(ص)

خير:اس سے محروم لوگ ۹/۶۷، ۸۸; اس كا سبب ۹/۸۸; اسكے عوامل ۹/۱۰۵; اسكے موارد ۹/۳، ۸۹; خير كا استحقاق : (اس كا معيار ۱۰/۱۰۷);خير كا حاصل كرنا ۹/۸۸نيز رك خير خواہ لوگ اور خير خواہي

۶۷۱

خير خواہ لوگ:خدا كے خير خواہ لوگ ۹/۹۱نيز رك محمد(ص)

خير خواہي:اسكے آثار ۹/۹۱; خدا كيلئے خير خواہى ۹/۱۹نيز رك جہاد، خير خواہ لوگ، دين ، دينى راہنما اور محمد(ص)

''د''

دار السلام :(اس سے مراد ۱۰/۲۵)

دارالكفر: ۱۰/۸۶

اس سے ہجرت ۱۰/۸۶نير رك قبطى لوگ

درجہ بدرجہ والى روش : ر ك خدا كى سنتيں

دريا:دريا كا طوفان: (اسكے عوامل ۱۰/۲۲); دريائي موجيں : (انكے عوامل ۱۰/۲۲)نيز رك بنى اسرائيل ، دريانوردى كرنے والے اور دعا

دريانوردى كرنے والے :انكى خوشنودى ; انكى خوشنودى كے عوامل ۱۰/۲۲

دشمن:خدا كے دشمن : ۹/۱۰۷ ،۱۱۴ (انكى شكست ۹/۱۱۱); دشمن پر سختى كرنا ۹/۱۲۳;دشمن پر غضب ۹/۱۲۳; دشمن كا امن۹/۲(اس سے امن چھين لينا ۹/۵); دشمن كا تسلط:(اسكے آثار ۹/۸); دشمن كا محاصرہ : (اس كے اٹھانے كى شرائط ۹/۵); دشمن كا مقابلہ : (اسكے آثار ۹/۲۸); دشمن كو مہلت ۹/۲; دشمن كى امداد:(اسكے آثار ۹/۴،۱۰۹); دشمن كى دوستى : (اس كا ناقابل اعتبار ہونا ۹/۸); دشمن كى ذلت : (اس كا سبب ۹/۱۴; اسكى شرائط ۹/۱۴; اسكے عوامل ۹/۱۴); دشمن كى سركوبي:(اسكى اہميت ۹/۱۳); دشمن كى موت:(اس كا سبب ۹/۱۴);دشمن كى نابودي: (اسكى شرائط ۹/۱۴);دشمن كى ہلاكت: (اسكے عوامل ۹/۱۴); دشمن كے ساتھ رابطہ ۹/۱۶; دشمن كے ساتھ معاہدہ ۹/۴; عہد شكنى كرنے والے دشمن ۹/۲،۱۴نيز ر ك آزر، اسلام ، اظہار براء ت ، جنگ ، جہاد، دوستى ، دين ، قرآن ، محمد (ص) ،مسلمان ، منافقين ، موسى (ع) اور مؤمنين

دشمنى :اسلام سے دشمنى : (اس كا سرچشمہ ۹/۹۸);انبياء سے دشمنى :(اسكى سزا ۱۰/۳۹);توحيد سے دشمنى ۹/۱۳;خدا سے دشمني۹/۶۳(اسكے آثار ۹/۶۳); دشمنى كا سرچشمہ ۱۰/۳۹; محمد (ص) سے دشمنى ۹/۱۳; ۶۳ (اس كا سرچشمہ ۹/۹۸; اسكے آثار ۹/۶۳)نيز ر ك آزر ، دشمن ، عيسائي ، عيسائي علما ، فرعون ،

۶۷۲

فرعونى لوگ ، قوم نوح ، محمد (ص) ، مشركين ، منافقين ، يہودى اور يہودى علم

دعا :اسكى اہميت ۹/۹۹،۱۰/۱۲; اسكے آداب ۱۰/۸۶، ۸۸ ;اس ميں توسل ۱۰/۸۸; اس ميں خضوع ۱۰/۸۸; ب-ے چارگى كے وقت دعا ۱۰/۲۲; پسنديدہ دعا ۱۰/۸۸ ; خالصانہ دعا : (اس كا قبول ہونا ۱۰/۲۳; اسكے آثار ۱۰/۱۲); دريا كے طوفان كے وقت دعا ۱۰/۲۲ ; دعا كا قبول ہونا : (اسكى شرائط ۱۰/۸۹); دعا كے عوامل ۱۰/ ۱۲; دعا ميں استقامت ۱۰/۸۹; سختى ميں دعا ۱۰/۱۲;ظالموں سے نجات كى دعا ۱۰/۸۵; كفار سے نجات كى دعا ۱۰/۸۶; ہجرت كى دعا ۱۰/۸۶

نيز ر ك ابراہيم ، انسان ، انفاق كرنے والے ، بنى اسرائيل ، بہشتى لوگ ، حق طلب لوگ ، دينى خدمت گزار لوگ، دينى راہنما ، زكات ، قبطى لوگ ، گناہ گار لوگ ، محمد (ص) ، مرد ے، مشركين ، منافقين ، موسى (ع) ، مؤمنين اور ہارون

دعوت :اس كا فلسفہ ۱۰/۱۰۸

دفاع:اسكى اہميت ۹/۳۶;دفاع حرمت والے مہينوں ميں ۹/۳۶نيز ر ك جنگ

دل :دل پر مہر لگنا: (اس كا سبب ۹/۸۷، ۹۳; اسكے آثار ۹/۹۳; ۱۰/۷۴،۸۸; اسكے عوامل ۱۰/۷۴)

دل كا كردار و تاثير ۱۰/۷۴، ۸۸; دل كى بيمارى :(اسكى نشانياں ۹/۱۲۵; اسكے آثار ۹/۱۲۵); وہ جن كے دلوں پر مہر ہے (انكا ايمان ۱۰/۸۸ )نيز رك مؤمنين اور منافقين

دلجوئي : ر ك جہاد ، خدا ، گناہ گار لوگ ، مجاہدين اور محمد(ص) (ص)

دن :اس ميں كوشش ۱۰/۶۷;دن اور توحيد ربوبى : ۱۰/۶۷; دن كا روشن ہونا ۱۰/۶۷; دن كى خلقت : (اس كا فلسفہ ۱۰/۶۷); دن كى گردش ۱۰/۶نيز رك شب اور نعمت

دنيا :اس كا بے امن ہونا ۱۰/۲۴; اس كا فريب دينا ۱۰/۲۴; اس كا كردار ۱۰/۱۴; دنيا سے ناپسنديدہ استفادہ ۱۰/۲۳;دنيا كا آنا:(اسكے آثار ۱۰/۲۲)

دنيا كا پشت كرنا(اسكے آثار ۱۰/۲۲); دنيا كا ختم ہو جانا ۱۰/۳۴;دنيا كو آخرت پر ترجيح دينا ۹/۳۸; دنيا كے بارے ميں جہالت : (اسكے آثار ۱۰/۲۴) ; دنيا مقام عمل ۱۰/۲۳، ۲۷، ۳۰نيز ر ك آخرت ، دنيا طلب لوگ ، دنيا طلبي

دنيا طلب لوگ :۹/۹;۱۰/۷

انكو دھمكى ۹/۲۴; انكى خواہش ۹/۳۸نيز ر ك مثاليں

۶۷۳

دنيا طلبي:اس سے اجتناب ۱۰/۲۴; اس سے نہى ۱۰/۲۵; اس كا سبب ۱۰/۷; اس كا فسق ہونا ۹/۲۴; اس كا ناپسنديدہ ہونا ۱۰/۷; اسكى مذمت ۹/۲۴، ۳۸، ۶۹; ۱۰/۷، ۲۴; اسكى نشانياں ۹/۳۸; اسكے آثار ۹/۹; ۲۴; ۳۸; ۹۸; ۱۰/۸; ۲۳; اسكے عوامل ۹/۴۱، ۱۰/۲۴نيز ر ك دنيا طلب لوگ ; عيسائي علما; كفار ; مشركين ، منافقين اور يہودى علم

دور انديشي:اسكى نشانياں ۱۰/۲۴

دوزخ : ر ك جہنم دوزخى لوگ : ر ك جہنمى لوگ

دوستى :اسلام كے دشمنوں كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; حرام دوستى ۹/۲۳;خدا كے ساتھ دوستى ۹/۱۶; دشمن كے ساتھ دوستى ۹/۱۶; دين كے دشمنوں كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; (اس كا حرام ہونا ۹/۲۳)كافر باپ كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; كافر بھائي كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; كافر رشتہ داروں كے ساتھ دوستى ۹/۲۳; كفار كے ساتھ دوستى ۹/۲۳(اس كا حرام ہونا ۹/۲۳; اسكے آثار ۹/۲۳; اسكے احكام ۹/۲۳); محمد(ص) سے دوستى ۹/۱۶; مؤمنين كے ساتھ دوستى ۹/۱۶

نيز ر ك خدا ، دشمن ، كفار ، محمد (ص) ، مشركين اور مؤمنين

دولت :ر ك حكومت//دو نيكيوں ميں سے ايك:اس سے مراد ۹/۵۲

دين :دشمنان دين ۹/۱۰۷; (انكا انجام ۹/۲۶; انكو مہلت ۱۰/۴۶; انكى امداد كے آثار ۹/۱۰۹; انكى ذلت ۹/۱۴; انكى سازش ۹/۱۲۴; ان كى سزا ۹/۲۶; انكى شكست ۹/۱۴، ۲۶; يہ اور قرآن كے معارف ۹/۱۲۴); دين اور رہائش گاہ ۱۰/۸۷; دين اور سياست ۱۰/۷۸; دين جاويد ۹/۳۲; دين حق ۹/۲۹،۳۳(اس سے مراد ۹/۳۳; اسكى كاميابى ۹/۳۳); دين حنيف ۱۰/۱۰۵(اس سے انحراف ۱۰/۱۰۵); دين سے جاہل ہونا : (اسكے آثار ۹/۹۸); دين سے سوء استفادہ كرنا ۹/۷۴; دين شناسى :(اس كا پيش خيمہ ۹/۱۲۲; اسكى اہميت ۹/۱۲۲)دين فروشى : (اس كا ناپسنديدہ ہونا ۹/۹)

دين كا ادراك كرنا :(اس سے محروم ہونا ۹/۸۷; اس كا سبب ۹/۹۷);دين كا سيكھنا۹/۱۲۲(اس كا فلسفہ ۹/۱۲۲; اسكى اہميت۹/۶);دين كا قبول كرنا ۹/۱۰۰;دين كا محكم و ثابت ہونا : (اس ميں مؤثر عوامل ۹/۱۱۱);دين كا مذاق اڑانا ۹/۶۴; دين كا مقابلہ :(اس كا سبب ۹/۹);دين كو جھٹلانا : (اس كا سبب ۱۰/۳۹ );دين كو سمجھنا ۹/۱۲۲(اس كا فلسفہ ۹/۱۲۲; اس كا وجوب ۹/۱۲۲; اسكى اہميت ۹/۱۲۲;اسكے احكام ۹/۱۲۲);دين كى اجتماعى ذمہ دارى ۱۰/۸۷;دين كى امداد :(اسكے آثار ۹/۱۰۰);دين كى اہانت : (اس كا جرم ۹/۶۵);

۶۷۴

دين كى اہانت كرنے والے:(انكى توبہ ۹/۷۴); دين كى اہميت ۹/۲۸;دين كى تبليغ: (اس كا وجوب ۹/۱۲۲; اسكى اہميت ۹/۱۲۲،۱۰/۱۵;اسكى پاداش ۱۰/۷۲; اسكے احكام ۹/۱۲۲); دين كى تحريف (اس كا گناہ ۱۰/۱۵،اس كا ممنوع ہونا ۱۰/۱۵،اسكے آثار۱۰/۱۵); دين كى حفاظت كرنے والے ۹/۹۰; دين كى حمايت : (اسكى قدر و قيمت ۹/۱۰۰،۱۰۱); دين كى قدر و قيمت ۹/۹، ۴۱، ۱۱۱; دين كى كاميابى ۹/۲; دين كى مخالفت : (اس سے خوش ہونا ۹/۸۱); دين كى وحدت ۱۰/۴۷; دين كے اركان ۹/۱۸; دين كے اصول ۱۰/۱۰۴;دين كے اہداف : ( انكا وقوع پذير ہونا ۹/۱۴);دين كے ساتھ كھيلنا ۹/۶۵ (اس كا حرام ہونا ۹/۶۵);دين كيلئے خير خواہ ہونا ۹/۹۱;دين ميں اجبار:(اسكى نفى ۱۰/۹۹،۱۰۸);دين ميں اختيار ۱۰/۹۹، ۱۰۸(اس كا سرچشمہ ۱۰/۹۹; اسكے دلائل ۱۰/۹۹);ضروريات دين ۹/۱۱

نيز ر ك اديان ، امتيں ، پہلے پہلے انسان ، جزيرة العرب ، جنگ ،دوستى ، ديندارى ، علما ،كفار اور منافقين

ديندارى :اسكے درجے ۹/۱۱۹; اس ميں منافقت ۹/۶۴; يہ تاريخ ميں ۱۰/۱۹; يہ سختيوں ميں ۹/۱۰۰

دينى روابط:انكى اہميت ۹/۱۱۳

دينى رہنما :انكا مقام۹/۱۲۰; انكى اطاعت نہ كرنا۹/۱۲۰; انكى تاثير ۹/۸۳، ۱۰۴; انكى ذمہ دارى ۹/۶۰، ۶۱، ۷۳ ، ۸۴، ۹۴، ۹۹، ۱۰۳، ۱۰۸، ۱۰/۱۵، ۱۶، ۴۱، ۸۹، ۱۰۴، انكى صفات ۹/۶۱; انكے اختيارات : ۹/۴۹ ، ۵۸، ۵۹، ۶۶، ۸۳ (انكا دائرہ اختيار ۹/۱، ۷، ۸۶) ;ان كيلئے خير خواہى ۹/۹۱; دينى راہنما اور زكات لينا ۹/۱۰۳; دينى راہنماؤں كا پيش قدم ہونا۹/۱۰۸(اسكى اہميت ۹/۸۸); دينى راہنماؤں كا شكريہ ادا كرنا: (اسكى اہميت ۹/۹۹); دينى راہنماؤں كى اتباع كرنا ۹/۱۲۰ ; دينى راہنماؤں كى دعا : (اسكے آثار ۹/۱۰۳); دينى راہنماؤں كى شرعى ذمہ دار ى ۹/۱۰۳ ;دينى راہنماؤں كى ہمراہى : (اسكے موانع ۹/۸۳); دينى راہنماؤں كے ہمراہ جنگ كرنا : (اسكى قدر و قيمت ۹/۸۳);يہ اور اطاعت نہ كرنے والے ۹/۹۴; يہ اور صدقات لينا ۹/۱۰۳، ۱۰۴;يہ اور لوگ ۱۰/۱۶; يہ اور لوگوں كى باتوں پر كان دھرنا ۹/۶۱; يہ اور منافقين ۹/۶۶، ۸۴ /نيز رك اطاعت، مسلمان اور منافقين

''ڈ''

ڈر: ر ك خوف

ڈرانا : ر ك تربيت ، خدا ، قرآن ، قوم نوح ، گمراہ لوگ ، لوگ ، معاشرہ اور ہدايت

۶۷۵

''ذ''

ذكر :آتش جہنم كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۹/۸۲);اخروى سزاؤں كا ذكر كرنا:(اسكے آثار ۹/۸۱); اقتصادى مشكلات كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۹/۲۸); امور كے انجام كا ذكر كرنا ۹/۸۵; تاريخ كا ذكر كرنا ۹/۲۵; توحيد كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۱۰/۱۰۵; اسكے آثار ۹/۱۲۹); جنگ ميں شركت نہ كرنے والوں كے عمل كا ذكر كرنا :(اسكى اہميت ۹/۹۴); حدود خدا كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۹/۱۲۳); حيات اخروى كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۹/۳۸); خدا كا ذكر كرنا : (اس كا سبب ۹/۷۵; اسكى اہميت ۱۰/۱۲; اسكى روش ۱۰/۱۰۴; اسكے آثار ۹/۶۷، ۱۰۸ ; اسكے عوامل ۱۰/۲۲; يہ آسائش كى حالت ميں ۱۰/۱۲; يہ سختى ميں ۱۰/۱۲); خدا كى امداد كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۹/۱۲۳); خدا كى حكمرانى كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۳); خدا كى حمايت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۹/۱۲۳); خدا كى خالقيت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۳); خدا كى خصوصيات كا ذكر كرنا:(اسكے آثار ۱۰/۶۵); خدا كى ربوبيت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۳،۱۵);خدا كى رحمت كا ذكر كرنا ۹/۱۰۴; خدا كيطرف بازگشت كا ذكر كرنا ۹/۹۴; خدا كى عزت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۶۵); خدا كى نظارت كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵; خدا كے توبہ قبول كرنے كا ذكر كرنا ۹/۱۰۴; خدا كے سننے كا ذكر كرنا :(اسكے آثار ۱۰/۶۵); خدا كے علم كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۶۵);خدا كے علم غيب كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵; ذكر كے آثار ۹/۱۰۵; عمل پر نظر ركھنے والوں كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵(اسكے آثار ۹/۹۴); غزوہ حنين كا ذكر كرنا ۹/۲۵; قيامت كا ذكر كرنا : (اسكى اہميت ۱۰/۲۸،۴۵); محمد(ص) كى نظارت كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵;محمد(ص) كے فضائل كا ذكر كرنا ۹/۱۲۸; منافقين كى خيانت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۹/۹۴); منافقين كى سازش كا ذكر كرنا:(اسكے آثار ۹/۹۴); منافقين كے عمل كا ذكر كرنا : (اسكى ہميت ۹/۹۴); موت كا ذكر كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۱۰۴); مؤمنين كى نظارت كا ذكر كرنا ۹/۱۰۵; ناپسنديدہ عمل كا ذكر كرنا : (اسكے عوامل ۱۰/۲۲)

ذكر كرنے والے:سختى ميں خدا كا ذكر كرنے والے ۱۰/۱۲

ذلت :اخروى ذلت : (اسكے عوامل ۹/۶۳; اسكے مرتبے ۱۰/۲۷); ذلت كا سبب ۹/۹۳; ذلت كے عوامل ۹/۶۳، ۸۶

نيز ر ك بنى اسرائيل ، ثروتمند لوگ ، جہاد ، جہنم دشمن ، دين ، غزوہ تبوك ، كفار ، گناہ گار لوگ ، مشركين اور منافقين

ذمہ دارى :اجتماعى ذمہ دارياں ۹/۷۱; دينى ذمہ دارياں : (انكى حفاظت كرنا ۹/۱۲۲);ذمہ دارى سے فرار ۹/۴۹، ۷۶; ذمہ دارى كے عوامل ۹/۱۲۰; ذمہ دارى كا سرچشمہ ۹/۷۰;ذمہ دارى كى تقسيم ۹/۱۲۲ (اسكى حفاظت ۹/۱۲۲)

۶۷۶

''ر''

رات:اس ميں آرام ۱۰/۶۷; اس ميں تاريكى ۱۰/۶۷;رات اور توحيد ربوبى ۱۰/۶۷; رات اور دن كا فرق ۱۰/۶;رات كى خلقت : (اس كا فلسفہ ۱۰/۶۷); رات كى گردش ۱۰/۶;رات ميں سونا ۱۰/۶۷نيزرك تشبيہات اور نعمت

راز دارى : رك منافقين

راضى ہونا :اچھے عمل پر راضى ہونا : (اسكے آثار ۱۰/۴۱);خدا سے راضى ہونا ۹/۱۰۰(اسكے آثار ۹/۱۰۰); ناپسنديدہ عمل پر راضى ہونا : (اسكے آثار ۱۰/۴۱)

راہب : رك عيسائي علم

راہ خدا :اسكى اہميت ۹/۱۱۱، ۱۱۲; اسكى قدر و قيمت ۹/۱۹، ۲۰، ۲۴، ۳۴، ۳۸، ۴۱، ۸۱، ۱۲۰; راہ خدا سے ممانعت : ۹/۹ ، ۱۳۴(اس كاسبب ۹/۹); راہ خدا كى تقويت: (اسكى اہميت ۹/۶۰);راہ خدا كى سختى ۹/۱۲۰; راہ خدا كے موانع ۱۰/۸۸

ربوبيت :خدا كى ربوبيت كو جھٹلانے والے ۱۰/۳، ۱۸،۳۱; غير خدا كى ربوبيت : (اس كا باطل ہونا ۱۰/۳۰)

رحمت :اس سے محروم لوگ ۹/۶۸; اس سے محروم ہونا (اسكے آثار ۹/۶۸) اس كا سبب ۹/۱۱۸; اسكے عوامل ۱۰/۱۲; رحمت جنكے شامل حال ہے ۹/۲۱، ۲۲، ۷۱، ۹۹، ۱۱۷، ۱۱۸، ۱۰/۱۰۷; رحمت كا سرچشمہ ۹/۷۴; رحمت كا وعدہ ۹/۹۹

نيز ر ك مؤمنين

رخنہ اندازي:اسكے آثار ۹/۴۷نيز ر ك مجاہدين اورمنافقين

رزق: رك روزي

رشتہ دار :رشتہ داروں كے حقوق: (انكى اہميت ۹/۸، ۱۰; ان كے سلسلے ميں تجاوز كرنے كے عوامل ۹/۱۰); رشتہ داروں كے سلسلے ميں تجاوز كرنے والے ۹/۱۰

كافر رشتہ دار: (انكے ساتھ رابطہ ۹/۲۴)نيز رك دوستى ، محبت

رشتہ داري:(اسكى قدر و قيمت ۹/۱۱۳); رشتہ دارى كے حقوق:(اسے ضائع كرنا ۹/۸; ان سے بے اعتنائي ۹/۸، ۱۰)

نيز رك رشتہ دار، جذبات، محبت ، محمد(ص) اور مشركين

۶۷۷

رفاقت :رك دوستى

رفاہ و آسائش:اسكى اہميت ۱۰/۲۱، اسكے آثار ۹/۷۴، ۱۰/۱۲، ۲۱نيز رك ذكر ، شكر ، كفار، مسلمان، مشركين اور منافقين

رفاہ و آسائش طلبى :رك منافقين

ركوع :اسكى اہميت ۹/۱۱۲نيز رك ركوع كرنے والے ، مجاہدين، مؤمنين اور نماز

ركوع كرنے والے :ان سے مراد ۹/۱۱۲

رمى جمرات ۹/۳

رنج:طويل رنج: (اسكے اسباب ۹/۸۲)

روايت:۹/۱، ۲، ۳، ۵، ۱۸، ۱۹، ۲۳، ۲۵، ۲۶، ۲۸، ۲۹، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۴۰، ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۵۰،۵۲، ۵۵، ۵۸، ۶۰، ۶۱، ۶۶، ۶۷، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۶، ۷۷، ۷۹، ۸۴، ۹۱، ۹۲، ۹۴، ۱۰۰، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۸، ۱۰۹، ۱۱۱، ۱۱۲، ۱۱۴، ۱۱۵، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۲، ۱۲۵، ۱۲۸، ۱۲۹، ۱۰/۱، ۲، ۳، ۹، ۱۰، ۱۸،۲۰، ۲۳، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۳۹، ۴۰، ۴۴، ۵۰، ۵۴، ۵۷، ۵۸، ۶۲، ۶۴، ۷۴، ۸۴، ۸۵، ۸۷، ۸۹، ۹۰، ۹۱، ۹۲، ۹۴

روح:اس كا باقى رہنا ۹/۵۵، ۸۵; اس كا جدا ہونا ۹/۸۵

روزى :اس سے استفادہ كرنا ۱۰/۵۹; اس كا حرام كرنا ۱۰/۵۹;اس كا سرچشمہ ۱۰/۳۱، ۵۹; اس كا فراہم كرنا ۱۰/۳۱; اس كا فلسفہ ۱۰/۵۹; اس كا نازل ہونا ۱۰/۵۹،۶۰; اسكے منابع ۱۰/۳۱نيز رك انسان اور بنى اسرائيل

رہائش گاہ :رہائش گاہ اديان ميں ۱۰/۹۳; رہائش گاہ تيار كرنا : (اسكى اہميت ۱۰/۸۷)نيز رك بنى اسرائيل اور مؤمنين

رہبر:اسكى استقامت ۱۰/۸۹; اسكى اہميت ۹/۱۳; اسكى ذمہ دارى ۹/۴۸، ۱۲۸; اسكى سعادت خواہى ۹/۱۲۸ ; اسكى شان ۹/۸۶; اسكى شرائط ۱۰/۱۰۹; اسكى صفات ۹/۱۲۸;اسكى مہربانى ۹/۱۲۸; اسكے اختيارات ۹/۲۹، ۴۳، ۱۰۳;رہبر كى خطا: (اس سے در گزر كرنا ۹/۴۳);رہبر كى را فت اور نرمى ۹/۱۲۸; رہبر كى ہوشيارى : (اسكى اہميت ۹/۴۸) ; رہبر كے قريبى لوگ : (انكى ذمہ دارى ۹/۱۲۰);يہ اور جاہل لوگ ۱۰/۸۹; يہ اور لوگوں كى سعادت ۹/۱۲۸ نيز رك موسى (ع)

رہنمائي كرنا: ر ك تبليغ

ريا: رك منافقين

۶۷۸

''ز''

زبو ں حالي: رك ذلت

زكات:اس پر مجبور كرنا ۹/۱۰۳; اسكى اہميت ۹/۵، ۱۱،۱۸، ۷۱، ۱۰۳، ۱۰۴; اسكى پاداش ۹/۷۲; اسكے آثار ۹/۵، ۱۸، ۷۱، ۱۰۳، ۱۰۴; اسكے احكام ۹/۶۰، ۱۰۳

زكات ادا كرنا: (اس كا دوام ۹/۷۱);زكات دينے والا: (اسكے سكون كے عوامل ۹/۱۰۳; اسكے لئے دعا ۹/۱۰۳);زكات سے مانعين : (انكا عذاب ۹/۳۵);زكات سے ممانعت: (اس كا گناہ ۹/۳۵);زكات كا جن چيزوں كے ساتھ تعلق ہوتا ہے ۹/۱۰۳; زكات كا فلسفہ ۹/۱۰۳; زكات كى تاريخ ۹/۹۸; زكات كى تشويق ۹/۱۰۴; زكات كے مصارف ۹/۶۰ ;زكات لينے والا: (اسكو نصيحت ۹/۱۰۳; حقيقى زكات لينے والا ۹/۱۰۴);زكات نہ دينا : (اسكے آثار ۹/۱۰۳); زكات نہ دينے والے : (انكى نالائقى ۹/۱۸);يہ صدر اسلام ميں ۹/۹۸نيز رك اميدوارى ، باديہ نشين لوگ، توبہ كرنے والے ، جہاد، دينى رہنما، گناہ گار لوگ، محمد(ص) ، منافقين اور نيك لوگ

زمين :اس كا حادث ہونا ۹/۳۶; اس كا حاكم ۹/۱۱۶، ۱۰/۳; اس كا خالق ۱۰/۳;اس كا مالك ۹/۱۱۶; اسكى تدبير ۱۰/۳; اسكے فوائد ۱۰/۳۱; اسكے موجودات ۱۰/۱۰۱ ;زمين كى خلقت : (اسكى تاريخ ۱۰/۳; اسكى مدت ۱۰/۳; اسكے مراحل ۱۰/۳)

زمين كى زينت ۱۰/۲۴نيز رك انسان

زنا: رك غلام

زندگى :اجتماعى زندگي:(اسكى تاثير ۱۰/۱۶; اسكى تاريخ ۱۰/۱۹);برزخى زندگى : (اس كا وقت ۱۰/۴۵); دنيوى زندگى :(اس كا وقت ۱۰/۴۵);فردى زندگى : (اسكى تاثير ۱۰/۱۶); زندگى كى نعمت ۱۰/۹۳نيز رك انسان ، بنى اسرائيل ، كفار اورمثاليں

زندہ :اسے مرد ے سے نكالنا ۱۰/۳۱نيز رك مردہزہد:اس كا سبب ۱۰/۷; اسكى اہميت ۹/۵۵

زيارت : رك اہل قبور

زيركى :رك منافقين

۶۷۹

''س''

ساجدين :ان سے مراد ۹/۱۱۲

ساحر : رك جادوگر//سازش كرنے والے :انكا عذاب ۱۰/۲۱; انكو دھمكى ۱۰/۲۱نيز رك انبياء

سال اور مہينہ :بارہ مہينوں كا بہت پہلے سے ہونا ۹/۳۶; سال كا كردار ۱۰/۵; سال كے موسموں كا تبديل ہونا ۱۰/۶; سال كے مہينوں كى تعداد ۹/۳۶نيز رك امتحان ، ذى الحج، ذيقعدہ، رجب، صفر، محرم سال كا حساب:اسكے وسائل ۱۰/۵

سالكين :انكى خصوصيات ۱۰/۸۴

سائحين:ان سے مراد ۹/۱۱۲

سپاہ: رك فوج

ستائش :رك حمد

ستم :رك ظلم

ستم گر لوگ: رك ظالم لوگ

سجدہ:اسكى اہميت ۹/۱۱۲

نيزر ك مجاہدين ، مؤمنين ،اور نماز

سچائي : ر ك صداقت

سچے لوگ: رك صادقين

سحر: رك جادوسختى :اسكے آثار ۹/۴۲، ۱۰/۱۲، ۲۲; اس ميں اطمينان ۹/۴۰; راہ خدا ميں سختى برداشت كرنا: ۹/۱۲۰(اسكى پاداش ۹/۱۲۰)اسكى قدر و قيمت ۹/۱۲۰ ; سختى سے نجات :( اسكے عوامل ۱۰/۱۲); سختى كا سبب ۹/۱۲۰; سختى ميں استقامت : (اسكے عوامل ۱۰/۸۴)نيز رك : اطاعت ، افشاء كرنا ، انسان ، ايمان ، جنگ، جہاد، خدا كا ذكر كرنے والے ، دعا، دينداري، عذاب، عمل، غزوہ تبوك، غزوہ حنين، محسنين، مشركين ، منافقين اور مؤمنين

سرتسليم خم كرنا:اسكا مقام (اسكى قدر و قيمت ۱۰/۸۴); خدا كى مشيت كے سامنے سر تسليم خم كرنا ۹/۵۱ ; خدا كے

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746