"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 48118
ڈاؤنلوڈ: 5555

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48118 / ڈاؤنلوڈ: 5555
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

میرے عقیدے میں ، اس روش کو تو جہ کا مرکز قرار دینا بہت زیادہ ضروری ہے اس لیے کہ یہ روش اعتقادی مسائل کےـ کہ جن کی گہرائی تک دوسرے نہیں پہنچ سکتے ـحل ہونے کا سبب ہے ۔ چونکہ تمام امور کو مادی و سطحی نظر سے دیکھنا وہابیت و مارکسیستی نظریہ ہے ،کہ جو اسلامی نظریہ سے بہت دور ہے ، یہ نظریہ آخری دوصدیوں میں مسلمانوں کے ایمان اورا نبیاء و صالحین کے مقامات و منزلت میں تغافل و بے تو جھی کی وجہ سے وجود میں آیا ہے ۔

غیب پر ایمان ، تقریباً خداوندعالم کے لیے تمام موجودات کے تسبیح کرنے کی طرح ہے کہ جس کو ہم درک نہیں کرپاتے یا جس طرح خداوندعالم ،ماہ مبارک رمضان میں اپنے بندوں کی مہمان نوازی کرتا ہے ، لیکن یہ میزبانی عام انسانوں کی ایک دوسر ے کی میزبانی کی طرح نہیں ہے چونکہ اکل و کھانے کا مفہوم خداکے نزدیک ہمارے یہاں کے مفہوم سے جدا و متفاوت ہے ، اسی طرح مفہوم شہادت و شہود ہیں اور دیگراصطلاحات کہ جن کا دوسری جہت اور معنوی اعتبار سے اسلام کے اصل افکار میں لحاظ رکھا گیا ہے ، ان کو سطحی فکر اورپست خیالی سے درک نہیں کیا جاسکتا۔ ان امور کو صحیح اور کامل صرف پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ سکتے ہیں اور وہ افراد کہ جن کے پاس علم کتاب ہے ۔

پس اس تمام گفتگو کے بعد عرض کرتے ہیں کہ امت اسلامی کے بہت سے افراد ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے یا ان کے بعد ، حقیقت رسالت اور رسول خدا کے معنوی مقام کو درک نہیں کرتے تھے یا نہیں چاہتے تھے کہ کما حقہ درک کریں ۔

اسی بناء پر آنحضرت سے ایک آدمی و معمولی انسان کی طرح ملتے اور ارتباط رکھتے اور یہ اعتقادرکھتے کہ ان کے یہاں امکان خطاء و صواب ہے اور وہ غصے میں وہ بات بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو رضایت و خوشنودی میں کبھی بھی زبان پر نہیں لاسکتے ۔

۱۲۱

امیرالمؤمنین یہی چاہتے تھے کہ ابوبکر کے لیے یہ واضح کردیں کہ وہ اسلامی عقیدہ کی گہرائی تک نہیں پہنچے اور اپنے کاموں میں قرآن کریم کے خلاف عمل کررہے ہیں اور تمام امور میں سطحی فکر رکھتے ہیں اور سادہ لوحی و پست خیالی سے کام لے رہے ہیں جبکہ اس کے بر خلاف امیر المؤمنین اپنی ہر گفتار و رفتار اور ہر احتجاج و مقام پر باآواز بلند یہ آشکار فرمارہے ہیں کہ وہ تمام وجود سے شأن رسالت اور اس کی گہرائی کو خوب سمجھتے ہیں اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کو نماز سے بھی زیادہ مہم جانتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ پیغمبرا کرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وح ی نازل ہوتے وقت کہ جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سرمبارک علی کی آغوش میں ہے خدااوررسول کی اطاعت اور امتثال امر کی خاطر نماز کے لیے نہیں اٹھتے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجاتا ہے اور نماز کی فضیلت کا وقت ختم ہوجاتا ہے ۔

لیکن علی کی یہ اطاعت شعاری خداوندمتعال کو اتنی پسند آئی ہے کہ آپ کے لیے سورج کو دوبارہ پلٹاتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) فتح الباری : ۶ ۱۵۵۔

ابن حجر کا بیان ہے کہ طحاوی نے شرح معانی الآثار :۱ ۴۶ اور طبرانی نے المعجم الکبیر :۲۴ ۱۵۱، حدیث ۳۹۰۔ اور حاکم و بیہقی نے دلائل النبوة میں اسماء بنت عمیس سے روایت نقل کی ہے ۔ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے سرمبارک کو علی کے زانو پر رکھا اور سوگئے ان کی نماز عصر کا وقت نکل گیا تو آنحضرت نے دعافرمائی پس سورج دوبارہ پلٹا اور علی نے نماز عصر ادا کی پھر سورج غروب ہوا ۔

اور اس کے بعد کہتا ہے کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو اپنی کتاب موضوعا ت (گھڑی ہوئی حدیثیں) میں نقل کیا ہے جب کہ یہ خطاء و اشتباہ ہے اور ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الرد علی الروافض میں بھی نقل کیا ہے ۔

۱۲۲

اسی کے بالکل برعکس ابو سعید بن معلی انصاری کی حالت ہے کہ جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ وہ نماز میں مشغول تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو طلب فرمایا ، ابوسعید نے آنے میں تاخیر کی اور نماز کو پورے آرام و اطمیٔنان کے ساتھ انجام دیا پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سستی و تاخیرپر اعتراض کیااور اس کو نصیحت فرمائی اس طرح کہ کیا نہیں سنا کہ خداوندعالم کا ارشادگرامی ہے ۔(۱)

( یا ایها الذین آمنوا استجیبولله و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم ) (۲) اے ا یمان دارو جب کبھی خدا اور اس کا رسول تم کو بلائے اس کا جواب دو تاکہ تمہیں زندگی عطا ہو ۔

حدیث و تاریخ کی کتابوں میں مذکورہے کہ رسول خدا نے سواد بن قیس محاربی سے ایک گھوڑا خریدا اور اس نے بیچنے کے بعد انکار کردیا ، خزیمہ بن ثابت نے رسول خدا کی طرف سے گواہی دی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خز یمہ سے سوال کیا : آپ جب کہ ہمارے درمیان نہیں تھے تو آپ کس وجہ سے گواہی دے رہے ہو ، خزیمہ نے کہا آپ کی بات کی تصدیق کرتاہوںچونکہ میرا عقیدہ ہے کہ آپ حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

(۱) صحیح بخاری : ۵ ۱۴۶ و ۱۹۹ و ۲۲۲، کتاب التفسیر ۔ و جلد: ۶ ۱۰۳، کتاب فضائل القرآن ۔ مسند احمد :۳ ۴۵۰۔ وجلد: ۴ ۲۱۱۔ سنن ابی داؤد :۱ ۳۲۸، حدیث ۱۴۵۸۔ سنن نسائی (المجتبیٰ):۲ ۱۳۹۔ صحیح ابن حبان :۳ ۵۶۔ المعجم الکبیر :۲۲ ۳۰۳ ۔ سنن ترمذی :۴ ۲۳۱، حدیث ۳۰۳۶۔ مستدرک حاکم :۱ ۵۵۸۔ السنن الکبری (البیہقی ) :۲ ۲۷۶۔

(۲) سورہ انفال (۸)، آیت ۲۷۶۔

۱۲۳

خزیمہ کی گواہی تنہا ہی کافی ہے اور کسی بھی معاملے میں ان کے ساتھ دوسرے گواہ کی ضرورت نہیں ہے ۔(۱)

آخر کلا م میں آپ کے لیے ایک روایت اور پیش کرتا ہوں کہ جو جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی عرب) کومیں نے دیکھا کہ وہ حضرت فاطمہ زہرا کے خانہ اقدس کے دروازے پر کھڑا کچھ مانگ رہا ہے کہ اپنا پیٹ بھر سکے ، بھوک کو مٹاسکے اور اپنے بدن کو چھپا سکے ۔ حضرت فاطمہ زہرا نے ہرن کی کھا ل اور درخت سلم کے پتے کہ جن پر حضرات حسنین سویا کرتے تھے لاکر دیے ۔ اوراس سے کہا : اے سائل اس کو لے لو امید ہے کہ خداونداس سے بہتر آپ کو عطا کرے گا کہ خوشحال ہوجائوگے۔

اعرابی نے کہا اے محمد کی بیٹی میں نے آپ سے بھوک کی شکایت کی تھی اور آپ ہرن کی کھا ل مجھے دے رہی ہیں، میں اس بھوک کی حالت میں اس کا کیا کرو ں گا ؟ حضرت فاطمہ زہرا نے جیسے ہی اس کی یہ باتیں سنیں اپنے گلے سے گردن بند کو کھولا اور سائل کودیدیا ۔ یہ گردن بند آپ کی چچا زاد پھوپی فاطمہ بنت حمزہ بن عبد المطلب نے آپ کو ہدیہ دیا تھا ۔ اور فرمایا اس کو لے لو اور بیچ دو ، امید ہے کہ خداوند اس کے بدلے میں آپ کو کوئی اچھی چیز عطا فرمائے ۔

اعرابی نے گردن بند کو لیا ،مسجد رسول میں حاضر ہوا ، دیکھا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اصحاب کے درمیان تشریف فرماہیں ، اس نے کہا اے رسول خدا یہ گردن بند فاطمہ نے مجھے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کو بیچ دو تاکہ خداوندعالم آپ کے لیے کوئی بہترین اسباب فراہم کرے ۔

____________________

(۱) الآحاد والمثانی :۴ ۱۱۵۔ المعجم الکبیر :۴ ۸۷۔ مستدرک حاکم : ۲ ۱۸۔

۱۲۴

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گریہ فرمانے لگے اور ارشاد فرمایا کس طرح خداوندعالم تیرے لیے اچھے حالات نہ لائے جب کہ یہ گردن بند فاطمہ بنت محمد اور سارے عالم کی شہزادی نے تجھے عطا فرمایا ہے ۔

تب عمار یاسر کھڑے ہوئے اور عرض کی اے رسول خدا کیا مجھ کو اجازت ہے کہ میں یہ گردن بند خرید لوں ؟۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عمار اس کو خرید لو اگر جن و انس مل کر اس کو خرید نے میں آپ کے شریک ہوں تو خداوندعالم ان سب سے عذاب جہنم کو ختم کردے گا ۔

عمار نے کہا : اے اعرابی اس گردن بند کو کتنی قیمت میں بیچوگے ؟

اعرابی نے کہا : ایک پیٹ بھر نے کے قابل روٹی اور گوشت ، ایک بردیمانی کہ جس کو اوڑھ کر میں اپنے آپ کو چھپا سکوں اور اس میں اپنے پروردگار کی نماز و عبادت انجام دے سکوں اور ایک سواری و مرکب تاکہ میں اس کے ذریعہ اپنے اہل و عیال تک پہنچ سکوں ۔

عمار نے کہ جو فتح خیبر سے ملا ہوا اپنا حصہ بیچ چکے تھے ،کہا: تیرے اس گردن بند کو ۲۰ د ینا ر ایک چادر یمانی اور ایک سواری کہ جو تجھ کو تیرے اہل و عیال تک پہنچادے اور ایک وقت کا کھانا روٹی و گوشت کے ساتھ خرید تا ہوں ۔

اعرابی نے کہا : اے مرد اس مال کی بخشش میں کس قدر سخاوت مند ہو!۔

عمار جلدی سے اس کو اپنے ساتھ لے گئے اور جو کچھ اس سے طے پایا تھا بطور کامل ادا کیا ۔

اعرابی اس کے بعد پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معلوم ک یا کہ کیا سیر ہوگئے اور پہننے کو بھی مل گیا ؟

۱۲۵

اعرابی نے جواب دیا : اے رسول خدا میں اور میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں بے نیاز ہوگیا ۔(۱)

جناب عمار ، اہل بیت علیہم السلام کی منزلت اور مقا م کی معرفت رکھنے کی وجہ سے اس ہدیہ کی قدر وقیمت جانتے تھے ، لیکن اعرابی اپنے پیٹ بھر نے اور بدن چھپانے کے علاوہ کچھ اور اس کی نظر میں اس گردن بند کی قیمت نہ تھی ۔ لہذا عمار نے جو کچھ بھی اس سے وعد ہ کیا اس کو عطا کیا وہ خوشحال ہوگیا ۔جب کہ اس کویہ نہیں معلوم کہ اس نے کیا گھاٹا و نقصان اٹھایا ہے اور دوسر ے کو کیا فائدہ پہنچایا ہے ۔

یہ ہے معرفت اہل بیت اور اس معرفت کے لیے اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے عمار جیسے ہی کافی ہیں ۔

بنابراین ،مقام معنوی کی معرفت اور مفاہیم الہٰی کو کما حقہ سمجھنے کو ہمارے لیے بہت زیادہ راستے اور دریچے کھلتے ہیں کہ جن کی شعاؤں میں ہم معانی معراج واسراء کو درک کرسکتے ہیں ۔

حضرت موسی کا خداوندعالم سے کلام کرنا سمجھ میں آسکتا ہے ۔ پیغمبراکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس صاحب قبر سے کلام اور جواب دینا کہ جب اس نے آپ پر سلام کیا ، درک کرسکتے ہیں ہم جب آئمہ کو مخاطب کرتے ہیں اور ان کو بلاتے ہیں مدد کو پکارتے ہیں اور وہ ہماراجواب دیتے ہیں یہ باتیں سمجھ میں آسکتی ہیں ۔ اس لیے کہ الہٰی نقطہ نظر سے موت ، حیات جاودانی ہے نہ کہ فناء و نابودی ، وجود و ہستی ہے نہ کہ عدم و نیستی ۔

____________________

(۱) بشارة المصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲۱۹۔ اور اس سے منقول ہے بحارالانوار:۴۳ ۵۷ میں۔

۱۲۶

اسی لیے خداوندعالم نے موت و حیات کو ایک ساتھ خلق فرمایا ہے یعنی دونوں مخلوق و موجود ہیں ۔ جیسا کہ ارشادہے ۔

( تبارک الذی بیده الملک وهو علی کل شیٔ قدیر الذی خلق الموت و الحیاة لیبلوکم ایکم احسن عملا ) (۱)

مبارک ہے وہ ذات کہ جس کے قبضہ قدرت میں حکومت وفرمانروائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ ہی ہے کہ جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل انجام دیتا ہے ۔ لیکن اگر موت ، زندگی ہے تو پھر اس دنیوی زندگی سے اس کی وجہ شباہت کیا ہے؟۔ اور کیا معقول ہے کہ ایک شخص بغیر کچھ کھائے پئے اور بات کیے زندہ رہ سکتا ہے ؟۔

لازم ہے کہ یہ امور و مسائل بیان ہوں اور ان کے متعلق بحث کی جائے ،لیکن واقعا بہت زیادہ افسوس کا مقام ہے کہ امت اسلامی کے بہت سے افراد وفرقے اس فکر کی گہرائی تک نہیں پہنچتے اور اس کو خوب درک نہیں کرتے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آئمہ طاہرین کے بارے میں عام و عادی انسان کی طرح فکر کرتے ہیں اور ان کے معنوی مقام ، الہٰی موہبات و ملکوتی درجات کو نظرانداز کردیتے ہیں ۔

یہی سبب ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر ، آیہ تطہیر کی حقیقت کو درک نہیں کرتے اور ایک عام مسلمان عورت کی طرح حضرت فاطمہ زہرا سے سلوک روا رکھتے ہیں جب کہ ابوبکر کا یہ عمل قرآن کریم اور شریعت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بالکل خلاف ہے ۔

____________________

(۱) سورہ ملک (۶۷)، آیت ۱ـ۲۔

۱۲۷

جی ہاں ! کبھی کبھی الہٰی مقامات کی معرفت نہ ہونا اور مخلص (زبر کے ساتھ ) بندوں کو نہ سمجھنا سبب بنتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے اور کبھی کبھی شخصی مفاد و مادی غرض سبب ہوتا ہے کہ ان بزرگواروں کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے ۔ اگر چہ جو کچھ بھی واقع ہوا ہے وہ دوسرے سبب سے زیادہ نزدیک ہے ۔

صدیقیت کے کچھ معیار

گذشتہ گفتگو سے آپ پر روشن ہوگیا ہے کہ سچا اور صادق کو ن ہے اور جھوٹا و کاذب کون؟ ۔

اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ واضح کریں کہ الہٰی نظام میں صدیقیت کیا ہے اور صدیق و صدیقہ کون ہیں ؟ چونکہ صدیق و صدیقہ کا مرتبہ صادق و صادقہ سے کہیں بلند و بالاہے ، اس لیے کہ وہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور قرآن کریم میں انبیاء کی صفت کے طور پر واقع ہوا ہے ۔

جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے حضرت یوسف کے بارے میں :

( یوسف ایهاالصدیق ) (۱) یوسف اے صدیق اور بہت زیادہ سچے ۔

اور حضرت ابراہیم کے لیے ارشاد ہوا:( واذکر فی الکتاب ابراهیم انه کان صدیقا نبیا ) (۲) اور کتاب م یں یاد کرو ابراہیم کو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔

اور حضرت ادریس کے متعلق مذکورہے:

( واذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقا نبیا ) (۳) اور کتاب م یں یاد کرو ادریس کو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔

____________________

(۱) سورہ یوسف(۱۲)، آیت ۴۶۔

(۲) سورہ مریم (۱۹)، آیت ۴۱۔

(۳) سورہ مریم (۱۹)، آیت ۵۶۔

۱۲۸

قرآن کریم میں یہ القاب و اصاف کسی عام اور غیر معصوم کو عطا نہیں کیے گئے ، لہذا صدیقیت انبیاء و اوصیاء کی صفت ہے اور اگر اس کے معنی ، مفہوم اور مدلو ل کو وسعت سے دیکھیں تو ممکن ہے کہ نیک و صالح بندوں کو بھی شامل ہوجائے کہ جو انسان کامل ہیں اور خدا وندعالم اور اس کے رسول پر دل سے ایمان اور عقیدہ رکھتے ہیں نہ کہ وہ افراد کہ جو صرف زبان سے اظہار ایمان کرتے ہیں اور مصلحتاً ایمان لائے ہیں

اس موضوع کو اور زیادہ روشن کرنے کے لیے اور جس کا جو مقام ہے اس کو وہ مقام دینے کے لیے ضروری ہے کہ صدیقیت کے کچھ معیار اور مشخصات کو بیان کیا جائے چونکہ معیار و مشخصات، انسانی زندگی کی ارتقاء اور ارزش میں ایک عمدہ و عالی مقام رکھتے ہیں اور اس کے بعد اس موضوع کے افراد پر تطبیق کریں گے۔

اولـ صدق و سچائی

صدیقیت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ صدیق اپنے کلام و گفتگو میں صادق و سچا ہو چونکہ خداوندمتعال نے جھوٹے و کاذب شخص کو اپنے اوپر ظلم کرنے والا قراردیا ہے ۔لہذا ارشاد ہے :

۱ ـ( ومن اظلم ممن افتری علی الله کذبا او کذب بآیاته )

(۱) اور اس سے ز یادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے اور اس کی آیات کی تکذیب کرے اور جھٹلائے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام (۶)، آیت ۲۱۔ سورہ اعراف (۷) ،آیت۳۷۔ سورہ یونس (۱۰)، آیت ۱۷۔

۱۲۹

۲ـ( ومن اظلم ممن افتری علی الله کذبا او کذب بالحق لما جائه ) (۱) اور اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے اور اس کی آیات کی تکذیب کرے کہ جب وہ حق کے ساتھ آئے ۔

۳ـ( فمن اظلم ممن افتری علی الله کذبا لیضل الناس بغیرعلم ) (۲) پس اس سے ز یادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے تاکہ لوگوں کو بغیر علم و معرفت کے گمراہ کرے۔

۴ـ( ومن اظلم ممن افتری علی الله کذبا اولٰئک یعرضون علی ربهم ) (۳) اور اس سے ز یادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے ،یہ ظالم افراد خدا کے حضور پیش کیے جائیں گے ۔

۵ـ( فمن افتری علی الله الکذب من بعد ذالک فاولٰئک هم الظالمون ) (۴) پس اس کے بعد جو بھ ی اللہ پر جھوٹ بولے پس وہ ہی افراد ظالم ہیں ۔

یوسف صدیق نے عزیز مصر سے کہا :

____________________

(۱) سورہ عنکبوت (۲۹)، آیت ۶۸۔

(۲) سورہ انعام(۶)، آیت ۱۴۴۔

(۳) سورہ ھود (۱۱)، آیت ۱۸۔

(۴) سورہ آل عمران (۳)، آیت ۹۴۔

۱۳۰

( قال هی راودتنی عن نفسی ، شهد شاهد من اهلها ان کان قمیصه قد من قبل فصدقت وهو من الکاذبین و ان کان قمیصه قد من دبر فکذبت وهو من الصادقین فلما رایٔ قمیصه قد من دبر قال انه من کیدکن ان کیدکن عظیم ) (۱)

یوسف نے کہا : یہ زلیخا چاہتی ہے کہ مجھ کو اپنے نفس کی طرف کھیچے اور اس کے گھرانے کے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہوتو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹے ہیں اور اگر دامن پیچھے سے پھٹا ہوتو یہ جھوٹی اور یوسف سچے ہیں ، تو جب قمیص کو دیکھا گیا تو اس کا دامن پیچھے سے پھٹا تھا ، تو عزیز مصر نے زلیخا سے کہا یہ تمہاری چلتر بازی ہے اور تم عورتوں کی چلتر بازیاں بہت عظیم ہیں ۔

اسی بنیاد پر حضرت امیر المؤمنین نے خداوندعالم کے اس قول( فمن اظلم ممن کذب علی الله و کذبا لصدق اذ جا ئه ) (۲) کے بارے م یں فرمایا : صدق سے مراد ہم اہل بیت کی ولایت ہے ۔(۳)

جیسا کہ اس سے پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے مشہور خطبہ میں ابوبکر کے تمام دعووں کوجھوٹ قرار دیا اور فرمایا :

____________________

(۱) سورہ یوسف(۱۲)، آیا ت ۲۶ـ۲۸۔

(۲) سورہ زمر (۳۹)، آیت ۳۲۔

(۳) مناقب ابن شہر آشوب :۳ ۹۲ ۔ امالی طوسی ۳۶۴، مجلس ۱۳، حدیث ۱۷۔

۱۳۱

کیا تم لوگ قرآن کریم کے خاص وعام کو میرے باپ اور ابن عم علی سے زیادہ جانتے ہو تو لو یہ فدک اپنے پاس رکھو کہ روزقیامت ایک دوسرے کا آمنا سامناکروگے کہ خدا بہترین حاکم اور محمد بہترین رہبر و قائد اور بہترین وعدہ گاہ قیامت ہے ۔ اور روز قیامت اہل باطل نقصان و خسارے کو دیکھیں گے اوراگر پشیمان و شرمندہ ہو ئے تو یہ شرمندگی تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ئے گی۔

اور ہر خبر کے لیے اس کا واقع ہونے کا وقت معین ہے(۱) ۔ اور بہت جلد ی جان لو گے کہ کس پر ذلیل کرنے والا عذاب آنے والا ہے اور اس کو ہمیشہ کے عقاب اور دردناک عذاب میں مبتلا و غرق کرنے والا ہے۔(۲) اور پھر خداوندمتعال کے اس کلام ک ی طرف اشارہ فرمایا :

( ومامحمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل أفان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیه فلن یضرالله شیأ و سیجزی الله الشاکرین ) (۳)

اور محمد کچھ نہیں ہیں سوائے رسول کے کہ ان سے پہلے بھی رسول آئے ہیں ، کیااگر وہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں آپ اپنے گذشتہ (آداب و رسوم اور جاہلیت) کی طرف پلٹ جائو گے اور جو بھی اپنے گذشتہ اور پیچھے کی طرف پلٹے تووہ خدا کو کوئی ضرر و نقصان نہیں پہنچائے گا اور بہت جلدی خداوند اپنے شکر گذار بندوں کو جزادینے والا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام (۶)، آیت ۶۷۔

(۲) اس کلام کا مضمون سورہ ھو د (۱۱) ، آیت ۳۹۔میں آیا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ سوف کے بجائے فسوف ہے اور عذاب عظیم کی جگہ عذاب مقیم آیا ہے ۔

(۳) سورہ آل عمران (۳) ، آیت ۱۴۴۔

۱۳۲

ابوبکر نے حضرت فاطمہ زہرا کو جواب دیا کہ میں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ہم صنف انبیاء سونا چاندی اور گھر و جنگل میراث نہیں چھوڑتے بلکہ صرف کتاب و حکمت اورعلم و نبوت کو میراث میں چھوڑتے ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا:

سبحان اللہ ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، کتاب خدا سے روگردان نہ تھے اور اس کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی پیروی فرماتے اور قرآن مجید کے سوروں کی رسیدگی کرتے ،کیا دھوکا دینے کے لیے جمع ہوئے ہو اور اس پر ظلم و ستم کرنے اور زور گوئی کرنے کے لیے اکھٹا ہوئے ہو ؟یہ کام ان کی وفات کے بعداسی کی مانند ہے کہ جیسے ان کی زندگی میں دھوکے اور مکاریاں کی جاتی رہیں اور یہ بھی انہیں کی زندگی میں پروپیگنڈ ا تیار ہوا ۔

یہ خدا کی کتاب عادل و حاکم ہے اور حق وحقانیت کو باطل و ناحق سے جدا کرنے کے لیے موجود ہے ۔ کہ جس میں ارشاد ہے( یرثنی و یرث من آل یعقوب ) (۱) خدا یا مجھ کو فرزند عطا فرما کہ جو میرا اور آل یعقوب کا وارث قرار پائے ۔ اور ارشاد ہوا( وورث سلیمان داؤد ) (۲) سل یمان نے داؤد سے میراث پائی ۔ خدا وندعالم نے سب کے حصوں کو تقسیم کرنے کے لیے ، فرائض کو نافذ کرنے کے لیے اور مرد وں عورتوں کو ان کے حق کی ادائیگی کی خاطر تمام چیزوں کو آشکار و واضح کر دیا ہے تاکہ اہل باطل کی تاویلات کو ختم کیا جاسکے اور شبہات و بد گمانی کو دور کیا جاسکے ۔

____________________

(۱) سورہ مریم (۱۹ )، آیت ۶۔

(۲) سورہ نمل (۲۷)، آیت ۱۶۔

۱۳۳

( بل سولت لکم انفسکم امراً فصبر جمیل و الله المستعان علی ما تصفون ) (۱) بلکہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے یہ معمہ بنا کرکھڑا کیا ہے لہذا میں صبر کو بہترین راستہ سمجھتی ہوں خداوندمددگار ہے ۔

پس ابوبکر نے کہا خدا سچ کہتا ہے اور اس کا رسول سچ کہتا ہے اور اس کی بیٹی سچ کہتی ہیں،آپ معدن حکمت ، مقام و مرکز ہدایت و رحمت ، رکن دین اور عین حجت ہیں آپ کے سچے و صادق کلام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور آپ کے بیان سے انکار نہیں کرسکتا ۔(۲)

اب یہاں دیکھ رہے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر کی تکذیب کی جبکہ ابوبکر کو حضرت فاطمہ زہرا کی تکذیب پر جرأت نہیں ہوئی بلکہ آپ کے کلام کے صحیح ہونے کی تائید کی ۔اور آپ کی حق بیانی کا اعتراف کیا ۔

اس سے پہلے ، عمر کا کلام گذرچکا ہے کہ اس نے امیر المؤمنین سے کہا کہ ہم آپ کے مقابلے میں گفتگو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔جب کہ اس دوران دیکھتے ہیں کہ ابوبکر سقیفہ میں انصار سے کہتے ہیں کہ ہم امراء اور آپ وزراء ہو ، اورپھر ان کا فعل و عمل ان کے قول کی تصدیق نہیں کرتا ، چونکہ انصار کو ہر طرح کی ذمہ داری اور منصب سے دور رکھا جاتا ہے چہ جائیکہ وزارت سونپی جائے ۔

اور ادھر قرآن و سنت کی تصریحات کو دیکھتے ہیں کہ حضرت علی کا تعارف ہوتا ہے کہ علی وہ شخص ہیں کہ جن کے متعلق کلمہ صادقین آیا ہے۔

____________________

(۱) سورہ یوسف (۱۲) ، آیت ۱۸۔

(۲) احتجاج طبرسی :۱ ۱۴۴۔

۱۳۴

اور علی ہی کی مکمل زندگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ صدیق اکبر ہیں اورآپ ہی سچوں کے امام ہیں ۔

شیخ طبرسی مجمع البیان میں آیہ( یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله و کونو مع الصادقین ) (۱) ک ی تفسیر میں کہتے ہیں :

'' قرائت '' مصحف عبداللہ اور قرائت ابن عباس میں ہے '' من الصادقین'' اوریہ قرائت ابوعبداللہ امام صادق سے روایت ہے ۔

''لغت '' صادق ، سچ اور حق بولنے والے کو کہتے ہیں کہ جو حق پر عمل کرتا ہے چونکہ صادق، صفت مدح ہے اور اس صفت کو بطور مطلق اس وقت بیان کیا جاسکتا ہے کہ موصوف کی سچائی ، مدح و ستائش کے قابل و شائستہ ہو۔

'' معنی'' خداوندعالم نے مومنین کو کہ جو خدائے متعال کی وحدانیت اور رسول مکرم کی رسالت پر ایمان لاچکے اور تصدیق کرچکے ہیں ، ان سے فرمایا ہے''یا ایها الذین آمنوا اتقواالله'' یعنی خدا کی نافرمانی و معصیت سے اجتناب کرو''وکونوا مع الصادقین'' اور سچوں کے ساتھ ہوجائو ۔یعنی وہ لوگ کہ جو اپنے قول وعمل میں سچے ہیں اور کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔ اس کے معنی یہ ہیں اے مومنوں ایسے افراد کے مذہب کو اختیار کرو کہ جن کے قول ان کے افعال کے مطابق اور اپنے قول و فعل میں صادق و سچے ہیں ، ان کے ساتھ ہمراہی کرو۔ جیسا کہ آپ کا قول کہ میں اس مسئلے میں فلاں کے ساتھ ہوں یعنی اس مسئلے میں اس کی اقتداء وپیروی کرتا ہوں۔

____________________

(۱) سورہ توبہ(۹)، آیت ۱۱۹۔ (اے ایمان لانے والو ، خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجائو )

۱۳۵

خداوندعالم نے سورہ بقرہ میں صادقین (سچوں) کی اس طرح توصیف فرمائی ہے ۔

( ولٰکن البر من آمن بالله والیوم الآ خر ـــ اولٰئک الذین صدقوا و اولٰئک هم المتقون ) (۱)

اور لیکن نیک وہ افراد ہیں کہ جو روز قیامت پر ایمان لائے ہیں ، وہی لوگ سچے اور وہی لوگ پرہیز گار ہیں ۔

اسی وجہ سے خداوندعالم نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ تقوی و پرہیزگاری اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہوجائو۔

کہا جاتا ہے کہ صادقین سے مراد وہی افراد ہیں کہ جن کا تذکرہ خداوندعالم نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ، اور وہ آیت یہ ہے( من المؤمنین رجال صدقوا ماعاهدو ا الله علیه فمنهم من قضی نحبه ) (۲) یعنی حمزہ بن عبد المطلب و جعفر بن ابی طالب( ومنهم من ینتظر ) (۳) یعنی علی ابن ابی طالب ۔

کلبی نے ابی صالح سے اور اس نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ ''کونوا مع الصادقین'' یعنی علی اور ان کے اصحاب کے ساتھ ہوجائو۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ (۱)، آیت ۱۷۷۔

(۲) سورہ احزاب (۳۳) ، آیت ۲۳۔

(۳) اسی آیت کا ادامہ ،سورہ احزاب (۳۳) ، آیت ۲۳۔

۱۳۶

اور جابر نے ابی جعفر امام محمد باقر سے روایت نقل کی ہے کہ خدا وندعالم کے اس کلام ''کونوا مع الصادقین'' کے بارے میں فرمایا کہ آل محمد کے ساتھ ہوجاؤ۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہشت میں پیغمبروں اور صدیقین کے ساتھ رہو۔

اور کہا جاتا ہے کہ یہاں پر ''مع '' ''من ''کے معنی میں ہے گویا خداوندعالم نے حکم دیا ہے کہ مومنین سچوں میں سے ہوجائیں ۔ اور جس نے اس کی من کے ساتھ قرائت کی ہے تو اس معنی کو تقویت ملتی ہے اگر چہ دونوں معنی یہاں پر ایک دوسرے کے نزدیک اور ملتے جلتے ہیں چونکہ '' مع '' مصاحبت کے لیے ہے اور'' من'' تبعیض کے لیے ،پس جس وقت وہ شخص خود صادقین و سچوں میں سے ہو تو ان ہی کے ساتھ ہے اور انہی میں سے شمار ہوتا ہے ۔

ابن مسعود کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا مناسب نہیں ہے نہ حقیقتا اور نہ ہنسی مذاق میں اور نہ تم میں سے کوئی اپنے بچوں سے وعدہ کرے اور پھر اس کو پورا نہ کرے ، جس طرح بھی چاہو اس آیت کی قرائت کرو، تو کیا جھوٹ میں چھٹکارہ دیکھتے ہو؟۔(۱)

ابن اذینہ نے برید بن معاویہ عجلی سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے خداوندعالم کے اس فرمان''اتقوا الله وکونوا مع الصادقین'' کے متعلق حضرت امام محمد باقر سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ صادقین سے مراد ہم اہل بیت ہیں۔(۲)

____________________

(۱) دیکھیے :ـ مجمع البیان۔ سورہ توبہ تفسیر آیت ۱۱۹۔

(۲) بصائر الدرجات ۵۱، حدیث ۱۔ اصول کافی : ۱ ۲۰۸، حدیث ۱۔

۱۳۷

صفار نے حسین بن محمد اور اس نے معلی بن محمد اوراس نے حسن اور اس نے احمد بن محمد سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے حضر ت امام رضا سے خداوندعالم کے اس فرمان''اتقوا الله وکونوا مع الصادقین'' کے متعلق سوال کیا تو امام نے فرمایا: صادقین سے مراد آئمہ ہیں کہ جو اطاعت و عبادت میں صدیق ہیں ۔(۱)

حدیث مناشدہ میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین نے فرمایا : آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کیا جانتے ہو کہ یہ آیت نازل ہوئی( یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله وکونو مع الصادقین ) تب سلمان نے سوال کیا :اے رسول خدا یہ دستور عام ہے یا خاص ؟ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : خطاب کی طرف تو تمام مؤمنین مراد ہیں کہ جن کو اس کام کا حکم دیا گیا ہے لیکن صادقین سے مخصوص میرے بھائی علی اور روز قیامت تک اس کے بعد کے اوصیاء ہیں ، تب سب نے کہا ہاں خدا کی قسم یہی درست ہے ۔(۲)

ابن شہر آشوب نے تفسیر ابویوسف سے روایت کی ہے کہ یعقوب بن سفیان نے ہم سے کہا کہ مالک بن انس نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے کہ ابن عمر نے اس آیت کے بارے میں کہ( یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله ) کہا کہ خدا وندعالم نے صحابہ کو حکم دیا کہ خدا سے ڈرو اور پھر فرمایا( و کونو مع الصادقین ) یعنی محمد اور ان کے اہل بیت کے ساتھ ہوجائو۔(۳)

____________________

(۱) بصائر الدرجات ۵۱، حدیث ۱۔ اور اسی سے منقول ہے بحار الانوار :۲۴ ۳۱ میں ۔

(۲) کتاب سلیم بن قیس ۲۰۱۔ التحصین ۶۳۵۔ ینابیع المودة :۱ ۳۴۴۔

(۳) مناقب ابن شہر آشوب :۲ ۲۸۸۔ ینابیع المودة : ۱ ۳۵۸، باب ۳۹، حدیث ۱۵، کہ اس میں موفق بن احمد خوارزمی سے منقول ہے ۔ فضائل ابن شاذان ۱۳۸۔

۱۳۸

حضرت امام موسیٰ کاظم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : کہتے ہیں کہ ہم علی کے شیعہ ہیں ، علی کا شیعہ وہ ہے کہ جس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے ۔(۱)

حضرات معصومین کی امامت و صدیقیت کے اثبات میں شیعوں کے درمیان اس آیت سے استدلال و تمسک معروف ہے اور محقق طوسی نے کتاب تجرید الاعتقاد میں اس کو ذکر کیا ہے ۔(۲)

علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ خداوندعالم نے تمام مؤمنین کو صادقین کے ساتھ ہونے کا حکم دیاہے اور اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کے بدن کے ساتھ رہنا مقصود نہیں ہے بلکہ ان کی روش کی پیروی و ملازمت اور ان کے عقائد و اقوال و افعال کی اتباع مراد ہے ، اور یہ واضح ہے کہ خداوندعالم کسی بھی ایسے شخص کی اتباع و پیروی کا حکم نہیں دیتا کہ جس کے بارے میں جانتاہو کہ اس سے فسق و فجور اور گناہ صادر ہوتے رہتے ہیں ، بلکہ ایسے افراد کی ہمراہی سے منع فرمایا ہے ۔

پس لازم ہے کہ صادقین ، معصوم ہوں کہ جو کسی بھی خطا و غلطی کے مرتکب نہ ہوں تاکہ ان کی اتباع اور پیروی تمام امور میں واجب ہوسکے ۔نیز یہ حکم کسی خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے کے لیے عام ہے ،پس ان صادقین میں سے کوئی ایک معصوم ہرزمانے میں موجود ہو تاہے تاکہ ہرزمانے کے مومنین کے لیے ان کی اتباع کا حکم صحیح ہوسکے ۔(۳)

____________________

(۱) روضہ کافی :۸ ۲۲۸،حدیث ۲۹۰۔

(۲) تجرید الاعتقاد ۲۳۷، مقصد خامس فی الامامة ۔ کشف المراد (علامہ حلی ) ۳۷۱۔

(۳) بحار الانوار : ۲۴ ۳۳ـ۳۴۔

۱۳۹

شاعر کہتا ہے:

اذا کذبت اسماء قوم علیه م

فاسمک صدیق له شا ه د عدل(۱)

جب تمام اقوام عالم کے نام ان کے اوپر جھوٹ ثابت ہوں اور کوئی نام مطابقت نہ رکھتا ہوتو تیر ا نام صدیق و سچا ہے ، اور اس بات پر شاہد عادل گوا ہ ہے ۔

ان تمام مطالب کے بعد آپ کے لیے واضح ہوگیا کہ صدیق کون ہے اور صدیقہ کون؟

دوم : عصمت

صدیقیت کی دوسری صفت عصمت ہے یعنی صفت صدیقیت کے معنی یہ ہیں کہ صدیق مرتبہ کمال اور عصمت تک پہنچ جائے چونکہ وہ خداوندعالم کی طرف سے منتخب ہوتا ہے اور یہ صفت ، ''صادقیت ''سچ بولنے سے زیادہ بلند و بالا ہے ۔

____________________

(۱) مناقب ابن شہر آشوب :۲ ۲۸۷۔

۱۴۰