"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 48112
ڈاؤنلوڈ: 5555

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48112 / ڈاؤنلوڈ: 5555
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

''جس وقت رسول خدا کا دودھ چھڑایا گیا تب ہی سے خداوندعالم کی جانب سے ایک بہت بڑا فرشتہ شب و روز آپ کے ہمراہ قرار پایا ، یہاں تک کہ آپ نے بڑی بڑی راہوں کو طے فرمایا اور دنیا کی اچھی اچھی خصلتیں اپنائیں ۔اور میں سفر و حضر میں آپ کے ہمراہ تھا جیسے کہ اوٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتاہے ، آپ ہرروز میرے سامنے اپنے اخلاق کا ایک خاص نمونہ پیش فرماتے ، اور مجھ سے پیروی کرنے کو فرماتے ، ہر سال غارحرا ء میں گوشہ نشین ہوتے ، میں آپ کو دیکھتا اور میرے علاوہ کوئی آپ کو نہیں دیکھتا تھا ۔اس وقت سوائے اس گھر کے کہ جس میں رسول خدا اور خدیجة الکبری رہتے تھے کسی دوسرے گھر میں اسلام داخل نہیں ہوا تھا ، ان دوکے علاوہ میں تیسرا مسلمان تھا ، میں رسالت و وحی کے نور کو دیکھتا تھا ، میں نبوت کی خوشبو محسوس کرتا تھا۔

میں نے جس وقت آپ پر وحی نازل ہوئی شیطان کے رونے کی آواز کو سنا اورپھر رسول خدا سے سوال کیا کہ یہ کیسی آواز ہے ؟

آپ نے فرمایا : یہ شیطان ہے کہ جو اس بات سے رنجیدہ ہے کہ اب اس کی عبادت نہیں ہوگی ، بیشک تم ہر اس آواز کو سنتے ہو کہ جس کومیں سنتا ہوں اور ہر اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھتا ہوں سوائے اس کے کہ میرے بعد پیغمبرنہیں ہو بلکہ میرے وزیر ہو ، راہ حق پر گامزن ہو اور مؤمنین کے امیر ہو ۔(۱)

''بغیة الباحث '' اور '' المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ'' نیز ''الجمع بین الصحیحین '' اور ان کے علاوہ دوسری بہت سی کتابوں میں مذکورہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عل ی ابن ابی طالب سے فرمایا

____________________

(۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔

۱۶۱

اے علی تم میرے گھر کے دروازے پر کھڑ ے رہو کوئی میرے پاس نہ آئے اس لیے کہ میرے پاس کچھ زائر فرشتے ہیں کہ جو خداوندعالم سے اجازت لے کر میری زیارت کو آئے ہیں ۔

حضرت علی دروازے پر کھڑے ہوگئے اتنے میں عمر آئے، اندر آنے کی اجازت مانگی اور کہا اے علی میرے لیے رسول خدا سے اجازت لو ، آپ نے فرمایا : کسی کو بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی اجازت نہیں ہے ، عمرنے کہا کیوں؟ آپ نے جواب دیا: چونکہ آپ کے پاس کچھ زائر فرشتے ہیں کہ جو خداوند عالم سے اجازت لے کر آئے ہیں کہ آپ کی زیارت کریں ، عمر نے سوال کیا : اے علی وہ کتنے افراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا ۳۶۰ فرشتے ۔

اس واقعہ کے بعد ایک دن عمر نے اس گفتگو کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ک یا اور کہا: اے رسول خدا یہ سب مجھے علی نے خبردی ہے ۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی سے فرمایا : اے علی آپ نے زائر فرشتوں کی خبر دی ہے ؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں ، یارسول اللہ ۔ پھر فرمایا : کیا عمر سے فرشتوں کی تعداد بھی بیان فرمائی تھی ؟ علی نے کہا : جی ہاں آپ نے فرمایا: اے علی وہ کتنے افراد تھے ؟ علی نے کہا : وہ ۳۶۰ تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا : آپ کو ان کی تعداد کا کیسے علم ہوا ؟ علی نے کہا : میں نے ۳۶۰ آواز یںسنیں مجھ کو علم ہوگیا کہ وہ ۳۶۰ فرشتے ہ یں ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک کو عل ی کے سینے پر رکھا اور فرمایا : اے علی خداوند تیرے ایمان اور علم میں اضافہ فرمائے ۔(۱)

____________________

(۱) بغیة الباحث ۲۹۵۔ المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ:۹۰۱۶۔الجمع بین الصحیحین:۴ ۲۶۳۔ سبل الھدی والرشاد:۱۰ ۲۴۶۔

۱۶۲

یہ حدیث آپ کے لیے واضح کرہی ہے کہ کسی بھی صحابی یا کسی بھی اورشخض کا اہل بیت طاہرین کے ساتھ مقایسہ و مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ،چونکہ وہ حضرات نبوت کے ثمر آور اور تناور شجرہ طیبہ سے ہیں ، خداوندعالم نے ان کو پیغمبراکرم کی جانشینی اور مؤمنین کی رہبری و قیادت کے لیے انتخاب فرمایا ہے اور وہ سب سے پہلے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے ہیں ، اور آپ کی تصدیق کی ہے اور ان کے واسطے بہت سی خصوصیات اور امتیازات ہیں کہ کائنات کا کوئی فرد بھی ان کامقابلہ نہیں کرسکتا ۔

حضرت امیر المؤمنین کا خط معاویہ کے نام میں مذکورہے :

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جیسے ہی ایمان اور خداوندعالم کی توحید کی طرف دعوت دی ہم اہل بیت سب سے پہلے ان پر ایمان لائے اور جو کچھ وہ لائے ہم اس پر یقین رکھتے ہیں ، ہم کئی سال تک ایسے عالم میں ایمان پر رہے کہ ہمارے علاوہ پورے عالم میں کوئی خداوندعالم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور اس کی عبادت نہیں کر تا تھا ۔(۱)

حضرت امام حسن بن علی نے جس وقت معاویہ سے صلح کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابتداء حمد و ثناء خداوندی بجالائے اور اپنے جدامجد محمد مصطفی پر درود و سلام بھیجا پھر فرمایا :

ہم اہل بیت کو خداوندعالم نے اسلام میں محترم و مکرم قرار دیا اور تمام عالم میں سے ہم کوچنا اورانتخاب کیا ، ہم سے رجس و پلیدگی کو دور رکھا ، ہم کو پاک و پاکیزہ قرار دیا۔

____________________

(۱) کتاب صفین (منقری ) ۸۹۔ (اصل عبارت اسی کتاب سے ہے ) ۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :۱۵ ۷۶۔ بحارالانوار :۳۳ ۱۱۱۔

۱۶۳

حضرت آدم سے میرے جد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک جب کبھی بھی دو فرقوں میں تقسیم ہوتے خداوندعالم ہم کو ان میں سے بہترین میں قرار دیتا ۔ پس خداوندمتعال نے محمد کو نبوت کے لیے انتخاب فرمایا اور ان کو رسالت عطا فرمائی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کتاب نازل کی اور میرے والد گرامی سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے ، خدا اور اس کے رسول کی تصدیق کی ، خداوندعالم ، اپنی کتاب میں کہ جو اپنے رسول پر نازل کی ہے ، فرماتا ہے( افمن کان علی بینة من ربه و یتلوه شاهدمنه ) (۱) کیا وہ شخص کہ جو اپنے پروردگار کی جانب سے بینہ و دلیل رکھتا ہو اور اس کے پیچھے اس کا شاہد و گواہ بھی ہو (جھوٹ بول سکتا ہے ) ۔

میرے جد بزرگوار ہی اپنے پروردگار کی جانب سے بینہ و دلیل پر ہیں اور میرے والد بزرگوار وہی ہیں کہ جو ان کے پیچھے اور اتباع کرنے والے ہیں اور ان پر شاہد و گواہ ہیں۔(۲)

معاویہ کے نام محمد بن ابی بکر کے خط میں مذکور ہے :

۔ ۔ اس وقت خداوندعالم نے اپنے علم کے ذریعے ان کو منتخب فرمایا اور ان کے درمیان سے محمد کو چنا اور انتخاب کیا ان کو رسالت سے مخصوص کیا اور اپنی وحی کے لیے ان کوپسند فرمایا ، اپنے امر کے لیے ان پر اعتماد کیا، ان کوان تمام خصوصیات کے ساتھ گذشتہ تمام آسمانی کتابوں اور انبیاء و رسل پر گواہ اور گذشتہ شریعتوں پر راہنما قرار دیا ۔

____________________

(۱) سورہ ھود (۱۱) ، آیت ۱۷۔

(۲) ینابیع المودة (قندوزی حنفی ) :۳ ۳۶۴ـ ۳۶۶۔

۱۶۴

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حکمت اور نیک نصیحتوں کے ذریعہ اپنے پروردگار کی طرف دعوت دی تو سب سے پہلے جس نے ان کا جواب دیا اور ان کے ساتھ آمد و رفت کی اور ان کی بات کی تصدیق کی ، سچ سمجھا اوراسلام لائے ، ان کے ساتھ رہے اور ان کی ہر با ت کو قبول کیا ، ان کے بھائی ، ابن عم علی ابن ابی طالب تھے ، انہوں نے آپ کے غیب کی ہربات کی تصدیق کی ، اور اپنی ہر بات پر ان کو مقدم رکھا اور ان کی ہرخوف و خطر میں حفاظت کی ، ہر طرح کے حوادث میں اپنی جان کو ان پر قربان کرنے کے لیے پیش کیا ، جس نے محمد سے دشمنی کی اس سے علی نے جنگ کی اور جس نے محمد سے صلح کی علی نے اس سے صلح کی۔(۱)

حدیث ابوبکر ھذلی اور داؤد بن ہند میں آیا ہے کہ جو شعبی سے منقول ہے اس نے کہا کہ رسول خدا نے علی کے متعلق فرمایا:''هذا اول من آمن بی و صدقنی و صلیٰ معی '' (۲)

یہ علی وہ فرد ہیں کہ جو سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے، میر ی تصدیق کی اور میرے ساتھ نماز پڑھی ۔

امیرالمؤمنین نے کمیل کو اس طرح وصیت فرمائی :

اے کمیل ! زمین ، شیطانوں کے جالوں سے بھری پڑی ہے کوئی شخص بھی ان سے نجات حاصل نہیں کرسکتا مگر یہ کہ ہمارے دامن سے متمسک ہوجائے۔

____________________

(۱) مروج الذھب :۲ ۵۹۔ کتاب صفین (منقری ) ۱۱۸۔(متن عبارت اسی کتاب سے ہے )۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۳ ۱۸۸۔ جمھرة رسائل العرب :۱ ۵۰۲۴۷۷۔

(۲) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۱۳ ۲۲۵۔

۱۶۵

اور خداوند عالم نے تجھے متوجہ کردیا کہ کوئی بھی ان کے پنجے سے چھٹکارا نہیں پاسکتا مگر اس کے خاص بندے اور خدا کے خاص بندے ہمارے دوستدار و شیعہ ہیں ۔

اے کمیل ! یہ خداوندمتعال کا کلام ہے( ان عبادی لیس لک علیهم سلطان ) (۱) اے ش یطان وہ میرے خاص بندے ہیں تو ان پر مسلط نہیں ہوسکتا ۔ اوریہ کلام پاک ہے( انما سلطانه علی الذین یتولونه والذین هم به مشرکون ) (۲)

شیطان کا تسلط اور حکومت صرف ان لوگوں پر ہے کہ جو اس کی اطاعت و ولایت کو قبول کرتے ہیں اور جو لوگ اس کے اغوا کرنے سے مشرک ہوجاتے ہیں ۔

اے کمیل! اس سے پہلے کہ آپ کے مال و فرزند میں شیطان شریک ہو ، جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے ہماری ولایت کے ذریعہ راہ نجات تلاش کرو۔(۳)

یہ پیغام ہے اس بات پر کہ اہل بیت معصوم ہیں اور ان کی خدا کی جانب سے تصدیق ہوئی ہے اور وہ ہی افراد خداوندعالم کی جانب سے اس آیت (کونوا مع الصادقین)(۱) (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ) م یں مورد عنایت ہیں نہ ابوبکر و عمر۔چونکہ اہل بیت کے متعلق حدیث ثقلین میں قرآن کریم کے برابر ہونا آیاہے،اوریہ مطلب ہماری راہنمائی کرتا ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح قرآن سے متمسک ہونا واجب ہے اسی طرح اہل بیت سے بھی متمسک ہونا واجب ہے۔

____________________

(۱) سورہ حجر (۱۵)، آیت ۴۲۔ و سورہ اسرائ(۱۷)، آیت ۶۵۔

(۲) سورہ نحل (۶۱)، آیت ۱۰۰۔

(۳)بشارةالمصطفی لشیعة المرتضی ۵۵۔ تحف العقول ۱۷۴۔

۱۶۶

اگر اہل بیت سے خطا ء ممکن ہوتی تو ان سے تمسک کے لیے امر بطور مطلق صحیح نہ ہوتا اور جس طرح قرآن کریم کی تعلیمات بلا شک و تردید ہیں اسی طرح اہل بیت سے بھی جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس میں بھی کوئی شک و شبہہ نہیں ہے ۔ اور اگر اہل بیت معصوم نہ ہوتے تو ان کی پیروی میں گمراہی کا احتمال ہو تا لیکن وہ خدا وندعالم کی آسمان وزمین کے درمیان حبل متین اور مضبوط رسی ہیں اور قرآن کریم کی مانند خداوند اور خلق کے درمیان واسطہ ہیں ۔

اس تمام گفتگو کے بعد ہمیں یہ نتیجہ نظر آتاہے کہ اہل بیت سے دشمنی و اختلاف بدون شک و شبہہ اس شخص کے گمراہ ہونے پر دلیل ہے۔ اور ہمارا وظیفہ ہے قرآن و عترت دونوں سے متمسک رہیں چونکہ یہ دونوں ہمیں گمراہی سے نجات دلائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور حوض کوثر پر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچنے تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ۔

اسلامی فرقوں میں سے کوئی سا بھی فرقہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے یہاں قرآن و اہل بیت اس طرح متمسک ہوں کہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں اور اس فرقے کے تمام مسائل و احکام و عقائد انہی سے ماخوذ ہوں ،سوائے مذہب شیعہ کے کہ جو بارہ اماموں کی امامت کے قائل ہیں کہ جن میں سے پہلے صدیق اکبر علی ابن ابی طالب اور آخری مہدی منتظر ہیں ۔ یہی معنی ہیں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث شریف کے جوآپ نے بیان فرمائی :

____________________

(۱) سورہ توبہ(۹)، آیت ۱۱۹۔

۱۶۷

''خلفائی اثنا عشر کلهم من قریش'' (۱)

میرے خلفاء بارہ افراد ہیں کہ جو سب کے سب قریش سے ہیں ۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے خلفاء کو بارہ کی تعداد میں محدود و معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بارہویں امام کی عمر طولانی ہوگی ۔ مذہب شیعہ اور اہل سنت کے بہت سے بزرگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ بارہویں امام زندہ ہیں اور ہماری نظروں سے غایب ہیں اور وہ زمان حاضر میں بھی باقی ہیں تاکہ ہرزمانے میں قرآن کریم کی ہمراہی کی جاسکے اور حوض کوثر تک دونوں ساتھ پہنچیں ۔

یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین نے کمیل بن زیاد سے اہل بیت کے بارے میں اس طرح تعارف کرایا ہے :

'' ۔ ۔ ۔ جی ہاں ، یہ زمین کسی وقت بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی چاہے وہ حاضر و آشکار ہو یا غائب اور پوشیدہ اس کی وجہ یہ ہے تاکہ زمین کبھی بھی خدا کی روشن دلیل سے خالی نہ رہے ۔

لیکن وہ لوگ کون ہیں؟ کتنے افراد ہیں اور کہاں ہیں ؟

خدا کی قسم ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور خدا کے نزدیک بہت بڑی منزلت و مقام رکھتے ہیں خدانے ان کو اپنی امانات و آیات عطا کی ہیں تاکہ وہ اپنے بعد ایک دوسر ے کے سپردکرتے رہیں ۔

____________________

(۱) صحیح مسلم :۶ ۴، باب الناس تبع القریش ، جابرابن سمرة سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے رسول خدا کو فرماتے سنا ہے کہ لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون علیھم اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش ۔ یہ دین ہمیشہ قیامت تک باقی رہے گا اور لوگوں پر بارہ خلیفہ حکومت کریں گے کہ جو سب کے سب قریش سے ہوں گے ۔

۱۶۸

علم و معرفت ، حقیقی بصیرت کے ساتھ ان کے یہاں ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح ہے ، وہ روح یقین سے مخلوط ہیں اور ہر کام کہ جو پوری دنیا پر مشکل ہو وہ ان پر آسان ہے اور جس سے اہل باطل و جاہل بھاگتے ہیں وہ اس سے مانوس ہیں اور اہل دنیا کے درمیان ایسی بلند روح و حوصلہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ جن کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ۔وہ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں ، اور اس کے دین کی طرف بلانے والے ، آہ آہ مجھے ان کے دیدار کا کس قدر شوق ہے ''۔(۱) او ر پھر فرمایا :

'' کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو ہم پر جھوٹ و تہمت لگاتے ہیں اور سر کشی کرتے ہیں جب کہ خداوندعالم نے ہمیں سر بلند فرمایا ہے اور ان کو سرنگوں کیا ، ہمیں علم و فضل عطا کیا اور ا ن کو بے نصیب بنایا ، ہمیں امن کے قلعے میں قرار دیا اور ان کو باہر نکال دیا ، وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ علم قرآن میں راسخ ہمارے علاوہ کوئی اور ہے ۔

ہدایت ،ہماری رہنمائی ہی سے مل سکتی ہے اور دل کے نا بینوں کو روشنی ہمارے ہی ذریعہ نصیب ہوتی ہے ، بیشک وہ قریش کے آئمہ ہی ہیں کہ جوہاشم کی نسل او رشجرہ طیبہ سے ہیں دوسرے لوگ اس کے مستحق نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اور امر الہٰی کا ولی وسرپرست ہے ۔(۲)

ابن شہر آشوب، مناقب میں رقمطراز ہے: اس آیت( یا ایهاالذین آمنوا اتقواالله و کونوا مع الصادقین ) (۳) م یں خداوندعالم نے صادقین کی بطور مطلق پیروی کرنے کا حکم دیا ہے

____________________

(۱) نہج البلاغہ :۳ ۳۷، حکمت (کلمات قصار)۱۴۷۔

(۲) نہج البلاغہ :۲ ۲۷، خطبہ ۱۴۴۔

(۲) سورہ توبہ(۹)، آیت ۱۱۹۔ (اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ)۔

۱۶۹

اوریہ بات ان کے معصوم ہونے پر دلالت کرتی ہے چونکہ اس طرح کا امر کسی ایسے کے متعلق کہ جو برائیوں سے بچا ہوا نہ ہو ،قبیح ہے چونکہ اس کا م کا نتیجہ امر قبیح ہی کی طرف لے جاتاہے۔ اور جب یہ بات امامت کے باب میں ثابت ہوگئی کہ خصوص امیر المؤمنین اور ان کی اولاد معصوم کے لیے بطور اجماع عصمت ثابت ہے اور یہ آیت انہیں کے لیے ہے ، چونکہ امت اسلامی کا کوئی فرقہ بھی اس آیت کے بارے میں ان کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں کہتا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفات ان کے علاوہ کسی اور کے لیے ثابت نہیں ہیں اورکسی نے بھی ان خصوصیات کا ان کے علاوہ ادعی نہیں کیا ہے تو امامت بھی انہیں کا مسلم حق ہے ۔(۱)

____________________

(۱) مناقب ابن شہر آشوب :۱ ۲۴۷۔

۱۷۰

سوم :ـ مطہر اور پاک وپاکیزہ ہونا

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تطہیر ، عصمت کا لازمہ و جزء ہے لیکن ہم یہاں پر عصمت کے قسیم کے طور پر پیش کررہے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہاں پر تطہیر کے متعلق کچھ خاص چیزیں پیش کرنا چاہتے ہیں ، چونکہ ابھی گذرچکاہے کہ خداوندعالم نے موسیٰ کو حکم دیا کہ مسجد تعمیر کرے اور اس کو پاک و پاکیز ہ رکھے ، اس میں اپنے اور ہارون کے علاوہ کسی اور کو رہنے کا حق نہ دے۔ بالکل یہی مطلب خداوندعالم نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے خلیفہ و وصی کے متعلق فرمایا ۔(۱)

____________________

(۱) الخصائص (سیوطی ) :۲ ۴۲۴۔غایة المرام :۳ ۱۹۱۔کتاب سلیم بن قیس ۱۹۵و ۳۲۱و ۴۰۰۔

۱۷۱

امیرالمؤمنین کے احتجاجات میں وارد ہے کہ :

'' تمہیں اللہ کی قسم ، کیامیرے علاوہ تمہارے درمیان کوئی اور مطہر ہے ؟، اس وقت کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم سب کے گھروں کے دروازوں کو مسجد ک ی طرف سے بند کروادیا اور صرف میرے گھر کا دروازہ کھلا رکھا ، اور میں گھر و مسجد میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہا ، پھر آپ کے چچا کھڑے ہوئے اور کہا : اے رسول خدا آپ نے ہم سب کے دروازوں کو بند کردیا اور علی کے دروازے کو کھلا رکھا ، تو آپ نے فرمایا : جی ہاں! خداوندعالم نے اس کام کا حکم دیا تھا ، تو سب نے کہا : نہ ، خدا کی قسم ، (آپ نے جو کہا ہے سچ ہے )''(۱)

ابوبکر کے ساتھ احتجاج میں آپ نے فرمایا :

'' میں آپ کو خدا کی قسم دیتاہوں کیا آیہ تطہیر اور ہر طرح کی گندگی و پلیدگی سے دوری تیری اور تیرے خاندان کی شأن میں نازل ہوئی یا میرے اور میرے خاندان کے بارے میں ؟ ابوبکر نے کہا آپ کے اور آپ کے اہل بیت کے بارے میں ۔

آپ نے فرمایا : تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا وہ شخص کہ جس کو خداوندعالم نے نسل بعد نسل اس کے باپ سے حضرت آدم تک زنا اور غیر مشروع رابطہ سے دوررکھا اور رسول خدا فرماتے تھے میں اور آپ آدم سے لیکر عبدالمطلب تک حلال ونکاح کے ذریعہ منتقل ہوتے رہے اور زنا و سفاح سے پاک و پاکیزہ رہے ، میں ہوں یا تو ؟

____________________

(۱) تاریخ دمشق :۴۲ ۴۳۲۔ کنزالعمال :۵ ۴۲۶، حدیث ۱۴۲۴۳۔ مناقب خوارزمی ۳۱۵۔ خصال صدوق ۵۵۹، حدیث ۳۱۔

۱۷۲

ابوبکر نے کہا: بلکہ آپ ہیں ۔(۱)

حضرت امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ اپنے دین کے سلسلے میں تین طرح کے لوگوں سے بچے رہنا ۔ ۔ ۔ اور فرمایا :

'' وہ شخص کہ جس کو خدائے متعال نے حکومت عطا فرمائی تو اس نے گمان کیا کہ اس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور اس کی معصیت خدا کی معصیت ہے ، جب کہ وہ جھوٹا ہے چونکہ خداوندعالم کی معصیت میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے بلکہ صرف اطاعت خدااور اس کے رسول اور صاحبان امر کی ہے کہ جس کو خداوند عالم نے اپنے اور اپنے رسول کے قرین و ہمراہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے :

( اطیعوا الله و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم ) (۲)

خداوندعالم کی اطاعت کرو اور رسول و صاحب امر کی اطاعت کرو ۔

چونکہ خداوندعالم نے اپنی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس لیے وہ معصوم و مطہر ہیں، خدا کی نافرمانی و معصیت کی دعوت نہیں دیتے اور پھر اس کے ساتھ صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دیا ، اس لیے کہ وہ بھی معصوم او رپاک ہیں اور خداکی نافرمانی و معصیت کی طرف دعوت نہیں دیتے ۔(۳)

____________________

(۱) احتجاج طبرسی :۱ ۱۷۱۔

(۲) سورہ نسائ(۴)، آیت ۵۹۔

(۳) کتاب سلیم بن قیس ۴۰۵، حدیث ۵۴۔ اسی کی طرح کچھ فرق کے ساتھ منقول ہے : خصال صدوق ۱۳۹،حدیث ۱۵۸ میں اور بحار الانوار :۲۵ ۲۰۰،حدیث۱۹ میں ۔

۱۷۳

حضرت امام جعفرصادق نے اپنے آباء و اجداد مطہرین سے روایت نقل کی ہے کہ امیرالمؤمنین نے کوفہ کے منبر پر خطبہ ارشادفرمایا اور اپنے خطبے کے دوران فرمایا کہ:

'' خداوند عالم نے ہم اہل بیت کو محفوظ رکھا اس سے کہ چال باز ، حیلہ گر ، دھوکے بازیا جھوٹے و مکار ہوں ، بس جس میں بھی اس طرح کی بری چیزیں پائی جاتی ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہے اور ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

بیشک خداوندعالم نے ہم اہل بیت کو ہر طرح کی پلیدگی و رجس سے پاک رکھا اور جب کبھی بھی ہماری زبان سے کچھ نکلا تو سچ کردکھایا اور جب کبھی ہم سے کوئی سوال ہوا اس کا ہم نے جواب دیا ۔ خداوندعالم نے ہم کو دس ایسی خصلتیں عطا فرمائی ہیں کہ جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیں اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا فرمائے۔

حلم ، علم، عقل، نبوت ، شجاعت ، سخاوت، صبر ، صدق و سچائی ، عفت و پاکدامنی اور طہارت و پاکیزگی ۔ پس ہم ہیںکلمة التقوی،ہدایت کے راستے ، بہترین نمونے، بہت عظیم حجت الہٰی اور حکم و مضبوط امانت ، ہم ہی وہ حق ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد الہٰی ہے ۔

( فما ذا بعد الحق الاالضلال فانیٰ تصرفون ) (۱)

حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے پس کہاں منھ موڑے جارہے ہو۔''(۲)

____________________

(۱) سورہ یونس (۱۰)، آیت ۳۲۔

(۲) تفسیر فرات کوفی ۱۷۸، حدیث ۲۳۰۔ بحارالانوار:۳۹ ۳۵۰، حدیث ۲۴۔

۱۷۴

عبداللہ بن عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ اس نے کہا : فرزند ابو طالب کو تین خصلتیں ایسی عطا ہوئیں کہ اگر ان میں سے مجھ کو ایک بھی مل جاتی تو وہ مجھ کو لال بال والے اونٹ سے بھی کہیں زیادہ عزیز تھی ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے فرمائی اور آپ کے یہاں ان سے دو بیٹے پیداہوئے اور تمام مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں کو کہ جو مسجد کی طرف کھلتے تھے بندکرادیا سوائے آپ کے گھر کے دروازے کے ، اور روز خیبر آپ کو علم عطا فرمایا ۔(۱)

اسی طرح کی روایت ابوسعید خدری(۲) اور عمر بن خطاب سے بھ ی نقل ہوئی ہے ،صر ف عمر کی روایت میں الفاظ اس طرح ہیں ''وسکناه المسجد مع رسول الله یحل له فیه مایحل له ''

یعنی وہ مسجد میں رسول کے ساتھ رہتے اور جو چیز مسجد میںرسول کے لیے حلال تھی علی کے لیے بھی حلال تھی ۔(۳)

حذیفہ بن اسید انصاری سے روایت ہے کہ روزسدالابواب (دروازے بند ہونے والے دن) پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ ارشاد فرمایا :

____________________

(۳) مسند احمد ابن حنبل :۲ ۲۶۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۲۰۔ فتح الباری : ۷ ۱۲۔ کنزالعمال : ۱۳ ۱۱۰، حدیث ۳۶۳۵۹۔

(۴) مستدرک حاکم :۳ ۱۱۷۔

(۱) مستدرک حاکم :۳ ۱۲۵۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۲۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ :۷ ۵۰۰ ، حدیث ۳۶۔ مناقب خوارزمی ۲۶۱۔ البدایة والنھایة :۷ ۳۷۷۔

۱۷۵

''کچھ لوگ اس بات سے کہ میں نے علی کو مسجد میں رکھا اور ان کو باہر کردیا اپنے دلوں میں احساس لیے ہوئے ہیں ، خداکی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا بلکہ خداوندعالم نے ان کو باہر کیا ہے اور علی کو سکونت عطا فرمائی ہے ، خدائے متعال نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو وحی فرمائی کہ اپنے لیے شہر میں گھر تعمیر کرو اور اس کو لوگوں کا قبلہ قرار دو ، اس گھر میں عبادت کرو ، علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی اور وہ میرا بھائی ہے ، کسی کے لیے مسجد میں اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت جائز نہیں ہے سوائے اس کے ۔(۱)

حضرت علی کے دشمنوں نے آپ سے بغض و حسد میں مختلف طریقے کی روایات کوگھڑا جیسے یہ روایت کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام صحابہ کے گھروں کے دروازے کہ جو مسجد میں کھلتے تھے بند کرادیئے سوائے ابوبکر کے گھر کی کھڑکی کے۔(۲)

علامہ امینی نے حدیث سد الابواب کے ذیل میں خوخة ابی بکر (ابوبکر کی کھڑکی ) کے متعلق کافی مفصل و دلچسپ گفتگو فرمائی ہے(۳) وہ کہتے ہ یں :

____________________

(۱) ینابیع المودة :۱ ۲۵۹، باب ۱۷، حدیث ۸۔ الطرائف ۶۱، حدیث ۵۹۔ اور دیکھیے :ـ مسند احمد :۴ ۳۶۹۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۲۵۔

(۲) صحیح بخاری :۴ ۲۵۴۔ صحیح مسلم :۷ ۱۰۸۔ مسند احمد :۱ ۲۷۰۔ اور ابن جوزی نے الموضوعات :۱ ۳۶۷ ۔ میں لکھا ہے کہ بعض عالم نما افراد نے حدیث ابوبکر میں زیادتی سے کام لیا ہے کہ جو صحیح نہیں ہے ۔

(۳) دیکھیے :ـ الغدیر :۳ ۲۰۲ـ ۲۱۵۔

۱۷۶

اس طرح کی روایات اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ان سب دروازوں کو بند کرنا کہ جو مسجد کے اندر کو کھلتے تھے مسجد کو ظاہری و معنوی نجاست سے پاک رکھنا تھا ،تاکہ کوئی بھی حالت جنابت میں اس میں وارد نہ ہو اور کوئی بھی اس میں جنب نہ ہو، لیکن اپنے اور امیرالمؤمنین کے لیے مسجد میں ہرحال میں رفت و آمد کی اجازت اور آپ کا دروازہ کھلا رکھنا یہ ان دوبزرگواروں کی طہارت و پاکیزگی کی وجہ سے ہے کہ جس بات پر آیہ تطہیر دلالت کرتی ہے کہ وہ حضرات ہر طرح کی پلیدگی و گندگی حتی معنوی نجاست جیسے جنابت سے بھی پاک و پاکیزہ ہیں ۔

یہ مسئلہ کاملاً مسجد موسی کی طرح ہے اور اس سلسلے میں بیشتر آگاہی کے لیے مفید ہے یہ کہ موسی نے اپنے پروردگار سے دعا مانگی کہ میرے اور میرے بھائی ہارون کے لیے مسجد کو حلال و پاک فرما۔ یا یہ کہ خداوندعالم نے حکم دیا کہ مسجد کو پاک رکھو،سوائے اپنے اور ہارون کے کوئی اور اس میں سکونت اختیار نہ کرے ، اور یہاں پر مسجد کو پاک رکھنا صرف ظاہری نجاست سے پاک رکھنا مقصود نہیں ہے چونکہ یہ تو ہرمسجد کے لیے حکم ہے ۔

اس سے پہلے بھی روایت بیان ہوچکی ہے کہ جس سے یہ مطلب صاف واضح ہوجاتاہے کہ امیرالمؤمنین حالت جنابت میں مسجد میں وارد ہوجاتے تھے ۔(۱)

____________________

(۱) یہ حدیث عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے ۔ نسائی نے الخصائص ۷۶ میں نقل کیا ہے ۔ اور اسی سے نقل ہوئی ہے فتح الباری :۷ ۱۳ میں اور نسائی کا کہنا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ و نیز کتاب السنة (ابن ابی عاصم ) ۵۸۹ میں بھی مذکور ہے ۔

۱۷۷

اوربعض اوقات جنب کی حالت میں مسجد سے عبور فرماتے تھے ۔(۱)

آپ حالت جنابت میں مسجد میں تشریف لاتے اور گذر جاتے ۔(۲) اور یہی مطلب اس حدیث کا ہے کہ جو ابوسعید خدری سے نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کسی شخص کے لیے بھی حلال و مناسب نہیں ہے کہ مسجد میں جنب ہو سوائے میرے اور اے علی تیرے۔(۳)

اور اسی سلسلے میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث :

'' الاان مسجدی حرام علی کل حائض من النساء و کل جنب من الرجال الا علیٰ محمد و اھل بیتہ علی و فاطمة و الحسن و الحسین''۔(۴)

____________________

(۱) مجمع الزوائد :۹ ۱۱۵۔ فتح الباری :۷ ۱۳۔ اور طبرانی نے معجم الکبیر :۲ ۲۴۶ میں ابراہیم بن نائلہ اصبہانی اور اس نے اسماعیل بن عمر و بجلی سے اور اس نے ناصح بن حرب سے اور اس نے جابر بن سمرہ سے روایت کی ہے ۔

(۲) یہ تمام روایات اہل سنت کے یہاں سے ہیں اگر چہ شیعہ مذہب میں بھی اس طرح کی متعدد روایات موجود ہیں کہ جن کا مطلب یہ ہے کہ واقعہ سد الابواب اور آیہ تطہیر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ علی اور معصومین علیہم السلام ہر حال میں طیب و طاہر اور پاک و پاکیزہ ہیں ، جنابت و غیر جنابت ا ن کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔(م)

(۳) سنن ترمذی :۵ ۳۰۳،حدیث ۳۸۱۔ السنن الکبری(البیہقی ): ۷ ۶۶۔

(۴) السنن الکبری (بیہقی ) :۷ ۶۶۔ سبل الھدی و الرشاد :۱۰ ۴۲۳۔ تفسیر ثعلبی :۳ ۳۱۳۔ تلخیص التحبیر : ۳ ۱۳۶۔ اور دیکھیے : تاریخ دمشق : ۱۴ ۱۶۶۔ ذکر اخبار اصبہان:۱ ۱۹۱۔ کنزالعمال :۱۲ ۱۰۱،حدیث ۳۴۱۸۳۔

۱۷۸

آگاہ ہوجائو بیشک میری مسجد ، حائض عورت اور جنب مرد پر حرام ہے سوائے محمد اور آپ کے اہل بیت کے کہ وہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین ہیں۔(۱)

لہذا تطہیر ، پاک ہونا ، اہل بیت علیہم السلام کے لیے ممتاز ترین وعالی ترین مرتبہ ہے اور یہ مطلب بھی واضح ہوجاتاہے کہ وہ حضرات ایک نور سے خلق ہوئے ہیں کوئی بھی شیٔ ان کے سامنے قابل قیاس نہیں ہے ۔

ابھی تھوڑا پہلے گذرچکا ہے کہ وہ حضرات پاک و پاکیزہ ماؤوں کے رحم اور پاک و طاہر صلبوں میں منتقل ہوتے رہے اور آپ حضرات کی جدہ خدیجہ زمانہ جاہلیت میں بھی طاہرہ و پاکدامن کہلاتی تھیں۔(۲)

یہی وجہ ہے کہ معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اورغسل نہیں دے سکتا ، روایات میں مذکورہے کہ حضرت امام موسی بن جعفر نے فرمایا کہ مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ علی کا ارشاد ہے کہ جب میں نے رسول خدا کا وصیت نامہ پڑھا تو دیکھا کہ اس میں تحریر ہے کہ اے علی مجھے آپ ہی غسل دینا اور آپ کے علاوہ مجھے کوئی اور غسل نہ دے ،میں نے سوال کیا اے رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں کیا میں تنہا آپ کو غسل دے سکتا ہوں ؟ کیا میرے اندر اتنی طاقت ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ جبرئیل کا پیغام ہے کہ جس کو خداوندعالم نے حکم دیا ہے ۔

____________________

(۱) الغدیر :۳ ۲۱۰ـ۲۱۲۔

(۲) مجمع الزوائد :۹ ۲۱۸۔فتح الباری :۷ ۱۰۰۔ المعجم الکبیر :۲۲ ۴۴۸۔ اسدالغابہ :۵ ۴۳۴۔ تاریخ دمشق :۳ ۱۳۱۔ البدایة والنھایة ۳۲۹۔ السیرة النبویة (ابن کثیر) :۴ ۶۰۸۔

۱۷۹

میں نے سوال کیا : اگر میں تنہا آپ کو غسل نہ دے سکا توکیا اپنے علاوہ کسی ایسے کو جو ہم ہی میں سے ہے غسل میں مدد کے لیے بلا سکتاہوں ؟ توآپ نے فرمایا کہ جبرئیل نے کہا ہے کہ علی سے کہیں کہ آپ کے پروردگارکا حکم ہے کہ اپنے چچا زاد بھائی محمد کو غسل دو چونکہ یہ سنت الٰہیہ ہے کہ انبیاء کو اوصیاء کے علاوہ کوئی غسل نہیں دیتا اور ہر نبی کو اس کے بعد والاوصی غسل دیتا ہے۔اور یہ امت پر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے حجت خدا ہے اس بات پر کہ جو انہوں نے مشیت خدا کے خلاف اجماع کر رکھا ہے۔

اے علی جان لو کہ میرے غسل میں آپ کی مددگار وہ ہستیاں ہیں کہ جو بہترین بھائی اور مددگار ہیں ۔

علی نے سوال کیا اے رسول خدا ،وہ کون ہیں ؟آپ پر میرے ماں باپ فداہوں تو آپ نے فرمایا : وہ جبرئیل و میکائیل و اسرافیل اور ملک الموت اور اسماعیل صاحب آسمان دنیا ہیں کہ جو آپ کی مدد کریں گے ۔

پس علی نے کہا کہ میں خدا کے حضور سجدہ میں گرگیا اور عرض کی خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے ایسے بھائی و مددگار میرے لیے معین فرمائے کہ جو خدا کے امین ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) بحارالانوار : ۲۲ ۴۵۶،حدیث ۶۴۔(بنقل از طرائف ابن طائوس ، متن روایت اسی کتاب سے ہے ) ۔ الصراط المستقیم : ۲ ۹۴، حدیث ۱۴۔ اور دیکھیے :ـ کنزالعمال :۷ ۲۴۹، حدیث ۱۸۷۸۰۔ تاریخ دمشق :۱۳ ۱۲۹۔ سمط النجوم العوالی :۳ ۴۱، حدیث ۴۵۔

۱۸۰