"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 44869
ڈاؤنلوڈ: 3879

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44869 / ڈاؤنلوڈ: 3879
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

صدیق باعتبار لغت و استعمال

صدیق ، مادۂ (ص،د،ق) سے مشتق ہے اور صدق (سچ) کذب (جھوٹ ) کی نقیض ہے ، صدیق فعیل کے وزن پر ہے اور صدیقہ فعیلہ کے وزن پر، اور یہ وزن موصوف کے صفت سے بہت زیادہ اتصاف پر دلالت کرتا ہے گویا اس مادہ میں صدق و تصدیق کا مبالغہ پایا جاتاہے اور یہ صدوق (بہت سچا ) سے بھی زیادہ سچے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔ کہا جاتاہے صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جو صدق و سچائی میں کامل ہو اس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے یعنی قول و عمل ایک ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جس نے اصلاً کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ۔

اہل سنت کے درمیان مشہور ہے کہ'' صدیق '' ابوبکر بن قحافہ کا لقب ہے اگر چہ ان کے یہاں بہت زیادہ روایا ت موجود ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ''صدیق'' حضرت علی بن ابی طالب کا لقب ہے اور یہ روایات شیعہ مذہب کی روایات کے مطابق ہیں کہ شیعوں کے نزدیک ''صدیق''بطور نص حضرت علی کا لقب مبارک ہے اور اہل سنت نے اس کو چوری کرکے ابوبکر کے سرپر چڑھادیا ہے(۱) ۔

____________________

(۱) العمدہ ۲۲۰۔

۲۱

لیکن لقب ''صدیقہ '' قرآن کریم میں حضرت مریم بنت عمران کے لیے آیا ہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک پر حضرت فاطمہ زہرا اور حضرت خدیجہ کے لیے جاری ہوا ،جبکہ اس سلسلے میں اہل سنت کی طرف سے یہ کوشش رہی کہ یہ لقب عایشہ کو دیدیا جائے ،لیکن عنقریب آپ کے سامنے اس دعوی کی پول کھل جائے گی ۔

اگر حقیقت کو درک کرنا ہے تو ضروری ہے کہ'' صدیقیت'' کے معنی کی تنقیح و تحلیل کی جائے تاکہ معلوم ہو کہ صدیقیت ایک معنوی و ربانی مرتبہ ہے یا کوئی معمولی لقب ہے کہ جو جس کو چاہے عطا کردے۔

کیا صدر اسلام میں پیغمبر اکرم جس کو جو بھی عطاکرتے اور دوسرے لوگ کسی کو کچھ بھی عطا کرتے تو کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا ؟ اور کیا معقول ہے کہ جو القاب ، خداوندعالم اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے دیے گئے ہیں وہ بے بنیاد اور صرف تعلقات کی وجہ سے ہوں یا ایسا نہیں ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کسی کا کوئی نام رکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس نام و لقب کا مستحق ہے۔

اور کیا القاب ، لیاقت و قابلیت کے اعتبار سے دیے جاتے تھے یا یہ کہ لوگوں کی تشویق و ترغیب کے لیے عطا ہوتے تھے ۔

اور کیوں جناب ابوذر غفاری کو لقب ''صدیق''عطا نہیں ہوا جبکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کے مطابق وہ روے زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ سچے انسان تھے(۱) ۔

____________________

(۱) سنن ترمذی : ۵ ۳۳۴، ح ۳۸۸۹۔الانساب (سمعانی ): ۴ ۳۰۴۔

۲۲

''صدیقیت'' سے کیا مراد ہے ؟ اور کیا'' صدیق ''کے مراتب و اقسام ہیں ؟

علامہ ابن بطریق (متوفی ۶۰۰ھ) اپنی کتاب العمدہ میں راقم ہیں :

((صدیق کی تین قسمیں ہیں :

۱ـ صدیق نبی ہوتا ہے ۔

۲ـ صدیق امام ہوتا ہے۔

۳ـ صدیق عبد صالح ہے کہ جو نہ نبی ہے اور نہ امام۔

پہلی قسم پر یہ فرمان الٰہی دلالت کرتا ہے( واذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقاً نبیاً ) (۱) کتاب (قرآن ) میں ادریس کو یاد کرو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔

اور خداوندعالم کا یہ ارشاد گرامی( یوسف ایهاالصدیق ) (۲) یوسف اے صدیق۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر نبی صدیق ہے لیکن ہر صدیق نبی نہیں ہے ۔

اس بات پر کہ ''صدیق ''امام ہوتا ہے خداوندعالم کایہ فرمان دلالت کرتا ہے( فأولائک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین و حسن اولٰئک رفیقا ) (۳) ۔ وہ ان کے ساتھ ہیں کہ جن کو اللہ نے نعمتیں عطا کی ہیں انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین میں سے اور وہ بہترین ساتھی ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۶۔

(۲) سورہ یوسف(۱۲) آیت ۴۶۔

(۳) سورہ نساء (۴) آیت ۶۹۔

۲۳

خداوندعالم نے نبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد صدیقین کی مدح سرائی کی ہے جبکہ نبیوں کے بعد آئمہ ہی کا ذکر سب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی پر وہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں کہ جن میں وارد ہے کہ'' صدیق '' تین شخص ہیں حبیب نجار، حزقیل ، علی اور علی ان سب سے افضل ہیں ۔ پس چونکہ علی کاذکر ان دو افراد کے ساتھ آیا ہے اور وہ ان کے ساتھ صدیقین میں شامل ہیں جبکہ وہ دونوں نہ نبی ہیں اور نہ امام ۔ لہذا مناسب یہ سمجھا کہ علی کو ان دونوں سے جدا اور ممتاز رکھیں ایک ایسی شی سے کہ جو ان دونوں میں نہیں ہے یعنی امامت لہذا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا علی ان دونوں سے افضل ہیں ۔

پس لفظ صدیق کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تینوں کو صدیق فرمایا ہے لہذا لفظ کے اعتبار سے برابر ہیں ۔ لیکن پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاہا کہ ان کے درمیان معنی کے اعتبار سے فرق بیان کردیا جائے یعنی علی کے مستحق امامت ہونے کوامتیاز قرار دیا جائے لہذا فرمایا وہ ان دونوں سے افضل ہیں یعنی علی صدیق ہیں اور امام))(۱) ۔

ظاہرہے کہ اس مسئلہ سے متعلق بحث ، چند مسائل کو بیان کرنے پر موقوف ہے اور ان کو تدریجی و یکے بعد دیگر بیان کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا ابتداء کلمہ ''صادق و کاذب ''سے آشنائی ضروری ہے تاکہ ''صدیقیت '' کے معنی کو درک کرسکیں اور یہ واضح ہوجائے کہ صدیقیت کہاں اور کس کے لیے مناسب ہے ۔

____________________

(۱) العمدہ ۲۲۳۔

۲۴

سب سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمانۂ جاہلیت ہی میں لقب ''صادق و امین'' سے ملقب تھے ، حضرت خدیجہ اور آپ کی دختر نیک اخترحضرت فاطمہ زہرا کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے صدیقہ کا لقب ملا ۔

صدیق حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سے پاک وصادق اولادیں ہوئیںکہ جو مسلمانوں کے امام قرار پائے اور خداوندعالم نے آیت تطہیر(۱) میں ان کو پاک و منزہ قرار دیا۔

نیز خداوندعالم نے ان کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور فرمایا( کونوا مع الصادقین ) (۲) ( سچو ںکے ساتھ ہوجاؤ)(۳) ۔

____________________

(۱) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۳۳۔

(۲) سورہ توبہ (۹) آیت ۱۱۹۔

(۳) دیکھیے تفسیر قمی : ۱ ۳۰۷۔ تفسیر فرات کوفی ۱۳۷۔ ان دونوں تفاسیر میں وارد ہے کہ'' ای کونوا مع علی و اولادعلی'' علی اور اولاد علی کے ساتھ ہوجاؤ ، یہ معنی حضرت امام محمد باقر سے نقل ہوئے ہیں ، مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ فرمائیں :

الدرالمنثور :۳ ۲۹۰۔فتح القدیر:۲ ۳۹۵۔ شواہد التنزیل :۲۶۰۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۳۔ کفایت الطالب ۲۳۵ـ۲۳۶۔

اور حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے جیسا کہ شواہد التنزیل :۲۵۹۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۰۔اور غایت المرام ۲۴۸ میں ابو نعیم اصفہانی سے منقول ہے ۔اور اسی طرح عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے دیکھیے ذیل کے حوالہ جات: ۔۔۔۔۔اگلے صفحہ پر

۲۵

اس طرح کے القاب میں تحریف اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و منزلت کو گرانے و کم کرنے کی مسلسل ناکام کوششیں کی جاتی رہیں اور اب تک جاری ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود تحریف کرنے والے ان کے مقام کو کم کرنے میں ناکام ہیں اور رہیں گے ۔

____________________

۔۔۔ پچھلے صفحہ کا ادامہ

مناقب امیر المؤمنین (خوارزمی ) ۱۹۸۔ شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۶۔ الدرالمنثور :۳ ۲۹۰۔فتح القدیر:۲ ۳۹۵۔

اور عبداللہ بن عمر سے روایت کی گئی ہے کہ جو شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۷۔ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

مقاتل بن سلیمان سے روایت ہے کہ جو شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۶۔میں مذکور ہے اور اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن کا تذکرہ سورہ احزاب (۳۳) آیت ۲۳ میں آیا ہے ۔

(رجال صدقوا ماعاهدوا الله علیه فمنهم من قضی نحبه ومنهم من ینتظر )۔ وہ افراد کہ جنہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا اور اس پر ثابت قدم رہے ان میں سے کچھ نے اس عہد کو انجام تک پہنچایا اور کچھ منتظر رہے ۔ ابو جعفر سے روایت ہے کہ (من قضی نحبہ) سے حمزہ اور جعفر مراد ہیں اور (من ینتظر ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔(سورہ احزاب (۳۳) آیت ۲۳)

۲۶

اس لیے کہ یہ حضرات عظیم و باعظمت اصلاب و پاکیزہ ماؤں کے رحم میں رہے اور جاہلیت کی آلودگی ان سے دور ہے اور پلیدگی و تیرگی کا لباس انہوں نے جامہ تن نہیں کیا ۔(۱)

____________________

(۱) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : (انادعوة ابراھیم) میں اپنے پدربزرگوار ابراہیم کی دعا ہوں ۔ دیکھیے : مسند الشامیین :۲ ۲۴۱۔ تفسیر طبری :۱ ۷۷۳، حدیث ۱۷۰۷۔ الجامع الصغیر : ۱ ۴۱۴، حدیث ۷۰۳۔ شواہد التنزیل :۴۱۱۱،حدیث۴۳۵۔

اور آپ ہی سے روایت ہے کہ(نقلت من کرام الاصلاب الی مطهرات الارحام و خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح و ما مسنی عرق سفاح قط وما زلت انقل من الاصلاب السلیمة من الوصوم البریة من العیوب ) (شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):۱۱ ۱۰)

میں اصلاب کرام سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوا اور نکاح (حلال) زادہ ہوں نہ کہ زنا(حرام) زادہ، میری پشتوں میں بھی کبھی عرق زنا نے مجھے مس نہیں کیا اور میں ہمیشہ سے بے عیب و بے نقص اور پاک اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں ۔

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ: ۲ ۶۶۲۔ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:( خلقت انا و علی بن ابی طالب من نور واحد قبل ان یخلق اللہ آدم فلما خلق اللہ آدم اسکن ذالک النور فی صلبہ الی ان افترقنا فی صلب عبد المطلب فجزء فی صلب عبداللہ و جزء فی صلب ابی طالب) میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور سے خلق ہوئے اس سے پہلے کہ خداوندعالم آدم کو خلق کرتا اور جب آدم کو خلق فرمایا تو اس نور کو صلب آدم میں قرار دیا یہاں تک کہ ہم صلب عبد المطلب میں جدا ہوئے کہ ایک جزء صلب عبداللہ میں قرار پایا اور ایک جز ء صلب ابی طالب میں منتقل ہوا۔

۲۷

ان کے جدبزرگوار زمانہ جاہلیت میں ''صادق و امین''کے لقب سے معروف تھے اور اپنے عہد وپیمان میں وفادار ہونے کی وجہ سے عربوں کے درمیان مورد اعتماد و قابل احترام تھے ،عرب اپنے فیصلے کرانے آپ کی خدمت میں آتے چونکہ آپ حق کے علاوہ کسی کی طرف داری نہیں کرتے اور کسی کے حق سے انکار نہیں کرتے تھے ۔(۱)

بیس سال کی عمر میں (حلف الفضول) میں شرکت کی تاکہ ظالم کے مقابل میں مظلوم کی مدد کرسکیں(۲) ۔ اور اپنے عہد و پ یمان سے وفاداری کرسکیں ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مکہ کے قب یلوں کے درمیان حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کے لیے قاضی و داور قرارپائے ، جبکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ قبائل عرب خانۂ کعبہ کی تجدید بناء کررہے تھے تو حجر اسود کو رکھنے میں آپس میں اختلاف ہوگیا ، ابو امیہ بن مغیرہ (والد ام سلمہ) نے مشورہ دیا کہ جو شخص بھی سب سے پہلے باب السلام سے اندر آئے اس کو قاضی و جج بنایا جائے تو اس وقت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبد اللہ اس ی باب سے تشریف لے آئے جیسے ہی آپ کو آتے دیکھا سب کے سب کہنے لگے یہ امین ہیں ان کے فیصلے پر ہم راضی ہیں ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پورا واقعہ سنا اور پھر اپن ی عبا ء کو پھیلایا ـایک روایت میں ہے کہ ایک کپڑا منگایاـاور پھر حجر اسود کو اٹھایا آپ نے حجر اسود کو اس میں رکھا پھر فرمایا ہر ایک قبیلے والے اس کے ایک ایک گوشے کو پکڑ لیں ، انہوںنے ایسا ہی کیا اور اٹھایا ۔

____________________

(۱) السیرة الحلبیہ :۱ ۱۴۵۔

(۲) طبقات ابن سعد :۱ ۱۲۹۔ المنمق ۵۲ـ۵۴۔

۲۸

جب اس کی جگہ کے قریب پہنچے تب آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو پکڑا اور اس کے مقام پر نصب فرمادیا ۔(۱)

اہل سنت والجماعت کی بعض کتب کی روایت کے مطابق پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دعوت اسلام کا آغاز کوہ صفا سے اس طرح کیا کہ فرمایا :

'' اے بنی فہر ، اے بنی عدی، اے فرزندان عبدالمطلب اور اسی طرح تمام قبائل کہ جو آپ سے قریب ترین تھے سب کو نام لے لے کر پکارا یہاں تک کہ سب آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے اور جو نہیں آسکتا تھا اس نے اپنا نمائندہ بھیجا تاکہ معلوم ہو کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : آپ حضرات کی نظر میں اگر میں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے کہ جو آپ پر شبخون مارنے والا ہے تو کیا میری تصدیق کروگے ؟

سب نے ایک زبان ہوکر کہا : ہاں آپ ہمارے نزدیک سچے ہیں اور ہم نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں آپ کو عذاب شدید سے ڈرانے والا ہوں اے بنی عبد المطلب ، اے بنی عبد مناف ، اے بنی زہرہ ، اے بنی تیم ، اے بنی مخزوم و اسد اور تمام اہل مکہ کے قبیلوں میں سے ایک ایک کا نام لیا پھر فرمایا : خداوندعالم نے مجھے حکم دیا کہ آپ کو عذاب سے ڈراؤں میں آپ کی دنیا وآخرت کا مالک نہیں ہوں مگر یہ کہ کہیے'' لاالہ الا اللہ'' کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے ۔

____________________

(۱) السیرة النبویة (ابن ہشام) :۱ ۲۰۹۔ تاریخ طبری :۲ ۴۱۔ البدایة والنہایة : ۲ ۳۰۳۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی) : ۱۴ ۱۲۹۔

۲۹

پس ابو لہب کھڑا ہوا ـ وہ بھاری بھر کم آدمی تھا اور بہت جلدی غصہ میں آجاتا تھا ـ اور چیخا : تجھ پر ہمیشہ پھٹکار ہو کیا اسی لیے لوگوں کو جمع کیا ہے اس کے بعد لوگ آپ کے چاروں طرف متفرق ہوگئے تاکہ آپ کے پیغام کے سلسلے میں فکر و مشورہ کریں''۔(۱)

جی ہاں ، قبائل عرب نے آپ کی تکذیب کی لیکن خود آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے نظریات و افکار اور پیغام کی وجہ سے کہ جو لوگوں کے لیے حیات بخش تھے وہ نظریات کہ جو اس سے پہلے ان کے سامنے بیان نہیں ہوئے تھے ، لہٰذا اس سلسلے میں آپ کا مقام دوسرے انبیاء و رسل کی طرح ہے کہ وہ بھی اپنی اپنی قوموں کے ذریعہ جھٹلائے گئے اور آپ کی قو م کی مثال بھی قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود و لوط اور اصحاب رس کی طرح ہے جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے:

( وان یکذبوک فقد کذبت قبلهم قوم نوح و عاد و ثمود و قوم ابراهیم و قوم لوط ) (۲) ۔پس اگر آپ ک ی تکذیب کریں تو آپ سے پہلے قوم نوح و عاد و ثمود اور قوم ابراہیم و قوم لوط اپنے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں ۔

بہر حال آپ کی قوم نے کذب ذاتی اور خیانت و ظلم کی نسبت آپ کی طرف نہیں دی ہے بلکہ آپ پر جادو ٹونہ اور سحر کی تہمت لگائی ہے چونکہ وہ لوگ معجزہ کی حقیقت کو درک نہیں کرسکتے تھے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو د یوانہ و مجنون کہتے تھے اس لیے کہ آپ پر وحی کے بارسنگین کو دیکھتے تھے جب کہ یہ انتہائی واضح ہے کہ عرب ،اسلام سے پہلے آپ کی امانت داری ، وفا اور سچائی کے معترف تھے ۔

____________________

(۱) دیکھیے ـ: صحیح بخاری : ۶ ۱۹۵، آیت (تبت یدا ابی لھب ) کی تفسیر میں ۔صحیح مسلم : ۱ ۱۳۴۔

(۲) سورہ حج (۲۲) آیت ۴۲و ۴۳۔

۳۰

پس '' صادق و صدیق '' سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لقب ہے اور اسی طرح گذشتہ انبیاء کا جیسے ابراہیم ، ادریس ، اسماعیل ، موسی اور عیسی جیسا کہ خود آپ ہی کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے :

( والذی جاء بالصدق و صدق به ) (۱) وہ کہ جو صدق کو لا یا اور اس کے ذریعہ تصدیق ہوئی ۔

حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد ہوا:

( واذکر فی الکتاب ابراهیم انه کان صدیقاً نبیاً ) (۲) اورکتاب (قرآن) م یں ابراہیم کو یاد کرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔

اور پھر حضرت ابراہیم ہی کے لیے ہے :

( و وهبنا له اسحاق و یعقوب و کلا جعلناه نبیاً ـ و وهبنا لهم من رحمتنا و جعلنالهم لسان صدق علیا ) (۳) ۔

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کیے اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمتوں میں سے کچھ عطا کیا اور ان کے لیے سچی زبان ، علی و بلند قرار دی ۔

____________________

(۱) سورہ زمر(۳۹) آیت ۳۳۔

(۲) سورہ مریم(۱۹) آیت ۴۱۔

(۳) سورہ مریم(۱۹) آیت ۴۹ـ۵۰۔

۳۱

حضرت ادریس کے لیے ارشاد خداوندی ہے :

( اذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقاً نبیاً ) (۱) ۔

اورکتاب (قرآن) میں ادریس کو یادکرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔

اور حضرت اسماعیل کے لیے ارشاد ہوا :

( اذکر فی الکتاب اسماعیل انه کان صادق الوعد و کان رسولاً نبیاً ) (۲) ۔

اورکتاب (قرآن) میں اسماعیل کو یادکرو کہ وہ صادق الوعدتھے اور پیغمبر نبی تھے ۔

حضرت موسی کے بارے میں ارشاد ہے:

( اذکر فی الکتاب موسی انه کان مخلصاًو کان رسولاً نبیاً ) (۳) ۔

اورکتاب (قرآن) میں موسی کو یادکرو کہ وہ مخلص اور پیغمبر نبی تھے ۔

بہر حال '' صدیقیت '' پیغمبروں اور نبیوں کی صفت ہے اور ممتاز علامت ہے ، مذکورہ آیات کے اعتبار سے یہ پہلے تو انبیاء اور پیغمبروں کی صفت ہے اور پھر اوصیاء و نیک وباایمان بندوں کی چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :

( والذین آمنوا بالله و رسوله اولائک هم الصدیقون ) (۴)

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۶۔

(۲) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۴۔

(۳) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۱۔

(۴) سورہ حدید (۵۷) آیت ۱۹۔

۳۲

وہ لوگ کہ جو خدا اور پیغمبروں پر ایمان لائے وہی لوگ صدیقین ہیں اس آیت میں ''تخصص بعد از ایمان '' پایا جاتا ہے یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان میں یقین نہیں رکھتے یا جھوٹے ہیں وہ ہر گز صدیق نہیں کہلاسکتے بلکہ اس آیت سے مراد صرف اہل بیت علیہم السلام ہیں چونکہ اصل میں وہی صادق و صدیق ہیں کہ جس کی تفصیل آئندہ آئے گی انشاء اللہ ۔

اس آیت( ومن یطع الله و الرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین و الصدیقین والشهداء والصالحین و حسن اولائک رفیقاً ) (۱) کے ذ یل میں ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا'' من النبیین'' یعنی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''والصد یقین ''یعنی علی (کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں ) '' والشھداء '' یعنی علی و جعفر و حمزہ اور حسن و حسین ہیں اور پھر کہا تمام پیغمبر صدیق ہیں لیکن ہر صدیق پیغمبر نہیں ہے اور تمام صدیق ، نیک و صالح ہیں لیکن ہر نیک و صالح ، صدیق نہیں ہے اور ہر صدیق شہید بھی نہیں ۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام صدیق و شہید اور صالح تھے لہٰذا وہ نبوت کے علاوہ صالحین و صدیقین کی تمام صفات کے حامل تھے ۔

ابو ذر لوگوں سے کچھ بیان کررہے تھے کہ لوگوں نے ان کی تکذیب کی تب پیغمبر اکرم نے فرمایا : (ما اظلت الخضراء (علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر ))

____________________

(۱) سورہ نساء (۴) آیت ۶۹۔ (وہ افراد کہ جو خدا اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہی ان کے ساتھ ہیں کہ جن پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انبیاء و صدیقین ، شہداء و صالحین میں سے اور وہی بہترین دوست ہیں )۔

۳۳

آسمان نے ابوذر سے زیادہ سچے انسان پر سایہ نہیں کیا ہے، اسی دوران حضرت امیرالمؤمنین تشریف لے آئے تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الاان ه ذا الرجل المقبل فان ه الصد یق الاکبر و الفاروق الاعظم''

آگاہ ہوجاؤ کہ آنے والا شخص صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہے''۔(۱)

اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے اور ام ین ہیں یعنی وہ ایسی ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد ہے :( وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی)(۲) پ یغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اپنی مرضی اور خواہشات نفس سے کچھ نہیں کہتے وہی کہتے ہیں کہ جو ان پر وحی نازل ہوتی ہے ۔

لہذا آپ جو کچھ بھی کسی کے بھی بارے میں ارشاد فرمائیں یا کسی کو کوئی لقب عنایت کریں ، رشتہ داری یا اپنائیت کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ ان صفات کا حامل اور صاحب لیاقت ہے ۔

یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام دو چیزوں سے پھیلا ہے ۔

۱ـ حضرت خد یجہ کا مال ۔

۲ـ حضرت ام یر المؤمنین علی علیہ السلام کی تلوار۔

جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ یہ دونوں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سب سے پہلے ایمان لاے ہیں اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرنے والے ہیں اور اپنی گرانبہا و قیمتی چیزوں کو اسلام اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو پہنچانے اور پھیلانے میں نثار کردیا ہے ۔

____________________

(۱) مناقب ابن شہر آشوب :۳ ۸۹ـ۹۰۔

(۲) سورہ نجم(۵۳) آیت ۳ـ۴۔

۳۴

لہذا دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب خدیجہ کو صدیقہ کا لقب عطا کیا اور حضرت علی کو صدیق کالقب عنایت فرمایا ۔ چونکہ یہ دونوں ہر مقام اور ہر گام پر اور ہر پیغام و کلام میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق فرماتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ مصداق صدیقیت ، لوگوں کے ذاتی کمالات اور سیر ت کو دیکھ کر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے مشخص ہوتے ہیں اور یہ ان الفاظ کا اطلاق و استعمال بغیر کسی قابلیت و صلاحیت کے ، بلا وجہ کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے ، یہ کمترین چیز ہے کہ جو عرض کی جاسکتی ہے ۔

تاریخ دمشق میں ضحاک و مجاہد کے حوالے سے ابن عمر کی روایت نقل کی گئی ہے '' ایک مرتبہ جبرئیل پیغام الٰہی لے کر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئے اور آپ کے قریب آکر بیٹھ گئے اور محو گفتگو ہوگئے کہ اتنے میں خدیجہ بنت خویلد کا وہاں سے گذرہوا ، جبرئیل نے سوال کیا اے محمد یہ کون ہیں ؟

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ میری امت کی صدیقہ ہیں''هذه صدیقة امتی''

جبرئیل نے کہا : میرے پاس ان کے لیے خداوند عالم کی جانب سے ایک پیغام ہے کہ خداوندعالم ان کو سلام پیش کرتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ جنت میں ان کا گھر قصب(مروارید) کا ہے کہ جو پیاس اور آگ سے بہت دور ہے ، نہ اس میں کوئی رنج و غم ہے اور نہ کسی طرح کا شور شرابا۔

جناب خدیجہ نے فرمایا :الله السلام و منه السلام والسلام علیکما ورحمة الله و برکاته علی رسول الله ۔

خداوندعالم سلام ہے اور سلامتی اسی کی جانب سے ہے آپ دونوں پر سلام ہو اور رحمت خدا اور اس کی برکتیں رسول خدا پر نازل ہوں یہ گھر کہ جو قصب کا ہے کیا ہے؟

۳۵

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مروارید کا بہت بڑا قصر و قلعہ مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے قلعوں کے درمیان اور یہ دونوں بہشت میں میری بیویاں ہونگی۔(۱)

خداوندعالم کی جانب سے جناب خدیجہ کے لیے سلام آنا یہ آپ کا دوسری بیویوں پر فوقیت و برتری کی نشانی ہے چونکہ سلام الہٰی صرف معصوم کے لیے یا پھر اس شخص کے لیے آتا ہے کہ جو عصمت کے مرتبے میں ہو جیسے سلمان ، ابوذر اور عمار و غیرہ۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق : ۷ ۱۱۸۔ اوراسی سے نقل ہے البدایة والنھایة :۲ ۶۲ میں ۔

یہ روایت شیعہ و سنی دونوں کتابوں میں مختلف و متعدد اسنا دکے ساتھ ذکر ہوئی ہے ، بخاری نے اپنی صحیح :۴ ۲۳۱،کتاب بدء الخلق ،باب تزویح النبی خدیجہ میں مختصر اشارے کے ساتھ ابو ہریرہ سے نقل کی ہے ۔

سیرہ ا بن ہشام : ۱۵۹۱ میں عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب سے نقل ہوئی ہے اور اس میں یہ آیا ہے'' الله السلام و منه السلام وجبرئیل السلام'' ۔

دولابی نے اپنی کتاب الذریة الطاہرہ ۳۶ میں ذکر کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک :۳ ۱۸۶ میں انس سے روایت نقل کی ہے اوراس میں ہے کہ ان اللہ ھو السلام و علیک السلام ورحمة اللہ و برکاتہ ۔ اور کہا ہے کہ یہ روایت ، مسلم کی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ۔

معجم الکبیر : ۲۳ ۱۵ میں اور سنن الکبری (نسائی ) : ۵ ۹۴ ،حدیث ۸۳۵۹میں اور اسی سے نقل ہے اصابہ : ۸ ۲۰۲ میں اس میں بھی راوی انس ہی ہیں اور اس میں مذکور ہے ''ان الله هو السلام و علی جبرئیل السلام وعلیک السلام ۔ اور تفسیر عیاشی : ۲ ۲۷۹،حدیث ۱۲ میں ۔ اور اسی سے نقل ہے بحار الانوار :۱۶ ۷ میں کہ یہ روایت ابو سعید خدری سے ہے ۔

۳۶

ہاں ، اہل سنت نے سلام الہٰی کو دوسروں کے لیے بھی نقل کیا ہے جبکہ تحقیق اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ان روایات کا جعلی و من گھڑت ہونا ثابت ہے ۔

عسقلانی ، فتح الباری میں اس حصے کی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جناب خدیجہ نے فرمایا : ھو السلام و عن جبرئیل السلام وعلیک السلام (خداوندعالم سلام ہے اور جبرئیل سے سلام ہے اور آپ پر اے رسول خدا سلام ہے )۔

علماء کا بیان ہے کہ یہ واقعہ جناب خدیجہ کی بلندی مقام پر دلیل ہے چونکہ آپ نے ''وعلیہ السلام'' نہیں کہا جیسا کہ بعض صحابہ کے متعلق یہ نقل کیا گیا ہے ۔ جناب خدیجہ نے اپنی فکر سے یہ سمجھ لیا کہ خداوندعالم کو عام مخلوق کی طرح جواب سلام نہیں دیا جاتا(۱) ۔

ڈاکٹر سلیمان بن سالم بن رجاء سیحمی (اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں علمی گروپ کے ممبر)جناب خدیجہ کے لیے خدا کی جانب سے سلام کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کلام میں جناب خدیجہ کی دو عظیم منقبتیں پائی جاتی ہیں ۔

۱ـ خداوندعالم ک ی جانب سے جبرئیل کے ذریعہ آپ کے لیے سلام آنا اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آپ تک سلام پہچانا یہ ایسی خصوصیت ہے کہ کسی دوسری خاتون کو نصیب نہیں ہوئی ۔

۲ـ جنت م یں مروارید کے گھر کی بشارت کہ جس میں نہ شورشرابا ہے اور نہ رنج وغم ۔

____________________

(۱) فتح الباری : ۷ ۱۰۵۔

۳۷

سہیلی کا بیان ہے کہ'' بیت '' کے ذکر میں ایک لطیف معنی کی طرف اشارہ ہے چونکہ جناب خدیجہ بعثت سے پہلے صاحب خانہ تھیں اور آپ کا ہی گھر اسلام کا واحد گھر قرار پایا، جس روز سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث ہوئے تو صرف آپ ہی کا بیت الشرف اسلام کا تنہا گھر تھا اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے ۔

اور پھر کہتا ہے کہ کسی بھی کام اور کار خیر کا بدلہ و جزاء غالباً اسی لفظ کے ساتھ بیان ہوتاہے چاہے وہ جزاء کتنی بھی بلند و بالا ہی کیوں نہ ہو اسی وجہ سے حدیث میں قصر نہیں بیت آیا ہے۔(۱)

حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ لفظ بیت میں ایک خاص معنی پوشیدہ ہے چونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل ب یت کی مرکزحضرت خدیجہ ہیں اس لیے کہ اس آیت( انمایرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهر کم تطهیرا ) (۲)

اے اہل بیت بس اللہ کا ارادہ یہ ہے آپ کو ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے ) )کی تفسیر میں جناب ام سلمہ کا بیان ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ ، علی وحسن اور حسین کو بلایا اور اپنی عبا ء ان پر ڈالی اور فرمایا : پروردگارا یہ میرے اہل بیت ہیں (اس روایت کو ترمذی اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے)۔(۳)

____________________

(۱) الروض الانف :۱ ۴۱۶۔

(۲) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۳۳۔

(۳) فتح الباری :۷ ۱۳۸۔

۳۸

ان افراد یعنی اہل بیت کا مرکز جناب خدیجہ ہیں چونکہ امام حسن و امام حسین حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں اور حضرت فاطمہ جناب خدیجہ کی بیٹی ہیں اور حضرت علی بچپن ہی سے جناب خدیجہ کے گھر آگئے تھے وہیں تربیت پائی اور پھر آپ کی بیٹی جناب فاطمہ سے شادی ہوئی لہذا اہل بیت کی مرکزیت جناب خدیجہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔(ڈاکٹر سلیمان )(۱)

حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : آپ کے لیے دنیا کی چار عورتوں کی معرفت کافی ہے مریم بنت عمران ، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ۔(۲)

سنن ترمذی میں عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے علی بن ابی طالب سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول خدا سے سنا آپ نے فرمایا: اس زمانے میں دنیا کی بہترین عورت خدیجہ بنت خویلد ہیں اور اس زمانے میں مریم بنت عمران بہترین عورت تھیں ۔(۳)

____________________

(۱) العقیدہ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط:۱ ۱۰۳ـ۱۰۸۔

(۲) مستدرک حاکم : ۳ ۱۵۷۔ اور ترمذی نے اس روایت کو جلد: ۵ ۳۶۷ ، حدیث۳۹۸۱، ابواب مناقب میں نقل کیا ہے ۔ مسند احمد بن حنبل : ۳ ۱۳۵۔ اخبار اصبہان:۲ ۱۱۷۔

(۳) سنن ترمذی : ۵ ۳۶۷،حدیث ۳۹۸۰،فضل خدیجہ۔ مسند احمد بن حنبل : ۱ ۱۱۶۔ صحیح بخاری : ۴ ۱۳۸، (تھوڑے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے )

۳۹

جناب خدیجہ ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے بہترین وزیر تھیں(۱) اور آپ کو زمانۂ جاہلیت میں ''طاہرہ'' کہا جاتا تھا۔(۲)

فضائل الصحابہ احمد ابن حنبل میں(۳) تار یخ دمشق(۴) اور دوسرے منابع اور مآخذ(۵) م یں عبدالرحمن بن ابی لیلی کی سند سے کہ اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا: صدیقین (بہت زیادہ سچے) تین شخص ہیں حبیب بن موسی نجار مؤمن آل یاسین وہ کہ جس نے کہا( یا قوم اتبعواالمرسلین ) (۶) اے م یری قوم والو پیغمبروں کی اطاعت کرو ۔

____________________

(۱) البدایة و النھایة :۳ ۱۵۷۔ فتح الباری : ۷ ۱۴۸۔ الذریة الطاہرہ (دولابی) ۴۰۔ اسد الغابہ : ۵ ۴۳۹۔

(۲) مجمع الزوائد : ۹۷ ۲۱۸۔ فتح الباری :۷ ۱۰۰۔المعجم الکبیر :۲۲ ۴۴۸۔ اسد الغابہ :۵ ۴۳۴۔ تاریخ دمشق :۳ ۱۳۱۔ البدایة و النھایة :۳۲۹۳۔سیرة النبویة (ابن کثیر) : ۴ ۶۰۸۔

(۳) فضائل الصحابہ : ۲ ۶۵۵و ۲۶۷۔

(۴) تاریخ دمشق : ۴۲ ۴۳و ۳۱۳۔

(۵) الفردوس بماثور الخطاب :۲ ۴۲۱۔ فیض القدیر : ۴ ۱۳۸۔ کنز العمال : ۱۱ ۶۰۱۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۹ ۱۷۲۔مناقب ابن شہر آشوب :۲ ۲۸۶۔ الجامع الصغیر:۱۱۵۲۔ الدر المنثور : ۵ ۲۶۲۔ ان تمام کتابوں میں صرف قرطبی تنہا ہے کہ جس نے اپنی تفسیر :۱۵ ۳۰۶ میں تمام محدثین و مفسرین کے خلاف نقل کیا ہے کہ تیسرا شخص ابوبکر ہے نہ کہ علی ۔

(۶) سورہ یاسین(۳۶) آیت ۲۰۔

۴۰