"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 48098
ڈاؤنلوڈ: 5555

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48098 / ڈاؤنلوڈ: 5555
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حزقیل مؤمن آل فرعون وہ کہ جس نے کہا (أ تقتلون رجلا )(۱) کیا ایسے شخص کو قتل کروگےاور علی بن ابی طالب ان میں تیسرے شخص ہیں کہ جو ان سب سے افضل ہیں ۔

سنن ابن ماجہ میں اپنی اسناد کے ساتھ عباد بن عبداللہ سے روایت نقل ہوئی کہ امیر المؤمنین نے فرمایا:''انا عبد الله و اخو رسوله و انا الصدیق الاکبر لا یقولها بعدی الا کذاب صلیت قبل الناس سبع سنین'' میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس کے رسول کا بھائی ہوں، میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد صدیق ہونے کا دعوی جو بھی کرے وہ کذاب ہے میں نے لوگوں سے سات سال پہلے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی ۔

مجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور اس کے رجال ثقہ ہیں اس روایت کو حاکم نے مستدرک میں منہال سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہے ۔(۲)

____________________

(۱) سورہ مؤمن (۴۰) آیت ۲۸۔

(۲) سنن ابن ماجہ :۱ ۴۴۔ مصباح الزجاجہ: ۱ ۲۲۔ السیرة النبویة (ابن کثیر ) :۱ ۴۳۱۔ مستدرک حاکم : ۳ ۱۱۱۔مصنف ابن ابی شیبہ:۷ ۴۹۸۔ الاحاد و المثانی (ضحاک) : ۱ ۱۴۸۔ السنة (ابن ابی عاصم) ۵۴۸۔ السنن الکبری (نسائی ) : ۵ ۱۰۶۔ خصائص امیر المؤمنین (نسائی) ۴۶۔ تاریخ طبری:۲ ۵۶۔ تہذیب الکمال : ۲۲ ۵۱۴۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) : ۱۳ ۲۰۰۔ اس میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین نے فرمایا :انا الصدیق الاکبر وانا الفاروق الاول اسلمت قبل اسلام ابی بکر و صلیت قبل صلاته بسبع سنین ۔میں صدیق اکبر اور فاروق اول ہوں ، ابوبکر سے پہلے اسلام لایا اور اس سے سات سال پہلے نماز پڑھی ۔

۴۱

معاذ ہ عدویہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے علی کو خطبہ دیتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : میںصدیق اکبرہوں ، ابو بکر کے ایمان لانے سے پہلے ایمان لایا اور اس کے اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام قبول کیا ۔(۱)

ابن حجر نے کتاب اصابہ میں اورابن اثیر نے اسد الغابہ میں ابی لیلی غفاری سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :سیکون من بعدی فتنة فاذا کان ذالک فالتزموا علی بن ابی طالب فانه اول من آمن بی و اول من یصافحنی یوم القیامة وهو الصدیق الاکبر و هو فاروق هذه الامة و هو یعسوب المؤمنین ۔(۲)

میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا اس وقت علی سے جدا نہ ہونا چونکہ علی وہ پہلے فرد ہیں کہ جو مجھ پرسب سے پہلے ایمان لائے اور روز قیامت مجھ سے سب سے پہلے مصافحہ کریں گے ، وہ صدیق اکبر ہیں اور اس امت میں فاروق و مؤمنوں کے بادشاہ ہیں ۔

تاریخ دمشق میں اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے کہا:

____________________

(۱) الاحاد والمثانی (ضحاک ) :۱ ۱۵۱۔ التاریخ الکبیر(بخاری) :۴ ۲۳۔ تاریخ دمشق :۴۲ ۳۳۔ المعارف (ابن قتیبہ ) ۷۳۔ انساب الاشراف ۱۴۶،شمارہ ۱۴۶۔ مناقب ابن شہر آشوب : ۱ ۲۸۱۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :۱۳ ۲۴۰۔ کنزالعمال : ۱۳ ۱۶۴، حدیث ۳۶۴۹۷۔ سمط النجوم العوالی :۲ ۴۷۶،حدیث ۸۔ اور کتب دیگر ۔

(۲) الاصابہ : ۷ ۲۹۳۔ اسد الغابہ : ۵ ۲۸۷۔ اور اسی کی طرح ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے دیکھیے :ـ الیقین (ابن طاؤس) :۱ ۵۰۰۔

۴۲

'' ستکون فتنة فمن ادرکها منکم فعلیه بخصلتین : کتاب الله و علی بن ابی طالب فانی سمعت رسول الله یقول: ـ وهو آخذ بید علی ـ هذ ا اول من آمن بی و اول من یصافحنی و هو فاروق هذه الامة یفرق بین الحق والباطل و یعسوب المؤمنین و المال یعسوب الظلمة (۱) وهو الصدیق الاکبر وهو بابی الذین اوتی منه ، وهو خلیفتی من بعدی'' ۔(۲)

____________________

(۱) یہ جملہ شیعہ اور اہل تسنن کی تمام حدیث کی معتبر کتابوں میں مذکورہے اگر چہ اہل تسنن نے اس کو جعلی فرض کیا ہے اور اس کی جگہ پر''المال یعسوب الفجار '' اور''المال یعسوب المنافقین '' بھی بعض کتب اہل تسنن میں رکھ کر کچھ چالاکی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔

یہ کلام ، امیرالمؤمنین کے بارے میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے اور خود آپ بھی کہ جب بصرہ کے بیت المال میں تشریف لائے اور اس میں درھم و دینار پر نظر پڑی تب فرمایا اور اس کے علاوہ دوسرے مقام پر بھی یہ کلمات زبان پر لائے ۔

اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ مؤمنین کے دل آپ کے شیدا اور عاشق ہیں اور آپ ہی کو اپنا مولا و امیر مانتے ہیں اور آپ ہی سے متمسک ہیں ۔لیکن ظالم ، فاسق و منافق اور انہیں کے طرف دار و ماننے والے اور تمام وہ افراد کہ جو حق و عدل کو برداشت نہیں کرسکتے ،دنیا پرست ہیں مال کے دلدادہ ہیں اور دنیاوی ساز وسامان پر مرتے ہیں ، مال اور دنیا ان کے دلوں پر حکومت کیے ہوئے ہیں ، اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ہر کام کرگذر تے ہیں اور ہر برے فعل کے مرتکب ہوجاتے ہیں اور گندگی میں گرجاتے ہیں دنیا کو اختیار کرنے کی خاطر جو کام بھی ہو چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ، کتنا ہی خلاف شرع و شریعت کیوں نہ ہو، چاہے دین ہی سے ہاتھ دھونا پڑے یا دوسروں کی حق تلفی ہو، انجام دے دیتے ہیں ۔ ۔۔۔ بقیہ اگلے صفحہ پر ۔۔۔

۴۳

عنقریب فتنہ برپا ہوگا جو بھی اس وقت موجود ہو اس کو چاہیے کہ دو خصلتوں کو مضبوطی کے ساتھ اپنالے ، ایک کتاب خدا اور دوسرے علی بن ابی طالب چونکہ میں نے رسول خدا کو فرماتے سنا ہے کہ جبکہ آپ نے علی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور فرمارہے تھے کہ یہ پہلا شخص ہے کہ جو مجھ پر ایمان لایا اور سب سے پہلے روز قیامت مجھ سے مصافحہ کرے گا ،یہ اس امت کا فاروق ہے کہ جو حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے ، یہ مؤمنین کا حاکم ہے اور مال ظالموں پر حاکم ہے ، یہ صدیق اکبر ہے ، مجھ تک پہنچنے کا دروازہ ہے اور میرے بعد میرا خلیفہ ہے ۔

ابی سخیلہ کا بیان ہے کہ میں نے اور سلمان فارسی نے حج انجام دیا اور اس کے بعد ابوذر کے پاس پہنچے ، خدا کی مصلحت، ایک مدت تک ان کے مہمان رہے اور جب ہمارے چلنے کا وقت ہوا میں نے ابوذر سے سوال کیا:

____________________

۔۔۔ پچھلے صفحہ کا بقیہ۔

اس طرح کے لوگوں کی رہبری ، ظلمہ یعنی وہ لوگ کہ جن کے اندر ونی حالات بہت گندیدہ ہیں، کرتے ہیں ، ظاہر ہے کہ وہ لوگ اپنے اوپر اور دین و سماج پر ظلم کرتے ہیں،مال بہت سے فتنوں اور حوادث کے وجود کا سبب بنتا ہے کہ جوانتہائی دردناک و غم انگیز ہوتے ہیں ،وہ لوگ مال کے پیرو کار ہیں اور مال کو جہاں بھی جس کے ہاتھ میں بھی دیکھتے ہیں اس کی اطاعت شروع کردیتے ہیں اسی کی راہ کو اپنا لیتے ہیں اور کسی دوسری چیز کو نہیں سوچتے یا دوسری تمام چیزوںکو بھول جاتے ہیں ۔

(۲) تاریخ دمشق: ۴۲ ۴۲ـ۴۳۔ اور اسی طرح کاکلام ابوذر سے بھی نقل ہوا ہے ۔

دیکھیے:ـ تاریخ دمشق :۴۲ ۴۱۔

۴۴

اے ابوذر کچھ حادثات واقع ہوئے ہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں لوگوں میں اختلاف نہ ہو جائے ، اگر ایسا ہو تو ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے تو ابوذر نے کہا خداوندعالم کی کتاب اور علی بن ابی طالب کا دامن پکڑلو اور گواہ رہنا میں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : علی سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور روز قیامت سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے وہ صدیق اکبر ہیں اور وہ فاروق ہیں کہ جوحق و باطل کے درمیان جدائی کرتے ہیں ۔(۱)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مرو ی ہے کہ آپ نے جناب امیر سے فرمایا :اوتیت ثلاثاً لم یوتهن احد ولا انا اوتیت صهراً مثلی ، ولم اوت انا مثلی ،(۲) و اوتیت زوجة صدیقة مثل ابنتی و لم اوت مثلها زوجة و اوتیت الحسن و الحسین من صلبک و لم اوت من صلبی مثلها و لکنکم منی وانامنکم'' (۳) آپ کو ت ین ایسی چیزیں ملی ہیں جو کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئیں حتی مجھے بھی نہیں ملیں ،خسر میری طرح، جبکہ مجھے بھی اپنی طرح خسر نہیں ملا ، صدیقہ بیوی ، میری بیٹی کی طرح جب کہ مجھے اس طرح کی کوئی بیوی نہ مل سکی اور آپ کی صلب سے حسن و حسین جیسے بیٹے عطا ہوئے، جب کہ مجھے ان کی طرح بیٹے نہ مل سکے ،لیکن آپ سب مجھ سے ہو اور میں آپ سے ہوں ۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق : ۴۱ ۴۲۔ المعجم الکبیر : ۶ ۲۶۹۔ مجمع الزوائد (ہیثمی ) : ۹ ۱۰۲۔

(۲) درالغدیر :۲ ۴۴۰(چاپ اول تحقیق شدہ مرکز الغدیر ۱۴۱۶ھ) اس میں نیچے کے حاشیہ میں مذکورہے کہ الریاض النضرہ : ۳ ۵۲ میں بجائے مثلی ، مثلک آیا ہے۔

(۳) الریاض النضرہ :۲ ۲۰۲۔ اسی طرح الغدیر :۲ ۳۱۲ میں مذکورہے۔

۴۵

اس حدیث سے واضح ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ ہیں چونکہ اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ خدیجہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نص کے مطابق صدیقہ ہیں بلکہ جبکہ اس حدیث میں حضرت فاطمہ زہرا کا مقام والا بیان ہوا ہے کہ جو اس مطلب پر دلیل ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا جناب خدیجہ سے افضل ہیں ، حضرت کا یہ فرمان کہ ولم اوت مثلھا زوجة مجھ کو فاطمہ کی طرح بیوی نہیں ملی۔

اس پوری گفتگو سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صدیقہ کا صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ چند مراتب ہیں جیسے کہ جناب خدیجہ صدیقہ ہیں ان کا مرتبہ الگ ہے اور حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ ہیں جبکہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔

ایک طولانی حدیث میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرما یا :'' یا علی انی قد اوصیت فاطمة ابنتی باشیاء و امرتها ان تلقیها الیک فانفذ ها فهی الصادقة الصدیقة ثم ضمها الیه و قبل رأسها و قال فداک ابوک یا فاطمة ۔(۱)

اے علی میں نے اپنی بیٹی فاطمہ کو چند چیزوں کی وصیت کی اور ان کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بتائیں پس ان کو انجام دینا چونکہ وہ صادقہ (سچی)اور صدیقہ(بہت زیادہ سچی) ہیں پھر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت فاطمہ کو اپنے سینے سے لگایا اور آپ کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا اے فاطمہ آپ کا باپ آپ پر فدا و قربان ہو۔

مفضل بن عمر سے روایت ہے کہ اس نے کہا میں نے حضرت امام جعفر صادق سے عرض کی کہ حضرت فاطمہ کو کس نے غسل دیا؟ آپ نے فرمایا: امیرالمومنین نے۔

____________________

(۱) کتاب الوصیة (عیسی بن مستفاد) ۱۲۰۔ بحار الانوار : ۲ ۴۹۱۔

۴۶

یہ کلام مجھ پر گراں گذرا آپ نے فرمایا : میں نے جو کچھ تم کو خبر دی ہے یہ تم پر گراں گذری ہے ! میںنے عرض کی جی ایسا ہی ہے میں آپ پر قربان ہوجاں، تب مولا نے فرمایا:لا تضیقن فانها صدیقة لم یکن یغسلها الا الصدیق اماعلمت ان مریم لم یغسلها الا عیسی (۱) ۔

اپنے اوپر احساس نہ لیں ، فاطمہ صدیقہ ہیں اور ان کو صدیق کے علاوہ کوئی غیر غسل نہیں دے سکتا تھا ، کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جناب مریم کو حضرت عیسی کے علاوہ کسی نے غسل نہیں دیا ۔

جناب علی بن جعفر اپنے بھائی امام موسی کاظم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ان فاطمة صدیقة شھیدة(۲) ب یشک فاطمہ صدیقہ شہیدہ ہیں ۔

پس صدیقہ کبری جناب خدیجہ ، صادق امین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبداللہ سے صد یقہ طاہرہ فاطمہ زہرا دنیا میں آئیں اور آپ کی شادی صدیق اکبر علی بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی اور دونوں ، انوار کا مرکز اور دو دریا کے ملاپ یعنی مجمع البحرین ہوگئے ۔

اس سے پہلے حضرت امیرالمؤمنین علی اور جناب خدیجہ کبری نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق فرمائی اس زمانے میں کہ لوگ آپ کو جھٹلارہے تھے ۔ اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہا عایشہ کو کہ جب وہ جناب خدیجہ سے رشک و حسد کرتیں تو اس بات کی تاکید فرمائی ۔

____________________

(۱) اصول کافی :۱ ۴۵۹، حدیث ۲۴ و ج: ۳ ۱۵۹،حدیث ۱۳۔علل الشرائع ۱۸۴، حدیث۱۔ التھذیب:۱ ۴۴۰، حدیث ۱۴۲۴۔ الاستبصار:۱ ۱۹۹، حدیث ۱۵۷۰۳۔

(۲) اصول کافی : ۱ ۴۵۸، حدیث ۱۲۔ مرأ ة العقول : ۵ ۳۱۵۔ اس ماخذ میں جناب علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کلمہ صدیقہ سے آپ کی عصمت بھی ثابت ہوتی ہے ۔

۴۷

عایشہ نے کہا کہ آپ کس قدر قریش کی ایک بوڑھی کا تذکرہ کرتے ہیں جبکہ ان کے منھ میں دانت بھی نہ تھے بلکہ صرف دو سرخ مسوڑے رہ گئے تھے حالانکہ آپ کو خداوندعالم نے ان سے بہتر بیویاں عطا کی ہیں ۔(۱)

اس وقت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چہرہ اس قدر متغیر ہوا کہ کبھی ان کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا مگر سوائے وحی کے وقت یا بجلی کے کڑکتے اور گرجتے وقت کہ جب وہ محسوس کرتے کہ وہ رحمت یا عذاب الہٰی ہے ۔(۲) پھر فرما یا : یہ بات نہ کہو ، چونکہ خدیجہ نے میری اس وقت تصدیق کی کہ جب لوگ مجھ کو جھٹلارہے تھے ۔(۳)

خداوندعالم کے اس کلام( والذی جاء بالصدق و صدق به ) (۴) (وہ کہ جو صدق لا یا اور اس کے ذریعہ سے تصدیق کی ) کی تفسیر میں صحابہ اور تابعین سے روایت ہے کہ( والذی جاء بالصدق ) سے مراد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہ یں اور ( و صدق بہ) (کہ جس نے تصدیق کی ) سے

____________________

(۱) صحیح بخاری : ۴ ۲۳۱، کتاب بدء الخلق ، باب تزویج النبی خدیجہ و فضلھا ۔ صحیح مسلم :۷ ۱۳۴۔ مستدرک حاکم:۴ ۲۸۶۔ مسند بن راہویہ : ۲ ۵۸۷۔ صحیح بن حبان : ۱۵ ۴۶۸۔ سیر اعلام النبلاء : ۲ ۱۱۷۔

(۲) مسند احمد بن حنبل : ۶ ۱۵۰ و ۱۵۴۔ البدایة و النھایة : ۳ ۱۵۸۔

(۳) المعجم الکبیر : ۱۲ ۳۲۔ الافصاح (مفید ) ۲۱۷۔ التعجب (کراجکی) ۳۷۔

(۴) سورہ زمر(۳۹) آیت ۳۳۔

۴۸

حضرت علی بن ابی طالب مراد ہیں ۔(۱)

خداوندعالم کے اس کلام کے بارے میں کہ( فمن اظلم ممن کذب علی الله و کذب بالصدق اذجائه ) (۲) اس شخص سے ز یادہ ظالم کون ہے کہ جس نے خداوندعالم پر جھوٹ بولا اور جب سچائی اس کی طرف آئی تو اس کو جھٹلایا ۔

امیر المؤمنین نے فرمایا :'' الصدق ولایتنا اهل البیت'' (۳) صدق سے مراد ہم اہل ب یت کی ولایت ہے ۔

صاحبان اقتدار و حکومت اور ان کے پیرو کار ان القاب کو حضرت فاطمہ زہرا ، جناب خدیجہ اور حضرت علی کے لیے برداشت نہ کرسکے ۔ لہذا اس حقیقت کی تحریف میں لگ گئے اور اپنی سعی ناکام سے ابو بکر کو صدیق کا لقب دیا اور عایشہ کو صدیقہ کہا ۔

____________________

(۱) یہ معنی ابن عباس سے نقل ہواہے ۔ دیکھیے : شواہد التنزیل : ۲ ۱۸۰، آیت ۱۴۰، حدیث ۸۱۳ و ۸۱۴۔ اور ابو ہریرہ سے منقول ہے جیسا کہ الدر المنثور : ۵ ۳۲۸ میں مذکورہے ۔ اور ابو طفیل سے نقل ہے جیسا کہ شواہد التنزیل میں موجود ہے :۱۸۱۲، آیت ۱۴۰، حدیث ۸۱۵ ۔ ابو الاسود سے جیسا کہ البحر المحیط : ۷ ۴۱۱ میں آیا ہے اور مجاہد سے مندرجہ ذیل منابع میں ہے :

البحر المحیط : ۷ ۴۱۱ ۔تفسیر قرطبی :۱۵ ۲۵۶۔ شواہد التنزیل : ۲ ۱۸۰، آیت ۱۴۰، حدیث ۸۱۰ و ۸۱۲۔ مناقب امام علی (ابن مغازلی) ۲۶۹، حدیث ۲۱۷۔ تاریخ دمشق : ۴۲ ۳۵۹ـ ۳۶۰۔

(۲) سورہ زمر(۳۹) آیت ۳۲۔

(۳) امالی (طوسی) ۳۶۴، مجلس ۱۳، حدیث ۱۷۔ مناقب ابن شہر آشوب :۲ ۲۸۸۔ بحار الانوار :۸ ۲۸۸۔

۴۹

نیز خداوندعالم کے اس فرمان (کونوا مع الصادقین )(۱) (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) کی تفسیر یہ کی کہ ابوبکر و عمر کے ساتھ ہوجاؤ۔(۲)

اور وہ روایات کہ جو صراحتا امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے لقب صدیق ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان کی یا تضعیف کی یا اصلاً عمداً قبول ہی نہیں کیا ۔(۳)

ہم اس سلسلے میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ابو بکر اور عایشہ کی زندگی و سیرت میں اس طرح کی صلاحیت و لیاقت اور ملاکات و معیار پائے جاتے ہیں کہ ان کو صدیق اور صدیقہ کہا جائے یا یہ لقب زبردستی ان کو دیے گئے ہیں ؟۔

____________________

(۱) سورہ توبہ (۹) آیت ۱۱۹۔

(۲) تفسیر طبری : ۱۱ ۸۴۔ زاد المسیر (ابن جوزی) : ۳ ۳۴۹۔ تفسیر قرطبی : ۸ ۲۸۸۔ الدر المنثور : ۳ ۲۸۹۔ فتح القدیر : ۲ ۴۱۴۔ تاریخ دمشق : ۳۰ ۳۱۰ و ۳۳۷ و ج : ۴۲ ۳۶۱۔

(۳) دیکھیے : ضعفاء العقیلی : ۲ ۱۳۰ و ۱۳۷۔ الکامل (ابن عدی) :۳ ۲۷۴۔ الموضوعات (ابن جوزی) :۱ ۳۴۔

۵۰

یہ لوگ عمر کی پیروی کرتے ہوئے اس خبر کو ضعیف مانتے ہیں کہ عمر نے حضرت امیر المؤمنین علی کو بیعت نہ کرنے کی صورت میں دھمکی دی تب امام علی نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کے بندے اور اس کے رسول کے بھائی کو قتل کروگے ؟ عمر نے کہا : آپ خداکے بندے تو صحیح لیکن رسول کے بھائی نہیں !۔

عایشہ ا ور صدیقیت

صدیق ،اگر پیغمبر یا وصی پیغمبر نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام وجود سے رسالت کی تصدیق کرے اور اس پر یقین رکھے ، آسمانی رسالت پر دل سے ایمان لائے اور عقیدہ رکھے نہ یہ کہ رسالت میں شک کرے جیسا کہ عایشہ کے کلام میں مذکور ہے جب کہ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عدالت میں مشکوک ہوئیں اور کہا کہ کیا آپ کو یہ گمان نہیں ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اس وقت عایشہ کے باپ ابوبکر نے ان کے منھ پر طمانچہ مارا۔(۱)

اور پھر دوسرے مقام پرعایشہ نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : خدا سے ڈرو حق کے علاوہ کچھ اور نہ کہو ۔

ابو بکر نے یہ سن کر ان کے اوپر ہاتھ اٹھایا اور عایشہ کی ناک مروڑ دی اور کہا: اے ام رومان (عایشہ کی ماں) کی بیٹی تو بغیر ماں کے ہوجائے تو اور تیرا باپ حق بولتے ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق نہیں بولتے ۔(۲)

____________________

(۱) مسند ابی یعلی : ۱۳۰۸ حدیث ۴۶۷۰۔ مجمع الزوائد : ۴ ۳۲۲۔ المطالب العالیہ (ابن حجر) : ۱۸۸۸، باب کید النساء حدیث ۱۵۹۹۔

(۲) سبل الھدی و الرشاد : ۱۱ ۱۷۳۔( ابن عساکر نے اپنے اسناد سے عایشہ سے نقل کیا ہے ) اور دیکھیے ، عین العبرہ ۴۵۔ الطرائف ۴۹۲۔ بہ نقل از احیاء العلوم (غزالی ) : ۲ ۴۳۔

۵۱

صدیقہ وہ عورت ہے کہ جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو حتی کہ اپنی سوتن کے ساتھ بھی ،اور یہ بات جیسا کہ الاستیعاب (ابن عبدالبر) اور الاصابہ(ابن حجر) میں مذکورہے ، عایشہ کے کردار سے سازگار نہیں ہے ۔ ان دونوں کتابوں میں موجود ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسماء بنت نعمان سے شادی کی ، عایشہ نے حفصہ سے یا حفصہ نے عایشہ سے کہا :اس کے مہندی لگاؤ اور میں اس کو سنوارتی ہوں ۔

دونوں نے اپنے اپنے کام انجام دیے اور پھر کسی ایک نے اسماء سے کہا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ جب وہ تشریف لائیں تو ان سے کہا جائے (اعوذ باللہ منک ) میں آپ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔

پس جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسماء کے پاس پہنچے،پردہ کو اٹھا یا ہاتھوں کو اس کی طرف بڑھایا اسماء نے کہا (اعوذ بالله منک )پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی صورت کو اپنی آستینوں سے چھپا لیا اور پردہ کو گرا دیا پھر تین مرتبہ فرمایا : خدا کی پناہ میں ہو ، اور پھر اس کو اس کے گھر والوں کے پاس واپس کردیا ۔(۱)

کیا اس طرح کے کارنامے عایشہ کو صادقین کے زمرے سے دور نہیں کرتے کہ جومیاں بیوی کے درمیان جدائی کا سبب بنیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ مسلمان کیسے عایشہ کو صدیقہ مانتے ہیں جب کہ ان کو معلوم ہے کہ سورہ تحریم ان ہی کی شأن میں نازل ہوا ہے ، وہ ایسی عورت ہیں کہ جنہوںنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مجبور ک یا کہ آپ اپنے اوپر حلال الہٰی کو حرام کریں!؟۔

____________________

(۱) الاستیعاب : ۴ ۱۷۸۵، شمارہ زندگینامہ ۳۲۳۲۔ الاصابہ: ۸ ۲۰ ، شمارہ زندگینامہ ۱۰۸۱۵۔ مستدرک حاکم : ۴ ۳۶۔ الطبقات : ۸ ۱۴۵۔ المحبر ۹۵۔ المنتخب من ذیل المذیل ۱۰۶۔

۵۲

کس طرح عایشہ جیسی عورت ، صدیقہ ہوسکتی ہیں کہ جو حفصہ کے ساتھ مل کر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف سازشیں کریں یہاں تک کہ ان کی شأ ن میں خدا وندعالم کی جانب سے یہ آیات نازل ہوں۔

( اذا اسر النبی الی بعض ازواجه حدیثا فلما نبأت به و اظهر ه الله علیه عرف بعضه و اعرض عن بعض فلما نبأ ها به قالت من انبأک هٰذا قال نبأنی العلیم الخبیر٭ ان تتوبا الی الله فقد صغت قلوبکما و ان تظاهرا علیه فان الله هو مولاه و جبریل و صالح المؤمنین و الملائکة بعد ذالک ظهیرا ) (۱)

اور جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے بات چھپا کر کہی پھر جب اس بیوی نے راز کی خبر کردی اور اللہ تعالی نے اسے رسول پر ظاہر کردیا تو اس نے اس کا کچھ حصہ جتلا دیا اور کچھ حصے سے کنارہ کشی کی ، پس جب اس نے یہ بات اس بیوی کو بتلائی وہ کہنے لگی آپ کو یہ خبر کس نے دی ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مجھ کو بہت جاننے والے، پوری پوری خبر رکھنے والے نے خبر دی۔ اگر تم دونوں (نبی کی بیویاں) اللہ کے حضور میں توبہ کرلو تو فبھا پس تم دونوں کے دل یقینا منحرف ہوگئے ہیں اور اگر دونوں اس نبی کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتی رہیں تو یقینا خداوندعالم اس کاسرپرست ہے اور جبریل و صالح المؤمنین بھی اور اس کے بعد کل فرشتے اس کے پشت پناہ ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ تحریم (۶۶) آیت ۳ و۴۔

۵۳

ابن عباس نے عمر بن خطاب سے سوال کیا کہ وہ دو عورتیں جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف متحد ہوئیں وہ کون ہیں ؟ ابھی ابن عباس کا کلام تما م نہ ہوا تھا کہ عمر نے جواب دیا : عایشہ و حفصہ۔(۱)

یہی طعنہ عثمان نے عایشہ کو دیا جب کہ عثمان نے اس مال کو دینے میں تاخیر کی کہ جو ہمیشہ عایشہ کو دیا کرتے تھے ، عایشہ کو غصہ آیا اور کہا :

اے عثمان امانت کو کھاگئے اور رعیت کو ختم کردیا ، اپنے خاندان کے برے لوگوں کومسلمانوں پر مسلط کردیا ، خدا کی قسم اگر نماز پنجگانہ کی ادائگی نہ ہو تی تو جان بوجھ کر تیری طرف کچھ لوگ آتے جو تجھے اونٹ کے ذبیحہ کی طرح قتل کرڈالتے ۔

عثمان نے کہا :( ضرب الله مثلا للذین کفروا امرأ ة نوح و امرأة نوط ) (۲)

خداوندعالم نے ان کے لیے کہ جنہوں نے کفر کیا نوح کی بیوی اورلوط کی بیوی کی مثال بیان کی ہے ۔

____________________

(۱) تفسیر طبری :۲۸ ۲۰۲، حدیث ۲۶۶۷۸۔صحیح بخار ی :۶ ۶۹، تفسیر سورہ تحریم باب ۳و۴ ۔ و جلد : ۷ ۴۶، کتاب اللباس ،باب ما کان یتجوز رسول اللہ من اللباس و الزینة(وہ لباس اور زینت کہ جس کی رسول خدا نے اجاز ت دی )۔ صحیح مسلم : ۴ ۱۹۰ـ ۱۹۲، کتاب الطلاق ،باب فی الایلاء و اعتزال النساء ۔ مسنداحمد : ۱ ۴۸۔

(۲) سورہ تحریم (۶۶) آیت ۱۰۔ دیکھیے :ـ المحصل (رازی ) : ۴ ۳۴۳۔ الفتوح :۲ ۴۲۱۔

۵۴

ان صفات کے باوجود کس طرح عایشہ کو صدیقہ کہا جاسکتا ہے جبکہ وہ دوسروں کو برے برے القاب سے نوازتیں(۱) اور ایمان دار عورتوں کی غیبت کرتی تھیں۔(۲)

اس آیت کے سلسلے میں کہ( یا ایها الذین آمنوا لایسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرا منهم ولا نساء من نساء عسیٰ ان یکن خیرا منهن ) (۳) اے ا یمان لانے والو آپ ایک قوم،کسی دوسری قوم کا مذاق و مسخرہ نہ بناؤ ممکن ہے کہ وہ لوگ آپ سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کہ ممکن ہے کہ وہ عورتیں آپ سے بہتر ہوں ۔

طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ یہ آیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی بعض ازواج کی شأن میں نازل ہوئی ہے کہ وہ ام سلمہ کامذاق اڑاتی تھیں ۔

انس و ابن عباس نے روایت ہے کہ ام سلمہ نے ایک سوتی کپڑا اپنی کمر سے باندھ رکھا تھا اور اس کے دونوں حصے و سرے لٹکے ہوئے جارہے تھے ، عایشہ نے اس کو دیکھ کر حفصہ سے کہا کہ دیکھو یہ کیسے پیچھے لٹکتا جارہا ہے گویا جیسے کتے کی زبان ہو۔(۴)

____________________

(۱) خداوندعالم کا ارشاد ہے (ولا تنابزو بالالقاب )(سورہ حجرات (۴۹) آیت ۱۱) ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کرو ۔

(۲) خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے (ولایغتب بعضکم بعضا )(سورہ حجرات (۴۹) آیت ۱۲) ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔

(۳) سورہ حجرات (۴۹) آیت ۱۱۔

(۴) مجمع البیان : ۹ ۲۲۴۔ تفسیر قرطبی : ۱۶ ۳۲۶۔ زاد المسیر :۷ ۱۸۲۔ تفسیر بحر المحیط : ۸ ۱۱۲۔

۵۵

کہتے ہیں کہ عایشہ نے ام سلمہ کو پستہ قد ہونے کا طعنہ دیا تھا اور ان کی طرف اشارہ کرکے کہاتھا کہ وہ گانٹھی ہے۔

کیا معقول ہے کہ کسی صدیقہ کے یہاں طرح طرح کی نامناسب اور حسد جیسی بری عادتیں پائی جائیں ؟!۔

سنن ترمذی میں عایشہ سے منقول ہے کہ آپ نے کہا میں نے خدیجہ سے زیادہ کسی سے حسد نہیں کیا اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے شاد ی ان کے انتقال کے بعد کی ، خداوندعالم نے ان کو جنت میں مروارید سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دی کہ جس میں نہ شورو شرابہ ہے نہ رنج و غم۔(۱)

کیوں( یحسدون الناس علی ما اتاهم من فضله ) (۲) لوگ حسد کرتے ہ یں اس چیز پر کہ جو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے دی ہے ۔ اگر عایشہ واقعا صدیقہ ہوتیں تو کیا یہ ممکن تھا کہ رسول خدا ان کو دوسری غیر عورتوں کی طرح شمار کرتے اور ان کے بارے میں فرماتے (ان کن صویحبات یوسف )(۳) آپ عاشقان یوسف کی طرح ہو ۔

____________________

(۱) سنن ترمذی :۵ ۶۶، حدیث ۳۹۷۹، (فضل خدیجہ)۔

(۲) سورہ نسائ(۵) آیت ۵۴۔

(۳) احیاء علوم الدین : ۴ ۴۷المسترشدین فی الامامة ۱۴۱ اور صحیح بخاری :۱ ۱۶۵، کتاب الاذان ، باب اهل العلم و الفضل احق بالامامة و صحیح مسلم :۲ ۲۵ کتاب الصلوة ،باب تقد م الجماعة من یصلی بهم و سنن دارمی : ۱ ۳۹،باب وفات النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،میں صواحب یوسف مذکور ہے ۔

۵۶

یہ آیت بھی آپ ہی کی شأن میں نازل ہوئی( ترجی من تشاء منهن و تؤی الیک من تشاء ومن ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک ) (۱) جس بیوی کے نمبر کو چاہو دیر میں رکھو اور جس کو چاہو اپنے پاس رکھو آپ کے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ جس کو چھوڑ دیا ہے اس کو پھر بلالو۔

عایشہ جیسی عورت کس طرح صدیقہ ہوسکتی ہے کہ جو خداوندعالم کی جانب سے نازل ہونے والی آیت پر اعتراض کرے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہے کہ واللہ م یں نے آپ کے پروردگار کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ آپ کی خواہشات نفس کے مطابق جلدبازی کرتا ہے۔(۲)

کیا یہ کلام صحیح ہے کہ رسول خدا اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے تھے ؟!۔

یا خداوندعالم آپ کی خواہشا ت نفسانی کی خاطر جلدبازی کرے؟ کیا یہ عایشہ کا کلام رسول خدا کی توہین اور رسالت کو ہیچ سمجھنا اور خداوندعالم کی حقارت و اہانت نہیں ہے ؟۔

کیا یہی سب کچھ ایک صدیقہ کے عرفان و معرفت سے امید کی جاسکتی ہے ؟۔

کیا رسول خدا کا پروردگار عایشہ کے پروردگار سے جدا ہے کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ میں نے آپ کے پروردگار کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ آپ کی خواہشات نفس کے مطابق جلدبازی کرتا ہے۔

____________________

(۱) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۵۱۔

(۲) صحیح مسلم :۵ ۱۷۴، کتاب الرضاع ،باب جواز ھبتھا بوبتھا لضرتھا ۔ صحیح بخاری :۲۴۶، کتاب التفسیر،سورہ احزاب۔ و جلد:۱۲۸۶،کتاب النکاح،باب ھل للمرأةان تھب نفسھا۔ تفسیر طبری:۳۳۲۲۔ تفسیر ابن کثیر:۵۰۸۳۔

۵۷

کیا صدیقہ پر خواہشات نفسانی کا اثر ہوتا ہے ؟ اور کیا غیرت نسوانی اس کو ابھارتی ہے کہ وہ حق کو چھپائے اور جھوٹی خبر دے ؟!۔

ایک مرتبہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عا یشہ کو ایک عورت کو دیکھنے کے لیے بھیجا کہ جس سے آپ شادی کرنا چاہتے تھے ، عایشہ گئیں اور پھر واپس آئیں ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوال کیا : اس عورت کو کیسا پایا ؟

عایشہ نے جواب دیا : وہ کوئی اچھی عورت نہیں ہے ۔

پیغمبر نے فرمایا : تونے اس کے رخسار پر تل دیکھا کہ جس سے تیرا سر چکراگیا ۔ عایشہ نے کہا: آپ سے کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے آپ سے کون چھپا سکتا ہے ۔(۱)

یہ ہے عایشہ کی سیرت کا خلاصہ کہ جو اہل سنت کے نزدیک صدیقہ کہلاتی ہیں ۔میری نظر میں عایشہ کی شخصیت کے تعارف کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ۔

اور ظاہرا عایشہ کا جناب فاطمہ زہرا اور جناب خدیجہ سے مقایسہ و مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی مندرجہ ذیل روایت سے عایشہ اور حضرت فاطمہ زہرا و جناب خدیجہ کے درمیان فرق بالکل واضح ہوجاتاہے ۔

تاریخ دمشق میں مذکور ہے کہ عایشہ نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو د یکھا کہ آپ حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے بچوں کے لیے گوشت کی بوٹیاں چھوٹی چھوٹی کررہے ہیں عایشہ نے کہا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ حمراء (جناب خد یجہ ) کی بیٹی کے لیے کہ جو وحشی ترین عورت تھی یہ کام کررہے ہو؟

____________________

(۱) تاریخ بغدار : ۱ ۲۱۷، تاریخ دمشق :۵۱ ۳۶۔ ذکر اخبار اصبھان :۲ ۱۸۸۔ کنزالعمال :۱۲ ۴۱۸، حدیث ۳۵۴۹، اور دیکھیے طبقات ابن سعد : ۸ ۱۶۱۔ سبل الھدی و الرشاد:۱۱ ۲۳۵۔

۵۸

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غصہ میں آگئے اور عایشہ کو چھوڑدیا، اس سے ترک تعلق کرلیا اور کلام کرنا بند کردیا ، ام رمان (عایشہ کی ماں) نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو کی اور کہا اے رسول خدا عایشہ چھوٹی بچی ہے اس کو تنبیہ نہ کریں ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تم کو معلوم ہے کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ ایسا ویسا خدیجہ کے بارے میں کہا ہے ، حالانکہ میری امت کی عورتوں میں خدیجہ کو سب پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے۔جیسا کہ جناب مریم پوری دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں۔(۱)

سنن ترمذی میں عایشہ سے منقول ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی بیویوں میں سے میں نے کسی سے بھی اتنا حسد اور رشک نہیں کیا جتنا خدیجہ سے کیا کاش کہ میں ان کا مقام پاتی اور یہ حسد صرف اس لیے تھا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو بہت یاد فرماتے اور ان کی بہت تعریفیں کرتے تھے۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عادت یہ تھی کہ کسی خاص بھیڑ کو ذبح کرتے اور جناب خدیجہ کی دوست و سہیلیوں کو ہدیہ فرمادیتے تھے ۔(۲)

____________________

(۱) تاریخ دمشق :۷ ۱۱۴۔

(۲) سنن ترمذی : ۳ ۲۴۹، حدیث ۲۰۸۶۔ و جلد: ۵ ۳۶۶، حدیث ۳۹۷۷۔ اور دیکھیے : ـ مسند احمد : ۶ ۲۷۹۔ صحیح بخاری:۴ ۲۳۰، کتاب بدء الخلق ، باب تزویج النبی خدیجہ و فضلھا ۔ الطرائف ۲۹۱۔ فتح الباری :۷ ۱۰۲۔

۵۹

ابو بکر اور صدیقیت

اب ابوبکر کی شخصیت و سیرت پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعاً وہ صدیق ہیں یا حقیقت میں صدیق علی ابن ابی طالب ہی ہیں ۔

اس کا م کو دونوں طرف کے لوگوں کے عقیدہ سے ہٹ کر انجام دیں گے یعنی ان حضرات کی شخصیتوں کی خود ان ہی کے کلام سے وضاحت کریں گے نہ کہ ان کے پیرو کار اور ماننے والوں کے کلام ونظریات کی روشنی میں انہیں پیش کیا جائے ۔

یہ واضح ہے کہ صدق و سچائی ، کذب و جھو ٹ کے مقابل میں ہے ، پس اگرحضرت فاطمہ ، صدیقہ اپنے کلام میں سچی اور حق پر ہیں تو ابوبکر جھوٹے ہیں اور اسی طرح اگر علی حق پرہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مقابل میں باطل ہے (جو بھی ہو)۔

اب طرفین کے کلمات و نظریا ت کو سامنے رکھتے ہیںاور ان مقامات کو کہ جن میں اختلاف ہے بطور نمونہ پیش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے ۔ اور اس کے بعد لفظ صدیق پر غور کریں گے اور پھر دیکھیں گے کہ کون ان صفات و کمالات کے ساتھ اس لقب کا مستحق ہے ۔

پہلا نمونہ :ـ

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے خطبہ کا ٹکڑا کہ جس میں مدعیان خلافت سے خطاب ہے :

۶۰