"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 48100
ڈاؤنلوڈ: 5555

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48100 / ڈاؤنلوڈ: 5555
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور یہ خود امیر المؤمنین کا ارشاد گرامی ہے کہ :

'' اس وقت کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی روح قبض ہوئی آپ کا سرمبارک میری آغوش میں تھا اور پھر میرے سر آپ کے غسل کی ذمہ داری پڑگئی کہ مقرب فرشتے میرے ساتھ آپ کے جنازے کو الٹتے پلٹتے تھے اور خدا کی قسم کسی بھی پیغمبرکے بعد اس کی امت میں اختلاف نہ ہوا مگر یہ کہ اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب ہوئے اور خداجو چاہتا ہے کرتا ہے۔(۱)

نیز امیرالمؤمنین نے فرمایا :

''رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وص یت فرمائی کہ میرے علاوہ کوئی ان کو غسل نہ دے چونکہ جو کوئی بھی شرم گاہ کو دیکھے گا اس کی دونوں آنکھیں اندھی ہوجائیں گی ،پس عباس اور اسامہ پردے کے پیچھے سے پانی پہنچا رہے تھے اور میں بدن کے جس حصہ کو بھی پکڑتا تو محسوس کرتا کہ گویا کوئی تیس افراد میرے ساتھ اس حصے کو پکڑے ہوئے الٹ پلٹ کررہے ہیں یہاں تک کہ میں غسل سے فارغ ہوا ''۔(۲)

____________________

(۱) کتاب صفین (منقری) ۲۲۴۔ جمھرة خطب العرب :۱ ۳۴۶۔ شرح نہج البلاغہ :۵ ۱۸۱۔ امالی مفید ۲۳۵۔

جس چیز کی امیرالمؤمنین نے خبر دی ہے یہی چیز معاویہ کی زبان پر بھی جاری ہوئی ، شعبی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا کہ جب معاویہ کے ہاتھ پر بعیت ہورہی تھی تو اس نے خطبہ دیا اور کہا کہ کسی بھی امت میں اپنے پیغمبر کے بعد اختلا ف نہیں ہوا مگریہ کہ اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب ہوئے اور اس کے بعد معاویہ کو اپنے کہے پر پشیمانی ہوئی لہذا کہا سوائے اس امت کے کہ بیشک۔۔۔(مقاتل الطالبین ۴۵۔ سبل الھدی والرشاد:۱۰ ۳۶۴) ۔

(۲) طبقات ابن سعد :۲ ۲۷۸۔ مجمع الزوائد: ۹ ۳۶۔ کنزالعمال :۷ ۲۵۰، حدیث۱۸۷۸۴۔

۱۸۱

اسی طرح کی حدیث آپ کے احتجاجات میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا :

''آپ کو میں خدا کی قسم دیتاہوں کیاآپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ رسول خدا کی آنکھیں بند کی ہوں، سب نے کہا نہ خداکی قسم،پھر آپ نے فرمایا تمہیں میں خدا کی قسم دیتاہوں کیا آپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو غسل دیا ہوکہ جو میری خواہش کے مطابق پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدن کو پلٹا رہے تھے ۔ سب نے کہا : نہ ''۔(۱)

مفضل ابن عمر نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

''فاطمة صدیقة لم یکن یغسلها الاصدیق'' (۲)

فاطمہ، صدیقہ ہیں ان کو صدیق کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا ۔

ان مذکورہ تمام احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر طرح کی پلیدگی ، گندگی ، آلودگی و نجاست سے تطہیر اور پاک و پاکیزہ ہونا ، صدیقیت کی واضح ترین علامت ہے اور چونکہ جھوٹ ، رجس و پلیدگی کا جزء ہے جب کہ صدیق، صادق و صدوق کا صیغہ مبالغہ ہے۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق :۴۲ ۴۳۳و۴۳۵۔ الطرائف ۴۱۳۔ شرح الاخبار :۲ ۱۸۹،حدیث ۵۲۹۔ مناقب خوارزمی ۳۱۵۔

(۲) اصول کافی :۱ ۴۵۹، باب مولد الزھرا، حدیث ۴۔ فروع کافی :۳ ۱۵۹،باب الرجل یغسل المرأ ة ،حدیث ۱۳۔ علل الشرایع:۱ ۱۸۴،باب العلة التی من اجلھا غسل فاطمة امیر المؤمنین لما توفیت ، حدیث ۱۳۔ تہذیب الاحکام :۱ ۴۴۰،حدیث ۱۴۲۲۔ الاستبصار :۱ ۲۰۰ ،حدیث ۱۵۷۰۳۔

۱۸۲

لہذا جھوٹ کبھی بھی صدیق تک نہیں آسکتا بلکہ صدیق کے لیے لازم ہے کہ پہلے مرحلے میں صادق، امین اور وعدہ وفادار ہو، تاکہ اپنے دوسرے مرحلہ میں صدیق کہلاسکے ۔

یہی وجہ ہے کہ آیت تطہیر میں اس مبالغہ کا خیال رکھا گیا ہے جیسے کلمہ ''انما''کہ کلمہ حصر ہے اور مفعول مطلق کو تاکید کے لیے لایا گیا''یطهر کم تطهیرا'' اور اس آیت کا نزول صرف محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین سلام اللہ علیہم اجمعین کے لیے ہے ۔(۱)

یہ اسی کی مانند ہے کہ جو حضرت مریم بنت عمران کے لیے قرآن کریم میں آیا ہے:

٭( اصطفاک علی نساء العالمین ) (۲)

اے مریم خداوندعالم نے آپ کو تمام عالمین کی عورتوں پر چنا ۔

٭( و جعلناابن مریم و امه آیة ) (۳)

ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو آیت و نشانی قرار دیا۔

پس مریم بنت عمران اور فاطمہ بنت محمد ، تطہیر کے دو کامل نمونے ہیں ۔ خداوندکریم کا ارشاد گرامی ہے :

____________________

(۱) تفسیر الکشاف :۱ ۳۹۶۔ البرھان (زرکشی) :۲ ۱۹۷۔ اسباب النزول (نیشابوری) ۲۳۹۔ اور دیکھیے :ـ الدرالمنثور :۵ ۱۹۸۔(سیوطی نے اس روایت کو کئی طریقوں سے نقل کیا ہے )

(۲) سورہ آل عمران (۳)، آیت ۴۲۔

(۳) سورہ مؤمنون (۲۳)، آیت ۵۰۔

۱۸۳

( و مریم بنت عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا و صدقت بکلمات ربها و کتبه و کانت من القانتین ) (۱)

اور مریم بنت عمران کہ جس نے پاکدامنی اختیار کی تو ہم نے اپنی روح میں سے ان میں پھونکی اوروہ خدا کی کتب و کلمات کی تصدیق کرنے والی اور فرمانبردار تھیں ۔

اور اسی طرح کا کلام حضرت امام جعفر صادق سے نقل ہوا ہے آپ نے فرمایا : مریم بنت عمران نے پاکدامن زندگی گذاری اور ان کی مثال خداوندعالم نے حضرت فاطمہ کے لیے یہاں بیان فرمائی ہے ، اور پھر آپ نے فرمایا :

'' ان فاطمة احصنت فرجها فحرم الله ذریتها علی النار'' (۲) ب یشک فاطمہ پاکدامن رہیں پس خداوندعالم نے ان کی ذریت و نسل پر جہنم کی آگ کو حرام کردیا ۔

____________________

(۱) سورہ تحریم(۶۶)، آیت ۱۲۔

(۲) تفسیر برہان :۴ ۳۵۸۔

۱۸۴

چہارم : ـ حنفیت و یکتا پرستی

چونکہ صدیقیت ایک الہٰی و ربانی مقا م ومرتبہ ہے لہذا صدیق کے لیے لازم ہے کہ اسلام سے پہلے ہی سے خداپرست ہو، بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوا ہو اور اسلام سے پہلے یکتا پرستی کے آئین و دین پر ہو یا اگر زمانہ اسلام میں پیدا ہوا ہو تو ابتداء ہی سے مسلمان ہو یعنی صدیق کا اسلام اصلی ہو ، اور اس کے یہاں کفر و شرک نہ پایا جائے ۔

۱۸۵

یہ بات واضح ہے کہ امیرالمؤمنین ایک ایسے فرد ہیں کہ جنہوںنے کبھی بتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اس بات میں کسی کو بھی شک و شبہہ نہیں ہے ، چونکہ اہل سنت کے درمیان بھی صرف امام علی ہی ہیں کہ جن کو رضی اللہ عنہ (خدا ان سے راضی ہو) کے بجائے کرم اللہ وجہہ (خدا نے ان کے چہرے کو مکرم و مقدس رکھا) کہا جاتا ہے اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے شخص ہیں ، انہوں نے دوسروں سے سات یانو سال پہلے خداوندعالم کی عبادت شروع کی ، یہی حال حضرت فاطمہ زہرا کا ہے کہ آپ زمانہ اسلام میں متولد ہوئیں اور لمحہ بھر کے لیے بھی شرک نہ کیا ۔

لیکن ابوبکر زمانہ جاہلیت میں بتوں کی پوجا اور پرستش کرتے تھے اور اس زمانے کے مشرکوں میں سے تھے ، اور ان لوگوں میں سے تھے کہ اسلام کے بعد بھی کچھ ایسے کارنامے انجام دیئے کہ جن پر اکثر لوگوں نے اعتراض کیے اور انگلیاں اٹھائیں۔(۱)

اسی سلسلے میں چند احادیث قابل ملاحظہ ہیں

حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں :''فانی ولدت علی الفطرة و سبقت علی الایمان والهجرة ''(۲) م یں فطرت اسلام پر پیدا ہوا اور میں نے ایمان اور ہجرت میںسب پر سبقت کی ۔

____________________

(۱) دیکھیے :ـ احکام القرآن (جصاص ) :۱ ۳۹۸۔ جصاص کا بیان ہے کہ قمار کے حرام ہونے میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور شرط بندی قمار ہی کے اقسام میں سے ہے ۔۔۔ اور پھر کہتاہے کہ ابوبکر نے مشرکوں کے ساتھ شرط بندی کی جب کہ یہ آیت نازل ہوئی (الم٭ غلبت الروم) سورہ روم ،آیت ۱ـ۲۔

(۲) نہج البلاغہ :۱ ۱۰۶، خطبہ ۵۷۔ وسائل الشیعہ :۱۶ ۲۲۸،حدیث ۴۱۴۳۱۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ): ۴ ۱۱۴۔ مناقب ابن شہر آشوب : ۲ ۱۰۷۔ بحار الانوار :۴۱ ۳۱۷۔

۱۸۶

حضرت امام جعفر صادق سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا : علی ابن ابی طالب نے لوگوں سے اپنے مقام و مرتبہ کا شکوہ کیا اور فرمایا : میں رسول خدا کا بھائی اور ان کا وزیر ہوں اور آپ جانتے ہوکہ میں خدا اور رسول پر سب سے پہلے ایمان لایا ہوں اور پھر آپ لوگ گروہ گروہ اسلام لائے ہو ۔(۱)

اور خود ہی آپ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں اس امت میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا کہ جس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد میرے علاوہ خدا کی عبادت کی ہو ۔ میں نے نوسال پہلے خداوندعالم کی عبادت کی جب کہ کوئی بھی اس امت میں اس کی عبادت نہیں کرتا تھا ۔(۲)

اور دوسری روایت میںآیاہے کہ پانچ یاسات سال پہلے ۔(۳)

اور نیز امام علی نے فرمایا : میں نے اس طرح رسول خدا کے ساتھ نماز انجام دی کہ میرے علاوہ ان کے ساتھ کسی نے بھی نماز نہ پڑھی سوائے خدیجہ کے ۔(۴)

____________________

(۱)المناقب(ابن مغازلی)۱۱۱،حدیث۱۵۴۔کشف الغمہ:۷۸۱۔بحارالانوار:۳۸ ۳۳۰۔

(۲) الخصائص (نسائی ) ۴۷۔

(۳) تاریخ دمشق :۴۲ ۳۰۔ مسند ابی یعلی موصلی :۱ ۳۴۸، حدیث ۴۴۷۔ اسد الغابہ : ۴ ۱۷۔ القول المسدد فی مسند احمد ۶۴۔ الآحاد والمثانی :۱ ۱۴۸، حدیث ۱۷۸۔ مسند احمد :۱ ۹۹۔ کنزالعمال :۱۳ ۴۲، حدیث ۳۶۳۹۰۔ سمط النجوم العوالی :۳ ۲۸، حدیث ۶۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۰۲۔ کشف الغمہ :۱ ۸۰۔ بحارالانوار :۳۸ ۲۵۷۔ الکامل فی التاریخ :۱ ۵۸۲۔

(۴) الاستیعاب :۳ ۱۰۹۶۔ ۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید):۴ ۱۲۰۔

۱۸۷

ابو ایوب انصاری سے نقل ہوا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : فرشتوں نے سات سال مجھ پر اور علی پر دردو بھیجا چونکہ ہم نماز پڑھتے تھے اور ہمارے علاوہ کوئی اور نہ تھا کہ جو ہمارے ساتھ نماز بجالاتا ۔(۱)

انس سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سات سال مجھ پر اور علی پر فرشتوں نے صلوات و درود بھیجا اور خداوندعالم کی یکتائی و توحید کی گواہی زمین سے آسمان تک نہ گئی سوائے میری اور علی کی زبان سے۔(۲)

ابوذر سے روایت ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : فرشتوں نے مجھ پر اور علی پر سات سال تک درود و صلوات بھیجی اس سے پہلے کہ کوئی انسان اسلام لے کر آتا ۔(۳)

اور خود امیر المؤمنین ہی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : آغاز وحی ونبوت پیر کے دن سے ہوا او ر میں نے منگل کی صبح میں اسلام کا اظہار کیا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز پڑھتے اور میں ان کے دا ہنی طرف نماز بجالاتا اور کوئی بھی میرے علا وہ ہمراہ نہ ہوتا پھر خداوندعالم کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی

____________________

(۱) تاریخ دمشق :۴۲ ۳۹۔ اسدالغابہ :۴ ۱۸۔ مناقب کوفی :۱ ۲۳۸، حدیث ۳۲۹۹۸۔ روضة الواعظین ۸۵۔ شرح الاخبار :۲ ۴۰۹، حدیث ۷۵۵۔

(۲) الفصول المختارہ ۲۶۶۔ اعلام الوری :۱ ۳۶۱۔ کنزالفوائد ۱۲۵۔

(۳) شواہد التنزیل :۲ ۱۸۴، حدیث ۸۱۸۔ کنزالعمال :۱۱ ۶۱۶، حدیث ۳۲۹۸۹۔ کنزالفوائد ۱۲۰۔ مناقب ابن شہر آشوب :۱ ۲۹۱۔

۱۸۸

(اصحاب الیمین )(۱) اور داہنی طرف کے اصحاب ۔(۲)

اور آپ ہی کا کلام ہے کہ فرمایا : خدایا میں پہلا وہ شخص ہوں کہ جو تیرے حضور حاضر ہوا ، تیری دعوت کو سنا اور قبول کیا کسی نے بھی نماز میں مجھ پر سبقت نہ لی سوائے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ۔(۳)

اور فرمایا: خدایا میں اس امت میں سے کسی ایسے بندے کو نہیں جانتا کہ جس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ مجھ سے پہلے تیری عبادت کی ہو ، اور پھر فرمایا: میںنے اس سے پہلے کہ کوئی نماز پڑھتا سات سال نماز پڑھی ۔(۴)

اورآپ نے اہل کوفہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

اے اہل کوفہ آپ کوآنے والے حوادث و واقعات سے خبر دار کرتاہوں تاکہ آپ لوگ ڈرتے رہو اورآمادہ رہو ، نصیحت قبول کرنے والوں کو سمجھاؤ، گویا میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے درمیان یہ کہا جائے گا کہ علی جھوٹ بولتے ہیں جیسا کہ قریش نے یہ نامناسب نسبت اپنے سید و سردار حبیب خدا رحمت الہٰی حضرت محمد بن عبداللہ کو دی ۔

____________________

(۱) سورہ واقعہ (۵۶)، آیت ۲۷۔

(۲) شواہد التنزیل :۲ ۳۰۰ ،حدیث ۳۹۶(از جعفر جعفی )۔

(۳) نہج البلاغہ :۲ ۱۳، خطبہ ۱۳۱۔ شرخ نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):۸ ۲۶۳۔ النزاع و التخاصم ۴۳۔ اور دیکھیے :ـ امالی صدوق ۴۹۱۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۰۳۔ الاصابہ :۴ ۳۲۶، ترجمہ ۵۶۰۲۔ کشف الغمہ :۱ ۸۳۔

(۴) تاریخ دمشق :۴۲ ۳۲۔ مسند احمد :۱ ۹۹۔ کشف الغمہ :۱ ۸۱۔ نظم درر السمطین ۸۲۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۰۲۔ کنزالعمال :۳ ۱۲۲، حدیث ۳۶۳۹۱۔

۱۸۹

وائے ہوآپ پر، میں کس پر اور کس سے جھوٹ بولوں گا ، کیا خدا پر؟ میں تو سب سے پہلا فرد ہوں کہ جس نے اس کی عبادت کی اور اس کو واحد و یکتا جانا،اور کیا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ؟ جبکہ میں پہلا وہ شخص ہوںکہ جو ان پر ایمان لایا ، ان کی تصدیق کی اور ان کی مدد و نصرت کی ۔

اصلا ایسا نہیں ہے کہ میں جھوٹ بولوں لیکن مکاری و فریب کی زبان تمہیں بہکادے گی اور تم بے خبر رہوگے۔(۱)

____________________

(۱) ارشاد مفید:۱ ۲۷۹۔ احتجاج طبرسی :۱ ۲۵۵۔ بحارالانوار:۴۰ ۱۱۱۔

۱۹۰

پنجم :ـ علم و دانائی

علم، صدیق کے واسطے ضروریات واولیات میں سے ہے جو شخص علم وآگاہی نہ رکھتا ہو اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے تمام امور اور نظریات و آراء میں صدیق ہو ، اور اس علم سے مراد علم الہٰی ہے یعنی علم لدنی و علم وہبی ۔

اس علم الہٰی کا لازمہ یہ ہے کہ جس شخص کے پاس یہ علم ہو وہ دل و جان سے اور عقیدہ و اعتقاد کی بنیاد پر رسالت آسمانی اور غیب پر ایمان و یقین رکھتا ہے ، نہ یہ کہ صرف زبان اور ظاہری احساسات کی بناپر اقرار کرے ۔

لہذا صدیقیت کسی بھی شخص کی معرفت و عرفان کی بلندی کی حیثیت سے مربوط ہے ، جتنا زیادہ اس کا علم و عرفان ہوگا تو اس کی تصدیق بھی پروردگار عالم کے متعلق اتنی ہی زیادہ اور یقینی ہوگی

۱۹۱

جب کہ واضح ہے کہ ابوبکر ، فرمایشات رسول خدا کے بھی عالم نہ تھے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اکثر مسائل میں یہ صحابہ سے سوال کرتے تھے اور بہت زیادہ مقامات ایسے ہیں کہ خطا ء و غلطی کرجاتے تھے ،کوئی ایسا فتوی دے دیتے کہ دوسرے صحابہ ان سے اختلاف کرنے لگتے ۔(۱)

لیکن حضرت علی کے متعلق ایسا نہیں ہے بلکہ قضیہ بر عکس ہے کہ تمام عالم اسلام ابتداء سے آج تک علی کے علم و حکمت اور قضاوت کی گواہی دیتے ہیں ۔

حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا:

'' انا مدینة العلم وعلی بابها فمن اراد المدینة فلیأت الباب '' (۲)

میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کادروازہ ہیں ،پس جو شہر میں آنا چاہے اس کو چاہیے کہ دروازے سے آئے ۔

اور رافعی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''علی عیبة علمی ''(۳) عل ی میرے علم کے خزانے ہیں ۔

____________________

(۱) اس سلسلے میں اور زیادہ معلومات کے لیے مؤلف کی کتب ''منع تدوین الحدیث'' اور ''تاریخ الحدیث النبوی '' میں مراجعہ کیا جائے ۔

(۲) مستدرک حاکم:۳ ۱۲۶۔ المعجم الکبیر :۱۱ ۵۵۔

(۳) التدوین فی اخبار قزوین ۸۹(بہ نقل از ابن عباس)۔ کنزالعمال :۱۱ ۶۰۲، حدیث ۳۲۹۱۱۔(بہ طریق دیگر)۔

۱۹۲

ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ عبد الرحمن بن بہمان سے راویت کی ہے اس نے کہا کہ میں نے جابر کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول خدا روز حدیبیہ علی کے بازو پکڑے ہوئے فرمارہے تھے : '' ھذا امیر البررة وقاتل الفجرة ، منصور من نصرہ مخذول من خذلہ ''

یہ علی نیک و صالحین کا امیر اور فساق و فجار کا قاتل ہے جو شخص اس کی مدد کرے اس کی خدا کی جانب سے مدد ہوگی ، جو اس کو چھوڑدے ا ور پست سمجھے وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔

اس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باآواز بلند فرما یا : '' میں علم کا شہرہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں اور جو بھی شہر میں داخل ہونا چاہے اس کو چاہیے وہ دروازے سے آئے ۔(۱)

متقی ہندی نے ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا :

'' حکمت کی دس قسمیں ہیںکہ جن میں سے ۹ عل ی کے پاس ہیں اور ایک حصہ تمام لوگوں کے پاس ہے۔ اور اس ایک حصے میں بھی علی ان سب سے زیادہ عالم ہے'' ۔(۲)

ابن عساکرنے اپنی اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں تھا کہ علی کے بارے میں آنحضرت سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : حکمت کے دس حصے ہیں کہ جن میں سے نو علی کے پاس اور ایک حصہ تمام لوگوں کے پاس ہے ۔(۳)

____________________

(۱) تاریخ مدینة دمشق :۴۲ ۲۲۶و ۳۸۳(ترجمہ امام علی ابن ابی طالب )۔

(۲) کنزالعمال :۱۱ ۶۱۵، حدیث ۳۲۹۸۲۔ و جلد :۱۳ ۱۴۶، حدیث ۳۶۴۶۱۔ فیض القدیر :۳ ۶۰، حدیث ۲۷۰۴۔

(۳) تاریخ مدینة دمشق : ۴۲ ۳۸۴۔ مناقب خوارزمی ۸۲۔

۱۹۳

خطیب بغدادی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا مدینة الحکمة و علی بابها فمن اراد الحکمة فلیات الباب '' (۱)

میں حکمت کا شہرہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں پس جوبھی حکمت چاہے اس کو چاہیے کہ دروازے سے آئے۔

دوری نے تاریخ ابن معین میں اپنی اسناد کے ساتھ سعید بن مسیب سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ میں کوئی بھی سوائے علی ابن ابی طالب کے یہ دعوی نہیں کرتا کہ جوچاہو مجھ سے پوچھ لو ۔(۲)

خوارزمی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوالبختری سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے علی کو دیکھا کہ رسول خدا کی تلوار حمائل کیے ہوئے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمامہ اپنے سر پر باندھے ہوئے

____________________

(۱) تاریخ بغداد:۱۱ ۲۰۴، ترجمہ۵۹۰۸۔

(۲) تاریخ ابن معین :۱ ۱۰۶۔(دوری کہتاہے ہم سے یحی ابن معین نے نقل کیا کہ اس نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے اس سے یحی بن سعید نے اس سے سعید بن مسیب نے )۔ مناقب خوارزمی ۹۱۔ اسدالغابہ :۴ ۲۲۔ ذخائر العقبی ۸۳۔

اس حدیث کو احمد نے مناقب میں اور بغوی نے المعجم میں اس عبارت کے ساتھ نقل کیا ہے کہماکان احد من الناس یقول سلونی غیر علی ابن ابی طالب ، لوگوں میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے سوال کرو سوائے علی ابن ابی طالب کے ۔

۱۹۴

اور آپ کی انگشتر مبارک پہنے ہوئے منبر پر تشریف فرماہیں اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں :

'' سلونی قبل ان تفقدونی ،فانما بین الجوانح منی علم جم، هذا سقط العلم ! هذا لعاب رسول الله ! هذا ما زقنی رسول الله زقا من غیر وحی اوحی الی ، فوالله لو ثنیت لی وسادة فجلست علیها ، لافتیت اهل التوراة بتوراتهم و اهل الانجیل بانجیلهم ، حتی ینطق الله التوراة والانجیل فیقول : صدق علی قد افتاکم بما انزل فی ، وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون '' (۱)

مجھ سے جوسوال کرنا چاہو سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ۔بیشک میرے پہلووں کے درمیان بہت زیادہ علم ہے یہ علم کی سبیل اور جام ہے ، یہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لعاب دہن ہے ، یہ وہ چیز ہے کہ جو رسول خدا نے مجھے اس طرح عطا کی کہ جس طرح پرندہ اپنے بچے کے پوٹے کو دانے سے بھرتا ہے ۔ بغیر اس کے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہو، خداکی قسم اگر میرے لیے مسند قضاوت بچھادی جائے کہ میں اس پر بیٹھ کر فیصلے کروں تو اہل توریت کے لیے ان کی توریت سے اور اہل انجیل کے لیے ان کی انجیل سے اس طرح فتوے دوںگا کہ خداوندعالم توریت و انجیل کو زبان عطا فرمائے گا اور وہ کہیں گی کہ علی نے سچ کہا ہے اور جو کچھ ہم میں نازل ہوا اسی طرح فتوی دیا ہے اور جب کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو تو کیا غور وفکر نہیں کرتے ۔

____________________

(۱) المناقب ۹۱۔ اور دیکھیے :ـ امالی صدوق ۴۲۲۔ اختصاص مفید ۲۳۵۔ احتجاج طبرسی :۱ ۳۴۴۔ (بہ نقل از اصبغ ابن نباتہ )۔

۱۹۵

ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ زکریا سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے عامر شعبی کو کہتے سنا کہ ابن کوّا نے علی سے سوال کیا : مخلوقات الہٰی میں کون سی چیز سب سے زیادہ سخت ہے ، آپ نے فرمایا :''اشد خلق ربک عشرة : الجبال الرواسی ، الحدید تنحت به الجبال ، والنار تاکل الحدید ، والماء یطفی النار ، والسحاب المسخر بین السماء والارض، یعنی یحمل المائ، والریح تقل السحاب،والانسان یغلب الریح یعصمها بیده و یذهب حاحته ، السکر یغلب الانسان ، والنوم یغلب السکر، والهم یغلب النوم فاشدخلق ربکم الهم ۔(۱)

آپ کے پروردگار کی مخلوقات میں سب سے زیادہ سخت چیزیں دس ہیں :

بلند و بالا پہاڑ، اور لوہا پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے، آگ کہ جو کہ لوہے کو کھاجاتی ہے ، پانی کہ جو آگ کو بجھا دیتا ہے ، بادل کہ جو پانی کو آسمان و زمین کے درمیان اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں ، ہوا کہ جو بادلوں کو لیے پھرتی ہے ، اور انسان کہ جو ہوا پر غالب آجاتا ہے ، اس کو اپنے ہاتھ سے مسخر کرتا ہے اور اپنی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، نشہ انسان پر غالب آجاتا ہے ، نیند کہ جو نشہ پر غالب آجاتی ہے اور ہم و غم (فکر و پریشانی) کہ جو نیند پر غالب آجاتی ہے۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق : ۴۰۱۴۲۔ الغارات :۱۸۲۱۔ اس مدرک میں یعصمھا بیدہ کی جگہ پر یتقیھا بیدہ آیاہے ۔ اس روایت کوطبرانی نے المعجم الاوسط :۲۷۶۱ میں حارث سے اور اس نے علی سے نقل کیا ہے اور اس میں یعصھا کی جگہ پر یتقی الریح بیدہ آیاہے اور اس سے ھیثمی نے مجمع الزوائد : ۱۳۲۸میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔ کنزالعمال :۱۷۷۶،حدیث ۱۵۲۵۲۔

۱۹۶

پس آپ کے پروردگار کی مخلوقات میں سب سے زیادہ سخت ہم و غم اور فکر و پریشانی ہے ۔

خوارزمی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابی سعید خدری سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا : اقضی امتی علی ابن ابی طالب(۱) م یری امت میں سب سے بڑا قاضی علی ابن ابی طالب ہے ۔

ابن سعد نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوہریرہ ، ابن عباس اور سعید بن جبیر و عطا سے روایت نقل کی ہے کہ ان حضرات نے کہا کہ عمر کا قول ہے ''علی اقضانا''(۲) ہمارے درم یان سب سے بڑا قاضی علی ہے ۔

احمد نے اپنی اسناد کے ساتھ ابو البختری سے اور اس نے علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خدا نے مجھے جوانی ہی کے عالم میں یمن میں حکومت کے لیے بھیجا ، میںنے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی مجھے ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں کہ جس کے درمیان مجھے قضاوت کرنا ہے جب کہ میں علم قضاوت سے کچھ نہیں جانتا پس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا : میرے قریب آؤ ، میں آپ کے پاس گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک کو م یرے سینے پر رکھا اور فرمایا : خدایا اس سینے کو کشادہ فرما اور اس کی زبان کو محفوظ رکھ۔

____________________

(۱) مناقب خوارزمی ۱۸۔ امالی صدوق ۶۴۲ (بنقل از سلمان فارسی)۔تاریخ دمشق : ۴۲ ۲۴۱ (بنقل از ابن عباس)۔

(۲) طبقات ابن سعد : ۲ ۳۳۹ـ ۳۴۰۔ اور دیکھیے : مسند احمد :۵ ۱۱۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ۷ ۱۸۳، حدیث ۳۔ مستدرک حاکم :۳ ۳۰۵۔ مناقب خوارزمی ۹۲۔ البدایة و النہایة : ۷ ۲۹۷۔

۱۹۷

علی نے فرمایا: اس وقت کے بعد سے میں نے کبھی قضاوت کے سلسلے میں دو شخصوں کے بارے میں بھی شک نہیں کیا اور کسی مسئلہ میں بھی مردد نہیں ہوا۔(۱)

ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ فرائض دین اور واجبات و محرمات الہٰی کے متعلق سب سے زیادہ عالم علی ابن ابی طالب ہیں ۔(۲)

اور ابن عبد البر نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا :''اقضاکم علی '' (۳) تم م یں سب سے بڑا قاضی علی ہے ۔

عبداللہ ابن عمر سے نقل ہوا ہے اس نے کہا ایک شخص ابوبکر کے پاس آیا اور کہا : کیا آپ کی نظر میں زنا مقدر اور تقدیر الہٰی میں ہے ؟ ابو بکر نے جواب دیا : ہاں، اس شخص نے کہا تو بس خداوندعالم نے میرے مقدر میں زنا لکھا ہے، پھر اس کو انجام دینے پر مجھ پر عذاب کرے گا ؟ ابوبکر نے کہا : ہاں ، اے لخناء کے بیٹے اگر میرے پاس کوئی ہوتا تو اس کو حکم دیتا کہ تیرے ناک کان کاٹ ڈالے ۔(۴)

____________________

(۱) دیکھیے : مسند احمد :۱ ۸۳۔ سنن ابن ماجہ :۲ ۷۷۴، حدیث ۲۳۱۰۔ مستدرک حاکم: ۳ ۱۳۵۔

(۲) تاریخ دمشق : ۴۲ ۴۰۵۔

(۳) الاستیعاب : ۱ ۶۸۔ اور دیکھیے : تفسیر قرطبی : ۱۵ ۱۶۲۔ مقدمہ ابن خلدون : ۱ ۱۹۷۔ جواہر المطالب (ابن دمشقی) :۱ ۷۶۔ غریب الحدیث (خطابی) : ۲ ۲۰۱۔

(۴) اس حدیث کو لالکائی نے اعتقاد اہل السنة : ۴ ۶۶۲، حدیث ۱۲۰۵ میں نقل کیا ہے اور اس سے کنزالعمال :۱ ۳۳۴، حدیث ۱۵۳۷ و تاریخ الخلفا ء :۱ ۹۵ میں منقول ہے ۔

۱۹۸

اس طرح کی باتیں ہمیں علی کے یہاں نہیں ملتیں بلکہ وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ جو سوال کرنا ہے مجھ سے سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ، چونکہ جو عالم ہوتاہے وہ سوال کرنے پر گھبراتانہیں ہے، بلکہ سوالات اس کو خوشحال کرتے ہیں ، اس شخص کے برعکس کہ جو مسائل شرعی سے واقف نہیں ہے اس کو آپ دیکھتے ہیں کہ سوالات سے ڈرتا ہے اور یہ حالت ابو بکر و عمر کے یہاں مشاہدہ کی جاسکتی ہے ۔

ابوعثمان نہدی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے بنی یربوع یا بنی تمیم خاندان سے (والذاریات)، (والمرسلات ) اور (والنازعات ) کے معنی اور تفسیر یا ان میں سے کسی ایک کے معنی یا تفسیر کے متعلق سوال کیا ۔

عمر نے کہا : اپنے سر سے عمامہ کو اتار اس نے سر سے عمامہ اتار لیا تو اس کے سر کے لمبے بال نظر آنے لگے ۔ عمر نے کہا: خدا کی قسم اگر تیرا سر منڈا ہوا ہوتا تو تیرا سر توڑ دیتا ۔

اس کے بعد اس کو ابوموسی اشعری کے پاس بھیجا اور اہل بصرہ کو لکھا،اور ہم سے بھی کہا کہ اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑدیں ، پس اگر ہم سو ( ۱۰۰)افراد ہوتے اور وہ ہمار ی طرف آتا تو سب آپس میں متفرق ہوجاتے اس شخص کا نام صبیغ بن عسیل تھا ۔(۱)

ابوبکر و عمر کی اس سیرت کے مقابل دیکھتے ہیں کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوطفیل سے روایت بیان کی ہے کہ اس نے کہا کہ میںنے امیرالمؤمنین علی کودیکھا کہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : پوچھو جو پوجھنا چاہواس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ۔

____________________

(۱) مسائل احمد :۱ ۴۷۸، حدیث ۸۱۔

۱۹۹

میرے بعد کوئی میری طرح جواب دینے والا نہیں پاؤ گے ۔پس ابن کوا کھڑا ہوا اور اس نے کہا اے امیر المؤمنین( والذاریات ذرواً ) (۱) کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا ہوائیں ۔ پھر اس نے سوال کیا( والحاملات وقراً ) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :بادل ۔ پھر اس نے سوال کیا( فالجاریات یسرا ) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :کشتیاں ۔

پھر اس نے سوال کیا( والمقسمات امراً) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ملائکہ ۔ پھر اس نے سوال کیا( الذین بدلوا نعمة الله کفراً واحلوا قومهم دار البوار جهنم ) (۲) ان لوگوں نے نعمت الہٰ ی کو کفر سے تبدیل کردیا اور اپنی قوم کے لیے ایک ہلاک ہونے والے گھر کا انتخاب کیا ۔وہ لوگ کون ہیں؟آپ نے فرمایا : منافقین قریش۔

حاکم کا بیا ن ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے ۔(۳)

____________________

(۱) سورہ ذاریات (۵۱) آیت ۱ـ۴

(۲) سورہ ابراہیم (۱۴) آیات ۲۸ـ۲۹۔

(۳) مستدرک حاکم :۲ ۴۶۷۔ اور دیکھیے اس کے طرق و اسانید کو عمدة القاری : ۱۹ ۱۹۰ میں تغلیق التعلیق ۳۱۸ـ ۳۱۹۔ کنزالعمال :۲ ۵۶۵،حدیث ۴۷۴۰۔ الاحادیث المختارہ :۱۲۴۲و ۱۷۶و ۲۹۸، حدیث ۴۹۴ و ۵۵۶ و۶۷۸۔ مسند شامی :۲ ۹۶ ، حدیث ۶۲۰۔ تاریخ دمشق : ۲۷ ۹۹۔ المعیار والموازنہ ۲۹۸۔ فتح الباری :۸ ۵۹۹۔ الغارات :۱ ۱۷۸۔ احتجاج طبرسی :۱ ۳۸۶۔ جواہر المطالب :۱ ۳۰۰ ۔ اور بعض مصادر میں حدیث طولانی ہے اور اس میں سوال زیادہ ہیں کہ جن کے امیر المؤمنین نے جواب دیے ہیں ۔

۲۰۰