"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 45190
ڈاؤنلوڈ: 4037

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45190 / ڈاؤنلوڈ: 4037
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ان تمام واقعات و حالات سے یہ واضح ہوگیا کہ صدیقیت ایک ربانی و الہٰی امتیاز ہے اور صرف ان لوگوں کو عطا ہوتا ہے کہ جو عالی صفات کے حامل ہوں ، ان کا کردار ان کی گفتار کی تصدیق کرتا ہو ، انپے دل و جان سے ایمان لائے ہوں اور علی ہے کہ جس نے فرمایا:

''ما شککت فی الحق منذ اریته'' (۱) م یں نے جب سے حق کو پہچانا اس میں کبھی شک نہ کیا ۔

مسلمان پریہ بات مخفی نہیں رہنی چاہیے کہ تمام خلائق کے پیدا ہونے کا مقصد و ہد ف، خداوندمتعال کی عبادت و معرفت ہے اور یہ معرفت وحی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ، اسی وجہ سے مخلوقات کے وجود او رپیدائش کے آخری سبب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے وصی و معصومین ہیں کہ وہ واقعی انسان کامل ہیں اور یہ معرفت حضرت محمد مصطفی کی بعثت کے وقت اپنے عروج پر پہنچی اور روز غدیر کامل ہوئی لہذا خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :

( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ) (۲)

آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کا اتمام کردیا اور تمہارے لیے دین اسلام سے راضی ہوگیا ۔

____________________

(۱) خصائص الآئمہ (سید رضی ) ۱۰۷۔ ارشاد مفید :۱ ۲۵۴۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :۱۸ ۳۷۴۔

(۲) سورہ مائدہ (۵) آیت ۳۔

۲۴۱

منزلت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا

صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا ، نبوت اور وصایت کے درمیان پیوند دینے والی کڑی کا نام ہے ،چونکہ آپ رسول کی بیٹی اور وصی کی زوجہ ہیں اور دیگر اوصیاء آپ ہی کے بیٹے ہیں کہ جن پر میراث نبوت تمام ہوتی ہے ۔(۱)

فاطمہ وہ نور ہے کہ جو محمد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صلب سے چمکا اور پھر اس نور سے جا ملا کہ جو ابوطالب کی صلب سے تھا ، اس طرح علی و فاطمہ اس نور کے ملاپ کے مرکز ہیں کہ جو خلقت آدم سے پہلے وجود میں آیا ، چونکہ اس سے پہلے گذر چکا ہے کہ احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ : ۲ ۶۶۲ میںپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور کے دو ٹکڑے ہیں ہم خلقت آدم سے پہلے خلق ہوئے اور خداوندعالم نے جب آدم کو پیدا کیا تو ہمارے نور کو ان کی صلب میں رکھا ، یہاں تک کہ ہم ایک ساتھ چلتے رہے اور عبدالمطلب کی صلب میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ، پس اس نور کا ایک جزء عبداللہ کی صلب میں قرار پایا اور دوسرا جزء صلب ابی طالب میں مستقر ہوا۔

____________________

(۱) بصائر الدرجات ۸۳، حدیث ۱۰۔ امالی صدوق ۳۸۳، حدیث ۴۸۹۔

۲۴۲

حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے اپنے خطبوں میں ان حقائق کی طرف اشارہ فرمایا ہے لہذا حضرت فاطمہ زہرا اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتی ہیں :

میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہ یں ان کو مبعوث کرنے سے پہلے منتخب فرمایا اور منتخب کرنے سے پہلے اپنا رسول کہا اور ان کو مبعوث بہ رسالت کرنے سے پہلے دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ، میرے والد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی پیغمبری کا انتخاب اس وقت ہوا کہ جب لوگ عالم ذر میں پوشیدہ تھے ، عدم کے تاریک و ہولناک پردوں میں تھے اور وجود کی نعمت ان کو عطا نہ ہوئی تھی ۔

خداوندعالم نے کائنات کے علم اور تمام و قائع و حوادث کی معلومات اور مقدرات کی معرفت کے سبب اپنے اتمام امر کی خاطر، اپنے حکم کی تعمیل اور اپنے مقدرات حتمی کے جریان کی خاطر آپ کو مبعوث بہ رسالت فرمایا ۔(۱)

بنابرایں حضرت فاطمہ زہرا لوگوں کو اصل نبوت پر تذکر نہیں دیتیں چونکہ امت نے ظاہرا قبول کرلیا ہے کہ محمد ،اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ کے نزدیک آپ کی منزلت و مقام کو بیان کرنا مقصود ہے چونکہ بہت سے لوگ رسالت کے عمیق معنی کو درک نہیں کرتے اور مقام پیغمبری کو نہیں سمجھ پاتے بلکہ ایک عام انسان کی طرح اس کے متعلق بھی سطحی نظر رکھتے ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا نے سمجھانا چاہا کہ معرفت واقعی ہمارے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور چونکہ انسان روئے زمین پر الہٰی خلیفہ ہے لہذا امت کا رہبر اور قائد کوئی کامل انسان ہو۔

____________________

(۱) احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۳۔ السقیفہ و فدک (جوہری) ۱۴۰۔ بلاغات النساء (ابن منظور) ۱۵۔

۲۴۳

جیساکہ انبیاء و رسل اور منتخب اوصیاء سب انسان کامل تھے یہ وہی افراد ہیں کہ جن کو خداوندعالم نے اپنے بندو ں کے درمیان منتخب فرمایا ہے اور وہ لائق ترین افراد ہیں ، تمام مخلوقات زمین وآسمان میں سب سے بلند و بالا مقام و درجہ پر فائز ہیں ، اور یہی افراد نص قرآنی کے اعتبار سے مطہر و پاک و پاکیزہ ہیں ۔

اس سے پہلے امیر المؤمنین امام علی اور ابوبکر کے درمیان گفتگو و احتجاج گذرچکا ہے کہ آپ نے ابو بکر سے فرمایا اگر کچھ لوگ فاطمہ پر نازیبا حرکت کی تہمت لگائیں تو آپ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرو گے ابوبکر نے کہا میں ان کے خلاف لوگوں کی گواہی کو قبول کرکے ان پر حد جاری کروںگا۔(۱)

امیرالمؤمنین اس سوال سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر اور ان کے ماننے والے اور آئندہ کی نسل ابھی فاطمہ زہرا کی قرآنی منزلت و مقام کو درک نہیں کرپائے ہیں اور ان کے بارے میں ان لوگوں کی نظر سطحی ہے ، فاطمہ کو صرف ایک عام آدمی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں نہ کہ ان کے اصلی مقام اور تمام مراتب کے اعتبار سے ۔

اور ہم صادق و امین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے صدیق و امین وصی علی ابن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا کی تھوڑی بہت معرفت رکھتے ہیں جب کہ ان کی حقیقی معرفت تو ہماری سطح سے بہت بلند و بالا ہے لہذا ان کی شخصیت کے بارے میں ہماری نادانی و مجہولات بہت زیادہ ہیں چونکہ وہ بہت بلند وبالا مقام و مرتبہ پر فائز اور نور الہٰی سے خلق ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) احتجاج طبرسی :۱ ۱۱۹ـ۱۲۳۔ تفسیر قمی :۲ ۱۵۵۔

(۲) الامامة والنصرة ۱۳۳، حدیث ۱۴۔ معانی الاخبار ۳۵۱۔ الفضائل (ابن شاذان) ۱۵۸۔

۲۴۴

اس وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ فاطمہ کو فاطمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مخلوق الہٰی ان کی معرفت سے جدا اور عاجزہیں ۔(۱)

اس حدیث میں امام جعفر صادق نے کلمہ خلق (مخلوقات الہٰی ) کا استعمال کیا جب کہ خلق اور ناس میں بہت زیادہ فرق ہے ، خلق و مخلوقات الہٰی ناس وانسان سے بہت وسیع مفہوم والا لفظ ہے چونکہ مخلوقات الہٰی میں تمام انسان و جن و ملائکہ بھی شامل ہیں ۔

بہرحال اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مخلوقات الہٰی کیوں معرفت فاطمہ سے دور ہیں کیا ان کی کوتاہ فکری کی وجہ سے ؟ یا فاطمہ کا مقام بہت بلند و بالا ہے ؟ یا ان کے اعمال کی وجہ سے ہے کہ وہ ہوا پرستی ، و خواہشات نفس کے سبب فاطمہ کے خلاف مرتکب ہوئے ؟ یا یہ تمام اسباب اس امر میں دخیل ہیں ؟ ۔

جی ہاں، منزلت فاطمہ زہرا بہت بلند و بالا ہے ہم ان کی معرفت کما حقہ حاصل نہیں کرسکتے ، لیکن علی ان کی منزلت کو سمجھتے ہیں چونکہ آپ کا وجود مبارک بھی اسی نور سے ہے کہ جس سے وہ خلق ہوئی ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) تفسیر فرات کوفی ۵۸۱۔ بحارالانوار : ۴۳ ۶۵۔

(۲) حضرت امیر المؤمنین کا خط عثمان بن حنیف انصاری کے نام کہ جوآپ کی جانب سے بصرہ کا گورنر تھا ، اس میں مذکور ہے کہ میری رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت ایک جڑ سے دوشاخیں کی حیثیت ہے جیسے کہنی سے بازو کی نسبت ۔نہج البلاغہ :۳ ۷۳ ، خط ۴۴۔ اس تشبیہ سے اتحاد و امتزاج کی شدت و انتہا بتانا مقصود ہے کہ جو پیغمبر و علی کے درمیان ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بقیہ اگلے صفحہ پر ۔ ۔ ۔

۲۴۵

کتاب مقتل الحسین خوارزمی میں مذکور ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد خداوندعالم سے مخاطب ہوکے فرمایا :

پروردگارا یہ تیرے رسول کی بیٹی ہے تونے اس کو تاریکی سے بچا کرنور کی طرف راہنمائی کی کہ جس کے نور کے سبب دنیا ، دور دور تک روشن ہوتی چلی گئی ۔(۱)

حضرت امیر اس کلام سے بتانا چاہتے ہیں کہ پروردگار ، فاطمہ کو اس تاریک دنیا سے نکال کر اپنے نور مطلق کی طرف لے گیا ۔

( الله نور السموات والارض مثل نوره کمشکاة فیها مصباح ، المصباح فی زجاجة الزجاجة کانها کوکب دری یوقد من شجرة مبارکة زیتونة لا شرقیة ولا غربیة یکاد زیتها یضیٔ ) (۲)

____________________

۔ ۔ ۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔

اور دوسری روایت میں ہے کہ '' انامن احمد کالصنو من الصنو'' یعنی اصل علی اور اصل پیغمبر ایک ہے جیسے دو خرما کے درخت ایک جڑ سے وجود میں آئے ہوں۔

یہ کلام ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ سے تائید ہوتاہے کہ آپ نے فرمایا : اے علی جس نے تجھے قتل کیا گویا مجھے قتل کیا اور جو تجھ سے دشمنی رکھے گویا میرا دشمن ہے ، اور جو تجھے برا بھلا کہے گویا مجھے برا بھلا کہا ، چونکہ آپ میری جان کی طرح ہو اور آپ کی روح میری روح ہے اور آپ کی طینت و سرشت میری طینت ہے ۔(عیون اخبار الرضا :۲ ۲۶۶۔ اقبال الاعمال :۱ ۳۷۔ بحارالانوار :۱۹۴۲۔)

(۱) بحارالانوار :۴۳ ۲۱۵۔

(۲) سورہ نور (۲۴) آیت ۳۵۔

۲۴۶

خداوندعالم ، زمین و آسمان کا نور ہے اس کے نور کی مثال چراغدان کی طرح ہے کہ جس کے اندر چراغ ہو اور چراغ ایک شیشہ کی چمنی و قندیل میں ہو اور وہ قندیل ایسی ہو گویا چمکتا ہوا ستارہ ، اور وہ زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو کہ جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی اور اس میں اتنی چمک ہو کہ گویا خود بخود روشن ہوجائے ۔

امام علی یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ فاطمہ جس چیز سے خلق ہوئی تھی اس کی طرف پلٹ گئی ہے یعنی فاطمہ کا انتقال اور رحلت عام انسانوں کے انتقال کی طرح نہیں ہے کہ جیسے تمام انسانوں کا انتقال( انا لله و انا الیه راجعون ) (۱) ہم خدا کے لیے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنا ہے بلکہ فاطمہ کاانتقال کرنا ایک نورانی وجود کا نور اکمل کی طرف منتقل ہونا ہے کہ وہی نور پروردگار ہے ۔(۲)

جابر ابن یزید جعفی سے روایت ہے کہ کسی نے اما م جعفر صادق سے سوال کیا کہ فاطمہ کا نام زہرا کیوں رکھا گیا تو امام نے فرمایا: اس لیے کہ خداوندمتعال نے حضرت فاطمہ کو اپنے نور عظمت سے پیدا کیا اور جب نور خلقت فاطمہ چمکا تو تمام آسمان و زمین کو روشن کردیا اور فرشتوں کی آنکھوں کو چکا چوند کردیا ، فرشتے خداوندعالم کے حضور سجدے میں گر گئے اور کہا اے پالنے والے اے ہمارے پروردگار یہ کیسا نور ہے ؟ خداوندعالم نے فرشتوں پر وحی نازل کی کہ یہ میرے نور کا ایک حصہ ہے کہ جس کو آسمان میں قرار دیا ہے اور اس کو میںنے اپنی عظمت سے خلق کیا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ (۲) آیت ۱۵۶۔

(۲) اور زیادہ معلومات کے لیے مراجعہ کیجیے کتاب '' الحق المبین''تالیف، حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی ۔

۲۴۷

اپنے نبیوں میں سے ایک نبی کی صلب سے وجود ظاہری میں لاؤں گا ۔ اس کو میں نے تمام پیغمبروں پر فضیلت بخشی ، اس نور سے کچھ ہستیاں خلق ہوںگی کہ جو کائنات کے امام ہوںگے اور میرے امر کو قائم کریں گے اور میری طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے ، میں نے ان کو سلسلہ وحی کے ختم ہونے کے بعد روئے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے ۔(۱)

کلینی نے اپنی اسناد کے ساتھ محمد بن مروان سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا :بیشک خداوندعالم نے ہمیں اپنی عظمت کے نور سے خلق فرمایا اور پھر ہماری خلقت عرش کے نیچے چھپی ہوئی طینت سے فرمائی ، کوئی بھی ہماری طرح اس کیفیت سے خلق نہیں ہوا ۔(۲)

معانی الاخبار میں رسول خدا سے منقول ہے کہ نور فاطمہ زمین و آسمان کی خلقت سے پہلے خلق ہوا ، کسی نے سوال کیا اے رسول خدا کیا وہ بشر نہیں ہیں ؟آپ نے فرمایا وہ لباس بشریت میں فرشتہ ہیں ، سائل نے دریافت کیا وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا خداوندعالم نے آدم کو خلق کرنے سے پہلے ، فاطمہ کو انپے نورسے پیدا کیا اور اس وقت فاطمہ عالم ارواح میں تھیں پھر جب آدم کو خلق کیا تو یہ نور آدم کودکھایا گیا ۔ سوال کیا اے رسول خدا اس دوران فاطمہ کہاں تھیں؟ فرمایا ساق عرش کے نیچے ایک خاص مکان میں ، معلوم کیا کہ ان کا کھانا پینا کیا تھا ؟ فرمایا تسبیح وتہلیل و تحمید۔(۳)

____________________

(۱) الامامة النصرة ۱۳۳۔ علل الشرائع :۱ ۱۸۰۔

(۲) اصول کافی :۱ ۳۸۹، حدیث ۲۔

(۳) معانی الاخبار ۳۹۶۔

۲۴۸

ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ اس نے امام محمد باقر سے سوال کیا ، اے فرزند رسول مجھے مطلع فرمائیں کہ آپ حضرات ساق عرش میں کس طرح تھے ؟ آپ نے فرمایا ہم خدا کے حضور نور تھے اس سے پہلے کہ وہ مخلوقات کو پیدا کرے ، پس جب خدا نے اپنی مخلوق کو وجود بخشا ہم نے تسبیح کی تو مخلوق نے بھی ہمارے ساتھ تسبیح کی ہم نے تہلیل کی تو اس نے بھی تہلیل کی ، ہم نے تکبیر کہی تو اس نے بھی تکبیر کہی ۔(۱)

عیون اخبار الرضا میں منقول ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی سے فرمایا : انبیاء ، ملائکہ سے افضل ہیں اور میں افضل الانبیاء ہوں اور یہ فضیلت میرے بعد علی کے لیے ہے اور علی کے بعد اس کی نسل کے آئمہ کے لیے ہے ۔

اس وقت علی نے فرمایا ہم کس طرح فرشتوں سے نہ افضل ہوں جب کہ ہم نے ا پنے پروردگار کی معرفت اور تسبیح و تہلیل و تقدیس میں فرشتوں پر سبقت حاصل کی ہے چونکہ خداوندعالم نے سب سے پہلے ہمیں خلق فرمایا اور ہمارے ذریعہ سے اپنی تمحید و توحید کرائی ، پھر ملائکہ کو خلق کیا پس جب انہوں نے ہمارے عظیم نو ر کا مشاہدہ کیا تو ان کی نظروں میں اس کی جلالت آشکار ہوئی تب ہم نے ملائکہ کو سکھانے اور تعلیم دینے کے لیے تسبیح کی تاکہ ان کو یہ علم ہو جائے کہ ہم بھی خدا کی ایک مخلوق ہیں اور خداوندعالم ہماری صفات والا سے منزہ وجدا ہے تب ملائکہ نے ہماری تسبیح کی طرح خداوندعالم کی تسبیح کی اور اس کو ہم سے اور ہمار ی صفات سے جدا و منزہ جانا۔(۲)

____________________

(۱) بحارالانوار :۲۵ ۲۴ ، حدیث ۴۰۔ اور دیکھیے : ـ الہدایة الکبری ۲۴۰۔

(۲) عیون اخبار الرضا :۲ ۲۳۷۔ ینابیع المودة :۳ ۳۷۸۔ تفسیر قمی :۱ ۱۸۔

۲۴۹

تسبیح و تہلیل و تحمید کے مفاہیم ہمیںنماز کی تسبیح کی یاد دلاتے ہیں وہ تسبیح کہ جو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے میوہ دل حضرت فاطمہ زہرا کو تعلیم دی اور یہ مفاہیم ساق عرش کے نیچے آپ کا کھانا پانی تھے اور یہ بات خود ہمیں امر نبوت اور امر خلافت و وصایت کے درمیان رابطے کا پتا دیتی ہے ۔

جی ہاں ، یہ مفاہیم اس انسان نما فرشتے کی خصوصیات میں سے ہیں کہ جس کے متعلق رسول خدا جب کبھی بھی بہشت کے مشتاق ہوتے تو آپ کی خوشبو لیا کرتے اور آپ کے بدن مبارک کا استشمام فرماتے تھے۔

عایشہ سے روایت ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا :جب مجھے معراج ہوئی اور آسمان پر گیا تو بہشت میں لے جایا گیا ، میں وہاں بہشت کے ایک درخت کے قریب کھڑا ہوگیا کہ جو تمام درختوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا، اس سے زیادہ خوبصورت میںنے درخت نہیں دیکھا، اس کے پتوں سے زیادہ سفیدی، اس کی خوشبو سے زیادہ خوشبو اور اس کے پھلوں سے زیادہ خوشمزہ پھل نہیں دیکھے ، لہذا میں نے اس میں سے ایک پھل کو لیا اور کھالیا وہ پھل میرے صلب میں نطفہ بنا جب زمین پر آیا تو وہ نور میری صلب سے خدیجہ کے رحم میں منتقل ہوگیا اور اس سے فاطمہ متولد ہوئیں ۔لہذا میں جب کبھی بھی بہشت کی خوشبو کا مشتا ق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو استشمام کرتا ہوں ۔(۱)

جی ہاں ، فاطمہ بہشت کے سب سے بہترین پھل و میوہ ہیں کہ جو درخت طوبی سے وجود میں آیا ہے ۔(۲)

____________________

(۱) المعجم الکبیر :۲۲ ۴۰۱۔ الدر المنثور :۴ ۱۵۳۔

(۲) بحار الانوار :۴۳ ۶، حدیث ۶۔

۲۵۰

اس کے بعد اس معزز خاتون کے رحم میں منتقل ہوا(۱) کہ جو عالم کی سب سے بہتر اور افضل خاتون ہیں یعنی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ، یہ وہ عظیم المرتبت بی بی ہیں کہ ان کے پاس جو کچھ بھی مال و دولت تھی سب کچھ راہ خدا میں نثار کردی یہاں تک کہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو ان کے لیے کفن بھی نہ تھا تب خداوندعالم نے جبرئیل کے ذریعہ جنت سے کفن بھیجا ۔

یقینا اس عظیم المرتبت بی بی کا حق ہے کہ ان کو صدیقہ ، محدثہ اور علیمہ کہا جائے چونکہ آپ کی والدہ خدیجہ ، باپ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، شوہر عل ی مرتضی اور بچے حسن وحسین جیسی ہستیاں ہیں ۔

____________________

(۱) یہ بات قابل ذکر ہے کہ حدیث سابق کہ جو معجم کبیر و درمنثور ، اہل سنت کی کتابوں سے نقل ہوئی ہے شیعہ روایات کی تائید و تصدیق کرتی ہے اور یہی مؤلف محترم کی نظر بھی ہے کہ صدیقہ طاہرہ کا معنوی و ملکوتی مقام بہت بلند و بالا ہے اور یہ نورانیت ، ودیعۂ الہٰی ہے کہ جو ان کے بعد آپ کی اولاد طاہرین و آئمہ معصومین میں منتقل ہوتی رہی ہے ، بہشتی خوشبو ،ماوراء انسانی خلقت، فرشتہ صفت انسان، اور بشریت سے مافوق یہ سب اموراس وقت حضرت امام زمان (عج) کے وجود مبارک میں پایدار ہیں ، لہذا اس حیثیت سے کوئی بھی انسان بلکہ کوئی بھی مخلوق اہل بیت علیہم السلام کی شریک اور مثل و نظیر نہیں ہے ۔

لیکن واضح ہے کہ آپ کی خلقت ظاہری عام انسانوں کی طرح وجود جسمانی میں پیغمبراکرم اور حضرت خدیجہ کے ذریعہ وجود میں آئی لہذا حضر ت فاطمہ کو وجود ظاہری عطا کرنے میں جناب خدیجہ کا حق پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مانند ہے بلکہ اس کے علاوہ آپ کا تغذیہ جیسے دودھ وغیرہ جناب خدیجہ ہی سے مخصوص ہے جب کہ یہ نکتہ حضرت فاطمہ زہرا کے بے نظیر و بے شمار فضائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت بنیادی و ظریف ہے کہ جس سے جناب خدیجہ کی عظمت اور نمایاں ہوتی ہے اور اس کو خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔(م)

۲۵۱

حضرت فاطمہ کی منزلت کو نصاریٰ تک نے دریافت کیا اور اسقف نصاریٰ نے روز مباہلہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمرا ہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں اور قوم سے کہا کہ میں کچھ ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ چاہیں توخداوندعالم پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے ہٹا سکتا ہے لہذا ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ قیامت تک کے لیے قوم نصاریٰ دنیا سے مٹ جائے گی اور کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا ۔(۱)

کیا آپ نے کبھی ان قرآنی مفاہیم( انفسنا و انفسکم ، نسائنا و نسائکم ، ابنائنا و ابنائکم ) (۲) م یں غور و فکر کیا ہے ؟۔

واقعا علی کیا ہیں اور آپ کا کیا مقام ہے ؟ زہرا کون ہیں اور آپ کی کیا منزلت ہے ؟ حسن و حسین کون ہیں آپ کے مرتبے کیا ہیں ؟۔

بیشک یہ معنوی مفاہیم اورآسمانی نام ہیں کہ جن کے متعلق غور وفکرلازم و ضروری ہے ۔(۳)

جی ہاں ، فاطمہ اور آپ کے والد گرامی ایک گوہر ہیں اور علی و پیغمبر ایک نفس وجان ہیں رسول خدا نے فاطمہ کی شادی علی کے ساتھ فرمائی چونکہ علی ،فاطمہ کے کفو و برابر ہیں۔

____________________

(۱) تفسیر کشاف :۱ ۳۶۹۔ تفسیر فخررازی :۸ ۷۱۔ السیرة الحلبیة :۳ ۲۶۳۔ الطرائف ۴۲۔ مجمع البیان :۲ ۳۱۰۔

(۲) سورہ آل عمران(۳) آیت ۶۱۔

(۳) جو کوئی بھی معارف الہٰی اور نفخات قدسی کو اس طرح کے کلمات میں تلاش کرنا چاہتاہے تو وہ کتاب شریف '' الحق المبین'' تالیف، حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کی طرف مراجعہ کرے۔

۲۵۲

اور اگر علی نہ ہوتے تو کوئی فاطمہ کی برابری کے قابل نہ تھا ، یہ خداوندعالم کا لطف خاص اور فضل و کرم ہے اور پھر خداوندعالم نے انہیں پاک و پاکیزہ و طاہر و مطہر فرزند عطا فرمائے کہ جو مسلمانوں کے امام ہیں ۔

فاطمہ صدیقہ اور آپ کے دشمن

اب دیکھیے کہ علی و فاطمہ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اورکس طرح مختلف روش کے ساتھ حیلہ ومکر کے ذریعہ آپ کی تکذیب کی گئی اور آپ کو آپ کے حق سے محروم رکھا گیا ۔

ابوبکر صراحتاً حضرت زہرا کی تکذیب نہ کرسکتے تھے بلکہ اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ سچی و صادقہ ہیں اور آپ کا کلام ، کلام الہٰی کی طرح سچا ہے ۔ لیکن کچھ بہانے اور عذر پیش کیے کہ جو ابتدائی نظر میں اچھے نظر آتے ہیں ۔

ابوبکر نے کہا :اے بہترین خاتون عالم اور تمام عالم کی بہترین عورت کی بیٹی آپ اپنی گفتار میں سچی ہیں اور عقل و منطق میں کامل ہیں آپ کے حق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور آپ کے صدق و صفائی میں کوئی بہانہ پیش نہیں کیا جائے گا ، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا کے فرمان کو پائمال نہیں کرسکتا میں نے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہم صنف انبیاء ، سونا چاندی گھر و جنگل میراث میں نہیں چھوڑ تے! اور ہماری میراث صرف کتاب و سنت اور حکمت و نبوت ہے اور جو مال ہم سے رہ جائے وہ ہمارے بعد ولی امر کے لیے ہے کہ وہ جو چاہے انجام دے ۔(۱)

____________________

(۱) یہ تمام گفتگو اور حضرت زہرا کا جواب پہلے بیان ہوچکا ہے ۔ دیکھیے: احتجاج طبرسی :۱ ۱۴۱ـ۱۴۴۔

۲۵۳

ابوبکر نے یہ ماحول و موقعیت فراہم کرلی کہ فاطمہ زہرا کو جھٹلایا جاسکے اور ایسے بہانے تلاش کیے کہ جوظاہرا شرعی نظر آرہے تھے لیکن حضرت فاطمہ زہرا نے حجت و برہان اور قاطع دلیلوں سے یہ ثابت کردیا کہ ابوبکر جھوٹے ہیں اور فرمایا : اے ابوقحافہ کے بیٹے ''لقد جئت شیأ فریا ''(۱) خدا کی قسم بہت بڑا جھوٹ اور خود ساختگی چیز پیش کی ہے ۔

یہ صدیقہ فاطمہ کا کلام ہے کہ جس کی خوشنودی میں رضائے الہٰی ہے اور جس کی ناراضگی میں غضب خداوندہے جب کہ یہ جملہ بالکل واضح ہے کہ حضرت زہرا کوئی بات بھی اپنی خواہشا ت نفس و حس عاطفی سے نہیں کہتیں اور عام انسانوں کی طرح گفتگو نہیں کرتیں چونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ خداوندعالم اپنی مطلقا رضا و غضب کوکسی ایسے شخص کی خوشنودی و ناراضگی میں قرار دے کہ جو نعوذ باللہ خواہشات نفس کا تابع اور اپنی مصلحت کا فرمانبردار ہو ۔

ا س کا مطلب یہ ہے کہ فاطمہ زہرا ، مرتبہ عصمت پر فائز ہیں چونکہ آپ کی خوشنودی خدا کی رضا اور آپ کی ناراضگی خداوندعالم کا غضب ہونے کے یہی معنی ہیں کہ آپ معصوم ہیں،اور دوسری طرف یہ مقام کہ فاطمہ ، نور خدا سے خلق ہوئی ہیں ، صدیقہ کبری کی خشم و ناراضگی میں خدااور اس کے رسول کا غضب منعکس ہے ۔یہ ہے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان '' فاطمہ م یرا ٹکڑا ہے جو اس کو اذیت دے گا گویا اس نے مجھے اذیت دی ''(۲) اورجس نے اس کو ناراض ک یا گویا اس نے مجھے ناراض کیا ۔(۳)

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹) آیت ۲۷۔

(۲) المجموع (نووی) :۲۰ ۲۳۴۔

(۳) ینابیع المودة :۲ ۵۷۔

۲۵۴

فاطمہ زہرا سے فرمایا بیشک خداوند آپ کی ناراضگی میں غضب ناک ہوتا ہے اور آپ کی خوشنودی میں خوشنود ہوتا ہے ۔(۱)

یہ سب تاکید ہے کہ فاطمہ کی ناراضگی اور اس کو پریشان کرنا، ان کو غصہ دلانا خدا اور رسول کو ناراض کرنا اور ان کو اذیت و پریشان کرنا ہے ۔خداوندمتعال کا ارشاد ہے :

( ان الذین یوذون الله و رسوله لعنهم الله فی الدنیا والآخرة و اعدلهم عذاباً مهیناً ) (۲)

وہ لوگ کہ جو خدااور رسول کو اذیت و پریشان کرتے ہیں ان پر اللہ دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب مہیا کررکھا ہے ۔ اور پھر ارشاد ہوا :

( ومن یحلل علیه غضبی فقد هوی ) (۳)

اور جس پر خدا وندعالم کا غضب نافذ ہو جائے وہ برباد اور جہنمی ہے ۔

اب آپ دیکھیے کہ جو بخاری نے عایشہ سے اور ابن قتیبہ نے عمر سے روایت نقل کی ہے کہ عایشہ کا بیان کہ فاطمہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوبکر کے پاس پ یغام بھیجا کہ جس میں رسول خدا کی میراث کا مطالبہ کیا اور وہ مال کہ جو خداوندعالم نے ان کو مدینہ میں عطا کیا تھا فدک و خمس خیبر وغیرہ اسے طلب کیا۔

____________________

(۱) مستدرک حاکم :۳ ۱۵۴۔

(۲) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۵۷۔

(۳) سورہ طہ(۲۰) آیت ۸۱۔

۲۵۵

ابوبکر نے کہا ، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑ تے اور جو کچھ ہم سے رہ جاتا ہے وہ صدقہ ہے بیشک آل محمد اسی طرح تصرف کریں اور خدا کی قسم میں رسول خدا کے صدقے میں کوئی تغییر نہیں دے سکتا اور جو چیز آپ کے زمانہ حیات میں جہاں استعمال ہوتی تھی اس کو وہیں استعمال کروں گا اور میں رسول خدا کے عمل کے مطابق عمل انجام دوںگا ۔

بہر حال ابوبکر نے کچھ بھی فاطمہ زہرا کو نہ دیا ، آپ ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیاجب تک زندہ رہیں ابوبکر سے گفتگو نہیں کی ۔

فاطمہ ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں اور جب آپ کا انتقال ہوا آپ کے شوہر علی نے آپ کو رات ہی میں دفن کردیا اور ابوبکر کو خبر بھی نہ دی ، خود ہی فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی اور فاطمہ کی زندگی میں علی کے لیے رعب و دبدبہ تھا ،لوگوں کے درمیان عز ت و احترام تھا لیکن جب فاطمہ کا انتقال ہوگیا علی ناآشنا و تنہا رہ گئے۔(۱)

ابن قتیبہ دینوری (م ۲۷۶ھ) الامامة والس یاسة میں رقمطراز ہے کہ عمر نے ابوبکر سے کہا آؤ ہم فاطمہ کے پاس چلتے ہیں کہ ہم نے ان کو ناراض کیا ہے ، پس دونوں چل دیئے اور فاطمہ سے ملاقات کی اجازت چاہی ، فاطمہ نے ان دونوں کو اجاز ت نہیں دی وہ لوگ علی کے پاس پہنچے اور آپ سے گفتگو کی ، علی ان دونوں کو فاطمہ کے پاس لے گئے تو جیسے ہی وہ فاطمہ کے سامنے بیٹھے آپ نے اپنی صورت کو دیوار کی طرف کرلیا ، انہوں نے فاطمہ کو سلام کیا آپ نے ان کے سلام کا جواب بھی نہ دیا ۔

____________________

(۱) صحیح بخاری : ۵ ۸۳، کتاب مغازی ، باب غزوہ خیبر ۔ صحیح مسلم :۵ ۱۵۴۔

۲۵۶

ابوبکر نے گفتگو کرنا شروع کی اور کہا اے حبیبہ رسول خدا ، خدا کی قسم میرے نزدیک رسول خدا کے رشتہ دار و عزیز میرے رشتہ دار و عزیز سے زیادہ محبوب تر ہیں اور میں آپ کو اپنی بیٹی عایشہ سے بھی زیادہ چاہتاہوں اور عزیز رکھتا ہوں ، میں تو چاہتا تھا کہ آپ کے والد رسول خدا کے انتقال سے پہلے ہی مرجاؤں اور یہ دن مجھے دیکھنے کو نہ ملے میں آپ کے فضل و شرف سے واقف ہوں اور آپ کی نظریہ ہے کہ میں نے آپ کو آپ کی میراث اور حق سے محروم رکھا ہے جب کہ میں نے وہی کیا کہ جو رسول خدا سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا: ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے او ر جو کچھ ہم سے رہ جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔

فاطمہ نے کہا کیا اگر میں آپ سے حدیث رسول بیان کروں تواس کو حدیث و فرمان رسول مانوگے اور اس پر عمل کروگے ؟ ان دونوں نے کہا :ہاں۔

فاطمہ نے فرمایا آپ دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا آپ لوگوں نے یہ نہیں سنا کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ فاطمہ کی خوشنودی میری رضا ہے اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے اور جو کوئی بھی میری بیٹی فاطمہ کو دوست رکھے گا گویا مجھے دوست رکھا اور جس نے فاطمہ کو خوشنود و خوشحال کیا گویا مجھے خوشنود و خوشحال کیا اور جس نے اس کو ناراض کیا اور غصہ دلایا گویا مجھے ناراض کیا اورمجھے غصے میں لایا، ان دونوں نے کہا : ہاں ہم نے رسول خدا سے یہ سنا ہے ۔

فاطمہ نے فرمایا پس میں خدا اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا اور غصہ دلایا ہے اور راضی و خوشنود نہیں کیا ہے اور جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کروں گی ان سے آپ کی شکایت کروں گی ۔

۲۵۷

ابوبکر نے کہا میں خدا کے غضب اور اے فاطمہ آپ کے غضب و ناراضگی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس وقت ابوبکر بلند آواز سے رونے لگے یہاں تک کہ ان کی روح ، بد ن سے نکلنے والی تھی جب کہ فاطمہ کہہ رہی تھیں خداکی قسم میں ہر نماز میں تم دونوں پر لعنت کروں گی ۔۔۔

علی نے جب تک فاطمہ زندہ رہیں ابوبکر کی بیعت نہ کی(۱) اور فاطمہ اپنے والد گرا می کے انتقال کے بعد زیادہ دن دنیا میں نہ رہیں بلکہ صرف پچھتررات۔(۲)

تمام نصوص وروایات دلالت کرتی ہیں کہ فاطمہ زہرا ، ابوبکر سے ناراض رہیں اور ابوبکر و عمر سے ناراض و غمگین دنیا سے گئیں ۔ اس سلسلے میں مسجد رسول میں حضرت فاطمہ زہرا کا خطبہ آپ کے لیے کافی ہے ، اس خطبہ میں بہت زیادہ ایسے مقامات اور عبارات ہیں کہ جن میں غور وفکر کی ضرور ت ہے ۔

مثلا وہ وقت کہ جب حضرت فاطمہ نے فرمایا : اے لوگوں جان لو کہ میں فاطمہ ہوں اور میرے والد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہ یں یہ ہمیشہ کہتی ہوں اور جو کہتی ہوں اشتباہ و خطاء نہیں کرتی اور جو کام انجام دیتی ہوں اس میں کسی پر ظلم و زیادتی نہیںکرتی ۔(۳)

____________________

(۱) یہ اہل سنت کی روایت ہے ورنہ شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ علی نے اصلا ابوبکر کی بیعت نہیں کی بلکہ مادام العمر کسی غیر کی بیعت نہیں کی ۔(م)

(۲) الامامة والسیاسة :۱ ۱۹ـ۲۰۔

(۳) شرح الاخبار :۳ ۳۴۔ احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۴۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید): ۱۶ ۲۱۲۔

۲۵۸

آنحضرت اس کلام سے ایک بہت مہم حقیقت کو آشکار فرمانا چاہتی ہیں اور وہ یہ کہ میں وہی فاطمہ ہوں کہ جس کے بارے میں رسول خدا کا ارشاد گرامی ہے :سیدة نساء العالمین(۱) فاطمہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہے فاطمہ صدیقہ ہیں(۲) (بہت زیادہ سچ بولنے والی )۔

____________________

(۱) مسند ابی داؤد طیالسی ۱۹۷ ۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ۷ ۲۵۷، حدیث ۵۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۵۶۔(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد و رجال صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا )

(۲) اصول کافی :۱ ۴۵۸،حدیث ۲۔ منتقی الجمان :۱ ۲۲۴۔

بلکہ ام المؤمنین عایشہ حضرت فاطمہ زہرا کی توصیف میں کہتی ہیں کہ میں نے کسی کو بھی فاطمہ سے زیادہ رسول خدا سے گفتار و رفتار، اٹھنے بیٹھنے ،چلنے پھرنے میں مشابہ تر نہیں پایا اور جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تشریف لاتیں آپ ان کی تعظیم کے لیے اٹھ جاتے ، ان کی دست بوسی کرتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب کبھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہ کے یہاں تشریف لے جاتے توفاطمہ ان کی تعظیم کے لیے اٹھتیں اور آپ کی دست بوسی کرتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔دیکھیےـ : سنن ترمذی :۵ ۳۶۱، حدیث ۳۹۶۴۔ سنن ابی داؤد :۲ ۵۲۲ ، حدیث ۱۷ ۵۲۔ مستدرک حاکم :۴ ۲۷۲۔ الادب المفرد (بخاری ) ۲۰۲۔

دوسری روایت میںہے کہ میں نے کسی کو بھی فاطمہ کی طرح رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتار و رفتار و کردار میں شبیہ ترنہیں دیکھا ، جب بھی فاطمہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تشریف لاتیں ان کے لیے جگہ فراہم کرتے ان کی تعظیم کوکھڑے ہوتے آپ کے ہاتھوں کو پکڑتے، بوسے لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھلاتے ۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۵۴۔ السنن الکبری (بیہقی ) : ۷ ۱۰۱۔

اور تیسری روایت میں ہے کہ عایشہ نے کہا کہ میں نے فاطمہ سے زیادہ رسول خدا کے علاوہ سچا اور وعدہ وفائی میں پکا و پختہ نہیں دیکھا ۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۶۱ ۔ نظم درر السمطین(زرندی) ۱۸۲ ۔

۲۵۹

ام ابیها (۱) اپنے باپ کی ماں ،فداها ابوها (۲) اس کا باپ اس پر قربان ہوجائے ۔ گویا حضرت فاطمہ زہرا یہ فرمانا چاہتی ہیں کہ میں وہی ہوں کہ جس کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے آزردہ و پریشان کیا اس نے مجھ کوآزردہ و پریشان کیا ۔(۳)

بنابر این حضرت زہرا کے کلام مبارک کے جملات اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں کہ میں جو کچھ بھی کہہ رہی ہوں غلط و خطا ء نہیں ہے اور جو کچھ اقدام کررہی ہوں یہ ظلم و زیاتی نہیں ہے ۔

یقینا فاطمہ زہرا غلط و خطا ء کلام نہیں فرماتیں اور اپنے کام میں ظلم و زیادتی نہیں فرماتیں جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس ی پر بھی یا کسی سے بھی خواہشات نفس کی وجہ سے کچھ نہیں فرمایا وہ ایسی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد ہوا :( وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ) (۴)

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی خواہشات نفس سے کوئی بات نہیں کرتے وہ جو بھی کہتے ہیں وہ وحی الہٰی ہے ۔

امیر المؤمنین نے اسی بات کی اپنے کلام میں تائید فرمائی ہے :

''بیشک رسول خدا نے مجھ کو ظاہری رشتہ داری و قرابت داری کی وجہ سے اپنے قریب نہیں کیا بلکہ میں ایثار و قربانی اور جہاد کے ذریعہ ان کے قریب ہوا ''۔(۵)

____________________

(۱) المعجم الکبیر :۲۲ ۳۹۷۔ تاریخ دمشق :۱۵۸۔ اسد الغابہ :۵ ۵۲۰۔

(۲) امالی صدوق ۳۰۵، حدیث ۳۴۸۔ روضة الواعظین ۴۴۴۔ مناقب ابن شہر آشوب :۳ ۱۲۱۔

(۳) صحیح بخاری :۶ ۱۵۸۔ سنن ابی داؤد :۱ ۴۶۰، حدیث ۲۰۷۱۔ المعجم الکبیر : ۲۲ ۴۰۴۔

(۴) سورہ نجم (۵۳) آیت ۳ـ۴۔

(۵) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۲۰ ۲۹۹۔

۲۶۰