"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 45159
ڈاؤنلوڈ: 4021

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45159 / ڈاؤنلوڈ: 4021
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور جب ابوقتادہ انصاری نے خالد بن ولید کے زناء محصنہ پر گواہی دی کہ جو خود اسی کے لشکر میں موجود تھے اور وقت زنا حاضر تھے تو ابوبکر نے ان کو بلایا اور اس کا م سے منع کیا ۔(۱) اور اس طرح اجتہاد کی منطق کے ذریعہ اور یہ کہ ابوبکر کے دشمن کافر ہیں چاہے وہ حقیقت میں مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ، ابوبکر نے خالد کے لیے عذر تراشا چونکہ ان کو خالد کی اور دوسری جگاہوں پر ضرورت تھی ۔

اور اسی بناء پر اشعث بن قیس کہ جب وہ مرتد ہوگیا اس کو معاف کردیا اور ابوبکر مرتے وقت ان کاموں پر افسوس کرتے رہے اور کہتے رہے کاش تین و تین اور تین(۲)

وہ تین کام کہ جن کو انجام دینا چاہتے تھے لیکن انجام نہ دیا، ایک اشعث بن قیس کوقتل کرنا تھا کہ جب اس کو گرفتار کرکے لائے، چونکہ ابوبکر کو بعد میں معلوم ہوگیا تھا کہ تمام فتنوں اور فساد میں اشعث ہی کا ہاتھ تھا ۔(۳)

ابوبکر نے یہ کام اس لیے انجام نہیں دیا چونکہ اشعث بن قیس قبیلہ کندہ کا رئیس تھا اور ابوبکر کو اس کی ضرورت تھی لہذا خلیفۂ اول نے صرف نظرکرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اپنی بہن کی شادی بھی اس سے رچادی اور اس کو مہمترین کاموں میں اپنے ساتھ رکھا ۔

____________________

(۱) الکامل فی التاریخ :۲ ۳۵۸۔

(۲) یہ امور ابو بکر آخری وقت زبان پر لائے اور مرتے دم یہ حسرت دل میں لے کر گئے کہ کاش میں تین کام ترک نہ کرتا اور اے کاش میں تین کام انجام دیتا اور اے کاش میں تین مسٔلے پیغمبراکرم سے معلوم کرتا ، اور پھر ان کی ایک ایک کرکے تفصیل بیان کی ۔(م)

(۳) تاریخ طبری :۱ ۶۲۰۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۴۱۸۔ کنزالعمال :۵ ۶۳۲، حدیث ۱۴۱۱۳۔

۲۲۱

اسی طرح زکا ت کا حصہ کہ جو مؤلفة القلوب کے لیے معین کیا گیا تھا اور قرآن کریم میں بھی اس کی تصریح ہوئی ہے ،ادا نہ کیا اور جب عمر نے از باب مصلحت مؤلفة القلوب کا حق دینے کی خواہش ظاہر کی تو ابوبکر نے یہ کہکر ٹال دیا کہ اب اسلام قدرتمندہوچکاہے لہذا مؤلفة القلوب کے حصہ کی ادائیگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔(۱)

انہی واقعات کی طرح حضرت فاطمہ زہرا کو فدک سے منع کرنا بھی ہے جب کہ حضرت فاطمہ زہرا نے اپنی ملکیت کوثابت کرنے میں آیات وصیت و وراثت اور انبیاء کی میراث کی آیات کے ذریعہ ابوبکر پر احتجاج کیا ۔

ان تمام واقعات سے پہلے ابوبکر کا احد ، حنین اور خیبر کی جنگوں سے بھاگنا ہے اور دینی اہمیتوں کے مقابل ثابت قدم نہ رہنا، میدان چھوڑکر بھاگنا اور یہ سب ان مصلحتوں کی وجہ سے ہے کہ جو ان کے پیش نظر تھیں۔یعقوبی جنگ احد کے متعلق تحریر کرتا ہے کہ تمام مسلمان میدان چھوڑکر بھاگ گئے اور رسول خدا کے ہمرا ہ صرف تین آدمی باقی رہے علی ، طلحہ و زبیر۔(۲)

حاکم نے عایشہ سے روایت نقل کی ہے اور اس کو صحیح جانا ہے کہ ابوبکر نے کہا کہ جب جنگ احد میں مسلمان پیغمبراکرم کے اطراف سے فرار ہوئے تو میں بھاگنے والوں میں سب سے پہلا فرد تھا کہ جو رسول خدا کے پاس پلٹا ۔(۳)

____________________

(۱) تاریخ طبری :۲ ۳۰۱۔ طبقات ابن سعد :۵ ۱۰۔ معجم البلدان: ۲ ۲۷۱۔

(۲) تاریخ یعقوبی :۲ ۴۷۔

(۳) مستدرک حاکم : ۲۷۳۔

۲۲۲

صاحب کنزالعمال نے جنگ احد کے بارے میں ابو داؤد طیالسی سے اور ابن سعد و بزار، دارقطنی ، ابن حیان ، ابو نعیم اور دوسروں نے اپنی اپنی اسناد کے ساتھ عایشہ سے روایت نقل کی ہے کہ عایشہ نے کہا کہ جب کبھی بھی جنگ احد کا تذکرہ ہوتا تو ابوبکر رونے لگتے تھے اور روتے ہوئے کہتے کہ میں بھاگنے والوں میں سب سے پہلے واپس آیا ۔(۱)

ابن ابی الحدید لکھتا ہے کہ جاحظ نے کہا : ابوبکر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جنگ احدمیں کھڑے رہے جیسا کہ علی ثابت قدم رہے ۔ ۔ ۔ تو ہمارے استاد ابوجعفر نے کہا کہ اکثر مورخین و اہل قلم نے جنگ احد میں ابوبکر کے فرار اور عدم ثبوت قدم کو نقل کیا ہے اور جمہور نے روایت کی ہے کہ ابوبکرنے فرار اختیار کیا اور علی کے علاوہ کوئی بھی پیغمبراکرم کے پاس نہ رہا اور طلحہ و زبیر اور ابو دجانہ بھی قریب ہی تھے اور ابن عباس سے روایت ہے کہ ان میں پانچواں فرد کہ جو باقی بچا عبد اللہ بن مسعود تھے اور کچھ مورخین نے چھٹے آدمی کا بھی نام لکھا ہے اور وہ مقداد بن عمروہے۔(۲)

زید بن وہب کا بیان ہے کہ میں نے ابن مسعود سے کہا: ابوبکر و عمر جنگ احد میں کہاں تھے ؟ تو اس نے کہا ان لوگوں کے ساتھ کہ جنہوں نے میدان سے فرار اختیار کیا تو میںنے سوال کیا عثمان کہاں تھے ؟ کہا کہ واقعہ احد کے تین دن کے بعد واپس آئے ، رسول خدا نے عثمان سے کہا اے عثمان جنگ سے بھاگنے میں بہت لمبے لمبے قدم رکھے !۔(۳)

____________________

(۱) مسند ابی داؤد طیالسی ۳۔ کنزالعمال :۱۰ ۴۲۵، حدیث ۳۰۰۲۵۔

(۲) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۱۳ ۲۹۳۔

(۳) کشف الغمہ : ۱ ۱۹۳ ۔ شرح نہج البلاغہ :۱۵ ۲۱۔تاریخ طبری: ۲ ۲۰۳۔ البدایہ و النہا یہ :۳ ۳۲۔

۲۲۳

المغازی میں محمد بن مسلمہ سے منقول ہے کہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا اور دونوں کانوں سے سنا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روز احد تنہا رہ گئے اور مسلمان پہاڑ کی طرف بھاگ رہے تھے ، رسول خدا اپنی مدد کے لیے بلارہے تھے اور آواز دیتے اے فلاں آؤ ، اے فلاں آؤ میرے قریب آؤ میں رسول خدا ہوں ، لیکن ان دونوں میں سے کسی نے بھی نہ سنا اور دونوں بھاگے چلے گئے ۔(۱)

واضح ہے کہ یہاں پر فلاں اور فلاں سے مراد شیخین یعنی ابوبکر و عمر ہیں ۔ راوی نے صراحتاً ان کا نام ذکر نہیں کیا چونکہ وہ صاحب اقتدار تھے اور اس لیے بھی کہ ان کے پیروکار،ان کے متعلق اس طرح کی روایات کوپسند نہیں کریں گے ، اور شاید یہ بھی ممکن ہے کہ یہ راوی کی نہیں بلکہ مؤلف یا کاتب کی ہنر نمائی ہو۔

روایت میں آیا ہے کہ ایک عورت زمانہ خلافت عمر میں آئی اور عمر سے یمنی چادر وں کے متعلق مطالبہ کیا اور اسی وقت عمر کی بیٹی آئی اس نے بھی یمنی چادر مانگی عمر نے اس عورت کوچادر دے دی اور اپنی بیٹی کو منع کردیا ! ۔ جب لوگوں نے اس کی دلیل چاہی تو جواب دیا کہ اس عورت کاباپ جنگ احد میں ثابت قدم رہا اور اس کا باپ یعنی خود عمر ثابت قدم نہ رہ سکا اور فرار اختیار کیا ۔(۲)

واقدی رقمطراز ہے کہ جب جنگ احد کے دوران ابلیس نے شور مچایا کہ محمد قتل ہوگئے تو لوگ متفرق ہوگئے کچھ لوگ مدینہ واپس آگئے اور ان بھاگنے والوں میں ایک تو فلاں تھے اور دوسرے حارث بن حاطب ۔

____________________

(۱) المغازی :۱ ۲۳۷۔ اور اسی سے منقول ہے شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۱۵ ۲۳ میں ۔

(۲) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۲۲۱۵۔

۲۲۴

لیکن ابن ابی الحدید نے اسی واقدی سے روایت بطور صریح و بغیر کنایہ کے نقل کی ہے کہ اس نے کہا وہ لوگ کہ جو فرار اختیار کرگئے ، عمر و عثمان اور حارث بن حاطب تھے ۔(۱)

رافع بن خدیج کہتاہے کہ میں فلاں اور فلاں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ جو پہاڑ پر اچک اچک کر بھاگ رہے تھے پس عمر نے کہا کہ جب شیطان نے شور مچایا کہ محمد قتل ہوگئے تو میں اس طرح پہاڑپر چڑھا کہ جیسے پہاڑی بکری پہاڑ پر چڑھتی ہے ۔(۲)

محمد بن اسحاق نے مغازی میں تحریر کیا ہے کہ۔ ۔ ۔ لوگ جنگ احد میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے بھاگ رہے تھے یہاں تک کہ عثمان بھی بھاگ گئے چونکہ وہ ان سب سے پہلے بھاگ گئے اور مدینہ پہنچ گئے اور انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :

( ان الذین تولوا یو م التقی الجمعان ) (۳)

اس روز کہ جب دوگروہ آپس میں ٹکرائے تو کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ۔(۴)

____________________

(۱) المغازی :۲۷۷۱ ۔ اور اسی کتاب کے دوسرے نسخہ میں فلاں کی جگہ پر عمر و عثمان بھی آیا ہے۔شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۲۴۱۵۔

(۲) المغازی:۱ ۲۹۵ ۔ اور ۳۲۱۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۲۲۱۵۔الدر المنثور :۲ ۸۹۔

(۳) سورہ آل عمران (۳) آیت ۱۵۵۔

(۴) المغازی :۱ ۲۷۸ـ۲۷۹۔ اور دیکھیے : صحیح بخاری :۵ ۳۵(از عثمان بن وہب )۔ مجمع الزوائد: ۱۱۵۹۔

۲۲۵

فخررازی کا بیان ہے کہ بھاگنے والوں میں سے عمر بھی تھے مگر یہ کہ سب سے پہلے نہیں بھاگے اور زیادہ دور بھی نہیں بھاگے بلکہ صرف پہاڑ پر چڑھ گئے تاکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے پیچھے پیچھے پہاڑ پر چڑھ جائیں اور عثمان بن عفان انصار کے دو افراد سعد و عقبہ کے ساتھ بھاگ کھڑے ہوئے اوربہت دور نکل گئے یہاں تک کہ تین دن کے بعد واپس آئے ۔(۱)

نیشاپوری کا بیان ہے کہ قفال نے کہا بہرحال جس چیز پر روایات دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جنگ احد سے بھاگے اور کچھ قریب ہی چھپ گئے اور کچھ بہت دور نکل گئے اور بعض مدینہ آگئے اور کچھ ادھر ادھر کو فرار کرگئے ۔ ۔ ۔ اور ان بھاگنے والوں میں عمر بھی تھے ۔(۲)

آلوسی رقمطراز ہے کہ بھاگنے والے ایک پہاڑ کے دامن میں جمع ہوگئے اور عمر بن خطاب بھی ان کے ہمراہ تھے جیسا کہ ابن جریر کی روایت میں مذکور ہے ۔(۳)

بہر حال آپ نے ان روایات میں ملاحظہ فرمالیا کہ جنگ احد سے بھاگنے والوں میںیہ تین افراد ابوبکر ، عمر اور عثمان بھی تھے اور اسی جنگ میں ثابت قدم نہ رہے جب کہ علی ابن ابی طالب اور کچھ صحابہ ثابت قدم رہے ۔

عمران بن حصین کی روایت میں آیا ہے کہ جب جنگ احد میں لوگ رسول خدا کے اطراف سے بھاگ رہے تھے توعلی برہنہ شمشیر کولیے ہوئے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے آگئے۔

____________________

(۱) تفسیر فخر رازی : ۹ ۴۲۔

(۲) تفسیر نیشابوری : ۲ ۲۸۷۔

(۳) روح المعانی : ۴ ۹۹۔

۲۲۶

پس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سر کو بلند فرمایا اورعلی سے کہا کہ جب سب بھاگ گئے تو آپ کیوں نہیں بھاگے ؟ علی نے جواب دیا: اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا میں اسلام لانے کے بعد کافر ہوجاؤں ۔(۱)

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار کے ایک گروہ کی طرف اشارہ کیا کہ جو پہاڑ پر سے اتر رہے تھے علی نے ان پر حملہ کیا اور ان سب کو مار بھگایا پھر دوسرے گروہ کی طرف اشارہ کیا آپ نے ان پر بھی حملہ کیا اور ان کو بھی پچھاڑ دیا پس جبرئیل آئے اور کہا اے رسول خدا فرشتے علی کی آپ کے لیے جانبازی پر فخر و مباہات کررہے ہیں ۔

اس وقت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کون اس کو اس کا م سے روک سکتا ہے جب کہ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں تو جبرئیل نے بھی کہا کہ میں تم دونوں سے ہوں۔(۲)

حضرت علی کے کلام ہی میں سے حدیث مناشدہ ہے کہ فرماتے ہیں :کیا آپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس کے لیے جبرئیل نے فخر و مباہات کیا ہو کہ یہ واقعہ جنگ احد کا ہے پس رسول خدا نے فرمایا ایسا کیوں نہ ہوکہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں پھر جبرئیل نے کہا کہ میں تم دونوں سے ہوں ؟ تو سب نے کہا : نہیں۔(۳)

____________________

(۱) حضرت علی کی نظرمیں جنگ سے فرار کرنا گویا اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرنا ہے تواب ان بھاگنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟(م)

(۲) ارشاد مفید:۱ ۸۵۔ کشف الغمہ :۱ ۱۹۴۔ بحار الانوار:۲۰ ۸۵۔

(۳) امالی طوسی ۵۴۷، مجلس ۲۰، حدیث ۴۔ خصال صدوق :۲ ۵۵۶۔ مناقب کوفی :۱ ۴۸۶، حدیث ۳۹۲۔ تاریخ طبر ی :۲ ۱۹۷۔ المعجم الکبیر :۱ ۳۱۸، حدیث ۹۴۱۔ کشف الیقین ۴۲۴۔

۲۲۷

اسد الغابہ میں ہے کہ جب جنگ احد میں لوگوں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آنکھیں چرائیں اور فرار اختیار کیا میں نے قتل ہوجانے والوں کو دیکھا تو ان میں رسول خدا کو نہ پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ خدا کی قسم رسول خدا ایسے نہیں ہیں کہ جو جنگ سے فرار اختیار کریں جب کہ قتل ہونے والوں کے درمیان بھی نہیں ہیں، شاید خداوندعالم ہمارے اعمال سے ناراض ہوگیا اور اپنے رسول کو آسما ن پر لے گیا لہذا میرے لیے اس سے بہترکوئی کام نہیں ہے کہ جنگ کروں یہاں تک کہ قتل ہوجاؤں پس میں نے اپنی تلوار کے نیام کو توڑ دیا اور پھر دشمن کے لشکر پر حملہ کیا اور سارے لشکر کو بکھیر کررکھ دیا تو اسی دوارن میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے درمیان دیکھا۔جی ہاں، اسی روز علی پر سولہ ضربتیں لگیںاور ہر ضربت کے اثر سے وہ زمین پر گرے اور جبرئیل کے علاوہ ان کو کسی نے نہیں اٹھایا ۔(۱)

حضرت امیر کے دوسرے کلام میں مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : اے رسول خدا وہ فتنہ کہ جس کی خداوندعالم نے آپ کو خبر دی ہے وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : بیشک میرے بعد میری امت کو خداوندمتعال آزمائے گا ،میں نے عرض کی اے رسول خدا تو کیا روز جنگ احد کہ جس دن کچھ مسلمان شہید ہوئے اور یہ فیض میرے نصیب میں نہ آیا مجھ پر بہت سخت گذرا تب آپ نے فرمایا: اے علی صدیق آپ کو بھی شہادت مبارک ہو اور جب آپ کی شہادت کا وقت آئے گا اور آپ کے محاسن مبارک آپ کے سرکے خون میں تر ہوگی تو آپ کا صبر کیسا ہوگا؟۔(۲)

____________________

(۱) اسد الغابہ : ۴ ۲۰ـ۲۱۔

(۲) نہج البلاغہ :۲ ۴۹، خطبہ ۱۵۶۔ اور دیکھیے : کنزالعمال:۱۶ ۱۹۴ ، حدیث ۴۴۲۱۷۔ المعجم الکبیر :۱۱ ۲۹۵۔ اسد الغابہ:۴ ۳۴۔

۲۲۸

جی ہاں ، یقینا وہ آزمائش و امتحان تھا کیا کہیں ایسے شخص کے بارے میں کہ جو رسول خدا کو کافروں کے درمیان چھوڑکر بھاگ کھڑا ہو، تو کیا یہ کام کفر ہے یا فسق یا کچھ اور ؟

مسلم ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کام سے بہت رنج یدہ خاطر اور غمگین ہوئے تھے اور جنگ سے بھاگنے والوں سے بہت ناراض ہوئے تھے ۔

واقدی کا بیان ہے کہ طلحہ بن عبیداللہ و ابن عباس اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول خدا نے شہداء احد کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا میں ان لوگوں پر گواہ ہوں کہ انہوں نے راہ حق میں تلوار چلائی اور شہید ہوگئے تو ابوبکر نے کہا اے رسول خدا کیا ہم انہیں کے بھائی نہیں ہیں جیسا کہ وہ اسلام لائے ہم بھی اسلام لائے اور انہیں کی طرح ہم نے بھی جہاد کیا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :ہاں! لیکن انہوںنے اپنا کامل حق ادا کیا اور کامل اجر حاصل کیا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تم لوگ میرے بعد کیا کارنامے انجام دو گے پس ابوبکر رونے لگے اور کہا کیا ہم آپ کے بعد بھی زندہ رہیں گے ۔(۱)

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے عمر سے فرما یا: جب صلح حدیبیہ کے وقت عمر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض ک یا '' کیا جنگ احد کو بھول گئے ہو کہ جب پہاڑ پر چھپ چھپ کے بھاگ رہے تھے ،کسی کی طرف کو بھی مڑکرنہیں دیکھ رہے تھے میں وہیںکھڑا ہواآپ لوگوںکو بلارہا تھا ۔(۲)

اور اس سے پہلے عثمان کے بارے میں رسول خدا کا ارشاد گرامی گذرچکا ہے کہ آپ نے فرمایا : کہ بھاگنے میں بہت لمبے لمبے قدم اٹھا رہے تھے ۔

____________________

(۱) المغازی : ۱ ۳۱۰۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۳۸۱۵ (متن عبارت اسی کتاب سے ہے ) اور دیکھیے الموطاء :۲ ۴۶۱، حدیث ۹۸۷۔التمہید (ابن عبدالبر) :۲۱ ۲۲۸، حدیث ۲۰۳۔

(۲) المغازی : ۶۰۹۲۔ اور اسی سے منقول ہے شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۲۵۱۵۔ اور دیکھیے : الدر المنثور :۶ ۶۸۔ عیون الاثر : ۲ ۱۲۵۔

۲۲۹

لیکن جنگ خیبر !

سیرہ حلبی میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت منقول ہے کہ جب جنگ خیبر میں شیخین ابوبکر و عمر مسلسل دشمن کے خوف و ڈر سے بھاگتے رہے تب رسول خدا نے فرمایا : کل میں علم اس کو دوںگا کہ جو خدا اور رسول کودوست رکھتا ہوگا اور خداو رسول اس کو دوست رکھتے ہونگے ،مردہوگا کرار ہوگا ، فرار نہ ہوگا یعنی جم کر لڑنے والا ہوگا بھاگنے والا نہ ہوگا اور اس کے ہاتھوں کامیابی و فتح حاصل ہوگی ۔

اس کے بعد اگلے روز رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عل ی کو بلایا جب کہ آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں رسول خدا نے اپنا لعاب دہن علی کی آنکھوں میں لگایا اور فرمایا اس علم کو لو اور دشمن کی طرف جاؤ تاکہ خداآپ کو کامیاب و کامران فرمائے ۔(۱)

ابوسعید خدری کا بیان ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علم کول یا اور گھمایا اور پھر فرمایا کون شخص اس علم کا حق ادا کرے گا ،فلاں (ابوبکر) آگے آئے اور کہا میں یا رسول اللہ ۔ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جاؤ دفان ہو۔ توپھر دوسرا شخص (عمر) آگے بڑھا اور کہا میں یا رسول اللہ تو آپ نے فرمایا : جاؤ ہٹو ۔

____________________

(۱) السیرة الحلبیہ :۲ ۷۳۷۔ السیرة النبویة (ابن ہشام) : ۳ ۷۹۷۔ مسند احمد :۱ ۹۹۔ الاحادیث المختارہ : ۲ ۲۷۵۔ فتح الباری :۷ ۳۶۵۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۲۴۔ نیز اس حدیث کو بخاری و مسلم نے بطور اختصار بیان کیا ہے ۔ دیکھیے : صحیح بخاری :۵ ۷۶۔ صحیح مسلم :۵ ۱۹۵۔

۲۳۰

پھر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے مجھ کو مکرم و محترم قرار دیا میں علم اس کو دونگا کہ جو میدان سے نہیں بھاگے گا ، اے علی آؤ اوراس علم کو لو آپ نے علم کو لیا اور میدان کی طرف چل دیئے یہاں تک کہ خداوندعالم نے آپ کے ہاتھوں سے در خیبر کو اکھاڑا اور فتح و کامیابی عطا فرمائی ۔(۱)

یہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''غیر فرار'' (۲) ا یسا مرد ہے کہ جو کبھی نہ بھاگے یا''رجلا لایفر'' (۳) وہ مرد کہ جو فرار اخت یار نہ کرے یہ ابوبکر و عمر کے لیے کنایہ ہے ، اور ظاہر ہے کہ میدان جنگ سے بھاگنے سے کون سا بھاگنا برا اور بدتر ہوگا چونکہ نصوص روایات میں بہت قابل افسوس عبارات مذکو رہیں مثلا ابوبکر نے علم کو لیا''فانهز م بها '' (۴) پس اس نے شکست و ہار مان ل ی اور بھاگ کھڑے ہوئے اور پھر عمر نے لیا''صارغیر بعیدثم انهزم '' (۵) تھوڑ ی دیر نہ لگی کہ وہ ہار کے بھاگے آئے ۔

____________________

(۱) مسند احمد :۳ ۱۶۔ فضائل احمد :۲ ۵۸۳۔ السیرة النبویة (ابن کثیر) :۲ ۳۵۲۔ مجمع الزوائد:۶ ۱۵۱۔ تالی تلخیص المتشابہ (خطیب بغدادی) :۲ ۵۲۸۔

(۲) تاریخ یعقوبی :۲ ۵۶۔ مناقب خوارزمی ۱۷۰۔ روضہ کافی :۸ ۳۵۱، حدیث ۵۴۸۔ کنزالعمال :۱۳ ۱۲۳،حدیث ۳۶۳۹۳۔

(۳) مسند احمد :۳ ۱۶۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۲۴۔ مناقب کوفی :۲ ۴۹۵، حدیث ۹۹۵۔ البدایة والنہایة : ۴ ۲۱۲۔ و جلد : ۷ ۳۷۵۔

(۴) مصنف ابن ابی شیبہ : ۷ ۴۹۷، حدیث ۱۷۔ و جلد :۸ ۵۲۲،حدیث ۱۱۔ مجمع الزوائد :۹ ۱۲۴۔کنزالعمال :۱۲۱۱۳،حدیث ۳۶۳۸۸۔

(۵) کشف الیقین ۱۴۰۔

۲۳۱

اور روایات میں مذکور ہے کہ عمر میدان سے بھاگ کر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اس صورت میں کہ وہ ڈر ، خوف اور فرار کی نسبت اپنے ساتھیوں کی طرف دے رہے تھے اور ان کے ساتھی ڈر ، خوف اور فرار کی نسبت ان کی طرف دے رہے تھے ۔(۱)

یا یہ کہ ابوبکر نے علم کو لیا اور کامیاب نہ ہوئے تو اگلے روز عمر نے علم کو لیا اور شرمندہ ہوکر واپس آئے لوگ مشکلات میں پڑگئے(۲) یایہ کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے علم مبارک کو اپنے مہاجرین اصحاب میں سے ایک کو دیااس نے بھی کچھ نہ کیا اور بھاگ کھڑے ہوئے اور دوسرے (عمر) کودیا تو اس نے بھی کچھ نہ کردکھایا اور بھاگ آئے۔(۳) اصحاب نے ب یعت شجرہ میںیہ عہد و پیمان کیا تھا کہ دشمن کے سامنے سے نہیں بھاگیں گے جب کہ یہ کام اس عہد کوتوڑنے کے مترادف تھا ۔ جناب عباس پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا اور امام علی نے اس مطلب کی طرف اشارہ فرما یا ہے اس وقت کہ جب آپ دونوں حضرا ت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی میراث کے مطالبے کے لیے دربارخلافت میںگئے اور جو کچھ ان دونوں نے کہا یہ تھا کہ ابوبکر و عمر جھوٹے ، گنہکار ، عہد توڑنے والے اور خائن ہیں ۔(۴)

____________________

(۱) مصنف ابن ابی شیبہ :۸ ۵۲۱، حدیث ۷۔مستدرک حاکم :۳ ۳۸۔ تاریخ دمشق :۴۲ ۹۷۔ اصول کافی : ۱ ۲۹۴، حدیث ۳۔

(۲) السنن الکبری(نسائی ) :۵ ۱۰۹، حدیث ۸۴۰۳۔ مجمع الزوائد :۶ ۱۵۰۔(ہیثمی کا بیان ہے کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں) ۔ البدایة النہایة :۷ ۳۷۳۔

(۳) السیرة الحلبیہ: ۳ ۷۳۲ ۔ اور اس سے منقول ہے الغدیر: ۷ ۲۰۳ میں ۔

(۴) دیکھیے : صحیح مسلم :۵ ۱۵۲۔

۲۳۲

یہی وجہ ہے کہ رسول خدا نے بیعت شجرہ کے بعد اہل مکہ سے صلح فرمائی چونکہ مسلمانوں نے کفار مکہ پر حملہ کیا اور قریش نے مسلمانوں کو شکست دے کر بھگادیا پھر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بھیجا آپ نے ان کو شکست دی اور بھگایا ، بھاگنے والے مسلمانوں نے توبہ کی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اب آئیے دوبارہ بیعت کیجیے تم لوگوں نے عہد کو توڑا ہے جب کہ یہ عہد کیا تھا کہ کبھی دشمن کے مقابل میدان سے نہیں بھاگیں گے ۔ اسی وجہ سے ان کے اس عہد و پیمان کو بیعت رضوان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ چونکہ یہ بیعت رسول خدا کی نافرمانی اور معصیت کے بعد آپ کو راضی و خوشنود کرنے کے لیے انجام پائی تھی ۔ پس ابوبکر و عمر اور دیگر مسلمانوں کا جنگ خیبر و حنین وغیرہ سے فرار اور بھاگنا گویا بیعت رضوان کو توڑنا ہے ۔(۱)

صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ عمر نے عباس وعلی سے مخاطب ہوکر کہا ۔ ۔ ۔ اس وقت کہ جب ابوبکر نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ ہم سے رہ جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔ تم دونوں حضرات اس کو جھوٹا ، گنہکار ، عہد توڑنے والا اور خائن جانتے ہو جب کہ ابوبکر دنیا سے جاچکا ہے اور اب میں ابوبکر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ول ی ہوں جب کہ تم دونوں حضرات مجھ کو بھی جھوٹا ، گنہکار ، عہد توڑنے والا اور خائن مانتے ہو۔(۲)

____________________

(۱) الصراط المستقیم :۳ ۱۱۰ـ ۱۰۱۔

(۲) صحیح مسلم :۵ ۱۵۲، کتاب الجہاد و السیر، باب حکم الفئی۔ اور دیکھیے صحیح بخاری : ۴ ۴۴، باب فرض الخمس ۔ و جلد : ۵ ۲۳ـ۲۴، کتاب الجہاد و السیر۔ تفسیر ابن کثیر :۴ ۲۵۹۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید): ۱۶ ۲۲۲۔ تاریخ المدینہ (ابن شبہ) :۱ ۲۰۴۔

۲۳۳

بہر حال ان تمام حالات و روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ابوبکر ، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا عباس کی نظر میں، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داماد علی کی نظر میں اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی فاطمہ کی نظر میں جھوٹے و گنہکار ہیں ، اور کوئی بھی جھوٹا ، صادق و سچا نہیں ہوسکتا تو پھر صدیق کیسے ہوسکتا ہے ؟۔

ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے :

متکلمین کہتے ہیں کہ علی کی امامت کے دلائل میں سے یہ خداوندعالم کا فرمان ہے( یا ایها الذین آمنو ا اتقو الله و کونوا مع الصادقین ) (۱) اے ا یمان لانے والوخداسے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔ہم نے آپ کو اس صفت پر پورا پایا ،چونکہ خداوندعالم فرماتا ہے( والصابرین فی الباساء والضراء و حین البأس اولٰئک الذین صدقوا و اولٰئک هم المتقون ) (۲) وہ لوگ سخت یوں اور پریشانیوں میں اور وقت جنگ صابر و ثابت قدم ہیں ، سچے ہیں اور یہی لوگ متقی و پرہیز گار ہیں ۔

اسی وجہ سے یہ اجماع متحقق ہوچکا ہے کہ علی دوسروں کی نسبت امامت کے زیادہ حق دار ہیں چونکہ وہ میدان جنگ سے کبھی نہیں بھاگے جب کہ دوسروں نے بارہا راہ فرار اختیار کی ۔(۳)

شیخ مفید نے اپنی کتاب ''الجمل و النصرة لسید العترةفی حرب البصرة'' میں عمر بن آبان سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ جب امیر المؤمنین نے اہل بصرہ پر کامیابی حاصل کرلی۔

____________________

(۱) سورہ توبہ (۹) آیت ۱۱۹۔

(۲) سورہ بقرہ (۲) آیت ۱۷۷۔

(۳) مناقب ابن شہر آشوب :۳ ۹۳۔

۲۳۴

تب کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے امیر المؤمنین کیا سبب تھا کہ عایشہ آپ کے خلاف نکل پڑیں اور لوگوں سے آپ کے خلاف مدد مانگی اور ان کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور بات یہاں تک پہنچی کہ آپ سے جنگ ہوئی ، جب کہ وہ دوسری عورتوں کی طرح ایک عورت ہیں ان پر جنگ واجب نہیں تھی ، جہاد ان سے ساقط تھا ، ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت بھی نہیں تھی ، ان کے لیے لوگوں کے درمیان آنا اور ظاہر ہونا بھی مناسب نہیں تھا اور وہ افراد بھی کہ جو ان کے لشکر کی کمانڈ ہاتھ میں لیے ہوئے تھے وہ بھی اس قابل نہ تھے ۔

امیر المؤمنین نے فرمایا: میں آپ لوگوں سے چند چیز یںبیا ن کرتا ہوں کہ جو عایشہ کے دل میں مجھ سے حسد و کینہ کا سبب بنیں جب کہ ان میں سے میں کسی میں بھی گنہکار نہیں ہوں جب کہ وہ مجھے سزاوار سمجھتی ہیں ۔

۱ـ رسول خدا نے مجھے ان کے باپ پر برتر ی بخشی ، اور ہر مہم کام میں مجھے ان پر مقدم رکھتے تھے عایشہ کے دل میں حسد بیٹھ گیا چونکہ وہ جانتی تھیں کہ ابوبکر کے دل میں مجھ سے حسد ہے لہذا انہوں نے بھی اپنے باپ کی پیروی کی ۔

۲ـ جب پ یغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام اصحاب کے درمیان بھائی چارگی اوررشتہ اخوت قائم کیا تو ان کے باپ اور عمر کے درمیان بھائی چارگی قائم کی اور جب کہ مجھے خود اپنے لیے انتخاب فرمایا اور رشتہ اخوت قائم کیا ۔ یہ کام عایشہ کو بہت ناگوار گذرا اور مجھ سے حسد کرنے لگیں ۔

۳ـ خداوندعالم نے تمام اصحاب کے دروازے کہ جو مسجد م یں کو کھلتے تھے ،بند کروادیے سوائے میرے گھر کے دوازے کے ۔ تو جب ان کے باپ کے گھر کا دروازہ ،اور ان کے دوست جیسے عمر کے گھر کا دروازہ بند ہوا جبکہ میرے گھر کا دروازہ مسجد میں کھلا رہا ۔

۲۳۵

تب اس سلسلے میں کچھ لوگو ں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض ک یا تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا : میں نے آپ لوگوں کے گھروں کے دروازوں کو بند نہیں کیا اور میں نے علی کے گھر کے دروازے کو کھلا نہیں رکھا ہے ، بلکہ یہ حکم الٰہی ہے ۔ابوبکر کو اس کام پر بہت غصہ آیا اور اپنے گھر والوں کے درمیان الٹی سیدھی باتیں کہیں کہ جو ان کی بیٹی نے سنیں اور اس کے بعد سے مجھ سے حسد میں اضافہ ہوا ۔

۴ـ رسول خدا نے جنگ خ یبر میں علم ان کے باپ کو عطا کیا اور ان کو لشکر اسلام کا سردار بنایا ، خیبر کو فتح کرنے کے لیے بھیجا تاکہ یا خیبر کو فتح کریں یا شہید ہوجائیں جب کہ وہ ثابت قدم نہ رہ سکے اور ہارمان کر بھاگ آئے ، اس کے اگلے روز علم عمر بن خطاب کودیا اور جیسا کہ ابوبکر کو حکم دیا تھا ان کو بھی وہی حکم دیا لیکن وہ بھی دشمن کے مقابل نہ ٹھہر سکے اور ہار کے بھاگ آئے ۔ یہ کارنامہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت برالگا اور آپ نے اپنے لشکر کے درم یان بلند آواز سے فرمایا :کل میں علم اس کو دوں گا کہ جو مرد ہوگا خدا اور رسول اس کو دوست رکھتے ہوںگے اور وہ خداورسول کو دوست رکھتا ہوگا ، حملہ کرنے والا ہوگا بھاگنے والا نہیں ہوگا اور خیبر کو فتح کیے بغیر واپس نہیں آئے گا۔

اس روز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علم مجھے عطا فرما یا میں نے صبر کیا ، ثابت قدم رہا یہاں تک کہ خداوندعالم نے میرے ہاتھوں خیبر کو فتح کرایا اور کامیابی بخشی ، اس کام سے عایشہ کے باپ بہت غمگین ہوئے اور مجھ سے کینہ و حسد میں اور بھی اضافہ ہوگیا جب کہ میں ان کاموں میں ان کے حق میںبالکل بھی خطاکار و مقصر نہیں ہوں لیکن عایشہ نے بھی اپنے باپ کی وجہ سے مجھ سے حسد کیا ۔

۵ـ رسول خدا نے ا بوبکر کو کفار و مشرکین مکہ کے لیے سورہ برأت کی تلاوت کرنے کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ مشرکین کے عہد کو توڑنا اور ان کے درمیان یہ آیات تلاوت کرنا اور بلند آواز سے یہ پیغام الہٰی پہنچانا ، وہ یہ پیغام لے کرچلے اور راستہ میں منحرف ہوگئے ۔

۲۳۶

پھر خداوندعالم نے اپنے رسول پر وحی نازل فرمائی کہ ان کو پلٹائیں اور ان آیات کو ان سے واپس لیں اور مجھے عطا کریں پس وہ آیات لطف الہٰی سے مجھے عطا کی گئیں اور عایشہ کے باپ واپس آگئے ۔جو کچھ خداوند متعال نے اپنے رسول پر وحی نازل فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ آپ کی جانب سے کوئی حق ادا نہیں کرسکتا مگر آپ خود یا آپ ہی سے کوئی مرد۔اور میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہوں اور وہ مجھ سے ہ یں ۔لہذا ابوبکر اس کا م کی وجہ سے مجھ سے بہت حسد کرنے لگے جب کہ اس معاملے میں بھی ان کی بیٹی نے اپنے باپ کی پیروی کی ۔

۶ـ عا یشہ کو خدیجہ بنت خویلد بری لگتی تھیں جیسا کہ معمولا تمام سوتن ہی ایک دوسرے کو برا سمجھتی ہیں ۔ عایشہ بھی خدیجہ سے دشمنی رکھتی تھیں جب کہ خدیجہ کے مقام و منزلت کو رسول خدا کی نظرمیں پہچانتی تھیں اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدیجہ کا اس قدر احترام کرنا عایشہ کو برا لگتا تھا ، سخت ناگوار گذرتا تھا اور ان میں تحمل و برداشت کا مادہ نہ تھا۔یہ خدیجہ سے نفرت پھر فاطمہ کی طرف منتقل ہوگئی کہ جس کے نتیجے میں عایشہ خدیجہ ، فاطمہ اور مجھ سے بھی بیزار ہوگئیں ۔ جب کہ معمولاً سوتنوں کے درمیان یہ حالات معروف ہیں ۔

۷ـ اس سے پہلے کہ پ یغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج کو پردے کا حکم آئے میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا عایشہ آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے د یکھا، میرے بیٹھنے کے لیے جگہ فراہم کی اور مجھ سے فرمایا آؤ ہمارے پاس آجاؤ ، اتنا قریب بلایا کہ مجھے اپنے اور عایشہ کے درمیان بٹھالیا ، یہ کام عایشہ پر بہت سخت و ناگوار گذرا اور خواتین کی تند رفتاری اور ناز نخوت کی طرح مجھ سے مخاطب ہوئیں اور کہا اے علی آپ کو بیٹھنے کے لیے میری ران کی جگہ کے علاوہ کوئی اور جگہ نہ مل سکی ۔

۲۳۷

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ کلام برا لگا اور ان کی اس رفتار سے ناراض ہوگئے اور غصے میں فرمایا کیا یہ باتیں علی سے کہہ رہی ہو ، خداکی قسم وہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ہیں اور میری تصدیق کی ہے اور وہ سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر آئیںگے اور وہ امر الہٰی او ر امور دین میں عہد و پیمان پر ثابت قدم رہنے والے سب لوگوںسے زیادہ حق دار ہیں ، کوئی بھی ان سے دشمنی نہیں رکھے گا مگر یہ کہ خداوندعالم اس کی ناک کو جہنم کی آگ سے رگڑ دے گا۔ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان اور میری تمجید سے عایشہ کے غیظ و غضب میں اور اضافہ ہوگیا ، مجھ سے اوربھی زیادہ نفرت و حسد کرنے لگیں ۔

۸ـ جس وقت عا یشہ سے متعلق لوگوں میں ایک تہمت مشہور ہوئی تو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے طلب فرماکر معلوم کیا ، میں نے عرض کی یا رسول اللہ آپ اس بات کی حقیقت اس کی کنیز بریرہ سے معلوم کریں ،اگر معلو م ہوگیا کہ یہ تہمت صحیح ہے تو ان کو چھوڑ دینا عورتیں اور بہت زیادہ ہیں ۔رسول خدا نے اس مسئلہ کے متعلق مجھے ہی حکم دیا کہ میں بریرہ سے دریافت کروں ، عایشہ کی صورتحال اور اس کی تحقیق میری گردن پرآگئی، میں نے اپنی ذمہ داری نبھائی اور اس کام کو انجام دیا ۔ اس وجہ سے بھی عایشہ کے دل میں مجھ سے نفرت اور زیادہ ہوگئی جب کہ خدا کی قسم میرا کوئی برا ارادہ نہیں تھا بلکہ میں نے خدا اور اس کے رسول کے لیے خیر خواہی چاہی ۔

اسی طرح کے اور بھی بہت سے موارد ہیں لہذاآپ اگر چاہیں تو خود عایشہ سے ہی معلوم کرلیں کہ ان کو کیا حسد تھا اور کیا سبب ہوا کہ وہ میرے خلاف جنگ پر نکل آئیں ، لوگوں کو بیعت توڑنے پر مجبور کیا ، میرے چاہنے والوں کا خون بہایا ، بغیر کسی دینی و الہٰی سبب کے مسلمانوں کے درمیان اپنے حسد کو میرے خلاف آشکار کیا اورلوگوں کو میرا دشمن بنادیا ، جب کہ خداوند مددگار ہے اور وہی نصرت کرنے والا ہے ۔

۲۳۸

ان افراد نے کہا اے امیرالمؤمنین بات یہی ہے کہ جو آپ نے فرمائی ہے خدا کی قسم آپ نے ہمارے ا فکار و احساسات کو صاف کردیا اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خداو رسول کے نزدیک ان لوگوں سے کہ جنہوں نے آپ سے دشمنی کی زیادہ اولیٰ و حق دار ہیں ۔

اس وقت حجاج بن عمر و انصاری اٹھے اور آپ کی شأن میں کچھ اشعار پڑھے(۱)

ان تما م باتوں کے علاوہ اگر خطبہ حضرت فاطمہ زہرا پر غور کرلیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ آپ نے لوگوں کو تذکر دیا ہے کہ خداوندعالم نے ان کے والد گرامی حضرت محمد کواس وقت انتخاب فرمایا کہ جب مخلوق عالم ذر میں پوشیدہ تھی اور آپ کو لوگوں کے درمیان بھیجنے سے پہلے منتخب فرمایا ۔ حضرت فاطمہ زہرا کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ازل سے ہی اور اس سے پہلے کہ خداوندعالم خلائق کو وجود بخشتا، خدا کے نزدیک منتخب تھے اور خود آنحضرت نے بھی اسی مطلب کا تاکیدسے ارشاد فرمایا : '' کنت نبیا و آدم بین الماء الطین ''(۲)

میں اس وقت بھی نبی تھا کہ جب آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے ۔

____________________

(۱) الجمل (مفید)۲۲۰۔ اس میں حجاج بن عمرو کی جگہ حجاج بن عزمہ مذکور ہے ۔

(۲) مناقب ابن شہر آشوب :۱ ۱۸۲۔ عوالی اللئالی :۲ ۱۲۱۔ ینابیع المودة : ۱ ۴۶ ۔ اور طبقات ابن سعد :۱ ۱۴۸ ۔ میں مذکور ہے کہ بین الروح والطین من آدم ۔ اور سیرة النبویة (ابن کثیر) :۱ ۳۴۷ میں مذکور ہے کہ '' وآدم منحدل فی الطین ''۔ اور دیکھیے مسند احمد :۴ ۶۶۔ مستدرک حاکم :۲ ۶۰۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ :۸ ۴۳۸۔ المعجم الکبیر : ۱۲ ۷۳۔ الاحتجاج (طبرسی ) :۲ ۲۴۸۔ الفضائل (ابن شاذان) ۲۴۔ اسدالغابہ :۳ ۱۳۲۔ اور دوسرے مدارک و منابع کہ جن میں '' وآدم بین الروح و الجسد '' مذکور ہے ۔ ۔ ۔ ۔بقیہ اگلے صفحہ پر ۔ ۔ ۔

۲۳۹

امیر المؤمنین امام علی نے حارث ہمدانی کو اس بات کی طرف توجہ دلائی اور تاکید فرمائی کہ آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق اس عالم میں کی کہ جب آدم روح و بدن کے درمیان تھے ۔ لہذا آپ کا ارشاد گرامی ہے : میں خدا کا بندہ اور اس کے رسول کا بھائی ہوں میں نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق اس وقت کی کہ جب آدم روح و جسد کے درمیان تھے اور آپ کی امت میں بھی حقیقتاً و بدون شک و تردید میں سب سے پہلے تصدیق کرنے والا ہوں ۔(۱)

اور اس سے پہلے آپ کا کلام گذرچکا ہے کہ آپ نے فرمایا : خداوندعالم نے پیغمبرا کرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بچپنے ہ ی میں جب سے آپ کا دودھ چھٹا آپ کے ہمراہ روح القدس سب سے بڑے فرشتے کو قرار دیا اور اس کو آپ کا ہمدم و قرین بنایا اس طرح آپ کی رسالت کا آغاز ہوا ، میں اونٹنی کے بچے کی طرح آپ کے ہمراہ رہا کہ جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے لگار ہتاہے اسی طرح میں رسول خدا کی پیروی کرتا رہا ۔(۲)

____________________

۔ ۔ ۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔

شیخ سعدی شیرازی نے اس حدیث کو اپنی کتاب بوستان کے دیباچہ میں شعر کی صورت میں پیش کیا ہے۔

بلند آسمان پیش قدرت خجل تومخلوق و آدم ھنوز آب و گل

بلند و بالا آسمان آپ کی قد رو منزلت کے حضور شرمندہ ہے کہ آپ کی خلقت ہوچکی ہے جب کہ ابھی آدم پانی و مٹی کے درمیان ہیں ۔(م)

(۱) امالی (مفید ) ۶، مجلس اول ، حدیث ۳۔ امالی طوسی ۶۲۶، حدیث ۱۲۹۲۔ کشف الغمہ :۱ ۴۱۲۔ بحارالانوار :۳۹ ۳۹۔

(۲) نہج البلاغہ :۲ ۱۵۷ ، ضمن خطبہ ۱۹۲۔

۲۴۰