شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام 18%

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17316 / ڈاؤنلوڈ: 4401
سائز سائز سائز
شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

علوی معاشرہ:

ہماری خواہش ہے کہ ہماری زندگی، ہماری حکومت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی اور انکی حکومت کے مطابق ہو جائے ہم چاہتے ہیں ہماری حکومت میں مکمل طور پر اسلامی عدالت کا نفاذ ہو جائے جو شخص بھی اس حکومت میں زندگی بسر کر رہا ہے اسکا فریضہ ہے کہ وہ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے تلاش و کوشش کرے ۔

ہمارا فریضہ ہے کہ کوئی ایسا طریقہئ کار اپنائیں کہ ہمارا معاشرہ ہمارا نظام حکومت سب کا سب علوی معاشرے اور علوی حکومت کی طرح ہو جائے تنہا اسلام اسلام کرنا اور ولایت کا دم بھرتے رہنا ہی کافی نہیں ہے خصوصاً جن لوگوں کے کاندھوں پر کوئی حکومتی منصب ہے۔ وہ عدلیہ ہو، یا مجلس شورای اسلامی ہو (پارلیمنٹ) یا پھر مقام صدارت و ریاست بھی اجرائ قوانین کی منزل یا پھر دوسرے حکومتی ادارہ جات اوردیگر مراکز وغیرہ...زبان و عمل میں سب طریقہ کار بالکل امیرالمومنین علیہ السلام جیسا ہونا چاہیے۔

مقصد محرومین اور عوام کی خدمت ہو:

امیرالمومنین علیہ السلام خدا کے لئے اوراسکی راہ میں کام کرتے تھے، لوگوں کے ہمدم اور ہمدرد تھے ان سے لگاو تھا اور عوام کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے اس کے باوجودکہ آپکی حکومت کا مقصد پسماندہ لوگوں کی امداد تھا پھر بھی راتوں کو تن تنہا ایک ایک پسماندہ اور معاشرے کے دبے کچلے لوگوں کے پاس جاتے تھے اورانکی مدد کرتے تھے۔یہ امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی تھی،ہمارا راستہ بھی وہی ہے کہ طاغوتی حکومتوں نے جس لحاظ سے بھی لوگوں کومحروم و پسماندہ کر دیا ہے ہم انکی مدد کے لئے دوڑیں یہی امیرالمومنین علیہ السلام کا راستہ تھا یہی درس ہے جسے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ۲ نے علی علیہ السلام سے سیکھا تھا اور ہمارے سامنے اسے پیش کیا ہمیں اسی راستے میں چلنا چاہیے۔

ظلم کے خلاف جنگ:

علی علیہ السلام ہر منزل پر ہر جگہ پر چاہے جس نام سے یاد کئے گئے ہوں ظلم کے خلاف ایک مسلسل جنگ کرنے والے مجاہد تھے۔ذرا آپ امیرالمومنین علیہ السلام کی دشوار گذار زندگی کے مراحل پر ایک نظردوڑائیں،دیکھیں تو سہی انہوں نے کن لوگوں سے جنگیں لڑی ہیں،کسی صلاحیت و شہامت کا مظاہرہ کیا ہے، مدمقابل کون لوگ تھے کیسے پرفریب ناموں کے زیرسایہ علی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے آئے تھے،مگر پھر بھی آپ جنگ کو ٹالتے رہتے تھے یہاں تک کہ جب آپکے لئے عیاں ہوجاتا کہ یہ ظلم ہے یہ باطل ہے تو پھر کوئی رعایت نہیں کرتے تھے، یہی ہمارا بھی راستہ ہے، ایک دشوار گذار راستہ کہ جسے بہرحال ہمیں طے کرنا ہے اور یہی ان تمام پیروان امیرالمومنین علیہ السلام کا راستہ ہے جو آپکی محبت و غلامی کا دم بھرتے ہیں یعنی ظلم و ظالم سے لڑائی چاہے وہ کسی بھی صورت میں نہ ہو جس سطح پر ہو اور چاہے جس انداز سے بھی لڑنا پڑے۔

اخلاص حضرت علی علیہ السلام :

علی ابن ابی طالب (علیہ الصلوۃ والسلام) کے سلسلہ میں جو کچھ بھی کہا جائے کم ہے اسلئے کہ آپکی آفاقی شخصیت ذہن میں سمانے اور بیان کے دائرے سے خارج ہے مجھ جیسے لوگ آپ کی تہہ در تہہ شخصیت کے بارے میں کسی ایک پہلو کو بھی بیان کرنے سے عاجز ہے مگر چونکہ آپ نمونہ عمل ہیں اسلئے ہمیں آپکو اپنی بساط و توانائی کے اعتبار سے پہچاننا بھی ضروری ہے۔

ممکن نہیں کوئی علی علیہ السلام کی سدرہ نشین شخصیت تک اپنی کمتر فکر ڈال سکے اسلئے کہ یہ بات ہمارے دیگر بزرگ آئمہ علیھم السلام نے ہم سے کہی ہے ایک روایت جس میں امام باقرعلیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام کے زھد و عبادت اور دیگر خصوصیات کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’وما اطاق عمله منّا احد ‘‘(۱)

ہم میں سے کوئی بھی آپ جیسے عمل کو انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا یعنی :حتی خود امام صادق ، امام باقر علیہ السلام اور ائمہ ہدی بھی جہاں امیرالمومنین علیہ السلام پہنچے ہوئے ہیں نہیں پہنچ سکتے ۔اس روایت کے مطابق امام نے آگے فرمایا: ’’وان کان علی بن الحسین علیه السلام لینظر فی کتاب من کتب علی علیه السلام (۲) ایک دن آپکے والد حضرت علی بن الحسین امیرالمومنین علیہ السلام کی کسی کتاب کو دیکھ رہے تھے۔ یقینا یہ کتاب آپکی زندگی کا دستورالعمل تھا جس کے مطابق آپنے اپنی زندگی گذاری تھی۔

کہ ایک مرتبہ پڑھتے پڑھتے ’’فیضرب به الارض ‘‘(۳) اسے زمین پر رکھ دیا اور پھرفرمایا’’و یقول من یطیق هذا؟‘‘( ۴) کون ہے جو اسقدر عمل انجام دے سکتا ہو؟ یعنی امام سجاد علیہ السلام جو کہ سید العابدین اور زین العابدین ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کی عبادتوں اور زہد و پارسائی کے مقابلے میں خود کو عاجز سمجھتے ہیں ،خود امیرالمومنین علیہ السلام نے عثمان بن حنیف کو اس خط میںلکها’’الا وانّکم لا تقدرون علی ذالک ‘‘(۵) جسطرح میں عمل کر رہا ہوں تم اسطرح نہیں کر سکتے واقعیت بھی یہی ہے جو کچھ تاریخ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں ہم تک عبادت و ریاضت کے بارے میں نقل کیا ہے آدمی جب اسپر نظر ڈالتا ہے تو پھر انسان کو اپنی ناتوانی کااحساس ہونے لگتا ہے۔

اس بنیاد پر موضوع سخن یہ نہیں کہ ہمارا معاشرہ مثل علی علیہ السلام ہو جائے بلکہ موضوع گفتگو یہ ہے کہ معاشرے کے افراد کو کس راستے کی طرف لے جایا جائے مخصوصاً ایک اسلامی حکومت کے سربراہوں کو کون سا راستہ اپنانا ہوگا اور زندگی کس نمونے کے مطابق گذارنا ہوگی یہ ہے گفتگو کا مقصد اور یہ ہے راستہ....

علی علیہ السلام بام عروج پر:

ذات علی(علیہ السلام) کچھ ایسے عناصر کا مجموعہ ہے کہ اگر ایک بلند مرتبہ انسان وہاں تک پہنچنا بھی چاہے تو نہیں پہنچ سکتا اور انکی عظمتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔دنیاسے لاتعلقی ،خواہشات ولذائذ سے بے پروائی اور دنیا کی زرق برق چیزوں سے دوری جہاں ایک عنصر ہے، آپکا پیکراں علم جسکے بارے میں بہت سے مسلمان دانشمنداور تمام بزرگان شیعہ اس پر متفق ہیں کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علم و دانش میں علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے یہ آپ کی شخصیت کا ایک دوسرا پہلو ہے اور مختلف میدانوں میں آپ کی فداکاری اور جانثاری کا انوکھا انداز بھی انہیں عناصر کا ایک جز ہے ۔

وہ چاہے میدان سیاست ہو یا میدان سیر وسلوک یا کوئی اور میدان ۔آپکی عبادتوں کا طریقہ اپنی جگہ پر ایک جداگانہ عنصر ہے ، عدل و مساوات کی جو مثال آپ نے قائم کی ہے وہ خود عدالت اسلامی کی مکمل تفسیر ومجسم کی حیثیت سے آپکے تہہ در تہہ وجود کا ایک اور عنصر ہے۔معاشرے کے مختلف طبقات جیسے فقیر،غلام وکنیز،بچے عورتیں وغیرہ کے ساتھ آپکا نرمی سے پیش آنا ان سے محبت ،اور پسماندہ ،دبے کچلے لوگوں کے ساتھ بھی محبت کا برتاوآپکی زندگی کا ایک اور نمایاں پہلو ہے۔

ہروہ ترقی جو آپکی زندگی کے مختلف مراحل میں نظر آتی ہے وہ بھی انہیں عناصر کا ایک جز ہے فصاحت و بلاغت حکمت و دانائی یہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ آپکے مجموعہ عناصر کے اجزائ میںسے ہیں جن کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے ہمارے ایک بزرگ عالم جناب قطب راوندی آپکے زہد کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: جس وقت کوئی شخص علی علیہ السلام کی ان باتوں کو جو انہوں نے زہد کے بارے میں ارشاد فرمائی ہیں دیکھتا ہے اور وہ یہ نہیں جانتا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے (یعنی ایک ایسا انسان جو اپنے زمانے میں دنیاکے ایک بڑے حصے پر حکمرانی کر رہا تھا)توا سے شک و شبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ کلام ایک ایسے شخص کا ہے جسکا کام ہی فقط عبادت وبندگی تھا’’لایشک انّه کلام من لا شغل له بغیر العبادة ‘‘’’ولا حظّ له فی غیرالزّهادة ‘‘ اور بجز زہد و پارسائی انکا کوئی اور شیوہ ہی نہیں تھا ’’وهذا من مناقبه العجیبة التی جمع جهاتین الاضداد ‘‘ اور یہ ہیں آپ کے وہ حیرت انگیز مناقب جو آپکی شخصیت میں متضاد صفتوں کو یکجا کرتے ہیں۔

اخلاص اور جوہر عمل :

میں آج جس نکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کا اخلاص عمل:ہم کو چاہئیے کہ اس صفت کو اپنے روزمرہ کے کاموں کا جوہر قرار دیں جیسا کہ یہی صفت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی کی روح رہی ہے یعنی آپ اپنے کاموں کو فقط اور فقط خدا کی خوشنودی کے لئے انجام دیتے تھے اور آپ اپنے کسی بھی عمل سے سوائے قربۃالی ا? اور خدائی فرض کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتے تھے۔

میرے خیال میں علی علیہ السلام کی ذات میں یہ ایک حقیقت ایسی ہے جو اپنی جگہ پر بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے بچپنے سے اپنی جوانی کی عمر تک آغوش نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب کہ آپ نے اسلام کو تمام سختیوں اور مشقتوں کے بدلے اپنی جان کے بدلے خریدا تھا جگہ جگہ پر اس خلوص کا ثبوت دیا۔

انہوں نے ایک محترمانہ آسایش و آرام اور اشرافیت کو کہ جو کسی قرشی زادہ کی عیش و عشرت کے لئے میسرتھی صرف خداکے لئے نظرانداز کر دیا اور تیرہ سال کی مدّت حیات میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانہ بشانہ کفر کے خلاف جنگ کرتے رہے اور اسکے بعد شب ہجرت حضرت علیہ السلام کے بستر پر سوئے کہ اگر کوئی آپکے اس کا رنامہ پر غور و فکر کرے تو اسے پتہ چلے گا کہ آپ نے اس ایک عظیم فداکاری کا ثبوت دیا ہے کہ جسے ایک انسان پیش کر سکتا ہے یعنی یقینی اور حتمی طور پر موت کے مقابل تسلیم ہوجانا ۔اور موقع پر صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنا ہی پوچھا کہ کیا میرے سونے سے آپ بچ جائیں گے تو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ہاں میں بچ جاؤں گا تو آپ نے عرض کی، تو میرا سونا حتمی ہے ۔

اس جگہ پر وہ عیسائی مصنف کہ جنکی نگاہ اسلامی اور شیعی بھی نہیں ہے اور ہمارے دین سے بھی خارج ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں ’’امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ عمل تنہا سقراط کے اس عمل سے ہی قابل موازنہ ہے جو معاشرے کی مصلحت کے لئے خود اپنے ہاتھوںسے زہر کا پیالہ پی لیتا ہے‘‘ یعنی اس شب میں مسلم جانثاری عمل اور اخلاص تھا۔نہ جانے کتنے حکمراںہیںجو ایسے موقع پر فائدہ اٹھانے کی فکر کرتے ہیں اپنے لئے سوچتے ہیںلیکن آپ ایسے موقع پر خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان بچانے کی فکر میں ہیں۔

فقط رضائے الہی

غزوات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھئے جنگ احدمیں کہ جب چند انگشت شمار لوگوں کے علاوہ بقیہ سبھی فرار کر گئے تو اسوقت امیرالمومنین علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دفاع کیا۔جنگ خندق پر نظر ڈالئے جہاں سارے مجاہدین عمروبن عبدود کے مقابلے سے ہٹ گئے اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باربار اس سے مقابلہ کے لئے اجازت طلب کرتے ہیں اسی طرح جنگ خیبر ہو یا آیہ برآت کی تبلیغ،رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سقیفہ نبی ساعدہ میں جانشینی کا مسئلہ ہو یا پھر خلیفہ دوم کی وفات کے بعد شوری کی تشکیل کا مرحلہ ہر ہر جگہ پر امیرالمومنین علیہ السلام نے فقط خوشنودی خداکو پیش نظر رکھا اور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں الہی چیز کا انتخاب فرمایا جو انکے لئے مفید تھی اور رضائے الٰہی کا سبب تھی اور کہیں بھی آپ نے اپنی ’’انا‘‘ کو درمیان میں نہیں آنے دیا۔آپکی خلافت ظاہری کا زمانہ ہو یا ۲۵ سال تک آپکی خانہ نشینی ، خلفائ کی امداد کے لئے آپکا جانا ہو یا پھر اپنی خلافت ظاہری کے دوران مختلف احزاب کے مقابل اپنے موقف کا اظہار یا اس جیسے دیگر اور مقامات، پر وہی علی ہیں جسے خدا پسند کرتا ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکا انتخاب کرتا ہے، خدا کا ایک خالص اور مخلص بندہ، اور یہی وہ خصوصیت ہے کہ جسکا ایک ذرہ ہی سہی مگر ہم اپنی زندگی اور عمل میںاسکو جگہ دیں اور ہم یہ صفت علی علیہ السلام سے سیکھ لیں اسلئے کہ اسوقت یہی خصوصیت اسلام کی ترقی کا سبب بنی تھی اور آج اگر اسی صفت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی کسی انسان میںپیدا ہو جائے تو وہ اسلام اور مسلمین کے لئے ایک مفید عنصر بن سکتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے اخلاص آموزی:

ہم لوگوں نے عظیم انقلاب اسلامی کے دوران اپنی آنکھوں سے لوگوں کی زندگی میں اس خلوص نیت کا مشاہدہ کیا ہے اور جو کچھ کارنامے ہونا تھے وہ ہوئے ،قائد انقلاب اسلامی امام خمینی ۲ اس اخلاص عمل کا مظہر تھے اور انکے ہاتھوں جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا انہوں نے اسلام کے مقابلہ میں ساری دنیا کو جھکا دیا اور دشمنان دین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا آج بھی ایران کی قوم و ملت اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ چاہے وہ مر د ہوں یا عورت سب کے سب خصوصاً ہم سب ذمہ داران حکومت جس قدر جس کی ذمہ داریاں بڑھتی جائیں گی۔اسی خلوص نیت کے محتاج ہوجائیںگے یہاں تک کہ اسی اخلاص کی مدد سے اس بوجھ کو منزل مقصود تک پہنچا دیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں :’’ولقد کنّا مع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم نقتل اباتنا وانباتنا و اخواننا واعمامنا لا یزیدنا ذالک الاّ ایمانا و تسلیما ومضیا ولی اللقم و صبرا وعلی مضض الالم ‘‘(۶) ۔ہم لوگ خلوص نیت کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے رکاب میں اپنے خاندان و گھرانے والوں سے لڑ رہے ہوتے تھے،’’فلمّا رآی الله صدقنا انزل بعد وّنا الکبت وانزل علیناٰ النّصر‘‘ (۷)

تو جس وقت خدا نے ہمارے اس مخلصانہ عمل کو دیکھا ہمارے دشمن کو سرکوب کر دیا اور ہمیں فتح و ظفر سے سرفراز فرمایا: پھر آپ ارشاد فرماتے ہیںکہ اگر ہمارا یہ عمل نہ ہوتا اور ہم لوگ اس طرح اخلاص نہ رکھتے ہوتے ’’ماقام للدّین عمود ولا اخضرَّ للایمان عود‘‘ ایمان کی ایک ٹہنی بھی سر سبز و شاداب نہ ہوتی اور آج دین کا کوئی ستون بھی اپنی جگہ محکم و استوار نہ دکھائی دیتا یہ انہیں مسلمانوں کے خلوص دل اور انکی صداقت کی ہی برکتیں تھیں کہ روح زمین پر آج ایک اسلامی معاشرہ پھلتا پھولتا نظرآ رہا ہے اور یہ ترقیاں انھیں کی زحمات کا نیتجہ ہیں یہ اسلامی تمدّن اور یہ عظیم تاریخی تحریک بھی آج اسی کا نتیجہ ہے، ہماری قوم دنیا کے سارے مسلمانوں عراق کی عوام انکے سربراہوں اور ان تمام لوگوں کو جو دنیا کے کسی بھی گوشہ و کنا میں اسلام کی باتیں کرتے ہیں ان سب کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے ہی اخلاص کا سبق حاصل کرنا ہوگا ۔

حضرت علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے ستون ہدایت منہدم ہو گیا:

آج انیسویں ماہ رمضان ہے حضرت علیہ السلام کے سر اقدس پر ضربت لگنے سے اہل کوفہ کا کیا حال ہوا، خدا ہی جانے وہ آپکا لوگوں کے درمیان محبوب چہرہ، وہ بزرگ انسان، وہ عدل مجسم،وہ آپکی ولولہ انگیز صدا وہ آپکا ضعفائ اور دبے کچلے لوگوں پر شفقت کرنے والا مہربان ہاتھ،اشقیائ کے مد مقابل غیض و غضب کرنے والا انسان ، اس پانچ سال کی مدت میں اہل کوفہ و اہل عراق اور جو لوگ مدینہ سے ہجرت کر کے حضرت کے پاس آئے تھے، خود کو کوفہ میں یا کوفہ سے باہر دیگر میدانوں میں ان لوگوں نے علی علیہ السلام کو کچھ اسی طرح پایا تھا اور ان سے مانوس ہو چکے تھے اسلئے نہیں کہا جا سکتا کہ جب ان لوگوں نے یہ سنا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے سر مبارک پر ضربت لگی ہے تو انکا کیا حال ہو ا؟ پس میں قائد انقلاب اسلامی امام خمینی ۲ کی وفات سے قبل آپکی بیماری کی کیفیت کو ذرا سا اس وقت کی کیفیت سے تشبیہ کر رہا ہوں آپ جانتے ہیں کہ جس وقت حضرت امام خمینی ۲ کی بیماری کی خبر ایران میں پھیلی تو لوگوں کا کیا جوش و ولولہ اور کیا غوغہ تھا بس ایک قیامت ایک حشر بپا تھا لوگ ہر طرف دعائیں کر رہے تھے ، آنکھیں رو رہی تھیں۔لگتا ہے آج کوفہ کی بھی ایسی حالت تھی(۸)

____________________

(۱،۲،۳،۴)۔بحارالانوار ج ، ۴،ص ۳۴۔

۵ ۔ نہج البلاغہ نامہ ۴۵۔

۶۔۷۔نہج البلاغہ خطبہ ۵۶۔

۸۔حدیث ولایت ،ج ۷، ص۱۵۔۱۰

علی علیہ السلام کی متوازی شخصیت:

امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات ایک بہت بڑے اوقیانوس کے چھپے ہوئے کنارے کی طرح ہے کہ ایک انسان کے لئے جسکا پوری طرح سے احاطہ کرنا ناممکن ہے آپ جس طرف سے بھی فضیلت کے اس سمندر میں وارد ہونے کی کوشش کریں گے آپ عظمت کی ایک کائنات کا بچشم خود مشاہدہ کریں گے،عجائبات کی ایک دنیا مختلف ند یاں، گہرائیاں ،قسم قسم کے دریائی حیوانات اس طرف کو چھوڑ کر ایک دوسرے کنارے سے وارد ہوں تو پھر بھی یہی منظر دکھائی دے گا۔ اگر اس اقیانوس کے تیسرے چوتھے یا دسویں حصے کی طرف جائیں یا جس طرف سے بھی اسکے اندر داخل ہوں اسی طرح کے عجائب و غرائب انسان کو حیرت میں ڈالتے رہیں گے ذات امیرالمومنین علیہ السلامبھی کچھ اسی طرح ہے اور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے انکی ہمہ گیر و آفاقی شخصیت کے لئے یہ مثال بھی نارسا دکھائی دیتی ہے انکی ذات واقعاً عجائب و غرائب کا ایک شگفتہ انگیز مجموعہ ہے۔ یہ اظہارات ایک انسان کے عجز و ناتوانی کو بتا رہے ہیں جس نے خود ایک مدّت تک آپکی شخصیت کو زیر مطالعہ رکھا ہے اور پھر یہ محسوس کیا کہ اس فضیلت مآب ذات علی علیہ السلام کو ایک معمولی ذہن اپنی اس عقل و فہم کے ذریعہ سمجھنے سے قاصر ہے اس لئے کہ انکی ذات ہر طرف سے شگفت آور نظر آتی ہے ۔

علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کی ہو بہو ا یک مثال:

اگرچہ امیرالمومنین علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاگرد خاص اور انکی ہو بہو تصویر ہیں مگر یہی عظیم المرتبت شخصیت جو ہماری نظروں کے سامنے ہے، خود کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابل ناچیز سمجھتے اور آنحضرت کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں مگر جب ہم انہیں بحیثیت ایک بشر دیکھتے ہیں تو وہ ایک انسان سے بالاتر نظر آتے ہیں، کیونکہ ہم اس جیسی عظمتوں کی حامل ذات کا تصور ہی نہیں کر سکتے انسان کے ذرائع معلومات یعنی عقل و ادراک وفہم (البتہ میں ٹیلیویژن و کیمرہ کی بات نہیں کرتا جو کہ انسانی ذہن سے بھی حقیر تر ہیں اور ذہن انسانی ہر مادی اسباب سے بلند و برتر ہے) اس سے کہیں نا چیز و کمتر ہیں کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت کو ایسے لوگوں کے سامنے پوری طرح پیش کر سکے جو تہذیب نفس اور روحانی کشف و شہود کی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکے ہیں۔

البتہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ ایسے عرفائ بھی ہیں جو روحانی پاکیزگی اور تہذیب نفس کی وجہ سے کشف و شہود کی منزل پرپہنچ کر ممکن ہے آپکی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کو درک کر سکیں لیکن ہم جیسے لوگ ان تک رسائی نہیں رکھتے۔ میں آپکے سامنے امیرالمومنین علیہ السلام کی ایک خصوصیت بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جس خصوصیت کو میں امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات میں توازن سے تعبیر کرتا ہوں جو آپکی زندگی میں ایک عجیب و غریب توازن ہے یعنی بظاہر کچھ صفات آپکی ذات میںاس طرح خوبصورتی سے یکجا ہیں کہ جو خود اپنی جگہ حسن کا ایک مرقع بن گئی ہیں جبکہ ایک انسان کے اندر یہ صفات اکھٹی ہوتی دکھائی نہیں آتیں باہم نہیں دکھائی پڑتیں،اور علی علیہ السلام کے وجودمیں ایسی متضادصفات ایک دو نہیں بلکہ بے نہایت جمع ہو گئیں ہیں۔

میں یہاں اسمیں سے چند صفتوں کو آپکے سامنے بیان کرتا ہوں۔

آپکے اٹل فیصلے اور رحم دلی:

مثال کے طور پر بیک وقت ایک انسان کسی کے ساتھ رحم دلی بھی کرے اور وہیں اور وہیں پراپنافیصلہ بھی اٹل رکھے اور قطعاً کسی کوبے جا حق دینے پر راضی نہ ہو یعنی رحم دلی اور قاطعیت آپس میں دو ایسی متضاد صفتیں ہیں جو ایک شخص کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں!لیکن حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے اندر رحم دلی، عطوفت و محبت اپنی حد کمال کو پہنچی ہوئی ہے جو ایک عام انسان کے اندر بہت کم نظر آتی ہے مثال کے طور پر فقیروں کو مدد کرنے والے پسماندہ لوگوں کی مشکلات حل کرنے والے آپکو بہت ملیں گے۔ مگر ایک ایسا شخص جو نمبر ۱ ۔اس کام کو اپنی حکومت کے دوران انجام دے ، نمبر۲ ۔اسکا یہ عمل ایک دو دن نہیں ہمیشہ کا ہو،نمبر۳۔تنہا ماّدی مدد تک ہی اسکا یہ عمل محدود نہ رہے بلکہ وہ بنفس نفیس ایسے لوگوں کے گھر جائے،اس بوڑھے کی دلداری کرے، اس نابینا کو دلاسا دے ، ان بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلے اسکا دل بہلائے اور اسی کے ساتھ ساتھ انکی مالی مدد بھی کرے پھر ان سے رخصت ہو یہ فقط امیر المومنین علیہ السلام ہی کی ذات ہے اب ذرا بتائیے آپ دنیا کے رحم دل انسانوں میں اس جیسا کتنوں کو پیش کر سکتے ہیں!؟ حضرت علیہ السلام مہر ومحبت عطوفت اور رحم دلی میں اسطرح سے دیکھائی دیتے ہیں۔کہ ایک بیوہ جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اسکے گھر جاتے ہیں ، تنور روشن کرتے ہیں انکے لئے روٹیاں سینکتے ہیں انکے لئے کھاناپکاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے ان یتیم بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں یہی نہیں بلکہ اسلئے کہ ان بچوں کے لبوں پربھی دیگر بچوں کی طرح مسکراہٹ آئے اور وہ بھی کچھ دیر کے لئے غم و اندوہ سے باہر نکل سکیں انکے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتے بھی ہیں انہیں اپنی پشت پر سوار کرتے ہیں انکے لئے ناقہ(اونٹ) بنتے ہیں اس جھونپڑی میں انہیں مختلف طریقوں سے سرگرم رکھتے ہیں تا کہ وہ بھی مسکرا سکیں یہ ہے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی رحم دلی اور محبت و عطوفت کی ایک مثال یہاںتک کہ محبت کا یہ برتاؤ دیکھ کر اس زمانے کے ایک بزرگ کہتے ہیں اس قدر امیرالمومنین یتیموں اور بے سہارا بچوں سے محبت سے پیش آتے اور انکے منہ میں شہد ڈالتے اور انہیں پیار کرتے تھے کہ خود میں تمنا کرنے لگا ’موددتُ ان اکون یتیماً ‘کاش میں بھی یتیم ہوتاتاکہ مجھے بھی علی علیہ السلام اسی طرح پیار کرتے! یہ آپکی محبت ہے۔

اوریہی علی علیہ السلامجنگ نہروان میں بھی ہیں جب کچھ کج فکر اور متعصب لوگ بے بنیاد بہانوں سے آپکی حکومت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں پہلے آپ انہیں نصیحت کرتے ہیں کہ وہ جسکا مطلقاً اثر نہیں لیتے ، احتجاج کرتے ہیں مگر اسکا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔کسی تیسرے آدمی کو صلح و مصالحت کے لئے واسطہ بناتے ہیں انکی مالی امداد کرتے ہیں ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ دیتے ہیں مگر ان سب سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور آخر کار وہ لوگ لڑنے پر تل جاتے ہیں پھر بھی آپ انہیں نصیحت کرتے ہیں مگر آپکی یہ نصیحت انکے لئے بے فائدہ ثابت ہوتی ہے اسوقت پورے شد و مد کے ساتھ پوری قطعیت سے پرچم زمین پر گاڑ کر فرماتے ہیں ! تم میں سے کل تک جو بھی اس پرچم تلے آجائیگا وہ امان میں رہے گااور جو نہیں آیا اس سے میں جنگ کروں گا۔ ان بارہ ہزار۱۲۰۰۰ افراد میں سے ۸۰۰۰آٹھ ہزار افراد پرچم کے نیچے آگئے اور باوجودیکہ ان لوگوں نے آپ سے دشمنی کی ہے، لڑنے میں بر ابھلا کہا ہے پھر بھی فرماتے ہیں جاؤ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ و ہ لوگ چلے گئے اور پھر حضرت نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی اور انہیں معاف کر دیا، جو دوسرے ۴۰۰۰چار ہزار بچے،فرمایا! اگر تم لڑنے پر تلے ہوتو آؤ پھر جنگ کرو، آپ نے دیکھا وہ لڑنے مرنے پر تیار ہیں فرمایا ! یاد رکھو تم چار ہزار میں سے دس افراد کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا ۔جنگ شروع ہوگئی اس ۴۰۰۰ چار ہزار میں ۱۰ لوگ زندہ بچے بقیہ سب کے سب ہلاک ہوگئے، یہ وہی علی علیہ السلام ہیں جب دیکھا مقابلہ میں بدسرشت و خبیث النفس انسان ہیں تو پھر پوری صلاحیت کے ساتھ ان سے جنگ لڑتے ہیں اور انکا دندان شکن جواب دیتے ہیں۔

خوارج کو ٹھیک سے پہچانیں:

’’خوارج‘‘ کا صحیح ترجمہ نہیں ہوا ہے مجھے افسوس ہے کہ مقرّرین ،اسلامی شعرائ فلموں میں کام کرنے والے فنکار وغیرہ خوارج کو ’’خشک مقدس‘‘ سے تعبیر کرتے ہیںجبکہ یہ سراسر غلط ہے، ’’خشک مقدس‘‘ کا کیا مطلب؟ ! حضرت امیر علیہ السلام کے زمانے میں بہت سے لوگ ایسے تھے جو اپنی ذات کے لئے کام رہے تھے اگر آپ خوارج کو پہچاننا چاہتے ہیں تو میںاپنے ہی زمانے میں انکی مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔

آپ نے (ابتدائے انقلاب اسلامی ایران) کے گروہ منافقین کو ابھی بھلایا نہ ہوگا؟ وہ لوگ تلاوت کرتے تھے، نہج البلاغہ کے خطبے پڑھتے تھے، دینداری کا دعویٰ کرتے تھے اورا پنے آپ کو سارے مسلمانوں سے مسلمان تر اور سارے انقلابیوں سے زیادہ انقلابی سمجھتے تھے اور وہی لوگ مملکت جمہوری اسلامی ایران میں بم دھماکہ بھی کرتے تھے اور گھروں کے گھر ویران کردیتے تھے بوڑھے جوان عورت مرد بچوں تک کو ماہ رمضان المبارک میں بوقت افطار قتل کردیتے تھے ! آخر کیوں؟کیا اسلئے کہ یہ لوگ واقعی امام خمینی ۲ اور انقلاب کے طرفدار تھے؟! جو ناگہانی طور پر بم دھماکے کرتے اور مثلاًایک بے گناہ قوم شہر کے فلاں میدان میں خاک و خون میں غلطاں ہو جاتی تھی؟ یہی لوگ ۸۰ سالہ شہید محراب ایک مقدس مجاہد راہ خدا ،عالم ربانی کو اسی بم سے اڑا دیتے ہیں ان لوگوں نے چار پانچ بزرگ نورانی علمائ اور کئی مومنوں اور مجاہدوںکو اسی طرح شہید کر دیا،عموماً انکی سیاہ اعمالی یہ تھی اسی طرح سے خوارج اور انکے ناپسند افعال بھی تھے جو عبداللہ بن خبّاب کو قتل کر دیتے ہیں اسکے بعد انکی حاملہ بیوی کا پیٹ چاک کر کے جنین(بچے) کو باہر نکال لیتے ہیں اوربے رحمی سے اسکے سر کو کچل کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔آخر ایسا کیوں؟ اسلئے کہ یہ علی ابن ابی طالبعلیہ السلام کے چاہنے والے ہیں لہذا وہ اس جرم میں قتل کر دئے گئے ہیں۔یہ ہیں خوارج ،یہ ہے انکی صحیح صورت ! اسلئے خوارج کو صحیح طور سے پہچانیے۔

جو تنہا ظاہری طور پر دین کا ڈھونگ کرنے والے قرآنی آیات کاحفظ کر کے نہج البلاغہ کو رٹ کراگرچہ اس زمانے میں نہج البلاغہ نہیں تھی لیکن اس قسم کی فکر رکھنے والے آئندہ اپنے مفاد و مصلحت کے تحت دین قرآن، نہج البلاغہ کو ایک وسیلہ قرار دیں گے کہ بعض دینی عقائد کے پاپند تھے لیکن روح دین کے مخالف تھے اور انہیں شدید تعصب تھا، ویسے تو وہ خدا خدا کرتے تھے مگر وہ شیطان کے حلقہ بگوش تھے کیا آپ نے اپنی مملکت میں نہیں دیکھا تھا کہ یہی منافقین جو اپنے آپ کوسب سے بڑا انقلابی سمجھتے تھے وقت پڑنے پر حکومت اسلامی،امام خمینی ۲ اور ساری انقلابی قدروں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگے اور امریکہ یہودیوں اور صدام کے ساتھ ہاتھ بٹانے پر پوری طرح راضی ہوگئے اور انکی غلامی کرنے لگے!

خوارج اس قسم کے افراد تھے جواُسوقت امیرالمومنین علیہ السلام سیسہ پلائی ہوئے دیوار بن کے انکے مقابل ڈٹ گئے کہ قرآن کہتا ہے (اشدّا ئ علی الکفار ئ رحمائ بینھم) یہ وہی علی ہیںذرا غور تو کریں یہ دو(۲) خصوصیتیں کسطرح خوبصورتی اور زیبائی خلق کرتی ہیں،ایک ایساانسان جو رحم و محبت کا مجسمہ ہے اور ایک یتیم کو غم زدہ رہنا تک گوارہ نہیں کرتا اپنے دل میں کہتا ہے جب تک اس بچہ کو ہنسانہ دونگا اپنی جگہ سے ہٹ بھی نہیں سکتا، جبکہ ان الٹی فکروں اور غلط فکرکے لوگوں (جو بچھو کی طرح ہر بے گناہ کو ڈنک مارنے پر تلے ہیں )کے مقابلہ میں یہی با فضیلت انسان ڈ ٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور چار ہزار افراد کو ایک دن یا چند گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔ ’’ من یفلت منھم عشرۃ ‘‘کہ ظاہراً اس جنگ میں خود آپکے پانچ یا چھ اصحاب شہید ہوئے مگر ان چار ہزار میں سے دس افراد سے کم یعنی نو ۹لوگ باقی بچتے ہیں متوازی شخصیت کا مطلب یہ ہے یعنی رحم دلی کے ساتھ ساتھ اپنے ارادوں میںمحکم بھی ہے

پرہیز گاری اور حکومت امیرالمومنین علیہ السلام :

ایک دوسری مثال اور آپ کی متضاد صفات کا نمونہ حکومت کے ساتھ ساتھ تقویٰ و پارسائی ہے یہ ایک عجیب چیز ہے؟ ورع و تقویٰ کا کیا مطلب ہے؟ یعنی انسان ہر وہ چیز جس سے دین خدا کی مخالفت کی بو آتی ہو اس سے پرہیز کرے اور اسکے قریب نہ جائے۔پھر ادھر حکومت کا کیا ہو گا؟ آخر ممکن ہے کہ حکومت رکھتے ہوئے کوئی پارسا بھی ہو آج جب ہمارے کاندھوں پر اہم ذمہ داریاں ہیں ہمیں زیادہ احساس ہے کہ اگر یہ خصوصیات کسی کے اندر موجود ہوں تو وہ کسقدر اہمیت کا حامل ہو گا، حکومت میں رہتے ہوئے صرف اسے کلی قوانین سے سروکار ہوتا ہے اور قانون کا نفاذ اپنی جگہ بہت سے فوائد لئے ہوتا ہے اگرچہ عین ممکن ہے اسی قانون کی وجہ سے مملکت کے کسی گوشہ میں کسی شخص پر ظلم و ستم بھی ہواور ممکن ہے حکومت کے ذمہ دار کی طرف سے خلاف ورزیاں بھی ہوں اور پھر نا محدود جزئیات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ وہ (حاکم)ہر شعبہ میں زہد و پارسائی کا بھی لحاظ رکھ سکے؟ اسلئے بظاہر لگتا ہے کہ تقویٰ حکومت کے ساتھ اکٹھا ہونا نا ممکن سی بات ہے لیکن قربان جائیں امیرا لمومنین علیہ السلام کی ذات پر کہ اپنے وقت کی بااقتدار حکومت کے ساتھ بھی پارسائی و تقویٰ کو یکجا کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں جوایک حیرت انگیز بات نظر آتی ہے۔

وہ اس معاملہ میں کسی کا پاس و لحاظ نہیں کرتے تھے کہ اگر انکی نگاہ میں کوئی کسی منصب کا اہل نہیں ہے تو اسے منصب دے کر بھی بلاتکلف اس عہدے کو واپس لے لیتے ہیں ۔محمد بن ابی بکر کو حضرت امیرعلیہ السلام اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے اور وہ حضرت علی علیہ السلام کو اپنے مہربان باپ کی حیثیت سے جانتے تھے (آپ ابوبکر کے چھوٹے صاحب زادہ اور علی علیہ السلام کے مخلص شاگرد ہیں آپکے دامن پر مہر و محبت میں پروان چڑھے ہیں ) مگر مصر کی ولایت دینے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے ایک خط میں آپکو لکھا میں تم کو مصر کی حکومت کے لائق نہیں سمجھتا اسلئے مالک اشتر کو تمہاری جگہ بھیج رہا ہوں۔اور آپنے انکو معزول کر دیا اگرچہ انسان ہونے کے ناطے محمد بن ابی بکر کویہ بات بری بھی لگی مگر حضرت نے اس معاملہ میں کسی بھی چیز کالحاظ نہیں کیا یہ ہے آپکی پارسائی ایسی پارسائی جسکی ضرورت ایک حکومت اور حاکم کو پڑتی ہے و ہ ذات علی علیہ السلام میں اپنے نقطہ کمال پر نظر آتی ہے۔

آپکے زمانے میں نجاشی نامی ایک شاعر تھا جو امیرا لمومنین علیہ السلام کا مداح اور آپکے دشمنوں کے خلاف اشعار کہتا تھا۔ماہ رمضان میں ایک دن کسی گلی سے گذر رہا تھا کہ ایک برے انسان نے اسکو ورغلایا وہ کہتا ہے کہ آؤ آج ہمارے ساتھ میں کچھ وقت گذارو مثلاً اس شاعر نے کہا نہیں میں مسجد جا رہا ہوں قرآن پڑھنے یا نماز پڑھنے بہرحال زبردستی اس شاعر کو اپنے گھر میں بلا لیا! آخر یہ بھی ایک شاعر ہی تو تھا اسکے فریب میں آگیا اور اسکے دسترخوان پر روزہ خوری کے بعد شراب بھی پی جاتی تھی اور لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: اس پر حد جاری کرواور اس کو اسی۸۰ تازیانے شراب نوشی کی وجہ سے اور دس۱۰ یا بیس۲۰تازیانے دن میں حرام چیز سے روزہ توڑنے کی بنائ پر ۔ نجاشی نے کہا میں آپکا اور آپکی حکومت کا مداح ہوں اپنے اشعار سے آپکے دشمنوں کو جواب دیتا ہوں اور آپ مجھے تازیانے مارنے کا حکم دے رہے ہیں؟فرمایا، کہ یہ ساری باتیں اپنی جگہ قابل قبول اور قابل تحسین ہیں مگر میں حکم خدا کو اپنی ذات کی خاطر معطل نہیں کر سکتا ،ہر چند انکے قوم و قبیلہ والوں نے اصرار کیا یا امیرالمومنین علیہ السلام اسطرح ہماری عزت چلی جائیگی پھر ہم معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے آپ معاف کر دیجئے مگر حضرت نے فرمایا نہیں ممکن نہیں کہ میں حد خدا جاری نہ کروں ۔ اس شخص کو لٹایا گیا، اور اسے کوڑے مارے گئے اور وہ راتوں رات آپکی حکومت سے یہ کہتے ہوئے فرار کر گیا کہ جب آپ کو میری قدر نہیں معلوم اور آپکی حکومت میں روشن خیالوں اور شاعروں کے ساتھ یہ برتاؤ ہے تو میں وہاں جاؤنگا جہاں ہماری قدر کو پہچانتے ہوں ! اور معاویہ کے دربار میں اس خیال سے چلا گیا کہ وہ اسکی قدر کو جانتا ہے ! خیرجسے اپنی خواہشات پر اتنا قابو نہیں کہ وہ علی علیہ السلام کی تابندگی کو اپنی خواہشات کے طوفان میں جھانک کر دیکھ سکے تو اسکی سزا بھی یہی ہے کہ وہ علی علیہ السلام کو چھوڑ کر معاویہ کے پاس چلا جائے حضرت علی علیہ السلام حضرت جانتے تھے کہ یہ شخص ایک نہ ایک دن ان سے جدا ہو جائے گا آج بھی شعرائ اور فنکاروں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن اس زمانہ میں ایک شاعر اسلئے زیادہ اہمیت رکھتا تھا کہ وہ افکار و خیالات اور حکومت کی سیاست و حکمت عملی کو اپنے شعروں میں لوگوں تک پہنچاتا تھا کیونکہ اس زمانے میں آج کی طرح ٹیلویژن اور ریڈیو نہیں تھے بلکہ یہ شعرائ کا کام ہو ا کرتا تھایہاں ملاحظہ کیجیے کس طرح امیرالمومنین علیہ السلام کی پارسائی انکی بااقتدار حکومت کے ساتھ ساتھ ہے ذرا دیکھیں توسہی کیا خوبصورتی و زیبائی سامنے نکھرکر آتی ہے ۔ہم دنیا اور تاریخ عالم میں اس قسم کی مثال نہیں تلاش کر سکتے ۔پیش رو خلفائ میںبھی بہت سی جگہوںپر صلاحیت نظر آتی ہے لیکن کہاں حضرت امیرعلیہ السلام کہاں دیگر لوگ جو کچھ آپ سے پہلے اور آپکے بعد اور آج نظر آرہا ہے گذِشتہ اور آج میں ایک عجیب و غریب فاصلہ نظر آتا ہے اصلاً امیرالمومنین علیہ السلام کی صلاحیت و قابلیت ناقابل توصیف ہے۔

قدرت اور حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت:

ایک دوسرا نمونہ جو آپکی زندگی میں ملتا ہے وہ ہے آپکی قدرت و شجاعت اور مظلومیت ۔آپکے زمانے میں آپ سے زیادہ شجاع و بہادر کون ہو سکتا ہے؟ امیرالمومنین علیہ السلام کی آخری زندگی کے آخری لمحات تک کسی شخص کی بھی جرآت نہ ہو سکی کہ آپکی شجاعت و قدرت کے سامنے اپنی بہادری کا دعو یٰ کرسکے اس کے باوجود آپکی ذات گرامی اپنے زمانے کی مظلوم ترین شخصیت ہے۔ کسی کہنے والے نے کتنی سچی بات کہی ہے کہ شاید تاریخ اسلام کی شخصیتوں میں مظلوم ترین شخصیت آپ کی ذات ہے قدرت اور مظلومیت آپس میں دو متضادصفات ہیں جو جمع نہیں ہوتیں،عموماً طاقتور مظلوم نہیں مگر امیر المومنین علیہ السلام قوت وطاقت کے مالک ہو کر بھی مظلوم واقع ہوئے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کی سادگی اور زھد:

سادگی اور دنیا سے بے توجہی امیرالمومنین علیہ السلام کی حیات بابرکت میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے، نہج البلاغہ کے موضوعات میں سے ایک اہم موضوع زہد ہے یہی امیرالمومنین علیہ السلام وفات پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سے اپنے زمانہ حکومت تک ۲۵ سالہ خانہ نشینی کے دوران اقتصادی آباد سازی کے کام کرتے رہے، باغ لگاتے ، کنویں کھودتے، پانی کی نہریں اور کھتی باڑی کرتے تھے اور تعجب اس بات پر ہے کہ یہ ساری محنتیں راہ الہیمیںہوتیں اور ان سب چیزوں کو راہ خدا وقف کر دیتے تھے۔

شاید آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ خود امیرالمومنین علیہ السلام اپنے وقت کے مالدار لوگوں میں سے تھے کہ آپ نے فرمایا! اگر میرے مال سے نکلی ہوئی خیرات پورے قبیلہ بنی ہاشم پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لئے کافی ہوگی ’’ انّ صدقتی لووزّع علیٰ بنی ہاشم لوسعھم‘‘ تو حضرت کی درآمدکم نہیں تھی مگر وقت کا یہ دولت مند انسان فقیرانہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور اپنے زور بازو سے کمائی ہوئی دولت راہ خدا میںخرچ کر دیتے ہیں، اپنے ہاتھوں کنواں کھود رہے ہیں راوی کہتا ہے میں نے دیکھا فوارے کی طرح زمین سے پانی ابل رہاتھا حضرت مٹی اور کیچڑ میں لتھ پتھ کنویں سے باہر تشریف لائے کنویں کے دہانے پر بیٹھ گئے ایک کاغذ منگوایا اور اس پر اسطرح لکھا: یہ کنواں فلاں قبیلہ کے لوگوں کے لیے میں وقف کرتا ہوں،آپ جو کچھ بھی امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت کے دوران آپکے کاموں کو ملاحظہ کرتے ہیں وہ سب آپکی انفرادی زندگی کے کارنامہ ہیں جسکی برکتیں آپکے دوران حکومت میں بھی عیاں رہیں دنیا سے بے توجہی اوردنیا کو آباد کرنے (کہ خدا نے تمام انسانوں کا یہ ایک فریضہ قرار دیا ہے) میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا یعنی دنیا کو تعمیر کریں زمین آباد کریں ثروت و دولت کے اسباب وسائل تلاش کریں مگر ان سب سے دل نہ لگائیں اسکے اسیر و غلام نہ ہوں تا کہ با سکون ہو کر اسے راہ خدا میں خرچ کر سکیں اسلامی اعتدال اور توازن کا یہ مطلب ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی (اور دیگر آئمہ کی زندگیوں میں)اس قسم کے بہت سے نمونہ ہیں جسکے بیان کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔

عدالت امیرالمومنین علیہ السلام :

عدل!علی علیہ السلام کی زندگی میںایک اہم صفت کی حیثیت رکھتا ہے، جب ہم عدل علی علیہ السلام کی بات کرتے ہیں تو اسکا ایک مطلب وہی ہے جسے ہر انسان اپنی جگہ درک کرتا ہے یعنی وہ معاشرہ میں،اجتماعی عدل و مساوات بر قرار کرنے والے حاکم ہیں۔یہ ہے ابتدائی عدل لیکن بالاترین عدل یہی اعتدال و توازن ہے ’’بالعدل قامت السموات والارض‘‘ زمین اور آسمانوں کی استقامت و استواری عدل کی بنائ پر ہے یعنی ایک توازن ہے خلقت و فطرت میں کہ یہی بات حق بجانب بھی ہے اورآ خری معنی کے لحاظ سے درحقیقت عدل و حق ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ اعتدال و توازن کا مظہر نظر آتی ہے اور سارے محاسن و محامد(اچھائیاں) اپنی اپنی جگہ نقطہ کمال پر پہنچے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

علی علیہ السلام کی دعا اور توجہ و استغفار:

امیرالمومنین علیہ السلام کی خصوصیات میں سے آپکی ایک خصوصیت بارگاہ خداوندی میں خود انکا استغفار کرنا اور طلب مغفرت ہے کہ اس خطبہ کے آخری حصہ میں آپکی اسی خصوصیت کے بارے میں چند جملے بیان کرنا چاہتا ہوں۔

آپکی زندگی میں توبہ و استغفار نہایت اہمیت رکھتا ہے آپ ذرا تصور کریں ایک ایسی ذات جو میدان جنگ کے بے مثل بہادرہیں جنگ کے میدان میں صف آرائی کرتے ہیں (اگر آج کے زمانے میں امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت پرنظر دوڑائیں تو اس زمانے میں آپکی حکومت تقریباً دس۱۰ ممالک کو اپنے حدود اربعہ میں سمیٹے ہوئے نظر آئے گی) اور اس جیسے وسیع و عریض مملکت کے حاکم ہوتے ہوئے ان ساری فعالیتوں اور تلاش کو شش کے باوجود ایک منجھے ہوئے ماہر سیاست دان ہیں وہ انکی ماہرانہ سیاست، میدان جنگ کی ، معاشرے کے نظم و نسق کی ذمہ داری مسند قضاوت پر آکر لوگوں کے حقوق کی بازدہی اور انسانی حقوق کی حفاظت جیسے عظیم اور بزرگ امور انسان کی مصروفیات بڑھا دینے کے علاوہ ہر کام اپنے لیے خصوصی انتظام چاہتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں ایسے لوگ جو فقط ایک زاویہ سے نگاہ کرتے ہیں اپنی انہیں مصروفیات کو دعا و عبادت کہہ کر ، دعا و عبادت سے دور ہو جاتے ہیں اسلئے کہ انکے خیال میں یہ سب راہ خدا میں کام ہی تو ہے مگر امیرالمومنین علیہ السلام اسطرح نہیں فرماتے بلکہ حکومتی اصرار اپنی جگہ اور عبادت وبندگی اپنی جگہ اسی طرح سے جاری رہتے ہیں، بعض روایات میں ہے۔البتہ ذاتی طور پر خود میں نے اس روایت کی چھان بین نہیں کی ہے کہ آپ روز و شب میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔

حضرت دوران جوانی سے ہی اسی طرح تھے یہ جو دعائیں آپ دیکھتے ہیں یہ آپکا روزانہ کا وتیرہ تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی آپ ایک انقلابی جوان کی حیثیت سے ہر میدان میں پیش پیش تھے کبھی آپ بیکار نہیں بیٹھے اور آپکے پاس کبھی خالی وقت نہیں تھا۔

لیکن اسی دوران جب اصحاب میں گفتگو چلی اور آپس میں پوچھا کہ سب سے زیادہ عبادت کس کی ہے تو ’’ابو دردائ‘‘نے علی علیہ السلام کا نام لیا سوال کیا کس طرح؟ تو انہوں نے دوران جوانی اور اسکے بعد پھر خلافت کے زمانے کی مثال پیش کر کے سب کو قانع کر دیا مختلف واقعات ہیںجیسے نوف بکائی کا واقعہ۔آپکی عبادت کے سلسلے میں نقل ہوئے ہیں یہ صحیفہ علویہ جسے بزرگوں نے جمع کیا ہے وہی امیرالمومنین علیہ السلام سے ماخوذدعاؤں کا مجموعہ ہے اور دعائے کمیل اسکا ایک نمونہ ہے جسے آپ ہر شب جمعہ پڑھتے ہیں، ایک مرتبہ میں نے امام خمینی ۲ سے سوال کیاکہ آپ موجودہ دعاؤں میں سے کس دعا کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں اور باعظمت سمجھتے ہیں تو انھوں نے تھوڑا سا سوچنے کے بعد فرمایادو۲ دعائیں ہیں ایک دعائے کمیل جسے میں زیادہ پسند کرتا ہوں اور با عظمت سمجھتا ہوں ،دوسری مناجات شعبانیہ، میرا قوی گمان ہے کہ مناجات شعبانیہ بھی امیرالمومنین علیہ السلام ہی سے ماخوذ ہے کیونکہ روایت میں آیا ہے کہ تمام آئمہ اس مناجات سے مانوس تھے اور اسکے مضامین بھی دعائے کمیل کے مضمون سے ملتے جلتے ہیں۔

دعائے کمیل بھی کیا عجیب دعا ہے، آغاز سخن استغفار سے ہے کہ خدا کو دس۱۰ چیزوں کی قسم دی ہے ’’اللھم انی اسئلک برحمتک التی وسعت کل شئی‘‘ خدا کو اسکی رحمت قدرت اور صفت ،جبروتیت کی قسم دی ہے یہاں تک کہ پروردگار کوانہی عظیم صفات کی قسم دیکر فرماتے ہیں ’’اللھم اغفرلی الذن التی تھتک العصم ، اللھم اغفرلی الذنوب التی تنزل النعم،اللھم اغفرلی الذنوب التی تحبس الدعائ‘‘یہاں پر حضرت پانچ قسم کے گناہوں کو بارگاہ خداوندی میں شمار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔ایک وہ گناہ جو دعاوں کو باب اجابت تک پہونچنے سے روک دیتے ہیں دوسرے وہ گناہ جو نزول عذاب کا سبب بنتے ہیں وغیرہ یعنی ان میں دعاؤں کی ابتدائ استغفارسے ہے اور اس دعا کا اکثر وبیشتر مضمون طلب مغفرت ہی ہے ۔بارگاہ رب العزت میں بخشش و طلب مغفرت کے لئے دل میں آگ لگا دینے والی سوزوگذار سے بھری ہوئی ایک مناجات ہے یہ ہیں امیرالمومنین علیہ السلام اور یہ ہے انکی مناجات اور راہ خدا میں استغفار...

میرے عزیزوں : ایک کامل اور عالی مرتبت انسان وہی ہے جو خواہشات و ہویٰ نفس سے اپنے آپ کو خالص کر کے راہ خدا میں چلنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے معبود کی خوشنودی کے لئے قدم بڑھاتا ہے، وہ شخص جو اپنی خواہشات کا غلام ہے جو اپنے غیض و غضب او ر شہوت ہی سے نہ نکل سکے وہ ظاہری طور پر چاہے کس قدر عظیم کیوں نہ ہو جائے لیکن درحقیقت ایک پست و حقیر انسان ہے۔

دنیا کے بڑے بڑے وزرائے اعظم ،صدرہای جمہوریہ جو دنیا کی بڑی بڑی ثروتوں پرقبضہ جمائے ہوئے ہیں وہ کب اپنی خواہشات اورہویٰ نفسانی سے جدا ہو سکتے ہیں اور وہ کب اسکی اسارت و غلامی سے نجات پا سکتے ہیں؟وہ تو اپنی خواہشات کے اسیر ہیں اور حقیر و پست انسان ہیں۔

لیکن ایک وہ فقیر و غریب جو اپنی خواہشات پر قابو رکھ سکتا ہے اور اپنے نفس کو اپنے اختیار میں کر سکتا ہے اور صحیح راستے پر راہ کمال انسانی اور راہ خدا میں چل سکتا ہے اپنی جگہ ایک بزرگ وعظیم انسان ہے۔

استغفار کا اثر:

استغفار اور طلب مغفرت انسان کو حقارت و پستی سے نجات دلاتا ہے خدا سے استغفار ہمیں اور آپکو ساری نفسانی و شہوانی زنجیروں سے رہائی عطا کرتا ہے استغفار دل کی وہ نورانیت ہے جسے خدا نے آپکو عطا کیا ہے۔

دل یعنی جان، روح،یعنی وہی حقیقت انسان ، یہ ایک نہایت نورانی شی ہے ہر انسان اپنی اپنی جگہ نورانی وجود کا حامل ہے چاہے خدا سے اسکا تعلق بھی نہ ہو اور وہ اسکی معرفت بھی نہ رکھتا ہو۔

البتہ لوگ اپنی شہوت پرستی،خواہش نفس کی پیروی اور عدم شناخت کی وجہ سے اپنے قلب کو زنگ آلودکر لیتے ہیں اور استغفار اس زنگ کو مٹا کر اسے پھر سے نورانی کر دیتا ہے۔

ماہ رمضان دعا و استغفار کا ایک بہترین موقع ہے ۔ انیسویں اور اکیسویں کی راتیں کہ جسکے شب قدر ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے گذر چکی ہے مگر ابھی تیسویں کی شب باقی ہے اسکی قدر کریں غروب کے بعد تیسویں شب کے آغاز ہی سے سلام الہی’’ سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر‘‘کا آنا شروع ہو جاتا ہے یہاںتک کہ صبح کی اذان کا آغاز ہو جاتا ہے درمیان کی یہ گھڑیاں سلامتی و امن الہیکی برکتیں لیکر ساری مخلوقات کو رحمت کے سایہ میں لے لیتیںہیں۔یہ ایک عجیب و غریب شب ہے،ہزار ماہ سے بہتر ’’خیر من الف شھر‘‘ہزار ماہ سے بہتر، برابر نہیں انسان کی ہزار مہینہ کی زندگی کس قدر بابرکت ثابت ہو سکتی ہے کس قدرانسان رحمت و برکت الہیکو اپنی ذات کے لئے مخصوص کر سکتا ہے اسلئے یہ شب بہت اہمیت رکھتی ہے اسکی قدر و منزلت کو پہچانیں اور دعاو مناجات ، میں سرگرم عمل رہیں خلقت اور آیات الہیمیں تفکر و تعقل کریں انسان کی سرنوشت اور جو کچھ خدا نے اس سے چاہا ہے اسکے بارے میں غور و خوض کریں یاد رکھیں یہ سب مادی اسباب وسائل زندگی سب کے سب اس عالم ملکوت کے لئے دریچہ کی حیثیت رکھتے ہیں جومرنے کے فوراً بعد انسان پر کھل جائیں گے اور یاد رکھیں دنیا کو کوئی ثبات و دوام حاصل نہیں ہے۔

معزز حاضرین !جان کنی کے وقت ہم لوگ ایک دوسری دنیا میں پہنچ جاتے ہیں اس دن کے لئے پہلے سے ہی ہمیں اور آپکو تیار رہنا چاہئے یہ ساری کائنات،یہ دولت و ثروت ،یہ قوت و طاقت جسے خدا نے ہمارے وجود میں حرکت و تحریک عمل پیدا کرنے کیلئے ودیعت فرمایا ہے اور وہ تمام چیزیں جس کا خدا نے ہم سے مطالبہ کیا ہے ۔ جیسے عدل و انصاف کی حکومت اچھی زندگی وغیرہ۔سب کے سب صرف اس لئے ہیں تا کہ انسان اس دنیا میں جانے کے لئے پوری طرح تیار ہو سکے، لہذا خود کوآمادہ کیجئے، خدا سے مانوس ہوجائیے ، خدا سے مناجات کیجئے،ذکر و درود کیجئے توبہ و استغفار کیجئے۔

ایسے لوگ جو اپنے کو خدا سے نزدیک کرتے ہیں، اپنے قلب کو پاک وپاکیزہ رکھتے ہیں گناہوں سے دوری کرتے ہیں اعمال خیر انجام دینے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں وہی دنیا کے عظیم انسان ہیں۔ جو دینوی مشکلات کے مقابلے کا حوصلہ رکھتے ہیں جسکا ایک نمونہ قائد انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ۲ ہیںاور ہمارے اس معاشرے کے مومنین بھی ہیں، وہ مومن و مخلص انتھک جوان، یہ عورتیں اور مرد ،وہ حضرات جو شہید ہوگئے، جو زخمی ہوئے اورغازیِ میدان کہلائے ،جنہوں نے دشمن کے شکنجے برداشت کیے اور قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں،میدان جنگ کی سختیاں برداشت کیں، یہ سب اسی کا ایک دوسرا نمونہ ہیں۔آج آپ انہیں شہدامیں سے ایک ہزار شہیدوں کو سپرد خاک کر رہے ہیں اسمیں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ ایک عالی رتبہ، اورنمونے کی حیثیت رکھتا ہے ا ور کتنا اچھا ہوتا کہ ہر قوم وملت میں ایک دو نمونے دیکھنے کو ملتے،مناسب ہے کہ آپکی تجلیل اور احترام کیا جائے اور انہیں اسوہ نمونہ کے طور پر پیش کیا جائے۔( ۱ )

مختلف حالات و شرائط کا سامنا:

شاید دنیا کے مشہور و معروف لوگوں خاص طور پر اسلامی شخصیتوں کے درمیان امیرالمومنین علیہ السلام کے علاوہ (یہاں تک کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ایسا کوئی اور نظر نہیں آتا جو مختلف دین و مذہب کے ماننے والوں اور مختلف قوم و ملت میں زیادہ محبوبیت رکھتا ہو، جب آپ انکی شخصیت پر نظر ڈالیں گے تو آپکو معلوم ہوگا کہ اگرچہ آپکے زمانے میں کچھ سرکش اور خود غرض لوگ آپکی شمشیر عدالت اور شدّت عدل و انصاف کی وجہ سے آپ سے بیزار نظر آتے ہیںاورآپکے بدترین دشمن ہیں مگر وہی لوگ جب اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو علی علیہ السلام کی نسبت اپنے دل میں تعظیم و تکریم اور محبت کا احساس بھی کرتے ہیں اور یہی صفت بعد کے زمانے میں بھی دیکھائی دیتی ہے جہاں علی علیہ السلام کے دشمن بہت ہیں وہیں آپکے مداح بھی بکثرت موجود ہیں حتی وہ لوگ بھی آپکے مداح ہیں جو آپکے مذہب و مسلک پر اعتقاد بھی نہیں رکھتے۔

پہلی صدی ہجری میں زبیر کا خاندان بنی ہاشم خصوصاً آل علی سے بغض و عداوت کے لئے مشہور رہا ہے اور یہ عداوت زیادہ تر عبداللہ بن زبیر کی وجہ سے تھی، ایک دن زبیر کے پوتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے دریافت کیا

کہ آخر کیوں دشمن کے پروپگنڈے کے باوجود روز بروز علی کا خاندان اور انکا نام لوگوں میں زیادہ محترم ہوتا جا رہا ہے اور انکے خلاف پروپگنڈے کا کوئی اثر نہیں ہوتا؟ اسکے باپ نے تقریباً اس طرح سے جواب دیا: ان لوگوں نے خدا کے لئے حق کی طرف لوگوں کو دعوت دی یہی وجہ ہے اوران کے دشمنوں نے لوگوں کو باطل کی طرف بلایاکہ آج تک کوئی اس شرف و فضیلت کو چھپانے کی کوششوں کے باوجود بھی نہیں چھپا سکا۔

طول تاریخ میں یہی دیکھا گیا آپ دنیا کے بڑے بڑے متفکرین ، (چاہے وہ مسلمان ہوں یاغیر مسلمان) کو دیکھیں وہ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کی نسبت اظہار محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں دنیا کے وہ بزرگ جنہوں نے اپنی قوم و ملت کے حق کو حاصل کرنے کے لئے پرچمِ بغاوت بلند کیا ان سب کی نگاہوں میں امیرالمومنین علیہ السلام معزّزہیں،شعرا ئ ادیبوں،فنکاروںاور بشر دوست حضرات کو دیکھیں تو وہ بھی آپکا کلمہ پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔المختصر وہ جوان ہو یا بوڑھا عالم ہو یا جاہل اگر تاریخ اسلام سے آشنا ہے یا امیرالمومنین علیہ السلام کا نام اسکے کانوں سے ٹکرایا ہے اُنکے حالات زندگی سے واقفیت رکھتا ہے تو وہ آپ سے محبت و مودّت کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔

خود ہمارے زمانے میں کئی مصنفین اور مصری ادیبوںکے ذریعہ کئی کتابیں امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں منظر عام پر آئی ہیں۔کہ اسمیں سے دو۲یا اس سے زیادہ کتابیں عیسائی مذہب رکھنے والے مصنفین کی لکھی ہوئی ہیں جو اسلام کو تو قبول نہیں رکھتے مگر وہ علی علیہ السلام کو مانتے ہیں۔

____________________

۱۔ ۲۱ رمضان ۱۴۱۷ھ میں تہران کے خطبہ نماز جمعہ میں رہبر انقلاب اسلامی کا ایک بیان۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11