"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 45213
ڈاؤنلوڈ: 4044

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45213 / ڈاؤنلوڈ: 4044
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب : "کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

تحریر: علامہ سید علی شہرستانی

مترجم: سید سبط حیدر زیدی

ماخذ:شیعہ نیٹ

۳

عرض مترجم

کتاب ھٰذا ، استاد علامہ سید علی شہرستانی کی تألیف ''من ه و الصدّ یق و من هی الصدّیقة '' کا ترجمہ ہے یہ کتاب اصل میں عربی زبان میں ہے اور اس کا فارسی زبان میں ترجمہ '' تأمّلی در مفھوم یک لقب'' کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ۔

مؤلف محترم نے ایرانی ہونے کے ناطے فارسی ترجمے میں کچھ مطالب کا اضافہ فرمایا ہے لہٰذا ہمارے لیے بھی ضروری تھا کہ ان اضافات کو نظر انداز نہ کیا جائے لہٰذا اردو زبان میں یہ ترجمہ عربی و فارسی دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر انجام دیا گیا ہے تاکہ اصل کتاب مع اضافات قارئین کے حضور پیش کی جاسکے ۔

اس کتاب میں اگر چہ ظاہراً لفظی بحث ہے اور کلمات صدّیق و صدّیقہ کے متعلق گفتگو کی گئی ہے لیکن لفظی بحث کے باوجود معارف اور حقائق کے ان لطیف گوشوں کی نشاندہی بھی کرائی گئی ہے کہ جو علم کلام و عقائد کی کتابوں میں بھی دستیاب نہیں ہیں یا بہت کمیاب ہیں ۔

ظاہر ہے کہ کلمہ صدّیق و صدّیقہ اور اسی طرح بہت سے الفاظ و القاب حقیقتاً عظیم معانی و مفاہیم کے حامل ہیں لیکن مخالفین اہل بیت علیہم السلام نے جہاں آپ کی ظاہری حکومت و حکومت

۴

اور مادی ملک و میراث پر ناجائز قبضہ کیا وہیں آپ کے القاب کہ جو اپنے دامن میں فضیلتوں کے دریا اور کمالات کے سمندر لیے ہوئے ہیں ، آپس میں تقسیم کرنے کی سعی لاحاصل انجام دی۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمانوں کی نظر میں ان القاب کی حیثیت نہ رہی اور پھر ان کے ظاہری و لغوی معانی کومدنظر رکھتے ہوئے ہرکس و ناکس کے لیے استعمال کیے جانے لگے ۔جبکہ قرآن کریم میں ان الفاظ کا استعمال کچھ خاص افراد کے لیے ہوا ہے اور ان کو بعض نبیوںکی خصوصی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

''صدیقیت'' ایسے معانی و مفاہیم کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے کہ جو عصمت، اعجاز، ولایت تکوینی اور ہم مشیت الٰہی ہونے کو شامل ہیں۔ مثلا خداوندمتعال نے قرآن کریم میں لفظ صدیق کو جس ذات والا صفات کے لیے بھی استعمال کیا وہاں پر اور اس استعمال کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ملا کہ اس ذات گرامی کی زبان مبارک سے کوئی بات نکلی اور مشیت الٰہی نے اس کو پورا کردکھایا ۔ جیسے حضرت یوسف کے لیے صدیق کا لفظ اس مقام پر استعمال ہوا کہ جہاں آپ نے خواب کی تعبیر بیان فرمائی اور پھر وہ تعبیر آپ کے بیان کے مطابق پوری ہوئی ، چاہے وہ ان قیدیوں کے خواب کی تعبیر ہو کہ جو آپ کے ساتھ زندان میں تھے یا بادشاہ مصر کے خواب کی تعبیر ، لیکن جو بھی یوسف صدیق کی زبان سے جاری ہوا وہی مشیت الٰہی نے پورا کر دکھایا اسی طرح ادھرحضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا کی زبان اطہر سے بچوں کے لباس کی خواہش پر الفاظ ادا ہوئے '' بچو! تمہارے لباس خیاط کے پاس ہیں جو کل لے آئے گا '' تو اب جبرئیل ، رضوان جنت ، سردارملائکہ درخانہ سیدہ صدیقہ طاہرہ پر آکر یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے ''انا خیاط الحسنین جئت با لثیاب '' میں حسنین کا درزی ہوں کپڑے لے کر حاضر ہوا ہوں۔

۵

معلوم ہواکہ صدیقیت بہت عظیم مرتبے اور معانی کی حامل ہے اور یہ صادق سے بہت بلندو بالا مقام کا نام ہے ۔۔۔ بلکہ یوں کہاجائے کہ صادق اس کو کہتے ہیں کہ جو واقعہ کو بعینہ نقل کرتا ہو اور اس کا کلام واقع کے مطابق ہو گویا صادق ،واقعہ کا محتاج ہوتا ہے کہ واقعہ رونما ہواور صادق اس کو بیان کرے ۔ جبکہ صدیق وہ ہے کہ واقعہ اس کا محتاج ہوتا ہے یعنی صدیق کی زبان مبارک سے جو کلمات بھی ادا ہوں وہ مشیت الٰہی کے تحت واقعہ کی صورت اختیار کرلیں ۔

یہی عصمت ، اعجاز، ولایت تکوینی اور مشیت الٰہی کے مطابق ہو نا ہے ۔

بہر حال یہ کتاب بہت عظیم معانی و مفاہیم پر مشتمل ہے ہمیں امید ہے کہ قارئین محترم ، اہل نظر اور اہل قلم و ادب حضرات ہماری کوتاہیوں کو دامن عفو میں جگہ عنایت کرتے ہوئے دعائے خیر میں یاد فرمائیں گے۔

بارگاہ احدیت میں ملتجی ہوں کہ اس ناچیز سعی کو مقبول فرمائے ۔آمین

الله م تقبل منا انک انت سمیع الدعا و صل علی محمد وآله الط یبین الطاه ر ین المعصومین ۔

سید سبط حیدر زیدی

مشہدمقدس، ایران

۱۳ رجب المرجب ۱۴۲۸ھ

روزولادت باسعادت صدیق اکبرحضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام

۶

مقدمہ مؤلف

حمد و ثنا ہے پروردگار عالم کی اور درود و سلام ہے ہمارے سید و سردار حضرت محمد اور ان کی آل پاک پر ۔

دین مقدس اسلام اور تاریخ و شریعت میں کچھ خاص الفاظ و مفاہیم ایسے بھی ہیں کہ جن کے بارے میں غور و فکر لازم ہے اس لیے کہ ان الفاظ و مفاہیم کا عقائد و احکام سے بہت عمیق رابطہ اور بہت گہرا تعلق ہے ۔

''صدیقیت'' ان ہی الفاظ میں سے ایک ہے کہ جو بہت بلند معانی رکھتا ہے اور اس میں الٰہی مقامات کی طرف اشارہ ہے ۔

جہاں تک میری نظر ہے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مستقل کتاب یا رسالہ تحریر نہیں ہوا ہے اور جو کچھ بھی علماء و بزرگوں کے کلام میں آیا ہے تو صدیقیت کے معنٰی کی طرف مختصراً اشارے ہیں کہ جو علم کلام اور عقائد کی دوسری بحثوں کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں اور ان کو بھی اس طرح پیش نہیں کیا گیا کہ عصر حاضر کے محقق کی زیر کی و ہوشیاری سے سازگار ہوں اور خود ایک موضوعی بحث کے طور پر بیان ہوسکیں۔

۷

ہم اس لیے بھی کہ اسلامی علوم و معارف اور علمی مواد و ذخائر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہو اس تحقیق کو پیش کرتے ہیں تاکہ یہ ہمارے لیے اور دوسرے ہمارے محققین بھائیوں کے لیے سرنقطہ آغاز قرار پائے ۔حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کی زندگی نہ صرف تاریخی ، اعتقادی اور فقہی میراث سے بھر پور اور مملو ہے بلکہ آپ کی حیات طیبہ کے ہر پہلو میں درس ، عبرتیں اور زندگی گزارنے کے انمول نمونے موجود ہیں کہ جن کو ہر انسان اپنے لیے نقش راہ قرار دے کر فلاح وکامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے ۔ انتہا یہ ہے کہ آپ کے القاب مبارکہ و اسماء طیبہ بڑے بڑے مقامات الٰہی اور مفاہیم معنوی پر دلالت کرتے ہیں ۔

ان میں سے بطور مثال لقب'' صدیقہ ''ہے کہ جو آنحضرت کی عصمت سے مربوط ہے اور اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپ کی حیات طیبہ آغاز ہی سے پاک و پاکیزہ تھی ، چونکہ آپ نے اپنے والدبزرگوارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی رسالت کی پیدا ہوتے ہی تائید و تصدیق فرمائی اور جوکچھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لائے تھے ان کو سچ سمجھا اور اپن ی کمال تصدیق کو خداوندمتعال پر اظہار فرمایا ، یہاں تک کہ خداوندسبحان نے اپنی رضا و خوشنودی اور غضب و غصہ کو آپ کی خوشنودی و ناراضگی سے وابستہ قرار دیا ۔

اور اسی طرح ایک لقب'' محدّثہ'' ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد بھی جبرئیل آپ کے پاس تشریف لاتے ، محو سخن ہوتے، آپ کی دلجوئی فرماتے اور آپ کی آل پاک پر رونما ہونے والے تمام حوادث کو بیان فرماتے تھے۔

ان دوالقاب کے علاوہ ایک لقب ''شہیدہ'' ہے کہ جو آپ کی مظلومیت کی طرف دلالت و راہنمائی کرتا ہے اور یہ کہ آپ کی زندگی کا خاتمہ شہادت پر ہے ۔

۸

بنا برایں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے القاب مبارکہ و اسماء طیبہ سطحی وعادی نہیں ہیں بلکہ ان میں معانی قدسیہ پائے جاتے ہیں ۔ بعض افرادان القاب کو چراکر دوسروں کے سر پر مڑھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ القاب ہرکس و ناکس کو عطا کرکے ان عظیم معانی و اثرات قدسی کو ختم کردیا جائے اور پھر لوگوں کی نظروں میں ان کا کوئی اعتبار باقی نہ رہے ۔

بعض روایات اہل بیت میں آنحضرت کا نام ''فاطمہ''(۱) ک ی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آنحضرت اپنے چاہنے والوں اور شیعوں کو آتش جہنم سے دور و جدا رکھیں گی جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کے لیے مذکورہے کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق و جدائی ڈالنے والے ہیں جبکہ اسی طرح ان معانی کو چھپانے کے لیے اور ان القاب کی فضیلت کو گھٹانے کے لیے اہل سنت نے صدیقہ کا لقب ایک دوسری خاتون کو دے دیا اور فاروق کا لقب ایک اور شخص کو دے دیا اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالنے والا ہے۔

اوراسی طرح کی روایات گھڑی گئیں تاکہ حق و باطل مخلوط ہوجائے لہٰذا نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا کہ گذشتہ امتوں میں محدثین گذرے ہیں لہٰذا اگر میری امت میں کوئی محدث ہو تو وہ عمر بن خطاب ہے !(۲) ۔

____________________

(۱) یہاں تک کہ خود اسی نام مبارک کے بارے میں غورو فکراور بحث کی جائے کہ اس میں کس قدر معانی ومفاہیم الٰہیہ پوشیدہ ہیں ۔

(۲) صحیح بخاری :۱۲۷۹۳ ،ح ۳۲۸۲۔ و ۔ص ۱۳۴۹ ،ح۳۴۸۶۔ صحیح مسلم :۴ ۱۸۶۴۔سنن ترمذی :۵ ۶۲۲،ح۳۶۹۳۔ المستدرک علی صحیحین:۹۲۳ ،ح۴۴۹۹۔ السنن الکبری(نسائی) :۵ ۳۹ ،ح ۸۱۱۹۔

۹

یا اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کی طرف جھوٹی نسبت دی کہ آپ نے فرمایا ''فرشتہ عمر کی زبان میں ہم سے محو گفتگو ہوتاتھا ''(۱) ۔

جبکہ ادھر حضرت فاطمہ اور اہل بیت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو محدث کہا گیا ہے ۔

ان دونوں باتوں کے درمیان کیا وجہ تشبیہ و ربط ہے !؟

مجھے نہیں معلوم کہ کیا میرے ساتھ کسی اور نے بھی غور کیا کہ لفظ ''زہرا'' کے معانی و مفاہیم میں نورالٰہی سے کتنا ربط ہے؟ اور یہ عظمت صرف حضرت فاطمہ سے مخصوص ہے یا حضور اکرم کی دوسری بیٹیوں کو بھی اس میں شریک کیا جاسکتاہے؟(۲) ۔جبکہ اہل سنت نے اس معن ی میں بھی عمومیت دی ہے تاکہ عثمان بن عفان کو حضور انورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی دو بیٹیوں یا ربیباؤں(منھ بولی بیٹیوں) کا شوہر ثابت کرکے ذوالنورین کا لقب دے سکیں۔

شاید یہ لوگ خلفاء کی طرفداری میں ان القاب و اسماء کی عظمت و فضیلت کو درک کرنہ کرتے ہوئے یا خود جانتے ہوئے بھی دوسروں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے ، شہید مظلوم کا لقب عثمان بن عفان کو دینے کے باوجود بھی حضرت فاطمہ زہرا کو لقب ''شہیدہ مظلومہ''دیتے ہوئے خوف کھاتے ہیں ۔(چونکہ اس میں بہت سے حقائق پوشیدہ ہیں !)

____________________

(۱) تاریخ واسط :۱ ۱۶۷۔حلیة الاولیاء :۱ ۴۲۔ الریاض النضرة :۱ ۳۷۶۔المعجم الاوسط:۱۸۷ ،ح ۶۷۲۶۔ مجمع الزوائد: ۹ ۶۹۔

(۲) بالفرض اگر حضورانور کے کوئی اور بھی بیٹی ہو چونکہ ہمارے عقیدے میں حضرت فاطمہ زہرا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اکلوتی بیٹی ہیں(مترجم )

۱۰

جی ہاں! ''صدیقہ''''محدثہ'' اور'' شہیدہ'' یہ وہ القاب ہیں کہ جن میں عظیم معانی و مفاہیم کے ساتھ ساتھ ''عصمت ''''علم ''اور'' مظلومیت'' کے حقائق نمایاں ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا کی زندگی کے تینوں مرحلوں پر دلالت کرتے ہیں اور ان میں وہ تمام واقعات مضمر ہیں کہ جو آنحضرت سے متعلق رونماہوئے ۔

یہ مختصر رسالہ ، تاریخ و شریعت کے متعدد و فراوان الفاظ میں سے صرف ایک لفظ کی توضیح و تفسیر کے بیان میں ہے جبکہ ضروری ہے کہ اس طرح کے تمام القاب میں غور و فکر کیا جائے اور ان کے معنی و مفہوم میں تأمل ہو ۔

ہماری تمام اہل تحقیق و اہل علم و فضل حضرات سے امید وتوقع ہے کہ جوحضرت فاطمہ زہرا کے سلسلے میں علمی خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ ان الفاظ و القاب پر خاص توجہ دیں۔

آخر میں خدائے سبحان کی بارگاہ میں ملتجی ہوں کہ میری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمائے اور اس کو میری نیکیوں و حسنات میں شمار فرمائے، میرے گناہوں کا کفارہ قرار دے اور مجھ کو میری سیدہ و سردار حضرت فاطمہ زہرا کی شفاعت نصیب فرمائے اس حال میں کہ آپ پر اور آپ کے والد بزرگوار ،شوہر نامداراور آل پاک پر درود وصلوات بھیجتاہوں:

(اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها بعددما احاط به علمک )

پروردگار درود وصلوات بھیج فاطمہ زہرا اور ان کے والدبزرگوارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، شوہرنامدار ا ور اولاد پاک پر اسقدر کہ جتنا تیرے علم میں ہے ۔

۱۱

اول و آخر خداوندکی حمد ہے اور ظاہرو باطن میں اس کا شکر ہے اور اس کی صلوات ہو محمد و آل محمد طیبین و طاہرین و معصومین پر۔

سید علی شہرستانی

۱۷ جماد ی الاولی ۱۴۲۶ھ

ایام شہادت صدیقہ کبری فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا

۱۲

تمہید

بحث موضوعی کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کچھ ایسے الفاظ و اصطلاحات سے روبرو ہوتا ہے کہ جن کے سلسلے میں اپنی ذہنیت واقعی کا استعمال کرتا ہے، اور کبھی کبھی تاریخی شواہد وغیرہ انسان کو ان الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق پر مجبور کرتے ہیں ۔خصوصا ایسے موارد کہ جہاں ایک ہی لفظ ،ایک ہی اصطلاح ایک دوسرے کے متعارض یا مخالف مواقع پر استعمال ہوئی ہو کہ جن کے درمیان کسی بھی طرح سے وجہ جمع ممکن نہ ہو اور نہ ہی کوئی شرعی یا عقلی قابل قبول توجیہ موجود ہو ۔

اسلامی تاریخ ، فقہ اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ سے گذر ہوتا ہے کہ جو ایک دوسرے کے خلاف ہیں یا متناقض و متضاد ہیں اور محقق کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرے یا ان کے درمیان کیا وجہ جمع ایجاد کرے چونکہ یہ قدیم الایام سے ہم تک پہنچے ہیں ۔

یہ متناقضات خصوصاً اس طرح کے افراد کے سامنے زیادہ آتے ہیں کہ جو بعض ایسی شخصیات کو مقدس بناکے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جن کو اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعنوان مقدس یاد نہیں فرمایا۔جبکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دونوںمذہب(مذہب صحابہ و مذہب اہل بیت ) کی روش کو ایک جگہ جمع کریں۔

۱۳

لہٰذا ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ یہ افراد محبت اہل بیت علیہم السلام کا دم بھرتے ہیں اوردوسری طرف اہل بیت علیہم السلام پر ہونے والے مظالم کو بھی پسند نہیں کرتے لہٰذا ایک ایسی روش و راستہ ایجاد کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں ظالموں کے ظلم سے چشم پوشی ہوسکے ،اس دعوی کے ساتھ ساتھ کہ جس نے جو کیا ،اچھا ہو یا برا، وہ چلا گیا اور اپنے اعمال اپنے ساتھ لے گیا ، ہمیں کیا مطلب کہ ہم ان کے کارناموں میں دخل اندازی کریں۔

یہ توجیہ ابتداء اچھی اور معقول نظر آتی ہے لیکن تھوڑا ہی غور و فکر کرنے سے اس کی خرابیاں آشکار ہونے لگتی ہیں چونکہ یہ شخصیات ، تاریخ کے عام افراد نہیں تھے کہ جن کے بارے میں کہا جائے کہ ان کے اچھے اور برے اعمال خود ان ہی سے مربوط ہیں اور ان کا مسئلہ خدا کے حضور پیش کیا جائے تاکہ وہ ان کے بارے میں جو چاہے حکم کرے۔

بلکہ وہ لوگ تاریخ و شریعت میں ایک مہم نقش رکھتے تھے اور عصر حاضر میں بہت سے مسلمانوں کے نظر یات انہیں سے ماخوذ ہیں اس وجہ سے ناچار ہیں کہ ان کی سیرت و حالات زندگی سے آشنا ہواجائے۔ چونکہ یہ ہماری آج کی اجتماعی زندگی اور علمی و عملی سیرت سے مربوط ہے اس لیے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے لہٰذا علی و فاطمہ کی معرفت ، ابوبکر و معاویہ کی پہچان کے بغیرممکن نہیںہے ۔چونکہ یہ ہم کو ماننا پڑے گا کہ خدا وندعالم کی جانب سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرنازل ہونے والا حکم اورحق ا یک ہی ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے باطل ہے پس اگر علی حق کے ساتھ ہیں ''علی مع الحق ''(۱) تو معاو یہ باطل پر ہے۔

____________________

(۱) خصال (صدوق) ۴۹۶۔ کفایةالاثر ۲۰۔ تاریخ مدینہ دمشق: ۴۲ ۴۴۹۔

۱۴

اور اگر حضرت فاطمہ زہرا اپنے مدعیٰ میں سچی ہیں تو یقینا ابوبکر سچے نہیں ہیںاوراس کے علاوہ کوئی تیسری صورت نہیں۔ چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے : (فماذا بعد الحق الا الضلال فانیٰ تصرفون )(۱) حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے پس کہاں منھ موڑے جارہے ہو۔

اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان ہے : (ستفرق امتی الی نیف و سبعین فرقة ،فرقة ناجیة والباقی فی النار )(۲) عنقر یب میری امت ستر سے زیادہ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی کہ جن میں سے ایک فرقہ ناجی اور باقی جہنمی ہیں۔

یہ دونوں نصوص، وضاحت کے ساتھ ایک کے حق ہونے اور دوسر ے کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں بلکہ دین اسلام بطور کلی وحدت فکر و مضمون پر موقوف ہے ۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ، ولو ان الحق خلص من لبس الباطل لانقطعت عنه السن المعاندین ، ولکن یوخذ من هٰذا ضغث و من هٰذا ضغث فیمزجان ، فهنالک یستولی الشیطان علی اولیائه ، وینجو الذین سبقت لهم من الله الحسنی'' (۳)

____________________

(۱) سورہ یونس(۱۰) آیت ۳۲۔

(۲) شرح الاخبار :۲ ۱۲۴۔ خصال(صدوق) ۵۸۵۔ سنن ابن ماجہ:۲ ۳۹۹۳ ،ح ۱۳۲۲، اس ماخذ میں بیان ہوا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال سند ثقہ ہیں ۔سنن ترمذی:۴ ۱۳۵ ، اس ماخذ میں ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ مستدرک حاکم :۱۲۹۱۔

(۳) نہج البلاغہ :۱ ۹۹ خطبہ ۵۰۔ شرح نہج البلاغہ : ۳ ۲۴۰۔

۱۵

اگر باطل ، حق کی آمیزش سے خالی رہتا تو حق کے طلب گاروں پر پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق ، باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایک حصہ اس سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے ، ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہوجاتاہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کرپاتے ہیں جن کے لیے پروردگار کی جانب سے نیکی پہلے ہی سے پہنچ چکی ہو تی ہے۔

اور آپ ہی نے حارث بن لوط لیثی سے فرمایا:

'' یا حارث، انک ملبوس علیک! ان الحق لایعرف بالرجال، اعرف الحق تعرف اهله'' (۱)

اے حارث آپ پر امر مشتبہ ہوگیا ہے حق لوگوں سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حق کو پہچانو پھر اہل حق کو پہچان جاؤ گے ۔

سلف و گذشتگان کی بزرگی و ہیبت نے بعض لوگوں کو اس تناقض گوئی میں ڈال دیا ہے جبکہ صحابہ عام انسانوں کی طرح ہیں اور سب الٰہی قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں پس جوشخص خداوندعالم اور اس کے پیغمبر ، کتاب الٰہی اور اس کے احکام پر ایمان لائے ،راہ ہدایت کو اپنائے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جو اس راستہ سے گمراہ و منحرف ہو اس نے خود نے اپنے آپ کو گمراہ کیا ہے ۔

____________________

(۱) انساب الاشراف ۲۳۸ـ۲۳۹۔ امالی شیخ طوسی ۱۲۴، ح ۲۱۶۔ تفسیر قرطبی :۱ ۳۴۰۔ اور دیکھیے ـ: وسائل الشیعہ :۲۷ ۱۳۵، ح ۳۲۔ بحار الانوار :۲۲ ۱۰۵، ح ۶۴۔

۱۶

پس پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہونا اس بات سے مانع نہیں ہے کہ صحابی کی رأ و نظریات کی تحقیق ورد نہ کی جائے چونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیثیت چمکتے ہوئے سورج کی طرح ہے اور جو حضرات ان کے ہمراہ و مصاحب ہیں ان کی مثال آئینہ کی ہے کہ جس قدر آئینہ صاف و شفاف ہوگا اسی قدر نور نبوت اس میں منعکس ہوگااور جس قدر دھندلا ہوگا تو سورج کی روشنی بھی اس کی دھندلاہٹ ہی میںاضافہ کرے گی۔

(سورج کی روشنی و گرمی پھول پر پڑتی ہے تو خوشبو میں اضافہ کرتی ہے اور گندگی پر پڑتی ہے تواس کی بدبو میں اضافہ کرتی ہے) لہٰذا اس صورت میں کمی و نقص اس مصاحب(صحابی) میں ہے نہ کہ مصاحبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م یں۔

حضرت امام زین العابدین علی بن الحسین علیہما السلام ان صحابہ کی کہ جوپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش و سیرت پر باقی رہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، ستائش و تجلیل کرتے ہوئے اپنی دعامیں اس طرح فرماتے ہیں :

''اللهم واصحاب محمد خاصة الذین احسنو ا الصحابة الذین ابلوا البلاء الحسن فی نصره ، و کانفوه و اسرعوا الی وفادته ، وسابقوالی دعوته، واستجابو له حیث اسمعهم حجة رسالته ، وفارقوا الازواج والاولاد فی اظهار کلمته ، وقاتلوا الاباء والابناء فی تثبیت نبوته ، وانتصروا به، ومن کانوا منطوین علی محبته یرجون تجارةً لن تبورفی مودته ، والذین هجرتهم العشائر اذتعلقو ابعروته ، و انتفت منهم القرابات اذ سکنوفی ظل قرابته ،فلا تنس لهم اللهم ماترکو ا لک و فیک، وارضهم من رضوانک اللهم واوصل الی التابعین لهم باحسانـالذین یقولون

۱۷

( ربنا اغفرلناولاخوانناالذین سبقونابالایمان ) (۱) ـخیرجزائک،الذین قصدوا سمتهم'' (۲)

بارالٰھا، خصوصیت سے اصحاب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م یں سے وہ افراد کہ جنہوں نے پوری طرح پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ د یا اور ان کی نصرت میں پوری شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ان کی مدد پر کمر بستہ رہے، ان پر ایمان لانے میں جلدی، ان کی دعوت کی طرف سبقت کی اور جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رسالت کی دلیلیں ان کے گوش گذار کیں تو انہوں نے لبیک کہا اور ان کا بول بالا کرنے کے لیے اپنے بیوی بچوں تک کو چھوڑدیا اور امر نبوت کے استحکام کے لیے باپ اور بیٹوں تک سے جنگیں کیں ، نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود ک ی برکت سے کامیابیاں حاصل کیں اس حالت میں کہ آپ کی محبت دل کے ہر رگ و ریشہ میں لیے ہوئے تھے اور ان کی محبت و دوستی میں ایسی نفع بخش تجارت کے مواقع تھے کہ جس میں کبھی نقصان نہ ہو اور جب ان کے دین کے بندھن سے وابستہ ہوئے تو ان کے قوم و قبیلہ نے انہیں چھوڑ دیا اور جب سایہ قرب میں منزل کی تو اپنے بیگانے ہوگئے ۔

اے میرے معبود انہوں نے تیری خاطر اور تیری راہ کے سبب سب کو چھوڑ دیا تو (جزاء کے موقع پر) ان کو فراموش نہ کرنا اور ان کی اس فداکاری ،خلق کو تیرے دین پر جمع کرنے اور رسول اللہ کے ساتھ داعی حق بن کرکھڑے ہونے کے صلہ میں انہیں اپنی خوشنودی سے سرفراز و شادکام فرما اور جزائے خیر دے ۔۔۔

____________________

(۱) سورہ حشر (۵۹) آیت ۱۰۔

(۲) صحیفہ سجادیہ ، چوتھی دعا (رسول اکرم کی اتباع و تصدیق کرنے والوں کے حق میں دعا)۔

۱۸

اہل بیت علیہم السلام کی سیرت و روش صحابہ کرام کے بارے میں اسی طرح ہے اور یہی راستہ حق ہے کہ ہر مسٔلہ کو اسی میزان میں پرکھا جاتاہے لیکن ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ جہاں سب کو مخلوط کرکے رکھ دیا گیا ہے ،طلیق (آزاد شدہ غلام ) کو مہاجر کی طرح اور صریح(محاصرہ کرنے والے) کو لصیق(محاصرہ ہونے والے ) کی طرح ، محق (اہل حق ) کو مبطل(اہل باطل) کی طرح پیش کیا جاتا ہے(۱) اور انتہا ئی جرأت سے کہا جاتاہے کہ ہمارے سید و سردار معاویہ ہمارے سید و سردار علی سے لڑے یا ہماری سیدہ و عایشہ نے ہمارے سید و سردار علی کے خلاف خروج کیا یاہمارے سید و سردار یزید نے ہمارے سید و سردار حسین کو قتل کیا اور اسی طرح بہت سے متناقض کلام دیکھنے میں آتے ہیں ۔

____________________

(۱) دیکھیے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا نامہ کہ جو معاویہ کے لیے تحریر فرمایا : (۔۔۔ولکن لیس امیة کهاشم ، ولا الحرب کعبدالمطلب، ولا ابوسفیان کابی طالب ولاالمهاجر کالطلیق ، ولا الصریح کاللصیق ، ولا المحق کاللمبطل ولا المؤمن کالمدغل ۔(شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):۳ ۱۸ـ۱۷)

اور لیکن امیہ، ہاشم کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی حرب ، عبد المطلب کی طرح ہے اور نہ ابو سفیان، ابوطالب کی مانند ہے اور نہ ہی آزاد شدہ غلام(طلیق) مہاجر کی طرح ہوسکتا ہے اور محاصرہ کرنے والا(صریح ) محاصرہ ہونے والے(لصیق ) کی مانند، نہ محق (اہل حق ) مبطل(اہل باطل) کی طرح ہے تو نہ ہی مؤمن ، منافق و دھوکے باز کی طرح۔

خداوندتبارک و تعالی سورہ جاثیہ آیت ۲۱میں ارشاد فرماتا ہے : (ام حسب الذین اجترحوا السیٔات ان نجعلهم کالذین آمنوا و عملوا الصاحات سواء محیا هم و مماتهم ساء مایحکمون ) ۔

۱۹

اور اس طرح کی تناقض گوئیوں میں کہ جہاں غور وفکر لازم ہے یہ بات بھی ہے کہ جو اہل بیت علیہم السلام کے مدمقابل والا مذہب ، ابوبکر اور حضرت فاطمہ زہرا کے سلسلے میں زبان پر لاتا ہے کہ ہمارے سید و سردار ابوبکر صدیق نے فدک و میراث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سے اختلاف کیا !۔

اس طرح کی عبارات و الفاظ سے بعض مسلمانوں پر مسٔلہ مشتبہ ہوگیا ہے لہذا اس مسئلہ میں وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ،اور یہ کام ان دونوں حضرات کی نسبت لفظ صدیق و صدیقہ کے معنی میں تحریف کرکے ایجاد کیا گیا ہے ۔

بہر حال ان میں سے اگر کوئی ایک سچا و صادق ہے تو دوسرا یقینا و حتمی جھوٹا و کاذب ہے اور صدیقہ کے متعلق بھی کہ جو انتہائی صادق القول تھیں اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و خداوندعالم نے ان ک ی تصدیق فرمائی ہے یہی مسئلہ ہے ۔یہ دونوں باتیںقبول نہیں کی جاسکتیں چونکہ دونوں ایک دوسرے کو خواہ صراحتاً یا اشارتاً و تلویحاً جھٹلارہے ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا نے اس کلام سے''لقدجئت شیئا فریا'' (۱) ( آپ نے ا یک جھوٹی اور اپنے پاس سے من گھڑت چیز پیش کی ہے ) بالکل واضح طورپر ابوبکر کی تکذیب کی ہے جبکہ ابوبکر یہ جرأت نہ کرسکے کہ حضرت زہرا کی صراحتاً تکذیب کریں بلکہ ایک ایسے کلام کا سہارا لیا کہ جس کا نتیجہ حضرت زہرا کی تکذیب تھی ۔

اب اس مسودہ کے ذریعہ لفظ صدیق کے معنی لغة اور استعمال میں تلاش کرتے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ مریم (۱۹) آیت ۲۷۔

۲۰