"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

0%

مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 307

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید علی شہرستانی
زمرہ جات: صفحے: 307
مشاہدے: 48106
ڈاؤنلوڈ: 5555

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48106 / ڈاؤنلوڈ: 5555
سائز سائز سائز

"کون ہیں صدیق اور صدیقہ"

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کیا آپ لوگ یہ خیال کرتے ہوکہ ہمارا میراث میں کوئی حق نہیں ہے( أ فحکم الجاهلیة تبغون ومن احسن من الله حکماً لقوم یوقنون ) (۱)

کیا جاہلیت کے حکم کو چاہتے ہواور اللہ کے حکم سے کس کا حکم اچھا ہے ، ان لوگوں کے لیے کہ جو اہل یقین ہیں ۔ کیا اس سلسلے میں حکم خدا کو نہیں جانتے یقینا جانتے ہو ، سورج کی طرح تم پر روشن ہے کہ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی ہوں ، اے مسلمانوں کیا میں میراث سے محروم ر ہوں؟ اے ابو قحافہ کے بیٹے کیا خدا کی کتاب میں ہے کہ تو اپنے باپ کی میراث پائے اور میں اپنے باپ کی میراث نہ پاؤں؟( لقد جئت شیأ فریا ) (۲)

یقینا اپنے پاس سے من گھڑت لائے ہو۔ کیا جان بوجھ کر کتاب خدا کو چھوڑ دیا ہے اور اس کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ جس میں ارشاد ہے( وورث سلیمان داؤد ) (۳)

سلیمان نے دائود سے میراث پائی ۔ اور یحی ابن زکریا کی خبر سنائی ہے لہذا ارشاد ہے( فهب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب ) (۴)

زکریا نے کہا پروردگار مجھ کو اپنی جانب سے ولی و جانشین عطا فرما کہ جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب سے میراث پائے۔

____________________

(۱) سورہ مائدہ (۵) آیت ۵۰۔

(۲) سورہ مریم (۱۹) ،آیت ۲۷۔

(۳) سورہ نمل (۲۷) ،آیت ۱۶۔

(۴) سورہ مریم (۱۹) ،آیت ۵ـ۶۔

۶۱

اور حکم الہی ہے( واولو ا الارحام بعضهم اولی ببعض فی کتاب الله ) (۱) خداوندعالم کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے کی بنسبت دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں ۔

اور ارشاد ہے( یوصیکم الله فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین ) (۲) ۔

خداوندعالم آپ کے بچوں کے بارے میں آپ کو وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حق لڑکی کے حق سے دوبرابر ہے ۔

اور ارشاد ہے( ان ترک خیرالوصیة للوالدین والاقربین بالمعروف حقا علی المتقین ) (۳) جس کوآثار موت نظر آنے لگ یں اس پر لازم ہے کہ اگر صاحب مال ہے تو اپنے والدین و رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے یہ متقی اور پرہیزگار وں پر حق ہے ۔

ان سب آیات کے باوجود آپ لوگوں کا خیال ہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے اور میں اپنے والد گرامی سے کوئی حق نہیں پاؤں گی اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے ؟۔

کیا خدا وندعالم نے آپ پر کوئی خاص آیت نازل کی ہے کہ جو میرے باپ پر نازل نہیں کی یا یہ کہ جو کہہ رہے ہو تو کیا میں اپنے والد کے دین پر نہیں ہوں ، دو دین والے آپس میں میراث نہیں پاتے تو کیا میرا اور میرے والد کا دین ایک نہیں ہے؟ کیا آپ لوگ قرآن کریم کے خاص و عام کو میرے والد اور ابن عم علی سے بہتر جانتے ہو؟۔

____________________

(۱) سورہ انفال (۸) ،آیت ۷۵۔

(۲) سورہ نساء (۴) ،آیت ۱۱۔

(۳) سورہ بقرہ (۲) ،آیت ۱۸۰۔

۶۲

اب فدک کو غصب کرلو لیکن روز حشر ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا ہے ، خداوندعالم کیا ہی خوب حاکم ہے ، اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہترین رہبر ہیں اور روز قیامت سب کے لیے وعدہ گاہ ہے ۔

قیامت کے دن جو لوگ باطل پر ہیں اپنے نقصان و خسارے کو دیکھیں گے اور وہ لوگ پشیمان و شرمندہ ہونگے لیکن اس وقت وہ شرمندگی کوئی فائدہ نہیں دے گی ۔

( وکل نبأ مستقر ) (۱) اور ہر خبر کو واقع ہونا ہے ۔( فسوف تعلمون من یاتیه عذاب یخزیه و یحل علیه عذاب مقیم ) (۲) پس عنقر یب جان لوگے کہ ذلیل و رسوا کرنے ولا عذاب آن پہنچا ہے اور ہمیشہ رہنے والا عقاب و عذاب سر پر منڈلارہا ہے ۔(۳)

یہ عبارت بہت واضح اور روشن ہے اور زیادہ تحلیل و تفسیر کی ضرورت نہیں ہے ۔ فاطمہ صدیقہ اپنے اس کلام میں ابوبکر صدیق کی تکذیب کر رہی ہیں : اے ابوقحافہ کے بیٹے کیا خدا کی کتاب میں ہے کہ تو اپنے باپ سے میراث پائے اور میں اپنے والد کی میراث سے محروم رہوں ، یقینا یہ کیا من گھڑت چیز پیش کی ہے ۔

اور اس کلام میں بھی کہ ابوبکر اور اس کے طرفدار زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خیال کرتے ہیں کہ فاطمہ اپنے باپ سے میراث نہیں پائے گی جب کہ یہ خیال قرآن کریم کی آیات وصیت و میراث کے متعلق عمومات کے خلاف ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام (۶) ،آیت ۶۷۔

(۲) سورہ ھود (۱۱) ،آیت ۳۹۔و سورہ زمر(۳۹) ،آیت ۳۹ـ۴۰۔

(۳) احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۸ـ۱۳۹۔

۶۳

یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ابوبکر اپنے باپ سے میراث پائے اور فاطمہ اپنے والد سے میراث نہ پائیں! کیا خداوندعالم نے ان کے لیے کوئی خاص آیت بھیجی ہے کہ جس سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو باہر و جدا کردیا گیا ہے یا یہ کہ ان کا نظریہ ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور فاطمہ کا دین جدا جدا ہے کہ ایک دوسرے سے میراث نہیں پاسکتے یایہ کہنا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ فاطمہ ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی نہیں ہیں ۔

چونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک حکم الہٰی کو ان لوگوں سے بیان کریں کہ جو وارث نہیں ہیں اور جو وارث ہیں ان سے چھپائے رکھیں ۔

اس بات کو عقل کیسے قبول کرسکتی ہے کہ کتاب الہٰی کو ایک ایسی خبرواحد سے تخصیص دی جائے کہ جس کی علی و فاطمہ تصدیق نہ فرمائیں۔

یہ کس طرح ممکن ہے اور عقل کیسے قبول کرے کہ کتاب الہٰی کی تخصیص ایک ایسی خبر واحد سے ہوکہ جو ظاہر اور عمومات قرآن کے مخالف ہو چونکہ گذشتہ نبیوں کی سیرت اس کے خلاف ثابت ہے

جی ہاں ! حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام سے یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ ان لوگوں نے کتاب خدا پر بھی عمل کرنا چھوڑدیا ہے ۔ چونکہ لفظ وارث عام ہے اور مال کی میراث پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ متعدد آیات سے واضح ہے اور کسی خاص قید سے مقید بھی نہیں ہوا ، لیکن انہوں نے میراث کو ، میراث حکمت و نبوت سے تعبیر کیا ہے نہ کہ اموال سے اور مجاز کو حقیقت پر مقدم رکھا ۔

جب کہ علم و حکمت اور نبوت کی میراث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مالی میراث ختم ہوجائے بلکہ میراث نبوت اور اموال ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں ، اور یہ وراثت پروردگار کے نزدیک روز ازل سے اس کے مستحقین کے لیے محفوظ و مخصوص ہے ۔

۶۴

( والله اعلم حیث یجعل رسالته ) (۱) اور خداوندعالم بہتر جانتا ہے کہ اپن ی رسالت کو کہاں رکھے۔

فخر رازی اپنی تفسیر میں رقمطراز ہے کہ دونوں جگہوں پر میراث سے مراد مالی میراث ہے ، اور یہ ابن عباس و حسن اور ضحاک کا قول ہے ۔(۲)

زمخشری نے تفسیر کشاف میں لکھا جناب سلیمان نے اپنے والد جناب داؤد سے ہزار گھوڑے میراث میں پائے ۔(۳) بغو ی نے معالم التنزیل ،سورہ مریم کی چھٹی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے حسن نے کہا کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ میرے مال کا وارث ہو۔(۴)

ہم لوگ حضرت علی صدیق اور صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا و حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا جناب عباس کے استدلال پر ذرا غور کر یں تو بالکل واضح ہوجائے گا کہ ابوبکر اپنے دعوی میں جھوٹے اور خطا کار ہیں چونکہ جو چیز خود ہی نے اپنے لیے لازم قرار دی تھی اب اسی کی مخالفت کررہے ہیں اس لیے کہ لوگوں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ک ی حدیث نقل کرنے سے منع کیا اور کہا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا کافی ہے ۔(۵)

____________________

(۱) سورہ انعام(۶) ،آیت ۱۲۴۔

(۲) تفسیر کبیر فخررازی : ۲۱ ۱۵۶۔

(۳) تفسیر کشاف :۴ ۱۳۔

(۴) تفسیر بغوی (معالم التنزیل) : ۳ ۱۸۹۔

(۵) تذکرة الخواص : ۱ ۳۔ تو جیہ النظر (جزائری ) :۶۰۱۔

۶۵

اور دوسری طرف ان حضرا ت نے ابوبکر کی خطا کاری پر میراث و وصیت کے بارے میں عموعات قرآن سے استدلال کیا ، لیکن ابوبکر نے اس چیز کاسہارا لیا کہ جس سے خود ہی نے لوگوں کو منع کیا تھا۔یعنی قرآن کریم کے مقابلے حدیث کو سہارا بناتے ہوئے استدلال کیا لہٰذا یہ ابوبکر کی تناقض گوئی، ایک لمحہ فکریہ ہے !۔

۶۶

دوسرا نمونہ :ـ

حضرت فاطمہ زہرا نے عمومات قرآنی کے ذریعہ ابوبکر کے بیان اور مقصد کی تکذیب فرمائی کہ جو انہوں نے کہاتھا کہ''نحن معاشرالانبیاء لا نورث ماترکناه صدقه '' ہم پیغمبروں کی میراث نہیں ہوتی اور جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔ چونکہ اگر ابوبکر کا کلام صحیح ہوتا تو پھر کس طرح پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عصا ، گھوڑا اور نعلین مبارک حضرت علی کو دیدیا ۔(۱) اور آپ کی ازواج کو گھر میں رہنے کی اجازت دی بالکل اسی طرح کہ جیسے مالک اپنے مال میں تصرف کرتا ہے یہاں تک کہ دفن کے لیے بھی عایشہ سے اس کے حجرے کی اجازت مانگی جبکہ اسی دور میں حضرت زہرا سے یہ کہکر کہ آپ مالک نہیں بن سکتیں فدک چھین لیا گیا۔

کیا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے ممکن ہے کہ دنیا سے انتقال کرجائیں اور اپنی بیٹی و داماد کو ان کے حق کے متعلق کوئی خبر نہ دیں !؟۔

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید): ۲۱۴۱۶۔ اور دیکھیے صحیح بخاری :۵ ۱۱۴ـ۱۱۵،کتاب المغازی ، حدیث بنی نضر ۔ صحیح مسلم :۳ ۱۳۷۷ـ۱۳۷۹، کتاب الجھاد و السیر، باب حکم الفن۔

۶۷

یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کو بتائیں اور غیروں کو با خبر کریں لیکن جن کا حق ہے یعنی اپنی بیٹی و داماد کو اس حکم خاص سے آگاہ نہ فرمائیں ؟۔

اور اس کے علاوہ اگر ابوبکر کو اپنے کلام پر اعتماد تھا اور وہ اپنے دعوے میں سچے تھے تو پھر کیوں انہوں نے حضرت زہرا کے لیے فدک کے متعلق نامہ لکھا کہ جس کو بعد میں عمر نے پھاڑدیا !؟ ۔ یعنی اس نامے سے خود اپنے ہی کلام کی تکذیب کی اور اس کو نقض کردیا ۔(۱)

ابوبکر نے اپنے اس دعوی سے قانون الٰہی کہ جو پیغمبروں کے بارے میں میراث کے متعلق ہے رسول خدا کی طرف توڑنے کی نسبت دی جبکہ یہ مطلب واقعیت کے خلاف ہے چونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرائض و تکال یف الہٰی میں عام لوگوں کی طرح مکلف ہیں اور آسمانی تعالیم آپ کے بارے میں بھی دوسروں کی طرح جاری ہیں اور یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ آپ کے مختصات و خصوصیات میں سے میراث کا نہ ہونا بھی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر کی تکذیب کی اور جھوٹ کی نسبت دی۔

تیسرا نمونہ:ـ

تیسرا نمونہ حضرت علی کی تکذیب اور آپ کو جھٹلانا ہے کہ جو ابوبکر کی طرف سے واقع ہوا اگر چہ بعض روایات میں عمر کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):۱۶ ۲۷۴۔ احتجاج طبرسی:۱ ۱۲۲۔ اور دیکھیے تہذیب الاحکام (شیخ طوسی) :۴ ۱۴۸۔ تفسیر قمی :۱۵۵۲۔ السیرة الحلبیہ:۳ ۴۸۸۔

۶۸

اس وقت کہ جب ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر حضرت علی کو قتل کی دھمکی دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ کیا آپ لوگ بندہ خدا اور رسول خدا کے بھائی کو قتل کروگے ؟ عمر نے کہا: بندہ خدا تو صحیح لیکن رسول خدا کا بھائی نہیں ۔(۱)

نہیں معلوم کس طرح پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی کے درمیان رشتہ اخوت سے انکار کردیا جب کہ یہ کام دو مرتبہ واقع ہوچکا تھا ایک مرتبہ مکہ میں ہجرت سے پہلے اور دوسری مرتبہ مدینے میں ہجرت کے پانچویں مہینے میں کہ جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام انصار و مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور ایک دوسرے کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور دونوں مقام پر اپنے لیے حضرت علی کا انتخاب فرمایا اور اپنے و علی کے درمیان عقد اخوت پڑھ کرفرمایا : اے علی آپ دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو ۔(۲)

اور اس کے علاوہ یہی کافی ہے کہ نص آیت مباہلہ کے مطابق حضرت علی نفس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہ یں، ارشاد ہے(وانفسنا و انفسکم )(۳) تم اپنے نفس و جان کو لاؤ اور ہم اپنے نفس و جان کو لاتے ہ یں۔

____________________

(۱) الامامة والسیاسة:۱ ۲۰۰(تحقیق زینی)۔ احتجاج طبرسی :۱ ۱۰۹۔

(۲) سنن ترمذی :۵ ۳۳۰، حدیث ۳۸۰۴۔ اس میں مذکورہے کہ یہ حدیث حسن اور غریب ہے۔ مستدرک حاکم :۳ ۱۴۔

(۳) سورہ آل عمران(۳) ، آیت ۶۱۔

۶۹

اور قضیہ تبوک میں آپ نے حضرت علی سے فرمایا:

'' انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ الاانه لا نبی بعدی وانت اخی و وارثی'' (۱) آپ کو مجھ سے وہ ی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور آپ میرے بھائی اور میرے وارث ہیں ۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو اس وقت کہ جب دعوت اسلام کا آغازبھی نہ ہوا تھا اپنا بھائی قرار دیا جس وقت یہ آیت نازل ہوئی( وانذر عشیرتک الاقربین ) (۲)

اپنے عزیز وخاندان والوں کو ڈراؤ تب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے تمام رشتہ دارو خاندان والوں کی جناب ابو طالب کے گھر میں دعوت کی ۔ وہ تقریبا چالیس آدمی تھے تب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا :اے فرزندان عبدالمطلب ،خدا کی قسم میری نظرمیں عرب کا کوئی جوان بھی اپنی قوم کے لیے ایسا پیغام نہیں لایا کہ جیسا میں لایا ہوں ، میں آپ لوگوں کے لیے دنیا و آخر ت کی خیر و بھلائی لے کر آیا ہوں اور خداوندعالم نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں پس آپ میں سے کون ہے کہ اس امر میں میری مدد کرے گا تاکہ تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور خلیفہ قرار پائے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم :۷ ۱۲۰، کتاب فضل الصحابہ من فضائل علی ۔ مسند ابی یعلی :۱ ۲۸۶، حدیث ۳۴۴۔ صحیح ابن حبان :۱۵ ۲۷۰ـ۲۷۱ ،باب مناقب علی ابن ابی طالب ۔ الآحاد و المثانی :۵ ۱۷۰۔، حدیث ۲۷۰۷۔ تاریخ مدینة دمشق : ۲۱ ۴۱۵ ۔و جلد:۴۲ ۵۳۔

(۲) سورہ شعراء (۶۶) ، آیت ۲۱۴۔

۷۰

اس وقت تمام اہل خاندان نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کیا سوائے حضرت علی کے کہ جو ان سب میں چھوٹے و کم سن تھے تب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت علی کے کاندھے پر رکھا اور فرمایا:بیشک یہ میرا بھائی ، وصی اور میرا خلیفہ ہے ، اس کی بات ماننا اور اطاعت کرنا ۔

وہ لوگ مذاق اڑاتے اور ہنستے تھے اور جناب ابوطالب سے کہتے کہ محمد نے تجھ کو حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی بات ماننا اور اس کی اطاعت کرنا ۔(۱)

اور اس وقت بھی کہ جب زنان عالم کی سیدہ و سردار حضرت فاطمہ زہرا کی شادی حضرت علی سے ہونے لگی تو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ام ایمن میرے بھائی کو بلائو ، ام ایمن نے کہا: وہ آپ کے بھائی ہیں جبکہ آپ اپنی یبٹی کی شادی ان سے کررہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں اے ام ایمن ، پس ام ایمن نے حضرت علی کو بلایا۔(۲)

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے متعدد مرتبہ حضرت علی کوبھائی کہکر خطاب کیا ہے ۔

ایک مرتبہ فرمایا:'' انت اخی و صاحبی فی الجنة'' (۳)

آپ جنت میں میرے بھائی اور ساتھی و ہمدم ہیں۔

____________________

(۱) تاریخ طبری :۲ ۶۳۔ السیرة النبوة (ابن کثیر) :۱ ۴۵۸ـ۴۵۹۔ کنزالعمال :۱۳ ۱۳۳، حدیث ۳۶۴۱۹۔ کہ یہ ابن اسحاق و ابن جریر اور ابن ابی حاتم سے نقل ہوئی ہے ۔

(۲) مستدرک حاکم : ۳ ۱۵۹۔ السنن الکبری (نسائی) : ۵ ۱۴۲، حدیث ۸۵۰۹۔

(۳) تاریخ بغداد : ۱۲ ۲۶۳۔ تاریخ دمشق :۴۲ ۶۱۔ ان دونوں ماخذ میں مذکور ہے ''یا علی انت اخی و صاحبی و رفیقی فی الجنة ''اے علی آپ جنت میں میرے بھائی ، ہمدم اور میرے دوست ہو۔

۷۱

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

''انت اخی ووزیری ، تقضی دینی و تنجز موعدی و تبری ذمتی '' (۱)

اے علی آپ میرے بھائی اور میرے وزیر ہو آپ ہی میرا قرضہ اتاروگے اور میرے عہد وپیمان اور وعدوں کو پورا کروگے اور میرے ذمہ جو کچھ بھی ہے اس کو ادا کروگے ۔

تیسرے مقا م پر فرمایا :

''هٰذا اخی وابن عمی و صهری و ابو ولدی '' (۲)

یہ( علی ) میرا بھائی، میرے چچا کا بیٹا ،میرا داماد اور میرے بچوں کا باپ ہے ۔

____________________

(۱) المعجم الکبیر: ۱۲ ۳۲۱۔ اور اسی سے نقل ہے مجمع الزوائد : ۹ ۱۲۱ و کنزالعمال :۱۱ ۶۱۱، حدیث ۳۲۹۵۵ میں ۔ اور اسی ماخذ میں آیاہے کہ''فمن احبک فی حیاة منی فقد قضی نحبه ومن احبک بعدی ولم یرک ختم الله له بالامن و امنه یوم الفزع الاکبر ومن مات و هو یبغضک یا علی مات میتة جاهلیة یحاسبه الله بما عمل فی الاسلام '' اے علی جو شخص بھی آپ کو میری زندگی میں دوست رکھے گا گویا اس نے اپنے عہد کو پورا کیا اور جو کوئی بھی میری زندگی کے بعد آپ کو دوست رکھے اور آپ کو نہ دیکھ پائے خداونداس کا خاتمہ بالخیر کرے گا اور روز قیامت اس کو امن و امان عطا کرے گا ، اور اے علی جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ تجھ سے حسد اور بغض اس کے دل میں ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے خداوندعالم اس کی زندگی کے دوران اسلام کے کارناموں کا محاسبہ کرے گا ۔

(۲) کنزالعمال : ۵ ۲۹۱، حدیث ۱۲۹۱۴ ۔ و جلد : ۱۱ ۶۰۹ ، حدیث ۳۲۹۴۷۔ اس کو شیرازی نے کتاب القاب میں اور ابن نجار نے ابن عمر سے نقل کیا ہے ۔ اور دیکھیے:ـ مسند احمد: ۵ ۲۰۴۔ مستدرک حاکم : ۳ ۲۱۷۔ المعجم الکبیر : ۱ ۱۶۰ ، حدیث ۳۷۸۔

۷۲

اور چوتھے مقام پر فرمایا:

میرے بھائی علی کو آواز دو ۔پس حضرت علی کو بلایا گیا آپ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرہانے آئے حضرت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اور قریب آئو ، آپ قریب آئے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے زانو پر سہارا دے کر بٹھایا پیغمبراکرم علی پر تکیہ دیے رہے اور آپ سے محو گفتگو رہے یہاں تک کہ آپ کی روح مطہرآپ کے بدن مبارک سے پرواز کرگئی ۔(۱)

پانچویں مقام پر فرمایا:

''مکتوب علی باب الجنة ، لا اله الا الله محمد رسول الله علی اخو رسول الله'' (۲)

جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے ، خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ محمد، اللہ کے رسول ہیں اور علی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھ ائی ہیں ۔

اور چھٹے اور ساتویں مقامات پراس وقت کہ جب حضرت علی بستر رسول پر سورہے تھے خداوندعالم نے شب ہجرت جبرئیل و میکائیل کو وحی کی کہ میں نے تمہارے درمیاں عقد اخوت پڑھا اور آپ دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا اور ایک کو عمر طولانی دوسرے کو کم عمر عطا کی، آپ میں سے کون ہے کہ اپنی طولانی عمر کو اپنے بھائی پر نثار کرے کوئی ایک بھی حاضر نہ ہو ا ۔

____________________

(۱) طبقات ابن سعد : ۲ ۲۶۳۔

(۲) المعجم الاوسط :۵ ۴۳ ۱۳ ۔ تاریخ بغداد :۷ ۳۹۸۔ فیض القدیر :۴ ۴۶۸، حدیث ۵۵۸۹، ترجمہ الامام الحسین(ابن عساکر) ۱۸۶، حدیث ۱۶۷۔

۷۳

اوردونوں نے طولانی عمر اور حیات کو چاہا تب خدا وندعالم نے ان دونوں پر وحی کی کہ کیوں آپ علی ابن ابی طالب کی طرح نہیں ہو کہ میں نے علی اور محمد کے درمیان بھائی چارگی ایجاد کی اور علی ، محمد کے بستر پر سوگئے تاکہ اپنی جان محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا کردیں اور اپنی زندگی کو اس پر نثار کردیں ، پس زمین پر جاؤ اور اس کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھو ۔ پس دونوں زمین پر آگئے ۔(۱)

حضرت امام علی علیہ السلام نے اس مواخات (پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھائی چارگی) سے کئی مرتبہ استشہاد کیا ،مثلا روز شوری ، عثمان ، عبد الرحمن، سعد بن وقاص اور طلحہ و زبیر سے فرمایا: آپ کو میں خدا کی قسم دیتا ہوں آپ میں میرے علاوہ کوئی ہے جس کو رسول خدا نے اس دن جب مسلمانوں کے درمیان بھائی چارگی ایجاد کی ، بھائی بنایا ہو سب نے کہا نہیں خداکی قسم۔(۲)

روز بدر کہ جب ولید آپ کے مقابلے میں لڑنے کے لیے آیا تو آپ سے سوال کیا کہ آپ کون ہو؟ تب آپ نے فرمایا ''انا عبدالله و اخورسوله ''(۳) م یں خدا کا بندہ اور اس کے رسول کا بھائی ہوں۔

حضرت فاطمہ زہرا نے بھی اپنے مشہور خطبہ میں اس اخوت و بھائی چارگی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :

____________________

(۱) اسد الغابہ :۴ ۲۵۔ جواہر المطالب : ۱ ۲۱۷۔ شواہد التنزیل : ۱ ۱۲۳، حدیث ۱۳۳۔

(۲) الاستیعاب :۳ ۱۰۹۸۔

(۳) طبقات ابن سعد : ۲ ۲۳۔ تاریخ مدینہ دمشق : ۴۲ ۶۰۔

۷۴

جب کبھی بھی شیطان سر اٹھاتا یا مشرکوں میںسے کوئی اژدھا منھ پھاڑتا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بھائی کو اس کے حوالے کردیتے اور وہ جب تک کہ ان پر مسلط نہ ہوتے اور ان کی آگ کے شعلے اپنی تلوار سے خاموش نہ کرتے واپس نہیں آتے تھے وہ راہ خدا میں ہر طرح کی سختیوں اور رنج وتکلیف کو برداشت کرلیتے تھے اور امر خدا کے احیاء میں ہرطرح کی کوشش کرتے وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عزیز اور اولیاء الٰہی کے سردار تھے ، ہمیشہ راہ خدا میں ناصح، کوشا اور کمر ہمت باندھے ہوئے تھے اور آپ لوگ اس دور میں اسی کی وجہ سے عیش و آرام کی زندگی گذار رہے تھے اور ہر طرح کے حوادث کے ہم پر منتظر رہتے تھے اور فقط ادھر ادھر کی باتیں سنتے اور جنگوں میں جانے سے گریز کرتے اور اگر کسی جنگ میں پہنچ بھی جاتے تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے ''(۱) ۔

ابوبکر نے جب حضرت فاطمہ زہرا کی حجت و دلائل کو سنا تو آپ کے بیان سے متأثر ہوئے اور آپ کا دل لبھاناچاہا اوراس اعتراف کے ساتھ کہ علی ہی رسول خدا کے بھائی ہیں نہ کہ کوئی اور، کہنے لگے:

اے دختر رسول خدا ،آپ کے والد مؤمنوں پر مہربان تھے اور ان کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آتے تھے اور بہت ہی کریم و دل سوز تھے اور کافروں کے حق میں درد ناک عذاب اور بہت سخت عقاب تھے ، اگر ان کے نسب کو دیکھیں تو وہ یقینا آپ کے والد و ماجد ہیں نہ کہ دوسری عورتوں کے اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں نہ کہ دوسرے اصحاب کے ۔ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو ہر ایک نزدیک ترین دوست سے بھی زیادہ عزیز رکھا اور وہ بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہر مشکل کام میں مدد فرماتے تھے۔

____________________

(۱) دیکھیے:ـ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) : ۱۶ ۲۵۰۔ جواہر المطالب :۱ ۱۵۶۔

۷۵

آپ لوگ وہ افراد ہو کہ جن کو صرف سعادتمند و خوشبخت ہی دوست رکھتا ہے اور آپ کو کوئی دشمن نہیں رکھتا سوائے بدبخت انسان کے آپ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت و اہل بیت پاک و پاکیزہ ہو اور اللہ کے منتخب و بہترین بندے ہو ہمیں اچھی راہنمائی اور بھلائی دکھاتے ہواور جنت و آخر ت میں بھی ہمارے بہترین راہنما ہو۔

اور آپ اے عورتوں کی سیدہ و سردار اور بہترین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی آپ کا کلام حق اور سچا ہے اور آپ کی عقل کامل و پختہ ہے ، آپ کے حق کو کوئی نہیں روکے گا اور آپ کے صدق و صفائی سے کوئی مانع نہیں ہوگا ۔

خدا کی قسم میں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تجاوز نہیں کیا ہے میں نے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :

''نحن معاشرالانبیاء لا نورث ذهبا و لا فضة ولا دارا ولا عقارا و انما نورث الکتاب و الحکمة والعلم والنبوة وما کان لنا من طعمة فلو لی الامر بعدنا ان یحکم فیه بحکمه'' ۔ ہم جماعت انبیاء سونا چاندی اور گھر و جنگل کو میراث میں نہیں چھوڑتے ہم فقط کتاب و حکمت اور علم و نبوت کو میراث میں چھوڑتے ہیں اور جو کچھ بھی مال و دولت میں سے ہمارے پاس بچتا ہے اس میں ہمارے بعد ولی امر اپنی مصلحت کے مطابق حکم کرتا ہے۔

آپ کا جو مقصد ہے ہم نے اس کو اسلحہ اور گھوڑے خریدنے کے لیے مخصوص و مہیا کردیا ہے تاکہ اس سے مسلمان جنگ کرسکیں اور کفار کا مقابلہ کرسکیں اور فاسقین کی سر کشی کوسرنگوں کیا جاسکے اور یہ کام مسلمانوں کے اجتماع و اتحاد اور رائے و مشورے سے وجود میں آیا ہے میں نے تنہا یہ کام انجام نہیں دیا ہے اور نہ اپنی رائے و نظر کو مقدم رکھا ہے ، میں اور میرا سارا مال و اسباب آپ کی خدمت میں حاضر ہے آپ سے کچھ مخفی نہیں کیا جائے گا ۔

۷۶

اور یہ آپ کے علاوہ کسی اور کے لیے جمع نہیں کیا گیا ہے ۔ آپ اپنے والد گرامی کی امت کی شہزادی اور اپنی اولاد کے لیے پاک و پاکیزہ شجرہ ہیں اور جو فضل و کمال آپ کا ہے اس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور آپ کی فرع و اصل میں سے کچھ کم نہیں کیا جا سکتا ، جو کچھ میرے اختیار میں ہے آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہے ، لیکن کیا آپ حاضر ہیں کہ آپ کے والد گرامی کی مخالفت کروں!؟۔

حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا:

سبحان اللہ ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، کتاب خدا سے روگردان نہ تھے اور اس کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی پیروی فرماتے اور قرآن مجید کے سوروں کی رسیدگی کرتے ،کیا دھوکا دینے کے لیے جمع ہوئے ہو اور اس پر ظلم و ستم کرنے اور زور گوئی کہنے کے لیے اکھٹا ہوئے ہو ؟یہ کام ان کی وفات کے بعداسی کی مانند ہے کہ جیسے ان کی زندگی میں دھوکے اور مکاریاں کی جاتی رہیں اور یہ بھی انہیں کی زندگی میں پروپیگنڈ ا تیار ہوا ،یہ خدا کی کتاب عادل و حاکم ہے اور حق وحقانیت کو باطل و ناحق سے جدا کرنے کے لیے موجود ہے ۔ کہ جس میں ارشاد ہے( یرثنی و یرث من آل یعقوب ) (۱) خدا یا مجھ کو فرزند عطا فرما کہ جو میرا اور آل یعقوب کا وارث قرار پائے ۔اور ارشاد ہوا( وورث سلیمان داؤد ) (۲) سل یمان نے داؤد سے میراث پائی ۔

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹)، آیت ۶۔

(۲) سورہ نمل(۲۷)، آیت ۱۶۔

۷۷

خدا وندعالم نے سب کے حصوں کو تقسیم کرنے کے لیے اور فرائض کو نافذ کرنے کے لیے اور مرد و عورتوں کو ان کے حق کی ادائیگی کی خاطر تمام چیزوں کو آشکار و واضح کر دیا ہے تاکہ اہل باطل کی تاویلات کو ختم کیا جاسکے اور شبہات و بد گمانی کو دور کیا جاسکے ۔کیا ایسا نہیں ہے ؟( بل سولت لکم انفسکم امرا فصبر جمیل والله المستعان علی ما تصفون ) (۱) بلکہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے یہ معمہ بنا کرکھڑا کیا ہے لہذا میں صبر کو بہترین راستہ سمجھتی ہوں خداوندمددگار ہے ہر اس چیز پر کہ جو بیان کرتے ہو۔

ابو بکر نے کہا:

خدا اور اس کا رسول سچ کہتے ہیں اور اس کی بیٹی بھی سچ کہتی ہے ۔ اے فاطمہ آپ معدن حکمت ہیں اور مقام ہدایت و رحمت اور آپ دین کی رکن اور عین حجت ہیں۔

میںآپ کے کلام حق کو بعید نہیں سمجھتا اور آپ کی فرمایش سے انکار نہیں کرتا یہ مسلمان کہ جو میرے اور آپ کے درمیان ہیں ان لوگوں نے یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈالی ہے ۔ جوکچھ بھی انجام دیا گیا ہے وہ انہیں کے مشورے سے انجام پایا ہے نہ کہ میں نے کوئی زبردستی کی ہے اور نہ ہی اپنی رائے و نظر یہ کو مقدم رکھا اور یہ لوگ اس بات پر شاہد و گواہ ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا :

اے لوگو ! آپ نے باطل کے کلام کی طرف سبقت کی اور برے و نقصان دہ کام سے چشم پوشی کی ۔

____________________

(۱) سورہ یوسف(۱۲)، آیت ۱۸۔

۷۸

( وافلا تتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالها ) (۱) اورکیا قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتے یاتمہارے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں کیا ایسا نہیں ہے ؟ بلکہ تمہارے برے اعمال نے تمہارے دلوں پر زنگ لگادیا ہے کہ جس سے تمہارے کان اور آنکھیں بند ہوگئی ہیں ، کس قدر بری تأویل کی ہے اور جو کچھ آپ لوگوں نے انجام دیا بہت برا ہے ، اور وہ کہ جس کا بدلہ چاہتے ہوبہت خطرناک ہے۔

خدا کی قسم یہ بہت سنگین و بھاری بوجھ ہے اور اس کا نتیجہ بہت برا اور وبال جان ہے وہ وقت کہ جب حقیقت کے پردے آپ کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹیں گے اوراس کے بعد تمہاری بدبختی و پریشانی تمہارے سامنے آشکار ہوگی ۔

( وبدا لکم من ربکم مالم تکونوا تحتسبون ) (۲)

آپ کے پروردگار کی جانب سے کہ جو تم شمار بھی نہ کرتے تھے آشکار ہوگیا ۔

( وخسر هنالک المبطلون ) (۳)

یہی وہ مقام ہے کہ اہل باطل ، خسارہ و نقصا ن دیکھیں گے ۔(۴)

____________________

(۱) سورہ محمد(۴۷)، آیت ۲۴میں آیا ہے (افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا) ۔

(۲) سورہ زمر(۳۹)، آیت ۴۷میں آیا ہے (وبدا لکم من اللہ مالم تکونوا تحتسبون )۔

(۳) سورہ مؤمن (۴۰)، آیت ۷۸۔

(۴) احتجاج طبرسی :۱ ۱۴۱۔ اور اسی سے نقل ہوا ہے بحار الانوار :۲۹ ۲۳۲ـ۲۳۳ میں ۔

۷۹

خدائے سبحان کا ارشاد ہے :

( تلک آیات الله نتلوها علیک بالحق فبای حدیث بعد الله و آیاته یومنون ٭ ویل لکل افاک اثیم ٭ یسمع آیات الله تتلی علیه ثم یصر مستکبرا کأن لم یسمعها فبشره بعذاب الیم ) (۱)

یہ خداوندعالم کی آیات ہیں کہ جو ہم آپ پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں ، پس خدا اور اس کی آیات کے بعد کون سا کلام ہے کہ اس پر ایمان لائو گے ۔وائے ہو جھوٹے گناہکار پر کہ اس پرآیات الہٰی کی تلاوت ہوتی ہے تو سنتا ہے اور پھر تکبر سے منھ پھیر لیتا ہے گویااس نے سنا ہی نہ ہو تو آپ اس کو جہنم اور سخت عذاب کی بشارت دیں ۔

____________________

(۱) سورہ جاثیہ (۴۵) ، آیات ۶ـ۷ـ۸۔

۸۰