شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام 0%

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات: مشاہدے: 15050
ڈاؤنلوڈ: 2700

تبصرے:

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15050 / ڈاؤنلوڈ: 2700
سائز سائز سائز
شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

علوی معاشرہ:

ہماری خواہش ہے کہ ہماری زندگی، ہماری حکومت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی اور انکی حکومت کے مطابق ہو جائے ہم چاہتے ہیں ہماری حکومت میں مکمل طور پر اسلامی عدالت کا نفاذ ہو جائے جو شخص بھی اس حکومت میں زندگی بسر کر رہا ہے اسکا فریضہ ہے کہ وہ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے تلاش و کوشش کرے ۔

ہمارا فریضہ ہے کہ کوئی ایسا طریقہئ کار اپنائیں کہ ہمارا معاشرہ ہمارا نظام حکومت سب کا سب علوی معاشرے اور علوی حکومت کی طرح ہو جائے تنہا اسلام اسلام کرنا اور ولایت کا دم بھرتے رہنا ہی کافی نہیں ہے خصوصاً جن لوگوں کے کاندھوں پر کوئی حکومتی منصب ہے۔ وہ عدلیہ ہو، یا مجلس شورای اسلامی ہو (پارلیمنٹ) یا پھر مقام صدارت و ریاست بھی اجرائ قوانین کی منزل یا پھر دوسرے حکومتی ادارہ جات اوردیگر مراکز وغیرہ...زبان و عمل میں سب طریقہ کار بالکل امیرالمومنین علیہ السلام جیسا ہونا چاہیے۔

مقصد محرومین اور عوام کی خدمت ہو:

امیرالمومنین علیہ السلام خدا کے لئے اوراسکی راہ میں کام کرتے تھے، لوگوں کے ہمدم اور ہمدرد تھے ان سے لگاو تھا اور عوام کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے اس کے باوجودکہ آپکی حکومت کا مقصد پسماندہ لوگوں کی امداد تھا پھر بھی راتوں کو تن تنہا ایک ایک پسماندہ اور معاشرے کے دبے کچلے لوگوں کے پاس جاتے تھے اورانکی مدد کرتے تھے۔یہ امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی تھی،ہمارا راستہ بھی وہی ہے کہ طاغوتی حکومتوں نے جس لحاظ سے بھی لوگوں کومحروم و پسماندہ کر دیا ہے ہم انکی مدد کے لئے دوڑیں یہی امیرالمومنین علیہ السلام کا راستہ تھا یہی درس ہے جسے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ۲ نے علی علیہ السلام سے سیکھا تھا اور ہمارے سامنے اسے پیش کیا ہمیں اسی راستے میں چلنا چاہیے۔

ظلم کے خلاف جنگ:

علی علیہ السلام ہر منزل پر ہر جگہ پر چاہے جس نام سے یاد کئے گئے ہوں ظلم کے خلاف ایک مسلسل جنگ کرنے والے مجاہد تھے۔ذرا آپ امیرالمومنین علیہ السلام کی دشوار گذار زندگی کے مراحل پر ایک نظردوڑائیں،دیکھیں تو سہی انہوں نے کن لوگوں سے جنگیں لڑی ہیں،کسی صلاحیت و شہامت کا مظاہرہ کیا ہے، مدمقابل کون لوگ تھے کیسے پرفریب ناموں کے زیرسایہ علی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے آئے تھے،مگر پھر بھی آپ جنگ کو ٹالتے رہتے تھے یہاں تک کہ جب آپکے لئے عیاں ہوجاتا کہ یہ ظلم ہے یہ باطل ہے تو پھر کوئی رعایت نہیں کرتے تھے، یہی ہمارا بھی راستہ ہے، ایک دشوار گذار راستہ کہ جسے بہرحال ہمیں طے کرنا ہے اور یہی ان تمام پیروان امیرالمومنین علیہ السلام کا راستہ ہے جو آپکی محبت و غلامی کا دم بھرتے ہیں یعنی ظلم و ظالم سے لڑائی چاہے وہ کسی بھی صورت میں نہ ہو جس سطح پر ہو اور چاہے جس انداز سے بھی لڑنا پڑے۔

اخلاص حضرت علی علیہ السلام :

علی ابن ابی طالب (علیہ الصلوۃ والسلام) کے سلسلہ میں جو کچھ بھی کہا جائے کم ہے اسلئے کہ آپکی آفاقی شخصیت ذہن میں سمانے اور بیان کے دائرے سے خارج ہے مجھ جیسے لوگ آپ کی تہہ در تہہ شخصیت کے بارے میں کسی ایک پہلو کو بھی بیان کرنے سے عاجز ہے مگر چونکہ آپ نمونہ عمل ہیں اسلئے ہمیں آپکو اپنی بساط و توانائی کے اعتبار سے پہچاننا بھی ضروری ہے۔

ممکن نہیں کوئی علی علیہ السلام کی سدرہ نشین شخصیت تک اپنی کمتر فکر ڈال سکے اسلئے کہ یہ بات ہمارے دیگر بزرگ آئمہ علیھم السلام نے ہم سے کہی ہے ایک روایت جس میں امام باقرعلیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام کے زھد و عبادت اور دیگر خصوصیات کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’وما اطاق عمله منّا احد ‘‘(۱)

ہم میں سے کوئی بھی آپ جیسے عمل کو انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا یعنی :حتی خود امام صادق ، امام باقر علیہ السلام اور ائمہ ہدی بھی جہاں امیرالمومنین علیہ السلام پہنچے ہوئے ہیں نہیں پہنچ سکتے ۔اس روایت کے مطابق امام نے آگے فرمایا: ’’وان کان علی بن الحسین علیه السلام لینظر فی کتاب من کتب علی علیه السلام (۲) ایک دن آپکے والد حضرت علی بن الحسین امیرالمومنین علیہ السلام کی کسی کتاب کو دیکھ رہے تھے۔ یقینا یہ کتاب آپکی زندگی کا دستورالعمل تھا جس کے مطابق آپنے اپنی زندگی گذاری تھی۔

کہ ایک مرتبہ پڑھتے پڑھتے ’’فیضرب به الارض ‘‘(۳) اسے زمین پر رکھ دیا اور پھرفرمایا’’و یقول من یطیق هذا؟‘‘( ۴) کون ہے جو اسقدر عمل انجام دے سکتا ہو؟ یعنی امام سجاد علیہ السلام جو کہ سید العابدین اور زین العابدین ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کی عبادتوں اور زہد و پارسائی کے مقابلے میں خود کو عاجز سمجھتے ہیں ،خود امیرالمومنین علیہ السلام نے عثمان بن حنیف کو اس خط میںلکها’’الا وانّکم لا تقدرون علی ذالک ‘‘(۵) جسطرح میں عمل کر رہا ہوں تم اسطرح نہیں کر سکتے واقعیت بھی یہی ہے جو کچھ تاریخ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں ہم تک عبادت و ریاضت کے بارے میں نقل کیا ہے آدمی جب اسپر نظر ڈالتا ہے تو پھر انسان کو اپنی ناتوانی کااحساس ہونے لگتا ہے۔

اس بنیاد پر موضوع سخن یہ نہیں کہ ہمارا معاشرہ مثل علی علیہ السلام ہو جائے بلکہ موضوع گفتگو یہ ہے کہ معاشرے کے افراد کو کس راستے کی طرف لے جایا جائے مخصوصاً ایک اسلامی حکومت کے سربراہوں کو کون سا راستہ اپنانا ہوگا اور زندگی کس نمونے کے مطابق گذارنا ہوگی یہ ہے گفتگو کا مقصد اور یہ ہے راستہ....

علی علیہ السلام بام عروج پر:

ذات علی(علیہ السلام) کچھ ایسے عناصر کا مجموعہ ہے کہ اگر ایک بلند مرتبہ انسان وہاں تک پہنچنا بھی چاہے تو نہیں پہنچ سکتا اور انکی عظمتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔دنیاسے لاتعلقی ،خواہشات ولذائذ سے بے پروائی اور دنیا کی زرق برق چیزوں سے دوری جہاں ایک عنصر ہے، آپکا پیکراں علم جسکے بارے میں بہت سے مسلمان دانشمنداور تمام بزرگان شیعہ اس پر متفق ہیں کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علم و دانش میں علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے یہ آپ کی شخصیت کا ایک دوسرا پہلو ہے اور مختلف میدانوں میں آپ کی فداکاری اور جانثاری کا انوکھا انداز بھی انہیں عناصر کا ایک جز ہے ۔

وہ چاہے میدان سیاست ہو یا میدان سیر وسلوک یا کوئی اور میدان ۔آپکی عبادتوں کا طریقہ اپنی جگہ پر ایک جداگانہ عنصر ہے ، عدل و مساوات کی جو مثال آپ نے قائم کی ہے وہ خود عدالت اسلامی کی مکمل تفسیر ومجسم کی حیثیت سے آپکے تہہ در تہہ وجود کا ایک اور عنصر ہے۔معاشرے کے مختلف طبقات جیسے فقیر،غلام وکنیز،بچے عورتیں وغیرہ کے ساتھ آپکا نرمی سے پیش آنا ان سے محبت ،اور پسماندہ ،دبے کچلے لوگوں کے ساتھ بھی محبت کا برتاوآپکی زندگی کا ایک اور نمایاں پہلو ہے۔

ہروہ ترقی جو آپکی زندگی کے مختلف مراحل میں نظر آتی ہے وہ بھی انہیں عناصر کا ایک جز ہے فصاحت و بلاغت حکمت و دانائی یہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ آپکے مجموعہ عناصر کے اجزائ میںسے ہیں جن کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے ہمارے ایک بزرگ عالم جناب قطب راوندی آپکے زہد کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: جس وقت کوئی شخص علی علیہ السلام کی ان باتوں کو جو انہوں نے زہد کے بارے میں ارشاد فرمائی ہیں دیکھتا ہے اور وہ یہ نہیں جانتا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے (یعنی ایک ایسا انسان جو اپنے زمانے میں دنیاکے ایک بڑے حصے پر حکمرانی کر رہا تھا)توا سے شک و شبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ کلام ایک ایسے شخص کا ہے جسکا کام ہی فقط عبادت وبندگی تھا’’لایشک انّه کلام من لا شغل له بغیر العبادة ‘‘’’ولا حظّ له فی غیرالزّهادة ‘‘ اور بجز زہد و پارسائی انکا کوئی اور شیوہ ہی نہیں تھا ’’وهذا من مناقبه العجیبة التی جمع جهاتین الاضداد ‘‘ اور یہ ہیں آپ کے وہ حیرت انگیز مناقب جو آپکی شخصیت میں متضاد صفتوں کو یکجا کرتے ہیں۔

اخلاص اور جوہر عمل :

میں آج جس نکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کا اخلاص عمل:ہم کو چاہئیے کہ اس صفت کو اپنے روزمرہ کے کاموں کا جوہر قرار دیں جیسا کہ یہی صفت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی کی روح رہی ہے یعنی آپ اپنے کاموں کو فقط اور فقط خدا کی خوشنودی کے لئے انجام دیتے تھے اور آپ اپنے کسی بھی عمل سے سوائے قربۃالی ا? اور خدائی فرض کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتے تھے۔

میرے خیال میں علی علیہ السلام کی ذات میں یہ ایک حقیقت ایسی ہے جو اپنی جگہ پر بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے بچپنے سے اپنی جوانی کی عمر تک آغوش نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب کہ آپ نے اسلام کو تمام سختیوں اور مشقتوں کے بدلے اپنی جان کے بدلے خریدا تھا جگہ جگہ پر اس خلوص کا ثبوت دیا۔

انہوں نے ایک محترمانہ آسایش و آرام اور اشرافیت کو کہ جو کسی قرشی زادہ کی عیش و عشرت کے لئے میسرتھی صرف خداکے لئے نظرانداز کر دیا اور تیرہ سال کی مدّت حیات میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانہ بشانہ کفر کے خلاف جنگ کرتے رہے اور اسکے بعد شب ہجرت حضرت علیہ السلام کے بستر پر سوئے کہ اگر کوئی آپکے اس کا رنامہ پر غور و فکر کرے تو اسے پتہ چلے گا کہ آپ نے اس ایک عظیم فداکاری کا ثبوت دیا ہے کہ جسے ایک انسان پیش کر سکتا ہے یعنی یقینی اور حتمی طور پر موت کے مقابل تسلیم ہوجانا ۔اور موقع پر صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنا ہی پوچھا کہ کیا میرے سونے سے آپ بچ جائیں گے تو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ہاں میں بچ جاؤں گا تو آپ نے عرض کی، تو میرا سونا حتمی ہے ۔

اس جگہ پر وہ عیسائی مصنف کہ جنکی نگاہ اسلامی اور شیعی بھی نہیں ہے اور ہمارے دین سے بھی خارج ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں ’’امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ عمل تنہا سقراط کے اس عمل سے ہی قابل موازنہ ہے جو معاشرے کی مصلحت کے لئے خود اپنے ہاتھوںسے زہر کا پیالہ پی لیتا ہے‘‘ یعنی اس شب میں مسلم جانثاری عمل اور اخلاص تھا۔نہ جانے کتنے حکمراںہیںجو ایسے موقع پر فائدہ اٹھانے کی فکر کرتے ہیں اپنے لئے سوچتے ہیںلیکن آپ ایسے موقع پر خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان بچانے کی فکر میں ہیں۔

فقط رضائے الہی

غزوات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھئے جنگ احدمیں کہ جب چند انگشت شمار لوگوں کے علاوہ بقیہ سبھی فرار کر گئے تو اسوقت امیرالمومنین علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دفاع کیا۔جنگ خندق پر نظر ڈالئے جہاں سارے مجاہدین عمروبن عبدود کے مقابلے سے ہٹ گئے اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باربار اس سے مقابلہ کے لئے اجازت طلب کرتے ہیں اسی طرح جنگ خیبر ہو یا آیہ برآت کی تبلیغ،رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سقیفہ نبی ساعدہ میں جانشینی کا مسئلہ ہو یا پھر خلیفہ دوم کی وفات کے بعد شوری کی تشکیل کا مرحلہ ہر ہر جگہ پر امیرالمومنین علیہ السلام نے فقط خوشنودی خداکو پیش نظر رکھا اور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں الہی چیز کا انتخاب فرمایا جو انکے لئے مفید تھی اور رضائے الٰہی کا سبب تھی اور کہیں بھی آپ نے اپنی ’’انا‘‘ کو درمیان میں نہیں آنے دیا۔آپکی خلافت ظاہری کا زمانہ ہو یا ۲۵ سال تک آپکی خانہ نشینی ، خلفائ کی امداد کے لئے آپکا جانا ہو یا پھر اپنی خلافت ظاہری کے دوران مختلف احزاب کے مقابل اپنے موقف کا اظہار یا اس جیسے دیگر اور مقامات، پر وہی علی ہیں جسے خدا پسند کرتا ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکا انتخاب کرتا ہے، خدا کا ایک خالص اور مخلص بندہ، اور یہی وہ خصوصیت ہے کہ جسکا ایک ذرہ ہی سہی مگر ہم اپنی زندگی اور عمل میںاسکو جگہ دیں اور ہم یہ صفت علی علیہ السلام سے سیکھ لیں اسلئے کہ اسوقت یہی خصوصیت اسلام کی ترقی کا سبب بنی تھی اور آج اگر اسی صفت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی کسی انسان میںپیدا ہو جائے تو وہ اسلام اور مسلمین کے لئے ایک مفید عنصر بن سکتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے اخلاص آموزی:

ہم لوگوں نے عظیم انقلاب اسلامی کے دوران اپنی آنکھوں سے لوگوں کی زندگی میں اس خلوص نیت کا مشاہدہ کیا ہے اور جو کچھ کارنامے ہونا تھے وہ ہوئے ،قائد انقلاب اسلامی امام خمینی ۲ اس اخلاص عمل کا مظہر تھے اور انکے ہاتھوں جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا انہوں نے اسلام کے مقابلہ میں ساری دنیا کو جھکا دیا اور دشمنان دین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا آج بھی ایران کی قوم و ملت اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ چاہے وہ مر د ہوں یا عورت سب کے سب خصوصاً ہم سب ذمہ داران حکومت جس قدر جس کی ذمہ داریاں بڑھتی جائیں گی۔اسی خلوص نیت کے محتاج ہوجائیںگے یہاں تک کہ اسی اخلاص کی مدد سے اس بوجھ کو منزل مقصود تک پہنچا دیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں :’’ولقد کنّا مع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم نقتل اباتنا وانباتنا و اخواننا واعمامنا لا یزیدنا ذالک الاّ ایمانا و تسلیما ومضیا ولی اللقم و صبرا وعلی مضض الالم ‘‘(۶) ۔ہم لوگ خلوص نیت کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے رکاب میں اپنے خاندان و گھرانے والوں سے لڑ رہے ہوتے تھے،’’فلمّا رآی الله صدقنا انزل بعد وّنا الکبت وانزل علیناٰ النّصر‘‘ (۷)

تو جس وقت خدا نے ہمارے اس مخلصانہ عمل کو دیکھا ہمارے دشمن کو سرکوب کر دیا اور ہمیں فتح و ظفر سے سرفراز فرمایا: پھر آپ ارشاد فرماتے ہیںکہ اگر ہمارا یہ عمل نہ ہوتا اور ہم لوگ اس طرح اخلاص نہ رکھتے ہوتے ’’ماقام للدّین عمود ولا اخضرَّ للایمان عود‘‘ ایمان کی ایک ٹہنی بھی سر سبز و شاداب نہ ہوتی اور آج دین کا کوئی ستون بھی اپنی جگہ محکم و استوار نہ دکھائی دیتا یہ انہیں مسلمانوں کے خلوص دل اور انکی صداقت کی ہی برکتیں تھیں کہ روح زمین پر آج ایک اسلامی معاشرہ پھلتا پھولتا نظرآ رہا ہے اور یہ ترقیاں انھیں کی زحمات کا نیتجہ ہیں یہ اسلامی تمدّن اور یہ عظیم تاریخی تحریک بھی آج اسی کا نتیجہ ہے، ہماری قوم دنیا کے سارے مسلمانوں عراق کی عوام انکے سربراہوں اور ان تمام لوگوں کو جو دنیا کے کسی بھی گوشہ و کنا میں اسلام کی باتیں کرتے ہیں ان سب کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے ہی اخلاص کا سبق حاصل کرنا ہوگا ۔

حضرت علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے ستون ہدایت منہدم ہو گیا:

آج انیسویں ماہ رمضان ہے حضرت علیہ السلام کے سر اقدس پر ضربت لگنے سے اہل کوفہ کا کیا حال ہوا، خدا ہی جانے وہ آپکا لوگوں کے درمیان محبوب چہرہ، وہ بزرگ انسان، وہ عدل مجسم،وہ آپکی ولولہ انگیز صدا وہ آپکا ضعفائ اور دبے کچلے لوگوں پر شفقت کرنے والا مہربان ہاتھ،اشقیائ کے مد مقابل غیض و غضب کرنے والا انسان ، اس پانچ سال کی مدت میں اہل کوفہ و اہل عراق اور جو لوگ مدینہ سے ہجرت کر کے حضرت کے پاس آئے تھے، خود کو کوفہ میں یا کوفہ سے باہر دیگر میدانوں میں ان لوگوں نے علی علیہ السلام کو کچھ اسی طرح پایا تھا اور ان سے مانوس ہو چکے تھے اسلئے نہیں کہا جا سکتا کہ جب ان لوگوں نے یہ سنا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے سر مبارک پر ضربت لگی ہے تو انکا کیا حال ہو ا؟ پس میں قائد انقلاب اسلامی امام خمینی ۲ کی وفات سے قبل آپکی بیماری کی کیفیت کو ذرا سا اس وقت کی کیفیت سے تشبیہ کر رہا ہوں آپ جانتے ہیں کہ جس وقت حضرت امام خمینی ۲ کی بیماری کی خبر ایران میں پھیلی تو لوگوں کا کیا جوش و ولولہ اور کیا غوغہ تھا بس ایک قیامت ایک حشر بپا تھا لوگ ہر طرف دعائیں کر رہے تھے ، آنکھیں رو رہی تھیں۔لگتا ہے آج کوفہ کی بھی ایسی حالت تھی(۸)

____________________

(۱،۲،۳،۴)۔بحارالانوار ج ، ۴،ص ۳۴۔

۵ ۔ نہج البلاغہ نامہ ۴۵۔

۶۔۷۔نہج البلاغہ خطبہ ۵۶۔

۸۔حدیث ولایت ،ج ۷، ص۱۵۔۱۰