"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

12%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49445 / ڈاؤنلوڈ: 6227
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

ان تمام واقعات و حالات سے یہ واضح ہوگیا کہ صدیقیت ایک ربانی و الہٰی امتیاز ہے اور صرف ان لوگوں کو عطا ہوتا ہے کہ جو عالی صفات کے حامل ہوں ، ان کا کردار ان کی گفتار کی تصدیق کرتا ہو ، انپے دل و جان سے ایمان لائے ہوں اور علی ہے کہ جس نے فرمایا:

''ما شککت فی الحق منذ اریته'' (۱) م یں نے جب سے حق کو پہچانا اس میں کبھی شک نہ کیا ۔

مسلمان پریہ بات مخفی نہیں رہنی چاہیے کہ تمام خلائق کے پیدا ہونے کا مقصد و ہد ف، خداوندمتعال کی عبادت و معرفت ہے اور یہ معرفت وحی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ، اسی وجہ سے مخلوقات کے وجود او رپیدائش کے آخری سبب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے وصی و معصومین ہیں کہ وہ واقعی انسان کامل ہیں اور یہ معرفت حضرت محمد مصطفی کی بعثت کے وقت اپنے عروج پر پہنچی اور روز غدیر کامل ہوئی لہذا خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :

( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ) (۲)

آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کا اتمام کردیا اور تمہارے لیے دین اسلام سے راضی ہوگیا ۔

____________________

(۱) خصائص الآئمہ (سید رضی ) ۱۰۷۔ ارشاد مفید :۱ ۲۵۴۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :۱۸ ۳۷۴۔

(۲) سورہ مائدہ (۵) آیت ۳۔

۲۴۱

منزلت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا

صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا ، نبوت اور وصایت کے درمیان پیوند دینے والی کڑی کا نام ہے ،چونکہ آپ رسول کی بیٹی اور وصی کی زوجہ ہیں اور دیگر اوصیاء آپ ہی کے بیٹے ہیں کہ جن پر میراث نبوت تمام ہوتی ہے ۔(۱)

فاطمہ وہ نور ہے کہ جو محمد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صلب سے چمکا اور پھر اس نور سے جا ملا کہ جو ابوطالب کی صلب سے تھا ، اس طرح علی و فاطمہ اس نور کے ملاپ کے مرکز ہیں کہ جو خلقت آدم سے پہلے وجود میں آیا ، چونکہ اس سے پہلے گذر چکا ہے کہ احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ : ۲ ۶۶۲ میںپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور کے دو ٹکڑے ہیں ہم خلقت آدم سے پہلے خلق ہوئے اور خداوندعالم نے جب آدم کو پیدا کیا تو ہمارے نور کو ان کی صلب میں رکھا ، یہاں تک کہ ہم ایک ساتھ چلتے رہے اور عبدالمطلب کی صلب میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ، پس اس نور کا ایک جزء عبداللہ کی صلب میں قرار پایا اور دوسرا جزء صلب ابی طالب میں مستقر ہوا۔

____________________

(۱) بصائر الدرجات ۸۳، حدیث ۱۰۔ امالی صدوق ۳۸۳، حدیث ۴۸۹۔

۲۴۲

حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے اپنے خطبوں میں ان حقائق کی طرف اشارہ فرمایا ہے لہذا حضرت فاطمہ زہرا اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتی ہیں :

میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہ یں ان کو مبعوث کرنے سے پہلے منتخب فرمایا اور منتخب کرنے سے پہلے اپنا رسول کہا اور ان کو مبعوث بہ رسالت کرنے سے پہلے دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ، میرے والد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی پیغمبری کا انتخاب اس وقت ہوا کہ جب لوگ عالم ذر میں پوشیدہ تھے ، عدم کے تاریک و ہولناک پردوں میں تھے اور وجود کی نعمت ان کو عطا نہ ہوئی تھی ۔

خداوندعالم نے کائنات کے علم اور تمام و قائع و حوادث کی معلومات اور مقدرات کی معرفت کے سبب اپنے اتمام امر کی خاطر، اپنے حکم کی تعمیل اور اپنے مقدرات حتمی کے جریان کی خاطر آپ کو مبعوث بہ رسالت فرمایا ۔(۱)

بنابرایں حضرت فاطمہ زہرا لوگوں کو اصل نبوت پر تذکر نہیں دیتیں چونکہ امت نے ظاہرا قبول کرلیا ہے کہ محمد ،اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ کے نزدیک آپ کی منزلت و مقام کو بیان کرنا مقصود ہے چونکہ بہت سے لوگ رسالت کے عمیق معنی کو درک نہیں کرتے اور مقام پیغمبری کو نہیں سمجھ پاتے بلکہ ایک عام انسان کی طرح اس کے متعلق بھی سطحی نظر رکھتے ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا نے سمجھانا چاہا کہ معرفت واقعی ہمارے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور چونکہ انسان روئے زمین پر الہٰی خلیفہ ہے لہذا امت کا رہبر اور قائد کوئی کامل انسان ہو۔

____________________

(۱) احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۳۔ السقیفہ و فدک (جوہری) ۱۴۰۔ بلاغات النساء (ابن منظور) ۱۵۔

۲۴۳

جیساکہ انبیاء و رسل اور منتخب اوصیاء سب انسان کامل تھے یہ وہی افراد ہیں کہ جن کو خداوندعالم نے اپنے بندو ں کے درمیان منتخب فرمایا ہے اور وہ لائق ترین افراد ہیں ، تمام مخلوقات زمین وآسمان میں سب سے بلند و بالا مقام و درجہ پر فائز ہیں ، اور یہی افراد نص قرآنی کے اعتبار سے مطہر و پاک و پاکیزہ ہیں ۔

اس سے پہلے امیر المؤمنین امام علی اور ابوبکر کے درمیان گفتگو و احتجاج گذرچکا ہے کہ آپ نے ابو بکر سے فرمایا اگر کچھ لوگ فاطمہ پر نازیبا حرکت کی تہمت لگائیں تو آپ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرو گے ابوبکر نے کہا میں ان کے خلاف لوگوں کی گواہی کو قبول کرکے ان پر حد جاری کروںگا۔(۱)

امیرالمؤمنین اس سوال سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر اور ان کے ماننے والے اور آئندہ کی نسل ابھی فاطمہ زہرا کی قرآنی منزلت و مقام کو درک نہیں کرپائے ہیں اور ان کے بارے میں ان لوگوں کی نظر سطحی ہے ، فاطمہ کو صرف ایک عام آدمی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں نہ کہ ان کے اصلی مقام اور تمام مراتب کے اعتبار سے ۔

اور ہم صادق و امین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے صدیق و امین وصی علی ابن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا کی تھوڑی بہت معرفت رکھتے ہیں جب کہ ان کی حقیقی معرفت تو ہماری سطح سے بہت بلند و بالا ہے لہذا ان کی شخصیت کے بارے میں ہماری نادانی و مجہولات بہت زیادہ ہیں چونکہ وہ بہت بلند وبالا مقام و مرتبہ پر فائز اور نور الہٰی سے خلق ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) احتجاج طبرسی :۱ ۱۱۹ـ۱۲۳۔ تفسیر قمی :۲ ۱۵۵۔

(۲) الامامة والنصرة ۱۳۳، حدیث ۱۴۔ معانی الاخبار ۳۵۱۔ الفضائل (ابن شاذان) ۱۵۸۔

۲۴۴

اس وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ فاطمہ کو فاطمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مخلوق الہٰی ان کی معرفت سے جدا اور عاجزہیں ۔(۱)

اس حدیث میں امام جعفر صادق نے کلمہ خلق (مخلوقات الہٰی ) کا استعمال کیا جب کہ خلق اور ناس میں بہت زیادہ فرق ہے ، خلق و مخلوقات الہٰی ناس وانسان سے بہت وسیع مفہوم والا لفظ ہے چونکہ مخلوقات الہٰی میں تمام انسان و جن و ملائکہ بھی شامل ہیں ۔

بہرحال اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مخلوقات الہٰی کیوں معرفت فاطمہ سے دور ہیں کیا ان کی کوتاہ فکری کی وجہ سے ؟ یا فاطمہ کا مقام بہت بلند و بالا ہے ؟ یا ان کے اعمال کی وجہ سے ہے کہ وہ ہوا پرستی ، و خواہشات نفس کے سبب فاطمہ کے خلاف مرتکب ہوئے ؟ یا یہ تمام اسباب اس امر میں دخیل ہیں ؟ ۔

جی ہاں، منزلت فاطمہ زہرا بہت بلند و بالا ہے ہم ان کی معرفت کما حقہ حاصل نہیں کرسکتے ، لیکن علی ان کی منزلت کو سمجھتے ہیں چونکہ آپ کا وجود مبارک بھی اسی نور سے ہے کہ جس سے وہ خلق ہوئی ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) تفسیر فرات کوفی ۵۸۱۔ بحارالانوار : ۴۳ ۶۵۔

(۲) حضرت امیر المؤمنین کا خط عثمان بن حنیف انصاری کے نام کہ جوآپ کی جانب سے بصرہ کا گورنر تھا ، اس میں مذکور ہے کہ میری رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت ایک جڑ سے دوشاخیں کی حیثیت ہے جیسے کہنی سے بازو کی نسبت ۔نہج البلاغہ :۳ ۷۳ ، خط ۴۴۔ اس تشبیہ سے اتحاد و امتزاج کی شدت و انتہا بتانا مقصود ہے کہ جو پیغمبر و علی کے درمیان ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بقیہ اگلے صفحہ پر ۔ ۔ ۔

۲۴۵

کتاب مقتل الحسین خوارزمی میں مذکور ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد خداوندعالم سے مخاطب ہوکے فرمایا :

پروردگارا یہ تیرے رسول کی بیٹی ہے تونے اس کو تاریکی سے بچا کرنور کی طرف راہنمائی کی کہ جس کے نور کے سبب دنیا ، دور دور تک روشن ہوتی چلی گئی ۔(۱)

حضرت امیر اس کلام سے بتانا چاہتے ہیں کہ پروردگار ، فاطمہ کو اس تاریک دنیا سے نکال کر اپنے نور مطلق کی طرف لے گیا ۔

( الله نور السموات والارض مثل نوره کمشکاة فیها مصباح ، المصباح فی زجاجة الزجاجة کانها کوکب دری یوقد من شجرة مبارکة زیتونة لا شرقیة ولا غربیة یکاد زیتها یضیٔ ) (۲)

____________________

۔ ۔ ۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔

اور دوسری روایت میں ہے کہ '' انامن احمد کالصنو من الصنو'' یعنی اصل علی اور اصل پیغمبر ایک ہے جیسے دو خرما کے درخت ایک جڑ سے وجود میں آئے ہوں۔

یہ کلام ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ سے تائید ہوتاہے کہ آپ نے فرمایا : اے علی جس نے تجھے قتل کیا گویا مجھے قتل کیا اور جو تجھ سے دشمنی رکھے گویا میرا دشمن ہے ، اور جو تجھے برا بھلا کہے گویا مجھے برا بھلا کہا ، چونکہ آپ میری جان کی طرح ہو اور آپ کی روح میری روح ہے اور آپ کی طینت و سرشت میری طینت ہے ۔(عیون اخبار الرضا :۲ ۲۶۶۔ اقبال الاعمال :۱ ۳۷۔ بحارالانوار :۱۹۴۲۔)

(۱) بحارالانوار :۴۳ ۲۱۵۔

(۲) سورہ نور (۲۴) آیت ۳۵۔

۲۴۶

خداوندعالم ، زمین و آسمان کا نور ہے اس کے نور کی مثال چراغدان کی طرح ہے کہ جس کے اندر چراغ ہو اور چراغ ایک شیشہ کی چمنی و قندیل میں ہو اور وہ قندیل ایسی ہو گویا چمکتا ہوا ستارہ ، اور وہ زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو کہ جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی اور اس میں اتنی چمک ہو کہ گویا خود بخود روشن ہوجائے ۔

امام علی یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ فاطمہ جس چیز سے خلق ہوئی تھی اس کی طرف پلٹ گئی ہے یعنی فاطمہ کا انتقال اور رحلت عام انسانوں کے انتقال کی طرح نہیں ہے کہ جیسے تمام انسانوں کا انتقال( انا لله و انا الیه راجعون ) (۱) ہم خدا کے لیے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنا ہے بلکہ فاطمہ کاانتقال کرنا ایک نورانی وجود کا نور اکمل کی طرف منتقل ہونا ہے کہ وہی نور پروردگار ہے ۔(۲)

جابر ابن یزید جعفی سے روایت ہے کہ کسی نے اما م جعفر صادق سے سوال کیا کہ فاطمہ کا نام زہرا کیوں رکھا گیا تو امام نے فرمایا: اس لیے کہ خداوندمتعال نے حضرت فاطمہ کو اپنے نور عظمت سے پیدا کیا اور جب نور خلقت فاطمہ چمکا تو تمام آسمان و زمین کو روشن کردیا اور فرشتوں کی آنکھوں کو چکا چوند کردیا ، فرشتے خداوندعالم کے حضور سجدے میں گر گئے اور کہا اے پالنے والے اے ہمارے پروردگار یہ کیسا نور ہے ؟ خداوندعالم نے فرشتوں پر وحی نازل کی کہ یہ میرے نور کا ایک حصہ ہے کہ جس کو آسمان میں قرار دیا ہے اور اس کو میںنے اپنی عظمت سے خلق کیا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ (۲) آیت ۱۵۶۔

(۲) اور زیادہ معلومات کے لیے مراجعہ کیجیے کتاب '' الحق المبین''تالیف، حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی ۔

۲۴۷

اپنے نبیوں میں سے ایک نبی کی صلب سے وجود ظاہری میں لاؤں گا ۔ اس کو میں نے تمام پیغمبروں پر فضیلت بخشی ، اس نور سے کچھ ہستیاں خلق ہوںگی کہ جو کائنات کے امام ہوںگے اور میرے امر کو قائم کریں گے اور میری طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے ، میں نے ان کو سلسلہ وحی کے ختم ہونے کے بعد روئے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے ۔(۱)

کلینی نے اپنی اسناد کے ساتھ محمد بن مروان سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا :بیشک خداوندعالم نے ہمیں اپنی عظمت کے نور سے خلق فرمایا اور پھر ہماری خلقت عرش کے نیچے چھپی ہوئی طینت سے فرمائی ، کوئی بھی ہماری طرح اس کیفیت سے خلق نہیں ہوا ۔(۲)

معانی الاخبار میں رسول خدا سے منقول ہے کہ نور فاطمہ زمین و آسمان کی خلقت سے پہلے خلق ہوا ، کسی نے سوال کیا اے رسول خدا کیا وہ بشر نہیں ہیں ؟آپ نے فرمایا وہ لباس بشریت میں فرشتہ ہیں ، سائل نے دریافت کیا وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا خداوندعالم نے آدم کو خلق کرنے سے پہلے ، فاطمہ کو انپے نورسے پیدا کیا اور اس وقت فاطمہ عالم ارواح میں تھیں پھر جب آدم کو خلق کیا تو یہ نور آدم کودکھایا گیا ۔ سوال کیا اے رسول خدا اس دوران فاطمہ کہاں تھیں؟ فرمایا ساق عرش کے نیچے ایک خاص مکان میں ، معلوم کیا کہ ان کا کھانا پینا کیا تھا ؟ فرمایا تسبیح وتہلیل و تحمید۔(۳)

____________________

(۱) الامامة النصرة ۱۳۳۔ علل الشرائع :۱ ۱۸۰۔

(۲) اصول کافی :۱ ۳۸۹، حدیث ۲۔

(۳) معانی الاخبار ۳۹۶۔

۲۴۸

ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ اس نے امام محمد باقر سے سوال کیا ، اے فرزند رسول مجھے مطلع فرمائیں کہ آپ حضرات ساق عرش میں کس طرح تھے ؟ آپ نے فرمایا ہم خدا کے حضور نور تھے اس سے پہلے کہ وہ مخلوقات کو پیدا کرے ، پس جب خدا نے اپنی مخلوق کو وجود بخشا ہم نے تسبیح کی تو مخلوق نے بھی ہمارے ساتھ تسبیح کی ہم نے تہلیل کی تو اس نے بھی تہلیل کی ، ہم نے تکبیر کہی تو اس نے بھی تکبیر کہی ۔(۱)

عیون اخبار الرضا میں منقول ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی سے فرمایا : انبیاء ، ملائکہ سے افضل ہیں اور میں افضل الانبیاء ہوں اور یہ فضیلت میرے بعد علی کے لیے ہے اور علی کے بعد اس کی نسل کے آئمہ کے لیے ہے ۔

اس وقت علی نے فرمایا ہم کس طرح فرشتوں سے نہ افضل ہوں جب کہ ہم نے ا پنے پروردگار کی معرفت اور تسبیح و تہلیل و تقدیس میں فرشتوں پر سبقت حاصل کی ہے چونکہ خداوندعالم نے سب سے پہلے ہمیں خلق فرمایا اور ہمارے ذریعہ سے اپنی تمحید و توحید کرائی ، پھر ملائکہ کو خلق کیا پس جب انہوں نے ہمارے عظیم نو ر کا مشاہدہ کیا تو ان کی نظروں میں اس کی جلالت آشکار ہوئی تب ہم نے ملائکہ کو سکھانے اور تعلیم دینے کے لیے تسبیح کی تاکہ ان کو یہ علم ہو جائے کہ ہم بھی خدا کی ایک مخلوق ہیں اور خداوندعالم ہماری صفات والا سے منزہ وجدا ہے تب ملائکہ نے ہماری تسبیح کی طرح خداوندعالم کی تسبیح کی اور اس کو ہم سے اور ہمار ی صفات سے جدا و منزہ جانا۔(۲)

____________________

(۱) بحارالانوار :۲۵ ۲۴ ، حدیث ۴۰۔ اور دیکھیے : ـ الہدایة الکبری ۲۴۰۔

(۲) عیون اخبار الرضا :۲ ۲۳۷۔ ینابیع المودة :۳ ۳۷۸۔ تفسیر قمی :۱ ۱۸۔

۲۴۹

تسبیح و تہلیل و تحمید کے مفاہیم ہمیںنماز کی تسبیح کی یاد دلاتے ہیں وہ تسبیح کہ جو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے میوہ دل حضرت فاطمہ زہرا کو تعلیم دی اور یہ مفاہیم ساق عرش کے نیچے آپ کا کھانا پانی تھے اور یہ بات خود ہمیں امر نبوت اور امر خلافت و وصایت کے درمیان رابطے کا پتا دیتی ہے ۔

جی ہاں ، یہ مفاہیم اس انسان نما فرشتے کی خصوصیات میں سے ہیں کہ جس کے متعلق رسول خدا جب کبھی بھی بہشت کے مشتاق ہوتے تو آپ کی خوشبو لیا کرتے اور آپ کے بدن مبارک کا استشمام فرماتے تھے۔

عایشہ سے روایت ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا :جب مجھے معراج ہوئی اور آسمان پر گیا تو بہشت میں لے جایا گیا ، میں وہاں بہشت کے ایک درخت کے قریب کھڑا ہوگیا کہ جو تمام درختوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا، اس سے زیادہ خوبصورت میںنے درخت نہیں دیکھا، اس کے پتوں سے زیادہ سفیدی، اس کی خوشبو سے زیادہ خوشبو اور اس کے پھلوں سے زیادہ خوشمزہ پھل نہیں دیکھے ، لہذا میں نے اس میں سے ایک پھل کو لیا اور کھالیا وہ پھل میرے صلب میں نطفہ بنا جب زمین پر آیا تو وہ نور میری صلب سے خدیجہ کے رحم میں منتقل ہوگیا اور اس سے فاطمہ متولد ہوئیں ۔لہذا میں جب کبھی بھی بہشت کی خوشبو کا مشتا ق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو استشمام کرتا ہوں ۔(۱)

جی ہاں ، فاطمہ بہشت کے سب سے بہترین پھل و میوہ ہیں کہ جو درخت طوبی سے وجود میں آیا ہے ۔(۲)

____________________

(۱) المعجم الکبیر :۲۲ ۴۰۱۔ الدر المنثور :۴ ۱۵۳۔

(۲) بحار الانوار :۴۳ ۶، حدیث ۶۔

۲۵۰

اس کے بعد اس معزز خاتون کے رحم میں منتقل ہوا(۱) کہ جو عالم کی سب سے بہتر اور افضل خاتون ہیں یعنی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ، یہ وہ عظیم المرتبت بی بی ہیں کہ ان کے پاس جو کچھ بھی مال و دولت تھی سب کچھ راہ خدا میں نثار کردی یہاں تک کہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو ان کے لیے کفن بھی نہ تھا تب خداوندعالم نے جبرئیل کے ذریعہ جنت سے کفن بھیجا ۔

یقینا اس عظیم المرتبت بی بی کا حق ہے کہ ان کو صدیقہ ، محدثہ اور علیمہ کہا جائے چونکہ آپ کی والدہ خدیجہ ، باپ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، شوہر عل ی مرتضی اور بچے حسن وحسین جیسی ہستیاں ہیں ۔

____________________

(۱) یہ بات قابل ذکر ہے کہ حدیث سابق کہ جو معجم کبیر و درمنثور ، اہل سنت کی کتابوں سے نقل ہوئی ہے شیعہ روایات کی تائید و تصدیق کرتی ہے اور یہی مؤلف محترم کی نظر بھی ہے کہ صدیقہ طاہرہ کا معنوی و ملکوتی مقام بہت بلند و بالا ہے اور یہ نورانیت ، ودیعۂ الہٰی ہے کہ جو ان کے بعد آپ کی اولاد طاہرین و آئمہ معصومین میں منتقل ہوتی رہی ہے ، بہشتی خوشبو ،ماوراء انسانی خلقت، فرشتہ صفت انسان، اور بشریت سے مافوق یہ سب اموراس وقت حضرت امام زمان (عج) کے وجود مبارک میں پایدار ہیں ، لہذا اس حیثیت سے کوئی بھی انسان بلکہ کوئی بھی مخلوق اہل بیت علیہم السلام کی شریک اور مثل و نظیر نہیں ہے ۔

لیکن واضح ہے کہ آپ کی خلقت ظاہری عام انسانوں کی طرح وجود جسمانی میں پیغمبراکرم اور حضرت خدیجہ کے ذریعہ وجود میں آئی لہذا حضر ت فاطمہ کو وجود ظاہری عطا کرنے میں جناب خدیجہ کا حق پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مانند ہے بلکہ اس کے علاوہ آپ کا تغذیہ جیسے دودھ وغیرہ جناب خدیجہ ہی سے مخصوص ہے جب کہ یہ نکتہ حضرت فاطمہ زہرا کے بے نظیر و بے شمار فضائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت بنیادی و ظریف ہے کہ جس سے جناب خدیجہ کی عظمت اور نمایاں ہوتی ہے اور اس کو خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔(م)

۲۵۱

حضرت فاطمہ کی منزلت کو نصاریٰ تک نے دریافت کیا اور اسقف نصاریٰ نے روز مباہلہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمرا ہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں اور قوم سے کہا کہ میں کچھ ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ چاہیں توخداوندعالم پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے ہٹا سکتا ہے لہذا ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ قیامت تک کے لیے قوم نصاریٰ دنیا سے مٹ جائے گی اور کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا ۔(۱)

کیا آپ نے کبھی ان قرآنی مفاہیم( انفسنا و انفسکم ، نسائنا و نسائکم ، ابنائنا و ابنائکم ) (۲) م یں غور و فکر کیا ہے ؟۔

واقعا علی کیا ہیں اور آپ کا کیا مقام ہے ؟ زہرا کون ہیں اور آپ کی کیا منزلت ہے ؟ حسن و حسین کون ہیں آپ کے مرتبے کیا ہیں ؟۔

بیشک یہ معنوی مفاہیم اورآسمانی نام ہیں کہ جن کے متعلق غور وفکرلازم و ضروری ہے ۔(۳)

جی ہاں ، فاطمہ اور آپ کے والد گرامی ایک گوہر ہیں اور علی و پیغمبر ایک نفس وجان ہیں رسول خدا نے فاطمہ کی شادی علی کے ساتھ فرمائی چونکہ علی ،فاطمہ کے کفو و برابر ہیں۔

____________________

(۱) تفسیر کشاف :۱ ۳۶۹۔ تفسیر فخررازی :۸ ۷۱۔ السیرة الحلبیة :۳ ۲۶۳۔ الطرائف ۴۲۔ مجمع البیان :۲ ۳۱۰۔

(۲) سورہ آل عمران(۳) آیت ۶۱۔

(۳) جو کوئی بھی معارف الہٰی اور نفخات قدسی کو اس طرح کے کلمات میں تلاش کرنا چاہتاہے تو وہ کتاب شریف '' الحق المبین'' تالیف، حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کی طرف مراجعہ کرے۔

۲۵۲

اور اگر علی نہ ہوتے تو کوئی فاطمہ کی برابری کے قابل نہ تھا ، یہ خداوندعالم کا لطف خاص اور فضل و کرم ہے اور پھر خداوندعالم نے انہیں پاک و پاکیزہ و طاہر و مطہر فرزند عطا فرمائے کہ جو مسلمانوں کے امام ہیں ۔

فاطمہ صدیقہ اور آپ کے دشمن

اب دیکھیے کہ علی و فاطمہ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اورکس طرح مختلف روش کے ساتھ حیلہ ومکر کے ذریعہ آپ کی تکذیب کی گئی اور آپ کو آپ کے حق سے محروم رکھا گیا ۔

ابوبکر صراحتاً حضرت زہرا کی تکذیب نہ کرسکتے تھے بلکہ اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ سچی و صادقہ ہیں اور آپ کا کلام ، کلام الہٰی کی طرح سچا ہے ۔ لیکن کچھ بہانے اور عذر پیش کیے کہ جو ابتدائی نظر میں اچھے نظر آتے ہیں ۔

ابوبکر نے کہا :اے بہترین خاتون عالم اور تمام عالم کی بہترین عورت کی بیٹی آپ اپنی گفتار میں سچی ہیں اور عقل و منطق میں کامل ہیں آپ کے حق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور آپ کے صدق و صفائی میں کوئی بہانہ پیش نہیں کیا جائے گا ، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا کے فرمان کو پائمال نہیں کرسکتا میں نے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہم صنف انبیاء ، سونا چاندی گھر و جنگل میراث میں نہیں چھوڑ تے! اور ہماری میراث صرف کتاب و سنت اور حکمت و نبوت ہے اور جو مال ہم سے رہ جائے وہ ہمارے بعد ولی امر کے لیے ہے کہ وہ جو چاہے انجام دے ۔(۱)

____________________

(۱) یہ تمام گفتگو اور حضرت زہرا کا جواب پہلے بیان ہوچکا ہے ۔ دیکھیے: احتجاج طبرسی :۱ ۱۴۱ـ۱۴۴۔

۲۵۳

ابوبکر نے یہ ماحول و موقعیت فراہم کرلی کہ فاطمہ زہرا کو جھٹلایا جاسکے اور ایسے بہانے تلاش کیے کہ جوظاہرا شرعی نظر آرہے تھے لیکن حضرت فاطمہ زہرا نے حجت و برہان اور قاطع دلیلوں سے یہ ثابت کردیا کہ ابوبکر جھوٹے ہیں اور فرمایا : اے ابوقحافہ کے بیٹے ''لقد جئت شیأ فریا ''(۱) خدا کی قسم بہت بڑا جھوٹ اور خود ساختگی چیز پیش کی ہے ۔

یہ صدیقہ فاطمہ کا کلام ہے کہ جس کی خوشنودی میں رضائے الہٰی ہے اور جس کی ناراضگی میں غضب خداوندہے جب کہ یہ جملہ بالکل واضح ہے کہ حضرت زہرا کوئی بات بھی اپنی خواہشا ت نفس و حس عاطفی سے نہیں کہتیں اور عام انسانوں کی طرح گفتگو نہیں کرتیں چونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ خداوندعالم اپنی مطلقا رضا و غضب کوکسی ایسے شخص کی خوشنودی و ناراضگی میں قرار دے کہ جو نعوذ باللہ خواہشات نفس کا تابع اور اپنی مصلحت کا فرمانبردار ہو ۔

ا س کا مطلب یہ ہے کہ فاطمہ زہرا ، مرتبہ عصمت پر فائز ہیں چونکہ آپ کی خوشنودی خدا کی رضا اور آپ کی ناراضگی خداوندعالم کا غضب ہونے کے یہی معنی ہیں کہ آپ معصوم ہیں،اور دوسری طرف یہ مقام کہ فاطمہ ، نور خدا سے خلق ہوئی ہیں ، صدیقہ کبری کی خشم و ناراضگی میں خدااور اس کے رسول کا غضب منعکس ہے ۔یہ ہے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان '' فاطمہ م یرا ٹکڑا ہے جو اس کو اذیت دے گا گویا اس نے مجھے اذیت دی ''(۲) اورجس نے اس کو ناراض ک یا گویا اس نے مجھے ناراض کیا ۔(۳)

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹) آیت ۲۷۔

(۲) المجموع (نووی) :۲۰ ۲۳۴۔

(۳) ینابیع المودة :۲ ۵۷۔

۲۵۴

فاطمہ زہرا سے فرمایا بیشک خداوند آپ کی ناراضگی میں غضب ناک ہوتا ہے اور آپ کی خوشنودی میں خوشنود ہوتا ہے ۔(۱)

یہ سب تاکید ہے کہ فاطمہ کی ناراضگی اور اس کو پریشان کرنا، ان کو غصہ دلانا خدا اور رسول کو ناراض کرنا اور ان کو اذیت و پریشان کرنا ہے ۔خداوندمتعال کا ارشاد ہے :

( ان الذین یوذون الله و رسوله لعنهم الله فی الدنیا والآخرة و اعدلهم عذاباً مهیناً ) (۲)

وہ لوگ کہ جو خدااور رسول کو اذیت و پریشان کرتے ہیں ان پر اللہ دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب مہیا کررکھا ہے ۔ اور پھر ارشاد ہوا :

( ومن یحلل علیه غضبی فقد هوی ) (۳)

اور جس پر خدا وندعالم کا غضب نافذ ہو جائے وہ برباد اور جہنمی ہے ۔

اب آپ دیکھیے کہ جو بخاری نے عایشہ سے اور ابن قتیبہ نے عمر سے روایت نقل کی ہے کہ عایشہ کا بیان کہ فاطمہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوبکر کے پاس پ یغام بھیجا کہ جس میں رسول خدا کی میراث کا مطالبہ کیا اور وہ مال کہ جو خداوندعالم نے ان کو مدینہ میں عطا کیا تھا فدک و خمس خیبر وغیرہ اسے طلب کیا۔

____________________

(۱) مستدرک حاکم :۳ ۱۵۴۔

(۲) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۵۷۔

(۳) سورہ طہ(۲۰) آیت ۸۱۔

۲۵۵

ابوبکر نے کہا ، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑ تے اور جو کچھ ہم سے رہ جاتا ہے وہ صدقہ ہے بیشک آل محمد اسی طرح تصرف کریں اور خدا کی قسم میں رسول خدا کے صدقے میں کوئی تغییر نہیں دے سکتا اور جو چیز آپ کے زمانہ حیات میں جہاں استعمال ہوتی تھی اس کو وہیں استعمال کروں گا اور میں رسول خدا کے عمل کے مطابق عمل انجام دوںگا ۔

بہر حال ابوبکر نے کچھ بھی فاطمہ زہرا کو نہ دیا ، آپ ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیاجب تک زندہ رہیں ابوبکر سے گفتگو نہیں کی ۔

فاطمہ ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں اور جب آپ کا انتقال ہوا آپ کے شوہر علی نے آپ کو رات ہی میں دفن کردیا اور ابوبکر کو خبر بھی نہ دی ، خود ہی فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی اور فاطمہ کی زندگی میں علی کے لیے رعب و دبدبہ تھا ،لوگوں کے درمیان عز ت و احترام تھا لیکن جب فاطمہ کا انتقال ہوگیا علی ناآشنا و تنہا رہ گئے۔(۱)

ابن قتیبہ دینوری (م ۲۷۶ھ) الامامة والس یاسة میں رقمطراز ہے کہ عمر نے ابوبکر سے کہا آؤ ہم فاطمہ کے پاس چلتے ہیں کہ ہم نے ان کو ناراض کیا ہے ، پس دونوں چل دیئے اور فاطمہ سے ملاقات کی اجازت چاہی ، فاطمہ نے ان دونوں کو اجاز ت نہیں دی وہ لوگ علی کے پاس پہنچے اور آپ سے گفتگو کی ، علی ان دونوں کو فاطمہ کے پاس لے گئے تو جیسے ہی وہ فاطمہ کے سامنے بیٹھے آپ نے اپنی صورت کو دیوار کی طرف کرلیا ، انہوں نے فاطمہ کو سلام کیا آپ نے ان کے سلام کا جواب بھی نہ دیا ۔

____________________

(۱) صحیح بخاری : ۵ ۸۳، کتاب مغازی ، باب غزوہ خیبر ۔ صحیح مسلم :۵ ۱۵۴۔

۲۵۶

ابوبکر نے گفتگو کرنا شروع کی اور کہا اے حبیبہ رسول خدا ، خدا کی قسم میرے نزدیک رسول خدا کے رشتہ دار و عزیز میرے رشتہ دار و عزیز سے زیادہ محبوب تر ہیں اور میں آپ کو اپنی بیٹی عایشہ سے بھی زیادہ چاہتاہوں اور عزیز رکھتا ہوں ، میں تو چاہتا تھا کہ آپ کے والد رسول خدا کے انتقال سے پہلے ہی مرجاؤں اور یہ دن مجھے دیکھنے کو نہ ملے میں آپ کے فضل و شرف سے واقف ہوں اور آپ کی نظریہ ہے کہ میں نے آپ کو آپ کی میراث اور حق سے محروم رکھا ہے جب کہ میں نے وہی کیا کہ جو رسول خدا سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا: ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے او ر جو کچھ ہم سے رہ جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔

فاطمہ نے کہا کیا اگر میں آپ سے حدیث رسول بیان کروں تواس کو حدیث و فرمان رسول مانوگے اور اس پر عمل کروگے ؟ ان دونوں نے کہا :ہاں۔

فاطمہ نے فرمایا آپ دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا آپ لوگوں نے یہ نہیں سنا کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ فاطمہ کی خوشنودی میری رضا ہے اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے اور جو کوئی بھی میری بیٹی فاطمہ کو دوست رکھے گا گویا مجھے دوست رکھا اور جس نے فاطمہ کو خوشنود و خوشحال کیا گویا مجھے خوشنود و خوشحال کیا اور جس نے اس کو ناراض کیا اور غصہ دلایا گویا مجھے ناراض کیا اورمجھے غصے میں لایا، ان دونوں نے کہا : ہاں ہم نے رسول خدا سے یہ سنا ہے ۔

فاطمہ نے فرمایا پس میں خدا اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا اور غصہ دلایا ہے اور راضی و خوشنود نہیں کیا ہے اور جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کروں گی ان سے آپ کی شکایت کروں گی ۔

۲۵۷

ابوبکر نے کہا میں خدا کے غضب اور اے فاطمہ آپ کے غضب و ناراضگی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس وقت ابوبکر بلند آواز سے رونے لگے یہاں تک کہ ان کی روح ، بد ن سے نکلنے والی تھی جب کہ فاطمہ کہہ رہی تھیں خداکی قسم میں ہر نماز میں تم دونوں پر لعنت کروں گی ۔۔۔

علی نے جب تک فاطمہ زندہ رہیں ابوبکر کی بیعت نہ کی(۱) اور فاطمہ اپنے والد گرا می کے انتقال کے بعد زیادہ دن دنیا میں نہ رہیں بلکہ صرف پچھتررات۔(۲)

تمام نصوص وروایات دلالت کرتی ہیں کہ فاطمہ زہرا ، ابوبکر سے ناراض رہیں اور ابوبکر و عمر سے ناراض و غمگین دنیا سے گئیں ۔ اس سلسلے میں مسجد رسول میں حضرت فاطمہ زہرا کا خطبہ آپ کے لیے کافی ہے ، اس خطبہ میں بہت زیادہ ایسے مقامات اور عبارات ہیں کہ جن میں غور وفکر کی ضرور ت ہے ۔

مثلا وہ وقت کہ جب حضرت فاطمہ نے فرمایا : اے لوگوں جان لو کہ میں فاطمہ ہوں اور میرے والد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہ یں یہ ہمیشہ کہتی ہوں اور جو کہتی ہوں اشتباہ و خطاء نہیں کرتی اور جو کام انجام دیتی ہوں اس میں کسی پر ظلم و زیادتی نہیںکرتی ۔(۳)

____________________

(۱) یہ اہل سنت کی روایت ہے ورنہ شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ علی نے اصلا ابوبکر کی بیعت نہیں کی بلکہ مادام العمر کسی غیر کی بیعت نہیں کی ۔(م)

(۲) الامامة والسیاسة :۱ ۱۹ـ۲۰۔

(۳) شرح الاخبار :۳ ۳۴۔ احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۴۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید): ۱۶ ۲۱۲۔

۲۵۸

آنحضرت اس کلام سے ایک بہت مہم حقیقت کو آشکار فرمانا چاہتی ہیں اور وہ یہ کہ میں وہی فاطمہ ہوں کہ جس کے بارے میں رسول خدا کا ارشاد گرامی ہے :سیدة نساء العالمین(۱) فاطمہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہے فاطمہ صدیقہ ہیں(۲) (بہت زیادہ سچ بولنے والی )۔

____________________

(۱) مسند ابی داؤد طیالسی ۱۹۷ ۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ۷ ۲۵۷، حدیث ۵۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۵۶۔(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد و رجال صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا )

(۲) اصول کافی :۱ ۴۵۸،حدیث ۲۔ منتقی الجمان :۱ ۲۲۴۔

بلکہ ام المؤمنین عایشہ حضرت فاطمہ زہرا کی توصیف میں کہتی ہیں کہ میں نے کسی کو بھی فاطمہ سے زیادہ رسول خدا سے گفتار و رفتار، اٹھنے بیٹھنے ،چلنے پھرنے میں مشابہ تر نہیں پایا اور جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تشریف لاتیں آپ ان کی تعظیم کے لیے اٹھ جاتے ، ان کی دست بوسی کرتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب کبھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہ کے یہاں تشریف لے جاتے توفاطمہ ان کی تعظیم کے لیے اٹھتیں اور آپ کی دست بوسی کرتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔دیکھیےـ : سنن ترمذی :۵ ۳۶۱، حدیث ۳۹۶۴۔ سنن ابی داؤد :۲ ۵۲۲ ، حدیث ۱۷ ۵۲۔ مستدرک حاکم :۴ ۲۷۲۔ الادب المفرد (بخاری ) ۲۰۲۔

دوسری روایت میںہے کہ میں نے کسی کو بھی فاطمہ کی طرح رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتار و رفتار و کردار میں شبیہ ترنہیں دیکھا ، جب بھی فاطمہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تشریف لاتیں ان کے لیے جگہ فراہم کرتے ان کی تعظیم کوکھڑے ہوتے آپ کے ہاتھوں کو پکڑتے، بوسے لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھلاتے ۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۵۴۔ السنن الکبری (بیہقی ) : ۷ ۱۰۱۔

اور تیسری روایت میں ہے کہ عایشہ نے کہا کہ میں نے فاطمہ سے زیادہ رسول خدا کے علاوہ سچا اور وعدہ وفائی میں پکا و پختہ نہیں دیکھا ۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۶۱ ۔ نظم درر السمطین(زرندی) ۱۸۲ ۔

۲۵۹

ام ابیها (۱) اپنے باپ کی ماں ،فداها ابوها (۲) اس کا باپ اس پر قربان ہوجائے ۔ گویا حضرت فاطمہ زہرا یہ فرمانا چاہتی ہیں کہ میں وہی ہوں کہ جس کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے آزردہ و پریشان کیا اس نے مجھ کوآزردہ و پریشان کیا ۔(۳)

بنابر این حضرت زہرا کے کلام مبارک کے جملات اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں کہ میں جو کچھ بھی کہہ رہی ہوں غلط و خطا ء نہیں ہے اور جو کچھ اقدام کررہی ہوں یہ ظلم و زیاتی نہیں ہے ۔

یقینا فاطمہ زہرا غلط و خطا ء کلام نہیں فرماتیں اور اپنے کام میں ظلم و زیادتی نہیں فرماتیں جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس ی پر بھی یا کسی سے بھی خواہشات نفس کی وجہ سے کچھ نہیں فرمایا وہ ایسی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد ہوا :( وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ) (۴)

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی خواہشات نفس سے کوئی بات نہیں کرتے وہ جو بھی کہتے ہیں وہ وحی الہٰی ہے ۔

امیر المؤمنین نے اسی بات کی اپنے کلام میں تائید فرمائی ہے :

''بیشک رسول خدا نے مجھ کو ظاہری رشتہ داری و قرابت داری کی وجہ سے اپنے قریب نہیں کیا بلکہ میں ایثار و قربانی اور جہاد کے ذریعہ ان کے قریب ہوا ''۔(۵)

____________________

(۱) المعجم الکبیر :۲۲ ۳۹۷۔ تاریخ دمشق :۱۵۸۔ اسد الغابہ :۵ ۵۲۰۔

(۲) امالی صدوق ۳۰۵، حدیث ۳۴۸۔ روضة الواعظین ۴۴۴۔ مناقب ابن شہر آشوب :۳ ۱۲۱۔

(۳) صحیح بخاری :۶ ۱۵۸۔ سنن ابی داؤد :۱ ۴۶۰، حدیث ۲۰۷۱۔ المعجم الکبیر : ۲۲ ۴۰۴۔

(۴) سورہ نجم (۵۳) آیت ۳ـ۴۔

(۵) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۲۰ ۲۹۹۔

۲۶۰

اور اس کے بعد حضرت فاطمہ زہرا کا فرمان ذیشان :

''فان تعزوه و تعرفوه تجدوه ابی دون نسائکم و اخاابن عمی دون رجالکم ولنعم المعزی الیه ''(۱)

اگر نسب و نسبت کو دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو گے کہ وہ میرے باپ ہیں نہ کہ تمہاری عورتوں کے اور میرے ابن عم کے بھائی ہیں نہ کہ تمہارے ، اور یہ ہماری پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کتنی بہترین نسبت ہے۔

اس کلام میں حضرت فاطمہ اپنی معنوی منزلت کی طرف اشارہ فرمانا چاہتی ہیں وہ یہ کہ ہمارا یہ مقام صرف پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے رشتہ داری ہی کی وجہ سے نہیں ہے ۔

اور بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ فاطمہ اس کلام میں اپنی ظاہری رشتہ داری کو بیان فرمانا چاہتی ہیں تو مقصد یہ ہے کہ اس رشتہ داری کے ذریعہ اپنے حق کو جتلایا جاسکے اور پھر میراث کا مطالبہ کیا جاسکے ۔لیکن وہ لوگ شیطان کے اغوا شدہ تھے اور حیات رسول میں ہی اپنی اپنی مصلحتوں کی بناء پر خاموش تھے اور دشمنی کو رسول کے بعد ظاہر کیا جیسا کہ امت موسیٰ نے ان کے بعد کارنامے انجام دیئے۔رسول خدا نے انپی امت کو ان حوادث کی خبر دی تھی اور فرمایا تھا کہ تم گذشتہ امتوں کی پیروی ایک ایک بالشت تک میں انجام دوگے حتی اگر وہ نیول و گو کے سوراخ میں بھی گھسے تو تم بھی گھسوگے ۔(۲)

____________________

(۱) احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۴۔ الطرائف (ابن طاؤس ) ۲۶۳۔

(۲) صحیح مسلم :۸ ۵۸۔ الطرائف ۳۷۹، حدیث ۲۱۔(اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے ) ۔ مسند احمد:۲ ۵۱۱۔

۲۶۱

اور اپنی زندگی کے آخری خطبہ ، خطبۂ وداع میں فرمایا : وائے ہو تم پر کہ میرے بعد کفر کی طرف نہ چلے جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹو ۔(۱)

حدیث حوض میں ارشاد ہوا : ''آگاہ ہوجاؤ کہ حوض کوثر پر میرے پاس میری امت کے کچھ افراد کو لایا جائے گا اور ان کو برے ا ور دوزخی قرار دیا جائے گا پس میں کہوں گا کہ خدایا یہ تو میرے اصحاب ہیں تو کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا افعال انجام دیئے ۔(۲)

اس روش سے رسول خدا نے آنے والے واقعات و حوادث کو اپنی امت پر بیان فرمایا اور اپنے خوف کا اظہار کیا اور ان کو متوجہ کیا کہ مبادا گمراہ نہ ہوجانا ۔

اور اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے خطبہ میں سنت نبوی کے خلاف ہونے والی چالبازی اور مکاری کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ شیطان لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا نے کے لیے ہر طرح کی کوشش میں لگا ہوا ہے لہذا خبر دار اس کے جال میں نہ پھنس جانا ۔ لہذا آپ نے فرمایا :

اور اب جوں ہی خداوندعالم نے اپنے حبیب رسول خدا کو ان کے اصلی مقام پر بلالیا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں تو تمہارے اندر سے نفاق و حسدظاہر ہونا شروع ہوگیا ہے

____________________

(۱) صحیح بخاری :۱ ۳۸ ۔ و جلد : ۲ ۱۹۱۔ وجلد : ۵ ۱۲۶۔ و جلد :۷ ۱۱۲۔ سنن ابن ماجہ :۲ ۱۳۰، حدیث ۳۹۴۳۔ مسند احمد :۲ ۸۵۔ بغیة الباحث ۲۴۵۔ اور دوسرے منابع۔

(۲) صحیح بخاری : ۵ ۲۴۰، وجلد :۷ ۲۰۶۔ صحیح مسلم :۱ ۱۵۰۔ وجلد : ۷ ۶۸۔ سنن ترمذی :۴ ۳۸۔ اور دوسرے منابع میں ۔

۲۶۲

اور تم اپنے پرانے دین جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہو اور اب خاموش گمراہوں کی زبانیں کھل گئی ہیں اور گمنام و بے وقار لوگ چمک اٹھے ہیں ، اہل باطل کے نازو نخرے کا پلا ہوا اونٹ بول اٹھا ہے اوراب تمہارے سروں پر حکومت ہورہی ہے شیطان کہ جو اب تک کمین گاہ میں چھپا ہوا تھا اس نے سربلند کرلیا ہے اور تمہیں اس نے دعوت دی ہے اس نے یہ جان لیا کہ تم اس کے بہکائے میں بہت آسانی سے آنے والے ہو بلکہ اس کے بہکائے میں آنے کے لیے آمادہ ہو تو اس نے تم سے چاہا کہ عذر سجاؤ بغاوت کرو اور تمہیںمکر وفریب کے ذریعہ ابھارا اور تم عذر و بغاوت کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔

لہذا تم نے کسی دوسرے اونٹ کی چرا گاہ کو نشانہ بنایا اور اس کی چراگاہ سے استفادہ کرنے لگے کہ جو تمہاری نہ تھی ۔

اور یہ کارنامے اس وقت انجام پائے کہ ابھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دنیا سے گئے ہوئے چند روز نہ گذرے تھے ابھی ان کی مفارقت کا زخم نہ بھرا تھا ،ابھی ان کے جانے سے دلوں میں پیدا ہونے والے زخم صحیح نہ ہونے پائے تھے اور ابھی وہ دفن بھی نہ ہونے پائے تھے کہ تم نے اس فتنہ کو برپا کردیا جب کہ تمہیں خبردارکرتی ہوں کہ اپنے کارنامے سے باز آؤ اور اس فتنہ سے ہاتھ اٹھالو ۔

( الا فی الفتنة سقطوا و ان جهنم لمحیطة بالکافرین ) (۱) آگاہ رہو کہ وہ فتنہ م یں پڑگئے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کے لیے آمادہ اور ان پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔

____________________

(۱) سورہ توبہ (۹) آیت ۴۹۔

۲۶۳

یہ کام تم لوگوں سے بعید تھا کس طرح آپ لوگوں نے انجام دیا ؟ اور اس جھوٹ کے پلندوں کو کہاں کہاں اٹھائے پھروگے ۔

کیا کتاب خدا کوپڑھتے ہو ، اس کے امور ظاہر ہیں اور اس کے احکام روشن و واضح ،اس کے اعلانات آشکار ، اس کے نواہی درخشان اور اوامر صاف و سادہ ہیں ۔ آپ لوگوں

نے اس کو پس پشت ڈال دیا ہے ، کیا قرآن سے بیزار ہو اور منھ پھیر لیا ہے یا کوئی اور حکم چاہتے ہو؟۔

( بٔس للظالمین بدلا ) (۱) ظالم ین کا یہ مقام کتنا برا ہے !

( ومن یتبع غیر الاسلام دینا فلن یقبل منه و هو فی الآخرة من الخاسرین ) (۲) جو کوئ ی بھی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی پیروی کرے اس سے وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہے ۔

تم لوگوں نے تھوڑا سا توقف بھی نہ کیا ،اس اونٹ کو آرام بھی نہ کرنے دیا اور سوار ہوگئے ، اب آگ بھڑکادی ہے اور شعلوں کو دہکادیا ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کے لیے آواز دے اور تم اس کی دعوت کو قبول کرلو اور دین کے چمکتے ہوئے نور کو خاموش کرو ، سنت پیغمبرکو فراموش کرو اور تبدیل کردو۔

تم نے اپنے مقصد کو چھپائے رکھا اور اپنی دھوکہ دینے والی رفتار سے آگے بڑھتے رہے جب کہ اہل بیت کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہے ۔

____________________

(۱) سورہ کہف (۱۸) آیت ۵۰۔

(۲) سورہ آل عمران (۳) آیت ۸۵۔

۲۶۴

ہم تمہاری اس رفتار کے مقابل صابر و بردبار ہیں اگر چہ یہ صبر سخت ہے لیکن پھر بھی اس شخص کی مانند کہ جس کے خنجر مارا جائے اور نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا جائے لیکن پھر بھی وہ دم نہ بھرے اور آہ نہ کرے۔(۱)

حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے اس متین و لطیف خطبہ اور علمی تنبیہ کے ذریعہ اس قوم کو متوجہ فرمایا اور فتنہ میں پڑنے سے ڈرایا، کہ شیطان اپنی کمین گاہ سے نکل کر ان کو بلا رہا ہے اور وہ لوگ اس کے بلانے پر لبیک کہہ رہے ہیں ۔

جب کہ یہ شیطان وہی ہے کہ جس کے بارے میں خداوندمتعال کا ارشاد گرامی ہے ۔( و قال الشیطان لما قضی الامر ان الله وعدکم وعدالحق و وعدتکم فاخلفتکم و ماکان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولو موا انفسکم ) (۲)

اور شیطان نے کہا کہ جب وقت حساب و کتاب آیا بیشک خداوند عالم نے تم کو وعدہ حق دیا اور میں نے بھی وعدہ دیا پس میں نے اپنے وعدے میں خلاف ورزی کی، اور میری تم پر حکومت نہیں تھی مگر صرف یہ کہ تم کو دعوت دیتا تھا اور تم قبول کرلیتے تھے لہذا مجھ کو برا نہ کہو اور میری ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنے آپ کی سرزنش کرو۔

____________________

(۱) دلائل الامامة ۱۱۵۔ بحار الانوار :۲۹ ۲۹ـ۳۰۔ (متن خطبہ اسی کتاب سے ماخوذہے )

(۲) سورہ ابراہیم (۱۴) آیت ۲۲۔

۲۶۵

لیکن وہ کہ جو عمر نے اپنی خلافت کے ابتداء میں کہا کہ میں جب اختلاف امت سے ڈرنے لگا تو ابوبکر سے کہا کہ اپنا ہاتھ دے کہ میں بیعت کروں ۔(۱)

یہ اس منافق(۲) کے کلام ک ی دوسری صورت و توجیہ ہے کہ جس نے جنگ تبوک میں نہ جانے کا بہانا بھرا اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا میں عورتوں کو بہت چاہتاہوں جمالیاتی ذوق رکھتاہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ روم کی خوبصورت و حسین عورتیں مجھے اپنے حسن کا گرویدہ کرلیں اور میں اپنا دین و ایمان کھو بیٹھوں ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :( ومن هم من یقول أذن لی ولا تفتنی الافی الفتنة سقطو اوان جهنم لمحیطة بالکافرین ) (۳)

اور ان میں سے وہ بھی ہے کہ جو کہتا ہے کہ مجھ کو اجازت دیں اور جنگ میں نہ جاؤں مجھے فتنے میں نہ ڈالو ، آگاہ ہوجاؤ کہ وہ فتنے میں پڑچکے ہیں اور بیشک جہنم کافرین کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام سے ان بہانے اور توجیہات کا قبل از وقت جواب دے رہی ہیں۔'' زعمتم خوف الفنتة الافی الفتنة سقطوا ''تمہیں اختلاف و فتنہ کا خوف تھا جب کہ اب فتنہ میں پڑ چکے ہو ۔

چونکہ وہ منافق جد بن قیس یہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی طرح راہ فرار اختیار کرے (کہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مرجائے ) کہ جو بنی اسرائیل نے کہا :

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۲ ۲۴ـ۲۵۔

(۲) مراد جد بن قیس ہے

(۳) سورہ توبہ (۹) آیت ۴۹۔

۲۶۶

( فاذهب انت و ربک فقاتلا انا ههنا قاعدون ) (۱)

اے موسی آپ اور آپ کا پروردگار جاؤ اور جاکر جنگ کرو ہم یہیں پر بیٹھے ہیں ۔

اس لیے کہ حقیقی فتنہ یہی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ پر نہ جایا جائے اور ان کے ہم رکاب ہوکر جنگ نہ کی جائے چونکہ یہی شرک و کفر کا سرچشمہ ہے ، بالکل اسی کی طرح یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی وجانشین کو ان کے منصب سے دور و علیحدہ رکھا جائے ، چونکہ یہ سبب ہوگا کہ منافقین و طلقاء خلافت کی طمع و لالچ اور خواب و خیال میں پڑجائیں۔

واقعا یہی فتنہ ہے بلکہ یہ بہت عظیم فتنہ ہے

حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام میں '' ھیھات منکم و کیف بکم و انی تؤفکون وکتاب اللہ بین اظھر کم وامور ہ ظاھرة ۔ ۔ ۔'' یہ اشارہ فرمانا چاہتی ہیں کہ منصب خلافت ایک الہی منصب ہے تو پھر کیوں لوگ اس کی معرفت نہیں رکھتے جب کہ خدا کی کتاب لوگوں ہی کے لیے ہے اور اس کے امور و معارف سب کے لیے واضح ہیں کہ جو خلافت الہٰیہ پر دلالت کرتے ہیں جیساکہ خداوندمتعال کا ارشاد گرامی ہے :

( واذ ابتلی ابراهیم ربه بکلمات فاتمهن قال انی جاعلک للناس اماما قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین ) (۲)

____________________

(۱) سورہ مائدہ (۵) آیت ۲۴۔

(۲) سورہ بقرہ(۲) آیت ۱۲۴۔

۲۶۷

اور جب ابراہیم کا اس کے پروردگار نے چند کلمات کے ذریعہ امتحان لیا اوروہ اس میں کامیاب ہوگئے تو خداوندعالم نے فرمایا کہ ہم تمہیں لوگوں کا امام بنانے والے ہیں تو ابراہیم نے سوال کیا کہ پروردگار کیا یہ امامت میری نسل میں بھی کسی کو دے گا ؟ جواب آیا اے ابراہیم ہمارا یہ عہدہ کسی ظالم تک نہیں پہنچے گا۔

یا اسی طرح دوسری آیت :( وجعلنامنهم آئمة یهدون بامرنا لما صبروا و کانوا بآیاتنا یوقنون ) (۱)

اور ہم نے ان میں سے کہ جو صبر کرنے والے اور ہماری آیات پر یقین رکھتے تھے امام قرار دیا کہ جوہمارے امر کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں ۔

حضرت زہرا نے اس کلام کو اس لیے بیان فرمایا تاکہ ان کو متوجہ فرمائیں کہ وہ لوگ قرآن پر عمل کرنا ترک کرچکے ہیں۔

'' تم لوگوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیاہے کیا اس سے منھ پھیرے جارہے ہو ؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور چیز سے فیصلے کررہے ہو ؟ ظالموں اور ستمگروں کے لیے اس کا بدلا کتنا برا ہے اور جو کوئی اس کے علاوہ دوسرا دین لائے گا وہ قبول نہ ہوگا ،وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ''۔(۲)

____________________

(۱) سورہ سجدہ (۳۲) آیت ۲۴۔

(۲) شرح الاخبار :۳ ۳۶۔ احتجاج طبرسی : ۱ ۱۳۷۔ کشف الغمہ : ۲ ۱۱۲۔

۲۶۸

آپ نے اس کے بعد اپنے خطبہ کوجاری رکھا تاکہ واضح کریں کہ ان لوگوں نے احکام الہٰی کو کھیل و بازیچہ بنالیا ہے کس طرح کہتے ہیں کہ زہرا کے لیے ارث و میراث نہیں ہے کیاجان بوجھ کر کتاب خدا کو چھوڑدیا ہے اور پس پشت ڈالدیا ہے ،جب کہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے (وورث سلیمان داؤد )(۱) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی ۔

اور اسی طرح اس خطبہ کے متعدد ٹکڑے و جملات کہ جو احتجاج و مناظرے کی انتہا و معنویت و حقیقت کے بلند و بالا منارے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ نمل(۲۷) آیت ۱۶۔

۲۶۹

عجیب و غریب تحریفات

اہل سنت کا خیال یہ ہے کہ بے بنیاد اور بغیر کسی ملاک و معیار کے ہر کس و ناکس کے لیے لفظ صدیقہ کا اطلاق و استعمال کیا جاسکتا ہے، یا اس طرح کے القاب کی طرح احادیث گھڑنا اور ان کا استعمال کرنا کہ جو اس دور میں از باب مصلحت کارنامے انجام دیئے گئے۔جب کہ تحقیق و جستجو کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کام ان کے خیال کے برعکس ہے ۔

مدائنی نے اپنی کتاب الاحداث میں روایت نقل کی ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے حکم دیا کہ فضائل عثمان میں احادیث گھڑی جائیں اور جب عثمان کے بارے میں گھڑی ہوئی احادیث کا انبار لگ گیا اور سب میں منتشر ہوگئیں تب احادیث گھڑنے والوں کے لیے لکھا :

جب میرا یہ خط آپ کے ہاتھ میں پہنچے تو لوگوں کو فضائل صحابہ اور خلفاء راشدین کے بارے میں روایت نقل کرنے کو کہنا اور ابوتراب کے بارے میں کوئی بھی ایسی خبر کہ جس کو کسی مسلمان نے نقل کیا ہو نہ چھوڑنا مگر اس کے مقابل اور اسی طرح کی روایت صحابہ کی شان میں بھی بنا لینا اور مجھے لکھ بھیجنا چونکہ یہ کام مجھے بہت پسند ہے اور اس سے میں بہت خوشحال ہوتاہوں اور یہ کام ابوتراب اور ان کے شیعوں کی دلیلوں کو باطل کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور عثمان کے فضائل ان لوگوں پر سخت گذرتے ہیں ۔

۲۷۰

راوی کا بیا ن ہے کہ میں نے معاویہ کے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور بہت زیادہ روایات کہ جو گھڑی ہوئی و جعلی تھیں صحابہ کی شان میں جمع کیں اور لوگوں نے بھی اس سلسلے میں بہت کوششیں کیں یہاں تک کہ ایسی روایات کو منبروں پر بلند آواز سے پڑھتے تھے اور اس طرح کی روایات مدرسوں میں معلمین و اساتید کودی جاتیں ، وہ بچوں اور نوجوانوںکو تعلیم دیتے اور اس طرح ان کی تربیت ہوتی وہ ایک دوسرے سے ان روایات کو نقل کرتے اور قرآن کی طرح ان روایات کو حفظ کرایا جاتا حتی کہ لڑکیا ں اور عورتیں ، غلام و کنیز سب ان روایات کو حفظ کرتے اوراس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا ۔(۱)

٭ وہ روایات کہ جو ابوبکر کے بارے میں گھڑی گئیں ان میں ایک یہ ہے کہ ابوبکر زمانہ جاہلیت ہی سے لقب صدیق سے ملقب تھے ۔(۲) یہ اس لیے وضع ہوئی چونکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمانہ جاہل یت اور قبل از بعثت ہی صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے لہذا ابوبکر کورسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برابر و م قابل میں پیش کیا جاسکے ۔

٭اسی طرح کی روایت گھڑی کہ خداوندعالم کے فرمان( والذی جاء بالصدق و صدق به ) (۳) ''اور وہ کہ جو سچائ ی لایااور اس کی تصدیق کی ''سے مراد ابوبکر ہے ۔

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) : ۱۱ ۴۴(بہ نقل از مدائنی )

(۲) سمط النجوم العوالی :۲ ۴۱۲۔

(۳) سورہ زمر (۳۹) آیت ۳۳۔

۲۷۱

عطاء کا بیان ہے کہ وہ سچائی لایا ''سے مراد محمد ہیں اور اس کے بعد سچائی کے انوار کی برکتوں سے یہ صدق وسچائی ابوبکر پر جلوہ گر ہوئی اور ان کالقب صدیق ہوگیا ۔(۱) یا یہ کہ خداوندعالم نے قرآن کریم میں ابوبکر کانام صدیق رکھا اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی( والذی جاء بالصدق و صدق به ) (۲)

٭ خود حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی زبانی حدیث گھڑی گئی کہ آپ نے خداکی قسم کھاکر فرمایا کہ ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل ہوا !(۳)

٭ اسی طرح حضرت علی پر ایک اور جھوٹ بولا گیا کہ آپ سے اصحاب رسول کے متعلق دریافت ہوا اورکہا گہا کہ ابوبکر بن قحافہ کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ انسان ہیں جن کے بارے میں خداوندعالم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور جبرائ یل کی زبان سے صدیق کہلوایا وہ رسول خدا کے خلیفہ ہیں ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تو ہم نے بھی ان کو اپنی دنیا کے لیے پسند کیا ۔(۴)

____________________

(۱) تفسیر السلمی :۲ ۱۹۹۔

(۲) سورہ زمر (۳۹) آیت ۳۳۔ الاحادیث المختار ہ :۳ ۱۲۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۴۳۸۔

(۳) تاریخ دمشق :۳۰ ۲۵۔ اسد الغابہ :۳ ۲۱۶۔

(۴) تاریخ الخلفا ء :۱ ۳۰۔ اعتقاد اہل سنت :۷ ۱۲۹۵۔ تہذیب الاسماء :۲ ۴۷۹۔ کنزالعمال :۳ ۱۰۱،حدیث ۳۶۶۹۸۔

۲۷۲

٭ بلکہ احادیث یہاں تک گھڑی گئیں کہ جن سے بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتوں کی بھی تائید ہونے لگی ، لہذا کہا گیا کہ امیر المؤمنین نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ جان لو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بہترین مرد ابوبکر صدیق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق اور ان کے بعد عثمان ذوالنورین اور ان کے بعد میں اور میرے بعد خلافت آپ لوگوں کے کاندھوں پر ہے جس کو چاہو خلیفہ بنالینا اور میری کوئی حجت آپ پر نہیں ہے ۔(۱)

٭ایک جھوٹی روایت حضرت علی علیہ السلام سے منسوب کی گئی کہ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل پیغمبراکرم کے پاس آئے ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا کہ کون میرے ساتھ ہجرت کرے گا ؟ جبرئیل نے کہا: ابوبکر کہ وہ وصدیق ہیں۔(۲)

٭ اور دوسری روایت رسول خد ا کی طرف منسوب کی گئی کہ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل میرے پاس آئے میںنے ان سے پوچھا کہ میرے ساتھ کون ہجرت کرے گا؟ تو جواب دیا کہ ابوبکر کہ وہ آپ کے بعد آپ کی امت کی سرپرستی فرمائیں گے اور وہ آپ کے بعد آپ کی امت میں بہترین فرد ہیں ۔(۳)

____________________

(۱) الریاض النضرہ :۱ ۳۸۱، حدیث ۲۶۰۔ الغدیر :۸ ۳۸۔

(۲) مستدرک حاکم :۳ ۵۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۷۳۔ کنزالعمال :۱۶ ۶۶۷، حدیث ۴۶۲۹۲۔ الکامل (ابن عدی) :۶ ۲۸۹۔

(۳) الفردوس بماثور الخطاب :۱ ۴۰۴، حدیث ۱۶۳۱۔ کنزالعمال :۱۱ ۵۵۱، حدیث ۳۲۵۸۹۔ (بہ نقل ازماخذ سابق )۔ الغدیر :۵ ۳۵۵۔ (بہ نقل از کنزالعمال)

۲۷۳

٭ حضرت علی علیہ السلام کی طرف ایک جھوٹی روایت کی نسبت دی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : روز قیامت منادی ندادے گا کہ'' این السابقون ''سب سے پہلے ایمان لانے والے اور نیک کام کرنے والے کہاں ہیں ؟ سوال ہوگا کون؟ تو منادی جواب دے گا ابوبکر کہاں ہیں ؟ اسی وجہ سے خداوندمتعال ابو بکر کے لیے خصوصی تجلی دکھائے گا اور تمام لوگوں کے لیے عام ۔(۱)

٭ حضر ت علی سے ایک مرفوع روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : انبیاء و رسل کے بعد سورج کسی پر بھی نہیں چمکا کہ جو ابوبکر سے افضل ہو ۔(۲)

٭ ایک اور روایت حضرت علی سے بطور مرفوع نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

اے ابوبکر خداوندعالم نے خلقت آدم سے لیکر روزقیامت تک اس شخص کا ثواب کہ جوخدا پر ایمان لایا مجھ کو عطا کیا اور جو شخص مجھ پر ایمان لایااس کا ثواب میری بعثت سے لیکر روز قیامت تک

____________________

(۱) رؤیة اللہ (دارقطنی):۱ ۷۰ ، حدیث ۵۷۔ الریاض النضرہ :۲ ۷۵۔ سمط النجوم العوالی :۲ ۴۴۳، حدیث ۷۴۔ تفسیر فخررازی :۱۲ ۲۱۔ اللآلی المصنوعة :۱ ۲۶۴۔

(یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ جو معنی میں ایک ہی ہے ) یہ انتہائی ضعیف ہے اس کے راوی کو جعل حدیث کی نسبت دی گئی ہے ۔ دیکھیے:ـ الکشف الحدیث :۱ ۱۸۵، حدیث ۲۲۷۔ المجروحین :۲ ۱۱۵۔ المغنی من الضعفاء : ۲ ۵۷۵و ۷۶۵ ۔ میزان الاعتدال :۵ ۱۴۸ و ۱۳۱۔ و جلد : ۷ ۳۱۱۔ الموضوعات :۱ ۲۲۵۔ اور دوسری کتابیں جو ضعفاء و مجروحین کے متعلق لکھی گئی ہیں ۔

(۲) الانساب (سمعانی ) :۲ ۵۱۔ تاریخ بغداد :۱۲ ۴۳۳۔ تاریخ دمشق :۲۰۸۳۰۔ کنزالعمال :۱۱ ۵۵۷، حدیث ۳۲۶۲۲۔(ان سب ماخذ نے ابو درداء سے نقل کیا ہے ) اور الغدیر :۷ ۱۱۲ میں یہ حدیث علامہ حرفیش سے کتاب الروض الفائق ۳۸۸ میں بطور مرفوع حضرت علی سے منقول ہے ۔

۲۷۴

آپ کو عطا کیا ۔(۱)

٭ ایک شخص نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خدا نے ہم میں سے کسی کو منصب امامت وامارت کے لیے منتخب نہیں فرمایا مگر یہ کہ ہم نے اپنی طرف سے جس کو پسند کیا اور منتخب کیا کہ اگر صحیح رہا تو خدا کی جانب سے ہے اوراگر صحیح نہ رہا اور خطا ء و نادرست رہا تو ہماری جانب سے ۔رسول خدا کے بعد ابوبکر خلیفہ ہوئے اور امارت کو قائم کیا اور مضبوطی سے چلایا پھر عمر خلیفہ ہوئے انہوں نے بھی خلافت کو قائم کیا اور استقلال و استحکام پیدا کیا یہاں تک کہ دین مضبوط اور پائدار ہوگیا اور آرام و سکون حاصل ہوا ۔(۲)

٭ یہ بھی جھوٹ نقل کیا ہے کہ ابوبکر نے حضرت علی سے کہا کہ کیا آپ کو معلو م تھا کہ میں آپ سے پہلے اس امر خلافت کا عہدہ دار ہوں آپ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا ہے اے خلیفہ رسول خدا ، پھر ابوبکر نے ہاتھ بڑھایا اور علی نے بیعت کی ۔(۳)

٭ اور حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ میں دنیا سے نہ گیا مگر یہ کہ خداوندعالم نے ہمیںبتا دیا کہ میرے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں۔

____________________

(۱) فضائل احمد :۱ ۴۳۴۔ الفردوس بماثورالخطاب :۵ ۳۰۶، حدیث ۸۲۷۰۔ الریاض النضرہ : ۲ ۱۲۱۔ سمط النجوم العوالی :۲ ۴۴۱، حدیث ۶۹۔ تاریخ بغداد :۵ ۱۰، ترجمہ ۲۳۰۹۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۱۱۸۔

(۲) السنة (عبداللہ بن احمد) :۲ ۵۶۶۔ علل دار قطنی :۴ ۸۷۔ الریاض النضرة :۲ ۱۹۸۔ اور دیکھیے :ـ مسند احمد:۱ ۱۱۴۔ السنة (عمرو بن ابی عاصمی ) ۵۶۱۔

(۳) الغدیر : ۸ ۴۰، حدیث ۶۰۔

۲۷۵

اوریہ بھی ہم پر واضح کردیا کہ کہ ابوبکر کے بعد افضل ترین فرد عمر ہیں ۔(۱)

٭بصورت مرفوع حضرت علی سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے علی یہ دو فراد ابوبکر و عمر ،اولین و آخرین میں سے انبیاء و رسل کے علاوہ ،جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں، اے علی یہ بات ان دونوں کو نہ بتانا لہذا میں نے بھی ان کو باخبر نہیں کیا یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔(۲)

ان روایات کو خود امیر المؤمنین ہی کی نسبت سے گھڑا گیا تاکہ آپ کے مطالبہ خلافت کو ناحق دکھایا جائے یا فراموش کردیا جائے اور اس پر پردہ ڈا ل دیا جائے ، آپ کے احتجاجات و اعتراضات کو چھپادیا جائے اور کوئی متوجہ نہ ہونے پائے کہ انہوں نے چھ مہینے یا بالکل ہی حاکمان وقت کی بیعت نہیں کی ۔

ان روایات کو وضع و جعل کرکے یہ کوشش کی گئی کہ سقیفہ کی چال بازیوں سے حسد و دشمنی کی علامتوں کو پاک و صاف کردیا جائے نیز یہ کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنازے کو چھوڑا ، اسامہ بن ز ید کے لشکر سے بھاگ کر واپس آئے اور ابوبکر نے خود ہی عمر کو خلیفہ بنایا ، عمر نے ایک پروپیگنڈہ کے ساتھ خلافت کو شوری کے حوالے کیا ، ان سب باتوں پر پردہ پڑ جائے ۔

____________________

(۱) السنة (عمرو بن ابی عاصمی ) ۵۵۵، حدیث ۱۳۰۰۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۳۷۵۔ سبل الھدی و الرشاد :۱۱ ۲۴۷۔

(۲) مسند احمد : ۱ ۸۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ۷ ۴۷۳۔ المعجم الاوسط : ۴ ۳۵۹۔ تاریخ بغداد : ۷ ۱۲۱۔ تاریخ دمشق :۳۰ ۱۶۶ـ۱۷۰۔ اسد الغابہ : ۴ ۶۳۔ الامامة والسیاسة :۱ ۱۰۔

۲۷۶

ان جھوٹی روایات کو گھڑنے کا مقصد یہ ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام کے شکوے اور آپ کے ایام خلافت کے درد بھرے خطبات و کلمات جیسے خطبہ شقشقیہ اور دوسرے وہ کلمات و فقرات کہ جن میں آپ نے خلفاء و حکام کی قلعی کھولی ہے، ان کو مبہم و مشتبہ کردیا جائے اور ان کو شک و شبہہ کی دھندلاہٹ میں ڈال دیا جائے ۔

ان جھوٹی و من گھڑت روایا ت سے بنی امیہ اپنے ملک اور نظام حکومت کو چلانے اور حق کو نابود کرنے میں کوشاں رہے ، ان کو جعلی روایات سے بہت سہا را ملا اور حق کو خوب پائمال کیا ، جتنا ہوسکتا تھا باطل کو ابھارا اورپروان چڑھایا ۔

ان میں سے بعض مطالب خندہ آور بھی ہیںاور غم انگیز بھی، نہیں معلوم کہ اس بات پر ہنسا جائے یا گریہ کیا جائے مثلا یہ کہ امیر المؤمنین کی شجاعت کو اندھیر ے میںڈال دیا گیا جب کہ آپ کی شجاعت ضرب المثل وزبان زد عام و خاص تھی اور تاریخ وسیر میں مفصل باب موجود ہیں جوآپ کی شجاعت و دلیری کے قصیدہ خواں ہیں اور مشہور و معروف ہے کہ آپ کے دست مبارک سے بڑے بڑے نامور پہلوان قتل ہوئے اور جو بھی آپ کے سامنے آیا بچ نہ سکا اور جو بھی بچ کے بھاگا تو اپنے آپ کو ننگا کرکے، اپنی شرمگاہ کو کھو ل کر جان بچائی ۔(۱)

____________________

(۱) تاریخ نے اس طرح کے تین حادثے ہمارے لیے نقل کئے ہیں :

سب سے پہلے طلحہ بن ابی طلحہ کہ جو جنگ احد میں مشرکوں کا علمبردار تھا جب حضرت علی کے مقابلے آیا تو ننگا ہوکر بھاگا۔اسی طرح جنگ صفین میں ایک مرتبہ بسر بن ارطاة پر حضرت علی نے حملہ کیا اور اس کو یقین ہوگیا کہ اب جان بچنے والی نہیں ہے تو کشف عورت کی، ننگا ہوگیا ، آپ نے منھ پھیر لیا اور وہ بھاگ گیا ۔۔ بقیہ اگلے صفحہ پر۔۔

۲۷۷

یہ چاہتے ہیں کہ ان سب پر پردہ ڈال دیا جائے اور مطلقاً شجاعت کی نسبت ابوبکر کی طرف دی جائے جب کہ ہم نے صدر اسلام سے آخر تک ایک شخص کے متعلق بھی نہیں سنا کہ اس کو ابوبکر نے قتل کیا ہو !۔

٭ خود حضرت علی سے ہی روایت نقل کی گئی کہ آپ نے خطبہ کے دوران لوگوں سے دریافت کیا کہ سب سے بہادر کون ہے ؟ توسب نے کہا : آپ ۔

آپ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ کہ میں نے کسی سے بھی جنگ نہیں کی مگر انتقام کی خاطر لہذا تم مجھے بتاؤ کہ بہادر و دلیر کون شخص ہے ؟ سب نے کہا کہ نہیں معلوم کون ہے ۔

آپ نے فرمایا :ابوبکر ہے ، جنگ بدر میں ہم نے رسول خدا کے لیے ایک سائبان و محافظ قرار دیا اور آپس میں کہا کہ کون رسول خدا کے ساتھ رہے گا اور آپ کی حفاظت کرے گا تاکہ کوئی مشرک آپ تک نہ پہنچ سکے ، خدا کی قسم کوئی بھی آگے نہ بڑھا سوائے ابوبکر کے کہ جو ننگی تلوار کے ساتھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب کھڑے رہے اور اگر کوئی مشرک پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آتا تو ابوبکر اس پر حملہ آور ہوتے اور اس کے شر سے رسول خدا کو امان میں رکھتے ۔پس وہ سب سے زیادہ شجاع و بہادر ہیں !

____________________

۔۔۔ پچھلے صفحہ کا بقیہ۔

پھر دوسری مرتبہ عمرو بن عاص نے یہی واقعہ دہرایا کہ جو تاریخ میں بہت مشہور ہوا کہ جس کے ذکر کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ السیرة الحلبیہ:۲ ۴۹۸۔ السیرة النبویہ (ابن کثیر) :۳ ۴۰۔ البدایہ والنہایہ:۴ ۲۳۔

(۱) مسند بزار :۲ ۱۵، حدیث ۷۶۱۔ السیرة النبویة (ابن کثیر) : ۲ ۴۱۰۔ فتح الباری :۷ ۱۲۹۔

۲۷۸

ان کے علاوہ دسیوں روایات ابوبکر کے بارے میں نقل کی گئی ہیں کہ جن میں سے بعض روایا ت خود امیر المؤمنین سے منسوب ہیں !۔

ان جھوٹی و من گھڑت روایا ت سے یہ چاہا گیا ہے کہ صدیقیت ، شجاعت ، اولویت و امارت اور خلافت کو ابوبکر کے لیے ثابت کریں ۔ اور یہ سب ان احادیث کے مقابل میں گھڑی گئیں کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کے بارے میں ارشاد فرمائی تھیں ۔

٭ کہتے ہیں کہ ابوبکر کو زمانۂ جاہلیت ہی میں صدیق کا لقب دیا گیا اور اس کے بعد محمد بن عبداللہ مبعوث بہ رسالت اور صادق و امین سے ملقب ہوئے۔!

٭ خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہ ی سے روایت نقل کی گئی کہ آپ نے ابوبکر سے فرمایا کہ اگر میں کسی کو دوست بناتا تو یقینا اپنا دوست و خلیل ابوبکر کو انتخاب کرتا ۔ یہ روایت گھڑی گئی چونکہ علی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درم یان برادری و عقد اخوت کہ جو شیعہ و سنی دونوں کے یہاں مسلم ہے اس کے مقابل میں پیش کی جاسکے ۔(۱)

کتنے تعجب کا مقام ہے کہ یہ روایت خلت (ابوبکر کو دوست بنانے والی روایت) صحیح ہوتی تو پھر کیوں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روز مواخات (ا یک دوسرے کو بھائی بنانے کے دن) ابوبکر کو اپنا بھائی نہ بنایا

____________________

(۱) صحیح بخاری :۱ ۱۱۹ـ ۱۲۰، کتاب الصلوة ،باب الخوخة و الممر فی المسجد۔ و جلد : ۴ ۱۹۰، کتاب بدء الخلق ، باب النبی سدوا الابواب الا باب ابی بکر ۔ صحیح مسلم : ۲ ۶۸، باب فضل بناء المسجد و الحث علیھا ۔ و جلد : ۷ ۱۰۸، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل ابی بکر۔ سنن ابن ماجہ :۱ ۳۶، حدیث ۹۳۔سنن ترمذی : ۵ ۲۷۰، حدیث ۳۷۴۰۔

۲۷۹

بلکہ ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایا ۔(۱)

کیا بھائی و عقد اخوت میں دوستی نہیں ہے یا دوستی اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز ہے ؟!۔

٭ انہیں گھڑی ہوئی روایات میں سے یہ بھی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اگر ابوبکر کو ترازو و میزان کے ایک کف و پلڑے میں رکھا جائے اور تمام امت کو دوسرے پلڑے میں تو ابوبکر کا پلڑا بھاری رہے گا ۔(۲)

یہ روایت اس حدیث کے مقابلے گھڑی گئی کہ جورسول خدا نے حضرت علی کے بارے میں فرمایا تھا : روز خندق علی کی ضربت عبادت ثقلین پر بھاری ہے ۔(۳)

____________________

(۱) مسند احمد :۵ ۲۵۹۔ مجمع الزوائد : ۹ ۵۸۔ المعجم الکبیر :۸ ۲۱۴۔ الموضوعات :۲ ۱۴۔ اللآلی المصنوعہ :۱ ۳۷۸۔(ابن جوزی و سیوطی کا بیان ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے ) دیکھیے اس روایت کے مصادر ، الغدیر :۷ ۲۸۵،باب ۱۴، ابوبکر فی کفة المیزان ۔

(۲) دیکھیے :ـ مستدرک حاکم :۳ ۳۲۔ تاریخ دمشق :۵ ۳۳۳۔ مناقب خوارزمی ۱۰۷، حدیث ۱۱۲۔ شواہد التنزیل :۲ ۱۴۔ الطرائف ۵۱۴۔

اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ یہ روایت جب بہلول کے سامنے پیش کی گئی تو بہلول نے فرمایا کہ اگر یہ روایت صحیح ہو تو ترازو خراب ہے ۔ دیکھیے الصوارم المھرقہ (قاضی نور اللہ شوشتری) ۳۲۹۔

(۳) اس روایت کے منابع پہلے بھی گذرچکے ہیں ، سیوطی نے اللآلی مصنوعہ میں بہت زیادہ صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور دیکھیے :ـ الغدیر :۳ ۱۲۷۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307