"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 48109
ڈاؤنلوڈ: 5555

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48109 / ڈاؤنلوڈ: 5555
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

صدق و سچائی کادارومدار خود انسان پر ہے لیکن صدیقیت کا تعلق خداوند سے ہے ، معصوم نہ صرف صادق بلکہ صدیق ہوتا ہے اور نہ فقط طاہر بلکہ مطہر ہوتا ہے ،پس جو کوئی خداوندعالم کی جانب سے منتخب اور چنا ہوا ہو اس کے لیے واجب ہے کہ اپنی رفتار و گفتار میں بغیر کسی کمی و زیادتی کے راہ حق کو اپنائے جیساکہ یہ خصوصیت حضرت مریم بنت عمران میں نظر آتی ہے لہذا خدا وندعالم کا ارشادگرامی ہے ۔( ماالمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل وامه صدیقه ) (۱)

مسیح ابن مریم کچھ نہیں ہیں سوائے رسول کے کہ ان سے پہلے بھی رسول آئے اور چلے گئے اور ان کی مادر گرامی صدیقہ ہیں ۔ اور ان ہی کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے :

( واذقالت الملائکة یا مریم ان الله اصطفاک و طهر ک واصطفاک علی نساء العالمین ٭ یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین٭ذالک من انباء الغیب نوحیه الیک وما کنت لدیهم اذ یلقون اقلامهم ایهم یکفل مریم وما کنت لدیهم اذ یختصمون ) (۲)

اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم خداوندعالم نے آپ کو منتخب کیا اور پاک و پاکیزہ رکھا اور آپ کو عالمین کی عورتوں پر فضیلت بخشی ۔ اے مریم اپنے پروردگار کے سامنے خاضع اور خاشع رہو، سجدہ کرنے والو ں کے ساتھ سجدہ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یہ غیبی خبریں ہیں کہ جن کی ہم نے آپ پر وحی کی اورآپ اس وقت ان کے پاس نہیں تھے کہ جب ان کے درمیان اس سلسلے میں قرعہ ڈالے گئے کہ مریم کی پرورش کون کرے ؟ اورآپ ان کے درمیان نہیں تھے کہ جب وہ آپس میں اختلاف کررہے تھے ۔

اور جب اس قوم نے مریم سے کہا (یا مریم لقد جئت شیأ فریا )(۳)

____________________

(۱) سورہ مائدہ(۵)، آیت ۷۵۔

(۲) سورہ آل عمران (۳)، آیت ۴۲ـ۴۴۔

(۳) سورہ مریم (۱۹)، آیات ۲۷ـ ۳۰۔

۱۴۱

یعنی اے مریم آپ ایک دھوکے کی چیز لائی ہو کہ جو برائی کا سرچشمہ ہے( یا اخت هارون ماکان ابوک امرء سوء وما کانت امک بغیا ) اے ہارون کی بہن آپ کا باپ کوئی برا آدمی نہ تھا اور نہ آپ کی ماں کوئی بدکار عورت تھی ۔

مریم نے عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ جو گہوارے میں تھے اور لوگوں سے چاہا کہ اس ماجرے کی شرح وتفصیل اس بچے سے معلوم کریں ، ان لوگوں نے کہا( کیف نکلم من کان فی المهد صبیا ) ہم کس طرح اس بچے سے گفتگو کریں کہ جو ابھی گہوارے میں ہے ، اس وقت خداوندعالم نے حضرت عیسی کو قوت گویائی عطا فرمائی ۔ پس آپ نے کہا( قال انی عبد الله آتانی الکتاب و جعلنی نبیا،و جعلنی مبارکا این ما کنت و اوصانی بالصلوة والزکوة مادمت حیا ، وبرا بوالدتی ولم یجعلنی جبارا شقیا ، والسلام علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا )

بیشک میں خدا کا بندہ ہوں کہ جس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے،مجھے نبی بنایا،مجھے جہاں کہیں بھی رہوں بابرکت قرار دیا،جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی وصیت فرمائی اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کروں اس نے مجھے جبار و شقی نہیںبنایا پس مجھ پر سلام ہو اس دن کہ جب میں پید ا ہوا اور اس روز کہ جب مروں اور اس روز کہ جب دوبارہ زندہ کیا جاؤں ۔

اس بناء پر حضرت مریم قرآن کریم کی نص کے اعتبار سے صدیقہ ہیں۔ ان کے اور حضرت فاطمہ زہرا کے درمیان بہت زیادہ چیزیں مشترک ہیں ، مثلا یہ کہ دونوں نبوت کے سلالہ اور نسل سے ہیں اور نبوت ایک ایسا سلالہ و رشتہ ہے کہ جو بھی اس سلسلے سے ہو گا وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی نسل سے ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے ۔

۱۴۲

( ان الله اصطفی آدم و نوحا و آل ابراهیم و آل عمران علی العالمین ذریة بعضها من بعض والله سمیع علیم اذاقالت امراة عمران رب انی نذرت لک مافی بطنی محررا فتقبل منی انک انت السمیع العلیم ) (۱)

خداوندعالم نے آدم ، نوح اور آل ابراہیم و آل عمران کو چنا اور عالمین پر فضیلت بخشی کہ جو ایک دوسرے کی نسل و ذریت ہیں اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ جب عمران کی زوجہ نے کہا : پروردگارا جو بچہ میرے شکم میں ہے اس کے لیے میںنے نذر مانی ہے کہ تیری راہ میں آزاد کروں اور تیری خدمت کے لیے مخصوص کردوں ، پس خداوندا مجھ سے اس کو قبول فرمالے کہ تو سننے اور جاننے والا ہے۔

مریم ایک نبی کی بیٹی اور فاطمہ خاتم الانبیاء کی بیٹی ہیں ، مریم ایک نبی کی ماں ۔ فاطمہ ام ابیھا ، اپنے باپ کی ماں، دو وصیوں کی ماں ، بلکہ مادر اوصیاء ہیں۔

مریم کے یہاں بغیر شوہر کے بچے کی ولادت ہوئی معجزے کے ذریعہ چونکہ اس دور میںان کا کوئی کفو اور مقابل نہ تھا اور فاطمہ کے لیے علی جیسی عظیم شخصیت شوہر قرارپائے اور ان سے حسن و حسین جیسے فرزندوں کی ولادت ہوئی ، اور اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کے برابر و کفو کوئی نہ ہوتا اور ان دونوں کی تربیت و پرورش پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کی ، مریم کی کفالت و پرورش زکریا نبی نے کی، فاطمہ کی پرورش وکفالت سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی نے فرمائی۔

____________________

(۱) سورہ آل عمران(۳)، آیات ۳۳ـ۳۵۔

۱۴۳

حضرت امام رضا سے روایت ہے کہ آپ نے ابن ابی سعید مکاری کے جواب میں فرمایا : خدا وندعالم نے جناب عمران پر وحی نازل کی کہ میں نے تجھ کو بیٹا عطا کیا اور پھر مریم ان کے یہاں پیدا ہوئیں اور مریم کو عیسی عطا ہوئے پس عیسی ، مریم سے ہیں اورمریم ، عیسی سے اور عیسی و مریم دونوں ایک چیز ہیں اور میں اپنے باپ سے ہوں اور میرے والد گرامی مجھ سے اور ہم دونوں ایک چیز ہیں۔(۱)

شیعہ اور اہل سنت دونوں نے نقل کیا ہے کہ ایک رات امیر المؤمنین حضرت علی بھوکے سوگئے اور صبح کو اٹھ کر حضرت فاطمہ سے کھانا طلب فرمایا حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا : اس خدا کی قسم کہ جس نے میرے باپ کو مبعوث بہ رسالت کیا اور آپ کو ان کا وصی قرار دیا میرے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے اور دو دن سے گھر میں کچھ بھی نہیں ، حتی کہ بچوں حسن و حسین کے کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے ۔

حضرت علی نے فرمایا :آپ نے ان بچوں کے لیے بھی کچھ نہ رکھااور مجھے بھی خبر دار نہ کیا تاکہ آپ کے لیے اور بچوں کے لیے کچھ انتظام کرتا ۔

حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا : اے ابو الحسن مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ کسی ایسی چیز کے لیے آپ سے کہوں کہ آپ کے پاس بھی نہ ہو ۔

حضرت علی ، خداپر بھروسہ و توکل کرکے گھر سے باہر نکلے ایک دینار پیغمبراکرم سے قرض لیا اور چل پڑے تاکہ اس سے کچھ خرید کر لائیں اچانک مقداد سے ملاقات ہوئی ۔

____________________

(۱) بحارالانوار :۲۵ ۱۔ بنقل از معانی الاخبار ۶۵۔

۱۴۴

دیکھا کہ مقداد جلتی ہوئی دھوپ میں باہر گھوم رہے ہیں حضرت علی مقداد کی یہ حالت دیکھ کر تاب نہ لاسکے اورفرمایا: اے مقداد آپ کو ایسی گرمی میں کس چیز نے باہر نکالا ہے ؟ اورکیوںپریشان پھر رہے ہو؟۔

مقداد نے کہا : اے ابو الحسن مجھ کو میرے حال پرچھوڑدو اور میری زندگی کے راز کو نہ کھلواؤ ۔

آپ نے فرمایا: میں بغیر معلوم کئے آپ کو نہیں جانے دوں گا۔

مقداد نے کہا : اے ابوالحسن آپ کو خدا کی قسم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور میری حالت معلوم نہ کرو۔

علی نے فرمایا : آپ کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مجھ سے اپنی حالت کو چھپاؤ ۔

مقداد نے کہا: آپ کا اصرار ہی ہے تو عرض کرتا ہوں اس ذات کی قسم کہ جس نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نبوت سے سرفراز ک یا اور آپ کو ان کا وصی قرار دیا ۔ مجھے میرے گھر کی ناداری نے بے قرارکررکھا ہے ،میرے بچے بھوک سے بے حال ہیں اور اب میں ان کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا ہوں، لہذا شرم کے مارے میں نے سر کو جھکا یا اور باہر نکل آیا اور اب پریشان پھر رہا ہوں ، یہ ہے میری حالت!۔

یہ باتیں سنتے ہی علی کی آنکھوں سے اشک جاری ہوئے اور آپ کی ریش مبارک تر ہوگئی اور پھر فرمایا : میں بھی قسم کھاتا ہوں اس کی جس کی تونے قسم کھائی ہے میں بھی اپنے اہل خانہ سے اسی وجہ سے شرم کھاکے باہر آیا ہوں جس کی وجہ سے آپ باہر آئے ہیں ۔یہ ایک دینار میں نے قرض لیا ہے اس کو لیں اور اپنی ضرورت کو پورا کریں ۔

۱۴۵

لہذا حضرت علی نے مقداد کی ضرورت کو اپنی ضرورت و احتیاج پر مقدم رکھا ،ا ن کووہ دینار دے دیا اور خود ایک گوشہ میں سر رکھ کر سوگئے ۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بیت الشرف سے باہر تشریف لارہے تھے کہ ناگہاں آپ کو دیکھا آپ کا سر ہلایا اور فرمایا : کیا کام کیا ؟ حضرت علی نے آپ کو سارا ماجرہ سنا دیا ، پھر اٹھے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نماز بجالائے۔

جب نماز سے فارغ ہوئے تو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا : اے علی آپ کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ حضرت نے توقف کیا اور خاموشی اختیار کی اور شرم کی وجہ سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کوئی جواب نہ دیا جبکہ ان کو دینار کا سار ا قصہ سنا چکے تھے ، پھر فرمایا : جی ہاں یا رسول اللہ ، خداوندعالم کی نعمتیں بہت زیادہ ہیں ۔

خداوندعالم نے اپنے رسول پر وحی نازل کردی تھی کہ آج شام کا کھانا علی ابن ابی طالب کے گھر پر ہے ۔ پس دونوں چلے اور فاطمہ کے بیت الشرف میں وارد ہوئے آنحضرت مصروف عبادت تھیں ، اور آپ کے پاس ایک بہت بڑا طشت رکھا ہوا تھا کہ جس میں سے گرم گرم کھانے کا دھواں اٹھ رہا تھا ۔

حضرت فاطمہ زہرا نے نمازکے بعد اس طشت کو اٹھایا اور ان بزرگواروں کے سامنے لاکر رکھ دیا ، حضرت علی نے سوال کیا : اے فاطمہ یہ آپ کے پاس کہاں سے آیا ؟ آپ نے جواب دیا یہ خداوندعالم کا فضل اور اس کا رزق ہے خداوندعالم جس کو چاہتا ہے بے حساب روزی عطا کرتا ہے ۔

اسی دوران پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک کو علی کے دوش مبارک پر رکھا اور فرمایا : اے علی یہ آپ کے دینار کے بدلے میں ہے ، پھر آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور روتے ہوئے فرمایا :

۱۴۶

حمد و شکر ہے اس پروردگار کا کہ مجھے موت نہ آئی جب تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی بیٹی کے پاس وہ سب کچھ نہ دیکھ لیا کہ جو زکریا نے مریم کے پاس دیکھا تھا ۔(۱)

ہماری روایات میں مذکور ہے کہ نسل حضرت فاطمہ زہرا سے آئمہ ، بنی اسرائیل کے نبیوں سے افضل ہیں اور عامہ کی روایات میں ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے علما ء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔(۲)

اور دونوں فرقوں کی روایات میں ایسی خبریں اور حدیثیں موجود ہیں کہ جو مذہب شیعہ کے عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں چونکہ شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ آخری زمانے میں جب حضرت امام مہدی کے ظہور کے ساتھ زمین پر تشریف لائیں گے تو آپ کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے ۔(۳) جب کہ یہ خود دلیل ہے کہ آئمہ اہل بیت ، انبیاء بنی اسرائیل سے افضل ہیں ۔

اور اگر حضرت ابراہیم و حضرت علی کے کلاموں کے درمیان مقایسہ کیا جائے تو حضرت علی کی بزرگی و معرفت حضرت ابراہیم کی نسبت واضح و آشکار ہوجائے گی ۔

____________________

(۱) دیکھیے:ـ مناقب ابن شہر آشوب : ۱ ۳۵۰ ۔ امالی شیخ طوسی ۶۱۷۔ الخرائج و الجرائح :۲ ۵۲۲۔ ذخائرالعقبی ۴۶۔ فضائل سیدة النساء (عمر بن شاہین) ۲۶۔ تفسیر فرات کوفی ۸۴۔ کشف الغمہ :۲ ۹۸۔تاویل الآیات :۱ ۱۰۹۔ ینابیع المودة :۲ ۱۳۶۔

(۲) المحصوم (رازی ) :۵ ۷۲۔ سبل الھدی و الرشاد:۱۰ ۳۳۷۔

(۳) الآحاد المثانی :۲ ۴۴۶ـ۴۴۹، حدیث ۱۲۴۹۔ کنزالعمال :۱۴ ۲۲۶، حدیث ۳۸۶۷۳۔ یہ ابونعیم کی کتاب مہدی میں ابو سعیدسے روایت ہے ۔ فتح الباری :۶ ۳۵۸۔ تفسیر قرطبی :۱۶ ۱۰۶۔

۱۴۷

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم سے خطاب فرمایا( اولم تومن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی ) (۱) اے ابراہیم کیا مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں آپ کو یقین نہیں ہے ابراہیم نے جواب دیا یقین تو ہے لیکن اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لیے معلوم کررہا ہوں ۔

جب کہ حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :'' لوکشف الغطاء ما زددت یقینا ''(۲) اگر م یری آنکھوں کے سامنے سے پردے بھی ہٹادیے جائیں تو بھی میر ے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔

اس کلام میں بہت عظیم معنی پوشیدہ ہیں کہ جس کو علماء اپنی بصیرت سے درک کرتے ہیں ۔

اسی منطق و دلیل اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نص کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا جناب مریم سے افضل و بالاتر ہیں چونکہ حضرت رسول خدا کہ ان پر قرآن نازل ہو ااور اس میں جناب مریم کے انتخاب کی آیت نازل ہوئی جبکہ آپ نے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے فرمایا: فاطمہ تمام عالم کی عورتوں کی سرادار ہیں لوگوں نے سوال کیا اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہ ک یا اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں تو آپ نے فرمایا:''ذاک مریم بنت عمران ، اما ابنتی فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و آخرین'' (۳)

____________________

(۱) سورہ بقرہ (۲)، آیت ۲۶۰۔

(۲) تفسیر ابی السعود :۱ ۵۶۔ و جلد:۴ ۴۔ الصواعق المحرقہ :۲ ۳۷۹۔ حاشیہ السندی :۸ ۹۶۔ مناقب ابن شہر آشوب :۱ ۳۱۷۔ فضائل ابن شاذان ۱۳۷۔

(۳) امالی صدوق ۵۷۵۔ اور اسی سے منقول ہے شرح الاخبار :۳ ۵۲۰، حدیث ۹۵۹۔ اور بحار الانوار : ۴۳ ۲۴، حدیث ۲۰،میں ۔ بشارة المصطفی ۳۷۴، حدیث ۸۹ ۔ بحارالانوار : ۳۷ ۸۵، حدیث ۵۲ ۔

۱۴۸

یہ کہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تو مریم بنت عمران تھیں لیکن میری بیٹی تمام عالمین اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں ۔

عائشہ کی کیا صورت حال ہے ؟ کہاں عایشہ اور کہاں یہ فضائل ، کیا وہ ان عظیم فضائل و کمالات میں سے کچھ تھوڑ ا بہت بھی رکھتی تھیں؟۔

ایک شبہہ وسوال اور اس کا جواب

یہاں پر ہم ایک شبہہ کا جواب دینے پر مجبور ہیں کہ جو بعض افراد کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح حضرت فاطمہ زہرا تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ؟ جب کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں یہ مرتبہ حضرت مریم کو عطا فرمایا ہے لہذا ارشاد گرامی ہے :

( یا مریم ان الله اصطفاک و طهر ک واصطفا ک علی نساء العالمین ) (۱)

اے مریم بیشک اللہ نے آپ کو منتخب فرمایا اور آپ کو پاک و پاکیزہ رکھا اور تمام عالمین کی عورتوں پرچن لیا۔

ہم اس شبہہ کا جواب دو طرح سے پیش کرتے ہیں ، ایک نقضی ہے اور دوسرا حلی ۔

جواب نقضی یہ ہے کہ خود اعتراض کرنے والوں سے معلوم کرتے ہیں کہ اس آیت خداوندی کے بارے میں کیا خیا ل ہے کہ ارشاد گرامی ہے :

____________________

(۲) سورہ آل عمران (۳)، آیت ۴۲۔

۱۴۹

( واسماعیل و الیسع و یونس و لوطا و کلا فضلنا ه علی العالمین ) (۱)

اور اسماعیل و یسع و یونس اورلوط ، ان سب کو ہم نے عالمین پر فضیلت بخشی ۔

تو کیا ان کا یہ یقین ہے یا کوئی قائل ہے کہ یہ مذکورہ نبی حضرات، ہمارے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمد مصطفی سے افضل ہیں ؟ اصلا نہیں ۔ چونکہ پیغمبروں کے یہاں مراتب ہیں کہ جن میں سب سے افضل خاتم الانبیاء ہیں ۔

اور پیغمبروں میں ایک دوسرے پر برتری و افضلیت یہ ایک حقیقت ربانی ہے لیکن یہ فضیلت ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بلکہ اپنے اپنے زمانے سے مخصوص ہے ۔

( تلک الرسل فضلنا بعضهم علی بعض منهم من کلم الله و رفع بعضهم درجات ) (۲) یہ پیغمبران الہٰی کہ جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ان میں سے بعض وہ ہیں کہ جو خدا سے گفتگو کرتے ہیں اور ان میں سے بعض کے درجات کو بلند کیا ہے ۔

اور ان سب سے زیادہ واضح آیت وہ ہے کہ جہاں خداوندعالم نے یہودیوں کو قرآن کریم میں تمام مخلوقات عالم پر فضیلت عطا فرمائی ہے ۔ لہذا ارشاد گرامی ہے :

( یا بنی اسرائیل اذکرو نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی العالمین ) (۳)

____________________

(۱) سورہ انعام (۶) ، آیت ۸۶۔

(۲) سورہ بقرہ(۲) ، آیت ۲۵۳۔

(۳) سورہ بقرہ (۱) ، آیت ۱۲۲۔

۱۵۰

اے بنی اسرائیل یاد کرو ان نعمتوں کو کہ جو میں نے تم کو عطا کیں اور بیشک میں نے تم کو تمام عالمین پر فضیلت عطا کی ۔

کیا یہاں کوئی مسلمان یا عیسائی ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ یہودی تمام عالم سے افضل ہیں ؟ اصلاً نہیں ۔ خصوصاً اس بات کی اطلاع پانے کے بعد کہ انہوں نے انپے پیغمبروں کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا ، اور شریعت میں کس قدر تحریف کی ۔

لہذا اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی فضیلت اور کلمہ'' علی العالمین'' سے مراد اسی زمانے کے لوگ اور مخلوق ہے نہ کہ تما م زمانوں کے ۔

چونکہ آخری زمانہ مخصوص ہے حضرت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت امام علی اور ان کے معصوم فرزندوں سے کہ بغیر شک و تردید یہ حضرات انبیاء و بنی اسرائیل سے افضل وبرتر ہیں ۔

لیکن جواب حلی یہ ہے کہ جس شخصیت نے یہ فرمایا ہے کہ فاطمہ زہرا ، مریم سے افضل ہیں اور وہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اور بہشت کی عورتوں کی سردار ہیں کہ جن میں مریم بھی ہیں وہی شخصیت ہے کہ جس پر قرآن نازل ہوا ہے اور اسی قرآن میں وہ آیت بھی ہے کہ جس میں مریم کو تمام عالم پر فضیلت دی گئی ہے۔لہذا جس پر قرآن نازل ہوا ہے وہ ہرآیت کے معنی پوری کائنات سے بہتر جانتا ہے ۔

اگر ذرا غور کریں ، اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں فکر سے کام لیں کہ جو آپ نے اپنی دختر نیک اختر کے بارے میں فرمائے ہیں جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوندعالم حضرت فاطمہ زہرا کی خوشنودی میں خوش اور ان کی ناراضگی میں ناراض ہوتا ہے۔

۱۵۱

یقینا آپ کوعلم ہوجائے گا کہ یہ نصوص ، حضرت فاطمہ زہرا کی عصمت اور آپ کے تمام عالمین کی عورتوں پر فضیلت پر دلالت کرتی ہیں لہذا حق یہ ہے کہ آنحضرت کا مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اور آپ مریم بنت عمران سے کہیں افضل وبرتر ہیں ۔

اصلی مطلب کی طرف مراجعت

اب اپنے اصلی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں تاکہ دیکھیں کہ ان چارافراد علی ، فاطمہ اور ابوبکر و عائشہ میں سے کون کون اس صفت صدیقیت کا مستحق ہے،اوران میں سے کس کس کی عصمت بیان ہوئی ہے اور کس کے یہاں اس لقب کے قابل ، امتیازات و علامات موجود ہیں ۔

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ کسی بھی مسلمان نے ابوبکر و عمراور عائشہ کی عصمت کا دعوی نہیں کیا ہے اور وہ لوگ خود بھی اس طرح کا ادعی نہیں کرتے تھے ۔

جبکہ یہ بات علی و فاطمہ کے یہاں بر عکس ہے کہ وہ دونوں حضرات خود بھی اپنی عصمت کے بارے میں معتقد تھے اور اسی طرح بہت سے مسلمان بھی ان کی عصمت و پاکیزگی اور ہر طرح کے رجس و آدلودگی سے طہارت کے متعلق یقین رکھتے ہیں ۔

قرآن کریم میں آیت تطہیر جیسی آیات انہیں کی شأن میں نازل ہوئی ہیں کہ جو ان کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں اور اسی طرح پیغمبرا کرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی وہ تقاریر اوراحادیث کہ جو ان کے متعلق ارشاد فرمائیں یقینا ان کی عصمت پر دال ہیں ۔

لہذا یہ مطلب اس بات کے لیے کافی ہے کہ کہا جائے کہ صدیقہ اولویت و ترجیح کے اعتبار سے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے ثابت ہے نہ کہ عائشہ کے لیے ۔

۱۵۲

اور صدیق، حضرت علی کے لیے حق ہے نہ کہ ابوبکر کے لیے ۔

اب ابوبکر اور حضرت یوسف کے درمیان مقایسہ و مقابلہ کرتے ہیں کہ جن کو قرآن کریم میں صدیق کہا گیا ہے تاکہ صدیقیت کے معیار کو سمجھیں اور ان دونوں کے یہاں ان کے اعمال و کردار سے صدیقیت کی صلاحیت کو درک کریں ۔

حضرت یوسف کو یہ لقب اس لیے عطا ہو ا کہ انہوں نے عزیز مصرکے لیے اس کے خواب کی صحیح تعبیر بیان کی کہ جب اس نے خواب دیکھا کہ سات موٹی تازی گائے ہیں جن کو سات پتلی دبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات ہرے بھرے گندم کے خوشے (گیہوں کی بالیاں) اور باقی خشک و خالی نکلی ہیں ۔خداوند عالم نے اس ماجرے کو عزیز مصر کی زبانی قرآن کریم میںیوں بیان فرمایا ہے :

( یوسف ایها الصدیق افتنا فی سبع بقرات سمان یاکلهن سبع عجاف و سبع سنبلات خضر و اخر یابسات لعلی ارجع الی الناس لعلهم یعلمون ٭قال تزرعون سبع سنین دأبا فما حصدتم فذروه فی سنبلة الاقلیلامما تاکلون ٭ ثم یاتی من بعد ذالک سبع شداد یاکلهن ما قدمتم لهن الا قلیلا مما تحصنون ٭ ثم یاتی من بعد ذالک عام فیه یغاث الناس و فیه یعصرون ) (۱)

یوسف اے صدیق اس خواب کی تعبیر کو ہمارے لیے بیان کریں کہ سات موٹی تازی گائے ہیںجن کو سات دبلی پتلی گائیںکھارہی ہیں اورسات ہرے بھرے گندم کے خوشے (گیہوں کی بالیاں) اور باقی خشک و خالی نکلی ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ یوسف(۱۲) ، ۴۶ـ۴۹۔

۱۵۳

مجھے امید ہے کہ اس کی صحیح تعبیر پر میں لوگوں کی طرف پلٹ آؤںاور شاید وہ لوگ بھی جان لیں ۔ یوسف نے کہا : آپ لوگ سات سال تک مسلسل کھیتی باڑی کرو ،اور جو کچھ بھی پیدا ہواس کو بالی سمیت ہی رکھ لو اور صرف تھوڑا بہت کھانے کے قابل استعمال کرو، اس کے بعد سات سال سخت وقحط کے آئیں گے کہ جن میں پہلے ہی سے جو بچا کے رکھا ہوگا وہ بھی خرچ ہوجائے گا مگر تھوڑا بہت ،پھر اس کے بعد سال آئے گا کہ جس میں بارش آئے گی اور اس میں لوگ پھولوں کو توڑیں گے ۔

خداوندمتعال نے حضرت یوسف کے چند سال زندان میں رہنے کے بعد ان کی بیان کردہ تعبیر کی تصدیق فرمائی ، لیکن ابوبکر کہ جس کے بارے میں لوگوں کی کوشش ہے کہ لقب صدیق کو ان کے سر پر مڑھیں ، جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے اندر یہ صلاحیت و معیار نہیں ہے اور اس لقب کی قابلیت نہیں پائی جاتی ۔

ابوبکر نہ معصوم صدیق ہیں اور نہ غیرمعصوم صدیق ، بلکہ قرآن و سنت کے معانی و مطالب کو بھی صحیح نہیں سمجھ پاتے ، اور قرآن کریم کی متعددآیات کے سلسلے میں صحابہ سے معلوم کرتے تھے ، بارہا صحابہ کی طرف سے قرآن و سنت اور فتوی دینے میں ان کی غلطیاں پکڑی گئیں ۔ اور وہ قرآن کریم میں استعمال ہونے والا لفظ ''بضع''کے معنی بھی نہیں جانتے تھے اوراپنی طرف سے جلد بازی میں تفسیر کرگئے ۔

سنن ترمذی میں ابن مکرم اسلمی سے روایت ہے کہ اس نے کہا: کہ جب یہ آیت( الم ٭غلبت الروم٭ فی ادنی الارض من بعد غلبهم سیغلبون٭فی بضع سنین ) (۱)

____________________

(۱) سورہ روم(۳۰ )، آیات ۱ـ۴۔

۱۵۴

الم ۔ ملک رو م اپنی نزدیک ترین و پست ترین زمین سے مغلوب ہوگیا اور وہ عنقریب اس شکست کے بعد غالب ہوجائیں گے ۔

اس آیت کے نزول کے وقت فارس ، روم پر غالب آچکا تھا جب کہ مسلمان یہ چاہتے تھے کہ روم ، فارس پر غالب ہوجائے چونکہ اہل روم او ر مسلمان اہل کتاب تھے ۔ اسی سلسلے میں خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے:( ویومئذ یفرح المؤمنون٭ بنصرالله ینصر من یشاء ، وهو العزیز الرحیم ) (۱) اور اس وقت مؤمن ین ،روم کے فارس پر غلبہ کی وجہ سے خوشحال ہوگئے اور ہر طرح کی کامیابی و غلبہ خدا کی مدد سے ہے ، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ عزیزو رحم کرنے والا ہے ۔

کفار قریش ، فارس کی کامیابی و غلبہ کو چاہتے تھے ، چونکہ کفار و اہل فارس اہل کتاب نہ تھے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان نہیں رکھتے تھے ۔

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ابوبکر گھر سے باہر آئے اور مکہ کے ادھر ادھر شور مچانا شروع کیا :( الم ٭غلبت الروم٭ فی ادنی الارض من بعد غلبهم سیغلبون٭فی بضع سنین ) (۲)

قریش کے لوگوں نے ابوبکر سے کہا یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیان رہے کہ آپ کے نبی کا یہ گمان ہے کہ روم بہت جلد ہی چند سالوں میں فارس پر غالب ہوجائے گا تو کیا اس پر شرط لگاتے ہو؟۔

____________________

(۱) سورہ روم(۳۰)، آیات ۴ـ۵۔

(۲) سورہ روم(۳۰)، آیات ۱ـ۴۔

۱۵۵

ابوبکر نے کہا ہاں، یہ واقعہ رہان وشرط بندی کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے ۔ پس ابوبکر اور مشرکین قریش کے درمیان شرط لگ گئی اور ان دونوں کے درمیان طے پایا کہ بضع کو کتنے سال قرار دیں جب کہ بضع ۳سے ۹ سال تک کے عرصہ کو کہتے ہیں ان لوگوں نے ابوبکر سے وقت معین کرنے کو کہا تاکہ اس زمانے تک یہ شرط پوری ہو لہذا ان کے درمیان ۶ سال کا عرصہ طے پایا ۔ ادھر روم کے غالب ہونے سے پہلے ہی ۶ سال تمام ہوگئے اور مشرکین قریش نے جو کچھ ابوبکر سے شرط میں گروی رکھا تھا لے لیا اور شرط جیت گئے ۔ اورجب ساتواں سال آیا تو روم ، فارس پر غالب آگیا ۔ اس وجہ سے بضع کا نام ۶ سال رکھنے پر مسلمانوں نے ابوبکر پر اعتراض کیا ، چونکہ خداوندعالم نے فرمایا :فی بضع سنین (۱)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو ابن عباس سے نقل ہوئی اس نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا : اے ابوبکر آپ نے کیوں احتیاط نہ کی جب کہ بضع ۳ سے ۹ سال تک کا عرصہ ہے(۲)

بہر حال ابوبکر نے قرآن کریم کے ایک ایسے لفظ کی ـکہ جس کے معنی معین ہیںـ ایسی تفسیر کی کہ جو خداوندعالم کے ارادے کے خلا ف ثابت ہوئی اور معنی بضع کو ۶ سال سے تعب یر کیا لہذا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا :'' الااحتطت یاابابکر فان البضع ما بین الثلاث الی التسع '' (۳)

____________________

(۱) سنن ترمذی :۵ ۲۵، حدیث ۳۲۴۶۔

(۲) سنن ترمذی :۵ ۲۴، حدیث ۳۲۴۵۔

(۳) سنن ترمذی :۵ ۲۴، حدیث ۳۲۴۵۔

۱۵۶

جب کہ یوسف صدیق نے عزیز مصر کے خواب کی تعبیر کی اوروہ واقع کے مطابق ثابت ہوئی لہذا یہ فرق دو صدیقوں کے درمیان مناسب نہیں ہے اور اس فرق کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔

پس قرآن مجید نے اپنے علم و آگاہی کے ذریعہ ابوبکر کے صدیق ہونے کو رد کردیا ہے ۔جبکہ بغیر کسی شک و شبہہ کے اور یقین کے ساتھ یوسف کے صدیق ہونے کی تائید کرتاہے ، اور علی کے صدیق ہونے کی گواہی دیتا ہے ۔

جی ہاں ! صدیق علی اورصدیقہ فاطمہ سے کچھ صادق ذوات مقدسہ وجود میں آئیں کہ جو اہل بیت پیغمبر ہیں اور خداوندعالم نے ان کو ہر طرح کے رجس و گندگی سے دور رکھا ہے او ر ایسا پاک وپاکیزہ قرار دیا کہ جو پاک رکھنے کا حق ہے ۔

یہ کچھ خاص افراد ہیں کہ جن کو شیطان کے ہر حربہ اور مکر سے دور کھا ہے ، اور ان پر شیطا ن مسلط نہیں ہوسکتا جبکہ شیطان نے خداوندعالم سے چیلنج کیا ہے کہ اولاد آدم کو بہکاؤں گا اور انہیں گمراہ کروںگا( لاحتنکن ذریته الا قلیلا ) (۱)

آدم کی اولاد کو گمراہ کروں گا سوائے تھوڑے افراد کے ۔

____________________

(۱) سورہ اسراء (۱۷)، آیت ۶۲۔ اور سورہ نساء (۴) ، آیت ۸۳ میں آیا ہے :(ولو ردوه الی الرسول والی اولی الامر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم ولو لا فضل الله علیکم و رحمته لاتبعتم الشیطان الاقلیلا )اگر اس امر کو رسول و ولی امر کی طرف پلٹا دیں کہ جو لوگ ان میں سے حقیقت کودرک کرتے ہیں اور اگرآپ لوگوں کے اوپر فضل خدا اور اس کی رحمت نہ ہو تو تم سب شیطان کی پیروی کرتے ہوتے مگر تھوڑے سے افراد کے علاوہ ۔

۱۵۷

حضرت امیر المؤمنین علی نے اہل شوری پر اسی بات سے احتجاج فرمایا:

آپ کو خدا کی قسم کیا میرے علاوہ تمہارے درمیان کوئی پاک وپاکیزہ ہے جب کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم سب کے گھروں کے دروازے کہ جومسجدم یں کھلتے تھے ، بند کرادئیے اور صرف میرے گھر کا دروازہ مسجد رسول میں کھلا رہا اس وقت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا نے فرمایا : اے رسول خدا آپ نے سب کے دروازے بند کرادیئے اور علی کا دروازہ کھلا رہنے دیا ؟ تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا : ہاں اس کا م کا خداوندعالم نے حکم دیا تھا، تو سب نے کہا نہیں خداکی قسم آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔(۱)

علی ابن الحسین نے اپنے والد اور انہوں نے علی ابن ابی طالب سے روایت بیان کی ہے کہ رسول خدا نے میرے ہاتھوں کو پکڑا اور فرمایا : بیشک موسی نے اپنے پروردگار سے چاہا کہ اس کی مسجد کو ہارون کے لیے حلال قرار دے اور میں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میری مسجد کو علی اور اس کی اولاد کے لیے حلال اور پاک قرار دے تو خداوندعالم نے ہماری دعا مستجاب فرمائی ۔

اور پھر اس وقت ابوبکر کے یہاں پیغام بھیجا کہ اپنے گھر کا دروازہ کہ جو مسجد کی طرف کو کھل رہا ہے اس کو بند کردو ، انہوں نے کلمہ استرجاع کو زبان پر دوہرا یا اور پھر کہا میں نے سنا اور اطاعت کی ، اور اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا ،پھر اسی طرح عمر اوراس کے بعد عباس کی طرف پیغام بھیجا۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق :۴۲ ۴۳۲ ۔ و ۴۳۵۔(متن روایت اسی کتاب سے ہے )۔ المناقب (ابن مغازلی ) ۱۱۷۔ خصال صدوق ۵۵۲، حدیث ۳۰، ۳۱۔ امالی شیخ طوسی ۵۴۸، حدیث ۱۱۶۸۔ مناقب خوارزمی ۳۱۵۔ کتاب سلیم ابن قیس ۷۴۔ کنزالعمال :۵ ۷۲۶، حدیث ۱۴۲۴۳۔

۱۵۸

پھر اس ماجرے کے بعد پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میں نے لوگوں کے دروازے بندنہیں کیے اور علی کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ خداوندعالم نے علی کا دروازہ کھولا اور تمہارے دروازے بند کئے ہیں ۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہ ابوبکر نے طہارت کا ادعی نہیں کیا اور اپنے آپ کو شیطان کے وسوسہ سے پاک وپاکیزہ نہیں سمجھا بلکہ اس بات کی تصریح کی کہ اس کے ہمراہ ایک شیطان ہے جو اس کو بہکاتارہتا ہے لہذا اس کا قول ہے کہ :

'' خدا کی قسم میں آپ حضرات میں سب سے بہتر نہیں ہوں اور اس مقام کو با دل ناخواستہ اور مجبوراً اختیارکیا ہے اور میں چاہتا تھا کہ آپ لوگوں کے درمیان کوئی ہوتا جو اس بوجھ کو اٹھاتا اور مجھے چھٹکارا ملتا آپ لوگوں کا خیال ہے کہ میں تمہارے درمیان سنت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اجراکروں گا جبکہ اس حالت م یں ، میں یہ کام انجام نہیں دے سکتا ، رسول خدا وحی کے ذریعہ محفو ظ تھے اور خطا ء سے معصوم تھے ان کے ساتھ فرشتے تھے جب کہ میرے ساتھ شیطان ہے کہ جس کے جال میں پھنس جاتا ہوں پس جب کبھی بھی مجھے غصے میں دیکھو تو مجھ سے دوری اختیار کرنا ۔(۱)

تمّام بن محمد رازی (م ۴۱۴ھ) نے اپنی کتاب الفوائد میں اپنی اسناد کے ساتھ ابن ابی عموص سے روایت نقل کی ہے کہ جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابوبکر پر شیطان مسلط ہوتا تھا ۔ لہذا تماّم لکھتا ہے :

ابوبکر زمانہ جاہلیت میں شراب پیتے اور پھر یہ شعر پڑھتے تھے :

____________________

(۱) المصنف (عبدالرزاق ) : ۱۱ ۳۳۶، حدیث ۲۰۷۰۱(متن روایت اسی کتاب سے ہے ) ۔ اور دیکھیے :ـ الامامة والسیاسة :۱ ۲۲۔ تاریخ دمشق :۳۰ ۳۰۳۔ تاریخ طبری : ۲ ۴۶۰۔ طبقات ابن سعد :۳ ۲۱۲۔

۱۵۹

نحیی ام بکر بالسلام

و ه ل ل ی بعد قوم من سلام

اے مادر بکر آپ کو بشارت ہو ،آپ کے فرزندکی سلامتی کی اور کیا اس قوم کے مرنے کے بعد بھی میرے لیے کوئی سلامتی ہے ۔

یہ خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچ ی آپ اٹھے اپنی عبا کو اپنے کاندھوں پر ڈالا اور وہاں تک پہنچ گئے ، وہاں جاکر دیکھا کہ ابوبکر کے ساتھ عمر بھی ہیں ، پس جیسے ہی عمر نے رنجیدگی کی حالت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو د یکھا تو کہا : میں غضب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خدا ک ی بارگاہ میں پناہ چاہتاہوں خدا کی قسم وہ بغیر سبب ہماری طرف نہیں آتے وہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کی ہے ۔(۱)

جی ہاں ! ابوبکر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی رفتار سے درس حاصل نہیں کیا اور ان کے غصے و خشم سے عبرت حاصل نہیں کی بلکہ دیکھیں کہ خالد بن ولید کو اپنی فوج کا کمانڈر بنادیا جب کہ رسول خدا نے اس سے اور ضرار بن ازور سے متعدد بار شراب خواری و بد خواری اور فسق و فجور کی وجہ سے بیزاری کا اظہار فرمایا تھا ۔

یہ تمام باتیں اس وجہ سے ہیں کہ ابوبکر اپنی خواہشات نفس کے تابع تھے ، اور اپنے دستورات و قوانین کو خداوندعالم کے احکام پر مقدم رکھتے تھے ۔

یہ ابوبکر خلیفہ مسلمین کے تھوڑے سے حالات ہیں ۔

اب دیکھیں حضرت امیر المؤمنین امام علی انپے اور رسول خدا کے بارے میں کیا فرماتے ہیں :

____________________

(۱) الفوائد :۲ ۲۲۸۔ اور دیکھیے :ـ الاصابہ :۷ ۳۹، ترجمہ۹۶۳۷۔

۱۶۰