"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 45185
ڈاؤنلوڈ: 4033

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45185 / ڈاؤنلوڈ: 4033
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور اس کے بعد حضرت فاطمہ زہرا کا فرمان ذیشان :

''فان تعزوه و تعرفوه تجدوه ابی دون نسائکم و اخاابن عمی دون رجالکم ولنعم المعزی الیه ''(۱)

اگر نسب و نسبت کو دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو گے کہ وہ میرے باپ ہیں نہ کہ تمہاری عورتوں کے اور میرے ابن عم کے بھائی ہیں نہ کہ تمہارے ، اور یہ ہماری پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کتنی بہترین نسبت ہے۔

اس کلام میں حضرت فاطمہ اپنی معنوی منزلت کی طرف اشارہ فرمانا چاہتی ہیں وہ یہ کہ ہمارا یہ مقام صرف پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے رشتہ داری ہی کی وجہ سے نہیں ہے ۔

اور بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ فاطمہ اس کلام میں اپنی ظاہری رشتہ داری کو بیان فرمانا چاہتی ہیں تو مقصد یہ ہے کہ اس رشتہ داری کے ذریعہ اپنے حق کو جتلایا جاسکے اور پھر میراث کا مطالبہ کیا جاسکے ۔لیکن وہ لوگ شیطان کے اغوا شدہ تھے اور حیات رسول میں ہی اپنی اپنی مصلحتوں کی بناء پر خاموش تھے اور دشمنی کو رسول کے بعد ظاہر کیا جیسا کہ امت موسیٰ نے ان کے بعد کارنامے انجام دیئے۔رسول خدا نے انپی امت کو ان حوادث کی خبر دی تھی اور فرمایا تھا کہ تم گذشتہ امتوں کی پیروی ایک ایک بالشت تک میں انجام دوگے حتی اگر وہ نیول و گو کے سوراخ میں بھی گھسے تو تم بھی گھسوگے ۔(۲)

____________________

(۱) احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۴۔ الطرائف (ابن طاؤس ) ۲۶۳۔

(۲) صحیح مسلم :۸ ۵۸۔ الطرائف ۳۷۹، حدیث ۲۱۔(اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے ) ۔ مسند احمد:۲ ۵۱۱۔

۲۶۱

اور اپنی زندگی کے آخری خطبہ ، خطبۂ وداع میں فرمایا : وائے ہو تم پر کہ میرے بعد کفر کی طرف نہ چلے جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹو ۔(۱)

حدیث حوض میں ارشاد ہوا : ''آگاہ ہوجاؤ کہ حوض کوثر پر میرے پاس میری امت کے کچھ افراد کو لایا جائے گا اور ان کو برے ا ور دوزخی قرار دیا جائے گا پس میں کہوں گا کہ خدایا یہ تو میرے اصحاب ہیں تو کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا افعال انجام دیئے ۔(۲)

اس روش سے رسول خدا نے آنے والے واقعات و حوادث کو اپنی امت پر بیان فرمایا اور اپنے خوف کا اظہار کیا اور ان کو متوجہ کیا کہ مبادا گمراہ نہ ہوجانا ۔

اور اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے خطبہ میں سنت نبوی کے خلاف ہونے والی چالبازی اور مکاری کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ شیطان لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا نے کے لیے ہر طرح کی کوشش میں لگا ہوا ہے لہذا خبر دار اس کے جال میں نہ پھنس جانا ۔ لہذا آپ نے فرمایا :

اور اب جوں ہی خداوندعالم نے اپنے حبیب رسول خدا کو ان کے اصلی مقام پر بلالیا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں تو تمہارے اندر سے نفاق و حسدظاہر ہونا شروع ہوگیا ہے

____________________

(۱) صحیح بخاری :۱ ۳۸ ۔ و جلد : ۲ ۱۹۱۔ وجلد : ۵ ۱۲۶۔ و جلد :۷ ۱۱۲۔ سنن ابن ماجہ :۲ ۱۳۰، حدیث ۳۹۴۳۔ مسند احمد :۲ ۸۵۔ بغیة الباحث ۲۴۵۔ اور دوسرے منابع۔

(۲) صحیح بخاری : ۵ ۲۴۰، وجلد :۷ ۲۰۶۔ صحیح مسلم :۱ ۱۵۰۔ وجلد : ۷ ۶۸۔ سنن ترمذی :۴ ۳۸۔ اور دوسرے منابع میں ۔

۲۶۲

اور تم اپنے پرانے دین جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہو اور اب خاموش گمراہوں کی زبانیں کھل گئی ہیں اور گمنام و بے وقار لوگ چمک اٹھے ہیں ، اہل باطل کے نازو نخرے کا پلا ہوا اونٹ بول اٹھا ہے اوراب تمہارے سروں پر حکومت ہورہی ہے شیطان کہ جو اب تک کمین گاہ میں چھپا ہوا تھا اس نے سربلند کرلیا ہے اور تمہیں اس نے دعوت دی ہے اس نے یہ جان لیا کہ تم اس کے بہکائے میں بہت آسانی سے آنے والے ہو بلکہ اس کے بہکائے میں آنے کے لیے آمادہ ہو تو اس نے تم سے چاہا کہ عذر سجاؤ بغاوت کرو اور تمہیںمکر وفریب کے ذریعہ ابھارا اور تم عذر و بغاوت کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔

لہذا تم نے کسی دوسرے اونٹ کی چرا گاہ کو نشانہ بنایا اور اس کی چراگاہ سے استفادہ کرنے لگے کہ جو تمہاری نہ تھی ۔

اور یہ کارنامے اس وقت انجام پائے کہ ابھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دنیا سے گئے ہوئے چند روز نہ گذرے تھے ابھی ان کی مفارقت کا زخم نہ بھرا تھا ،ابھی ان کے جانے سے دلوں میں پیدا ہونے والے زخم صحیح نہ ہونے پائے تھے اور ابھی وہ دفن بھی نہ ہونے پائے تھے کہ تم نے اس فتنہ کو برپا کردیا جب کہ تمہیں خبردارکرتی ہوں کہ اپنے کارنامے سے باز آؤ اور اس فتنہ سے ہاتھ اٹھالو ۔

( الا فی الفتنة سقطوا و ان جهنم لمحیطة بالکافرین ) (۱) آگاہ رہو کہ وہ فتنہ م یں پڑگئے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کے لیے آمادہ اور ان پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔

____________________

(۱) سورہ توبہ (۹) آیت ۴۹۔

۲۶۳

یہ کام تم لوگوں سے بعید تھا کس طرح آپ لوگوں نے انجام دیا ؟ اور اس جھوٹ کے پلندوں کو کہاں کہاں اٹھائے پھروگے ۔

کیا کتاب خدا کوپڑھتے ہو ، اس کے امور ظاہر ہیں اور اس کے احکام روشن و واضح ،اس کے اعلانات آشکار ، اس کے نواہی درخشان اور اوامر صاف و سادہ ہیں ۔ آپ لوگوں

نے اس کو پس پشت ڈال دیا ہے ، کیا قرآن سے بیزار ہو اور منھ پھیر لیا ہے یا کوئی اور حکم چاہتے ہو؟۔

( بٔس للظالمین بدلا ) (۱) ظالم ین کا یہ مقام کتنا برا ہے !

( ومن یتبع غیر الاسلام دینا فلن یقبل منه و هو فی الآخرة من الخاسرین ) (۲) جو کوئ ی بھی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی پیروی کرے اس سے وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہے ۔

تم لوگوں نے تھوڑا سا توقف بھی نہ کیا ،اس اونٹ کو آرام بھی نہ کرنے دیا اور سوار ہوگئے ، اب آگ بھڑکادی ہے اور شعلوں کو دہکادیا ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کے لیے آواز دے اور تم اس کی دعوت کو قبول کرلو اور دین کے چمکتے ہوئے نور کو خاموش کرو ، سنت پیغمبرکو فراموش کرو اور تبدیل کردو۔

تم نے اپنے مقصد کو چھپائے رکھا اور اپنی دھوکہ دینے والی رفتار سے آگے بڑھتے رہے جب کہ اہل بیت کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہے ۔

____________________

(۱) سورہ کہف (۱۸) آیت ۵۰۔

(۲) سورہ آل عمران (۳) آیت ۸۵۔

۲۶۴

ہم تمہاری اس رفتار کے مقابل صابر و بردبار ہیں اگر چہ یہ صبر سخت ہے لیکن پھر بھی اس شخص کی مانند کہ جس کے خنجر مارا جائے اور نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا جائے لیکن پھر بھی وہ دم نہ بھرے اور آہ نہ کرے۔(۱)

حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے اس متین و لطیف خطبہ اور علمی تنبیہ کے ذریعہ اس قوم کو متوجہ فرمایا اور فتنہ میں پڑنے سے ڈرایا، کہ شیطان اپنی کمین گاہ سے نکل کر ان کو بلا رہا ہے اور وہ لوگ اس کے بلانے پر لبیک کہہ رہے ہیں ۔

جب کہ یہ شیطان وہی ہے کہ جس کے بارے میں خداوندمتعال کا ارشاد گرامی ہے ۔( و قال الشیطان لما قضی الامر ان الله وعدکم وعدالحق و وعدتکم فاخلفتکم و ماکان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولو موا انفسکم ) (۲)

اور شیطان نے کہا کہ جب وقت حساب و کتاب آیا بیشک خداوند عالم نے تم کو وعدہ حق دیا اور میں نے بھی وعدہ دیا پس میں نے اپنے وعدے میں خلاف ورزی کی، اور میری تم پر حکومت نہیں تھی مگر صرف یہ کہ تم کو دعوت دیتا تھا اور تم قبول کرلیتے تھے لہذا مجھ کو برا نہ کہو اور میری ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنے آپ کی سرزنش کرو۔

____________________

(۱) دلائل الامامة ۱۱۵۔ بحار الانوار :۲۹ ۲۹ـ۳۰۔ (متن خطبہ اسی کتاب سے ماخوذہے )

(۲) سورہ ابراہیم (۱۴) آیت ۲۲۔

۲۶۵

لیکن وہ کہ جو عمر نے اپنی خلافت کے ابتداء میں کہا کہ میں جب اختلاف امت سے ڈرنے لگا تو ابوبکر سے کہا کہ اپنا ہاتھ دے کہ میں بیعت کروں ۔(۱)

یہ اس منافق(۲) کے کلام ک ی دوسری صورت و توجیہ ہے کہ جس نے جنگ تبوک میں نہ جانے کا بہانا بھرا اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا میں عورتوں کو بہت چاہتاہوں جمالیاتی ذوق رکھتاہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ روم کی خوبصورت و حسین عورتیں مجھے اپنے حسن کا گرویدہ کرلیں اور میں اپنا دین و ایمان کھو بیٹھوں ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :( ومن هم من یقول أذن لی ولا تفتنی الافی الفتنة سقطو اوان جهنم لمحیطة بالکافرین ) (۳)

اور ان میں سے وہ بھی ہے کہ جو کہتا ہے کہ مجھ کو اجازت دیں اور جنگ میں نہ جاؤں مجھے فتنے میں نہ ڈالو ، آگاہ ہوجاؤ کہ وہ فتنے میں پڑچکے ہیں اور بیشک جہنم کافرین کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام سے ان بہانے اور توجیہات کا قبل از وقت جواب دے رہی ہیں۔'' زعمتم خوف الفنتة الافی الفتنة سقطوا ''تمہیں اختلاف و فتنہ کا خوف تھا جب کہ اب فتنہ میں پڑ چکے ہو ۔

چونکہ وہ منافق جد بن قیس یہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی طرح راہ فرار اختیار کرے (کہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مرجائے ) کہ جو بنی اسرائیل نے کہا :

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۲ ۲۴ـ۲۵۔

(۲) مراد جد بن قیس ہے

(۳) سورہ توبہ (۹) آیت ۴۹۔

۲۶۶

( فاذهب انت و ربک فقاتلا انا ههنا قاعدون ) (۱)

اے موسی آپ اور آپ کا پروردگار جاؤ اور جاکر جنگ کرو ہم یہیں پر بیٹھے ہیں ۔

اس لیے کہ حقیقی فتنہ یہی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ پر نہ جایا جائے اور ان کے ہم رکاب ہوکر جنگ نہ کی جائے چونکہ یہی شرک و کفر کا سرچشمہ ہے ، بالکل اسی کی طرح یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی وجانشین کو ان کے منصب سے دور و علیحدہ رکھا جائے ، چونکہ یہ سبب ہوگا کہ منافقین و طلقاء خلافت کی طمع و لالچ اور خواب و خیال میں پڑجائیں۔

واقعا یہی فتنہ ہے بلکہ یہ بہت عظیم فتنہ ہے

حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام میں '' ھیھات منکم و کیف بکم و انی تؤفکون وکتاب اللہ بین اظھر کم وامور ہ ظاھرة ۔ ۔ ۔'' یہ اشارہ فرمانا چاہتی ہیں کہ منصب خلافت ایک الہی منصب ہے تو پھر کیوں لوگ اس کی معرفت نہیں رکھتے جب کہ خدا کی کتاب لوگوں ہی کے لیے ہے اور اس کے امور و معارف سب کے لیے واضح ہیں کہ جو خلافت الہٰیہ پر دلالت کرتے ہیں جیساکہ خداوندمتعال کا ارشاد گرامی ہے :

( واذ ابتلی ابراهیم ربه بکلمات فاتمهن قال انی جاعلک للناس اماما قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین ) (۲)

____________________

(۱) سورہ مائدہ (۵) آیت ۲۴۔

(۲) سورہ بقرہ(۲) آیت ۱۲۴۔

۲۶۷

اور جب ابراہیم کا اس کے پروردگار نے چند کلمات کے ذریعہ امتحان لیا اوروہ اس میں کامیاب ہوگئے تو خداوندعالم نے فرمایا کہ ہم تمہیں لوگوں کا امام بنانے والے ہیں تو ابراہیم نے سوال کیا کہ پروردگار کیا یہ امامت میری نسل میں بھی کسی کو دے گا ؟ جواب آیا اے ابراہیم ہمارا یہ عہدہ کسی ظالم تک نہیں پہنچے گا۔

یا اسی طرح دوسری آیت :( وجعلنامنهم آئمة یهدون بامرنا لما صبروا و کانوا بآیاتنا یوقنون ) (۱)

اور ہم نے ان میں سے کہ جو صبر کرنے والے اور ہماری آیات پر یقین رکھتے تھے امام قرار دیا کہ جوہمارے امر کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں ۔

حضرت زہرا نے اس کلام کو اس لیے بیان فرمایا تاکہ ان کو متوجہ فرمائیں کہ وہ لوگ قرآن پر عمل کرنا ترک کرچکے ہیں۔

'' تم لوگوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیاہے کیا اس سے منھ پھیرے جارہے ہو ؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور چیز سے فیصلے کررہے ہو ؟ ظالموں اور ستمگروں کے لیے اس کا بدلا کتنا برا ہے اور جو کوئی اس کے علاوہ دوسرا دین لائے گا وہ قبول نہ ہوگا ،وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ''۔(۲)

____________________

(۱) سورہ سجدہ (۳۲) آیت ۲۴۔

(۲) شرح الاخبار :۳ ۳۶۔ احتجاج طبرسی : ۱ ۱۳۷۔ کشف الغمہ : ۲ ۱۱۲۔

۲۶۸

آپ نے اس کے بعد اپنے خطبہ کوجاری رکھا تاکہ واضح کریں کہ ان لوگوں نے احکام الہٰی کو کھیل و بازیچہ بنالیا ہے کس طرح کہتے ہیں کہ زہرا کے لیے ارث و میراث نہیں ہے کیاجان بوجھ کر کتاب خدا کو چھوڑدیا ہے اور پس پشت ڈالدیا ہے ،جب کہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے (وورث سلیمان داؤد )(۱) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی ۔

اور اسی طرح اس خطبہ کے متعدد ٹکڑے و جملات کہ جو احتجاج و مناظرے کی انتہا و معنویت و حقیقت کے بلند و بالا منارے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ نمل(۲۷) آیت ۱۶۔

۲۶۹

عجیب و غریب تحریفات

اہل سنت کا خیال یہ ہے کہ بے بنیاد اور بغیر کسی ملاک و معیار کے ہر کس و ناکس کے لیے لفظ صدیقہ کا اطلاق و استعمال کیا جاسکتا ہے، یا اس طرح کے القاب کی طرح احادیث گھڑنا اور ان کا استعمال کرنا کہ جو اس دور میں از باب مصلحت کارنامے انجام دیئے گئے۔جب کہ تحقیق و جستجو کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کام ان کے خیال کے برعکس ہے ۔

مدائنی نے اپنی کتاب الاحداث میں روایت نقل کی ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے حکم دیا کہ فضائل عثمان میں احادیث گھڑی جائیں اور جب عثمان کے بارے میں گھڑی ہوئی احادیث کا انبار لگ گیا اور سب میں منتشر ہوگئیں تب احادیث گھڑنے والوں کے لیے لکھا :

جب میرا یہ خط آپ کے ہاتھ میں پہنچے تو لوگوں کو فضائل صحابہ اور خلفاء راشدین کے بارے میں روایت نقل کرنے کو کہنا اور ابوتراب کے بارے میں کوئی بھی ایسی خبر کہ جس کو کسی مسلمان نے نقل کیا ہو نہ چھوڑنا مگر اس کے مقابل اور اسی طرح کی روایت صحابہ کی شان میں بھی بنا لینا اور مجھے لکھ بھیجنا چونکہ یہ کام مجھے بہت پسند ہے اور اس سے میں بہت خوشحال ہوتاہوں اور یہ کام ابوتراب اور ان کے شیعوں کی دلیلوں کو باطل کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور عثمان کے فضائل ان لوگوں پر سخت گذرتے ہیں ۔

۲۷۰

راوی کا بیا ن ہے کہ میں نے معاویہ کے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور بہت زیادہ روایات کہ جو گھڑی ہوئی و جعلی تھیں صحابہ کی شان میں جمع کیں اور لوگوں نے بھی اس سلسلے میں بہت کوششیں کیں یہاں تک کہ ایسی روایات کو منبروں پر بلند آواز سے پڑھتے تھے اور اس طرح کی روایات مدرسوں میں معلمین و اساتید کودی جاتیں ، وہ بچوں اور نوجوانوںکو تعلیم دیتے اور اس طرح ان کی تربیت ہوتی وہ ایک دوسرے سے ان روایات کو نقل کرتے اور قرآن کی طرح ان روایات کو حفظ کرایا جاتا حتی کہ لڑکیا ں اور عورتیں ، غلام و کنیز سب ان روایات کو حفظ کرتے اوراس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا ۔(۱)

٭ وہ روایات کہ جو ابوبکر کے بارے میں گھڑی گئیں ان میں ایک یہ ہے کہ ابوبکر زمانہ جاہلیت ہی سے لقب صدیق سے ملقب تھے ۔(۲) یہ اس لیے وضع ہوئی چونکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمانہ جاہل یت اور قبل از بعثت ہی صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے لہذا ابوبکر کورسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برابر و م قابل میں پیش کیا جاسکے ۔

٭اسی طرح کی روایت گھڑی کہ خداوندعالم کے فرمان( والذی جاء بالصدق و صدق به ) (۳) ''اور وہ کہ جو سچائ ی لایااور اس کی تصدیق کی ''سے مراد ابوبکر ہے ۔

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) : ۱۱ ۴۴(بہ نقل از مدائنی )

(۲) سمط النجوم العوالی :۲ ۴۱۲۔

(۳) سورہ زمر (۳۹) آیت ۳۳۔

۲۷۱

عطاء کا بیان ہے کہ وہ سچائی لایا ''سے مراد محمد ہیں اور اس کے بعد سچائی کے انوار کی برکتوں سے یہ صدق وسچائی ابوبکر پر جلوہ گر ہوئی اور ان کالقب صدیق ہوگیا ۔(۱) یا یہ کہ خداوندعالم نے قرآن کریم میں ابوبکر کانام صدیق رکھا اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی( والذی جاء بالصدق و صدق به ) (۲)

٭ خود حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی زبانی حدیث گھڑی گئی کہ آپ نے خداکی قسم کھاکر فرمایا کہ ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل ہوا !(۳)

٭ اسی طرح حضرت علی پر ایک اور جھوٹ بولا گیا کہ آپ سے اصحاب رسول کے متعلق دریافت ہوا اورکہا گہا کہ ابوبکر بن قحافہ کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ انسان ہیں جن کے بارے میں خداوندعالم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور جبرائ یل کی زبان سے صدیق کہلوایا وہ رسول خدا کے خلیفہ ہیں ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تو ہم نے بھی ان کو اپنی دنیا کے لیے پسند کیا ۔(۴)

____________________

(۱) تفسیر السلمی :۲ ۱۹۹۔

(۲) سورہ زمر (۳۹) آیت ۳۳۔ الاحادیث المختار ہ :۳ ۱۲۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۴۳۸۔

(۳) تاریخ دمشق :۳۰ ۲۵۔ اسد الغابہ :۳ ۲۱۶۔

(۴) تاریخ الخلفا ء :۱ ۳۰۔ اعتقاد اہل سنت :۷ ۱۲۹۵۔ تہذیب الاسماء :۲ ۴۷۹۔ کنزالعمال :۳ ۱۰۱،حدیث ۳۶۶۹۸۔

۲۷۲

٭ بلکہ احادیث یہاں تک گھڑی گئیں کہ جن سے بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتوں کی بھی تائید ہونے لگی ، لہذا کہا گیا کہ امیر المؤمنین نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ جان لو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بہترین مرد ابوبکر صدیق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق اور ان کے بعد عثمان ذوالنورین اور ان کے بعد میں اور میرے بعد خلافت آپ لوگوں کے کاندھوں پر ہے جس کو چاہو خلیفہ بنالینا اور میری کوئی حجت آپ پر نہیں ہے ۔(۱)

٭ایک جھوٹی روایت حضرت علی علیہ السلام سے منسوب کی گئی کہ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل پیغمبراکرم کے پاس آئے ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا کہ کون میرے ساتھ ہجرت کرے گا ؟ جبرئیل نے کہا: ابوبکر کہ وہ وصدیق ہیں۔(۲)

٭ اور دوسری روایت رسول خد ا کی طرف منسوب کی گئی کہ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل میرے پاس آئے میںنے ان سے پوچھا کہ میرے ساتھ کون ہجرت کرے گا؟ تو جواب دیا کہ ابوبکر کہ وہ آپ کے بعد آپ کی امت کی سرپرستی فرمائیں گے اور وہ آپ کے بعد آپ کی امت میں بہترین فرد ہیں ۔(۳)

____________________

(۱) الریاض النضرہ :۱ ۳۸۱، حدیث ۲۶۰۔ الغدیر :۸ ۳۸۔

(۲) مستدرک حاکم :۳ ۵۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۷۳۔ کنزالعمال :۱۶ ۶۶۷، حدیث ۴۶۲۹۲۔ الکامل (ابن عدی) :۶ ۲۸۹۔

(۳) الفردوس بماثور الخطاب :۱ ۴۰۴، حدیث ۱۶۳۱۔ کنزالعمال :۱۱ ۵۵۱، حدیث ۳۲۵۸۹۔ (بہ نقل ازماخذ سابق )۔ الغدیر :۵ ۳۵۵۔ (بہ نقل از کنزالعمال)

۲۷۳

٭ حضرت علی علیہ السلام کی طرف ایک جھوٹی روایت کی نسبت دی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : روز قیامت منادی ندادے گا کہ'' این السابقون ''سب سے پہلے ایمان لانے والے اور نیک کام کرنے والے کہاں ہیں ؟ سوال ہوگا کون؟ تو منادی جواب دے گا ابوبکر کہاں ہیں ؟ اسی وجہ سے خداوندمتعال ابو بکر کے لیے خصوصی تجلی دکھائے گا اور تمام لوگوں کے لیے عام ۔(۱)

٭ حضر ت علی سے ایک مرفوع روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : انبیاء و رسل کے بعد سورج کسی پر بھی نہیں چمکا کہ جو ابوبکر سے افضل ہو ۔(۲)

٭ ایک اور روایت حضرت علی سے بطور مرفوع نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

اے ابوبکر خداوندعالم نے خلقت آدم سے لیکر روزقیامت تک اس شخص کا ثواب کہ جوخدا پر ایمان لایا مجھ کو عطا کیا اور جو شخص مجھ پر ایمان لایااس کا ثواب میری بعثت سے لیکر روز قیامت تک

____________________

(۱) رؤیة اللہ (دارقطنی):۱ ۷۰ ، حدیث ۵۷۔ الریاض النضرہ :۲ ۷۵۔ سمط النجوم العوالی :۲ ۴۴۳، حدیث ۷۴۔ تفسیر فخررازی :۱۲ ۲۱۔ اللآلی المصنوعة :۱ ۲۶۴۔

(یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ جو معنی میں ایک ہی ہے ) یہ انتہائی ضعیف ہے اس کے راوی کو جعل حدیث کی نسبت دی گئی ہے ۔ دیکھیے:ـ الکشف الحدیث :۱ ۱۸۵، حدیث ۲۲۷۔ المجروحین :۲ ۱۱۵۔ المغنی من الضعفاء : ۲ ۵۷۵و ۷۶۵ ۔ میزان الاعتدال :۵ ۱۴۸ و ۱۳۱۔ و جلد : ۷ ۳۱۱۔ الموضوعات :۱ ۲۲۵۔ اور دوسری کتابیں جو ضعفاء و مجروحین کے متعلق لکھی گئی ہیں ۔

(۲) الانساب (سمعانی ) :۲ ۵۱۔ تاریخ بغداد :۱۲ ۴۳۳۔ تاریخ دمشق :۲۰۸۳۰۔ کنزالعمال :۱۱ ۵۵۷، حدیث ۳۲۶۲۲۔(ان سب ماخذ نے ابو درداء سے نقل کیا ہے ) اور الغدیر :۷ ۱۱۲ میں یہ حدیث علامہ حرفیش سے کتاب الروض الفائق ۳۸۸ میں بطور مرفوع حضرت علی سے منقول ہے ۔

۲۷۴

آپ کو عطا کیا ۔(۱)

٭ ایک شخص نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خدا نے ہم میں سے کسی کو منصب امامت وامارت کے لیے منتخب نہیں فرمایا مگر یہ کہ ہم نے اپنی طرف سے جس کو پسند کیا اور منتخب کیا کہ اگر صحیح رہا تو خدا کی جانب سے ہے اوراگر صحیح نہ رہا اور خطا ء و نادرست رہا تو ہماری جانب سے ۔رسول خدا کے بعد ابوبکر خلیفہ ہوئے اور امارت کو قائم کیا اور مضبوطی سے چلایا پھر عمر خلیفہ ہوئے انہوں نے بھی خلافت کو قائم کیا اور استقلال و استحکام پیدا کیا یہاں تک کہ دین مضبوط اور پائدار ہوگیا اور آرام و سکون حاصل ہوا ۔(۲)

٭ یہ بھی جھوٹ نقل کیا ہے کہ ابوبکر نے حضرت علی سے کہا کہ کیا آپ کو معلو م تھا کہ میں آپ سے پہلے اس امر خلافت کا عہدہ دار ہوں آپ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا ہے اے خلیفہ رسول خدا ، پھر ابوبکر نے ہاتھ بڑھایا اور علی نے بیعت کی ۔(۳)

٭ اور حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ میں دنیا سے نہ گیا مگر یہ کہ خداوندعالم نے ہمیںبتا دیا کہ میرے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں۔

____________________

(۱) فضائل احمد :۱ ۴۳۴۔ الفردوس بماثورالخطاب :۵ ۳۰۶، حدیث ۸۲۷۰۔ الریاض النضرہ : ۲ ۱۲۱۔ سمط النجوم العوالی :۲ ۴۴۱، حدیث ۶۹۔ تاریخ بغداد :۵ ۱۰، ترجمہ ۲۳۰۹۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۱۱۸۔

(۲) السنة (عبداللہ بن احمد) :۲ ۵۶۶۔ علل دار قطنی :۴ ۸۷۔ الریاض النضرة :۲ ۱۹۸۔ اور دیکھیے :ـ مسند احمد:۱ ۱۱۴۔ السنة (عمرو بن ابی عاصمی ) ۵۶۱۔

(۳) الغدیر : ۸ ۴۰، حدیث ۶۰۔

۲۷۵

اوریہ بھی ہم پر واضح کردیا کہ کہ ابوبکر کے بعد افضل ترین فرد عمر ہیں ۔(۱)

٭بصورت مرفوع حضرت علی سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے علی یہ دو فراد ابوبکر و عمر ،اولین و آخرین میں سے انبیاء و رسل کے علاوہ ،جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں، اے علی یہ بات ان دونوں کو نہ بتانا لہذا میں نے بھی ان کو باخبر نہیں کیا یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔(۲)

ان روایات کو خود امیر المؤمنین ہی کی نسبت سے گھڑا گیا تاکہ آپ کے مطالبہ خلافت کو ناحق دکھایا جائے یا فراموش کردیا جائے اور اس پر پردہ ڈا ل دیا جائے ، آپ کے احتجاجات و اعتراضات کو چھپادیا جائے اور کوئی متوجہ نہ ہونے پائے کہ انہوں نے چھ مہینے یا بالکل ہی حاکمان وقت کی بیعت نہیں کی ۔

ان روایات کو وضع و جعل کرکے یہ کوشش کی گئی کہ سقیفہ کی چال بازیوں سے حسد و دشمنی کی علامتوں کو پاک و صاف کردیا جائے نیز یہ کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنازے کو چھوڑا ، اسامہ بن ز ید کے لشکر سے بھاگ کر واپس آئے اور ابوبکر نے خود ہی عمر کو خلیفہ بنایا ، عمر نے ایک پروپیگنڈہ کے ساتھ خلافت کو شوری کے حوالے کیا ، ان سب باتوں پر پردہ پڑ جائے ۔

____________________

(۱) السنة (عمرو بن ابی عاصمی ) ۵۵۵، حدیث ۱۳۰۰۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۳۷۵۔ سبل الھدی و الرشاد :۱۱ ۲۴۷۔

(۲) مسند احمد : ۱ ۸۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ۷ ۴۷۳۔ المعجم الاوسط : ۴ ۳۵۹۔ تاریخ بغداد : ۷ ۱۲۱۔ تاریخ دمشق :۳۰ ۱۶۶ـ۱۷۰۔ اسد الغابہ : ۴ ۶۳۔ الامامة والسیاسة :۱ ۱۰۔

۲۷۶

ان جھوٹی روایات کو گھڑنے کا مقصد یہ ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام کے شکوے اور آپ کے ایام خلافت کے درد بھرے خطبات و کلمات جیسے خطبہ شقشقیہ اور دوسرے وہ کلمات و فقرات کہ جن میں آپ نے خلفاء و حکام کی قلعی کھولی ہے، ان کو مبہم و مشتبہ کردیا جائے اور ان کو شک و شبہہ کی دھندلاہٹ میں ڈال دیا جائے ۔

ان جھوٹی و من گھڑت روایا ت سے بنی امیہ اپنے ملک اور نظام حکومت کو چلانے اور حق کو نابود کرنے میں کوشاں رہے ، ان کو جعلی روایات سے بہت سہا را ملا اور حق کو خوب پائمال کیا ، جتنا ہوسکتا تھا باطل کو ابھارا اورپروان چڑھایا ۔

ان میں سے بعض مطالب خندہ آور بھی ہیںاور غم انگیز بھی، نہیں معلوم کہ اس بات پر ہنسا جائے یا گریہ کیا جائے مثلا یہ کہ امیر المؤمنین کی شجاعت کو اندھیر ے میںڈال دیا گیا جب کہ آپ کی شجاعت ضرب المثل وزبان زد عام و خاص تھی اور تاریخ وسیر میں مفصل باب موجود ہیں جوآپ کی شجاعت و دلیری کے قصیدہ خواں ہیں اور مشہور و معروف ہے کہ آپ کے دست مبارک سے بڑے بڑے نامور پہلوان قتل ہوئے اور جو بھی آپ کے سامنے آیا بچ نہ سکا اور جو بھی بچ کے بھاگا تو اپنے آپ کو ننگا کرکے، اپنی شرمگاہ کو کھو ل کر جان بچائی ۔(۱)

____________________

(۱) تاریخ نے اس طرح کے تین حادثے ہمارے لیے نقل کئے ہیں :

سب سے پہلے طلحہ بن ابی طلحہ کہ جو جنگ احد میں مشرکوں کا علمبردار تھا جب حضرت علی کے مقابلے آیا تو ننگا ہوکر بھاگا۔اسی طرح جنگ صفین میں ایک مرتبہ بسر بن ارطاة پر حضرت علی نے حملہ کیا اور اس کو یقین ہوگیا کہ اب جان بچنے والی نہیں ہے تو کشف عورت کی، ننگا ہوگیا ، آپ نے منھ پھیر لیا اور وہ بھاگ گیا ۔۔ بقیہ اگلے صفحہ پر۔۔

۲۷۷

یہ چاہتے ہیں کہ ان سب پر پردہ ڈال دیا جائے اور مطلقاً شجاعت کی نسبت ابوبکر کی طرف دی جائے جب کہ ہم نے صدر اسلام سے آخر تک ایک شخص کے متعلق بھی نہیں سنا کہ اس کو ابوبکر نے قتل کیا ہو !۔

٭ خود حضرت علی سے ہی روایت نقل کی گئی کہ آپ نے خطبہ کے دوران لوگوں سے دریافت کیا کہ سب سے بہادر کون ہے ؟ توسب نے کہا : آپ ۔

آپ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ کہ میں نے کسی سے بھی جنگ نہیں کی مگر انتقام کی خاطر لہذا تم مجھے بتاؤ کہ بہادر و دلیر کون شخص ہے ؟ سب نے کہا کہ نہیں معلوم کون ہے ۔

آپ نے فرمایا :ابوبکر ہے ، جنگ بدر میں ہم نے رسول خدا کے لیے ایک سائبان و محافظ قرار دیا اور آپس میں کہا کہ کون رسول خدا کے ساتھ رہے گا اور آپ کی حفاظت کرے گا تاکہ کوئی مشرک آپ تک نہ پہنچ سکے ، خدا کی قسم کوئی بھی آگے نہ بڑھا سوائے ابوبکر کے کہ جو ننگی تلوار کے ساتھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب کھڑے رہے اور اگر کوئی مشرک پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آتا تو ابوبکر اس پر حملہ آور ہوتے اور اس کے شر سے رسول خدا کو امان میں رکھتے ۔پس وہ سب سے زیادہ شجاع و بہادر ہیں !

____________________

۔۔۔ پچھلے صفحہ کا بقیہ۔

پھر دوسری مرتبہ عمرو بن عاص نے یہی واقعہ دہرایا کہ جو تاریخ میں بہت مشہور ہوا کہ جس کے ذکر کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ السیرة الحلبیہ:۲ ۴۹۸۔ السیرة النبویہ (ابن کثیر) :۳ ۴۰۔ البدایہ والنہایہ:۴ ۲۳۔

(۱) مسند بزار :۲ ۱۵، حدیث ۷۶۱۔ السیرة النبویة (ابن کثیر) : ۲ ۴۱۰۔ فتح الباری :۷ ۱۲۹۔

۲۷۸

ان کے علاوہ دسیوں روایات ابوبکر کے بارے میں نقل کی گئی ہیں کہ جن میں سے بعض روایا ت خود امیر المؤمنین سے منسوب ہیں !۔

ان جھوٹی و من گھڑت روایا ت سے یہ چاہا گیا ہے کہ صدیقیت ، شجاعت ، اولویت و امارت اور خلافت کو ابوبکر کے لیے ثابت کریں ۔ اور یہ سب ان احادیث کے مقابل میں گھڑی گئیں کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کے بارے میں ارشاد فرمائی تھیں ۔

٭ کہتے ہیں کہ ابوبکر کو زمانۂ جاہلیت ہی میں صدیق کا لقب دیا گیا اور اس کے بعد محمد بن عبداللہ مبعوث بہ رسالت اور صادق و امین سے ملقب ہوئے۔!

٭ خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہ ی سے روایت نقل کی گئی کہ آپ نے ابوبکر سے فرمایا کہ اگر میں کسی کو دوست بناتا تو یقینا اپنا دوست و خلیل ابوبکر کو انتخاب کرتا ۔ یہ روایت گھڑی گئی چونکہ علی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درم یان برادری و عقد اخوت کہ جو شیعہ و سنی دونوں کے یہاں مسلم ہے اس کے مقابل میں پیش کی جاسکے ۔(۱)

کتنے تعجب کا مقام ہے کہ یہ روایت خلت (ابوبکر کو دوست بنانے والی روایت) صحیح ہوتی تو پھر کیوں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روز مواخات (ا یک دوسرے کو بھائی بنانے کے دن) ابوبکر کو اپنا بھائی نہ بنایا

____________________

(۱) صحیح بخاری :۱ ۱۱۹ـ ۱۲۰، کتاب الصلوة ،باب الخوخة و الممر فی المسجد۔ و جلد : ۴ ۱۹۰، کتاب بدء الخلق ، باب النبی سدوا الابواب الا باب ابی بکر ۔ صحیح مسلم : ۲ ۶۸، باب فضل بناء المسجد و الحث علیھا ۔ و جلد : ۷ ۱۰۸، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل ابی بکر۔ سنن ابن ماجہ :۱ ۳۶، حدیث ۹۳۔سنن ترمذی : ۵ ۲۷۰، حدیث ۳۷۴۰۔

۲۷۹

بلکہ ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایا ۔(۱)

کیا بھائی و عقد اخوت میں دوستی نہیں ہے یا دوستی اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز ہے ؟!۔

٭ انہیں گھڑی ہوئی روایات میں سے یہ بھی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اگر ابوبکر کو ترازو و میزان کے ایک کف و پلڑے میں رکھا جائے اور تمام امت کو دوسرے پلڑے میں تو ابوبکر کا پلڑا بھاری رہے گا ۔(۲)

یہ روایت اس حدیث کے مقابلے گھڑی گئی کہ جورسول خدا نے حضرت علی کے بارے میں فرمایا تھا : روز خندق علی کی ضربت عبادت ثقلین پر بھاری ہے ۔(۳)

____________________

(۱) مسند احمد :۵ ۲۵۹۔ مجمع الزوائد : ۹ ۵۸۔ المعجم الکبیر :۸ ۲۱۴۔ الموضوعات :۲ ۱۴۔ اللآلی المصنوعہ :۱ ۳۷۸۔(ابن جوزی و سیوطی کا بیان ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے ) دیکھیے اس روایت کے مصادر ، الغدیر :۷ ۲۸۵،باب ۱۴، ابوبکر فی کفة المیزان ۔

(۲) دیکھیے :ـ مستدرک حاکم :۳ ۳۲۔ تاریخ دمشق :۵ ۳۳۳۔ مناقب خوارزمی ۱۰۷، حدیث ۱۱۲۔ شواہد التنزیل :۲ ۱۴۔ الطرائف ۵۱۴۔

اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ یہ روایت جب بہلول کے سامنے پیش کی گئی تو بہلول نے فرمایا کہ اگر یہ روایت صحیح ہو تو ترازو خراب ہے ۔ دیکھیے الصوارم المھرقہ (قاضی نور اللہ شوشتری) ۳۲۹۔

(۳) اس روایت کے منابع پہلے بھی گذرچکے ہیں ، سیوطی نے اللآلی مصنوعہ میں بہت زیادہ صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور دیکھیے :ـ الغدیر :۳ ۱۲۷۔

۲۸۰