ہفتم :ـ ایمان واقعی اور فنا فی اللہ ہونا ۔
خداوند عالم کی بندگی کی مہمترین خصوصیت یہ ہے کہ انسان ذات خدا میں فنا ہوجائے ، پیغمبرامین کی اطاعت میں کمال تک پہنچ جائے اور دعوت اسلام کی نشر و اشاعت میں اپنی جان و مال سے انتہائی کوشش کرے ۔
نیز مصدق وہ شخص ہے کہ جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کو اپنے عمل سے ثابت کردکھائے اور اپنی زندگی کے ڈھانچے میں اس کو مجسم بناکر پیش کرے اور صدیق وہ شخص ہے کہ جس کا مقام و مرتبہ اس سے بھی بلند و بالا ہو،وہ فناء کی انتہا کو پہنچ جائے نہ یہ کہ اپنی ذاتی مصلحت اور خود غرضی کو مقدم رکھے جیسا کہ یہ کارنامے ابوبکر کی سیرت میںمشاہد ہ کرتے ہیں۔
حضرت امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ آپ نے ایک روز جنگ صفین کے دوران فرمایا:
ہم لوگ حضرت پیغمبراکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ہمراہ جنگوں میں شریک تھے اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے باپ ، بیٹے ، بھائی اور چچاؤں کو قتل کرتے اور ان کو خاک و خون میں غلطاں کرتے تھے اور یہ عزیز واقارب و رشتہ داروں کا قتل ہمیں رنجیدہ خاطر نہیں کرتا تھا بلکہ ہمارے ایمان میں استواری واستحکام پیدا ہوتا چونکہ ہم راہ حق پر ثابت قدم اور گامزن تھے ہم سختیوں میں صابر اور دشمن سے جہاد میں کوشا رہتے ، کبھی کبھی ہم میں سے اور دشمن کے لشکر سے ایک ایک و تنہا تنہا کی جنگ ہوتی اور بالکل ایسے ہی کہ جیسے دو بجھار(سانڈ) آپس میں لڑپڑے ہوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے اور ایک کوشش کرتا کہ دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار دے اور اس کو مار کے ہی دم لے ، کبھی کامیابی ہمارے نصیب میں آتی تو کبھی دشمن کامیاب ہوجاتا ۔
چونکہ خداوندعالم نے ہمیںآزمالیا اور اچھی طرح پرکھ لیا ہمارے صدق و صفائی کودیکھ لیا تو ہمارے دشمن کو ذلیل کردیا ہمارے پرچم کو سر بلند کردیا جیسا کہ اب اسلام ہر شہر و قریہ اور ہر علاقہ میں پھیلا ہوا ہے اور دور دراز تک حکومت اسلامی قائم ہے ۔
میری جان کی قسم اگر ہماری رفتار آپ لوگوں کی طرح ہوتی تو نہ دین کا ستون قائم ہوتااورنہ ایمان کا درخت ہرا بھرا ہوتا، خدا کی قسم اس کے بعد خون جگر پیوگے پشیمانی و شرمندگی اٹھاؤ گے ۔
____________________