"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 45162
ڈاؤنلوڈ: 4021

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45162 / ڈاؤنلوڈ: 4021
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابن حجر نے فتح باری باب من یکفل عن میت دیناً میں اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ ا س کا مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کی خبر واحد عادل بھی قابل قبول ہے چاہے وہ اس کے نفع و فائدے ہی میں کیوں نہ ہو۔(۱)

یہاں پر یہ سوال کرنا مناسب و معقول ہے کہ کیا ابوبکر کے نزدیک ابو جحیفہ اور جابر بن عبداللہ انصاری حضرت فاطمہ زہرا سے زیادہ سچے تھے ؟ خصوصا آپ کے شوہر صدیق کی گواہی کے باوجود بھی کہ جو نفس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے وصی ہیں نیز ام ایمن و اسماء کی گواہی کے باوجود کہ وہ دونوں اہل بہشت ہیں ، یا یہ کہ مسٔلہ ایک سیاسی و حکومتی اور دنیوی تھا ۔

اس تمام گفتگو کے بعد بھی کیا ایجی کی ابوبکر کی جانب سے عذرتراشی آپ کو قانع کرسکتی ہے کہ جو اس نے تحریر کی ہے کہ۔

اگر یہ کہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ادعی کیا کہ فدک نحلہ ہے اور اس پر علی و حسن و حسین اور ام کلثوم نے گواہی دی تو پھر ابوبکر نے کیوں قبول نہ کیا اور ان کی گواہیوں کو رد کردیا ؟۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ حسن و حسین کی گواہی فرعیت کی وجہ سے (مدعی کے بیٹے ہونے کی وجہ سے رد ہوئی ) اور علی و ام کلثوم کی گواہی بینہ و شہادت کے حد نصا ب تک نہیں پہنچی تھی ۔ اور شاید ابوبکرکے نزدیک گوا ہ اور ایک قسم کا رواج نہ تھا چونکہ یہ بہت سے علماء کا نظریہ ہے ۔(۲)

____________________

(۱) فتح الباری :۴ ۳۸۹۔

(۲) المواقف (ایجی ) :۳ ۵۹۸، مقصد چہارم۔

۱۰۱

اس کلام کو پڑھیے اور تعجب کیجیے اور خود ہی قضاوت و فیصلہ کیجیے چونکہ آپ ابوبکر کے نظریہ سے واقف ہوچکے ہیں کہ وہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرتے تھے ، بلکہ یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ وہ بغیر گواہی کے صرف ادعی پر بھی حکم کردیتے تھے اور مدعی کو مال دیتے تھے ۔

طرفین کے نزدیک جھوٹ بولنے کے اسباب

ا ب ذرا غور و فکر کرنے کے بعد آئیں دیکھیں کہ کیا ابوبکر واقعا سچے اور صدیق ہیں یا صدیق حضرت علی ابن ابی طالب ہیں ؟۔

حضرت امیر المؤمنین علی نے اپنے کلام میں اپنی اس مظلومیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے :

'' مازلت مذ قبض رسول الله مظلوما و لقد بلغنی انکم تقولون علی یکذب قاتلکم الله فعلی من اکذب أ علی الله فانا اول من آمن به ام علی نبیه فانا اول من صدقه '' (۱)

جب سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت ہوئی ہے تب ہی سے میں مظلوم ہوں اور مجھ کو خبر ملی ہے کہ آپ لوگ کہتے ہو کہ علی جھوٹ بولتے ہیں ،خدا آپ کو ہلاک کرے میں کس پر جھوٹ بولتا ہوں ؟ کیا میں خدا پر جھوٹ بولتا ہوں جب کہ سب سے پہلے اس پر میں ایمان لایا ہوں یا اس کے نبی پر جھوٹ بولتا ہوں ؟ جب کہ سب سے پہلے میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی تصدیق کی ہے ۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ: ۱ ۱۱۹، حظبہ ۷۱۔ خصائص الائمہ(سید رضی) ۹۹۔ الارشاد:۱ ۲۷۹۔ بحار الانوار :۳۹ ۳۵۲۔ ینابیع المودة :۳ ۴۳۶۔

۱۰۲

امام کی اس فرمایش میں بہت دقیق اور بہت خوبصورت معانی اور ایک عظیم احتجاج و مناظرہ پوشیدہ ہے ۔ چونکہ حقیقت میں کیا دلیل و توجیہ پیش کی جاسکتی ہے اس بات پر کہ علی خدا پر جھوٹ بولیں جب کہ علی وہ شخص ہیں کہ جن کے بارے میں اور آپ کے خاندان کے بارے میں قرآن کریم کی متعدد اور بہت زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں جیسے آیہ تطہیر ، آیہ مباہلہ ، آیہ مودت، سورہ دہر اور مذکورہ ذیل آیات کہ جن میں خداوندعالم کا ارشادگرامی ہے :

۱ـ( واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا ) (۱)

اور سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔

تفسیر عیاشی میں مذکور ہے کہ علی ابن ابی طالب ، خداوندعالم کی مضبوط رسی ہے ۔(۲)

۲ـ( کونو امع الصادقین ) (۳) سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

روایت میں آیاہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جناب سلمان نے پوچھا کہ اے پیغمبرخدا کیا یہ آیت عام ہے یا خاص ؟ آنحضرت نے فرمایا تمام مومنوں کو حکم ہوا ہے کہ سچوں کے ساتھ ہوجائیں لیکن صادقین سے مراد خاص افراد ہیں میرے بھائی علی اور ان کے بعد اوصیاء قیامت تک۔(۴)

____________________

(۱) سورہ آل عمران(۳) ، آیت ۱۰۳۔

(۲) تفسیر عیاشی :۱ ۱۹۴، حدیث ۱۲۲۔

(۳) سورہ توبہ (۹)، آیت ۱۱۹۔

(۴)کمال الدین و تمام النعمة ۲۷۸، باب ۲۴، حدیث ۲۵۔

۱۰۳

۳ ـ( ان هذا صراطی مستقیما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتقرق بکم عن سبیله ) (۱)

بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو سیدھے راستے سے جدا کردیں گے ۔

روضة الواعظین میں مذکورہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میں نے خدا وندعالم سے چاہا کہ اس آیت کو علی کے بارے میں قرار د ے خداوندکریم نے قبول فرمایا اور ایسا ہی کیا ۔(۲)

اور یہ بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : میں وہی صراط مستقیم ہوں کہ جس کی پیروی کا خداوندعالم نے تم کو حکم دیا ہے اور میرے بعد علی ،صر اط مستقیم ہے اور اس کے بعد علی کی نسل میں سے میرے بیٹے خدا کی طرف سے سیدھا راستہ ہیں ۔(۳)

۴ـ( یا ایهاالذین آمنوا اطیعوا الله و اطیعو ا الرسول و اولی الامر منکم ) (۴)

اے ایمان لانے والو خدا کی اطاعت کرو اورر سول اور اولی الامر کی اطاعت کر و کہ جو تم ہی میں سے ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام (۷)، آیت ۱۵۳۔

(۲) روضة الواعظین :۱ ۱۰۶۔

(۳) احتجاج طبرسی :۱ ۷۸ـ۷۹، حدیث الغدیر۔

(۴) سورہ نساء (۴)، آیت ۵۹۔

۱۰۴

جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی میں نے رسول خدا سے سوال کیا : یارسول اللہ ہم نے اللہ اور رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ اولی الامر کون ہے ؟کہ جس کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ہم پر واجب کی گئی ہے ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے جابر وہ میرے خلفاء اور مسلمانوں کے امام ہیں میرے بعد کہ ان میں سے اول علی ابن ابی طالب اور ان کے بعد حسن پھر حسین ہیں۔(۱)

۵ـ( فاسئلو ا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) (۲) آپ اگر نہ یں جانتے تو اہل ذکر سے سوال کرو ۔ روایات میں آیاہے کہ ذکر سے مراد پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اہل ذکر سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل ب یت مراد ہیں ۔(۳)

۶ـ( ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین له الهدی و یتبع غیرسبیل المؤمنین نوله ما تو لی و نصله جهنم و سائت مصیرا ) (۴) راہ حق و ہدا یت روشن ہونے کے بعد بھی جو شخص پیغمبراکرم سے اختلاف کرے اور مؤمنین کے راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے تو اس کو اسی راستے پر چھوڑدیں گے کہ جو اس نے اختیار کیا ہے اور اس کو جہنم تک پہنچادیں گے ،کہ جو بہت برا راستہ ہے ۔

____________________

(۱) ۱ کمال الدین و تمام النعمة ۲۵۳،باب ۲۳۔ حدیث ۳۔

(۲) سورہ نحل (۱۶)، آیت ۴۳۔

(۳) دیکھیے :ـ اصول کافی :۱ ۲۱۰، حدیث ۱ـ۳۔ تفسیر قمی :۲ ۶۸۔ تفسیر عیا شی :۲ ۲۶۰،حدیث ۳۲۔ بصائر الدرجات ۶۰،باب ۱۹، حدیث ۱۰و۱۳۔ (۴) سورہ نسائ(۴)، آیت ۱۱۵۔

۱۰۵

۷ـ( انما انت منذر و لکل قوم هاد ) (۱)

بیشک آپ ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے ۔

تفسیر مجمع البیان میں مذکورہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا نے فرمایا : میں ڈرانے والاہوں اور میرے بعد علی ہادی ہے اے علی ہدایت پانے والے آپ سے ہدایت پائیں گے ۔(۲)

۸ـ( انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوة ویوتون الزکاة و هم راکعون ) (۳)

آپ کا ولی اور سر پرست صرف خدا ہے اور اس کا رسول اور وہ مومنین کہ جو نماز قائم کرتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں (اور جو شخص بھی خدااور اس کے رسول اور ان مومنین کو اپنا ولی قراردے و ہ حزب اللہ کے دائرے میں ہے اور بیشک وہ افراد کہ جو حزب اللہ کے زمرے میں ہیں کامیاب ہیں )

کتاب کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ والذین آمنوا سے مراد علی اور قیامت تک آپ کی اولاد آئمہ ہیں ۔(۴)

____________________

(۱) سورہ رعد(۱۳)، آیت ۷۔

(۲) مجمع البیان :۵و۶ ۲۸۷۔

(۳) سورہ مائدہ (۵)، آیت ۵۵و ۵۶۔

(۴) اصول کافی :۱ ۲۸۸،حدیث ۳۔

۱۰۶

حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے کہ یہودیوں میں سے ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور آپ سے سوال کیا کہ آپ کا وصی اور جانشین کون ہے ، آپ کے بعد ہماراولی و سرپرست کون ہے ؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی( انما ولیکم الله و رسوله ) پیغمبراکرم نے ان لوگوں سے فرمایا اٹھیے اور مسجد کی طرف چلیے وہ سب کے سب مسجد کی طرف چل پڑے اسی دوران ایک فقیر کو دیکھا کہ جو مسجد سے باہر نکل رہا تھا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوال کیا: اے سائل کیا تجھ کو کسی نے کچھ دیا ؟ اس نے کہا؟ جی ہاں یہ انگوٹھی ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معلوم کیا : کس شخص نے یہ انگوٹھی تجھے دی ؟ فقیر نے کہا : اس شخص نے کہ جو نماز پڑھ رہا ہے ۔ آپ نے معلوم کیا : کس حالت میں یہ انگوٹھی تجھ کو دی ؟ اس نے کہا : حالت رکوع میں ۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سن کر تکبیر کہی اور تمام اہل مسجد نے تکبیر کہی پھر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: علی ابن ابی طالب آپ کا ولی و سرپرست ہے۔ سب نے کہا ہم راضی ہیں کہ اللہ ہمارا پروردگار، محمد ہمارا رسول ہے اور علی ابن ابی طالب ہمارے ولی و سرپرست ہیں ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی( ومن یتول الله و رسوله ) (۱)

اور ان کے علاوہ بہت سی دوسری آیات کہ جو اس سلسلے میں نازل ہوئی ہیں اور تفاسیر و دوسری کتابوں میں ان باتوںکی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

____________________

(۱) امالی (شیخ صدوق ) ۱۰۷ـ۱۰۸، مجلس ۲۶،حدیث ۴۔

۱۰۷

پیغمبراسلام پر جھوٹ بولنا چاپلوسی ،چمچے اور تملق مزاج لوگوں کا کام ہے اور وہ یہ حرکت کرتے ہیں کہ جو خواہشات نفس کے پیروکار ہیں یا وہ افراد کہ جو حقیقت میں اسلام کے دشمن ہیں لیکن اپنے آپ کو مسلمانوں کی صفوں میں کھڑا کرلیا ہے ۔یا وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنی قلعی و حقیقت کھلنے کے خوف سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ستایا اور آپ پر جھوٹ کا الزام لگایا ہے یہ وہی لوگ ہیں کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر کوڑا پھینکتے تھے اور آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے تھے ۔

جبکہ حضرت امام علی ابن ابی طالب آپ کے چچا زاد بھائی ہیں اور وہ ہیں کہ جنہوںنے اپنی جان اور خون سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت کی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دفاع ک یا اور آپ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت و رسالت کو قبول کیا ، اور آپ سے خطرات کو ٹالنے کے لیے آپ کے بستر پر سوئے ، جو شخص اس طرح کا ہو اوراس طرح کے امتیازات رکھتاہو کیا یہ معقول ہے کہ وہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ بولے ؟۔

یہ کس طرح ممکن ہے کہ علی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ کی تہمت لگائیں جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیکڑوں حدیثین حضرت علی کے مدح میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مرو ی ہیں ، مذکورہ ذیل روایات صرف نمونے کے طور پر پیش خدمت ہیں کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کے بارے میں فرمایا :

٭''امام المتقین وقائد الغر المحجلین'' (۱)

علی متقین اور پرہیزگاروں کے امام اور سفید و نورانی پیشانی والوں کے قائد ہیں۔

____________________

(۱) اس حدیث کے منابع و مصادر سے آشنائی کے لیے دیکھیے :ـ المراجعات (شرف الدین) ۳۴۰، مراجعہ ۴۸۔

۱۰۸

٭'' هذا امیر البررة وقاتل الفجرة منصورمن نصره مخذول من خذله'' (۱)

یہ علی، نیک وصالحین کے امیر ،فاسقین و فاجرین کے قاتل اور جو اس کی مدد کرے وہ کامیاب ہے اور جو اس کو پست و خوار سمجھے وہ خود ذلیل ہے ۔

٭'' انا مدینة العلم و علی بابها فمن اراد العلم فلیات الباب '' (۲)

میں علم کا شہرہوں اورعلی اس کے دروازہ ہیں پس جس کو علم چاہیے وہ دروازے سے داخل ہو۔

٭'' انت تبین لامتی ما اختلفوافیه من بعدی'' (۳)

آپ اے علی میرے بعد میری امت کے لیے وضاحت کریںگے جن مسائل میں وہ اختلاف کریں۔

____________________

(۱) مستدرک حاکم :۳ ۱۲۹۔ حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔ تاریخ بغداد : ۴ ۴۴۱، ترجمہ ۲۲۳۱۔

(۲) المعجم الکبیر :۱۱ ۵۵(بہ نقل از ابن عباس )۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۲۶(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) اور ۱۲۷ صفحہ پر اس حدیث کو جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے ۔ فیض القدیر :۱ ۴۹۔ اسد الغابہ :۴ ۲۲۔

(۳) مستدرک حاکم:۳ ۱۲۲ ۔حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔ تاریخ دمشق : ۴۲ ۳۸۷۔

۱۰۹

٭'' اناالمنذر و علی الهادی و بک یا علی یهتدی المهتدون من بعدی'' (۱)

میں ڈرانے والاہوں اور علی ہادی ہیں ، اور اے علی میرے بعدہدایت پانے والے آپ سے ہدایت پائیں گے ۔

٭'' ان الامة ستغدربک بعدی وانت تعیش علی امتی و تقتل علی سنتی من احبک احبنی ومن ابغضک ابغضنی و ان هذه ستخضب من هذا (یعنی لحیته من راسه )'' (۲) اے عل ی میرے بعد میری امت آپ سے خیانت کرے گی جب کہ آپ کی زندگی میرے آئین و روش پر ہوگی اور میری سنت کے احیاء میں قتل کردیے جاؤ گے اور جو آپ کو دوست رکھے وہ مجھ کو دوست رکھتا ہے اور جوآپ سے بغض رکھے وہ مجھ سے بغض، اور میر ا دشمن ہے ۔اور عنقریب آپ کی ڈاڑھی آپ کے سر کے خون سے رنگین ہوگی ۔

____________________

(۱) تفسیر طبری :۱۳ ۱۴۲(بہ نقل از ابن عباس) ۔ فتح الباری : ۸ ۲۸۵(ابن حجر کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد حسن ہیں ) ۔ الدر المنثور : ۴ ۴۵۔(اس ماخذ میں وارد ہے کہ اس حدیث کو ابن حجر ، ابن مردویہ اور ابونعیم نے المعرفت میں اور دیلمی ، ابن عساکر ، ابن نجار اور اسی طرح حاکم نے عباد بن عبداللہ اسدی سے کہ اس نے علی سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور بخاری و مسلم نے نقل نہیں کیا ہے ) دیکھیے:ـ مستدرک حاکم :۳ ۱۳۰۔

(۲) اس حدیث کو حاکم نے مستدرک :۳ ۱۴۲ میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور ذہبی نے اس کو اپنی تلخیص میں صحیح جانا ہے ۔ کنزالعمال :۱۱ ۲۹۷، حدیث ۱۳۵۶۲۔اسی طرح کی روایت شیعہ طرق سے بھی نقل ہوئی ہے جیسا کہ عیون اخبار الرضا :۱ ۷۲، حدیث ۳۰۶، میں وارد ہے ۔

۱۱۰

عمر بن خطاب سے منقول ہے انہوں نے کہا: علی کو تین ایسی خصلتیں ملیں کہ اگر مجھ کو ان میں سے ایک بھی مل جاتی تو اس سے کہیں زیادہ بہتر تھی کہ مجھ کو لال بالوں والے اونٹ دیئے جائیں ۔

لوگوں نے معلوم کیا کہ وہ علی کی کیا خصوصیتیں ہیں؟تو کہا : علی کی فاطمہ دختر رسول خدا سے شادی ہونا ، اور آپ کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مسجدمیں سونا اور ہر وہ چیز کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے مسجد میں حلال تھی آپ کے لیے بھی حلال تھی اور آپ کو روزخیبر علم کا دیا جانا ۔(۱)

مسلم نے سعد بن وقاص سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے ۔(۲)

اور اسی طرح کے مضمون کی روایت ابن عباس سے نقل ہوئی ہے ۔(۳)

جس کے حصے اور نصیب میں خدا اور رسول سے اس قدر فضائل و کمالات ہوں تو کیا اس کے لیے یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ وہ خدا اور رسول پر جھوٹ بولے ۔

صدیق اکبرحضرت علی اور صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا کی تصدیق نہ کرنا یا ان کی بات رد کرنا ـ ان دونوں کی فضیلت میں اتنی زیادہ احادیث صحیحہ و متواترہ ہونے کے باوجود ـ گویا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی تکذیب کرنا ہے خصوصاًان روایات میں کہ جن کے صحیح ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔

____________________

(۱) مصنف ابن ابی شیبہ :۷ ۵۰۰، حدیث ۳۶۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۲۵۔(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) ۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۲۰۔

(۲) صحیح مسلم ۱۲۰ کتاب فضائل الصحابہ ، فضائل علی ۔ سنن ترمذی :۵ ۳۰۱، حدیث ۳۸۰۸۔

(۳) المعجم الاوسط : ۸ ۲۱۲ ۔ مجمع الزوائد : ۹ ۱۲۰۔ مستدرک حاکم :۳۰ ۱۱۱۔ تاریخ دمشق :۴۲ ۷۲۔ شواہد التنزیل : ۱ ۲۲۔

۱۱۱

وہ لوگ کہ جو تاریخ اسلام کا حقیقت مندانہ مطالعہ کرتے ہیں وہ اچھی طرح درک کرلیتے ہیں کہ خدا اور رسول پر ان لوگوں نے جھوٹ بولا ہے کہ جن کے یہاں زمانہ جاہلیت کی طرف تمایل اور تعصب تھا ، یا خواہشات نفس کے تابع تھے ، یا حکومت و جاہ طلب، اور یا پھر فکری اعتبار سے پست تھے اور یہ لوگ عموماً وہ تھے کہ جو مسلمانوں کی تلوار کے خوف سے ایمان لائے تھے، اپنی جان کے خوف میں جہاد پر بھی نہ گئے اور اگر گئے بھی تو مسلمانوں کی صفوں میں رخنہ و تفرقہ ڈالا ۔ جیسے فتح مکہ کے دن اسلام قبو ل کرنے والے اور اس کے بعد والے یا منافق افراد وغیرہ۔

یہ تمام اسباب ـ کہ جن کی سزا اور بھگتان بہت سنگین ہے ـ حضرت علی ابن ابی طالب ، حضرت فاطمہ زہرا ، جناب خدیجہ اور تمام ہی اہل بیت علیہم السلام کے حق میں کہ جن کو خداوندعالم نے پاک و پاکیزہ رکھا ہے ، منتفی ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبر حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کا ارشاد گرامی ہے :

'' ما کذبت ولا کذبت '' (۱)

نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا اور نہ مجھ پر(رسول خدا کی جانب سے) کبھی جھوٹ بولا گیا ۔

اور یہ اسباب ، اہل بیت علیہم السلام کے پیرو وتابع حضرات جیسے سلمان ، مقداد ، ابوذر ، عمار ، ابن عباس ، حذیفہ بن یمان اور خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین وغیرہ کے یہاں بھی منتفی و محال ہیں

____________________

(۱) مسند احمد : ۱ ۱۳۹ـ۱۴۱۔ مستدرک حاکم:۲ ۱۵۴۔ (حاکم کا بیان ہے کہ یہ حدیث بہ شرط شیخین صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) ۔ السنن الکبری (بیہقی ) :۲ ۳۷۱۔ مسند ابی داؤد ۲۴۔ المصنف(عبد الرزاق) :۳ ۳۵۸، حدیث ۵۹۶۲۔

۱۱۲

اس لیے کہ ان حضرات کی صدق وصفائی اور فضائل میں خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایات وارد ہیں اور یہ لوگ صدق و صفائی میں مشہور ہیں ان پر سیاسی حوادث اور خواہشات نفس کا غلبہ نہیں ہوا اور ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث کے جعل و گھڑنے اور جھوٹ سے متہم نہیں ہوا ہے ۔ ان کے بر خلاف حاکم اور ان کے پیروکاروں کے یہاں جعل حدیث اور جھوٹ کا بازار گرم ہے جیسے کعب الاحبار ، وھب بن منبہ ، سمرہ بن جندب اور ابوھریرہ وغیرہ ۔

جی ہاں ! حضرت فاطمہ زہرا کی سچائی اور راست گوئی کی تصدیق ہوئی ہے ۔ اور بیشک آپ اور آپ کے شوہرحضرت امیرالمؤمنین سیاسی امور وشخصی معاملات میں جھٹلائے گئے حضرت فاطمہ زہرا بیت الشرف سے باہر تشریف لائیں تاکہ لوگوں کو یہ تاکید کرسکیں کہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی بیٹی ہیں اور وہ اپنے قول و فعل میں سچی ہیں ، پس جو کچھ بھی فرمائیں وہ غلط و جھوٹ نہیں ہے اور جوکام بھی انجام دیں وہ کسی کے حق میں ظلم و زیادتی نہیں ہے ۔

اے لوگو! یہ جان لو کہ میں فاطمہ اور میرے باپ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہ یں ، میرا اول و آخر کلام یہ ہے کہ میں کوئی غلط بات نہیں کہتی اور جو کام کرتی ہوں اس میں کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتی ۔

( لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم ) (۱) خدا ک ی قسم آپ ہی میں سے آپ کے درمیان پیغمبرآئے کہ جس پر آپ کے رنج و تکلیف دشوار تھی اور جو آپ لوگوں کی کامیابی و سعادت کے لیے حرص و طمع کرتے اور مومنین کے متعلق بہت مہربان و دل سوز تھے ۔

____________________

(۱) سورہ توبہ(۹)، آیت ۱۲۸۔

۱۱۳

اگر ان کے نسب کو دیکھنا ہے اور ان کو پہچاننا ہے تو دیکھوگے کہ وہ میرے باپ ہیں نہ کہ آپ کی عورتوں کے باپ ۔ اور میر ے ابن عم علی کے بھائی ہیں نہ کہ تم مردوں کے ، اور یہ کتنی نیک نسبت ہے کہ جومجھے ان سے ہے ۔

انہوں نے اپنی الہٰی رسالت کو انجام دیا اور خداوندعالم کی جانب سے عذاب کے اسباب و علل کو پہچنوادیا ہے ۔۔۔(۱)

ابوبکر اور ان کے پیرو کار و طرف دار حضرت فاطمہ زہرا کے اسلام میں مقام و منزلت سے اچھی طرح واقف تھے اور جان بوجھ کر آپ کی منزلت و شان میں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے تھے اور اپنے آپ کو نادانی میں ڈالے ہوئے تھے اور جہاں کہیں بھی حضرت فاطمہ زہرا کے مقا م کا اعتراف کیا وہ از راہ اکراہ تھا، حقیقت مندانہ نہیں تھا بلکہ اپنے نئے نئے حربوں سے آپ کو آپ کے مقام سے اوروہ منزلت کہ جو آپ کو خدا نے عطا فرمائی تھی گرانے کی کوشش کرتے تھے ۔

اگر ان لوگوں کے افعال کی بہترین توجیہ و تاویل کی جائے تو یہ ہوگی کہ وہ لوگ مقام رسالت و حقائق الہٰی سے ناآشنا تھے اور معرفت نام کی ان کے پاس کوئی چیز نہ تھی اگر امیر المؤمنین کے احتجاج پرکہ جو آپ نے ابوبکر پر کیا ، غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ ابوبکر حقیقت وحی و رسالت کی کما حقہ معرفت نہیں رکھتے تھے ، چونکہ جب امیرالمؤمنین نے ان کی زبان سے یہ کہلوالیا کہ آیت تطہیر ان حضرا ت کی شان میں نازل ہوئی ہے تب فرمایا :

____________________

(۱) شرح الاخبار :۳ ۳۴۔ احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۴۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۱۶ ۲۱۲۔

۱۱۴

اگر مسلمان یہ گواہی دیں کہ فاطمہ زہرا کسی غلط فعل کی مرتکب ہوئی ہیں تو آپ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے ؟ ابوبکر نے کہا : عام مسلمان عورتوں کی طرح ان پر بھی حد جاری کروں گا !۔ آپ نے فرمایا : اس صورت میں آپ خداوندعالم کے نزدیک کافروں میں سے ہوں گے ۔ ابوبکر نے کہا: وہ کیسے ؟

آپ نے فرمایا : چونکہ حضرت فاطمہ زہرا کی پاکیزگی و طہارت پر خداوندعالم کی گواہی کو رد کردیا اور ان کے خلاف مسلمانوں کی گواہی کو قبول کرلیا ۔ اسی طرح خداوندعالم اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کو فدک کے سلسلے م یں کہ جو آپ کے لیے قرار دیا تھا اورآپ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی ہی میں اس کی مالک تھیں، رد کردیا ہے ۔

عالم غیب اور عالم مادہ

یہ واضح ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اور مشرکین عرب اپنی سطحی فکر پر زندگی گذار رہے تھے ، اگر ان کے حالات پر غور کریں تو روشن ہوجائے گا کہ وہ حقیقت رسالت کودرک نہ کرنے کی وجہ سے جو کچھ بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لائے تھے اس پر اعتراض کرتے اور کہتے تھے کہ کیوں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک عظیم بادشاہ کی طرح نہیں ہیں ؟آپ کے پاس کیوں مال و دولت کے انبار نہیں ہیں ؟ ۔

کس طرح خد اوندعالم مردوں کو زندہ کرے گا ؟ کس طرح لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے ؟۔

اور اس طرح کے ہزاروں سوال ۔

یہ تمام سوالات مشرکین کی جانب سے ہیں کہ جن میں سے زیادہ تر مادی اور امور حسی سے مربوط ہیں کہ جن کا عالم غیب سے کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ خداوندعالم نے مؤمنین سے غیب پر ایمان لانے کی فرمائش کی ہے کہ تمام حوادث کو ایک مادی نگاہ سے نہ دیکھا جائے بلکہ عالم غیب پر ایمان رکھا جائے ۔

حدیثی منابع و مصادر میں ابوبکر کے متعلق نقل ہوا ہے کہ وہ جنگ حنین میں بعض غیبی حوادث کے متعلق مادی نظر رکھتے تھے اسی لیے کہا کہ ہم آج قلت افراد کی وجہ سے اصلا کامیاب نہیں ہوسکتے!

۱۱۵

خدا اور اس کے رسول نے اس مادی فکر کو پسند نہ فرمایا چونکہ ان کا مقصد ایمان اور غیبی مدد پر یقین کو تقویت دینا تھا ، لہذا ارشاد فرمایا :

( ویوم حنین اذاعجبتکم کثرتکم ) (۱)

اور روز حنین ان کی زیادتی نے تم کو تعجب میں ڈا ل دیا۔

بہت سے مسلمان اسی سطحی فکر پر ایمان لائے ہوئے تھے اور ان کی نظر اکثر امور کے متعلق مادی ہوا کرتی تھی ، ہر چیز کو اس کے ظاہری اعتبار سے دیکھتے اور اس کو معیار قرار دیتے تھے ،انبیاء و اولیا ء اور اللہ کے نیک بندوں کے مقامات اور ان کی معنوی شأن و منزلت کے متعلق شک و شبہہ کرتے اور یہ دعوی کرتے کہ ان حضرات کے بدن مٹی میں ملنے اور خاک ہوجانے کے باوجود کیسے یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ جب کہ یہ فکرظاہری ، حیات مادی اور دنیوی خیال کی وجہ سے ہے کہ جو زمانہ جاہلیت سے سرچشمہ لے رہی ہے اور اسی کی دین ہے ۔

اگر یہ لوگ خداوندعالم کے اس فرمان کو کہ جس میں ارشاد ہے (کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن اللہ واللہ مع الصابرین )(۲) چہ بسا تھوڑے لوگ ، خدا وندعالم کے اذن سے ز یادہ لوگوں پر غالب آجاتے ہیں اور خداوندعالم صبر کرنے والوںکے ساتھ ہے ۔حقیقت میں درک کرتے تو انبیاء اور اوصیاء کے مقامات کو کہ جو خداوندعالم نے ان کو عطا فرمائے ہیں خوب سمجھ لیتے اور پھر کبھی شک نہ کرتے اور بے اساس و بے بنیاد اور بیہودہ باتیں نہ کرتے ۔

____________________

(۱) سورہ توبہ (۹) ، آیت ۲۵۔

(۲) سورہ بقرہ(۲)، آیت۲۴۹۔

۱۱۶

ابلیس اپنی تمام خباثتوں کے ساتھ خداوندعالم سے مخاطب ہے کہ اپنی تمام تر کوششوں سے اولاد آدم کو بہکائے گا اور راہ حق سے گمراہ کرے گا لیکن ان افراد کے علاوہ کہ جن کو گمراہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔

( لا حتنکن ذریته الا قلیلا ) (۱)

میں یقینا آدم کی اولاد کے لگام ڈالوںگا اور ان پر مسلط ہوجائوں گا مگر کچھ افراد کے علاوہ ۔یا اس کا یہ کلام کہ:( فبعزتک لاغوینهم اجمعین الاعبادک منهم المخلصین ) (۲)

تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کر وں گا مگر سوائے تیرے مخلص بندوں کے ۔(۳)

____________________

(۱) سورہ اسراء (۱۷)، آیت۶۲۔

(۲) سورہ ص(۳۸)، آیت۸۲ـ۸۳۔

(۳) مخلص ،(زبر کے ساتھ) ، مخلص ،(زیر کے ساتھ)سے جدا اور ممتاز ہے ۔

مخلص، (زیر کے ساتھ)وہ شخص ہے کہ جو اپنے اعمال میں اخلاص سے کام لے اور یہ کوشش کرے کہ اس کی ہر حرکت ورفتار و گفتار صرف خدا کے لیے ہواور ریاکاری ، نفاق اور ہر وہ شیٔ کہ جس کو خدا وند پسند نہیں فرماتا اس کے عمل میںنہ پائی جائے ، اس اعتبار سے ہر انسان باایمان اور مخلص ، اخلاص کی راہ پر گامزن ہے اور خطروں سے بچا ہوا نہیں ہے ، اخلاص کے مراتب و مقامات ہیں کہ ہر شخص مخلص کے اخلاص کا درجہ جدا جدا ہے۔

لیکن مخلص، (زبر کے ساتھ) وہ شخص ہے کہ جو پیغمبروں کی توصیف میں آیا ہے اور ان کی ممتاز خصوصیتوں میں سے ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا وندعالم کی جانب سے کسی بندے کا انتخاب یعنی اخلاص کے تمام مراحل کو طے کرکے خطاء و غلطی سے مصونیت و معصومیت کے درجہ پر فائز ہوگیا ہے ۔ اس حیثیت سے کہ اپنے نفس کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے اور جن و انس اور شیطان کوئی بھی اس کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔۔ ۔بقیہ اگلے صفحہ پر ۔ ۔ ۔

۱۱۷

اسی بناء پر عالم غیب کے اسرار و رموز سے آگا ہی ہمارے لیے امکان فراہم کرتی ہے کہ ہم تمام امور میں جس مقام و حیثیت میں ہیں اس سے زیادہ حقیقت بینی سے کام لیں اور ان کو کما حقہ درک کرنے کی کشش کریں ۔

حق یہ ہے کہ کہاجائے کہ ہم پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت فاطمہ زہرا اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے مقامات کو درک نہیں کرپاتے چونکہ ان کا عالم غیبی و معنوی ہمارے سطحی عالم سے کہیں بلند و بالاہے اور ہمارے یہاں ان کے مقام کو درک کرنے اورسمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔

اسی وجہ سے وہ لوگ کہ جو مادی و سطحی فکر رکھتے ہیں جیسے عصر حاضر میں فرقہ وہابیت وہ لوگ اصلاً اس بات کو درک نہیں کرسکتے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چودہ صدیوں کے بعد آج بھی ہم پر گواہ و شاہد ہیں جب کہ یہ گواہی وشہادت خداوندمتعال کے کلام پاک میں موجود ہے۔

____________________

۔ ۔ ۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔ ۔ ۔

دوسر ے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ مخلص (زبر کے ساتھ) وہ شخض ہے کہ جو توفیق الٰہی کے ساتھ تمام تر آزمائشات و امتحانات سے سربلند و کامیاب نکلا ہو اور کسی بھی فتنے میںاس کے قدم نہ ڈگمگائے ہوں ۔

جی ہاں ! اخلاص ایک وظیفہ ہے کہ جو ہر مخلص مرد و عورت اپنا شیوہ بناتا ہے ۔ اور مخلص (زبر کے ساتھ) خداوندعالم کی جانب سے ایک رتبہ اور مقام ہے اور ایک ایسی منزلت ہے کہ جو مسلسل علمی وعملی جہاد اور کوششوں کے بعد اور ایمان کے آخری درجہ پر فائز ہونے کے بعد ، خدا کے بعض بندوں کو نصیب ہوتی ہے اور ان کو خدا کا منتخب بندہ بناتی ہے ۔

۱۱۸

( وکذالک جعلنا کم امة وسطا لتکونوا شهداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شهیدا ) (۱) اور اسی طرح آپ کو درمیانی امت قرار دیا تاکہ آپ لوگوں پر گواہ رہیں اوررسول آپ پر گواہ ہو ۔

اسی طرح یہ دوسری آیت :( وقل اعملو فسیرالله عملکم و رسوله والمؤمنون و ستردون الی عالم الغیب والشهادة فینبٔکم بما کنتم تعملون ) (۲)

اے رسول کہدو کہ جوتمہارا دل چاہے انجام دو ، جبکہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے اور اس کا رسول اور مؤمنین آپ کے اعمال کو دیکھتے ہیں اور عنقریب آپ عالم غیب و شہادت کی طرف پلٹادیئے جائوگے تاکہ جو کام انجام دیتے ہو ان سے تم کو باخبر کردیا جائے ۔

اور خداوندعالم کا یہ ارشادگرامی :

( قل کفٰی بالله شهیدا بینی و بینکم ومن عنده علم الکتاب ) (۳)

اے رسو ل کہدو، میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے خدا کافی ہے اور وہ کہ جس کے پاس تمام کتاب کا علم ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا گواہی و شہادت اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دوسروں کے اعمال کو دیکھنا صرف انپے ہم عصر اور صحابہ تک مخصوص ہے یا ہر زمانے اور مکان اور تمام نسلوں کوشامل ہے ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ (۲)، آیت ۱۴۳۔

(۲) سورہ توبہ(۹)، آیت ۱۰۵۔

(۳) سورہ رعد(۱۳) ، آیت ۴۳۔

۱۱۹

اور پھر اس آیت کے کیا معنی ہیںکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :

( ولو انهم اذظلموا انفسهم جائوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لو جدوا الله توابا رحیما ) (۱)

اے رسول ، اگر یہ لوگ اپنے اوپر ظلم و ستم کریں اور پھر آپ کے پاس آئیں کہ خود بھی خداوندعالم کے حضور استغفار کریں اور پیغمبر بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرے تو خداوندعالم کو توبہ قبول کرنے والا اور رحیم پائیں گے۔

کیا یہ کلام صرف عصر رسول سے مخصوص ہے ؟ یا یہ کہ دوسرے زمانوں کو بھی شامل ہے ۔اور اگر یہ صرف عصر رسول سے مخصوص ہے تو کیا یہ آئندہ نسلوں پر ظلم و ستم نہیں ہے ؟۔

اور اس کے علاوہ گذشہ آیت میں گواہی و شہادت کے کیا معنی ہیں ؟ اور کس طرح مادی قوانین و ضوابط کی بنیاد پر کہ جو ہمارے یہاں پائے جاتے ہیں یہ تصور کیا جاسکتاہے کہ پیغمبراکرم انسانوں پر گواہ ہیں جبکہ وہ رحلت فرماچکے ہیں اور ظاہراً فوت ہوچکے ہیں ۔

یہ امور سب کے سب عالم غیب سے مربوط ہیں اور ان باتوں پر ایمان رکھنا لازم ہے اگرچہ ان کی حقیقت اور تفصیلی کیفیت سے ہم ناواقف ہوں چونکہ غیب پر ایمان ، خداوندعالم کی اس آیت( الذین یؤمنون بالغیب ) (وہ لوگ کہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں)اور فرمان کے مطابق ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ جی ہاں! غیب کے معنوی معانی و مفاہیم ہماری اسلامی زندگی میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں کہ جن کی معرفت ہم پر لازم ہے ۔

____________________

(۱) سورہ نساء (۴) ، آیت ۶۴۔

۱۲۰