شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام 0%

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات: مشاہدے: 15040
ڈاؤنلوڈ: 2697

تبصرے:

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15040 / ڈاؤنلوڈ: 2697
سائز سائز سائز
شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حکومتِ امیرالمومنین علیہ السلام کی دوسری خصوصیت:

آپ کی زندگی کا ایک دوسرا پہلو زہد و پارسائی ہے جس کے لئے خود ایک مفصل گفتگو کی ضرورت ہے، واقعاً امیرالمومنین علیہ السلام کا زہد عجیب و غریب ہے البتہ میں نہیں بلکہ خود امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم جیسے معمولی لوگوں سے اس قسم کے زہد و پارسائی کی توقع نہیں کی جاسکتی ، خود آنجناب تک نے یہ بات فرمائی ہے۔

اپنے(عہدہ صدارت) سے چند سال قبل میں نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ہم لوگوں سے اس زہد کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ہم اس پر قدرت بھی نہیں رکھتے اس کے بعد ایک شخص نے مجھے خط لکھا کہ چونکہ آپ یہ صفت نہیں اپنانا چاہتے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ ہم لوگوں سے اس ( زہد علوی )کا تقاضا نہیں کیا گیا ہے! نہیں حقیقت میں موضوع یہ نہیں کہ میں چاہوں یا میں کہوں بلکہ ہم جیسے لوگ اس سے کہیں حقیر و کوچک ہیں کہ ان بلند مرتبہ صفات و محاسن علوی کو اپناسکیں ۔انسان تو بہت ضعیف و ناتواں ہے خود امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی کبھی اپنے اھل وعیال پر اسے نہیں تھوپا، تنہا علی علیہ السلام تھے جو اس صفت کے حامل تھے حتی خود امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کی اس صفت میں ان کے مانند نہیں تھے اور نہ ہی آپ کی ازواج میں کسی کو یہ رتبہ حاصل ہو سکا،تاریخ میں کہیں نہیں ملتا کہ آپ اپنے گھر میں اس طرح سے زندگی گذارتے تھے یہ تو بس امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا خاصہ تھا۔اس طرح کہ حضرت کی غذا ایک تھیلی میں مھر زدہ ہوتی تھی اور اسے آپ دسترخوان پر لا کر رکھتے اس میں سے کچھ تناول فرماتے پھر اسی طرح سیل کر کے کسی محفوظ جگہ پر رکھ دیتے تھے گھر کے اندر آپ کی ایک عام زندگی تھی، آپ کی شخصیت حقیقتاً عام انسانوں کی سطح سے بلند و بالا ہے، کس کے اندر اتنی قوت ہے جو آپ کی طرح زندگی گزار سکے؟ آپ کی زندگی میں عجیب و غریب درس پوشیدہ ہے اور یہ اس لئے ہے تا کہ ہم لوگ زندگی گزارنے کے لیے صحیح سمت کو اپنے لیے معین کر سکیں ۔

میں نے خود مرحوم علامہ طباطبائی ۲ سے سنا ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے اسے کہیں لکھا بھی ہے یا نہیں ۔ آپ فرماتے ہیں امام جب کسی کو اپنی طرف بلا رہے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ جیسے کوئی پہاڑ کی چوٹی پرکھڑا ہو کر پہاڑی کے دامن میں موجود لوگوں کو اپنی طرف بلارہا ہو اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ سکتے ہیں بلکہ بلانے والے کا مقصد یہ ہے کہ راستہ ادھر سے ہے، کوئی نشیب اور درے میں نہ گر جائے ۔یعنی اگر کوئی چلنا چاہتا ہے تو وہ ٹھیک راستے پر چلے، راستہ یہ ہے۔

زھد کی طرف قدم بڑھائیے:

برادران ایمانی ! امیرالمومنین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ کاروان سفر کو زہد کی طرف چلنا چاہیے۔اگر آج اسلامی جمہوریہ ایران میں کہیں ہم یہ احساس کریں کہ زندگی کا رخ اشرافیت کی طرف ہے تو زندگی میں یہ ایک انحراف ہے ، پھر اس سے راہ فرار نہیں ہے لہذا ہمیں زہد اپنانا چاہیے میرا مطلب یہ نہیں کی عالی ترین مرتبہ زہد کو ہم حاصل کر لیں جو اولیائ الہیکا خاصہ رہا ہے، نہیں میں یہ نہیں کہنا چاہتا، درجہ اول کے حکومتی عھدہ داران ،درجہ دو ۲ کے صاحبان منصب اور اس کے بعد والے سارے ذمہ داران و عہدہ داران مملکت اپنی حدوتوانائی کے لحاظ سے زہد و پارسائی اختیار کریں یہاں تک کہ عوام الناس بھی اشرافیت کی طرف نہ جائیں وہ بھی پارسائی اختیار کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ذمہ داران مملکت کو ہی زاہد و پارسا ہونا چاہیے ۔

میں نہیں کہتا کہ حرام ہے مگر یہ حق مھر کی لمبی لمبی رقوم جو لڑکیوں کے عقد نکاح میں قرار دی جا رہی ہیں، سراسر غلط اور ایک اسلامی معاشرے کے لیے بری ہیں کیونکہ انسانی اقدار کو سونے چاندی اور سکوں کے زیر سایہ لے آتی ہیں اس طرح انسانی قدریں پامال ہو کر رہ جاتی ہیں۔جس کی ایک اسلامی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حلال کیا ہے آپ اسے حرام قرار دے رہے ہیں تو آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم بھی اسے حرام قرار نہیں دیتے ذرا ملاحظہ تو کیجیے ! کہ خودپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس حلال کو انجام نہیں دیا ہے، دوسری جانب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے محدود بھی نہیں کر نا چاہا اور اسے محدود بھی نہیں قرار دیا اگر آپ کا جی چاہتا ہے تو جائیے ساری کمائی جہیز اور مہر پر خرچ کر دیجئے مگر بحث تو اس جگہ ہے کہ اخر یہ عمل عاقلانہ بھی ہے یا نہیں آپ کا یہ عمل اسلامی قوانین کے مطابق بھی ہے یا نہیں؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمہ زھرا علیہ السلام کو؛امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی دو ۲ بیٹیوں کو اسی طرح خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادیوں کو ۲۵ اوقیہ یعنی چاندی کی ایک مقدار جو اس زمانے میں رائج تھی، پر ان کے شوہروں کے گھر رخصت کیا ہے، کہ دو ، تین سال قبل میں نے آج کے لحاظ سے اس کا حساب کیا تھا تو یہ مقدار تقریباً ۱۲ ہزار تومان(ایک ہزار روپے) کے معادل تھی ۔

اس طرح ذاتی زندگی میں اشرافیت کا رواج ظواہرپرستی اور نمائش ایک غلط چیز ہے کبھی کبھی ممکن ہے لازم ہو کہ ایک عمومی جگہ کو اچھی طرح سجایا جائے ایک میدان کو بہترین انداز سے خوبصورت رنگ و روپ دیا جائے تو ضرورت کے تحت یہ بات بری نہیں ہے مگر موضوع بحث ہماری اور آپ کی زندگی ہے اس میں یہ چیز غلط ہے۔

حکمرانوں کو زہد کا سبق:

یہ امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی ہے کہ جس کی آپ لوگوں کو تعلیم بھی دیتے تھے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کسی کوحاکم بنا کر کہیں بھیجنا چاہتے تھے تو اس سے خطاب کر کے فرمایا: کل نماز ظہر کے بعد تم میرے پاس آو تم سے کچھ کہنا ہے، یہ آج بھی رائج ہے کہ اگرکسی کو حاکم بنا کر کہیں بھیجنا ہوتا ہے تو اسے بلا کر جو کچھ ضروری نصیحت وغیرہ کرنا ہوتی ہے اس سے وہ نصیحت کرتے ہیں۔ اس شخص کا بیان ہے کہ میں دوسرے دن اسی چبوترے پر جسے امیرالمومنین علیہ السلام نے کوفے میں قضاوت وغیرہ کے لئے انتخاب کیا تھا پہنچا،تو میں نے دیکھا کہ حضرت کے سامنے ایک خالی پیالہ اور ایک کوزہ آب رکھا ہوا ہے تھوڑا وقت جب گذرا آپ نے اپنے خادم کو بلایا اور اس سے کہا کہ جا کر آپ کا تھیلا اٹھا لائے،میں نے دیکھا تھوڑی دیر بعد وہ ایک سیل بندتھیلی ہاتھ میں حضرت کے پاس لے کر آیا، سوچا چونکہ حضرت نے مجھے امانت دار سمجھا ہے اس لیے وہ مجھے کوئی گرانقدر قیمت گوہر دکھاناچاہتے ہیںیا یہ کہ کوئی امانت میرے حوالے کریں گے یا اس کے بارے میں کوئی حکم فرمائیں گے۔وہ کہتا ہے حضرت نے اس کی سیل توڑی اور اس تھیلی کو اپنے سامنے رکھا میں نے دیکھاا س میں کچھ مقدار میں ’’ ستو‘‘ ہیں، آپ نے اپنے ہاتھ سے اس ستو کو پانی میں ڈالا اور اسے تیار کیا اور دوپہر کا کھانا اسی سے تناول فرمایا مجھ سے بھی کھانے کے لیے کہا وہ کہتا ہے مجھے حیرت ہوئی عرض کی یا امیرالمومنین علیہ السلام ! آپ آخر اتنی بڑی حکومت رکھتے ہوئے ایسا کیوں کرتے ہیں؟ گندم و جو اور دنیا کی نعمتیں آپ کی سلطنت عراق میں کم نہیں ہیں پھر آپ ایسا کرتے ہیں؟ کیوں آپ نے اس تھیلی کو اس طرح سیل بند کیا تھا؟ ! حضرت علیہ السلام نے فرمایا’’والله ما اختم علیه بخلاب ہ‘‘(۱) قسم بخدا میں نے اس تھیلی کو بخل کی وجہ سے سیل بند نہیں کیا ہے تا کہ کوئی اس سے نہ کھاسک’’ولکنّی اتباع قدئ مایکفینی ‘‘(۲) فقط میں اپنی ضرورت پر اس سے استفادہ کرتا ہوں،’’لافاخاف ان نیقص فیوضع فیه من غیره ‘‘(۳) مجھے اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کوئی اس میں میرے خریدے ہوئے ستو کے علاوہ کچھ ملا نہ دے ’’و انااکره ان ادخل بطنی الّا طیبا ‘‘(۴) اور مجھے یہ بات پسند نہیں کہ طیب و طاھر غذا کے علاوہ کوئی اور شی میرے شکم میں داخل ہو۔ میں پاک و پاکیزہ غذا کھانا چاہتا ہوں ، جسے خود اپنے زورِ بازو سے اوراپنی کمائی سے حاصل کیا ہے کہ جس میں کسی اور کا پیسہ نہ لگا ہو۔

حضرت علیہ السلام اپنے اس عمل سے اس ہونے والے حاکم کو سبق سکھاناچاہتے ہیں ۔ ذرا غور تو کیجئے آپ اس سے یہی بات مسجد میں بھی کہہ سکتے تھے مگرنہیں، آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اسے خود وہاں تک کھینچ لائے تاکہ یہ منظر بچشم خود دیکھ لے تاکہ اسے سمجھائیں کہ دیکھو تم کہیں کے حاکم بن کر جا رہے ہو کچھ لوگ تمہارے زیر قدرت ہوں گے ان کے اموال ان کی جان ناموس کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے کہیں تم اپنے آپ کو مطلق العنان حاکم نہ سمجھ بیٹھنا، توجہ رکھو، اس کے بعد فرمایا:’’فایان و تناول ما لم تعلم حلّة ‘‘(۵) مبادا جس چیز کے حلال ہونے کا تم کو علم نہیں ہے اسے کھانے لگو یا اُسے لے لواس لئے کہ تناول تنہا کھانے پینے ہی کو نہیں کہتے ، اس لیے جب تک تمہیں کسی چیز کے حلال ہونے کا پورا یقین نہ ہو جائے اسے قطعاً اپنے اختیار میں نہ لو اور اسے ہرگز استعمال نہ کرو۔یہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کی کیفیت اور یہ ہے ان کا زہد اور ان کے زہد سے درس عمل ، ایک شخص کا بیان ہے کہ میں نے (کسی جنگ یا کسی سفر میں ) دیکھا حضرت استراحت کر رہے ہیں اور ایک نازک سی چادر ان کے جسم کے اوپر ہے جبکہ ٹھنڈک کی وجہ سے ان کا جسم کانپ رہا ہے، میں نے کہا یا امیرالمومنین علیہ السلام آپ کیوں کانپ رہے ہیں؟ ہوا سرد ہے جسم پر کچھ اور ڈال لیجئے ۔ فرمایا میں تمہارے اموال سے کچھ لینا پسند نہیں کرتا یہی چادر جو مدینہ سے لے کر آیا ہوں میرے لیے کافی ہے!! یہ ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کی حیات کے کچھ جھروکے ، وہ گویا پہاڑ کی چوٹی پر ہیں اور ہم جیسے لوگ بالکل نشیب میں کھڑے ہیں لہذا اسی سمت میں چلیں جہاں وہ ہمیں بلا رہے ہیں،یہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی سے سبق کا مطلب المختصر جس قدر بھی ہم آپ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں،ہمارے لیے وہ سب کچھ سبق آموز ہے۔(۶)

غدیر یعنی اثبات فضائل و کمالات وحکومت و ولایت حضرت علی علیہ السلام :

احادیث متواترہ کے مطابق غدیر کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے جو عظیم مظاہرہ ہوا اُس کے مختلف پہلو تھے، ہر چند امیرالمومنین علیہ السلام کی فضیلت و بزرگی اس کا ایک پہلو ہے لوگ بھی آپ کے ان فضائل و کمالات کو جانتے تھے اور نزدیک سے آپ کے وجود میں اس کا مشاہدہ کرتے رہے تھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور در حقیقت مشیت الہیبھی انھیں کمالات کو معتبر سمجھ رہی تھی لہذا انھیں اقدار کی بنیاد پر نبی گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ولایت و حکومت کی داغ بیل ڈالی گئی اور لوگوں کو یہ پتہ چل گیا کہ نبی کے بعد کی قیادت اور اسلامی حکومت بھی وہی اپنے ہاتھوں میں لے سکتا ہے کہ جس کے اندر یہ سارے اقدار موجود ہوں اس لیے اس دن پیغمبر کو علی علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی لوگ پہلے سے آپ کے فضائل و کمالات سے باخبر تھے ’’ابن ابی الحدید‘‘ کہتے ہیں:لوگوں کے لیے علی علیہ السلام کے فضائل اس قدر واضح تھے کہ مہاجرین و انصار میں سے کسی کو اس بات میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں تھا کہ علی علیہ السلام ہی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیجانشین ہوں گے یعنی لوگوں کے لیے خلافت و نیابت علی علیہ السلام ایک مسلّمہ حقیقت تھی، اور دوسری جگہوں پر خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں بہت کچھ ارشاد فرمایا تھا اس سلسلے میں جوروایات ہم شیعوں کے اور اھل سنت کے توسط سے وارد ہوئیں ہیں وہ سب متواتر ہیں۔آپ کے فضائل شیعہ و سنّی دونوں نے تواتر سے نقل کئے ہیں اور یہ بات تنہا شیعوں سے مخصوص نہیںہے، یہاںتک کہ قدیم مورخین میں سے ایک مشہور مورخ ابن اسحاق (مشہور و معروف کتابِ سیرۃ کے مصنّف)نقل کرتے ہیں کہ ؛ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علیہ السلام سے خطاب کر کے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے بارے میں وہی کچھ کہیں جو عیسی ابن مریم علیہ السلام کے ماننے والے ان کے بارے میں کہہ رہے تھے تو تمہارے بارے ایسی باتیں میں بیان کرتا کہ تم جہاں جہاں سے گذرتے لوگ تمہارے قدم کی خاک کو تبرک سمجھ کر اٹھاتے میں نے تو نہیں دیکھا ہے البتہ ممکن ہے یہ روایت شیعوں سے بھی نقل ہوئی ہو اور کس قدر توجہ کے قابل ہے کہ خود ’’ابن ابی الحدید‘‘ ’’ابن اسحاق‘‘ سے یہ بات نقل کرتے ہیں یعنی آج وہ لوگ جو پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوںامیرالمومنین علیہ السلام کے بحیثیت خلیفہ منصوب ہونے کے بھی قائل نہیں ہیں وہ لوگ آپ کے یہ فضائل نقل کر رہے ہیں۔

یہ خود غدیر کی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے یعنی ان فضائل و کمالات کا اثبات اور یہ کہ یہی فضائل و کمالات ایک اسلامی معاشرے میں حکومت کے لیے اقدار کی حیثیت رکھتے ہیں۔خود غدیر کا یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ازنظر وحی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیحکومت ایک ایسی حقیقت ہے جو اقدار کی تابعدار ہے کسی دوسری چیز کی تابع نہیں ہے جو اپنی جگہ پر خود ایک اسلامی قانون اور (اصل) کی حیثیت رکھتا ہے۔

غدیر کا دوسرا پہلو:

حدیث غدیر اور واقعہ غدیر کا ایک دوسرا پہلو خود ولایت کا مسئلہ ہے یعنی (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے)’’من کنت مولاه فهذا علی مولاه ‘‘(۷) کے اعلان کے ذریعے حکومت کی ایک دوسری تعبیر ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق حاکمیت کو ایک فرد معین سے مخصوص کرتے ہیں تو اس کے لیے مولا کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس ولایت کو اپنی ولایت کے مساوی قرار دیتے ہیں اور خود یہی مفہوم جو ولایت کے اندر پایا جاتا ہے اپنی جگہ نہایت اہمیت رکھتا ہے یعنی اسلام، ولایت کے اس مفہوم سے ہٹ کر( جو کہ ایک جمہوری مفہوم کے ساتھ تمام انسانوں کے حقوق کی رعایت کا ذمہ دار ہے)لوگوں کے لیے کسی اور حکومت کا قائل نہیںہے۔جو لوگوں کا حاکم اور ولی ہے ، وہ بحیثیت سلطان ایک مطلق العنان صاحب قدرت و حکومت کے عنوان سے نہیں پیش ہو ا ہے کہ وہ حاکم ہونے کی حیثیت سے جو چاہے کرے بلکہ اس کو اس حیثیت سے پیش کیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کا سرپرست اور ولی امر مسلمین ہے اور اس کو یہ حق اس لحاظ سے دیا گیا ہے ، لہذا اسلام میں حکومت ایک ایسی چیز ہے جس کا بادشاہت اور سلطنت سے ہر گز کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے‘‘

جمہوری ترین حکومت:

اگر ولایت کا یہ مفہوم اور سرپرست اور والی اسلام کے لیے اسلام نے جو فرائض منصب کی شرائط رکھی ہیں اسے شگافتہ کریں۔تو اس باب میں معصومین کے ارشادات وفرمود ات میں بہت سے سبق ہیں اور امیرالمومنین علیہ السلام کے اس خط میں جسے آپ نے مالک اشتر کے نام لکھا تھا بہت سی نصیحتیں اور اہم مضامین پائے جاتے ہیں ۔ اور ان سب کے مطالعے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ جمہوری ترین حکومت اسی کو کہتے ہیں کہ جسے ہم آئمہ ہدی علیہم السلام اور امیرالمومنین علیہ السلام کے ارشادات و فرمودات اور ان کی سیرت میں دیکھ رہے ہیں انسانی تمدن و ثقافت میں یعنی طول تاریخ میں سارے آزادی طلب انسانوں کی فرھنگ و ثقافت میں کوئی ایسی چیز جو حکومت میں بری سمجھی جاتی ہو۔ ولایت کے اس مفہوم میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی ۔

ولایت اسلامی، استبداد، خودسری، لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اقدام کرنا یا اپنی من مانی کرنا وغیرہ وغیرہ جیسے معنی سے کوسوں دور ہے البتہ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیںہے کہ کوئی شخص ولایت اسلامی کے نام سے ایسا کچھ نہیں کر سکتا ، ہر گز نہیں بلکہ منظور یہ ہے کہ جو اس راستے پر چلے گا اور اسلامی تعلیم و تربیت کو حاصل کرے گا وہ ایسا نہیں کر سکتا وگرنہ نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اچھے اچھے ناموں کا لیبل لگا کر دنیا کے ہر برے کام کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، البتہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ممکن ہے کوئی مغرب زدہ، اسلام سے بیگانہ شخص اسلام کی طرف کچھ ایسی نسبتیں دینے سے تکلف نہ کرے کہ جس کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہ ہو اور یہ فقط اس لیے کہ اس نے صحیح طور پر ولایت کا مفہوم نہ جانا ہے اور نہ اسے صحیح طور پر سمجھ سکا ہے۔

____________________

۱،۲،۳،۴،۵۔بحارالانوار ج ۴۰ ،ص ۳۳۵

۶۔حدیث ولایت ۔ج،۷، ص ۵۵

۷۔بحارالانوار۔ج ۳۵،ص ۲۸۲