"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

12%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49448 / ڈاؤنلوڈ: 6228
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

مجبور ہوئے اور یوں انہوں نے عمار کو چھوڑ دیا_ اس کے بعد وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس روتے ہوئے آئے اور عرض کیا '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ جب تک میں نے مجبور ہوکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا نہیں کہا اور ان کے معبودوں کی تعریف نہیں کی تب تک انہوں نے مجھے نہیں چھوڑا'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''اے عمار تیری قلبی کیفیت کیسی ہے؟'' عرض کیا ''یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میرا دل تو ایمان سے لبریز ہے''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''پس کوئی حرج نہیں بلکہ اگر وہ دوبارہ تمہیں مجبور کریں توتم پھر وہی کہو جو وہ چاہیں_ بے شک خدانے تیرے بارے میں یہ آیت نازل کی ہے( الا من اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) مگرجس پر جبر کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان سے لبریز ہو_(۱)

تقیہ کتاب وسنت کی روشنی میں

۱_حضرت عمار کا قصہ اور اس کے بارے میں آیات کا نزول، جان ومال کا خوف در پیش ہونے کی صورت میں تقیہ کے جواز کی دلیل ہے_

۲_علاوہ ازیں خدا کا یہ ارشاد بھی جواز تقیہ کی دلیل ہے( ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شی الا ان تتقوا منهم تقاة ) (۲) یعنی جو بھی ایسا کرے (یعنی کفار کو اپنا ولی بنائے) اس کاخدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں_(۳)

۳_نیز یہ آیت بھی تقیہ کو ثابت کرتی ہے( قال رجل مؤمن من آل فرعون یکتم ایمانه اتقتلون رجلا ان یقول ربی الله ) (۴) یعنی آل فرعون کے ایک شخص نے جو اپنے ایمان کو چھپائے رکھتا تھا کہا: ''کیا تم ایک شخص کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ خدائے واحد کا اقرار کرتا ہے''_ اس آیت کو منسوخ قرار دینا غلط اور بے دلیل ہے بلکہ اس کا منسوخ نہ ہونا ثابت ہے، جیساکہ جناب

___________________

۱_ سورہ نحل، آیت ۱۰۶ ، رجوع کریں: حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۴۰، تفسیر طبری ج ۴ ص ۱۱۲ اور حاشیہ پر تفسیر نیشاپوری اور بہت سی دیگر کتب_

۲_ سورہ آل عمران، آیت ۲۸_ ۳_ تقیہ کے متعلق مزید مطالعہ کے لئے: احکام القرآن جصاص ج۲ ص ۹ ، تقویة الایمان ص ۳۸ ، صحیح بخاری مطبوعہ میمنہ ج ۴ ص ۱۲۸ اور دیگر متعلقہ کتب ۴_ سورہ غافر، آیت ۲۸_

۶۱

یعقوب کلینی نے عبداللہ بن سلیمان سے نقل کیا ہے کہ سلیمان نے کہا:'' میں نے ابوجعفر (امام باقرعليه‌السلام ) سے سنا جبکہ آپ کے پاس عثمان اعمی نامی ایک بصری بیٹھا تھا ، جب اس نے کہا کہ حسن بصری کا قول ہے ''جو لوگ علم کو چھپاتے ہیں ان کے شکم کی ہوا سے اہل جہنم کواذیت ہوگی''_ تو آپ نے فرمایا:''اس صورت میں تو مومن آل فرعون تباہ ہوجائے گا، جب سے خدانے حضرت نوحعليه‌السلام کو مبعوث کیا علم مستور چلا آرہا ہے _حسن دائیں بائیں جس قدر چاہے پھرے خدا کی قسم علم سوائے یہاں کے کہیں اور پایا نہ جائے گا''_(۱) مذکورہ آیت سے امامعليه‌السلام کا استدلال اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے منسوخ نہ ہونے پرعلماء کا اتفاق تھا_رہی سنت نبوی تو اس سے ہم درج ذیل دلائل کا ذکر کریں گے_

سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تقیہ

۱_ جناب ابوذرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ حضور کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' عنقریب تمہارے اوپر ایسے حاکم مسلط ہوں گے جو نماز کا حلیہ بگاڑدیں گے_ اگر تم ان کے زمانے میں رہے تو تم اپنی نماز وقت پر پڑھتے رہو لیکن ان کے ساتھ بھی بطور نافلہ نماز پڑھ لیا کرو ...''(۲) اور اس سے ملتی جلتی دیگر احادیث(۳)

۲) مسیلمہ کذاب کے پاس دو آدمی لائے گئے اس نے ایک سے کہا :''کیاتم جانتے ہو کہ میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہوں''_ اس نے جواب دیا: '' اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ''_مسیلمہ نے اسے قتل کردیا پھر دوسرے سے کہا تو اس نے جواب دیا:'' تم اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دونوں اللہ کے نبی ہو ''_یہ سن کر مسلیمہ نے اسے چھوڑ دیا_ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' پہلا شخص اپنے عزم ویقین پر قائم رہا لیکن دوسرے نے اس راہ کو اختیار کیا جس کی خدا نے اجازت دی ہے پس اس پر کوئی عقاب نہیں''_(۴)

___________________

۱_ اصول کافی ص ۴۰،۴۱ (منشورات المکتبة الاسلامیة )نیز وسائل جلد ۱۸ص ۸_

۲_ مسند احمد ج ۵ ص ۱۵۹_

۳_ مسند احمد ج ۵ ص ۱۶۰، ۱۶۸_

۴_ محاضرات الادباء ، راغب اصفہانی ج ۴ص ۴۰۸اور ۴۰۹ ، احکام القرآن جصاص ج۲ ص ۱۰ اور سعد السعود ص ۱۳۷_

۶۲

۳) سہمی نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے روایت کی ہے''لا دین لمن لا ثقة له'' (۱) بظاہر یہاں لفظ ثقہ کی بجائے لفظ تقیہ مناسب اور درست ہے یعنی جو تقیہ نہیں کرتا وہ دین نہیں رکھتا جیساکہ شیعوں کی اہل بیتعليه‌السلام سے مروی روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں(۲) _

۴) حضرت عمار یاسر کا معروف واقعہ اور حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمار سے فرمانا کہ اگر وہ دوبارہ ایسا کریں تو تم بھی گذشتہ عمل کا تکرار کرو یہ بات احادیث وتفسیر کی مختلف کتابوں میں مذکور ہے اور اسی مناسبت سے آیت( من کفر بالله بعد ایمانه ، الاّ من اکره و قلبه مطمئن بالایمان ) (۳) نازل ہوئی تھی_

۵) نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بذات خود تقیہ فرمانا کیونکہ آپ تین یا پانچ سالوں تک خفیہ تبلیغ کرتے رہے جو سب کے نزدیک مسلمہ اور اجماعی ہے اور کسی کیلئے شک کی گنجائشے نہیں اگر چہ کہ ہم نے وہاں بتایا تھا کہ حقیقت امر صرف یہی نہیں تھا_

۶) اسلام کفار کو بعض حالات میں اجازت دیتا ہے کہ وہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دیں یا قتل ہونے کیلئے تیار ہوجائیں_ واضح ہے کہ یہ بھی تقیہ کی ترغیب ہے کیونکہ اس قسم کے حالات میں قبول اسلام جان کی حفاظت کیلئے ہی ہوسکتا ہے پختہ عقیدہ کی بناپر نہیں_اسلامی معاشرے میں اس امید کے ساتھ منافقین کو رہنے کی اجازت دینا اور ان کے ساتھ اسلامی بھائی چارے کے مطابق سلوک کرنا کہ وہ اسلام کے ساتھ تعاون کریں گے اور ان کے دلوں میں ایمان مستحکم ہوجائے گا بھی اسی طرح ہے _

۷) فتح خیبر کے موقع پر حجاج بن علاط نے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا :'' مکہ میں میرا کچھ مال اور رشتہ دار ہیں اور میں انہیں وہاں سے لے آنا چاہتا ہوں _ پس اگر مجھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا کہنا بھی پڑا تو کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت ہوگی؟'' تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے اجازت دے دی کہ جو کچھ کہے کہہ سکتا ہے(۴)

___________________

۱_ تاریخ جرجان ص ۲۰۱ _

۲_ ملاحظہ ہو : کافی (اصول) ج۲ ص ۲۱۷ مطبوعہ آخندی، وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۴۶۵اور میزان الحکمت ج۱۰ ص ۶۶۶ و ۶۶۷_

۳_ سورہ نمل آیت ۱۰۶اور ملاحظہ ہو فتح الباری ج۱۲ ص ۲۷۷ و ۲۷۸_

۴_ دراسات فی الکافی و الصحیح ص ۳۳۸ از سیرہ حلبیہ_

۶۳

تاریخ سے مثالیں

۱) ایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا: ''کیا میں حکام کو زکوة دوں''؟ ابن عمر نے کہا : ''اسے فقراء اورمساکین کے حوالے کرو'' راوی کہتا ہے کہ پس حسن نے مجھ سے کہا : ''کیا میں نے تجھ سے کہا نہیں تھا کہ جب ابن عمر خوف محسوس نہیں کرتا، تو کہتا ہے زکوة فقیروں اور مسکینوں کو دو''_(۱)

۲) علماء نے دعوی کیا ہے کہ انس بن مالک نے رکوع سے قبل قنوت والی حدیث کو اپنے زمانے کے بعض حکام سے تقیہ کی بناپر روایت کیا ہے(۲)

۳) عباس بن حسن نے اپنے محرروں اور خاص ندیموں سے مکتفی کے مرنے کے بعد خلافت کے اہل آدمی کے متعلق مشورہ لیا تو ابن فرات نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ ہر کسی سے علیحدگی میں مشورہ کرے تا کہ اس کی صحیح رائے معلوم ہوسکے دوسرے لوگوں کی موجودگی میں ہوسکتا ہے تقیہ کرتے ہوئے وہ اپنی رائے پیش نہ کرسکا ہو اور دوسروں کا ساتھ دیا ہو اس بات پر اس نے کہا : ''سچ کہتے ہو'' _ پھر اس نے ویسا ہی کیا جیسا ابن فرات نے کہا تھا(۳)

۴) بیعت عقبہ میں جناب رسول خدا اور جناب حمزہ نے تقیہ فرمایا تھا جس کے متعلق روایتیں علیحدہ فصل میں بیان ہوں گی_

۵) ایوب سے مروی ہے کہ میں جب بھی حسن سے زکوة کے بارے میں سوال کرتاتو کبھی وہ یہ کہتا حکام کو دے دو اور کبھی کہتا ان کو نہ دو_ مگر یہ کہا جائے کہ حسن کی جانب سے یہ تردید اس بارے میں شرعی مسئلہ کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے تھی(۴)

۶) محمد بن حنفیہ کے ایک خطبے میں یوں بیان ہوا ہے، امت سے جدا نہ ہونا ان لوگوں (بنی امیہ) سے تقیہ کے ذریعے سے بچتے رہو ، اور ان سے جنگ نہ کرو،راوی نے کہا :''ان سے تقیہ کرنے سے کیا مراد ہے؟'' کہا :''جب وہ بلائیں تو ان کے پاس حاضری دینا_یوں خدا تجھ سے نیز تیرے خون اور تیرے دین سے ان

___________________

۱_ المصنف عبدالرزاق ج ۴ص ۴۸ _

۲_ ملاحظہ ہو : المحلی ج۴ ص ۱۴۱_ ۳_ الوزراء صابی ص ۱۳۰_

۴_ مصدر سابق_

۶۴

کے شر کو دور رکھے گا اور تجھے خدا کے مال سے حصہ بھی ملے گا جس کے تم زیادہ حقدار ہو ''_(۱)

۷) مالک سے محمد بن عبداللہ بن حسن کے ساتھ خروج کرنے کے بارے میں سوال ہوا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ ہم نے ابوجعفر المنصور کی بیعت بھی کررکھی ہے مالک نے کہا :'' تم نے مجبوراً بیعت کی تھی اور جسے مجبور کیا جائے اسکی قسم (بیعت) کی کوئی حیثیت نہیں''(۲)

۸) قرطبی نے شافعی اور کوفیوں سے نقل کیا ہے کہ قتل کا خطرہ ہونے کی صورت میں تقیہ جائزہے_ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے_(۳)

۹) حذیفہ کی روایت ہے کہ ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خدمت میں تھے_ انہوں نے فرمایا: '' مجھے گن کربتاؤ اسلام کے کتنے ارکان ہیں؟'' حذیفہ کا کہنا ہے کہ ہم نے عرض کیا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہماری طرف سے کوئی پریشانی لاحق ہے؟ جبکہ ہم ابھی بھی چھ سوسے سات سو کے درمیان ہیں'' تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' تمہیں کیا خبر کل کلاں تم آزمائشے میں مبتلا ہوجاؤ'' حذیفہ کہتا ہے کہ بعد میں ہم ایسی سخت آزمائشے میں مبتلا ہوئے کہ حتی کہ ہم میں سے ہر کوئی چھپ کر نماز پڑھتا تھا_(۴) یہی حذیفہ حضرت علیعليه‌السلام کی بیعت کے صرف چالیس دن بعد فوت ہوا اور یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس بیعت سے قبل پچھلے دور میں مؤمنین سخت دباؤ کا شکار تھے_ جو لوگ شرعی حکومت پر قابض تھے وہ دین اور دینداروں کے خلاف اپنے دل میں پرانا کینہ رکھتے تھے اور جس چیز کا تھوڑا سا تعلق بھی دین کے ساتھ ہوتا تھا اس کا مذاق اڑایا کرتے اور اس کے خلاف محاذ آرائی کرتے تھے_

۱۰) تمام اہل حدیث اور ان کے بڑے بڑے علماء نے تقیہ کرتے ہوئے قرآن کے مخلوق ہونے کی تصدیق کی حالانکہ وہ اس کے قدیم ہونے کے قائل تھے فقط امام احمد بن حنبل اور محمد بن نوح نے انکار کیا(۵) بلکہ امام احمد نے بھی تقیہ کیا چنانچہ جب وہ پھندے کے پاس پہنچا تو کہا : ''میں کوئی بات زبان پر نہ

___________________

۱_ طبقات ابن سعد ج ۵ص ۷۰ _ ۲_ مقاتل الطالبین ص ۲۸۳نیز طبری ج ۳ص ۲۰۰ مطبوعہ یورپ_

۳_ تفسیر قرطبی ج ۱۰ص ۱۸۱ _ ۴_ صحیح مسلم ج ۱ ص ۹۱ _ صحیح بخاری مطبوعہ ۱۳۰۹ھ ج ۲ ص ۱۱۶و مسند احمد ج ۵ ص ۳۸۴_

۵_ تجارب الامم مطبوعہ ہمراہ العیون و الحدائق ص ۴۶۵ _

۶۵

لاؤںگا'' نیز جب حاکم وقت نے اس سے کہا:'' قرآن کے بارے میں کیا کہتے ہو'' تو جواب دیا: '' قرآن کلام الہی ہے'' پوچھا گیا ''کیا قرآن مخلوق ہے''؟ جواب دیا: ''میں بس اتنا کہتا ہوں کہ اللہ کا کلام ہے''_(۱) بلکہ یعقوبی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جب امام احمد سے اس بارے میں پوچھا گیا تو بولے : '' میں ایک انسان ہوں جس نے کچھ علم حاصل تو کیا ہے لیکن اس بارے میں مجھے کچھ علم نہیں ہے '' _اس مناظرے اور چند کوڑے کھانے کے بعد اسحق بن ابراہیم مناظرے کے لئے دوبارہ آیا اور اس سے کہا : '' اب کچھ باقی رہ گیا ہے جسے تو نہ جانتاہو؟''کہا : '' ہاں باقی ہے'' _ کہا : ' ' پس یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جنہیں تو نہیں جانتا_ حالانکہ امیر المؤمنین (حاکم وقت) نے تجھے اچھی طرح سکھا دیا ہے '' _ کہا : '' پھر میں بھی امیرالمؤمنین کے فرمان کا قائل ہوگیا ہوں '' پوچھا: '' قرآ ن کے مخلوق ہونے کے متعلق ؟'' کہا : '' جی ہاں خلق قرآن کے متعلق '' کہا : ''پھر یا د رکھنا'' پھر اسے آزاد کرکے گھر کو جانے دیا(۲) _

حالانکہ امام احمد خودکہتے ہیں کہ جو فقط یہ کہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اور مزید کچھ نہ کہے تو وہ واقفی اور ملعون ہے_(۳)

خوارج کے مقابلے میں ابن زبیر نے بھی تقیہ سے کام لیا(۴) اسی طرح شعبی اور مطرف بن عبداللہ نے حجاج سے تقیہ کیا اور عرباض بن ساریہ اور مؤمن الطاق نے بھی خوارج سے اور صعصعہ بن صوحان نے معاویہ سے تقیہ کیا(۵)

خلق قرآن کے مسئلے میں اسماعیل بن حماد اور ابن مدینی نے بھی تقیہ کیا، ابن مدینی قاضی ابو داؤد معتزلی کی مجلس میں حاضر رہتا اور اس کے پیچھے نماز پڑھتا تھا_ نیز احمد بن حنبل اور اس کے اصحاب کی حمایت کرتا تھا_(۶)

۱۱_ مدینہ پر بسربن ابی ارطاة کے غارتگرانہ حملہ کے موقع پر جابربن عبداللہ انصاری نے ام المومنین

___________________

۱_ تاریخ طبری ج ۷ص ۲۰۱نیز آثار جاحظ ص ۲۷۴و مذکرات الرمانی ص ۴۷_

۲_ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۴۷۲_ ۳_ بحوث مع اھل السنة و السلفیہ ص ۱۲۲،۱۲۳ از الرد علی الجھمیة (ابن حنبل) در کتاب الدومی ص۲۸ _

۴_ ملاحظہ ہو العقد الفرید ابن عبدربہ ج۲ ص ۳۹۳_ ۵_ العقد الفرید ج ۲ ص ۴۶۴ و ص ۴۶۵ اور ملاحظہ ہو : بہج الصباغہ ج ۷ ص ۱۲۱_

۶_ رجوع کریں لسان المیزان ج ۱ص ۳۳۹اور ۴۰۰متن اور حاشیہ ملاحظہ ہو_

۶۶

حضرت ام سلمہ کی خدمت میں شکایت کی :'' مجھے قتل ہونے کا خوف ہے اور یہ بیعت ایک گمراہ شخص کی بیعت ہے اس موقع پر میں کیا کروں''؟ تو انہوں نے فرمایا : '' اس صورت میں تم اس کی بیعت کرلو کیونکہ اصحاب کہف کو بھی اسی تقیہ نے صلیب پہننے اور دوسرے شہریوں کے ساتھ عید کی محفلوں میں شریک ہونے پر مجبور کردیا تھا''(۱)

۱۲_ حضرت امام حسنعليه‌السلام کے مسموم ہونے کے بعد جب اہل کوفہ نے حضرت امام حسینعليه‌السلام سے معاویہ کے خلاف قیام کرنے کا مطالبہ کیا تو آپعليه‌السلام نے ان کا مطالبہ مسترد کردیا_ البتہ اس معاملے میں آپ کے اور بھی اہداف تھے جو معاویہ کے خلاف پوری زندگی قیام نہ کرنے کے اپنے شہید بھائی کے موقف کے ہماہنگ تھے_ اس بارے میں ملاحظہ فرمائیں اخبار الطوال ص ۲۲۰تا۲۲۲_

۱۳_ حسن بصری کا قول ہے کہ تقیہ روز قیامت تک ہے_(۲)

۱۴_ بخاری کا کہنا ہے:'' جب کسی آدی کو اپنے ساتھی کے قتل و غیرہ کا ڈر ہو اور اس کے متعلق یہ قسم کھائے کہ یہ میرا بھائی ہے _ تو اس پر کوئی بھی حد یا قصاص و غیرہ نہیں ہے کیونکہ اس سے ظالم کے مقابلے میں اس کی حمایت کر رہا ہو تا ہے_ ظالم شخص اسے چھوڑکر قسم کھانے والے کے ساتھ جھگڑتا ہے جبکہ اسے کچھ نہیں کہتا_ اسی طرح اگر اس سے یہ کہا جائے کہ یا تو تم شراب پیو ، مردار کھاؤ ، اپنا غلام بیچو، قرض کا اقرار کرو یا کوئی چیز تحفہ دویا کوئی معاملہ ختم کردو و گر نہ تمہارے باپ یا تمہارے مسلمان بھائی کو قتل کردیں گے تو اسے ان چیزوں کے ارتکاب کی اجازت ہے ...'' یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :'' نخعی کا قول ہے کہ اگر قسم لینے والا ظالم ہے تو قسم اٹھانے والے کی نیت پر منحصر ہے اور اگر قسم لینے والا مظلوم ہے تو پھر اس کی نیت پر منحصر ہوگا ''(۳)

۱۵_ یہاں تک کہ مغیرہ بن شعبہ کا حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق عیب جوئی کے بارے میں یہ دعوی ہے کہ وہ تقیہ پر عمل کرتا تھا کیونکہ صعصعہ سے کہتا ہے:'' یہ بادشاہ ہمارے سروں پر مسلط ہوچکا ہے اور ہمیں لوگوں کے سامنے آپعليه‌السلام کی عیب جوئی کرنے پر مجبور کرتا ہے ، ہمیں بھی اکثر اوقات اس کی پیروی کرتے ہوئے ان لوگوں

___________________

۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۹۸_ ۲) صحیح بخاری ج ۴ ص ۱۲۸ مطبوعہ المیمنیہ_

۳) صحیح بخاری ج ۴ ص ۱۲۸ ، صحیح بخاری کی '' کتاب الاکراہ'' کا مطالعہ بہت مفید ہوگا کیونکہ اس میں تقیہ کے متعلق بہت مفید معلومات ہیں_

۶۷

کے شر سے دور رہنے کے لئے بطور تقیہ ایسی بات کہنی پڑتی ہے _ اگر تم حضرتعليه‌السلام کی فضیلت بیان کرنا بھی چاہتے ہو تو اپنے ساتھیوں کے درمیان اور اپنے گھروں میں چھپ کر کرو ...''(۱)

۱۶_ ابن سلام کہتا ہے :'' رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے نماز کو وقت پر پڑھنے کا اور پھر بطور نافلہ ان حکام کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا جو نماز کو تاخیر کے ساتھ پڑھتے ہیں''(۲)

۱۷_ خدری نے یہ تصریح کی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق اپنے موقف میں وہ تقیہ سے کام لیتا تھا_ تا کہ بنی امیہ سے اس کی جان بچی رہے اور اس نے آیت( ادفع بالتی هی احسن السیئة ) سے استدلال کیا ہے(۳) اسی طرح بیاضی کی '' الصراط المستقیم'' ج ۳ ص ۲۷ تا ۷۳ میں ایسے کوئی واقعات ذکر ہوئے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں_

بہرحال اس مسئلے کی تحقیق کیلئے کافی وقت کی ضرورت ہے یہاں جتنا عرض کیا گیا ہے شاید کافی ہو_

تقیہ ایک فطری، عقلی، دینی اور اخلاقی ضرورت

تقیہ کا جواز اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ اسلام ایک جامع اور لچک دار دین ہے اور ہر قسم کے حالات سے عہدہ برا ہوسکتا ہے_ اگر اسلام خشک اور غیرلچک دار ہوتا یااس میں نئے حالات وواقعات سے ہم آہنگ ہونے کی گنجائشے نہ ہوتی تو لازمی طورپر نت نئے واقعات سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتا _بنابریں خدانے تقیہ کو جائز قرار دیکر مشکل اور سنگین حالات میں اپنے مشن کی حفاظت اس مشن کے پاسبان (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کی حفاظت کے ذریعے کی_ اس کی بہترین مثال خفیہ تبلیغ کا وہ دور ہے جس میں حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب، بعثت کے ابتدائی دور سے گزرے_

جب دین کے لئے قربانی دینے کا نہ صرف کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ دین کے ایک وفادار سپاہی کو ضائع کرنے

___________________

۱_ تاریخ الامم و الملوک ج ۴ ص ۱۲_

۲_ تہذیب تاریخ دمش ج ۶ ص ۲۰۵_

۳_ سلیم بن قیس ص ۵۳ مطبوعہ مؤسسہ البعثة قم ایران_

۶۸

کی وجہ سے الٹا دین کا نقصان بھی ہو تو تب دین اسلام کے پاسبانوں کی حفاظت کے لئے دین میں لچک کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے _ یوں بہت سے موقعوں پر اسلام کی حفاظت اس کے ان وفادار اور نیک سپاہیوں کی حفاظت کے زیر سایہ ہوتی ہے جوبوقت ضرورت اس کی راہ میں قربانی دینے کیلئے آمادہ رہتے ہیں پس تقیہ کا اصول انہی لوگوں کی حفاظت کیلئے وضع ہوا ہے_

رہے دوسرے لوگ جنہیں اپنے سواکسی چیزکی فکر ہی نہیں ہوتی تو، تقیہ کے قانون کی موجودگی یا عدم موجودگی ان کیلئے مساوی ہے تقیہ اسلام کے محافظین کی حفاظت کیلئے ہے تاکہ اس طریقے سے خود اسلام کی حفاظت ہوسکے تقیہ نفاق یا شکست کا نام نہیں کیونکہ اسلام کے یہ محافظین تو ہمیشہ قربانی دینے کیلئے آمادہ رہتے ہیںاور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ معاویہ کے دورمیں خاموش رہنے والے حسینعليه‌السلام وہی حسینعليه‌السلام تھے جنہوں نے یزید کے خلاف اس نعرے کے ساتھ قیام کیا:

ان کان دین محمد لم یستقم

الا بقتلی فیا سیوف خذینی

یعنی اگر دین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصلاح میرے خون کے بغیر نہیں ہوسکتی ، تو اے تلوارو آؤ اور مجھے چھلنی کر دو_

پس جس طرح یہاں ان کا قیام دین اور حق کی حفاظت کے لئے تھا بالکل اسی طرح وہاں ان کی خاموشی بھی فقط دین اور حق کی حفاظت کے لئے تھی_ اس نکتے کے بارے میں ہم نے حلف الفضول کے واقعے میں گفتگو کی ہے_

یوں واضح ہوا کہ جب حق کی حفاظت کیلئے قربانی کی ضرورت ہوتو اسلام اس کو لازم قراردیتا ہے اوراس سے پہلوتہی کرنے والوں سے کوئی رو رعایت نہیں برتتا_

علاوہ برایں اگر اسلام کے قوانین خشک اورغیر لچک دار ہوں توبہت سے لوگ اس کو خیر باد کہہ دیں گے بلکہ اس کی طرف بالکل رخ ہی نہیں کریں گے_ وحشی وغیرہ کے قبول اسلام کے بارے میں ہم بیان کریں گے کہ بعض لوگ اسلئے مسلمان ہوتے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کو قتل نہیں کرتے _

بنابریں واضح ہے کہ اسلام کے اندر موجود اس نرمی اور لچک کی یہتوجیہ صحیح نہیں ہے کہ یہ قانون دین میں

۶۹

دی گئی ایک سہولت ہے تاکہ بعض لوگوں کیلئے قبول اسلام کوآسان بنایاجاسکے بلکہ اسے تو اسلام ومسلمین کی حفاظت کا باعث سمجھنا چاہئے بشرطیکہ اس سے اسلام کے اصولوں کو نقصان نہ پہنچتا ہو بلکہ ترک تقیہ کی صورت میں قوت اور وسائل کابے جا ضیاع ہوتا ہو اور یہی امر تقیہ اور نفاق کے درمیان فرق کا معیار ہے لیکن بعض لوگ تقیہ کو جائز سمجھنے والوں پر نفاق جیسے ناجائزاور ظالمانہ الزام لگانے میں لطف محسوس کرتے ہیں_

ایک دفعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس قبیلہ ثقیف کے افراد آئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ کچھ مدت کیلئے ان کو بتوں کی پوجا کرنے کی اجازت دی جائے نیز ان پر نماز فرض نہ کی جائے (کیونکہ وہ اسے اپنے لئے گراں سمجھتے تھے) اس کے علاوہ انہیں اپنے ہاتھوں سے بت توڑنے کا حکم نہ دیاجائے تو اسی معیار کی بناپریہاں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضورنے آخری بات تو مان لی لیکن پہلی دو باتوں کو رد کردیا_(۱) اسی طرح انہوں نے یہ درخواست بھی کی تھی کہ انہیں زنا، شراب سود اور ترک نماز کی اجازت دی جائے(۲) انہیں بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے رد کردیااور اس بات کا لحاظ نہ کیا کہ یہ قبیلہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے اسلام کو تقویت ملے گی اور دشمن کمزور ہوں گے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو جنہوں نے سال ہا سال بتوں کی پوجا کی تھی مزید ایک سال تک بت پرستی کی مہلت کیوں نہ دی؟ جس کے نتیجے میں وہ اسلام سے آشنا اور قریب ترہوجاتے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کا مطالبہ ٹھکرادیا حتی کہ ایک لمحے کیلئے بھی آپ نے ان کو اس بات کی اجازت نہ دی، کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر جائز وناجائز وسیلے سے اپنے اہداف تک پہنچنے کے قائل نہ تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسیلے کو بھی ہدف کاایک حصہ سمجھتے تھے جیساکہ ہم ذکر کرچکے ہیں_

___________________

۱_ یہاں سے پتہ چلا کہ ''جبلہ ابن ایھم'' سے قصاص لینے پر اصرار میں عمر کی پالیسی کامیاب نہ تھی_ کیونکہ وہ تازہ مسلمان ہوا تھا اور اپنی قوم کا حاکم تھا_ اس نے ابھی اسلام کی عظمت اور ممتاز خوبیوں کو نہیں سمجھا تھا_ حضرت عمر کو چاہئے تھا کہ وہ صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر اس مسئلے کو کسی آسان تر طریقے سے حل کرتے_

۲_ سیرہ نبویہ دحلان ( حاشیہ سیرہ حلبیہ پر مطبوع) ج۳ ص ۱۱ ، المواہب اللدنیہ ج۱ ص ۲۳۶ ، تاریخ الخمیس ج ۲ ص ۱۳۵ تا ۱۳۷ اور ترک نماز کے متعلق ملاحظہ ہو : الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۲۸۴ ، اسی طرح سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۴ ص ۱۸۵ ، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۴ ص ۵۶ اور البدایہ والنہایہ ج۵ ص ۳۰_

۷۰

لیکن اس کے مقابل اگر کوئی بالفرض آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے حرمتی کرتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاف کردیتے تھے بشرطیکہ اسے یہ احساس ہوجاتا کہ اس نے گناہ کیا ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس سے درگذر کیاہے_ لیکن اگر وہ شخص اپنے غلط عمل کو صحیح سمجھتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی صورت میں بھی اسے معاف نہیں فرماتے_

خلاصہ(۱) یہ کہ جب مسلمان کمزور ہوں تو پھر انہیں دشمنوں کے ساتھ سخت لڑائی لڑنے کاحق نہیں جس میں وہ خود ہلاک ہوجائیں یاان کے ختم ہونے سے عقیدہحق بھی ختم ہوجائے کیونکہ دین اور نظریات وعقائد کو اس قسم کے مقابلے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ کبھی کبھی الٹا نقصان پہنچتا ہے _ نیز اگرحق کا دفاع ایسی قربانی دینے سے پرہیز پر موقوف ہو جو حق کے مٹنے کا باعث ہو، عقل وفکر سے بیگانہ ہو یا وحشیانہ طرز عمل کے ساتھ ہو، نیز ایک نظریاتی جنگ کیلئے مطلوبہ شرائط سے خالی ہو تو پھر اس قربانی سے احتراز کرنا چاہیئے_

یہ بات اسلام کی عظمت، جامعیت اور حقائق زندگی کے ساتھ اس کی ہماہنگی کی ایک اور دلیل ہے_

___________________

۱_ یہ خلاصہ علامہ سید محمد حسین فضل اللہ کے فرمودات سے ماخوذ ہے _ مراجعہ ہو: مفاہیم الاسلامیہ عامہ حصہ ۸ ص ۱۲۷_

۷۱

دوسری فصل

ہجرت حبشہ اور اس سے متعلقہ بحث

۷۲

راہ حل کی تلاش:

قریش نے ان مسلمانوں کو ستانے کا سلسلہ جاری رکھا جن کی حمایت کرنے والا کوئی قبیلہ نہ تھا_ مسلمانوں کیلئے یونہی بیٹھے رہنا ممکن نہ تھا_ان ستم زدہ لوگوں کیلئے ایک ایسی سرزمین کی ضرورت تھی جو ان کی امیدوں کا مرکزہوتی، ان کو مشکلات کامقابلہ کرنے میں مدد دیتی اور جہاں وہ مشرکین کی طرف سے قسم قسم کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے زیادہ قابل بن سکتے_ یوں وہ ان مشرکین کا مقابلہ کرسکتے تھے جنہوں نے اپنے خداؤں سے ما فوق خدا اور اپنی حاکمیت سے برتر حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا_ نیز اطاعت وتسلیم کے بجائے ہٹ دھرمی اور عناد کی روش اپنائی تھی_

دوسری طرف سے اس پر مشقت و پرآلام صورتحال پر باقی رہنے کی صورت میں قبول اسلام کی جانب لوگوں کی رغبت میں کمی آجاتی کیونکہ اسلام قبول کرنے کا نتیجہ خوف، دہشت اور تکالیف وآلام میں مبتلا ہونے کے علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیتا تھا_

تیسرا پہلو یہ کہ قریش کے تکبر اور ان کی خود پسندانہ طاقت پر کم از کم نفسیاتی طور پر ایسی کاری ضرب لگانے کی ضرورت تھی ، کہ وہ سمجھ جا ئیں کہ دین کا مسئلہ ان کے تصورات اور ان کی طاقت کی حدود سے مافوق چیز ہے اور ان کو زیادہ سنجیدہ ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے_

ان حقائق کے پیش نظر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا_ ہجرت حبشہ بعثت کے پانچویں سال ہوئی لیکن حاکم نیشابوری کے مطابق ہجرت حبشہ جناب ابوطالب کی وفات کے بعد ہوئی(۱)

___________________

۱_ مستدرک حاکم ج۲ص ۶۲۲_

۷۳

حالانکہ جناب ابوطالب کی وفات بعثت کے دسویں سال ہوئی _ شاید وہ ایک اور ہجرت کے متعلق بتانا چاہتے ہوں جسے کچھ مسلمانوں نے اس موقع پر انجام دیا یا شاید کچھ لوگ صلح کے متعلق سن کر واپس پلٹے ہوں اور اچانک برعکس صورت حال دیکھ کر دوبارہ ہجرت کرگئے ہوں _ لیکن ہمارے پاس ایسے کوئی قرائن بھی نہیں ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہوں کہ یہ واقعہ وفات جناب ابوطالب کے بعد پیش آیا_

حبشہ کے انتخاب کی وجہ

ہجرت کیلئے حبشہ کا انتخاب کیوں ہوا؟ اس رازکی طرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے یوں اشارہ فرمایا ''یقینا وہاں ایک ایسا بادشاہ موجود ہے جس کی حکومت کے زیر سایہ کسی پر ظلم نہیں ہوتا''_ حبشہ سچائی کی سرزمین ہے اور وہ (بادشاہ) مانگنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے_ اس انتخاب کی علت بالفاظ دیگر یہ تھی کہ:

۱) اس صورت میں قریش پر ضروری ہوجاتا کہ وہ اپنے اقتدار، بت پرستی اور انحرافی افکار کے لئے خطرہ سمجھنے والے دین پر اول و آخر اپنے مکمل تسلط اور اختیار کو باقی رکھنے کے لئے مسلمانوں کو واپس لانے کی پوری کوشش کریں_

۲) قریش کو تجارتی اور اقتصادی روابط کے سبب روم اور شام میں اثر و رسوخ حاصل تھا ،بنابریں ان سرزمینوں کی طرف ہجرت کرنے کی صورت میں قریش کیلئے مسلمانوں کو لوٹانا یاکم از کم آزار پہنچانا آسان ہوجاتا_ خصوصا اس حالت میں جب ان ملکوں کے حکمران کسی قسم کے اخلاقی یا انسانی اصولوں کے پابند نہ تھے اور ان کو ظلم وستم سے روکنے والی کوئی چیز موجود نہ تھی خاص کر ان مسلمانوں کے اوپر جن کا دین ان کے ذاتی مفادات اور اقتدار کیلئے خطرہ اور چیلنج تھا_

رہا یمن یا دوسرے عرب قبائل کا مسئلہ تو وہ ظالم اور جابر ایرانی بادشاہوں کے زیر تسلط تھے_ کہتے ہیں کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بعض قبائل کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے حمایت چاہی تو انہوں نے قبول کیا لیکن کسری نے قبول نہ کیا_واضح رہے کہ کسری کے ہاں پناہ تلاش کرناملک روم میں پناہ ڈھونڈنے سے کم خطر ناک نہ تھا_ بالخصوص اس حالت میں جب کہ کسری دیکھ رہا تھا کہ یہ عرب شخص جلدہی اس کے ملک سے قریب علاقے میں خروج کرے گا اور اس کی دعوت اس کے ملک میں بھی سرایت کرجائے گی_

۷۴

نیز یہ دعوت اپنے لئے تراشے گئے ناجائز امتیازی حقوق پر اثر انداز ہوگی( جیساکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشن اوراہداف سے ظاہر تھا) _اس کے علاوہ وہ طبیعة عربوں کو حقیر سمجھتا تھا اور ان کیلئے کسی عزت واحترام کا قائل نہ تھا_

۳) قریش کو مختلف عرب قبائل کے اندر کافی اثر و نفوذ حاصل تھا حتی ان قبائل کے درمیان بھی جو ایران وروم کے زیر اثر تھے جیساکہ اس کتاب کے اوائل میں مذکوربعض معروضات سے واضح ہے_

۴)مذکورہ باتوں کے علاوہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حبشہ میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا_ ان حقائق کے پیش نظر ہم ہجرت کیلئے حبشہ کے انتخاب کی وجہ سمجھ سکتے ہیں_ حبشہ کا علاقہ ایران، روم اور قریش کے اثر و رسوخ سے خارج تھا _قریش وہاں گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار ہوکر نہیں پہنچ سکتے تھے قریش بحری جنگ سے بھی نا آشنا تھے_ بنابریں مسلمانوں نے (جو قریش کی طاقت و جبروت کے سامنے کمزور تھے ) ہجرت کیلئے حبشہ کی راہ لی

آخر میں ہم ارض حبشہ کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے ارشاد (حبشہ صدق وصفا کی سرزمین ہے) سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ حبشہ میں بعض قبیلے فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے اور صدق وخلوص سے میل جول رکھتے تھے_ پس اس مسلمان مہاجر گروہ کا وہاں ان لوگوں کے ساتھ آسودگی کے ساتھ رہنا اور میل جول رکھنا ممکن تھا، خاص طور پر جب یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ اس مملکت میں وہ انحرافات اور غلط افکار وعقائدنہیں پائے جاتے تھے جو روم اور ایران میں پائے جاتے تھے کیونکہ یہ ممالک غیر انسانی نظریات وافکار اور منحرف عقائد وادیان سے کافی حد تک آلودہ ہوچکے تھے لیکن حبشہ کی سرزمین ان آلودگیوں سے دور تھی _

اس لئے کہ وہاں نت نئے دین نہیں ابھرتے تھے اور نہ ہی وہاں روم اور ایران کی مقدار میں دانشمند اور فلاسفر تھے اس لئے وہ دوسرے ممالک کی بہ نسبت فطرت اور حق سے زیادہ قریب تھی لیکن فطرت کی بالادستی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ممالک کسی بھی انحراف سے خالی ہیں _ کیونکہ وہاں انحرافات کا وجود بھی طبیعی امر ہے جبکہ یہ کہنا کہ وہاں فطرت کا راج ہے بالکل اس طرح ہے جیسے یہ کہا جائے کہ فلاں شہر کے لوگ مؤمن ہیں ،

۷۵

بہادر ہیں یا سخی ہیں _ کیونکہ یہ بات اس شہر میں کافروں، منافقوں ، بزدلوں یابخیلوں کے وجود سے مانع نہیں ہے _ اور واضح سی بات ہے کہ اگر مسلمان کسی ایسے ملک کی طرف ہجرت کرتے جہاں فطرت کی بالادستی نہ ہوتی اور وہاں کا فرمانروا ظلم سے پرہیز نہ کرتا تو وہاں بھی ان کے لئے زندگی مشکل ہوجاتی اور ان کی ہجرت کا کوئی زیادہ فائدہ اور بہتر اثر نہ ہوتا_

حبشہ کا سفر

مسلمانوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، حضرت ام سلمہ سے منقول ایک روایت کے مطابق وہ مختلف گروہوں کی شکل میں وہاں گئے(۱) کہتے ہیں کہ پہلے دس مردوں اور چارعورتوں نے عثمان بن مظعون کی سرکردگی میں ہجرت کی(۲) اس کے بعد دیگر مسلمان بھی چلے گئے یہاں تک کہ بچوں کے علاوہ کل بیاسی مرداور اگر حضرت عمار یاسر بھی ان میں شامل ہوں تو تراسی مرد اور انیس عورتیں حبشہ پہنچ گئے_

لیکن ہم صرف ایک ہی مرتبہ کی ہجرت کے قائل ہیں جس میںسب نے حضرت جعفر بن ابوطالب کی سرکردگی میں حبشہ کی طرف ایک ساتھ ہجرت کی تھی _اس قافلے میں حضرت جعفر طیارعليه‌السلام کے علاوہ بنی ہاشم میں سے کوئی نہ تھا _البتہ ممکن ہے کہ مکہ سے نکلتے وقت احتیاط کے پیش نظر افراد مختلف گروہوں کی شکل میں خارج ہوئے ہوں لیکن ہجرت ایک ہی مرتبہ ہوئی تھی کیونکہ شاہ حبشہ کے نام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کاخط بھی اسی بات کی گواہی دیتا ہے جسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمروبن امیہ الضمری کے ساتھ روانہ کیا تھا ، اس خط میں مکتوب ہے:

'' البتہ میں نے آپ کی طرف اپنے چچا زاد بھائی جعفر بن ابوطالب کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے

___________________

۱_ السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۷، البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۲ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۰ ازالصفوة و المنتہی_

۲_ سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۵، سیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۵، البدایہ و النہایة ج ۳ص ۶۷، السیرة الحلبیة ہ ج ۱ص ۳۲۴ (جس میں کہا گیا ہے کہ ابن محدث نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کی تصریح کی ہے) نیز تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۸۸_

۷۶

ساتھ بھیجا ہے، جب وہ پہنچ جائیں تو ان کو وہاں ٹھہرانا ...''(۱)

یہی بات ابوموسی سے مروی روایت سے بھی ظاہر ہوتی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جعفربن ابوطالب کے ہمراہ نجاشی کے ملک کی طرف چلے جائیں_(۲) اگرچہ خود ابو موسی کی ہجرت مشکوک ہے جس کا تذکرہ آئندہ ہوگا_

جعفر سردار مہاجرین :

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت جعفر طیار کی حبشہ کی طرف ہجرت قریش کی جانب سے سختیوں اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے نہیں تھی_ کیونکہ قریش حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی شان و شوکت سے ڈرتے تھے اور بنی ہاشم اور خاص کر ان کا لحاظ کرتے تھے_ حضرت جعفر کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے صرف مہاجرین کا سردار اور ان کا سرپرست بنا کر بھیجاتھا تا کہ وہ انہیں اس نئے معاشرے میں جذب ہوجانے سے بچاسکے، جس طرح کہ ابن جحش کی صورتحال تھی کہ وہ حبشہ میں نصرانی ہوگیا تھا_

حبشہ کا پہلا مہاجر

کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ سب سے پہلے حبشہ کی جانب ہجرت کی اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بارے میں فرمایاکہ وہ حضرت لوطعليه‌السلام کے بعد پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہجرت کی_(۳) یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ سب سے پہلے خارج ہوئے_(۴)

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۳، بحارالانوار ج ۱۸ص ۴۱۸، اعلام الوری ص ۴۵_۴۶از قصص الانبیاء_

۲_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۰ نے ابو نعیم کی الدلائل سے نقل کیا ہے اور سیرت نبویہ (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۱ _

۳_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۶از ابن اسحاق، السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۳اور تاریخ الخمیس ج ۱ ص۲۸۹ _

۴_ سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۴، نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۶از بیہقی نیر السیرة الحلبیة ج ۱ ص۲۲۳ _

۷۷

لیکن ہمیں اس بارے میں شک ہے کیونکہ اگر مراد یہ ہو کہ وہ گھروالوں کے ساتھ ہجرت کرنے والے پہلے آدمی تھے تویہ بات واضح رہے کہ سب سے پہلے اپنے گھروالوں کے ساتھ ابوسلمہ نے ہجرت کی تھی جیساکہ نقل ہوا ہے_(۱) اور اگر مراد یہ ہو کہ وہ بذات خود سب سے پہلے خارج ہوئے تو عرض ہے کہ خود انہی نقل کرنے والوںکے بقول سب سے پہلے خارج ہونے والے شخص حاطب بن عمر تھے(۲) یا سلیط بن عمرو(۳) نیز ابوسلمہ کے بارے میں بھی اسی قسم کا قول موجود ہے_

ابوموسی نے حبشہ کی جانب ہجرت نہیں کی

امام احمد نے (حسن و غیرہ کی سند کے ساتھ) اوردوسروں نے بھی روایت کی ہے کہ ابوموسی اشعری حبشہ کی طرف پہلی بار ہجرت کرنے والوں میں شامل ہے_(۴) لیکن بظاہر یہ بات یا تو غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا راوی نے عمداً غلط بیانی کی ہے کیونکہ ابوموسی ہجرت کے ساتویں سال مدینے میں مسلمان ہوا تھا_ کہتے ہیں کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے پاس جانے کیلئے نکلے لیکن ان کی کشتی نے انہیں حبشہ پہنچادیا اور وہ حبشہ کے مہاجرین کے ساتھ ساتویں ہجری میں مدینہ آئے(۵) اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ ہجرت مدینہ کے بعد کا واقعہ ہے کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مکہ آنے کیلئے چلتے اور پندرہ سال حبشہ میں ٹھہرتے بظاہر ابوموسی اشعری مہاجرین حبشہ کے ساتھ واپسی کے راستے میںآن ملے تھے کیونکہ عسقلانی نے کہا ہے : '' اس کی کشتی جناب

___________________

۱_ الاصابة ج ۲ص ۳۳۵نیز رجوع کریں ج ۴ص ۴۵۹اور ۴۵۸نیز الاستیعاب (حاشیہ الاصابہ پر) ج ۲ص ۳۳۸از مصعب الزبیری و تہذیب الاسماء و اللغات ج ۲ص ۳۶۲واسد الغابة ج ۳ص ۱۹۶از ابی عمر و ابن منزہ اور السیرة الحلبیہ ج ۱ص ۳۲۳ _

۲_ الاصابة ج ۱ ص ۳۰۱ اور السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۳۲۳_

۳_ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۳ _

۴_ رجوع کریں: سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۷، البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۷، ۶۹، ۷۰ نے ابن اسحاق، احمد اور ابونعیم کی الدلائل سے نقل کیا ہے_ السیرة النبویة( ابن کثیر) ج ۲ص ۷اور ص ۹، فتح الباری ج۷ص ۱۴۳، مجمع الزوائد ج ۶ص ۲۴ از طبرانی اور نیز حلیة الاولیاء ج ۱ ص۱۱۴ _

۵_ رجوع کریں السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۴اور البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۱_

۷۸

جعفر بن ابوطالب کی کشتی سے ملی اور وہ سب اکٹھے آئے''(۱)

مہاجرین کے ساتھ عمر کا رویہ

کہتے ہیں کہ جب مسلمان ہجرت حبشہ کی تیاری میں مصروف تھے تو حضرت عمر نے ان کو دیکھا یوں ان کا دل پسیجا اور وہ محزون ہوئے(۲) لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ وہ لوگ تو خاموشی سے چھپ کر نکلے تھے_ ان میں سے بعض پیدل تھے اور بعض سواریہاں تک کہ ساحل سمندر تک پہنچ گئے، وہاں انہوں نے ایک کشتی دیکھی اور جلدی سے اس میں سوار ہوگئے_ ادھر قریش ان کے تعاقب میں ساحل تک پہنچے لیکن وہاں کسی کو نہیں پایا_(۳) اس کے علاوہ حضرت عمرکی وہ سخت گیری اور قساوت بھی ملحوظ رہے جس کی نسبت (ہجرت حبشہ سے قبل اور ہجرت حبشہ کے بعد) ان کی طرف دی جاتی ہے اور یہ بات مذکورہ بالاقول کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہے_

حضرت ابوبکر نے ہجرت نہیں کی

کہتے ہیں کہ جب مکے میں بچے ہوئے مسلمانوں پر سختیوں میں اضافہ ہوا اور حضرت ابوبکر کیلئے مکے میں زیادہ تکالیف کے سبب جینا دوبھر ہوگیا، تو وہ وہاں سے نکل گئے اور حبشہ کی راہ لی اس وقت بنی ہاشم شعب ابوطالب میں محصور تھے_ جب وہ ''برک الغماد'' کے مقام پر پہنچے (جو مکہ سے پانچ دن کے فاصلے پر یمن کی جانب واقع ہے) تو قبیلہ قارہ کے سردار ابن دغنہ کی ان سے ملاقات ہوگئی ،یہ لوگ قریش کے قبیلہ بنی زہرہ

___________________

۱_ الاصابہ ج۲ ص ۳۵۹_

۲_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۹از ابن اسحاق، مجمع الزوائد ج ۶ص ۲۴، مستدرک الحاکم ج ۳ص ۵۸، الطبرانی اور السیرة الحلبیہج ۱ص ۳۲۳اور ۳۲۴ _

۳_ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۴، تاریخ الخمیس ج۱ص ۲۸۸اور ۲۸۹از المنتقی، الطبری ج ۲ص ۶۹البدء و التاریخ ج ۴ص ۱۴۹و اعلام الوری ص ۴۳ ویعقوبی ج ۲ص ۲۹اور ابن قیم کی زاد المعاد ج ۲ص ۴۴_

۷۹

کے حلیف تھے_ ابن دغنہ نے کہا:'' اے ابوبکر کہاں کا ارادہ ہے؟'' وہ بولے :''میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے چنانچہ میرا ارادہ ہے کہ میں دنیا میں پھروں اور اپنے رب کی عبادت کروں''_ ابن دغنہ نے کہا:'' اے ابوبکر تم جیسوں کو نکالانہیں کرتے، تم محروموں کی مدد کرتے ہو''_ یہاں تک کہ کہا:'' اب لوٹ جاؤ میں تمہیں پناہ دیتا ہوں'' یوں حضرت ابوبکر ابن دغنہ کے ساتھ واپس ہوئے، ابن دغنہ نے رات کو قریش کے بزرگوں کے ہاں جاکر بتایا کہ اس نے حضرت ابوبکر کو پناہ دی ہے قریش نے اس شرط کے ساتھ اسے قبول کیا کہ وہ اپنے رب کی اعلانیہ عبادت نہ کریں بلکہ اپنے گھر میں عبادت کیا کریں_

لیکن حضرت ابوبکر نے کچھ عرصے بعد بنی جمح کے ہاں اپنے پڑوس میں ایک مسجد تعمیر کی وہاں وہ نمازیں پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے تھے، مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کی تلاوت سننے کیلئے جمع ہوتے تھے حتی کہ ازدحام کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے اوپر گر پڑتے تھے_ حضرت ابوبکر کی آواز سریلی اور ان کا چہرہ خوبصورت تھا_مشرکین نے ابن دغنہ سے اس مسئلے میں استفسار کیا چنانچہ ابن دغنہ حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور امان کی شرائط کو نبھانے کا مطالبہ کیا لیکن حضرت ابوبکر نے اس کی امان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا_(۱)

ہمارے نزدیک یہ بات مشکوک ہے کیونکہ اس سے قطع نظر کہ :

ا_ جناب ابوبکر کو قوم سے نکال دیئے جانے کا مطلب ان کی ہجرت نہیں ہے لیکن ان کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتاہے_

۲_ یہ روایت فقط حضرت عائشہ سے مروی ہے اور خود یہ ایک عجیب بات ہے اسلئے کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ بہت چھوٹی تھیں لہذا ان امور کی تمام جزئیات کو درک نہیں کرسکتی تھیں لیکن اگر ہم فرض

___________________

۱_ رجوع کریں السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۲۷،۱۲۸، و سیرت ابن ہشام ج۲ص ۱۲،۱۳، شرح نہج البلاغہ ج ۱۳ص ۲۶۷، المصنف ج ۵ص ۳۸۵،۳۸۶، البدایة و النہایة ج ۳ص ۹۴،۹۵ اور تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۱۹و ۳۲۰میں مذکور ہے کہ یہ بعثت کے تیرہویں سال کا واقعہ ہے_ نیز رجوع کریں حیات الصحابہ جلد ۱ص ۲۷۶،۲۷۷نے بخاری ص ۵۵۲سے نقل کیا ہے_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اور یہ خود امیر المؤمنین کا ارشاد گرامی ہے کہ :

'' اس وقت کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی روح قبض ہوئی آپ کا سرمبارک میری آغوش میں تھا اور پھر میرے سر آپ کے غسل کی ذمہ داری پڑگئی کہ مقرب فرشتے میرے ساتھ آپ کے جنازے کو الٹتے پلٹتے تھے اور خدا کی قسم کسی بھی پیغمبرکے بعد اس کی امت میں اختلاف نہ ہوا مگر یہ کہ اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب ہوئے اور خداجو چاہتا ہے کرتا ہے۔(۱)

نیز امیرالمؤمنین نے فرمایا :

''رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وص یت فرمائی کہ میرے علاوہ کوئی ان کو غسل نہ دے چونکہ جو کوئی بھی شرم گاہ کو دیکھے گا اس کی دونوں آنکھیں اندھی ہوجائیں گی ،پس عباس اور اسامہ پردے کے پیچھے سے پانی پہنچا رہے تھے اور میں بدن کے جس حصہ کو بھی پکڑتا تو محسوس کرتا کہ گویا کوئی تیس افراد میرے ساتھ اس حصے کو پکڑے ہوئے الٹ پلٹ کررہے ہیں یہاں تک کہ میں غسل سے فارغ ہوا ''۔(۲)

____________________

(۱) کتاب صفین (منقری) ۲۲۴۔ جمھرة خطب العرب :۱ ۳۴۶۔ شرح نہج البلاغہ :۵ ۱۸۱۔ امالی مفید ۲۳۵۔

جس چیز کی امیرالمؤمنین نے خبر دی ہے یہی چیز معاویہ کی زبان پر بھی جاری ہوئی ، شعبی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا کہ جب معاویہ کے ہاتھ پر بعیت ہورہی تھی تو اس نے خطبہ دیا اور کہا کہ کسی بھی امت میں اپنے پیغمبر کے بعد اختلا ف نہیں ہوا مگریہ کہ اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب ہوئے اور اس کے بعد معاویہ کو اپنے کہے پر پشیمانی ہوئی لہذا کہا سوائے اس امت کے کہ بیشک۔۔۔(مقاتل الطالبین ۴۵۔ سبل الھدی والرشاد:۱۰ ۳۶۴) ۔

(۲) طبقات ابن سعد :۲ ۲۷۸۔ مجمع الزوائد: ۹ ۳۶۔ کنزالعمال :۷ ۲۵۰، حدیث۱۸۷۸۴۔

۱۸۱

اسی طرح کی حدیث آپ کے احتجاجات میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا :

''آپ کو میں خدا کی قسم دیتاہوں کیاآپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ رسول خدا کی آنکھیں بند کی ہوں، سب نے کہا نہ خداکی قسم،پھر آپ نے فرمایا تمہیں میں خدا کی قسم دیتاہوں کیا آپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو غسل دیا ہوکہ جو میری خواہش کے مطابق پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدن کو پلٹا رہے تھے ۔ سب نے کہا : نہ ''۔(۱)

مفضل ابن عمر نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

''فاطمة صدیقة لم یکن یغسلها الاصدیق'' (۲)

فاطمہ، صدیقہ ہیں ان کو صدیق کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا ۔

ان مذکورہ تمام احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر طرح کی پلیدگی ، گندگی ، آلودگی و نجاست سے تطہیر اور پاک و پاکیزہ ہونا ، صدیقیت کی واضح ترین علامت ہے اور چونکہ جھوٹ ، رجس و پلیدگی کا جزء ہے جب کہ صدیق، صادق و صدوق کا صیغہ مبالغہ ہے۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق :۴۲ ۴۳۳و۴۳۵۔ الطرائف ۴۱۳۔ شرح الاخبار :۲ ۱۸۹،حدیث ۵۲۹۔ مناقب خوارزمی ۳۱۵۔

(۲) اصول کافی :۱ ۴۵۹، باب مولد الزھرا، حدیث ۴۔ فروع کافی :۳ ۱۵۹،باب الرجل یغسل المرأ ة ،حدیث ۱۳۔ علل الشرایع:۱ ۱۸۴،باب العلة التی من اجلھا غسل فاطمة امیر المؤمنین لما توفیت ، حدیث ۱۳۔ تہذیب الاحکام :۱ ۴۴۰،حدیث ۱۴۲۲۔ الاستبصار :۱ ۲۰۰ ،حدیث ۱۵۷۰۳۔

۱۸۲

لہذا جھوٹ کبھی بھی صدیق تک نہیں آسکتا بلکہ صدیق کے لیے لازم ہے کہ پہلے مرحلے میں صادق، امین اور وعدہ وفادار ہو، تاکہ اپنے دوسرے مرحلہ میں صدیق کہلاسکے ۔

یہی وجہ ہے کہ آیت تطہیر میں اس مبالغہ کا خیال رکھا گیا ہے جیسے کلمہ ''انما''کہ کلمہ حصر ہے اور مفعول مطلق کو تاکید کے لیے لایا گیا''یطهر کم تطهیرا'' اور اس آیت کا نزول صرف محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین سلام اللہ علیہم اجمعین کے لیے ہے ۔(۱)

یہ اسی کی مانند ہے کہ جو حضرت مریم بنت عمران کے لیے قرآن کریم میں آیا ہے:

٭( اصطفاک علی نساء العالمین ) (۲)

اے مریم خداوندعالم نے آپ کو تمام عالمین کی عورتوں پر چنا ۔

٭( و جعلناابن مریم و امه آیة ) (۳)

ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو آیت و نشانی قرار دیا۔

پس مریم بنت عمران اور فاطمہ بنت محمد ، تطہیر کے دو کامل نمونے ہیں ۔ خداوندکریم کا ارشاد گرامی ہے :

____________________

(۱) تفسیر الکشاف :۱ ۳۹۶۔ البرھان (زرکشی) :۲ ۱۹۷۔ اسباب النزول (نیشابوری) ۲۳۹۔ اور دیکھیے :ـ الدرالمنثور :۵ ۱۹۸۔(سیوطی نے اس روایت کو کئی طریقوں سے نقل کیا ہے )

(۲) سورہ آل عمران (۳)، آیت ۴۲۔

(۳) سورہ مؤمنون (۲۳)، آیت ۵۰۔

۱۸۳

( و مریم بنت عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا و صدقت بکلمات ربها و کتبه و کانت من القانتین ) (۱)

اور مریم بنت عمران کہ جس نے پاکدامنی اختیار کی تو ہم نے اپنی روح میں سے ان میں پھونکی اوروہ خدا کی کتب و کلمات کی تصدیق کرنے والی اور فرمانبردار تھیں ۔

اور اسی طرح کا کلام حضرت امام جعفر صادق سے نقل ہوا ہے آپ نے فرمایا : مریم بنت عمران نے پاکدامن زندگی گذاری اور ان کی مثال خداوندعالم نے حضرت فاطمہ کے لیے یہاں بیان فرمائی ہے ، اور پھر آپ نے فرمایا :

'' ان فاطمة احصنت فرجها فحرم الله ذریتها علی النار'' (۲) ب یشک فاطمہ پاکدامن رہیں پس خداوندعالم نے ان کی ذریت و نسل پر جہنم کی آگ کو حرام کردیا ۔

____________________

(۱) سورہ تحریم(۶۶)، آیت ۱۲۔

(۲) تفسیر برہان :۴ ۳۵۸۔

۱۸۴

چہارم : ـ حنفیت و یکتا پرستی

چونکہ صدیقیت ایک الہٰی و ربانی مقا م ومرتبہ ہے لہذا صدیق کے لیے لازم ہے کہ اسلام سے پہلے ہی سے خداپرست ہو، بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوا ہو اور اسلام سے پہلے یکتا پرستی کے آئین و دین پر ہو یا اگر زمانہ اسلام میں پیدا ہوا ہو تو ابتداء ہی سے مسلمان ہو یعنی صدیق کا اسلام اصلی ہو ، اور اس کے یہاں کفر و شرک نہ پایا جائے ۔

۱۸۵

یہ بات واضح ہے کہ امیرالمؤمنین ایک ایسے فرد ہیں کہ جنہوںنے کبھی بتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اس بات میں کسی کو بھی شک و شبہہ نہیں ہے ، چونکہ اہل سنت کے درمیان بھی صرف امام علی ہی ہیں کہ جن کو رضی اللہ عنہ (خدا ان سے راضی ہو) کے بجائے کرم اللہ وجہہ (خدا نے ان کے چہرے کو مکرم و مقدس رکھا) کہا جاتا ہے اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے شخص ہیں ، انہوں نے دوسروں سے سات یانو سال پہلے خداوندعالم کی عبادت شروع کی ، یہی حال حضرت فاطمہ زہرا کا ہے کہ آپ زمانہ اسلام میں متولد ہوئیں اور لمحہ بھر کے لیے بھی شرک نہ کیا ۔

لیکن ابوبکر زمانہ جاہلیت میں بتوں کی پوجا اور پرستش کرتے تھے اور اس زمانے کے مشرکوں میں سے تھے ، اور ان لوگوں میں سے تھے کہ اسلام کے بعد بھی کچھ ایسے کارنامے انجام دیئے کہ جن پر اکثر لوگوں نے اعتراض کیے اور انگلیاں اٹھائیں۔(۱)

اسی سلسلے میں چند احادیث قابل ملاحظہ ہیں

حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں :''فانی ولدت علی الفطرة و سبقت علی الایمان والهجرة ''(۲) م یں فطرت اسلام پر پیدا ہوا اور میں نے ایمان اور ہجرت میںسب پر سبقت کی ۔

____________________

(۱) دیکھیے :ـ احکام القرآن (جصاص ) :۱ ۳۹۸۔ جصاص کا بیان ہے کہ قمار کے حرام ہونے میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور شرط بندی قمار ہی کے اقسام میں سے ہے ۔۔۔ اور پھر کہتاہے کہ ابوبکر نے مشرکوں کے ساتھ شرط بندی کی جب کہ یہ آیت نازل ہوئی (الم٭ غلبت الروم) سورہ روم ،آیت ۱ـ۲۔

(۲) نہج البلاغہ :۱ ۱۰۶، خطبہ ۵۷۔ وسائل الشیعہ :۱۶ ۲۲۸،حدیث ۴۱۴۳۱۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ): ۴ ۱۱۴۔ مناقب ابن شہر آشوب : ۲ ۱۰۷۔ بحار الانوار :۴۱ ۳۱۷۔

۱۸۶

حضرت امام جعفر صادق سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا : علی ابن ابی طالب نے لوگوں سے اپنے مقام و مرتبہ کا شکوہ کیا اور فرمایا : میں رسول خدا کا بھائی اور ان کا وزیر ہوں اور آپ جانتے ہوکہ میں خدا اور رسول پر سب سے پہلے ایمان لایا ہوں اور پھر آپ لوگ گروہ گروہ اسلام لائے ہو ۔(۱)

اور خود ہی آپ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں اس امت میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا کہ جس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد میرے علاوہ خدا کی عبادت کی ہو ۔ میں نے نوسال پہلے خداوندعالم کی عبادت کی جب کہ کوئی بھی اس امت میں اس کی عبادت نہیں کرتا تھا ۔(۲)

اور دوسری روایت میںآیاہے کہ پانچ یاسات سال پہلے ۔(۳)

اور نیز امام علی نے فرمایا : میں نے اس طرح رسول خدا کے ساتھ نماز انجام دی کہ میرے علاوہ ان کے ساتھ کسی نے بھی نماز نہ پڑھی سوائے خدیجہ کے ۔(۴)

____________________

(۱)المناقب(ابن مغازلی)۱۱۱،حدیث۱۵۴۔کشف الغمہ:۷۸۱۔بحارالانوار:۳۸ ۳۳۰۔

(۲) الخصائص (نسائی ) ۴۷۔

(۳) تاریخ دمشق :۴۲ ۳۰۔ مسند ابی یعلی موصلی :۱ ۳۴۸، حدیث ۴۴۷۔ اسد الغابہ : ۴ ۱۷۔ القول المسدد فی مسند احمد ۶۴۔ الآحاد والمثانی :۱ ۱۴۸، حدیث ۱۷۸۔ مسند احمد :۱ ۹۹۔ کنزالعمال :۱۳ ۴۲، حدیث ۳۶۳۹۰۔ سمط النجوم العوالی :۳ ۲۸، حدیث ۶۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۰۲۔ کشف الغمہ :۱ ۸۰۔ بحارالانوار :۳۸ ۲۵۷۔ الکامل فی التاریخ :۱ ۵۸۲۔

(۴) الاستیعاب :۳ ۱۰۹۶۔ ۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید):۴ ۱۲۰۔

۱۸۷

ابو ایوب انصاری سے نقل ہوا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : فرشتوں نے سات سال مجھ پر اور علی پر دردو بھیجا چونکہ ہم نماز پڑھتے تھے اور ہمارے علاوہ کوئی اور نہ تھا کہ جو ہمارے ساتھ نماز بجالاتا ۔(۱)

انس سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سات سال مجھ پر اور علی پر فرشتوں نے صلوات و درود بھیجا اور خداوندعالم کی یکتائی و توحید کی گواہی زمین سے آسمان تک نہ گئی سوائے میری اور علی کی زبان سے۔(۲)

ابوذر سے روایت ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : فرشتوں نے مجھ پر اور علی پر سات سال تک درود و صلوات بھیجی اس سے پہلے کہ کوئی انسان اسلام لے کر آتا ۔(۳)

اور خود امیر المؤمنین ہی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : آغاز وحی ونبوت پیر کے دن سے ہوا او ر میں نے منگل کی صبح میں اسلام کا اظہار کیا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز پڑھتے اور میں ان کے دا ہنی طرف نماز بجالاتا اور کوئی بھی میرے علا وہ ہمراہ نہ ہوتا پھر خداوندعالم کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی

____________________

(۱) تاریخ دمشق :۴۲ ۳۹۔ اسدالغابہ :۴ ۱۸۔ مناقب کوفی :۱ ۲۳۸، حدیث ۳۲۹۹۸۔ روضة الواعظین ۸۵۔ شرح الاخبار :۲ ۴۰۹، حدیث ۷۵۵۔

(۲) الفصول المختارہ ۲۶۶۔ اعلام الوری :۱ ۳۶۱۔ کنزالفوائد ۱۲۵۔

(۳) شواہد التنزیل :۲ ۱۸۴، حدیث ۸۱۸۔ کنزالعمال :۱۱ ۶۱۶، حدیث ۳۲۹۸۹۔ کنزالفوائد ۱۲۰۔ مناقب ابن شہر آشوب :۱ ۲۹۱۔

۱۸۸

(اصحاب الیمین )(۱) اور داہنی طرف کے اصحاب ۔(۲)

اور آپ ہی کا کلام ہے کہ فرمایا : خدایا میں پہلا وہ شخص ہوں کہ جو تیرے حضور حاضر ہوا ، تیری دعوت کو سنا اور قبول کیا کسی نے بھی نماز میں مجھ پر سبقت نہ لی سوائے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ۔(۳)

اور فرمایا: خدایا میں اس امت میں سے کسی ایسے بندے کو نہیں جانتا کہ جس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ مجھ سے پہلے تیری عبادت کی ہو ، اور پھر فرمایا: میںنے اس سے پہلے کہ کوئی نماز پڑھتا سات سال نماز پڑھی ۔(۴)

اورآپ نے اہل کوفہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

اے اہل کوفہ آپ کوآنے والے حوادث و واقعات سے خبر دار کرتاہوں تاکہ آپ لوگ ڈرتے رہو اورآمادہ رہو ، نصیحت قبول کرنے والوں کو سمجھاؤ، گویا میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے درمیان یہ کہا جائے گا کہ علی جھوٹ بولتے ہیں جیسا کہ قریش نے یہ نامناسب نسبت اپنے سید و سردار حبیب خدا رحمت الہٰی حضرت محمد بن عبداللہ کو دی ۔

____________________

(۱) سورہ واقعہ (۵۶)، آیت ۲۷۔

(۲) شواہد التنزیل :۲ ۳۰۰ ،حدیث ۳۹۶(از جعفر جعفی )۔

(۳) نہج البلاغہ :۲ ۱۳، خطبہ ۱۳۱۔ شرخ نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):۸ ۲۶۳۔ النزاع و التخاصم ۴۳۔ اور دیکھیے :ـ امالی صدوق ۴۹۱۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۰۳۔ الاصابہ :۴ ۳۲۶، ترجمہ ۵۶۰۲۔ کشف الغمہ :۱ ۸۳۔

(۴) تاریخ دمشق :۴۲ ۳۲۔ مسند احمد :۱ ۹۹۔ کشف الغمہ :۱ ۸۱۔ نظم درر السمطین ۸۲۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۰۲۔ کنزالعمال :۳ ۱۲۲، حدیث ۳۶۳۹۱۔

۱۸۹

وائے ہوآپ پر، میں کس پر اور کس سے جھوٹ بولوں گا ، کیا خدا پر؟ میں تو سب سے پہلا فرد ہوں کہ جس نے اس کی عبادت کی اور اس کو واحد و یکتا جانا،اور کیا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ؟ جبکہ میں پہلا وہ شخص ہوںکہ جو ان پر ایمان لایا ، ان کی تصدیق کی اور ان کی مدد و نصرت کی ۔

اصلا ایسا نہیں ہے کہ میں جھوٹ بولوں لیکن مکاری و فریب کی زبان تمہیں بہکادے گی اور تم بے خبر رہوگے۔(۱)

____________________

(۱) ارشاد مفید:۱ ۲۷۹۔ احتجاج طبرسی :۱ ۲۵۵۔ بحارالانوار:۴۰ ۱۱۱۔

۱۹۰

پنجم :ـ علم و دانائی

علم، صدیق کے واسطے ضروریات واولیات میں سے ہے جو شخص علم وآگاہی نہ رکھتا ہو اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے تمام امور اور نظریات و آراء میں صدیق ہو ، اور اس علم سے مراد علم الہٰی ہے یعنی علم لدنی و علم وہبی ۔

اس علم الہٰی کا لازمہ یہ ہے کہ جس شخص کے پاس یہ علم ہو وہ دل و جان سے اور عقیدہ و اعتقاد کی بنیاد پر رسالت آسمانی اور غیب پر ایمان و یقین رکھتا ہے ، نہ یہ کہ صرف زبان اور ظاہری احساسات کی بناپر اقرار کرے ۔

لہذا صدیقیت کسی بھی شخص کی معرفت و عرفان کی بلندی کی حیثیت سے مربوط ہے ، جتنا زیادہ اس کا علم و عرفان ہوگا تو اس کی تصدیق بھی پروردگار عالم کے متعلق اتنی ہی زیادہ اور یقینی ہوگی

۱۹۱

جب کہ واضح ہے کہ ابوبکر ، فرمایشات رسول خدا کے بھی عالم نہ تھے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اکثر مسائل میں یہ صحابہ سے سوال کرتے تھے اور بہت زیادہ مقامات ایسے ہیں کہ خطا ء و غلطی کرجاتے تھے ،کوئی ایسا فتوی دے دیتے کہ دوسرے صحابہ ان سے اختلاف کرنے لگتے ۔(۱)

لیکن حضرت علی کے متعلق ایسا نہیں ہے بلکہ قضیہ بر عکس ہے کہ تمام عالم اسلام ابتداء سے آج تک علی کے علم و حکمت اور قضاوت کی گواہی دیتے ہیں ۔

حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا:

'' انا مدینة العلم وعلی بابها فمن اراد المدینة فلیأت الباب '' (۲)

میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کادروازہ ہیں ،پس جو شہر میں آنا چاہے اس کو چاہیے کہ دروازے سے آئے ۔

اور رافعی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''علی عیبة علمی ''(۳) عل ی میرے علم کے خزانے ہیں ۔

____________________

(۱) اس سلسلے میں اور زیادہ معلومات کے لیے مؤلف کی کتب ''منع تدوین الحدیث'' اور ''تاریخ الحدیث النبوی '' میں مراجعہ کیا جائے ۔

(۲) مستدرک حاکم:۳ ۱۲۶۔ المعجم الکبیر :۱۱ ۵۵۔

(۳) التدوین فی اخبار قزوین ۸۹(بہ نقل از ابن عباس)۔ کنزالعمال :۱۱ ۶۰۲، حدیث ۳۲۹۱۱۔(بہ طریق دیگر)۔

۱۹۲

ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ عبد الرحمن بن بہمان سے راویت کی ہے اس نے کہا کہ میں نے جابر کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول خدا روز حدیبیہ علی کے بازو پکڑے ہوئے فرمارہے تھے : '' ھذا امیر البررة وقاتل الفجرة ، منصور من نصرہ مخذول من خذلہ ''

یہ علی نیک و صالحین کا امیر اور فساق و فجار کا قاتل ہے جو شخص اس کی مدد کرے اس کی خدا کی جانب سے مدد ہوگی ، جو اس کو چھوڑدے ا ور پست سمجھے وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔

اس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باآواز بلند فرما یا : '' میں علم کا شہرہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں اور جو بھی شہر میں داخل ہونا چاہے اس کو چاہیے وہ دروازے سے آئے ۔(۱)

متقی ہندی نے ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا :

'' حکمت کی دس قسمیں ہیںکہ جن میں سے ۹ عل ی کے پاس ہیں اور ایک حصہ تمام لوگوں کے پاس ہے۔ اور اس ایک حصے میں بھی علی ان سب سے زیادہ عالم ہے'' ۔(۲)

ابن عساکرنے اپنی اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں تھا کہ علی کے بارے میں آنحضرت سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : حکمت کے دس حصے ہیں کہ جن میں سے نو علی کے پاس اور ایک حصہ تمام لوگوں کے پاس ہے ۔(۳)

____________________

(۱) تاریخ مدینة دمشق :۴۲ ۲۲۶و ۳۸۳(ترجمہ امام علی ابن ابی طالب )۔

(۲) کنزالعمال :۱۱ ۶۱۵، حدیث ۳۲۹۸۲۔ و جلد :۱۳ ۱۴۶، حدیث ۳۶۴۶۱۔ فیض القدیر :۳ ۶۰، حدیث ۲۷۰۴۔

(۳) تاریخ مدینة دمشق : ۴۲ ۳۸۴۔ مناقب خوارزمی ۸۲۔

۱۹۳

خطیب بغدادی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا مدینة الحکمة و علی بابها فمن اراد الحکمة فلیات الباب '' (۱)

میں حکمت کا شہرہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں پس جوبھی حکمت چاہے اس کو چاہیے کہ دروازے سے آئے۔

دوری نے تاریخ ابن معین میں اپنی اسناد کے ساتھ سعید بن مسیب سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ میں کوئی بھی سوائے علی ابن ابی طالب کے یہ دعوی نہیں کرتا کہ جوچاہو مجھ سے پوچھ لو ۔(۲)

خوارزمی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوالبختری سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے علی کو دیکھا کہ رسول خدا کی تلوار حمائل کیے ہوئے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمامہ اپنے سر پر باندھے ہوئے

____________________

(۱) تاریخ بغداد:۱۱ ۲۰۴، ترجمہ۵۹۰۸۔

(۲) تاریخ ابن معین :۱ ۱۰۶۔(دوری کہتاہے ہم سے یحی ابن معین نے نقل کیا کہ اس نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے اس سے یحی بن سعید نے اس سے سعید بن مسیب نے )۔ مناقب خوارزمی ۹۱۔ اسدالغابہ :۴ ۲۲۔ ذخائر العقبی ۸۳۔

اس حدیث کو احمد نے مناقب میں اور بغوی نے المعجم میں اس عبارت کے ساتھ نقل کیا ہے کہماکان احد من الناس یقول سلونی غیر علی ابن ابی طالب ، لوگوں میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے سوال کرو سوائے علی ابن ابی طالب کے ۔

۱۹۴

اور آپ کی انگشتر مبارک پہنے ہوئے منبر پر تشریف فرماہیں اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں :

'' سلونی قبل ان تفقدونی ،فانما بین الجوانح منی علم جم، هذا سقط العلم ! هذا لعاب رسول الله ! هذا ما زقنی رسول الله زقا من غیر وحی اوحی الی ، فوالله لو ثنیت لی وسادة فجلست علیها ، لافتیت اهل التوراة بتوراتهم و اهل الانجیل بانجیلهم ، حتی ینطق الله التوراة والانجیل فیقول : صدق علی قد افتاکم بما انزل فی ، وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون '' (۱)

مجھ سے جوسوال کرنا چاہو سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ۔بیشک میرے پہلووں کے درمیان بہت زیادہ علم ہے یہ علم کی سبیل اور جام ہے ، یہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لعاب دہن ہے ، یہ وہ چیز ہے کہ جو رسول خدا نے مجھے اس طرح عطا کی کہ جس طرح پرندہ اپنے بچے کے پوٹے کو دانے سے بھرتا ہے ۔ بغیر اس کے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہو، خداکی قسم اگر میرے لیے مسند قضاوت بچھادی جائے کہ میں اس پر بیٹھ کر فیصلے کروں تو اہل توریت کے لیے ان کی توریت سے اور اہل انجیل کے لیے ان کی انجیل سے اس طرح فتوے دوںگا کہ خداوندعالم توریت و انجیل کو زبان عطا فرمائے گا اور وہ کہیں گی کہ علی نے سچ کہا ہے اور جو کچھ ہم میں نازل ہوا اسی طرح فتوی دیا ہے اور جب کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو تو کیا غور وفکر نہیں کرتے ۔

____________________

(۱) المناقب ۹۱۔ اور دیکھیے :ـ امالی صدوق ۴۲۲۔ اختصاص مفید ۲۳۵۔ احتجاج طبرسی :۱ ۳۴۴۔ (بہ نقل از اصبغ ابن نباتہ )۔

۱۹۵

ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ زکریا سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے عامر شعبی کو کہتے سنا کہ ابن کوّا نے علی سے سوال کیا : مخلوقات الہٰی میں کون سی چیز سب سے زیادہ سخت ہے ، آپ نے فرمایا :''اشد خلق ربک عشرة : الجبال الرواسی ، الحدید تنحت به الجبال ، والنار تاکل الحدید ، والماء یطفی النار ، والسحاب المسخر بین السماء والارض، یعنی یحمل المائ، والریح تقل السحاب،والانسان یغلب الریح یعصمها بیده و یذهب حاحته ، السکر یغلب الانسان ، والنوم یغلب السکر، والهم یغلب النوم فاشدخلق ربکم الهم ۔(۱)

آپ کے پروردگار کی مخلوقات میں سب سے زیادہ سخت چیزیں دس ہیں :

بلند و بالا پہاڑ، اور لوہا پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے، آگ کہ جو کہ لوہے کو کھاجاتی ہے ، پانی کہ جو آگ کو بجھا دیتا ہے ، بادل کہ جو پانی کو آسمان و زمین کے درمیان اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں ، ہوا کہ جو بادلوں کو لیے پھرتی ہے ، اور انسان کہ جو ہوا پر غالب آجاتا ہے ، اس کو اپنے ہاتھ سے مسخر کرتا ہے اور اپنی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، نشہ انسان پر غالب آجاتا ہے ، نیند کہ جو نشہ پر غالب آجاتی ہے اور ہم و غم (فکر و پریشانی) کہ جو نیند پر غالب آجاتی ہے۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق : ۴۰۱۴۲۔ الغارات :۱۸۲۱۔ اس مدرک میں یعصمھا بیدہ کی جگہ پر یتقیھا بیدہ آیاہے ۔ اس روایت کوطبرانی نے المعجم الاوسط :۲۷۶۱ میں حارث سے اور اس نے علی سے نقل کیا ہے اور اس میں یعصھا کی جگہ پر یتقی الریح بیدہ آیاہے اور اس سے ھیثمی نے مجمع الزوائد : ۱۳۲۸میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔ کنزالعمال :۱۷۷۶،حدیث ۱۵۲۵۲۔

۱۹۶

پس آپ کے پروردگار کی مخلوقات میں سب سے زیادہ سخت ہم و غم اور فکر و پریشانی ہے ۔

خوارزمی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابی سعید خدری سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا : اقضی امتی علی ابن ابی طالب(۱) م یری امت میں سب سے بڑا قاضی علی ابن ابی طالب ہے ۔

ابن سعد نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوہریرہ ، ابن عباس اور سعید بن جبیر و عطا سے روایت نقل کی ہے کہ ان حضرات نے کہا کہ عمر کا قول ہے ''علی اقضانا''(۲) ہمارے درم یان سب سے بڑا قاضی علی ہے ۔

احمد نے اپنی اسناد کے ساتھ ابو البختری سے اور اس نے علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خدا نے مجھے جوانی ہی کے عالم میں یمن میں حکومت کے لیے بھیجا ، میںنے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی مجھے ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں کہ جس کے درمیان مجھے قضاوت کرنا ہے جب کہ میں علم قضاوت سے کچھ نہیں جانتا پس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا : میرے قریب آؤ ، میں آپ کے پاس گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک کو م یرے سینے پر رکھا اور فرمایا : خدایا اس سینے کو کشادہ فرما اور اس کی زبان کو محفوظ رکھ۔

____________________

(۱) مناقب خوارزمی ۱۸۔ امالی صدوق ۶۴۲ (بنقل از سلمان فارسی)۔تاریخ دمشق : ۴۲ ۲۴۱ (بنقل از ابن عباس)۔

(۲) طبقات ابن سعد : ۲ ۳۳۹ـ ۳۴۰۔ اور دیکھیے : مسند احمد :۵ ۱۱۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ۷ ۱۸۳، حدیث ۳۔ مستدرک حاکم :۳ ۳۰۵۔ مناقب خوارزمی ۹۲۔ البدایة و النہایة : ۷ ۲۹۷۔

۱۹۷

علی نے فرمایا: اس وقت کے بعد سے میں نے کبھی قضاوت کے سلسلے میں دو شخصوں کے بارے میں بھی شک نہیں کیا اور کسی مسئلہ میں بھی مردد نہیں ہوا۔(۱)

ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ فرائض دین اور واجبات و محرمات الہٰی کے متعلق سب سے زیادہ عالم علی ابن ابی طالب ہیں ۔(۲)

اور ابن عبد البر نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا :''اقضاکم علی '' (۳) تم م یں سب سے بڑا قاضی علی ہے ۔

عبداللہ ابن عمر سے نقل ہوا ہے اس نے کہا ایک شخص ابوبکر کے پاس آیا اور کہا : کیا آپ کی نظر میں زنا مقدر اور تقدیر الہٰی میں ہے ؟ ابو بکر نے جواب دیا : ہاں، اس شخص نے کہا تو بس خداوندعالم نے میرے مقدر میں زنا لکھا ہے، پھر اس کو انجام دینے پر مجھ پر عذاب کرے گا ؟ ابوبکر نے کہا : ہاں ، اے لخناء کے بیٹے اگر میرے پاس کوئی ہوتا تو اس کو حکم دیتا کہ تیرے ناک کان کاٹ ڈالے ۔(۴)

____________________

(۱) دیکھیے : مسند احمد :۱ ۸۳۔ سنن ابن ماجہ :۲ ۷۷۴، حدیث ۲۳۱۰۔ مستدرک حاکم: ۳ ۱۳۵۔

(۲) تاریخ دمشق : ۴۲ ۴۰۵۔

(۳) الاستیعاب : ۱ ۶۸۔ اور دیکھیے : تفسیر قرطبی : ۱۵ ۱۶۲۔ مقدمہ ابن خلدون : ۱ ۱۹۷۔ جواہر المطالب (ابن دمشقی) :۱ ۷۶۔ غریب الحدیث (خطابی) : ۲ ۲۰۱۔

(۴) اس حدیث کو لالکائی نے اعتقاد اہل السنة : ۴ ۶۶۲، حدیث ۱۲۰۵ میں نقل کیا ہے اور اس سے کنزالعمال :۱ ۳۳۴، حدیث ۱۵۳۷ و تاریخ الخلفا ء :۱ ۹۵ میں منقول ہے ۔

۱۹۸

اس طرح کی باتیں ہمیں علی کے یہاں نہیں ملتیں بلکہ وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ جو سوال کرنا ہے مجھ سے سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ، چونکہ جو عالم ہوتاہے وہ سوال کرنے پر گھبراتانہیں ہے، بلکہ سوالات اس کو خوشحال کرتے ہیں ، اس شخص کے برعکس کہ جو مسائل شرعی سے واقف نہیں ہے اس کو آپ دیکھتے ہیں کہ سوالات سے ڈرتا ہے اور یہ حالت ابو بکر و عمر کے یہاں مشاہدہ کی جاسکتی ہے ۔

ابوعثمان نہدی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے بنی یربوع یا بنی تمیم خاندان سے (والذاریات)، (والمرسلات ) اور (والنازعات ) کے معنی اور تفسیر یا ان میں سے کسی ایک کے معنی یا تفسیر کے متعلق سوال کیا ۔

عمر نے کہا : اپنے سر سے عمامہ کو اتار اس نے سر سے عمامہ اتار لیا تو اس کے سر کے لمبے بال نظر آنے لگے ۔ عمر نے کہا: خدا کی قسم اگر تیرا سر منڈا ہوا ہوتا تو تیرا سر توڑ دیتا ۔

اس کے بعد اس کو ابوموسی اشعری کے پاس بھیجا اور اہل بصرہ کو لکھا،اور ہم سے بھی کہا کہ اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑدیں ، پس اگر ہم سو ( ۱۰۰)افراد ہوتے اور وہ ہمار ی طرف آتا تو سب آپس میں متفرق ہوجاتے اس شخص کا نام صبیغ بن عسیل تھا ۔(۱)

ابوبکر و عمر کی اس سیرت کے مقابل دیکھتے ہیں کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوطفیل سے روایت بیان کی ہے کہ اس نے کہا کہ میںنے امیرالمؤمنین علی کودیکھا کہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : پوچھو جو پوجھنا چاہواس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ۔

____________________

(۱) مسائل احمد :۱ ۴۷۸، حدیث ۸۱۔

۱۹۹

میرے بعد کوئی میری طرح جواب دینے والا نہیں پاؤ گے ۔پس ابن کوا کھڑا ہوا اور اس نے کہا اے امیر المؤمنین( والذاریات ذرواً ) (۱) کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا ہوائیں ۔ پھر اس نے سوال کیا( والحاملات وقراً ) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :بادل ۔ پھر اس نے سوال کیا( فالجاریات یسرا ) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :کشتیاں ۔

پھر اس نے سوال کیا( والمقسمات امراً) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ملائکہ ۔ پھر اس نے سوال کیا( الذین بدلوا نعمة الله کفراً واحلوا قومهم دار البوار جهنم ) (۲) ان لوگوں نے نعمت الہٰ ی کو کفر سے تبدیل کردیا اور اپنی قوم کے لیے ایک ہلاک ہونے والے گھر کا انتخاب کیا ۔وہ لوگ کون ہیں؟آپ نے فرمایا : منافقین قریش۔

حاکم کا بیا ن ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے ۔(۳)

____________________

(۱) سورہ ذاریات (۵۱) آیت ۱ـ۴

(۲) سورہ ابراہیم (۱۴) آیات ۲۸ـ۲۹۔

(۳) مستدرک حاکم :۲ ۴۶۷۔ اور دیکھیے اس کے طرق و اسانید کو عمدة القاری : ۱۹ ۱۹۰ میں تغلیق التعلیق ۳۱۸ـ ۳۱۹۔ کنزالعمال :۲ ۵۶۵،حدیث ۴۷۴۰۔ الاحادیث المختارہ :۱۲۴۲و ۱۷۶و ۲۹۸، حدیث ۴۹۴ و ۵۵۶ و۶۷۸۔ مسند شامی :۲ ۹۶ ، حدیث ۶۲۰۔ تاریخ دمشق : ۲۷ ۹۹۔ المعیار والموازنہ ۲۹۸۔ فتح الباری :۸ ۵۹۹۔ الغارات :۱ ۱۷۸۔ احتجاج طبرسی :۱ ۳۸۶۔ جواہر المطالب :۱ ۳۰۰ ۔ اور بعض مصادر میں حدیث طولانی ہے اور اس میں سوال زیادہ ہیں کہ جن کے امیر المؤمنین نے جواب دیے ہیں ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307