"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

12%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49447 / ڈاؤنلوڈ: 6227
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب : "کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

تحریر: علامہ سید علی شہرستانی

مترجم: سید سبط حیدر زیدی

ماخذ:شیعہ نیٹ

۳

عرض مترجم

کتاب ھٰذا ، استاد علامہ سید علی شہرستانی کی تألیف ''من ه و الصدّ یق و من هی الصدّیقة '' کا ترجمہ ہے یہ کتاب اصل میں عربی زبان میں ہے اور اس کا فارسی زبان میں ترجمہ '' تأمّلی در مفھوم یک لقب'' کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ۔

مؤلف محترم نے ایرانی ہونے کے ناطے فارسی ترجمے میں کچھ مطالب کا اضافہ فرمایا ہے لہٰذا ہمارے لیے بھی ضروری تھا کہ ان اضافات کو نظر انداز نہ کیا جائے لہٰذا اردو زبان میں یہ ترجمہ عربی و فارسی دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر انجام دیا گیا ہے تاکہ اصل کتاب مع اضافات قارئین کے حضور پیش کی جاسکے ۔

اس کتاب میں اگر چہ ظاہراً لفظی بحث ہے اور کلمات صدّیق و صدّیقہ کے متعلق گفتگو کی گئی ہے لیکن لفظی بحث کے باوجود معارف اور حقائق کے ان لطیف گوشوں کی نشاندہی بھی کرائی گئی ہے کہ جو علم کلام و عقائد کی کتابوں میں بھی دستیاب نہیں ہیں یا بہت کمیاب ہیں ۔

ظاہر ہے کہ کلمہ صدّیق و صدّیقہ اور اسی طرح بہت سے الفاظ و القاب حقیقتاً عظیم معانی و مفاہیم کے حامل ہیں لیکن مخالفین اہل بیت علیہم السلام نے جہاں آپ کی ظاہری حکومت و حکومت

۴

اور مادی ملک و میراث پر ناجائز قبضہ کیا وہیں آپ کے القاب کہ جو اپنے دامن میں فضیلتوں کے دریا اور کمالات کے سمندر لیے ہوئے ہیں ، آپس میں تقسیم کرنے کی سعی لاحاصل انجام دی۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمانوں کی نظر میں ان القاب کی حیثیت نہ رہی اور پھر ان کے ظاہری و لغوی معانی کومدنظر رکھتے ہوئے ہرکس و ناکس کے لیے استعمال کیے جانے لگے ۔جبکہ قرآن کریم میں ان الفاظ کا استعمال کچھ خاص افراد کے لیے ہوا ہے اور ان کو بعض نبیوںکی خصوصی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

''صدیقیت'' ایسے معانی و مفاہیم کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے کہ جو عصمت، اعجاز، ولایت تکوینی اور ہم مشیت الٰہی ہونے کو شامل ہیں۔ مثلا خداوندمتعال نے قرآن کریم میں لفظ صدیق کو جس ذات والا صفات کے لیے بھی استعمال کیا وہاں پر اور اس استعمال کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ملا کہ اس ذات گرامی کی زبان مبارک سے کوئی بات نکلی اور مشیت الٰہی نے اس کو پورا کردکھایا ۔ جیسے حضرت یوسف کے لیے صدیق کا لفظ اس مقام پر استعمال ہوا کہ جہاں آپ نے خواب کی تعبیر بیان فرمائی اور پھر وہ تعبیر آپ کے بیان کے مطابق پوری ہوئی ، چاہے وہ ان قیدیوں کے خواب کی تعبیر ہو کہ جو آپ کے ساتھ زندان میں تھے یا بادشاہ مصر کے خواب کی تعبیر ، لیکن جو بھی یوسف صدیق کی زبان سے جاری ہوا وہی مشیت الٰہی نے پورا کر دکھایا اسی طرح ادھرحضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا کی زبان اطہر سے بچوں کے لباس کی خواہش پر الفاظ ادا ہوئے '' بچو! تمہارے لباس خیاط کے پاس ہیں جو کل لے آئے گا '' تو اب جبرئیل ، رضوان جنت ، سردارملائکہ درخانہ سیدہ صدیقہ طاہرہ پر آکر یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے ''انا خیاط الحسنین جئت با لثیاب '' میں حسنین کا درزی ہوں کپڑے لے کر حاضر ہوا ہوں۔

۵

معلوم ہواکہ صدیقیت بہت عظیم مرتبے اور معانی کی حامل ہے اور یہ صادق سے بہت بلندو بالا مقام کا نام ہے ۔۔۔ بلکہ یوں کہاجائے کہ صادق اس کو کہتے ہیں کہ جو واقعہ کو بعینہ نقل کرتا ہو اور اس کا کلام واقع کے مطابق ہو گویا صادق ،واقعہ کا محتاج ہوتا ہے کہ واقعہ رونما ہواور صادق اس کو بیان کرے ۔ جبکہ صدیق وہ ہے کہ واقعہ اس کا محتاج ہوتا ہے یعنی صدیق کی زبان مبارک سے جو کلمات بھی ادا ہوں وہ مشیت الٰہی کے تحت واقعہ کی صورت اختیار کرلیں ۔

یہی عصمت ، اعجاز، ولایت تکوینی اور مشیت الٰہی کے مطابق ہو نا ہے ۔

بہر حال یہ کتاب بہت عظیم معانی و مفاہیم پر مشتمل ہے ہمیں امید ہے کہ قارئین محترم ، اہل نظر اور اہل قلم و ادب حضرات ہماری کوتاہیوں کو دامن عفو میں جگہ عنایت کرتے ہوئے دعائے خیر میں یاد فرمائیں گے۔

بارگاہ احدیت میں ملتجی ہوں کہ اس ناچیز سعی کو مقبول فرمائے ۔آمین

الله م تقبل منا انک انت سمیع الدعا و صل علی محمد وآله الط یبین الطاه ر ین المعصومین ۔

سید سبط حیدر زیدی

مشہدمقدس، ایران

۱۳ رجب المرجب ۱۴۲۸ھ

روزولادت باسعادت صدیق اکبرحضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام

۶

مقدمہ مؤلف

حمد و ثنا ہے پروردگار عالم کی اور درود و سلام ہے ہمارے سید و سردار حضرت محمد اور ان کی آل پاک پر ۔

دین مقدس اسلام اور تاریخ و شریعت میں کچھ خاص الفاظ و مفاہیم ایسے بھی ہیں کہ جن کے بارے میں غور و فکر لازم ہے اس لیے کہ ان الفاظ و مفاہیم کا عقائد و احکام سے بہت عمیق رابطہ اور بہت گہرا تعلق ہے ۔

''صدیقیت'' ان ہی الفاظ میں سے ایک ہے کہ جو بہت بلند معانی رکھتا ہے اور اس میں الٰہی مقامات کی طرف اشارہ ہے ۔

جہاں تک میری نظر ہے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مستقل کتاب یا رسالہ تحریر نہیں ہوا ہے اور جو کچھ بھی علماء و بزرگوں کے کلام میں آیا ہے تو صدیقیت کے معنٰی کی طرف مختصراً اشارے ہیں کہ جو علم کلام اور عقائد کی دوسری بحثوں کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں اور ان کو بھی اس طرح پیش نہیں کیا گیا کہ عصر حاضر کے محقق کی زیر کی و ہوشیاری سے سازگار ہوں اور خود ایک موضوعی بحث کے طور پر بیان ہوسکیں۔

۷

ہم اس لیے بھی کہ اسلامی علوم و معارف اور علمی مواد و ذخائر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہو اس تحقیق کو پیش کرتے ہیں تاکہ یہ ہمارے لیے اور دوسرے ہمارے محققین بھائیوں کے لیے سرنقطہ آغاز قرار پائے ۔حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کی زندگی نہ صرف تاریخی ، اعتقادی اور فقہی میراث سے بھر پور اور مملو ہے بلکہ آپ کی حیات طیبہ کے ہر پہلو میں درس ، عبرتیں اور زندگی گزارنے کے انمول نمونے موجود ہیں کہ جن کو ہر انسان اپنے لیے نقش راہ قرار دے کر فلاح وکامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے ۔ انتہا یہ ہے کہ آپ کے القاب مبارکہ و اسماء طیبہ بڑے بڑے مقامات الٰہی اور مفاہیم معنوی پر دلالت کرتے ہیں ۔

ان میں سے بطور مثال لقب'' صدیقہ ''ہے کہ جو آنحضرت کی عصمت سے مربوط ہے اور اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپ کی حیات طیبہ آغاز ہی سے پاک و پاکیزہ تھی ، چونکہ آپ نے اپنے والدبزرگوارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی رسالت کی پیدا ہوتے ہی تائید و تصدیق فرمائی اور جوکچھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لائے تھے ان کو سچ سمجھا اور اپن ی کمال تصدیق کو خداوندمتعال پر اظہار فرمایا ، یہاں تک کہ خداوندسبحان نے اپنی رضا و خوشنودی اور غضب و غصہ کو آپ کی خوشنودی و ناراضگی سے وابستہ قرار دیا ۔

اور اسی طرح ایک لقب'' محدّثہ'' ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد بھی جبرئیل آپ کے پاس تشریف لاتے ، محو سخن ہوتے، آپ کی دلجوئی فرماتے اور آپ کی آل پاک پر رونما ہونے والے تمام حوادث کو بیان فرماتے تھے۔

ان دوالقاب کے علاوہ ایک لقب ''شہیدہ'' ہے کہ جو آپ کی مظلومیت کی طرف دلالت و راہنمائی کرتا ہے اور یہ کہ آپ کی زندگی کا خاتمہ شہادت پر ہے ۔

۸

بنا برایں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے القاب مبارکہ و اسماء طیبہ سطحی وعادی نہیں ہیں بلکہ ان میں معانی قدسیہ پائے جاتے ہیں ۔ بعض افرادان القاب کو چراکر دوسروں کے سر پر مڑھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ القاب ہرکس و ناکس کو عطا کرکے ان عظیم معانی و اثرات قدسی کو ختم کردیا جائے اور پھر لوگوں کی نظروں میں ان کا کوئی اعتبار باقی نہ رہے ۔

بعض روایات اہل بیت میں آنحضرت کا نام ''فاطمہ''(۱) ک ی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آنحضرت اپنے چاہنے والوں اور شیعوں کو آتش جہنم سے دور و جدا رکھیں گی جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کے لیے مذکورہے کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق و جدائی ڈالنے والے ہیں جبکہ اسی طرح ان معانی کو چھپانے کے لیے اور ان القاب کی فضیلت کو گھٹانے کے لیے اہل سنت نے صدیقہ کا لقب ایک دوسری خاتون کو دے دیا اور فاروق کا لقب ایک اور شخص کو دے دیا اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالنے والا ہے۔

اوراسی طرح کی روایات گھڑی گئیں تاکہ حق و باطل مخلوط ہوجائے لہٰذا نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا کہ گذشتہ امتوں میں محدثین گذرے ہیں لہٰذا اگر میری امت میں کوئی محدث ہو تو وہ عمر بن خطاب ہے !(۲) ۔

____________________

(۱) یہاں تک کہ خود اسی نام مبارک کے بارے میں غورو فکراور بحث کی جائے کہ اس میں کس قدر معانی ومفاہیم الٰہیہ پوشیدہ ہیں ۔

(۲) صحیح بخاری :۱۲۷۹۳ ،ح ۳۲۸۲۔ و ۔ص ۱۳۴۹ ،ح۳۴۸۶۔ صحیح مسلم :۴ ۱۸۶۴۔سنن ترمذی :۵ ۶۲۲،ح۳۶۹۳۔ المستدرک علی صحیحین:۹۲۳ ،ح۴۴۹۹۔ السنن الکبری(نسائی) :۵ ۳۹ ،ح ۸۱۱۹۔

۹

یا اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کی طرف جھوٹی نسبت دی کہ آپ نے فرمایا ''فرشتہ عمر کی زبان میں ہم سے محو گفتگو ہوتاتھا ''(۱) ۔

جبکہ ادھر حضرت فاطمہ اور اہل بیت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو محدث کہا گیا ہے ۔

ان دونوں باتوں کے درمیان کیا وجہ تشبیہ و ربط ہے !؟

مجھے نہیں معلوم کہ کیا میرے ساتھ کسی اور نے بھی غور کیا کہ لفظ ''زہرا'' کے معانی و مفاہیم میں نورالٰہی سے کتنا ربط ہے؟ اور یہ عظمت صرف حضرت فاطمہ سے مخصوص ہے یا حضور اکرم کی دوسری بیٹیوں کو بھی اس میں شریک کیا جاسکتاہے؟(۲) ۔جبکہ اہل سنت نے اس معن ی میں بھی عمومیت دی ہے تاکہ عثمان بن عفان کو حضور انورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی دو بیٹیوں یا ربیباؤں(منھ بولی بیٹیوں) کا شوہر ثابت کرکے ذوالنورین کا لقب دے سکیں۔

شاید یہ لوگ خلفاء کی طرفداری میں ان القاب و اسماء کی عظمت و فضیلت کو درک کرنہ کرتے ہوئے یا خود جانتے ہوئے بھی دوسروں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے ، شہید مظلوم کا لقب عثمان بن عفان کو دینے کے باوجود بھی حضرت فاطمہ زہرا کو لقب ''شہیدہ مظلومہ''دیتے ہوئے خوف کھاتے ہیں ۔(چونکہ اس میں بہت سے حقائق پوشیدہ ہیں !)

____________________

(۱) تاریخ واسط :۱ ۱۶۷۔حلیة الاولیاء :۱ ۴۲۔ الریاض النضرة :۱ ۳۷۶۔المعجم الاوسط:۱۸۷ ،ح ۶۷۲۶۔ مجمع الزوائد: ۹ ۶۹۔

(۲) بالفرض اگر حضورانور کے کوئی اور بھی بیٹی ہو چونکہ ہمارے عقیدے میں حضرت فاطمہ زہرا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اکلوتی بیٹی ہیں(مترجم )

۱۰

جی ہاں! ''صدیقہ''''محدثہ'' اور'' شہیدہ'' یہ وہ القاب ہیں کہ جن میں عظیم معانی و مفاہیم کے ساتھ ساتھ ''عصمت ''''علم ''اور'' مظلومیت'' کے حقائق نمایاں ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا کی زندگی کے تینوں مرحلوں پر دلالت کرتے ہیں اور ان میں وہ تمام واقعات مضمر ہیں کہ جو آنحضرت سے متعلق رونماہوئے ۔

یہ مختصر رسالہ ، تاریخ و شریعت کے متعدد و فراوان الفاظ میں سے صرف ایک لفظ کی توضیح و تفسیر کے بیان میں ہے جبکہ ضروری ہے کہ اس طرح کے تمام القاب میں غور و فکر کیا جائے اور ان کے معنی و مفہوم میں تأمل ہو ۔

ہماری تمام اہل تحقیق و اہل علم و فضل حضرات سے امید وتوقع ہے کہ جوحضرت فاطمہ زہرا کے سلسلے میں علمی خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ ان الفاظ و القاب پر خاص توجہ دیں۔

آخر میں خدائے سبحان کی بارگاہ میں ملتجی ہوں کہ میری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمائے اور اس کو میری نیکیوں و حسنات میں شمار فرمائے، میرے گناہوں کا کفارہ قرار دے اور مجھ کو میری سیدہ و سردار حضرت فاطمہ زہرا کی شفاعت نصیب فرمائے اس حال میں کہ آپ پر اور آپ کے والد بزرگوار ،شوہر نامداراور آل پاک پر درود وصلوات بھیجتاہوں:

(اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها بعددما احاط به علمک )

پروردگار درود وصلوات بھیج فاطمہ زہرا اور ان کے والدبزرگوارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، شوہرنامدار ا ور اولاد پاک پر اسقدر کہ جتنا تیرے علم میں ہے ۔

۱۱

اول و آخر خداوندکی حمد ہے اور ظاہرو باطن میں اس کا شکر ہے اور اس کی صلوات ہو محمد و آل محمد طیبین و طاہرین و معصومین پر۔

سید علی شہرستانی

۱۷ جماد ی الاولی ۱۴۲۶ھ

ایام شہادت صدیقہ کبری فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا

۱۲

تمہید

بحث موضوعی کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کچھ ایسے الفاظ و اصطلاحات سے روبرو ہوتا ہے کہ جن کے سلسلے میں اپنی ذہنیت واقعی کا استعمال کرتا ہے، اور کبھی کبھی تاریخی شواہد وغیرہ انسان کو ان الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق پر مجبور کرتے ہیں ۔خصوصا ایسے موارد کہ جہاں ایک ہی لفظ ،ایک ہی اصطلاح ایک دوسرے کے متعارض یا مخالف مواقع پر استعمال ہوئی ہو کہ جن کے درمیان کسی بھی طرح سے وجہ جمع ممکن نہ ہو اور نہ ہی کوئی شرعی یا عقلی قابل قبول توجیہ موجود ہو ۔

اسلامی تاریخ ، فقہ اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ سے گذر ہوتا ہے کہ جو ایک دوسرے کے خلاف ہیں یا متناقض و متضاد ہیں اور محقق کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرے یا ان کے درمیان کیا وجہ جمع ایجاد کرے چونکہ یہ قدیم الایام سے ہم تک پہنچے ہیں ۔

یہ متناقضات خصوصاً اس طرح کے افراد کے سامنے زیادہ آتے ہیں کہ جو بعض ایسی شخصیات کو مقدس بناکے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جن کو اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعنوان مقدس یاد نہیں فرمایا۔جبکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دونوںمذہب(مذہب صحابہ و مذہب اہل بیت ) کی روش کو ایک جگہ جمع کریں۔

۱۳

لہٰذا ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ یہ افراد محبت اہل بیت علیہم السلام کا دم بھرتے ہیں اوردوسری طرف اہل بیت علیہم السلام پر ہونے والے مظالم کو بھی پسند نہیں کرتے لہٰذا ایک ایسی روش و راستہ ایجاد کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں ظالموں کے ظلم سے چشم پوشی ہوسکے ،اس دعوی کے ساتھ ساتھ کہ جس نے جو کیا ،اچھا ہو یا برا، وہ چلا گیا اور اپنے اعمال اپنے ساتھ لے گیا ، ہمیں کیا مطلب کہ ہم ان کے کارناموں میں دخل اندازی کریں۔

یہ توجیہ ابتداء اچھی اور معقول نظر آتی ہے لیکن تھوڑا ہی غور و فکر کرنے سے اس کی خرابیاں آشکار ہونے لگتی ہیں چونکہ یہ شخصیات ، تاریخ کے عام افراد نہیں تھے کہ جن کے بارے میں کہا جائے کہ ان کے اچھے اور برے اعمال خود ان ہی سے مربوط ہیں اور ان کا مسئلہ خدا کے حضور پیش کیا جائے تاکہ وہ ان کے بارے میں جو چاہے حکم کرے۔

بلکہ وہ لوگ تاریخ و شریعت میں ایک مہم نقش رکھتے تھے اور عصر حاضر میں بہت سے مسلمانوں کے نظر یات انہیں سے ماخوذ ہیں اس وجہ سے ناچار ہیں کہ ان کی سیرت و حالات زندگی سے آشنا ہواجائے۔ چونکہ یہ ہماری آج کی اجتماعی زندگی اور علمی و عملی سیرت سے مربوط ہے اس لیے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے لہٰذا علی و فاطمہ کی معرفت ، ابوبکر و معاویہ کی پہچان کے بغیرممکن نہیںہے ۔چونکہ یہ ہم کو ماننا پڑے گا کہ خدا وندعالم کی جانب سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرنازل ہونے والا حکم اورحق ا یک ہی ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے باطل ہے پس اگر علی حق کے ساتھ ہیں ''علی مع الحق ''(۱) تو معاو یہ باطل پر ہے۔

____________________

(۱) خصال (صدوق) ۴۹۶۔ کفایةالاثر ۲۰۔ تاریخ مدینہ دمشق: ۴۲ ۴۴۹۔

۱۴

اور اگر حضرت فاطمہ زہرا اپنے مدعیٰ میں سچی ہیں تو یقینا ابوبکر سچے نہیں ہیںاوراس کے علاوہ کوئی تیسری صورت نہیں۔ چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے : (فماذا بعد الحق الا الضلال فانیٰ تصرفون )(۱) حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے پس کہاں منھ موڑے جارہے ہو۔

اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان ہے : (ستفرق امتی الی نیف و سبعین فرقة ،فرقة ناجیة والباقی فی النار )(۲) عنقر یب میری امت ستر سے زیادہ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی کہ جن میں سے ایک فرقہ ناجی اور باقی جہنمی ہیں۔

یہ دونوں نصوص، وضاحت کے ساتھ ایک کے حق ہونے اور دوسر ے کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں بلکہ دین اسلام بطور کلی وحدت فکر و مضمون پر موقوف ہے ۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ، ولو ان الحق خلص من لبس الباطل لانقطعت عنه السن المعاندین ، ولکن یوخذ من هٰذا ضغث و من هٰذا ضغث فیمزجان ، فهنالک یستولی الشیطان علی اولیائه ، وینجو الذین سبقت لهم من الله الحسنی'' (۳)

____________________

(۱) سورہ یونس(۱۰) آیت ۳۲۔

(۲) شرح الاخبار :۲ ۱۲۴۔ خصال(صدوق) ۵۸۵۔ سنن ابن ماجہ:۲ ۳۹۹۳ ،ح ۱۳۲۲، اس ماخذ میں بیان ہوا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال سند ثقہ ہیں ۔سنن ترمذی:۴ ۱۳۵ ، اس ماخذ میں ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ مستدرک حاکم :۱۲۹۱۔

(۳) نہج البلاغہ :۱ ۹۹ خطبہ ۵۰۔ شرح نہج البلاغہ : ۳ ۲۴۰۔

۱۵

اگر باطل ، حق کی آمیزش سے خالی رہتا تو حق کے طلب گاروں پر پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق ، باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایک حصہ اس سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے ، ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہوجاتاہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کرپاتے ہیں جن کے لیے پروردگار کی جانب سے نیکی پہلے ہی سے پہنچ چکی ہو تی ہے۔

اور آپ ہی نے حارث بن لوط لیثی سے فرمایا:

'' یا حارث، انک ملبوس علیک! ان الحق لایعرف بالرجال، اعرف الحق تعرف اهله'' (۱)

اے حارث آپ پر امر مشتبہ ہوگیا ہے حق لوگوں سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حق کو پہچانو پھر اہل حق کو پہچان جاؤ گے ۔

سلف و گذشتگان کی بزرگی و ہیبت نے بعض لوگوں کو اس تناقض گوئی میں ڈال دیا ہے جبکہ صحابہ عام انسانوں کی طرح ہیں اور سب الٰہی قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں پس جوشخص خداوندعالم اور اس کے پیغمبر ، کتاب الٰہی اور اس کے احکام پر ایمان لائے ،راہ ہدایت کو اپنائے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جو اس راستہ سے گمراہ و منحرف ہو اس نے خود نے اپنے آپ کو گمراہ کیا ہے ۔

____________________

(۱) انساب الاشراف ۲۳۸ـ۲۳۹۔ امالی شیخ طوسی ۱۲۴، ح ۲۱۶۔ تفسیر قرطبی :۱ ۳۴۰۔ اور دیکھیے ـ: وسائل الشیعہ :۲۷ ۱۳۵، ح ۳۲۔ بحار الانوار :۲۲ ۱۰۵، ح ۶۴۔

۱۶

پس پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہونا اس بات سے مانع نہیں ہے کہ صحابی کی رأ و نظریات کی تحقیق ورد نہ کی جائے چونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیثیت چمکتے ہوئے سورج کی طرح ہے اور جو حضرات ان کے ہمراہ و مصاحب ہیں ان کی مثال آئینہ کی ہے کہ جس قدر آئینہ صاف و شفاف ہوگا اسی قدر نور نبوت اس میں منعکس ہوگااور جس قدر دھندلا ہوگا تو سورج کی روشنی بھی اس کی دھندلاہٹ ہی میںاضافہ کرے گی۔

(سورج کی روشنی و گرمی پھول پر پڑتی ہے تو خوشبو میں اضافہ کرتی ہے اور گندگی پر پڑتی ہے تواس کی بدبو میں اضافہ کرتی ہے) لہٰذا اس صورت میں کمی و نقص اس مصاحب(صحابی) میں ہے نہ کہ مصاحبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م یں۔

حضرت امام زین العابدین علی بن الحسین علیہما السلام ان صحابہ کی کہ جوپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش و سیرت پر باقی رہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، ستائش و تجلیل کرتے ہوئے اپنی دعامیں اس طرح فرماتے ہیں :

''اللهم واصحاب محمد خاصة الذین احسنو ا الصحابة الذین ابلوا البلاء الحسن فی نصره ، و کانفوه و اسرعوا الی وفادته ، وسابقوالی دعوته، واستجابو له حیث اسمعهم حجة رسالته ، وفارقوا الازواج والاولاد فی اظهار کلمته ، وقاتلوا الاباء والابناء فی تثبیت نبوته ، وانتصروا به، ومن کانوا منطوین علی محبته یرجون تجارةً لن تبورفی مودته ، والذین هجرتهم العشائر اذتعلقو ابعروته ، و انتفت منهم القرابات اذ سکنوفی ظل قرابته ،فلا تنس لهم اللهم ماترکو ا لک و فیک، وارضهم من رضوانک اللهم واوصل الی التابعین لهم باحسانـالذین یقولون

۱۷

( ربنا اغفرلناولاخوانناالذین سبقونابالایمان ) (۱) ـخیرجزائک،الذین قصدوا سمتهم'' (۲)

بارالٰھا، خصوصیت سے اصحاب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م یں سے وہ افراد کہ جنہوں نے پوری طرح پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ د یا اور ان کی نصرت میں پوری شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ان کی مدد پر کمر بستہ رہے، ان پر ایمان لانے میں جلدی، ان کی دعوت کی طرف سبقت کی اور جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رسالت کی دلیلیں ان کے گوش گذار کیں تو انہوں نے لبیک کہا اور ان کا بول بالا کرنے کے لیے اپنے بیوی بچوں تک کو چھوڑدیا اور امر نبوت کے استحکام کے لیے باپ اور بیٹوں تک سے جنگیں کیں ، نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود ک ی برکت سے کامیابیاں حاصل کیں اس حالت میں کہ آپ کی محبت دل کے ہر رگ و ریشہ میں لیے ہوئے تھے اور ان کی محبت و دوستی میں ایسی نفع بخش تجارت کے مواقع تھے کہ جس میں کبھی نقصان نہ ہو اور جب ان کے دین کے بندھن سے وابستہ ہوئے تو ان کے قوم و قبیلہ نے انہیں چھوڑ دیا اور جب سایہ قرب میں منزل کی تو اپنے بیگانے ہوگئے ۔

اے میرے معبود انہوں نے تیری خاطر اور تیری راہ کے سبب سب کو چھوڑ دیا تو (جزاء کے موقع پر) ان کو فراموش نہ کرنا اور ان کی اس فداکاری ،خلق کو تیرے دین پر جمع کرنے اور رسول اللہ کے ساتھ داعی حق بن کرکھڑے ہونے کے صلہ میں انہیں اپنی خوشنودی سے سرفراز و شادکام فرما اور جزائے خیر دے ۔۔۔

____________________

(۱) سورہ حشر (۵۹) آیت ۱۰۔

(۲) صحیفہ سجادیہ ، چوتھی دعا (رسول اکرم کی اتباع و تصدیق کرنے والوں کے حق میں دعا)۔

۱۸

اہل بیت علیہم السلام کی سیرت و روش صحابہ کرام کے بارے میں اسی طرح ہے اور یہی راستہ حق ہے کہ ہر مسٔلہ کو اسی میزان میں پرکھا جاتاہے لیکن ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ جہاں سب کو مخلوط کرکے رکھ دیا گیا ہے ،طلیق (آزاد شدہ غلام ) کو مہاجر کی طرح اور صریح(محاصرہ کرنے والے) کو لصیق(محاصرہ ہونے والے ) کی طرح ، محق (اہل حق ) کو مبطل(اہل باطل) کی طرح پیش کیا جاتا ہے(۱) اور انتہا ئی جرأت سے کہا جاتاہے کہ ہمارے سید و سردار معاویہ ہمارے سید و سردار علی سے لڑے یا ہماری سیدہ و عایشہ نے ہمارے سید و سردار علی کے خلاف خروج کیا یاہمارے سید و سردار یزید نے ہمارے سید و سردار حسین کو قتل کیا اور اسی طرح بہت سے متناقض کلام دیکھنے میں آتے ہیں ۔

____________________

(۱) دیکھیے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا نامہ کہ جو معاویہ کے لیے تحریر فرمایا : (۔۔۔ولکن لیس امیة کهاشم ، ولا الحرب کعبدالمطلب، ولا ابوسفیان کابی طالب ولاالمهاجر کالطلیق ، ولا الصریح کاللصیق ، ولا المحق کاللمبطل ولا المؤمن کالمدغل ۔(شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):۳ ۱۸ـ۱۷)

اور لیکن امیہ، ہاشم کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی حرب ، عبد المطلب کی طرح ہے اور نہ ابو سفیان، ابوطالب کی مانند ہے اور نہ ہی آزاد شدہ غلام(طلیق) مہاجر کی طرح ہوسکتا ہے اور محاصرہ کرنے والا(صریح ) محاصرہ ہونے والے(لصیق ) کی مانند، نہ محق (اہل حق ) مبطل(اہل باطل) کی طرح ہے تو نہ ہی مؤمن ، منافق و دھوکے باز کی طرح۔

خداوندتبارک و تعالی سورہ جاثیہ آیت ۲۱میں ارشاد فرماتا ہے : (ام حسب الذین اجترحوا السیٔات ان نجعلهم کالذین آمنوا و عملوا الصاحات سواء محیا هم و مماتهم ساء مایحکمون ) ۔

۱۹

اور اس طرح کی تناقض گوئیوں میں کہ جہاں غور وفکر لازم ہے یہ بات بھی ہے کہ جو اہل بیت علیہم السلام کے مدمقابل والا مذہب ، ابوبکر اور حضرت فاطمہ زہرا کے سلسلے میں زبان پر لاتا ہے کہ ہمارے سید و سردار ابوبکر صدیق نے فدک و میراث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سے اختلاف کیا !۔

اس طرح کی عبارات و الفاظ سے بعض مسلمانوں پر مسٔلہ مشتبہ ہوگیا ہے لہذا اس مسئلہ میں وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ،اور یہ کام ان دونوں حضرات کی نسبت لفظ صدیق و صدیقہ کے معنی میں تحریف کرکے ایجاد کیا گیا ہے ۔

بہر حال ان میں سے اگر کوئی ایک سچا و صادق ہے تو دوسرا یقینا و حتمی جھوٹا و کاذب ہے اور صدیقہ کے متعلق بھی کہ جو انتہائی صادق القول تھیں اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و خداوندعالم نے ان ک ی تصدیق فرمائی ہے یہی مسئلہ ہے ۔یہ دونوں باتیںقبول نہیں کی جاسکتیں چونکہ دونوں ایک دوسرے کو خواہ صراحتاً یا اشارتاً و تلویحاً جھٹلارہے ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا نے اس کلام سے''لقدجئت شیئا فریا'' (۱) ( آپ نے ا یک جھوٹی اور اپنے پاس سے من گھڑت چیز پیش کی ہے ) بالکل واضح طورپر ابوبکر کی تکذیب کی ہے جبکہ ابوبکر یہ جرأت نہ کرسکے کہ حضرت زہرا کی صراحتاً تکذیب کریں بلکہ ایک ایسے کلام کا سہارا لیا کہ جس کا نتیجہ حضرت زہرا کی تکذیب تھی ۔

اب اس مسودہ کے ذریعہ لفظ صدیق کے معنی لغة اور استعمال میں تلاش کرتے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ مریم (۱۹) آیت ۲۷۔

۲۰

صدیق باعتبار لغت و استعمال

صدیق ، مادۂ (ص،د،ق) سے مشتق ہے اور صدق (سچ) کذب (جھوٹ ) کی نقیض ہے ، صدیق فعیل کے وزن پر ہے اور صدیقہ فعیلہ کے وزن پر، اور یہ وزن موصوف کے صفت سے بہت زیادہ اتصاف پر دلالت کرتا ہے گویا اس مادہ میں صدق و تصدیق کا مبالغہ پایا جاتاہے اور یہ صدوق (بہت سچا ) سے بھی زیادہ سچے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔ کہا جاتاہے صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جو صدق و سچائی میں کامل ہو اس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے یعنی قول و عمل ایک ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جس نے اصلاً کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ۔

اہل سنت کے درمیان مشہور ہے کہ'' صدیق '' ابوبکر بن قحافہ کا لقب ہے اگر چہ ان کے یہاں بہت زیادہ روایا ت موجود ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ''صدیق'' حضرت علی بن ابی طالب کا لقب ہے اور یہ روایات شیعہ مذہب کی روایات کے مطابق ہیں کہ شیعوں کے نزدیک ''صدیق''بطور نص حضرت علی کا لقب مبارک ہے اور اہل سنت نے اس کو چوری کرکے ابوبکر کے سرپر چڑھادیا ہے(۱) ۔

____________________

(۱) العمدہ ۲۲۰۔

۲۱

لیکن لقب ''صدیقہ '' قرآن کریم میں حضرت مریم بنت عمران کے لیے آیا ہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک پر حضرت فاطمہ زہرا اور حضرت خدیجہ کے لیے جاری ہوا ،جبکہ اس سلسلے میں اہل سنت کی طرف سے یہ کوشش رہی کہ یہ لقب عایشہ کو دیدیا جائے ،لیکن عنقریب آپ کے سامنے اس دعوی کی پول کھل جائے گی ۔

اگر حقیقت کو درک کرنا ہے تو ضروری ہے کہ'' صدیقیت'' کے معنی کی تنقیح و تحلیل کی جائے تاکہ معلوم ہو کہ صدیقیت ایک معنوی و ربانی مرتبہ ہے یا کوئی معمولی لقب ہے کہ جو جس کو چاہے عطا کردے۔

کیا صدر اسلام میں پیغمبر اکرم جس کو جو بھی عطاکرتے اور دوسرے لوگ کسی کو کچھ بھی عطا کرتے تو کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا ؟ اور کیا معقول ہے کہ جو القاب ، خداوندعالم اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے دیے گئے ہیں وہ بے بنیاد اور صرف تعلقات کی وجہ سے ہوں یا ایسا نہیں ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کسی کا کوئی نام رکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس نام و لقب کا مستحق ہے۔

اور کیا القاب ، لیاقت و قابلیت کے اعتبار سے دیے جاتے تھے یا یہ کہ لوگوں کی تشویق و ترغیب کے لیے عطا ہوتے تھے ۔

اور کیوں جناب ابوذر غفاری کو لقب ''صدیق''عطا نہیں ہوا جبکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کے مطابق وہ روے زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ سچے انسان تھے(۱) ۔

____________________

(۱) سنن ترمذی : ۵ ۳۳۴، ح ۳۸۸۹۔الانساب (سمعانی ): ۴ ۳۰۴۔

۲۲

''صدیقیت'' سے کیا مراد ہے ؟ اور کیا'' صدیق ''کے مراتب و اقسام ہیں ؟

علامہ ابن بطریق (متوفی ۶۰۰ھ) اپنی کتاب العمدہ میں راقم ہیں :

((صدیق کی تین قسمیں ہیں :

۱ـ صدیق نبی ہوتا ہے ۔

۲ـ صدیق امام ہوتا ہے۔

۳ـ صدیق عبد صالح ہے کہ جو نہ نبی ہے اور نہ امام۔

پہلی قسم پر یہ فرمان الٰہی دلالت کرتا ہے( واذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقاً نبیاً ) (۱) کتاب (قرآن ) میں ادریس کو یاد کرو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔

اور خداوندعالم کا یہ ارشاد گرامی( یوسف ایهاالصدیق ) (۲) یوسف اے صدیق۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر نبی صدیق ہے لیکن ہر صدیق نبی نہیں ہے ۔

اس بات پر کہ ''صدیق ''امام ہوتا ہے خداوندعالم کایہ فرمان دلالت کرتا ہے( فأولائک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین و حسن اولٰئک رفیقا ) (۳) ۔ وہ ان کے ساتھ ہیں کہ جن کو اللہ نے نعمتیں عطا کی ہیں انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین میں سے اور وہ بہترین ساتھی ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۶۔

(۲) سورہ یوسف(۱۲) آیت ۴۶۔

(۳) سورہ نساء (۴) آیت ۶۹۔

۲۳

خداوندعالم نے نبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد صدیقین کی مدح سرائی کی ہے جبکہ نبیوں کے بعد آئمہ ہی کا ذکر سب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی پر وہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں کہ جن میں وارد ہے کہ'' صدیق '' تین شخص ہیں حبیب نجار، حزقیل ، علی اور علی ان سب سے افضل ہیں ۔ پس چونکہ علی کاذکر ان دو افراد کے ساتھ آیا ہے اور وہ ان کے ساتھ صدیقین میں شامل ہیں جبکہ وہ دونوں نہ نبی ہیں اور نہ امام ۔ لہذا مناسب یہ سمجھا کہ علی کو ان دونوں سے جدا اور ممتاز رکھیں ایک ایسی شی سے کہ جو ان دونوں میں نہیں ہے یعنی امامت لہذا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا علی ان دونوں سے افضل ہیں ۔

پس لفظ صدیق کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تینوں کو صدیق فرمایا ہے لہذا لفظ کے اعتبار سے برابر ہیں ۔ لیکن پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاہا کہ ان کے درمیان معنی کے اعتبار سے فرق بیان کردیا جائے یعنی علی کے مستحق امامت ہونے کوامتیاز قرار دیا جائے لہذا فرمایا وہ ان دونوں سے افضل ہیں یعنی علی صدیق ہیں اور امام))(۱) ۔

ظاہرہے کہ اس مسئلہ سے متعلق بحث ، چند مسائل کو بیان کرنے پر موقوف ہے اور ان کو تدریجی و یکے بعد دیگر بیان کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا ابتداء کلمہ ''صادق و کاذب ''سے آشنائی ضروری ہے تاکہ ''صدیقیت '' کے معنی کو درک کرسکیں اور یہ واضح ہوجائے کہ صدیقیت کہاں اور کس کے لیے مناسب ہے ۔

____________________

(۱) العمدہ ۲۲۳۔

۲۴

سب سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمانۂ جاہلیت ہی میں لقب ''صادق و امین'' سے ملقب تھے ، حضرت خدیجہ اور آپ کی دختر نیک اخترحضرت فاطمہ زہرا کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے صدیقہ کا لقب ملا ۔

صدیق حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سے پاک وصادق اولادیں ہوئیںکہ جو مسلمانوں کے امام قرار پائے اور خداوندعالم نے آیت تطہیر(۱) میں ان کو پاک و منزہ قرار دیا۔

نیز خداوندعالم نے ان کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور فرمایا( کونوا مع الصادقین ) (۲) ( سچو ںکے ساتھ ہوجاؤ)(۳) ۔

____________________

(۱) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۳۳۔

(۲) سورہ توبہ (۹) آیت ۱۱۹۔

(۳) دیکھیے تفسیر قمی : ۱ ۳۰۷۔ تفسیر فرات کوفی ۱۳۷۔ ان دونوں تفاسیر میں وارد ہے کہ'' ای کونوا مع علی و اولادعلی'' علی اور اولاد علی کے ساتھ ہوجاؤ ، یہ معنی حضرت امام محمد باقر سے نقل ہوئے ہیں ، مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ فرمائیں :

الدرالمنثور :۳ ۲۹۰۔فتح القدیر:۲ ۳۹۵۔ شواہد التنزیل :۲۶۰۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۳۔ کفایت الطالب ۲۳۵ـ۲۳۶۔

اور حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے جیسا کہ شواہد التنزیل :۲۵۹۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۰۔اور غایت المرام ۲۴۸ میں ابو نعیم اصفہانی سے منقول ہے ۔اور اسی طرح عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے دیکھیے ذیل کے حوالہ جات: ۔۔۔۔۔اگلے صفحہ پر

۲۵

اس طرح کے القاب میں تحریف اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و منزلت کو گرانے و کم کرنے کی مسلسل ناکام کوششیں کی جاتی رہیں اور اب تک جاری ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود تحریف کرنے والے ان کے مقام کو کم کرنے میں ناکام ہیں اور رہیں گے ۔

____________________

۔۔۔ پچھلے صفحہ کا ادامہ

مناقب امیر المؤمنین (خوارزمی ) ۱۹۸۔ شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۶۔ الدرالمنثور :۳ ۲۹۰۔فتح القدیر:۲ ۳۹۵۔

اور عبداللہ بن عمر سے روایت کی گئی ہے کہ جو شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۷۔ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

مقاتل بن سلیمان سے روایت ہے کہ جو شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۶۔میں مذکور ہے اور اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن کا تذکرہ سورہ احزاب (۳۳) آیت ۲۳ میں آیا ہے ۔

(رجال صدقوا ماعاهدوا الله علیه فمنهم من قضی نحبه ومنهم من ینتظر )۔ وہ افراد کہ جنہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا اور اس پر ثابت قدم رہے ان میں سے کچھ نے اس عہد کو انجام تک پہنچایا اور کچھ منتظر رہے ۔ ابو جعفر سے روایت ہے کہ (من قضی نحبہ) سے حمزہ اور جعفر مراد ہیں اور (من ینتظر ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔(سورہ احزاب (۳۳) آیت ۲۳)

۲۶

اس لیے کہ یہ حضرات عظیم و باعظمت اصلاب و پاکیزہ ماؤں کے رحم میں رہے اور جاہلیت کی آلودگی ان سے دور ہے اور پلیدگی و تیرگی کا لباس انہوں نے جامہ تن نہیں کیا ۔(۱)

____________________

(۱) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : (انادعوة ابراھیم) میں اپنے پدربزرگوار ابراہیم کی دعا ہوں ۔ دیکھیے : مسند الشامیین :۲ ۲۴۱۔ تفسیر طبری :۱ ۷۷۳، حدیث ۱۷۰۷۔ الجامع الصغیر : ۱ ۴۱۴، حدیث ۷۰۳۔ شواہد التنزیل :۴۱۱۱،حدیث۴۳۵۔

اور آپ ہی سے روایت ہے کہ(نقلت من کرام الاصلاب الی مطهرات الارحام و خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح و ما مسنی عرق سفاح قط وما زلت انقل من الاصلاب السلیمة من الوصوم البریة من العیوب ) (شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):۱۱ ۱۰)

میں اصلاب کرام سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوا اور نکاح (حلال) زادہ ہوں نہ کہ زنا(حرام) زادہ، میری پشتوں میں بھی کبھی عرق زنا نے مجھے مس نہیں کیا اور میں ہمیشہ سے بے عیب و بے نقص اور پاک اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں ۔

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ: ۲ ۶۶۲۔ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:( خلقت انا و علی بن ابی طالب من نور واحد قبل ان یخلق اللہ آدم فلما خلق اللہ آدم اسکن ذالک النور فی صلبہ الی ان افترقنا فی صلب عبد المطلب فجزء فی صلب عبداللہ و جزء فی صلب ابی طالب) میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور سے خلق ہوئے اس سے پہلے کہ خداوندعالم آدم کو خلق کرتا اور جب آدم کو خلق فرمایا تو اس نور کو صلب آدم میں قرار دیا یہاں تک کہ ہم صلب عبد المطلب میں جدا ہوئے کہ ایک جزء صلب عبداللہ میں قرار پایا اور ایک جز ء صلب ابی طالب میں منتقل ہوا۔

۲۷

ان کے جدبزرگوار زمانہ جاہلیت میں ''صادق و امین''کے لقب سے معروف تھے اور اپنے عہد وپیمان میں وفادار ہونے کی وجہ سے عربوں کے درمیان مورد اعتماد و قابل احترام تھے ،عرب اپنے فیصلے کرانے آپ کی خدمت میں آتے چونکہ آپ حق کے علاوہ کسی کی طرف داری نہیں کرتے اور کسی کے حق سے انکار نہیں کرتے تھے ۔(۱)

بیس سال کی عمر میں (حلف الفضول) میں شرکت کی تاکہ ظالم کے مقابل میں مظلوم کی مدد کرسکیں(۲) ۔ اور اپنے عہد و پ یمان سے وفاداری کرسکیں ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مکہ کے قب یلوں کے درمیان حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کے لیے قاضی و داور قرارپائے ، جبکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ قبائل عرب خانۂ کعبہ کی تجدید بناء کررہے تھے تو حجر اسود کو رکھنے میں آپس میں اختلاف ہوگیا ، ابو امیہ بن مغیرہ (والد ام سلمہ) نے مشورہ دیا کہ جو شخص بھی سب سے پہلے باب السلام سے اندر آئے اس کو قاضی و جج بنایا جائے تو اس وقت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبد اللہ اس ی باب سے تشریف لے آئے جیسے ہی آپ کو آتے دیکھا سب کے سب کہنے لگے یہ امین ہیں ان کے فیصلے پر ہم راضی ہیں ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پورا واقعہ سنا اور پھر اپن ی عبا ء کو پھیلایا ـایک روایت میں ہے کہ ایک کپڑا منگایاـاور پھر حجر اسود کو اٹھایا آپ نے حجر اسود کو اس میں رکھا پھر فرمایا ہر ایک قبیلے والے اس کے ایک ایک گوشے کو پکڑ لیں ، انہوںنے ایسا ہی کیا اور اٹھایا ۔

____________________

(۱) السیرة الحلبیہ :۱ ۱۴۵۔

(۲) طبقات ابن سعد :۱ ۱۲۹۔ المنمق ۵۲ـ۵۴۔

۲۸

جب اس کی جگہ کے قریب پہنچے تب آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو پکڑا اور اس کے مقام پر نصب فرمادیا ۔(۱)

اہل سنت والجماعت کی بعض کتب کی روایت کے مطابق پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دعوت اسلام کا آغاز کوہ صفا سے اس طرح کیا کہ فرمایا :

'' اے بنی فہر ، اے بنی عدی، اے فرزندان عبدالمطلب اور اسی طرح تمام قبائل کہ جو آپ سے قریب ترین تھے سب کو نام لے لے کر پکارا یہاں تک کہ سب آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے اور جو نہیں آسکتا تھا اس نے اپنا نمائندہ بھیجا تاکہ معلوم ہو کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : آپ حضرات کی نظر میں اگر میں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے کہ جو آپ پر شبخون مارنے والا ہے تو کیا میری تصدیق کروگے ؟

سب نے ایک زبان ہوکر کہا : ہاں آپ ہمارے نزدیک سچے ہیں اور ہم نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں آپ کو عذاب شدید سے ڈرانے والا ہوں اے بنی عبد المطلب ، اے بنی عبد مناف ، اے بنی زہرہ ، اے بنی تیم ، اے بنی مخزوم و اسد اور تمام اہل مکہ کے قبیلوں میں سے ایک ایک کا نام لیا پھر فرمایا : خداوندعالم نے مجھے حکم دیا کہ آپ کو عذاب سے ڈراؤں میں آپ کی دنیا وآخرت کا مالک نہیں ہوں مگر یہ کہ کہیے'' لاالہ الا اللہ'' کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے ۔

____________________

(۱) السیرة النبویة (ابن ہشام) :۱ ۲۰۹۔ تاریخ طبری :۲ ۴۱۔ البدایة والنہایة : ۲ ۳۰۳۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی) : ۱۴ ۱۲۹۔

۲۹

پس ابو لہب کھڑا ہوا ـ وہ بھاری بھر کم آدمی تھا اور بہت جلدی غصہ میں آجاتا تھا ـ اور چیخا : تجھ پر ہمیشہ پھٹکار ہو کیا اسی لیے لوگوں کو جمع کیا ہے اس کے بعد لوگ آپ کے چاروں طرف متفرق ہوگئے تاکہ آپ کے پیغام کے سلسلے میں فکر و مشورہ کریں''۔(۱)

جی ہاں ، قبائل عرب نے آپ کی تکذیب کی لیکن خود آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے نظریات و افکار اور پیغام کی وجہ سے کہ جو لوگوں کے لیے حیات بخش تھے وہ نظریات کہ جو اس سے پہلے ان کے سامنے بیان نہیں ہوئے تھے ، لہٰذا اس سلسلے میں آپ کا مقام دوسرے انبیاء و رسل کی طرح ہے کہ وہ بھی اپنی اپنی قوموں کے ذریعہ جھٹلائے گئے اور آپ کی قو م کی مثال بھی قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود و لوط اور اصحاب رس کی طرح ہے جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے:

( وان یکذبوک فقد کذبت قبلهم قوم نوح و عاد و ثمود و قوم ابراهیم و قوم لوط ) (۲) ۔پس اگر آپ ک ی تکذیب کریں تو آپ سے پہلے قوم نوح و عاد و ثمود اور قوم ابراہیم و قوم لوط اپنے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں ۔

بہر حال آپ کی قوم نے کذب ذاتی اور خیانت و ظلم کی نسبت آپ کی طرف نہیں دی ہے بلکہ آپ پر جادو ٹونہ اور سحر کی تہمت لگائی ہے چونکہ وہ لوگ معجزہ کی حقیقت کو درک نہیں کرسکتے تھے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو د یوانہ و مجنون کہتے تھے اس لیے کہ آپ پر وحی کے بارسنگین کو دیکھتے تھے جب کہ یہ انتہائی واضح ہے کہ عرب ،اسلام سے پہلے آپ کی امانت داری ، وفا اور سچائی کے معترف تھے ۔

____________________

(۱) دیکھیے ـ: صحیح بخاری : ۶ ۱۹۵، آیت (تبت یدا ابی لھب ) کی تفسیر میں ۔صحیح مسلم : ۱ ۱۳۴۔

(۲) سورہ حج (۲۲) آیت ۴۲و ۴۳۔

۳۰

پس '' صادق و صدیق '' سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لقب ہے اور اسی طرح گذشتہ انبیاء کا جیسے ابراہیم ، ادریس ، اسماعیل ، موسی اور عیسی جیسا کہ خود آپ ہی کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے :

( والذی جاء بالصدق و صدق به ) (۱) وہ کہ جو صدق کو لا یا اور اس کے ذریعہ تصدیق ہوئی ۔

حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد ہوا:

( واذکر فی الکتاب ابراهیم انه کان صدیقاً نبیاً ) (۲) اورکتاب (قرآن) م یں ابراہیم کو یاد کرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔

اور پھر حضرت ابراہیم ہی کے لیے ہے :

( و وهبنا له اسحاق و یعقوب و کلا جعلناه نبیاً ـ و وهبنا لهم من رحمتنا و جعلنالهم لسان صدق علیا ) (۳) ۔

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کیے اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمتوں میں سے کچھ عطا کیا اور ان کے لیے سچی زبان ، علی و بلند قرار دی ۔

____________________

(۱) سورہ زمر(۳۹) آیت ۳۳۔

(۲) سورہ مریم(۱۹) آیت ۴۱۔

(۳) سورہ مریم(۱۹) آیت ۴۹ـ۵۰۔

۳۱

حضرت ادریس کے لیے ارشاد خداوندی ہے :

( اذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقاً نبیاً ) (۱) ۔

اورکتاب (قرآن) میں ادریس کو یادکرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔

اور حضرت اسماعیل کے لیے ارشاد ہوا :

( اذکر فی الکتاب اسماعیل انه کان صادق الوعد و کان رسولاً نبیاً ) (۲) ۔

اورکتاب (قرآن) میں اسماعیل کو یادکرو کہ وہ صادق الوعدتھے اور پیغمبر نبی تھے ۔

حضرت موسی کے بارے میں ارشاد ہے:

( اذکر فی الکتاب موسی انه کان مخلصاًو کان رسولاً نبیاً ) (۳) ۔

اورکتاب (قرآن) میں موسی کو یادکرو کہ وہ مخلص اور پیغمبر نبی تھے ۔

بہر حال '' صدیقیت '' پیغمبروں اور نبیوں کی صفت ہے اور ممتاز علامت ہے ، مذکورہ آیات کے اعتبار سے یہ پہلے تو انبیاء اور پیغمبروں کی صفت ہے اور پھر اوصیاء و نیک وباایمان بندوں کی چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :

( والذین آمنوا بالله و رسوله اولائک هم الصدیقون ) (۴)

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۶۔

(۲) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۴۔

(۳) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۱۔

(۴) سورہ حدید (۵۷) آیت ۱۹۔

۳۲

وہ لوگ کہ جو خدا اور پیغمبروں پر ایمان لائے وہی لوگ صدیقین ہیں اس آیت میں ''تخصص بعد از ایمان '' پایا جاتا ہے یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان میں یقین نہیں رکھتے یا جھوٹے ہیں وہ ہر گز صدیق نہیں کہلاسکتے بلکہ اس آیت سے مراد صرف اہل بیت علیہم السلام ہیں چونکہ اصل میں وہی صادق و صدیق ہیں کہ جس کی تفصیل آئندہ آئے گی انشاء اللہ ۔

اس آیت( ومن یطع الله و الرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین و الصدیقین والشهداء والصالحین و حسن اولائک رفیقاً ) (۱) کے ذ یل میں ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا'' من النبیین'' یعنی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''والصد یقین ''یعنی علی (کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں ) '' والشھداء '' یعنی علی و جعفر و حمزہ اور حسن و حسین ہیں اور پھر کہا تمام پیغمبر صدیق ہیں لیکن ہر صدیق پیغمبر نہیں ہے اور تمام صدیق ، نیک و صالح ہیں لیکن ہر نیک و صالح ، صدیق نہیں ہے اور ہر صدیق شہید بھی نہیں ۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام صدیق و شہید اور صالح تھے لہٰذا وہ نبوت کے علاوہ صالحین و صدیقین کی تمام صفات کے حامل تھے ۔

ابو ذر لوگوں سے کچھ بیان کررہے تھے کہ لوگوں نے ان کی تکذیب کی تب پیغمبر اکرم نے فرمایا : (ما اظلت الخضراء (علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر ))

____________________

(۱) سورہ نساء (۴) آیت ۶۹۔ (وہ افراد کہ جو خدا اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہی ان کے ساتھ ہیں کہ جن پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انبیاء و صدیقین ، شہداء و صالحین میں سے اور وہی بہترین دوست ہیں )۔

۳۳

آسمان نے ابوذر سے زیادہ سچے انسان پر سایہ نہیں کیا ہے، اسی دوران حضرت امیرالمؤمنین تشریف لے آئے تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الاان ه ذا الرجل المقبل فان ه الصد یق الاکبر و الفاروق الاعظم''

آگاہ ہوجاؤ کہ آنے والا شخص صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہے''۔(۱)

اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے اور ام ین ہیں یعنی وہ ایسی ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد ہے :( وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی)(۲) پ یغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اپنی مرضی اور خواہشات نفس سے کچھ نہیں کہتے وہی کہتے ہیں کہ جو ان پر وحی نازل ہوتی ہے ۔

لہذا آپ جو کچھ بھی کسی کے بھی بارے میں ارشاد فرمائیں یا کسی کو کوئی لقب عنایت کریں ، رشتہ داری یا اپنائیت کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ ان صفات کا حامل اور صاحب لیاقت ہے ۔

یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام دو چیزوں سے پھیلا ہے ۔

۱ـ حضرت خد یجہ کا مال ۔

۲ـ حضرت ام یر المؤمنین علی علیہ السلام کی تلوار۔

جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ یہ دونوں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سب سے پہلے ایمان لاے ہیں اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرنے والے ہیں اور اپنی گرانبہا و قیمتی چیزوں کو اسلام اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو پہنچانے اور پھیلانے میں نثار کردیا ہے ۔

____________________

(۱) مناقب ابن شہر آشوب :۳ ۸۹ـ۹۰۔

(۲) سورہ نجم(۵۳) آیت ۳ـ۴۔

۳۴

لہذا دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب خدیجہ کو صدیقہ کا لقب عطا کیا اور حضرت علی کو صدیق کالقب عنایت فرمایا ۔ چونکہ یہ دونوں ہر مقام اور ہر گام پر اور ہر پیغام و کلام میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق فرماتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ مصداق صدیقیت ، لوگوں کے ذاتی کمالات اور سیر ت کو دیکھ کر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے مشخص ہوتے ہیں اور یہ ان الفاظ کا اطلاق و استعمال بغیر کسی قابلیت و صلاحیت کے ، بلا وجہ کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے ، یہ کمترین چیز ہے کہ جو عرض کی جاسکتی ہے ۔

تاریخ دمشق میں ضحاک و مجاہد کے حوالے سے ابن عمر کی روایت نقل کی گئی ہے '' ایک مرتبہ جبرئیل پیغام الٰہی لے کر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئے اور آپ کے قریب آکر بیٹھ گئے اور محو گفتگو ہوگئے کہ اتنے میں خدیجہ بنت خویلد کا وہاں سے گذرہوا ، جبرئیل نے سوال کیا اے محمد یہ کون ہیں ؟

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ میری امت کی صدیقہ ہیں''هذه صدیقة امتی''

جبرئیل نے کہا : میرے پاس ان کے لیے خداوند عالم کی جانب سے ایک پیغام ہے کہ خداوندعالم ان کو سلام پیش کرتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ جنت میں ان کا گھر قصب(مروارید) کا ہے کہ جو پیاس اور آگ سے بہت دور ہے ، نہ اس میں کوئی رنج و غم ہے اور نہ کسی طرح کا شور شرابا۔

جناب خدیجہ نے فرمایا :الله السلام و منه السلام والسلام علیکما ورحمة الله و برکاته علی رسول الله ۔

خداوندعالم سلام ہے اور سلامتی اسی کی جانب سے ہے آپ دونوں پر سلام ہو اور رحمت خدا اور اس کی برکتیں رسول خدا پر نازل ہوں یہ گھر کہ جو قصب کا ہے کیا ہے؟

۳۵

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مروارید کا بہت بڑا قصر و قلعہ مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے قلعوں کے درمیان اور یہ دونوں بہشت میں میری بیویاں ہونگی۔(۱)

خداوندعالم کی جانب سے جناب خدیجہ کے لیے سلام آنا یہ آپ کا دوسری بیویوں پر فوقیت و برتری کی نشانی ہے چونکہ سلام الہٰی صرف معصوم کے لیے یا پھر اس شخص کے لیے آتا ہے کہ جو عصمت کے مرتبے میں ہو جیسے سلمان ، ابوذر اور عمار و غیرہ۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق : ۷ ۱۱۸۔ اوراسی سے نقل ہے البدایة والنھایة :۲ ۶۲ میں ۔

یہ روایت شیعہ و سنی دونوں کتابوں میں مختلف و متعدد اسنا دکے ساتھ ذکر ہوئی ہے ، بخاری نے اپنی صحیح :۴ ۲۳۱،کتاب بدء الخلق ،باب تزویح النبی خدیجہ میں مختصر اشارے کے ساتھ ابو ہریرہ سے نقل کی ہے ۔

سیرہ ا بن ہشام : ۱۵۹۱ میں عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب سے نقل ہوئی ہے اور اس میں یہ آیا ہے'' الله السلام و منه السلام وجبرئیل السلام'' ۔

دولابی نے اپنی کتاب الذریة الطاہرہ ۳۶ میں ذکر کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک :۳ ۱۸۶ میں انس سے روایت نقل کی ہے اوراس میں ہے کہ ان اللہ ھو السلام و علیک السلام ورحمة اللہ و برکاتہ ۔ اور کہا ہے کہ یہ روایت ، مسلم کی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ۔

معجم الکبیر : ۲۳ ۱۵ میں اور سنن الکبری (نسائی ) : ۵ ۹۴ ،حدیث ۸۳۵۹میں اور اسی سے نقل ہے اصابہ : ۸ ۲۰۲ میں اس میں بھی راوی انس ہی ہیں اور اس میں مذکور ہے ''ان الله هو السلام و علی جبرئیل السلام وعلیک السلام ۔ اور تفسیر عیاشی : ۲ ۲۷۹،حدیث ۱۲ میں ۔ اور اسی سے نقل ہے بحار الانوار :۱۶ ۷ میں کہ یہ روایت ابو سعید خدری سے ہے ۔

۳۶

ہاں ، اہل سنت نے سلام الہٰی کو دوسروں کے لیے بھی نقل کیا ہے جبکہ تحقیق اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ان روایات کا جعلی و من گھڑت ہونا ثابت ہے ۔

عسقلانی ، فتح الباری میں اس حصے کی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جناب خدیجہ نے فرمایا : ھو السلام و عن جبرئیل السلام وعلیک السلام (خداوندعالم سلام ہے اور جبرئیل سے سلام ہے اور آپ پر اے رسول خدا سلام ہے )۔

علماء کا بیان ہے کہ یہ واقعہ جناب خدیجہ کی بلندی مقام پر دلیل ہے چونکہ آپ نے ''وعلیہ السلام'' نہیں کہا جیسا کہ بعض صحابہ کے متعلق یہ نقل کیا گیا ہے ۔ جناب خدیجہ نے اپنی فکر سے یہ سمجھ لیا کہ خداوندعالم کو عام مخلوق کی طرح جواب سلام نہیں دیا جاتا(۱) ۔

ڈاکٹر سلیمان بن سالم بن رجاء سیحمی (اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں علمی گروپ کے ممبر)جناب خدیجہ کے لیے خدا کی جانب سے سلام کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کلام میں جناب خدیجہ کی دو عظیم منقبتیں پائی جاتی ہیں ۔

۱ـ خداوندعالم ک ی جانب سے جبرئیل کے ذریعہ آپ کے لیے سلام آنا اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آپ تک سلام پہچانا یہ ایسی خصوصیت ہے کہ کسی دوسری خاتون کو نصیب نہیں ہوئی ۔

۲ـ جنت م یں مروارید کے گھر کی بشارت کہ جس میں نہ شورشرابا ہے اور نہ رنج وغم ۔

____________________

(۱) فتح الباری : ۷ ۱۰۵۔

۳۷

سہیلی کا بیان ہے کہ'' بیت '' کے ذکر میں ایک لطیف معنی کی طرف اشارہ ہے چونکہ جناب خدیجہ بعثت سے پہلے صاحب خانہ تھیں اور آپ کا ہی گھر اسلام کا واحد گھر قرار پایا، جس روز سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث ہوئے تو صرف آپ ہی کا بیت الشرف اسلام کا تنہا گھر تھا اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے ۔

اور پھر کہتا ہے کہ کسی بھی کام اور کار خیر کا بدلہ و جزاء غالباً اسی لفظ کے ساتھ بیان ہوتاہے چاہے وہ جزاء کتنی بھی بلند و بالا ہی کیوں نہ ہو اسی وجہ سے حدیث میں قصر نہیں بیت آیا ہے۔(۱)

حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ لفظ بیت میں ایک خاص معنی پوشیدہ ہے چونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل ب یت کی مرکزحضرت خدیجہ ہیں اس لیے کہ اس آیت( انمایرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهر کم تطهیرا ) (۲)

اے اہل بیت بس اللہ کا ارادہ یہ ہے آپ کو ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے ) )کی تفسیر میں جناب ام سلمہ کا بیان ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ ، علی وحسن اور حسین کو بلایا اور اپنی عبا ء ان پر ڈالی اور فرمایا : پروردگارا یہ میرے اہل بیت ہیں (اس روایت کو ترمذی اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے)۔(۳)

____________________

(۱) الروض الانف :۱ ۴۱۶۔

(۲) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۳۳۔

(۳) فتح الباری :۷ ۱۳۸۔

۳۸

ان افراد یعنی اہل بیت کا مرکز جناب خدیجہ ہیں چونکہ امام حسن و امام حسین حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں اور حضرت فاطمہ جناب خدیجہ کی بیٹی ہیں اور حضرت علی بچپن ہی سے جناب خدیجہ کے گھر آگئے تھے وہیں تربیت پائی اور پھر آپ کی بیٹی جناب فاطمہ سے شادی ہوئی لہذا اہل بیت کی مرکزیت جناب خدیجہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔(ڈاکٹر سلیمان )(۱)

حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : آپ کے لیے دنیا کی چار عورتوں کی معرفت کافی ہے مریم بنت عمران ، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ۔(۲)

سنن ترمذی میں عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے علی بن ابی طالب سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول خدا سے سنا آپ نے فرمایا: اس زمانے میں دنیا کی بہترین عورت خدیجہ بنت خویلد ہیں اور اس زمانے میں مریم بنت عمران بہترین عورت تھیں ۔(۳)

____________________

(۱) العقیدہ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط:۱ ۱۰۳ـ۱۰۸۔

(۲) مستدرک حاکم : ۳ ۱۵۷۔ اور ترمذی نے اس روایت کو جلد: ۵ ۳۶۷ ، حدیث۳۹۸۱، ابواب مناقب میں نقل کیا ہے ۔ مسند احمد بن حنبل : ۳ ۱۳۵۔ اخبار اصبہان:۲ ۱۱۷۔

(۳) سنن ترمذی : ۵ ۳۶۷،حدیث ۳۹۸۰،فضل خدیجہ۔ مسند احمد بن حنبل : ۱ ۱۱۶۔ صحیح بخاری : ۴ ۱۳۸، (تھوڑے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے )

۳۹

جناب خدیجہ ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے بہترین وزیر تھیں(۱) اور آپ کو زمانۂ جاہلیت میں ''طاہرہ'' کہا جاتا تھا۔(۲)

فضائل الصحابہ احمد ابن حنبل میں(۳) تار یخ دمشق(۴) اور دوسرے منابع اور مآخذ(۵) م یں عبدالرحمن بن ابی لیلی کی سند سے کہ اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا: صدیقین (بہت زیادہ سچے) تین شخص ہیں حبیب بن موسی نجار مؤمن آل یاسین وہ کہ جس نے کہا( یا قوم اتبعواالمرسلین ) (۶) اے م یری قوم والو پیغمبروں کی اطاعت کرو ۔

____________________

(۱) البدایة و النھایة :۳ ۱۵۷۔ فتح الباری : ۷ ۱۴۸۔ الذریة الطاہرہ (دولابی) ۴۰۔ اسد الغابہ : ۵ ۴۳۹۔

(۲) مجمع الزوائد : ۹۷ ۲۱۸۔ فتح الباری :۷ ۱۰۰۔المعجم الکبیر :۲۲ ۴۴۸۔ اسد الغابہ :۵ ۴۳۴۔ تاریخ دمشق :۳ ۱۳۱۔ البدایة و النھایة :۳۲۹۳۔سیرة النبویة (ابن کثیر) : ۴ ۶۰۸۔

(۳) فضائل الصحابہ : ۲ ۶۵۵و ۲۶۷۔

(۴) تاریخ دمشق : ۴۲ ۴۳و ۳۱۳۔

(۵) الفردوس بماثور الخطاب :۲ ۴۲۱۔ فیض القدیر : ۴ ۱۳۸۔ کنز العمال : ۱۱ ۶۰۱۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۹ ۱۷۲۔مناقب ابن شہر آشوب :۲ ۲۸۶۔ الجامع الصغیر:۱۱۵۲۔ الدر المنثور : ۵ ۲۶۲۔ ان تمام کتابوں میں صرف قرطبی تنہا ہے کہ جس نے اپنی تفسیر :۱۵ ۳۰۶ میں تمام محدثین و مفسرین کے خلاف نقل کیا ہے کہ تیسرا شخص ابوبکر ہے نہ کہ علی ۔

(۶) سورہ یاسین(۳۶) آیت ۲۰۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307