"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 48110
ڈاؤنلوڈ: 5555

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48110 / ڈاؤنلوڈ: 5555
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابن شہر آشوب راقم ہے کہ خداوندعالم کا فرمان ہے( ولو ردوه الی الرسول والی اولی الامر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم ) (۱)

(اگر اس کو رسول اور صاحبان امر کی طرف پلٹا دیں تو یقینا ایسے افراد ہیں کہ جو اس کو درک کرلیتے ہیں اور اس کی اچھائی و برائی اور حق و باطل کو جانتے ہیں )

یہ آیت آئمہ طاہرین کی عصمت پر دلالت کرتی ہے چونکہ اس آیت میں خبر دی گئی ہے کہ جس طرح پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مسائل بیان کیے جائیں تو وہ حق و باطل اور اچھائی و برائی کو سمجھ لیتے ہیں اسی طرح صاحبان امر بھی ہیں ۔ اور معصوم کے علاوہ کسی بھی چیز کا علم بحد یقین ممکن نہیں ہے اور نیز یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ خدا وند ایسے کی نظر کو مطلقاً صحیح سمجھے کہ جو خود خطا ء و غلطی سے پاک نہ ہو چونکہ اس صورت میں امر الہٰی کا قبیح ہونا لازم آئے گا۔

اور جب یہ آیت اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے تو ان کا امام ہونا بھی ثابت ہے ۔ چونکہ کسی نے بھی عصمت و امامت کے درمیان فرق بیان نہیں کیا ہے اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ آیت آل محمد کی شان میں ہے ۔

روایت میں ہے کہ یہ آیت بارہ الہٰی حجتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔(۲)

____________________

(۱) سورہ نساء (۴) آیت ۸۳۔

(۲) مناقب ابن شہر آشوب :۱ ۲۴۷ـ۲۴۸۔

۲۰۱

شاعر کہتا ہے :

علی هو الصدیق علامة الوری (۱)

و فاروقه ا ب ین الحطیم و زمزم

علی ہی صدیق ہے اور کائنات میں سب سے زیادہ عالم، اورباب حطیم و زمزم کے درمیان حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے۔

اور دوسرا شاعر کہتا ہے :

فقال من الفاروق ان کنت عالما

فقلت الذی کان للدین یظه ر

علی ابو السبطین علامة الوری

وما زال للاحکام یبدی و ینشر (۲)

کہا کہ اگر جانتے ہو تو بتاؤ کہ حق و باطل کے درمیان فیصلے کرنے والا کون ہے تو میں نے کہا وہ کہ جو دین کو آشکار و و اضح کرتا ہے ، علی ،سبطین حضرات حسن و حسین کے والد بزرگوار پوری کائنات میں سب سے زیادہ عالم کہ جو ہمیشہ احکام الہٰی کو بیان کرتے ہیں اور منتشر فرماتے ہیں ۔

____________________

(۱) مناقب ابن شہر آشوب : ۲ ۲۸۷،ابن شہر آشوب نے اس شعر کو قمی نامی شاعر کے نام سے منسوب کیا ہے ۔

(۲) مناقب ابن شہر آشوب : ۲ ۲۸۷۔ اس ماخذ میں یظھرکے بجائے مظھر آیاہے۔

۲۰۲

ششم : صدیقیت کا نبوت کی طرح ہونا

صدیقیت کی علامت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نبوت کی مانند ہواور اس کی ہم فکر و ہم صنف ہو چونکہ خداوندعالم کا ارشاد ہے۔

( ومن یطع الله و الرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهدا والصالحین و حسن اولائک رفیقا ) ۔(۱)

جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان حضرات کے ساتھ ہیں کہ جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں، انبیا، صدیقین، شھدا، اورصالحین میں سے اور وہ بہترین دوست و ہمدم ہیں ۔

یہ مانند و مثل ونظیر ہونا ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علی کے درمیان توبہت واضح و روشن ہے ۔ لیکن پیغمبر اکرم اور اس شخص کے درمیان کہ جس کو اس زمانے والوں نے صدیق کا لقب دیا ہے اصلاً نہیں پایا جاتا ، چونکہ جب سورہ برائت کی دس آیات نازل ہوئیں تو پیغمبراکرم نے ابو بکر کو بلایا اور ان کو یہ آیات دے کر بھیجا تاکہ مکہ والوں پر ان آیات کی تلاوت کریں ابھی ابوبکر کچھ ہی دور گئے تھے کہ جبرئیل، پیغمبراکرم پر نازل ہوئے اور کہااے محمد آپ کے پروردگار نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے :

''لایؤدی عنک الاانت او رجل منک '' آپ کی طرف سے آیات الٰہی کو ادا نہیں کرسکتا اور نہیں پہنچا سکتا مگر خود آپ یا وہ شخص کہ جو آپ سے ہو (یعنی آپ کانفس و جان اور آپ کی مثل و ھم نظیرہو)

تو فورا ہی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عل ی کو بلایا اور فرمایا میرے ناقہ عضباء پر سوار ہوکر اپنے آپ کو ابوبکر تک پہنچا دو ۔اور سورہ برأت کو اس سے لے لو، اس سورہ کو مکہ لے جاؤ اور مشرکین کے عہد و پیمان کو خود انہی پر پھینک دو ۔ اور ابوبکر کو اختیار دینا کہ چاہے تو وہ آپ کے ساتھ چلے یا میرے پاس واپس آجائے ۔

____________________

(۱) سورہ نسائ(۴) آیت ۶۹۔

۲۰۳

امیرالمؤمنین، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ناقہ عضباء پرسوار ہوئے اور چلے یہاں تک کہ ابوبکر تک پہنچ گئے ابوبکر نے جیسے ہی آپ کو دیکھا تو آپ کے آنے سے پریشان ہوئے اور آپ کے پاس آکر کہا اے ابو الحسن کس لیے آئے ہو ؟ کیا میرے ساتھ چلنے کے لیے آئے ہو یا کسی اور کام کے لیے ؟

امیر المؤمنین علی نے فرمایا : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے حکم د یا ہے کہ اپنے آپ کو تم تک پہنچاؤں اور سورہ برأت کو آپ سے لے لوں اور اس کو مشرکین کے عہد کے ساتھ ان کے منھ پر ماروں اور مجھ سے فرمایا ہے کہ آپ کو اختیار دوں کہ چاہوتو میرے ساتھ چلو یا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹ جاؤ ۔ ابوبکر نے کہا بیشک میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹ رہاہوں ۔

پس ابوبکر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور کہا اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہلے مجھے اس کام کے ل یے مناسب سمجھا اور انتخاب کیا کہ تمام لوگوں کی نگاہیں مجھ پر جم گئیں اور پھر جب میں اس کام کو انجام دینے کے لیے چلا تو وہ کام واپس لے لیا میرے سلسلے میں کیا پیش آیا ؟ کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : نہیں لیکن مجھ پر جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی جانب سے یہ پیغام مجھے دیا کہ میرے جانب سے آیات الہٰی کو کوئی ادا نہیں کرسکتا مگر میں خود یا وہ شخص کہ جو مجھ سے ہو ،'' و علی منی و لا یؤد ی عنی الا علی '' (۱)

اور علی مجھ سے ہے اور میری طرف سے کوئی پیغام الہٰی کوسوائے علی کے ادا نہیں کرسکتا ۔

____________________

(۲) ارشاد مفید :۱ ۶۷۔ کشف الیقین (علامہ حلی ) ۱۷۵۔

۲۰۴

یہ کارنامہ اول ذی الحجہ سال ہفتم ہجری کو پیش آیا اور امام علی نے اس کو روز عرفہ اور روز نحر، عید قربان لوگوں پر بیان کیا ،اور یہ وہی فرمان ہے کہ جس میں خدا وندعالم نے ابراہیم اور آپ کی اولاد کو دعوت دی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ۔

( طهر بیتی للطائفین و العاکفین و الرکع السجود ) (۱)

میرے گھر کو طواف کرنے والوں،اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ گذاروں کے لیے پاک کرو۔

پس خداوندمتعال نے سب سے پہلے جناب ابراہیم کو دعوت دی( واذن فی الناس بالحج ) (۲)

لوگوں کے درمیان حج کی انجام دہی کے لیے آواز دو ۔اور ان کے بعد علی ولی کو سورہ برأت کے پہنچانے کے لیے انتخاب فرمایا ۔

اور یہ واضح ہے کہ عہد و پیمان اسی سے مربوط ہوتا ہے کہ جس نے باندھا ہو اور وہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عہد تھا تو یا رسول خدا تشریف لے جائیں یا وہ کہ جو آپ کے قائم مقام ہو آپ کے مثل و نظیر ہو اور مقام و مرتبہ اور صلاحیت و لیاقت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی طرح ہو تو صرف علی ہی تنہا وہ فرد ہیں کہ جن میں اس امت کے درمیان یہ تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ(۲) آیت ۱۲۵۔

(۲) سورہ حج(۲۲) آیت ۲۷۔

۲۰۵

اس لیے کہ فقط وہ ہی نفس اور جان پیغمبر ہیں(۱) اور آپ کے بھائی اور آپ کے مثل و نظیر ہیں ۔(۲)

آپ کی بیٹی کے شوہر اور کفو ہیں ۔(۳) اور آپ کے نزد یک سب سے زیادہ پیارے و محبوب ہیں ۔(۴)

اس الہٰی فرمان میں کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ابلاغ ہوا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابوبکر کے یہاں قرآن کریم کی چند آیات کے پہنچانے تک کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر وہ کس طرح مسلمانوں پر امامت و رہبری کی صلاحیت و شائستگی رکھتے ہیں ؟۔

اور امام علی کے ہوتے ہوئے ان کو کس طرح لقب صدیق دیا جاسکتا ہے ۔

بہر حال خدا اور رسول خدا کے نزدیک ان دونوں کی یہ حالت ہے ۔

اوروہ نصوص کہ جو امام علی و حسن و حسین اور حضرت زہرا کے بارے میں پائی جاتی ہیں ان کو ذرا غور سے دیکھیں تو یقینا ان حضرات کو رسول اکرم کے ہم پلہ پائیں گے ۔

____________________

(۱) اس بنیاد پر خداوندعالم کا ارشادہے (وانفسنا و انفسکم )آپ اپنے نفس و جان کو لاؤ اور ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں ۔ (سورہ آل عمران (۳) آیت ۶۱)۔

(۲) امالی طوسی۶۲۶،حدیث ۱۹۲۔ امالی مفید۶،مجلس اول۔ کشف الغمہ ۴۱۲۔بحار الانوار: ۳۹ ۲۴۰۔

(۳) مسند ابی یعلی :۳۳۸۱،حدیث ۵۰۳۔ شرح الاخبار : ۳ ۲۸، حدیث ۹۶۴۔

(۴) تاریخ دمشق : ۳۷ ۴۰۶ ۔ و جلد: ۴۲ ۲۴۵۔ مناقب خوارزمی ۲۲۲۔ خصال صدوق :۲ ۵۵۴۔ امالی طوسی ۳۳۳، حدیث ۶۶۷۔

۲۰۶

بلکہ امیرالمومنین وصی پیغمبراکرم میں انبیا سے شباہت پائی جاتی ہے۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :

کہ جو بھی آدم کو ان کے علم میں ، نوح کو ان کی حکمت میں اورابراہیم کو ان کے حلم میں دیکھنا چاہے تو وہ علی کو دیکھے ۔(۱)

ابو الحمرا ء سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا: جو شخص بھی چاہے کہ علم آدم ، فہم نوح کو دیکھے ، یحی کے زہد و تقوی اور، موسی کی شجاعت و دلاوری کودرک کرے پس اس کو چاہیے کہ علی کو دیکھے ۔(۲)

بیاض رقمطراز ہے کہ اس کلام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ابن جبیر نے ابن عباس کی سند سے بیان کیا ہے کہ جو بھی آدم کو ان کے علم میں، نوح کو ان کی فہم و عقل میں، موسی کو ان کی مناجات میں، عیسی کو ان کی خاموشی میں اور محمد کو ان کے تمام صفات میں دیکھنا چاہے تو وہ اس شخص کو دیکھے ، اس وقت سب کی گردنیں دراز ہوئیں اور نگاہیں اٹھیں تو دیکھا وہ شخص علی ابن ابی طالب ہیں ۔(۳)

٭رسول خدا نے علی کو آدم سے علم میں تشبیہ دی ہے چونکہ خداوندعالم نے تمام اسماء (تمام موجودات اور حقائق عالم کے نام) کی تعلیم آدم کودی( علم آدم الاسماء کلها ) (۴) ۔

____________________

(۱) اور محب طبری : ۳/ ۲۴۹ میں آیا ہے کہ جو یوسف کو ان کے حسن و جمال میں ۔

(۲) مناقب خوارزمی /۴۰ فصل ۷۔ حاکم نے شواہد التنزیل :۱/ ۱۸۰ میں بھی روایت نقل کی ہے ۔

(۳) الصراط المستقیم:۱ ۱۰۳۔

(۴) سورہ بقرہ (۲)آیت ۱۳۔

۲۰۷

اس بنا پر کوئی حادثہ، کوئی واقعہ اور کوئی شیٔ بھی نہیں ہے کہ جس کا علم علی کے پاس نہ ہو، اور ان کے معانی و مفاہیم کو آپ نہ سمجھتے ہوں ، خدا وندعالم نے آدم کو تراب سے خلق فرمایا جب کہ رسول خدا نے علی کا لقب ابوتراب رکھا ۔

٭پیغمبراکرم نے علی کو جناب نوح کی فہم و حکمت میں مثل و نظیر قرار دیا ہے چونکہ جناب نوح نے اپنی قوم کے ساتھ بہت حلم و بردباری سے کام لیا اور کہا پروردگارا میری قوم کی ہدایت فرما ، چونکہ وہ نادان ہے۔(۱) اور اس ی طرح امیر المومنین کی زبان مبارک پر بھی یہ کلمات جاری ہوئے لہذا فرمایا:''فصبرت وفی العین قذی و فی الحلق شجی'' (۲)

میں نے صبر کیا حالانکہ میری آنکھوں میں خش و خاشاک اور میرے حلق میں ہڈی تھی ۔

نوح نے اپنی قوم پران کی بدکرداری ، تجاوز اور فسق و فجور کی انتہا پر پہنچنے کے بعد اور یہ جاننے کے بعد کہ یہ قابل اصلاح نہیں ہیں لعنت کی لہذا کہا :( رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا ) (۳)

پروردگارا روی زمین پر ایک گھر بھی کافروں کا باقی نہ رکھ۔

امیرالمومنین نے بھی اسی طرح نوح کے کلام کی مانند ایک جانگذار شکوہ فرمایا لہذا ارشاد ہوا :

____________________

(۱) ذکر اخبار اصبہان:۴۹۲، باب غین۔ فتح الباری :۱۲ ۲۵۰ ۔ الدر المنثور : ۳۰ ۹۴۔

(۲) نہج البلاغہ :خطبہ شقشقیہ،خطبہ۳۔

(۳) سورہ نوح (۷۱)آیت ۲۶۔

۲۰۸

''اللهم انی قد مللتهم و ملونی و سئمتهم و سئمونی، فابدلتنی بهم خیراًمنهم وابدلهم بی شراً منی'' (۱)

پروردگارا ، بیشک یہ لوگ مجھ سے بیزار ہیں اور میں بھی ان سے خستہ ہوچکا ہوں یہ لوگ مجھ سے دل تنگ و عاجز ہیں اور میں بھی ان سے دل شکستہ ہوچکا ہوں ، پالنے والے میری جگہ ان کو کوئی برا اور بدتر حاکم نصیب فرمااور ان کی جگہ میرے لیے کوئی بہتر رعایا و امت قرار دے۔

٭پیغمبراکرم نے امیرالمومنین علی کو حضرت ابراہیم سے تشبیہ دی ہے چونکہ خداوندعالم نے بچپنے ہی میں ان کے لیے اپنی دلیلیں اور براہین پیش فرمائے جب کہ وہ گھر سے باہر تشریف لائے اور اپنے چچا اور قوم سے مناظرہ کیا جیسا کہ خداوندکریم کے کلام میں مذکور ہے ۔

( یاابت لم تعبد مالایسمع ولا یبصر ولا یغنی عنک شیئا ) (۲)

اے میرے بابا (چچا آذر)کیوں آپ ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو کہ جو نہ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے اور نہ ہی آپ کو کسی طرح کا کوئی فائدہ پہنچاتی ہے ۔

( اذ قال لابیه و قومه ماذا تعبدون ) (۳)

جب کہ ابراہیم نے اپنے والد (چچا آذر)اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ :۶۵۱،خطبہ ۲۵۔ اور دیکھیے : الغارات:۲ ۶۳۶۔ شرح الاخبار:۲ ۲۹۰۔

(۲) سورہ مریم(۱۹)آیت ۴۳۔

(۳) سورہ صافات(۳۷)آیت ۸۵۔

۲۰۹

( فلما جن علیه اللیل رأی کوکباً ) (۱)

جب رات ہوگئی اور ابراہیم نے ستارہ کو دیکھا ۔ ۔ ۔

( وتلک حجتنا آتیناها ابراهیم علی قومه نرفع درجات من نشائ ) (۲)

یہ ہماری حجتیں ہیں کہ جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم پر پیش کرنے کے لیے عطا کیں اورہم جس کے مرتبے کوچاہتے ہیں بلند کرتے ہیں ۔

اور یہی حال امام علی علیہ السلام کا ہے جیسا کہ خدا وندعالم نے جناب ابراہیم کو زمانہ طفلی میں اور سن بلوغ سے پہلے ہی اپنی آیات و دلائل سے نوازا اور انہوں نے اپنی قوم سے مناظرہ کیا ، بتوں کو توڑا ، خداوندعالم نے ابراہیم کو حکم دیا کہ میرے گھر کعبہ کو پاک کرو (وطهر بیتی )(۳)

جب کہ علی کے گھر کو خود خداوندعالم نے پاک و پاکیزہ قرار دیا (ویطهرکم تطهیرا )(۴)

اے اہل بیت، خدا نے تمہیں پاک و پاکیزہ رکھا جو پاک رکھنے کا حق ہے ۔

اسی طرح کا کلام خداوندعالم نے حضرت یحی کے بارے میں ارشاد فرمایا( یا یحی خذ الکتاب بقوة ) (۵) اے یحی قدرت و طاقت سے کتاب کو پکڑلو۔

____________________

(۱) سورہ انعام(۶)آیت ۷۶۔

(۲) سورہ انعام(۶)آیت ۸۳۔

(۳) سورہ حج(۲۲) آیت ۲۶۔

(۴) سورہ احزاب(۳۳) آت ۳۳۔

(۵) سورہ مریم(۱۹)آیت ۱۲۔

۲۱۰

خداوندمتعال نے جناب یحی کو کم سنی ہی میں توریت کا علم عطا کیا ۔

( وآتیناه الحکم صبیاً ) (۱) اور ہم نے یحی کو بچپنے ہی میں نبوت عطا کی ۔

( وبراً بوالدیه ولم یکن جباراً عصیاً ) (۲) اور یحی اپنے والدین کے حق میں بہت نیک و شریف تھے اور نافرمانی و ظلم و زبردستی نہیں کرتے تھے ۔

( وسیداً و حصوراًو نبیاً من الصالحین ) (۳)

اور یحی بزرگوار و سردار، پاک دامن و باوقار اور نیک و صالحین میں سے نبی تھے ۔

روایت میں ہے کہ زکریا نے اپنے بیٹے یحی کو روتے ہوئے دیکھا تو آپ نے کہا بیٹا یہ آپ کی کیا حالت ہے ؟ یحی نے جواب دیا : بابا جان آپ نے مجھے با خبر کیا ہے کہ جبرئیل نے آپ سے فرمایا کہ جنت و جہنم کے درمیان ایک بہت بڑا آگ کا میدان ہے کہ جس کو صرف راہ خدا میں آنسو ہی بجھا سکتے ہیں ۔(۴)

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹)آیت ۱۲۔

(۲) سورہ مریم(۱۹)آیت ۱۴۔

(۳) سورہ آل عمران(۳)آیت ۳۹۔

(۴) یہ حدیث جیسا کہ متن میں آئی ہے اس طرح کسی بھی ماخذ میں نہیں مل سکی لیکن بحار الانوار: ۱۶۵۱۴، حدیث ۴ کے تحت واردہے؛

''یا بنی مایدعوک الی هذا ؟ انما سألت ربی ان یهبک لی لتقربک عینی ، قال: انت امرتنی بذالک یا ابه ! قال: و متی ذالک یا بنی ؟ قال: الست القائل ان بین الجنة و النار لعقب لایجوزها الاالبکاوون من خشیة الله '' ۔۔۔ اگلے صفحہ پر ۔۔۔

۲۱۱

اور حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی بھی یہی حالت و منزلت ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق اور امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا امام علی ابن الحسین زین العابدین جب کبھی بھی امیر المومنین کی زندگانی پر نظر کرتے اور آپ کی عبادت کو ملاحظہ فرماتے توکہتے :

''من یطیق هذا'' (۱)

کس میں طاقت ہے کہ اس قدر عبادت کرسکے اور عبادت میں علی کا مقابلہ کرسکے۔

٭پیغمبر اکرم نے حضرت علی کو جناب موسی سے شجاعت و دلیری میں تشبیہ دی خداوندعالم جناب موسی کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے ۔

( فاستغاثه الذی من شیعته علی الذی من عدوه فوکزه موسی فقضی علیه ) (۲) موس یٰ کے شیعہ نے اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے لیے موسی کو مدد کے لیے بلایا تو موسی نے اس دشمن کے ایک گھونسا مارا اور وہ مرگیا۔

____________________

۔۔۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔

زکریا نے کہا اے میرے بیٹے یہ آپ نے اپنی حالت کیا بنا رکھی ہے جب کہ میں نے پروردگار سے تجھے اس لیے مانگا ہے تاکہ میرا دل ٹھنڈا ہو اور میری آنکھوں کی روشنی قرار پائے ۔ یحی نے جواب دیا اے میرے بابا جان آپ نے مجھے اس کام کے لیے آمادہ فرمایا ، زکریا نے سوال کیا میرے بیٹے کب میں نے ایسا کیا ؟ یحی نے جواب دیا تو کیا آپ یہ نہیں فرماتے کہ جنت و جہنم کے درمیان ایک بہت بڑا آگ کا میدان ہے کہ اس سے صرف وہی گذر سکتا ہے جو خوف خدا میں بہت زیادہ گریہ و زاری کرتا ہو(م)۔

(۱) روضہ کافی : ۸ ۱۳۱، ذیل حدیث ۱۰۰۔

(۲) سورہ قصص(۲۸) آیت ۱۵۔

۲۱۲

موسی شجاعت و دلیری میں مشہور تھے اور یہی حال علی ابن ابی طالب کا ہے کہ وہ راہ خدا میں ثابت قدم تھے شکست نہ کھانے والی جنگیں کرتے ،دین مبین اسلام کے دفاع میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خاطر قریش اور عرب کے بڑے بڑے پہلوانوں کو قتل کیا ۔

٭ حضرت علی کی جناب عیسی سے تشبیہ کے متعلق نسائی نے اپنی کتاب الحضائص الکبری میں حضرت علی سے روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا : اے علی تیری مثال عیسی کی طرح ہے ، یہودیوں نے ان سے دشمنی کی یہاں تک کہ ان کی والدہ پر تہمتیں لگائیں اور نصاری نے ان سے محبت کی یہاں تک کہ ان کو وہ مقام بھی دیا کہ جو ان کا نہیں تھا ۔(۱)

پس علی علیہ السلام کی عیسی سے شباہت ان کے کتاب کے علم کی وجہ سے ہے کہ جو خداوندعالم نے ان کو کم سنی اورسن بلوغ سے پہلے ہی عطا فرمایا لہذا ارشاد ہوا :

( ویعلمه الکتاب والحکمة والتوراة والانجیل ) (۲)

خداوندعالم نے عیسی کو کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دی اور علی عیسی کی طرح خدا کے مطیع و فرمانبردار بندے ہیں ، جیسا کہ ارشاد ہوا :

( انی عبدالله آتانی الکتاب ) (۳)

میں خدا کا بندہ ہوں اور مجھے کتاب عطا کی گئی ہے ۔

____________________

(۱) مسند احمد : ۱ ۱۶۰۔ مجمع الزوائد : ۹ ۱۳۳۔ خصائص امیر المؤمنین(نسائی) ۱۰۶۔

(۲) سورہ آل عمران (۳) آیت ۴۸۔

(۳) سورہ مریم (۱۹) آیت ۳۰۔

۲۱۳

اور اسی طرح دسیوں صفات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ جن میںحضرت علی، حضرات آدم ، موسی ، ابراہیم ، عیسی ، نوح ، یحی ، ایوب ، یوسف ، سلیمان ، اور داؤد وغیرہ سے شباہت رکھتے ہیں ۔

بصائر الدرجات میں حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ''کانت فی علی سنة الف نبی ''(۱)

حضرت علی کے یہاں ایک ہزار نبیوں کی سنتیں پائی جاتی تھیں۔

____________________

(۱) بصائر الدرجات ۱۳۴۔

۲۱۴

ہفتم :ـ ایمان واقعی اور فنا فی اللہ ہونا ۔

خداوند عالم کی بندگی کی مہمترین خصوصیت یہ ہے کہ انسان ذات خدا میں فنا ہوجائے ، پیغمبرامین کی اطاعت میں کمال تک پہنچ جائے اور دعوت اسلام کی نشر و اشاعت میں اپنی جان و مال سے انتہائی کوشش کرے ۔

نیز مصدق وہ شخص ہے کہ جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کو اپنے عمل سے ثابت کردکھائے اور اپنی زندگی کے ڈھانچے میں اس کو مجسم بناکر پیش کرے اور صدیق وہ شخص ہے کہ جس کا مقام و مرتبہ اس سے بھی بلند و بالا ہو،وہ فناء کی انتہا کو پہنچ جائے نہ یہ کہ اپنی ذاتی مصلحت اور خود غرضی کو مقدم رکھے جیسا کہ یہ کارنامے ابوبکر کی سیرت میںمشاہد ہ کرتے ہیں۔

حضرت امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ آپ نے ایک روز جنگ صفین کے دوران فرمایا:

ہم لوگ حضرت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جنگوں میں شریک تھے اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے باپ ، بیٹے ، بھائی اور چچاؤں کو قتل کرتے اور ان کو خاک و خون میں غلطاں کرتے تھے اور یہ عزیز واقارب و رشتہ داروں کا قتل ہمیں رنجیدہ خاطر نہیں کرتا تھا بلکہ ہمارے ایمان میں استواری واستحکام پیدا ہوتا چونکہ ہم راہ حق پر ثابت قدم اور گامزن تھے ہم سختیوں میں صابر اور دشمن سے جہاد میں کوشا رہتے ، کبھی کبھی ہم میں سے اور دشمن کے لشکر سے ایک ایک و تنہا تنہا کی جنگ ہوتی اور بالکل ایسے ہی کہ جیسے دو بجھار(سانڈ) آپس میں لڑپڑے ہوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے اور ایک کوشش کرتا کہ دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار دے اور اس کو مار کے ہی دم لے ، کبھی کامیابی ہمارے نصیب میں آتی تو کبھی دشمن کامیاب ہوجاتا ۔

چونکہ خداوندعالم نے ہمیںآزمالیا اور اچھی طرح پرکھ لیا ہمارے صدق و صفائی کودیکھ لیا تو ہمارے دشمن کو ذلیل کردیا ہمارے پرچم کو سر بلند کردیا جیسا کہ اب اسلام ہر شہر و قریہ اور ہر علاقہ میں پھیلا ہوا ہے اور دور دراز تک حکومت اسلامی قائم ہے ۔

میری جان کی قسم اگر ہماری رفتار آپ لوگوں کی طرح ہوتی تو نہ دین کا ستون قائم ہوتااورنہ ایمان کا درخت ہرا بھرا ہوتا، خدا کی قسم اس کے بعد خون جگر پیوگے پشیمانی و شرمندگی اٹھاؤ گے ۔(۱)

____________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۵۶۔ اور دیکھیے : ارشاد مفید :۱ ۲۶۸۔ کتاب سلیم ابن قیس ۲۴۷۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۴ ۳۳۔

۲۱۵

آپ ہی سے روایت ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا : قریش نے ایسے ایسے میرے قتل کا پروگرام بنایا ہے آج آپ میرے بستر پر سوجاؤ اور میں رات کی تاریکی میں شہر مکہ سے باہر چلاجاؤں چونکہ خداوندعالم نے مجھے اس کا م کے لیے حکم دیا ہے ۔

میں نے آنحضرت سے عرض کیا : میں دل و جان سے حاضر ہوں ، میں آپ کے بستر پر سوگیا رسول خدا نے دروازہ کھولا جبکہ تمام لوگ صبح کے انتظار میں آپ کو قتل کرنے کے لیے آمادہ بیٹھے ہوئے تھے آپ یہ پڑھتے ہوئے باہر نکل گئے( وجعلنامن بین ایدیهم سدا و من خلفهم سدا فاغشیناهم فهم لا یبصرون ) (۱)

ہم نے ان کے سامنے اور پیچھے دیوار حائل کردی اور ان کی آنکھوں کو ڈھانپ دیا ، پس وہ لوگ دیکھ نہیں سکتے ۔

اس طرح پیغمبراکرم ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان لوگوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ یں دیکھا ۔(۲)

نیز حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے ۔

حضرت محمد مصطفی کے وہ اصحاب کہ جو اسرار الہٰی کے خزانہ دار ہیں اور کتاب و سنت کے امانتدار ہیں وہ جانتے ہیں کہ میں نے لمحہ بھر کے لیے بھی خدااور رسول کے فرمان سے منھ نہیں موڑا ، جان و دل سے پیغمبراکرم کی مدد کی اس وقت کہ جب بڑے بڑے پہلوان پچھڑ رہے تھے اور ہر ایک کے قدم لڑکھڑا رہے تھے میں ثابت قدم تھا ۔

____________________

(۱) سورہ یاسین (۳۶) آیت ۹۔

(۲) الخرائج والجرائح :۱ ۱۴۳، حدیث ۲۳۱۔ اختصاص مفید ۱۴۶۔

۲۱۶

اور یہ وہ دلیری و مردانگی تھی کہ جو خداوندعالم نے مجھے عطا فرمائی تھی ۔(۱)

اور آپ نے یہودیوں کے بزرگوں سے ایک گفتگو میں فرمایا :

میں اور میرے چچا حمزہ میرے بھائی جعفر اور میرے چچا زاد بھائی عبیدہ نے خدااور اس کے رسول سے جس بات پر عہد کیا تھا ہم اس پر باقی رہے اور اس کو وفا کیا ، میرے ساتھی اور ہم عہد حضرات نے مجھ سے سبقت کی اور میں خداوندعالم کی مشیت و مصلحت کے تحت پیچھے رہ گیا اور اسی مناسبت سے خداوندعالم نے ارشاد فرمایا :

( من المؤمنین رجال صدقو ا ما عاهدو ا الله علیه فمنهم من قضی نحبه و منهم من ینتظر وما بدّلو تبدیلاً ) (۲)

مومنین میں سے کچھ مرد ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے اپنے پروردگار سے جو عہد کیا اس کو پورا کردکھایا پس ان میں سے کچھ افراد اپنی منزل تک پہنچ گئے اور کچھ ابھی منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی ایجاد نہیں کی ۔

حمزہ ، عبیدہ اور جعفر نے اپنے عہد کو پورا کیا اور عالم جاودانی کی طرف رحلت کرگئے اور میں منتظر ہوں اور میںنے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔(۳)

____________________

(۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۷۔دیکھیے: ینابیع المودة : ۱ ۲۶۵، حدیث ۱۹۔ بحار الانوار :۳۸ ۳۱۹، ح ۳۲۔

(۲) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۲۳۔

(۳) اختصاص مفید ۱۷۴۔ خصال صدو ق ۳۷۶۔ بحار الانوار :۳۱ ۳۴۹۔ تاویل الآیات :۲ ۴۴۹، حدیث ۸۔

۲۱۷

ابن عباس سے منقول ہے کہ علی ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی ہی میں فرماتے تھے کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :

( اف ا ن مات أوقتل انقلبتم علی أعقابکم ) (۱)

کیا اگر پیغمبراکرم مرجائیں یا قتل کردیے جائیں تو آپ اپنے پرانے عقیدے و زمانۂ جاہلیت کی طرف پلٹ جاؤ گے ۔

خدا کی قسم اب جب کہ خداوندعالم نے ہماری ہدایت فرمائی ہے ہم پیچھے نہیں پلٹ سکتے ، خدا کی قسم اگر وہ رحلت فرماجائیں یا قتل کردیے جائیں تو بھی وہ جس چیز کی خاطر لڑتے رہے ہیں میں بھی جب تک زندہ ہوں اس چیز کی خاطر لڑتا رہوں گا ، خدا کی قسم میں آپ کا بھائی، دوست ہوںاور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاوارث ہوں پس م یرے علاوہ کون شخص ان کا ہمدرد ہوگا اور ان باتوں کا حق دار ہوگا ۔(۲)

اس سلسلے میں بہت زیادہ روایات و احادیث ، امیرالمؤمنین ، خود رسول خدا اور حضرت فاطمہ زہرا سے منقول ہیں، نیز اہل بیت و صحابہ سے بھی اس سلسلے میں بہت زیادہ روایات پائی جاتی ہیں ۔

لہذا علی سب سے پہلے ایمان لانے والے شخص ہیں، سب سے پہلے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی، آپ کی رسالت کی تصدیق فرمائی، آخرعمر تک اس پر ثابت قدم رہے اور حضور پاکصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی کسی بھی معاملے میں تکذیب نہیں کی ۔

____________________

(۱) سورہ آل عمران (۳) آیت ۱۴۴۔

(۲) خصائص امیر المؤمنین (نسائی)۸۶۔ المعجم الکبیر:۱۰۷۱، حدیث ۱۷۶۔ مناقب کوفی :۱ ۳۳۹، حدیث ۲۶۵۔ شواھد التنزیل :۱ ۱۷۷، حدیث ۲۴۔ تاریخ دمشق :۴۲ ۵۶۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۲۶۔

۲۱۸

اب ان تمام چیز وں کی طرف انگشت نمائی کرتے ہیں کہ جن کو امیر المؤمنین نے فرمایا ہے تاکہ ان تمام مراحل و مقامات میں ابوبکر کی موقعیت و حیثیت سمجھ سکیں۔:

۱ـ ام یر المؤمنین حضرت علی سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے پہلے نماز بجالائے ، اس سلسلے میں بہت زیادہ کتابیں اور رسالے لکھے گئے ہیں لہذا اس کے بارے میں ہمیں گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے جس کو ضرورت ہو وہ ان کتابوں میں مراجعہ کرے ۔(۱)

۲ـ حضرت عل ی ، خدا اور رسول کی ذات میں فنا تھے اور دین کے مقابلے میںکسی بھی شیٔ کی حیثیت کو نہیں پہچانتے تھے حتی کہ باپ ، بھائی چچا کوئی دین کے مقابلے میںکچھ نہ تھا ، جب کہ یہ خاصیت ہمیں ابوبکر کے یہاں نظر نہیں آتی ، آئندہ چند صفحوںکے بعد ہم ابوبکر کی سیرت کو پیش کریں گے۔

۳ـ عل ی مطیع و فرمانبردار رسول خدا تھے جب کہ یہ صفت ابوبکر پر منطبق نہیں ہے اور اس سلسلے میں یہی کافی ہے کہ رسول خدا نے ابوبکر کو ایک زاہد نما شخص کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ،ابوبکر اس شخص کے قریب پہنچے دیکھا کہ وہ نماز میں مشغول ہے تو خود اپنے آپ سے کہنے لگے کہ نماز قابل احترام ہے اور اسی طرح اس زاہد نما شخص کو چھوڑ آئے اور رسول خدا کے امر کی اطاعت نہیں کی ۔(۲)

____________________

(۱) اس سلسلے میں بیشتر معلومات کے لیے دیکھیے : الغدیر (امینی ) :۳ ۲۲۱ـ ۲۲۴۔

(۲) مسند ابویعلی :۶ ۳۴۱، حدیث ۳۶۶۸۔ حلیة الاولیاء : ۳ ۲۲۷۔ مسند احمد :۳ ۱۵۔ البدایة و النہایة :۷ ۳۳۰۔

۲۱۹

۴ـ حضرت علی دین پر ثابت قدم رہے اور پچھلے آئین و زمانہ جاہلیت کی طرف مراجعہ نہ کیا، جب کہ حضرت فاطمہ زہرا کے خطبہ میں ابوبکر اور ان کی قوم کے پیچھے پلٹنے کے متعلق ثبوت موجود ہیں اور حدیث حوض(۱) اور آیہ انقلاب(۲) میں کچھ ایسے نکات ہیں کہ کہ جو ان کے ارتداد اور اعقاب کی طرف پلٹنے پر دلالت کرتے ہیں ۔

جی ہاں ، ابوبکر کی زندگی پر تھوڑا غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مصلحت کو واجبات الہٰی پر مقدم رکھتے تھے جیسا کہ ان کو اس مصلحت ہی کی بنا پر کہ جب تمام مسلمانوں کا اجماع ہوچکا کہ خالد بن ولید کے زنا ء محصنہ پر قتل اور حد جاری کی جائے لیکن ابوبکر نے یہ کام انجام نہ دیا چونکہ ان کی مصلحت نہ تھی جب کہ عمر ابن خطاب تک بھی اس فعل پر خالد بن ولید کے قتل کو لازم جانتے تھے چونکہ اس نے مالک بن نویرہ کی زوجہ سے عدہ کے دوران زنا کیا تھا ۔ لیکن ابوبکر نے اس پر حد جاری کرنے سے خودداری کی اور یہ کہا کہ اے عمر ، خالد نے اجتہاد کیا اور خطا کی ، اپنی زبان کو خالد کے سلسلے میں بند رکھو بیشک میں اس تلوار کو کہ جس کو خدا نے کافروں کے لیے کھینچا ہے ،اس کومیں غلاف میں نہیں رکھو ں گا ۔(۳)

____________________

(۱) اس حدیث کے سلسلے میں مراجعہ کیجیے : صحیح بخاری :۵ ۱۹۱۔ و جلد :۷ ۱۹۵۔ صحیح مسلم :۷ ۷۱۔

(۲) سورہ آل عمران(۳) آیت ۱۴۴۔

(۳) تاریخ طبری :۲ ۵۰۳۔ اور دیکھیے : طبقات ابن سعد : ۷ ۳۹۶۔ البدایة والنہایة : ۶ ۳۴۵۔ الاصابة :۵ ۷۵۵۔ اور دوسرے مآخذ۔

۲۲۰