• ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9326 / ڈاؤنلوڈ: 3899
سائز سائز سائز
بصیرتیں

بصیرتیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

بصیرتیں

پروفیسر سید مجاور حسین رضوی

ماخذ:اردو کی برقی کتاب

***

قصیدہ

تمام اصناف سخن میں قصیدہ واحد صنف سخن ہے جسے منتخب افراد، منتخب قارئین یا ناظرین کے لئے منتخب زبان میں پیش کرتے ہیں۔ قصیدہ کے پورے عمل میں لفظ انتخاب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اس کے ممدوحین منتخب روزگار ہوتے ہیں ان سے وابستہ تاریخیں منتخب ہوتی ہیں کسی صنف سخن کو یہ امتیاز حاصل نہیں ہے کہ یہ پہلے سے طئے ہو کہ تیرہ رجب جب آئے گی تو قصیدہ خوانی کی بزم سجے گی سترہ ربیع الاول کو قصیدہ کی محفل آراستہ ہو گی تیسری شعبان کو فضا میں درود کی آوازیں گونجیں گی پندرہ رمضان کو بھی نعرہ صلوات سے اس تاریخ کا استقبال ہو گا۔

اور یہ اسوقت ہے جب بعض منفی ذہن رکھنے والے محققین اور نقاد قصیدہ کو مردہ صنف سخن قرار دے چکے ہیں دراصل کچھ لوگوں نے مشاہدات کی دنیا چھوڑ کر مزعومات کی دنیا کو اپنایا اور ان کے خیال میں اردو شاعری صرف غزل یا مغرب سے مستعار ہئیتی تجربوں تک محدود ہے دراصل یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مشرق کے علم و فضل کی روایات سے کبھی ہم آہنگی تو رہی نہیں یہ لوگ صرف اک پیمانہ جانتے تھے اور وہ پیمانہ تھا بازار کا جو چیز۔ بازار میں چلتی ہے بس وہی زندہ ہے۔

قصیدہ نے اس طرح کے تمام ادبی اوہام باطلہ کی بت شکنی کی۔ کوئی شخص بھی ہر صنف سخن کو سڑک پر یا بازاروں میں پڑھتے ہوئے چل سکتا ہے مگر قصیدہ کو سڑک پر یا بازار میں نہیں پڑھا جاتا نہ پڑھا جاسکتا ہے یہ صرف اہل علم و فضل کے دربار کی چیز ہے۔ لوگوں کے ذہن میں غلط تصور تھا کہ قصیدہ کا دربار یادگار سے وابستہ تھا بیشک قصیدے کا تعلق دربار درگاہ سے تھا لیکن وہ دربار یقیناً ختم ہو گئے جہاں مہ نو جھک کے سلام کیا کرتا تھا لیکن وہ دربار نہ کبھی ختم ہوئے ہیں نہ کبھی ختم ہوں گے جن کے درکار ذرہ آفتاب ہے جہاں صبح کو سورج کی کرنیں سجدہ ریز ہو کے تابانی حاصل کرتی ہیں۔

یہ امتیاز صنف قصیدہ کو حاصل ہے کہ اس نے منتخب افراد کو اپنا ممدوح بنایا۔

یہاں اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ اس صنف سخن کو مذہبی اور عصبیت و تنگ نظری کے حصار میں قید کر کے نہ دیکھا جائے اس صنف سخن کو بھی یہ امتیاز حاصل ہے کہ دوارکادس شعر مہاراجہ بلوان سنگھ سے لے کر دور حاضر میں جگن ناتھ آزاد، وشنو کمار شوق تک نے بڑے معرکے کے قصائد لکھے ہیں اگر کسی نے یہ قصائد نہیں پڑھے تو بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ

گر نہ بلند بروز سپرہ چشم

چشمۂ آفتاب را چہ گناہ

قصائد کو حالی سے متاثر ہو کر تضحیک آمیز خطابات سے سرفراز کرنا دلیل کم نظری ہے شاعر قصائد کے ذریعہ ممدوح کا نام لے کر اخلاقیات کے اعلیٰ ترین معیار پیش کرتا ہے بالخصوص مذہبی دنیا میں جو ممدوحین ہیں وہ اپنی صفات کے اعتبار سے اس منزل پر فائز ہیں جہاں الفاظ کی تنگ دامانی کا احساس ہوتا ہے صفات زیادہ لفظوں کی دنیا بہت مختصر۔ لیکن جیسا کہ ابتداء ہی میں عرض کیا گیا قصیدہ نگاری بھی منتخب افراد کا کام ہے قصیدے کے ممد و حین بھی منتخب روزگار ہوتے ہیں اور بے اختیار یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ قصیدہ شناسی بھی ہر حرف شناس کا کام نہیں ہوسکتا اس کے لئے بھی کڑھی ہوئی شخصیت وسیع مطالبہ اور بیشتر عوام و فنون سے واقفیت اور آگہی لازمی ہے اس لئے قصائد میں اصلاحات علمیہ کے ساتھ مختلف فنون کے لئے اشارے اور کتابیں بھی ملتے ہیں اور ان سب کے ساتھ ابری اقدار حیات کی مالک شخصیتوں کے تذکرے میں مذہبی تاریخ اور طہارت نفس کے تذکرے بھی نظر آتے ہیں اور یہ کام صرف وہ لوگ انجام دے سکتے ہیں جو شعراء میں بھی ’’منتخب‘ ہوتے ہیں۔

ایسے ہی منتخب شعراء میں سید زوار عباس مرحوم تھے۔

***

سید زوار عباس مرحوم

ان کا تعلق قصبہ کراری سے تھا آپ کاسلسلۂ نسب حضرت امام محمد تقی کے دوسرے صاحبزادے سید موسیٰ برقع سے ملتا ہے یہ لوگ فیروز شاہ تغلق کے عہد میں ہندوستان آئے فیروز شاہ تغلق نے انہیں گورنری کی سند دی سید حسام الدین نے کراری کے خطے کو آباد کیا یہ لوگ حقیقی معنوں میں کرارے کی تانیث نہیں بلکہ کراری ہیں اس وجہ سے قصیدے کی زبان میں جو مداحی اہلبیت کی چاشنی ہونی چاہئے وہ اہل کراری کے پاس ہے۔ زوار عباس مرحوم کی شخصیت میں جو وجاہت وزن اور وقار تھا وہ بھی قصیدے کی مخصوص فضاء اور زمین سے ہم آہنگ تھا وہ انسپکٹر جنرل (رجسٹریشن) بھی رہے۔ امیر صدر ان لوگوں کا خاندانی خطاب تھا بظاہر یہ نکتے غیر اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن شخصیت بہرحال شاعری میں جلوہ گر ہو کر رہتی ہے اور قصیدہ جس جاہ و جلال، عظمت شان و شکوہ وقار اور رکھ رکھاؤ کا مطالبہ کرتا ہے وہ سب پہلو زوار عباس کی شخصیت میں نظر آتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ان کا مزاج کلاسیکی تھا لیکن وہ اپنے عہد کے معاصرین کے انکار اور لب و لہجہ سے بے خبر نہ تھے انہوں نے اس کا لحاظ رکھا کہ ان کا کلام بے وقت کی راگنی معلوم نہ ہو۔

قصیدہ عربی میں ایسی صنف سخن تھی جس میں غزل کا شباب اور رثائیت کا گداز، فخر و لہجہ، مدح و ز سبھی کچھ تھا زوار عباس غزل کے شاعر تھے مگر انہوں نے غزل کو ’’سلام‘ نہیں کیا بلکہ اسے صلابت فکر سے قصیدہ کا جز بنا دیا ان کے بعض بے حد مقبول قصائد کی نشیب میں رنگ تغزل اس طرح جھلکتا ہے جسے سبز پتیوں کی آڑ لے گلاب کے پھول کا حُسن دہائی دے رہا ہو نشیب کے دو چار اشعار ملاحظہ ہوں۔

دیوانے سنگ راہ سے ٹکرائے جاتے ہیں

یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ وہ آئے جاتے ہیں

دو دن کی زندگی میں یہ کب تک سنا کروں

وہ چار دن کی بات ہے وہ آئے جاتے ہیں

نظریں جھکائے بیٹھے ہیں مٹھی میں دل لئے ہوئے

پوچھا پتہ تو کہہ دیا کا ہے کا اضطراب ہے

یہ عریضے تو ہیں تجدید تمنا کے لئے

آرزو دل میں ہیں کیا جانئے کیا کیا باقی

تغزل کے ساتھ ان کے یہاں علم بدیع و بیان کے وہ خوبصورت پہلو بھی نظر آتے ہیں جنہیں عرب عام میں صناعی کہا جاتا ہے مختلف صنعتوں کی نمائندگی کرنے والے کچھ اشعار پیش کئے جا رہے ہیں مثلاً صنعت براعتدالاسہلال کا نمونہ ملاحظہ ہو اس صنعت کے ماہرین میں دیا شنکر نسیم اور مرزا دبیر کے نام بہت مشہور ہیں یہ وہ صنعت ہے جس میں ابتدائی اشعار میں بعد میں آنے والے واقعات کی حُسن کارانہ انداز میں نشاندہی کر دی جاتی ہے۔

درہم و برم جہاں میں اب نظام امن ہے

ہے ترقی پر نفاق و فتنہ و شر کا چلن

اب شاعرانہ فنکاری دیکھئے متذکرہ بالا شعر میں بھی اور درج ذیل شعر میں اس صنعت کے ساتھ عصری حسیت بھرپور طور سے نظر آ رہی ہے۔

اب یہ شعر دیکھئے امام زمانہ علیہ السلام کی مدح میں ہے عرض مدعا ہے اور عصری حسیت بھرپور طور سے موجود ہے

حرمت مسجد اقصیٰ کو بچا لے آ کر

اہل شر کا ہے فلسطین پہ قبضا باقی

ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلو صرف سنگلاخ زمینوں میں نظر آتا ہے ہو انہوں نے قصیدے کی زمین میں ایسے تجربہ بھی کئے جہاں عصری حسیت آہنگ، لحن اور ترنم ہے یہ شعر ملاحظہ ہو:

زمانہ کا ہر اک قدم ہے انقلاب آفریں

سیاست جہاں کا مکر وجہ انتشار ہے

لیکن ان کا شعری مزا ج اور شعری وراثت کلاسیکی رچاؤ اور صناعی سے الگ نہیں ہٹ سکتا چنانچہ ان کے کلام میں نمایاں ہی نہیں بلکہ غالب عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔

قسمت سے وہاں حُسن تصور کا گزر ہے

واللیل جہاں شام ہے والعجز سحر ہے (صنعت تلمیع)

وہ نور جو ہے دامن والشمس کی زینت

جس سے کہ زمانہ میں تجلی سحر ہے (صنعت تلمیع)

ہوتی ہے جہاں بارش انوار الٰہی

ہر ذرہ جہاں غیرت خورشید و قمر (صنعت طباق)

V ہر نقش قدم صورت ’’والنجم‘ ہے روشن

غیرت دہ صد کا ہکشاں راہ گزر ہے (تلمیع و رعایت لفظی)

تین اشعار میں صنعت تلمیع ہے جسے ملمع بھی کہتے ہیں یہ وہ صنعت ہوتی ہے جس میں اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کی ترکیب خصوصاً عربی کی ترکیب۔ فارسی میں قرۃ العین طاہرہ نے اس صنعت میں بڑی شہرت حاصل کی مراثی ہیں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں قصائد میں بھی یہ صنعت کلام کو شعری جلالت پیدا کرتی ہے اب مثلاً پہلے شعر میں ’’واللیل‘ دوسرے شعر میں ’’والشمس‘ چوتھے شعر میں ’’والنجم‘ نے ان اشعار کو صنعت ملمع کا نمونہ بھی بنایا اور جلالت فکر بھی عطا کی، ان صنعتوں کی وجہ سے حُسن معنی ہیں چار چاند لگ جاتے ہیں۔

مشکل اور سنگلاخ زمینوں کو سامعین کے ذہنوں سے اس طرح ہم آہنگ کر دینا کہ جس رات محفل ہو دوسری صبح قصیدے کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیر کر رہے ہوں۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی مدح

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی مدح میں ان کا معرکۃ الآرا قصیدہ قبولیت عام کے عطر سے آج تک مہک رہا ہے یہ اشعار ملاحظہ ہوں

خامشی میں یوں نظام جبر کو دی ہے شکست

حلم و تقویٰ تھے علم بردار زین العابدین

طشت میں دھو دن کا ہر قطرہ بنا لعل و گہر

اللہ اللہ دست فیض آثار زین العابدین

اس پہ ہوتے ہیں ملائک اجبہ سا شام و سحر

عرش رفعت کیوں نہ ہو سرکار زین العابدین

یہ اشعار وہ ہیں جن کی لطافت خیال دلوں کو تڑپا دیتی ہے صرف ایک شرط ہے اور وہ اردو کے شعری مزاج سے باخبری یہ ایسے اشعار ہیں جن پر رگھوپتی سہائے فراق خوش ہو کر کہا کرتے تھے یہ زوار عباس ہم لوگوں کا شاعر ہے۔

منقبت کے ساتھ نعتیہ قصائد بھی لکھے ہیں ان کا مندرجہ شعر سرکار دو عالم کی مدح میں ہے اور اہل دل کے لئے بارش انوا رہے کہتے ہیں۔

حبیب کے جمال میں خود اپنا جلوہ دیکھ کر

مصور جمال کا کمال مسکرا اٹھا

یہاں بندش کی چستی اور ترکیب کی حُسن اور الفاظ کے در و بست نے اک جہاں معنی کو خلق کیا ہے۔

کہیں کہیں ایسے قصائد ملتے ہیں جہاں اساتذہ کی زمین میں طبع آزمائی گئی ہے مثلاً امام حسن علیہ السلام کی مدح میں یہ قصیدہ کا یہ شعر بے اختیار سودا کی یاد دلاتا ہے۔

نظر افروز ہے حسن ازل کی جلوہ سامانی

کہاں جاتی ہیں لیکن دیدہ حیراں کی حیرانی

ان سب محاسن پر مستزاد یہ انہوں نے اپنے عہد کے شعری مزاج کی صالح اور صحت مند اقدار کو نظرانداز نہیں کیا انہیں یہ خیال رہا کہ وہ قدیم رنگ اپنی جگہ پر حَسین اور خوبصورت صحیح لیکن مذاق عصر نو کے تقاضوں سے صرف نظر ممکن نہیں ہے ان کی شاعری کا عروج اور اسی زمانہ میں اقبال، جوش کا بلند آہنگ کلام ترقی پسند تحریک کی صدائے احتجاج ہے۔ ادبی محفلوں میں معاصر شعراء کا ساتھ ان سب نے انہیں متاثر کیا اب قصائد کے یہ اشعار دیکھئے ایسا نہیں معلوم ہو گا کہ یہ کسی اور زمانہ کا نغمہ کہتی ہے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اپنے عصر کے تناظر میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نظر نظر حق آگہی قدم قدم بلندیاں

حسین تیری زندگی پیام انقلاب ہے

نظروں میں اعتبار محبت بڑھا گئی

کس کی صدائے دل ہے کہ دنیا پہ چھا گئی

اجل کو زندگی نو کا یہ خطاب آیا

سنبھل سنبھل کہ خداوند انقلاب آیا

رخ حیات پہ سرخی تازہ دوڑ گئی

حسین آئے کہ اسلام پر شباب آیا

ان اشعار میں اک ولولہ تازہ، زندگی کی تغیر پذیر اقدار کے لئے دعوت تفہیم ہے اور نور کو عالم آب و گل میں دیکھنے کی سعی مشکور ہے۔

زوار عباس صاحب مرحوم نے قصائد کی دنیا میں اک نئی جہت کی نشاندہی کی ہے ان کا کلام یہ سمجھتا ہے کہ چراغ ہنر ا کر روشن ہوتا ہے تو پھر کبھی نہیں بجھتا وہ شاعری کے ایسے ہی روشن چراغ تھے جنہوں نے فانوس فکر کو محبت اہلیت کے نور سے منور کیا ہوسکتا ہے زمانہ کا قرینہ بدل جائے ممکن ہے زبان کا یہ سفینہ نہ رہے امکان ہے کہ تہذیب و ادب کا یہ فریضہ بھی نہ رہے لیکن ان کے چراغوں میں جو روشنی ہے وہ باقی رہے گی اس لئے کہ یہ وہ روشنی ہے جو کسی علاقہ کی پابند نہیں ، جو افق تا افق فضائے بسیط کو منور کرتی رہتی ہے۔

***

دل آگاہ کا شاعر : اکبر الہ آبادی

آپ نے الہ آباد دیکھا ہے؟

یہ درست ہے کہ آزادی کے بعد اس شہر نے وزیر اعظم دئیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا سنگم صرف گنگا جمنا کے وصال کا نام نہیں ہے بلکہ یہ شہر دلوں کا سنگم بھی ہے۔ جمنا تو بہت ساری جگہوں سے گزرتی ہے مگر جمنا کے ہونٹوں پر جس طرح الہ آباد میں غزل رقصاں نظر آتی ہے وہ شاید آگرہ میں ہو تو اور تو کہیں نہیں ہے! یہاں تو گنگا کی ہر بوند میں روایات کے سمندر نظر آتے ہیں۔ یہ شہر دل کی دھڑکنوں کا، علم کے نشے سے بوجھل آنکھوں کا، پر کیف انگڑائیوں کا شہر ہے۔

لیکن یہ شہر جو شہر گل عذاراں ہے اور جو نگارستان عیش ہے، وہیں اس شہر میں ایک ایسی سڑک ہے جس کے ہر ذرہ میں تاریخ لپٹی ہوئی ہے، سنار گاؤں سے پیشاور جانے والی شاہراہ اعظم چپ چاپ پڑی ہوئی تاریخ کے ستاروں کو طلوع و غروب ہوتے دیکھا کرتی ہے۔ وسط شہر میں اس کے کنارے داہنی طرف بہت بڑی سی مسجد ہے اور تھوڑاسا صلیبی زاویہ لئے ہوئے گرجا گھر ہے۔ مسجد کے سامنے کوتوالی ہے۔ گرجا گھر کے پاس نیم کا پیڑ اور لوک ناتھ کا تاریخی محلہ ہے۔

۱۸۵۷ ء میں یہ سڑک شہیدان وطن کے خون سے لالہ زار بن گئی تھی۔ مہنگاؤں کے مولوی لیاقت علی، قاضی محسن علی اور اسی طرح کے بہت سے سورماؤں نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ ہاں وہ شہر جہاں خسرو باغ کا سبزہ شاداب تھا اور درخت پھلوں سے لدے رہتے تھے۔ وہ شہر خون سے لالہ زار ہوا تھا اور درختوں پر بلند ہوتے ہوئے مجاہدوں کے سرنظر آئے جنہوں نے ایسے چراغ روشن کئے تھے، جن کی روشنی کو تاریخ بھی نہ دھندلا سکی۔

ایسے میں تصور کیجئے! بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا متوسط طبقہ کا! ان واقعات کے بارے میں سنتا ہو گا تو اس پر کیا کچھ نہ گزرتی ہو گی۔ کیا اس نے یہ نہ سوچا ہو گا کہ الہ آباد میں اکبر کا بنوایا ہوا قلعہ اور اب دھیرے دھیرے اس شہر کی تاریخ کا سہاگ چھن گیا ہے۔ وہ سر برہنہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئی ہے۔

یہ لڑکا اپنے ہم نام کو تو ضرور یاد کرتا ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس لٹی ہوئی بساط، اجڑی ہوئی محفل اور نفسیاتی طور پر کچلی ہوئی شخصیت کو یقیناً کچھ ہی دنوں بعد قفس کی تیلیاں نشیمن کے تنکوں سے زیادہ اچھی لگنے لگی ہوں گی۔

ایسے میں اگر کہیں پناہ مل سکتی تھی تو پھر شعر و نغمہ کی محفلوں میں ہی مل سکتی تھی اس لئے ادبی وراثت کے طور پر غزل کا جادو مسحور کرنے لگا۔ کوٹھوں پر رقص، گھنگھروؤں کی جھنکار، طبلوں کی تھاپ اور نازو انداز کے ساتھ سنائی جانے والی غزلیں گونجنے لگیں۔

شعر و سخن کا ماحول، روایات کی پاسداری، طبع موزوں۔ چنانچہ سترہ سال کی عمر میں غزل لکھی تو اس طرح کے شعر کہے

چشم عاشق سے گرے سخت دل بیتاب و اشک

آپ یوں دیکھتے تماشا جان کر سیماب و اشک

یہ قافیہ پیمائی یا فنی لوازم کی پابندی بہت دنوں تک ساتھ رہی۔ بائیں برس کے ہوئے تو ایسے شعر کہہے

لکھا ہوا ہے جو رونا میرے مقدر میں

خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف

یہ شعر پڑھنے کے بعد ذرا اکبر کی بعد کی شعری زندگی کے ایک رخ کے بارے میں سوچئے۔ وہ جس کا خیال تک ہنسی کی طرف نہ جاتا تھا۔ زیادہ تر ہنساتا ہی رہا اور دراصل اس کا سبب تھا۔

اعجاز صاحب بتاتے تھے کہ اکبر کا قد ’’فتنہ‘ یعنی قلیل تھا، اس پر شکل و صورت کے اعتبار سے نہ صرف یہ کہ جاذبیت نہ تھی بلکہ کچھ بے ڈھنگے پن کیا احساس ہوتا تھا اس طرح کی شخصیت عموماً احساس کمتری کا شکار ہوتی ہے۔

یہ ذاتی احساس کمتری جب ماحول کے جبر سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو کھیائی ہوئی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ دراصل طنز، استہزاء اور تمسخر، کھسیاہٹ کی پیداوار ہیں۔ سیاسی طور پر ہندوستان کی صورتحال جو کچھ تھی وہ اپنی جگہ پر۔ تہذیبی طور پر اتنی زبردست یلغار ہوئی تھی کہ اپنے گھر کی کوئی چیز بچتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اپنے گھر میں خود اجنبی ہو رہے ہیں۔ تہذیبی طور پر ایک حساس دل ویسی ہی کیفیت سے دوچار تھا۔ جیسی کیفیت اس لڑکے کی ہوتی ہے جو اپنے سے طاقتور سے پٹ جانے کے بعد اسے چونچ دکھا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔

اکبر کے یہاں بھی دراصل یہی کیفیت ہے، اسے طنز و مزاح نہیں اعلان بے بسی سمجھئے جو کچکچلاہٹ اور کھسیاہٹ کا رد عمل ہے۔ چنانچہ اکبر کی شعری شخصیت کا وہ رخ جسے عرف عام میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری کہا جاتا ہے۔ دراصل مغربی یلغار کو چونچ دکھانے کے مترادف تھا۔

اکبر بے حد ذہین اور حساس تھے۔ اپنی شعری روایات سے باخبر تھے۔ انہیں یقیناً یاد رہا ہو گا کہ انشاء نے دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی کے الفاظ کھپا کر صنعت ملمع کے سہارے سے ایک بے تکی شکل بنا کے گدگدایا ہے۔ اکبر نے بھی اپنے گرد و بیش سے اثر لیتے ہوئے نئی تیز روشنی میں بسورتے ہوئے، منھ بناتے ہوئے لیکن آنکھیں بند کر کے لفظی پتھراؤ شروع کر دیا۔

البتہ جب کبھی انہیں فرصت ملتی تھی وہ غزل کے آہوئے رم خوردہ سے گفتگو کر کے اپنی وحشت کم کر لیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے اشعار کی نصف سے کچھ کم تعداد غزلوں کی ہے۔ ان کی غزلیں مشرق شعری روایات کی پاسدار ہیں لیکن کہیں کہیں ایک نیا راستہ بھی تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان غزلوں میں بالکل نئی دنیا ہے۔ عشق کی دنیا اور یہ عشق حقیقی بھی ہے اور مجازی بھی۔ مجازی عشق میں کہیں کہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یسے ذاتی تجربات میں جو اشعار میں ڈھل گئے ہیں۔ یہاں وہ ’’مسٹر۔ سسٹر‘ والے اکبر نہیں ہیں بلکہ ایک معصوم صفت بھولے بھالے مگر ’’پورے‘ آدمی ہیں جو رنگینیوں پر پھسل جاتا ہے۔ انگڑائیوں سے جس کا بدن ٹوٹتا ہے جو کسی ندیدے بچے کی طرح مٹھائی دیکھ کر منھ بھی چلنے لگتا ہے اور موقع محل دیکھ کر مٹھائی پار بھی کر جاتا ہے۔ ان کے کلام کے اس رخ پر امیر و داغ کے اثرات ہیں ، کسی حد تک ان کی بے حجابی ہے مگر ان کا پھوہڑ پن نہیں ہے۔ داغ و امیر کا عشق ’’باریش‘ کچھ اس انداز میں بھی آتا ہے کہ شرافت ’’شر‘ اور ’’آفت‘ میں بدل جاتی ہے۔ شیخ اور واعظ میں یہی شرافت ہے۔ اس پر شوخ طنز دیکھئے

دل بھی کانپا ہونٹ بھی تھرانے، شرمایا بھی خوب

شیخ کو لیکن تیری مجلس میں پینا ہی پڑا

نا تجربہ کاری سے واعظ کی ہیں یہ باتیں

اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے

جلیل مانک پوری نے میخانے کی دنیا بہت بعد میں اس انداز سے سجائی تھی جہاں توبہ شکنی بھی تھی اور بادل کا رنگ دیکھ کر نیت بھی بدل جاتی تھی۔

لیکن اکبر رنگ شراب سے ہی نیت بدل لیتے ہیں

رنگ شراب سے میری نیت بدل گئی

واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی

اور جب ذکر شراب ہے تو پھر شباب کے بھی تقاضے ہیں۔

نگاہ ناز بتاں پر نثار دل کو کیا

زمانہ دیکھ کے دشمن سے دوستی کر لی

بیان حور اور ذکر سلسبیل اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ جوانی تھی اور عقیدہ عشرت امروز کا تھا۔ کبھی داغ کا رنگ ابھر آتا ہے تو کہتے ہیں

زبان و چشم بتاں کا نہ پوچھئے عالم

وہ شوخیوں کے لئے یہ نہیں حیا کے لئے

اکبر اس رنگ کے ساتھ غزل میں حسن مکالمہ کے قائل ہیں۔ مکالمہ ڈرامائیت تو پیدا کرتا ہی ہے، شاعر کے جذبات کو قاری کے بھی قریب لے آتا ہے، جو اشعار پیش کئے جا رہے ہیں ان میں یہ غور نہ کیجئے کہ شوخی، بے حجابی کی سرحدوں پر کھڑی ٹھٹھا لگا رہی ہے بلکہ صرف یہ سوچئے کہ جب دنیا جوان ہوتی ہے تو عشق کرنا ہی پڑتا ہے اور جب عشق ہوتا ہے تو کچھ اس طرح کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔

’’دل میں جو ہے وہ ہو گا شب وصل میں ضرور؟‘

ہو گا حضور آپ کی شرم و حیا سے کیا

میں حال دل تمام شب ان سے کہا کیا

ہنگام صبح کہنے لگے کس ادا سے ’’کیا‘

آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں

بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے

اکبر نے بھی غزل کی روایات کے مطابق بوسہ کو عشق کی منزلِ اولیں قرار دیا ہے ان کے یہاں بوسہ بے اذن، بوسہ بالجبر، بوسہ با رضا، بوسہ زلف، بوسہ رخ، بوسہ لب، بوسہ قدم ملتا ہے۔ بوسہ زلف کا ذکر کچھ زیادہ ہے۔ کچھ شعر ملاحظہ ہوں :

اس بت نے کہا بوسہ بے اذن پہ ہنس کر

بس دیکھ لیا آپ کا ایمان یہی ہے

کیوں زلف کا بوسہ مجھے لینے نہیں دیتے

کہتے ہیں کہ واللہ پریشاں نہ کریں گے

مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی زلف کا بڑا خیال ہے کہ وہ برہم نہ ہو۔ وعدہ کیا جاتا ہے کہ بوسہ دو تو زلفیں پریشاں نہ ہونے پائیں گی۔ دراصل یہ بہت باسلیقہ بوسہ ہے کہ جس میں زلف پریشاں ہو۔ بوسہ کبھی اضطراری اور کبھی ارادی بھی ہوتا ہے، کبھی والہانہ ہوتا ہے۔ دراصل بوسہ اعتراف حُسن کا دوسرا نام ہے اکبر اس اہم نکتہ کو سمجھاتے ہیں۔

لیا ہم نے بوسہ رخ تو نہ بدگماں ہو اے جاں

کوئی پھول دیکھ لیتے تو اسے بھی پیار کرتے

پیار کی یہ کیفیت مزاج یار میں برہمی نہیں پیدا کرتی۔ مکالمہ کا لطف لیتے ہوئے ان اشعار پر بھی غور کیجئے

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر

ہنس کے کہنے لگے اور آپ کو آتا کیا ہے

کہا جو میں نے کہ دل چاہتا ہے پیار کروں

تو مسکراکے وہ کہنے لگے کہ ’’پیار کے بعد؟‘

کچھ آج علاج دل بیمار تو کر لیں

اے جان جہاں آؤ ذرا پیار تو کر لیں

ان کے محبوب کے پاس کہیں بھی غصہ نہیں ہے بلکہ عموماً وہ ہنس کے ہی گفتگو کرتا ہے اور اس کا انداز یہ ہے

کس ناز سے کہتا ہے شب وصل وہ ظالم

برہم نہ کرے گیسوؤں کو پیار تمہارا

روایتی معاملہ بندی کے اشعار ان کے یہاں اکثر ملتے ہیں ، ان میں فحاشی تو نہیں ہے لیکن پڑھئے تو زہد و تقویٰ کا بدن ٹوٹنے لگتا ہے۔ جذبات انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔

محروم ہی رہ جاتی ہے آغوش تمنا

شرم آ کے چرا لیتی ہے سارا بدن ان کا

یہ انتہاجیت، یہ نشاطیہ رنگ، یہ انگڑائیوں اور بدن چرا لینے کا تذکرہ یا کچھ لوگوں کی زبان میں ارضیت اور جنسیت فراق صاحب سے بہت پہلے سے موجود تھی۔ اس کا سلسلہ تو محمد قلی سے شروع ہوا تھا۔ اکبر نے اس میدان میں بھی چونکا دیا تھا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ ان کے ’’مسٹر‘ اور ’’سسٹر‘ کے چکر میں ادھر نظر ہی نہیں گئی۔

انہیں اس کا احساس ہے کہ انسانی زندگی میں جنس ناگزیر حیثیت رکھتی ہے، اس سے کون بچ سکتا ہے! کہتے ہیں۔

موسیقی و شراب و جوانی و حُسن و ناز

بچتا ہے کون اور خدا بھی بچائے کیوں

ٹک ٹکی بندھ گئی ہے بوڑھوں کی

دیدنی ہے تیرے شباب کا رنگ

یہ عمر، یہ جمال یہ جادو بھری نگاہ

پھر واعظوں کا اس پر یہ کہنا کہ ’’باز رہ‘

حضرت امام محمد باقر عليه‌السلام اور سیاست

امامعليه‌السلام کے زمانہ امامت میں بنی امیہ کے دو ایسے خلیفہ گزرے کہ جنہوں نے حکومت اسلامی میں علم کی ترویج کی۔ ولید بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز ۔ولید بن عبدالملک چونکہ خود زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا اس لئے شاید اپنی کمزوریوں پر پر دہ ڈالنے کے لئے علوم و فنون کی ترویج کی۔ لیکن عمر بن عبدالعزیز نے دانستہ طور پر حکومت اسلامی میں علمی شخصیات کو رائج کیا۔

ان خلفاء کی وجہ سے امام محمد باقرعليه‌السلام نے حالات کو بہتر جانا کہ ایسے ماحول میں تعلیمات اسلام کو جو کہ ۱۰۰ سالہ دور میں مسخ ہو کر رہ گئی تھیں دوبارہ زندہ کیا جائے۔

ٍ اس تھوڑے سے عرصے میں ان خدمات کا ذکر نہیں کر سکتا کہ جو حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام نے انجام دیں لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ عظیم اسلامی مدرسہ جس میں شاگردوں کی تعدادچار ہزار تک پہنچی اور امام جعفر صادقعليه‌السلام نے اپنے زمانہ میں چلا یا وہ حضرت امام باقرعليه‌السلام کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

اس زمانہ کے خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے حضرت سے واپسی پر مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ امام باقرعليه‌السلام اور ان کے فرزند جعفر بن محمدعليه‌السلام کو شام کی طرف روانہ کر دو۔

حضرت مجبوراً اپنے فرزند ارجمند کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے اور دمشق پہنچے ہشام نے اپنا جاہ و جلال دکھانے کے لئے تین دن تک امامعليه‌السلام کو ملاقات کی اجازت نہ دی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تین دن تک امام کی عظمت کو کم کر نے کے حربے سوچتا رہا اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب امامعليه‌السلام دربار میں داخل ہوں تو ان کے سامنے تیز اندازی کا ایک مقابلہ کرایا جائے اور امامعليه‌السلام کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی جائے اور اس طرح جب امامعليه‌السلام شکست کھا جائیں گے تو اہل دربار اس بات کا چرچا پورے شام میں کر دینگے ۔ جب امامعليه‌السلام دربار میں داخل ہوئے تو خلیفہ کے کچھ افراد تیر اندازی میں مشغول ہو گئے امامعليه‌السلام دربار میں تشریف فرما ہوئے کچھ دیر بعد خلیفہ نے امامعليه‌السلام کی طرف رخ کر کے کہا کہ کیا تیر اندزی کے مقابلے میں شرکت کر نا پسند کریں گے۔

امامعليه‌السلام نے جواب میں فرمایا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میرا تیر اندازی کا وقت گذر چکا ہے امام کا جواب سن کر تو خلیفہ کا اصرار اور بڑھ گیا اور خلیفہ نے امامعليه‌السلام کی طرف تیر کمان بڑھانے کا اشارہ کیا امام نے بھی بلاجھجھک تیر کمان لے لیا، پہلا تیر چلایا جو سیدھا نشانہ پر لگا دوسرا چلایا جو پہلے تیر کو چیرتا ہوا ہدف پر لگا تیسرا تیر چوتھا تیر یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے یکے بعد دیگرے نو تیر چلائے جو سب کے سب ہدف پر لگے یہ منظر دیکھنے کے بعد تمام درباری اور خلیفہ انگشت بدندان رہ گئے تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش و ہواس بر قرار ہوئے تو خلیفہ نے امامعليه‌السلام کو مخصوص جگہ پر بیٹھنے کی دعوت دی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا کہ جعفر (حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام ) بھی آپ کی طرح تیر اندازی جانتے ہیں؟

امامعليه‌السلام نے جواب میں فرمایا:

"ہمارا خاندان اکمال دین اور اتمام نعمت کو جو الیوم اکملت کی آیت میں آیا ہے ایک دوسرے سے ارث میں لیتے ہیں اور زمین ہر گز ایسے افراد سے خالی نہیں رہے گی"۔(حمد بن جدید بن رستم الطبری۔ دلائل امامہ نجف منشورات المطبوعة الحیدریہ ۱۳۸۳ ھ (منشورات الرضی قم) صفحہ ۱۰۵)

دوسرا واقعہ عیسائیوں کے پادری کے ساتھ مناظرہ ہے کہ جب آپعليه‌السلام دربار سے نکل کر واپس جانے لگے تو دیکھا بہت سے افراد مجمع لگائے کسی کا انتظار کر رہے ہیں پوچھا تو معلوم ہوا کہ عیسائی ہیں جو کہ مختلف مقامات سے آئے ہیں اور اپنے مسائل کا حل لینے کے لئے پادری کے انتظار میں ہیں حضرت بھی ان افراد کے مجمع میں بیٹھ گئے جب پادری آیا تو اس کی توجہ حضرت کے نورانی چہرہ کی طرف مبذول ہوئی پوچھا مسلمانوں ہو یا عیسائی جواب ملا کہ مسلمان نادانوں میں سے نہیں ہوں پادری نے پوچھا پہلے میں سوال کروں یا تم امامعليه‌السلام نے فرمایا اگر چاہتے ہو تو سوال کرو پادری نے پوچھا کس وجہ سے مسلمان کہتے ہیں کہ اہل بہشت کھانا کھائیں گے لیکن ان سے کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہو گی کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے۔

امامعليه‌السلام نے جواب میں فرمایا: اس کی روشن مثال ماں کے رحم میں بچہ کی ہے جو غذا کھاتا ہے لیکن کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہوتی ۔

پادری نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا تم نے کہا تھا کہ دانشمندوں میں نہیں ہوں۔

امامعليه‌السلام نے فرمایا: کہ میں نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا تھا کہ نادانوں میں سے نہیں ہوں۔

پادری نے کہا ایک اور سوال ہے امامعليه‌السلام نے فرمایاپوچھو اس نے کہا کس دلیل کی بنا پر کہتے ہو کی جنت کی نعمتوں میں جتنا خرچ کیا جائے کم نہیں ہو گا دنیا میں اس کی کوئی مثل ہے امامعليه‌السلام نے فر مایا ہاں ہے اس زمانہ میں اس کی روشن مثال آگ کی ہے اگر ایک چراغ کی لو سے ایک ہزار چراغ بھی جلا لو تو اس کی روشنی کم نہیں ہو گی۔

پادری نے جتنے سوال تھے کر ڈالے اور سب کے جواب حاصل کر لئے اور جب اپنے آپ کو عاجز دیکھا تو غصہ کر کے چلا گیا۔

اس واقعہ کے بعد اہل شام میں خوشی کا احساس پھیل گیا اور امام کا معنوی اثر بڑھ گیا ہشام نے امامعليه‌السلام کو تحفے تحائف بھیجے اور چونکہ امامعليه‌السلام کے معنوی اثر سے پریشان تھا اس لئے خط لکھا کہ آپ آج ہی مدینہ کے لئے روانہ ہو جائیں۔

امام جعفر صادق عليه‌السلام اور سیاست

امام جعفر صادقعليه‌السلام کے زمانے میں بنی امیہ اور بنی عباس اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے والد بزرگوار حضرت امام باقرعليه‌السلام نے اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ دونوں نے اس زمانے میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

اس یونیورسٹی کا مقصد خالص اسلام کی ترویج تھا اس کے ساتھ ساتھ امام صادقعليه‌السلام نے اپنے زمانے کے خلیفہ کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت اور معاشرے کی رہبری ہمارا حق ہے۔

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے منصور دوانیقی کے زمانے میں جب کہ بنی عباس اپنی حکومت قائم کر چکے تھے لیکن حکومت کو مضبوط کر نے کے لئے ہر مخالف کو تہہ تیغ کر رہے تھے۔ حضرتعليه‌السلام نے اس وقت بھی اپنے اقوال کے ذریعے سے خلیفہ تک یہ بات پہنچائی کہ حکومت اور معاشرے کی قیادت ہمارا حق ہے اس کے ساتھ ساتھ امام جعفر صادقعليه‌السلام نے ان شیعان حید ر کرار کو جو ظلم و ستم کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کوئی الگ چیز ہے اور دین ایک دوسری چیز، ان کے لئے بھی یہ بات واضح کر دی کہ حکومت حق ولایت ہے اور ولایت فقط ہمارے لئے ہے مثال کے طور پر امامعليه‌السلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ:

اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے نماز، زکوة ، حج، روزہ، اور ولایت۔

زرارہ نے امامعليه‌السلام سے سوال کیا ان میں سے بر تر کون سی چیز ہے؟

امامعليه‌السلام نے بلا جھجھک فرمایا:

"ولایت بر تر ہے کیونکہ ولایت تمام چیزوں کی چابی ہے اور حاکم، لوگوں کو ان کی طرف راہنمائی کر تا ہے"

(وسائل الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۸۰۷)

کس وضاحت کے ساتھ امامعليه‌السلام نے ان افراد کو جو کہ یہ سوچتے ہیں کہ دین اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں یہ ثابت کر دیا کہ دین کا اجراء اور اس کا کمال حکومت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، حکومت ہی ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ دین کا اجراء کماحقہ کر ے حکومت ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ قدرت عطا کرتی ہے کہ وہ دین کے خلاف ہو نے والی ہر سازش کو ختم کر دے اس لئے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہر ظالم و فاسق شخص خلافت کے عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا متقی اور پر ہیز گار ہو نا ضروری ہے۔

اسی زمانے میں جب کچھ علماء نے بنی عباس کی حکومت کو اپنے فائدے حاصل کر نے کے لئے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کی اور لوگوں کو سمجھانا چاہا کہ یہ حکومت صحیح ہے تو امام جعفر صادقعليه‌السلام نے اس کے خلاف بھی اپنا جہاد شروع کیا اور اپنے اقوال کے ذریعے سے ایسے علماء کی مذمت کی جو ظالم اور جابر حکمرانوں کے دربار میں زندہ لاشوں کے عنوان سے جاتے تھے امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

فقہاء انبیاء کے نمائندہ ہیں اور جب بھی یہ فقہاء سلاطین کے دربار کے چکر لگا نا شروع کر دیں تو ان کو متہم کر و (یعنی اس کے صحیح عالم ہونے کے بارے میں شک کرو۔)(کشف الغمہ جلد ۲ صفحہ ۱۸۲)

کبھی امامعليه‌السلام نے اپنے درسوں میں یا اپنی تقریروں میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ حدیث نقل کر نی شروع کر دی کہ:

"فقہاء اس وقت تک انبیاء کے نمائندہ ہیں جب تک دنیا ان پر حاوی نہ ہو جائے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دنیا کب حاوی ہو گی تو فرمایا ظالم سلطان کی اطاعت کے وقت اور جب بھی تم ایسا دیکھو تو اپنے دین کو ان سے جداکر لو" (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۲)

ایک دفعہ امام صادقعليه‌السلام بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ عذافر دوکان پر کھڑے کچھ خرید رہے ہیں امامعليه‌السلام نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا عذافر سنا ہے کہ ابو ایوب اور ربیع (خلیفہ کے دو وزیر) کے لئے کام کر رہے ہو یاد رکھو قیامت کے دن تمہارا حال ان دو جیسا ہو گا سوچو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم کو ظالم کی مدد کر نے والے کے نام سے آواز دے کر بلایا جائے گا یہ سنتے ہی عذافر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

امامعليه‌السلام نے پھر فرمایا کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا فقط اسی چیز سے ڈرا رہا ہوں جس سے خدا وند نے مجھ کو ڈرایا ہے۔

یہ کہنے کے بعد امامعليه‌السلام آگے چل دئیے عذا فراس قدر متاثر ہوئے کہ کہتے ہیں کہ آخر عمر تک غمگین و افسردہ رہے۔ (وسائل الشعیہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۸)

امام نے سربازار اپنے ماننے والے کی مذمت کر نے کے لئے اور ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے یہ بات کہی یقینا امامعليه‌السلام یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ جو افراد اطراف میں کھڑے ہوئے ہیں وہ بھی یہ بات سن لیں کہ ظالم کی مدد کر نا ایسا ہی ہے جیسا کہ خود ظلم کر نا۔

ایک اور موقعہ پر امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

"جو کوئی یہ چاہے کہ ظالمین باقی رہیں وہ ایسے ہے کہ جیسے وہ چاہتا ہو کہ خدا کی معصیت اور نافرمانی ہو تی رہے۔

(وسائل شعیہ جلد ۲ صفحہ ۱۳۰)

ان اقوال کے ذریعے سے امامعليه‌السلام لوگوں کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے شیعہ یا ہمارے ماننے والے ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے کہ ہم ان ظالموں کو اقتدار سے ہٹا دیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھ جائیں نہیں بلکہ ہمارا جہاد ظالموں سے جاری ہے اور وہ زبان کے ذریعے سے ہے جس کو ختم کر نے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ ہماری زبانوں کو کاٹ دیا جائے۔

امام صادقعليه‌السلام ہی کے زمانے میں بنی عباس کی حکومت کے قیام کے بعد لوگوں میں یہ باتیں کی گئیں کہ اگر یہ حکومتیں صحیح نہیں ہیں تو کم از کم ان کے ساتھ مل کر لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام تو کیا جا سکتا ہے ۔ بہت سے سادہ لوح افراد اس دھوکہ میں آگئے اور حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ امامعليه‌السلام نے حکومت کی اس حکمت عملی کو بھی فقط اپنے اقوال کے ذریعے سے شکست دی امامعليه‌السلام نے ایک موقعہ پر ایک چھوٹا سا جملہ ارشاد فرمایا کہ

"حتیٰ مسجد کی تعمیر میں بھی ظالموں کی مدد نہ کرو"۔

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۴)

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام نے معاشرے میں پھیلے ہوئے ان افراد کی بھی مذمت کی جو دولت کے لالچ میں جانتے ہوئے بھی کہ یہ حکمران غاصب اور ظالم ہیں ان کی مدح و سرا میں مشغول تھے۔

امام گرامی قدر فرماتے ہیں کہ:

"اگر کوئی ظالم حکمرانوں کی مدح کر ے اور اس کی دولت کے لالچ میں عزت کر ے تو وہ شخص اسی ظالم کا پڑوسی ہوگا آخرت میں"۔

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۳)

لمحہ فکر یہ ہے ہم لوگوں کے لئے کہ آج ہم اگر کسی ایسے شخص کی مدح کریں کہ جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ظالم ہے لیکن کیونکہ وہ ہمارے ذاتی حقوق ہم کو دلادے گا یا پھر ہم کو کسی اچھی جگہ نوکری دلوا سکتا ہے اور ہم اس ظالم شخص کی مدح شروع کر دیں تو یاد رکھئے کہ ہماری جگہ بھی دوزخ میں ہو گی۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ائمہ (علیہم السلام) بار بار لوگوں تک یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ حکومت اور ولایت ہمارا حق ہے اور ہم ہی اس منصب کے اہل ہیں۔ اسی ضمن میں امامعليه‌السلام کی بھی سیاسی حکمت عملی کا تقاضہ یہی تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ اول اسلام سے لے کر انتہا تک جتنے بھی خلیفہ آئیں گے اگر وہ ہمارے علاوہ کوئی ہو تو غاصب ہے۔ ان نظریات کا اظہار ایسا تھا جیسے شیر کے منہ سے شکار چھین لینا امامعليه‌السلام نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے بیانات اس طرح سے دیئے کہ افراد تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ اس طرح سے ہوا کہ اس زمانے میں لوگ بنی امیہ یا بنی عباس کے خلفاء کو امیرا لمومنین کہہ کر پکارتے تھے ایک شیعہ نے آپ سے سوال کیا کہ کیا امام قائم (عج) کے ظہور کے بعد ان کو امیر المومنین کہہ کر سلام کر سکیں گے؟

امامعليه‌السلام نے اس سوال کے جواب میں ایک پورا نظریہ دیااور فرمایا:

"یہ نام مخصوص ہے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبعليه‌السلام سے ان سے پہلے نہ کسی کو اس نام سے پکارا گیا اور نہ ان کے بعد کسی کو اس نام سے پکارا جائے گا مگر کافر"۔

(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۱۳)

امامعليه‌السلام نے کمال صراحت سے یہ بات لوگوں تک پہنچاد ی کہ جو بھی اپنے آپ کو امیرالمومنین کہلوائے وہ کافر ہے۔

اپنے آخر ی دور میں بھی امامعليه‌السلام نے سیاسی نزاکتوں کو سمجھااور اس کے توڑکے مطابق عمل کیا۔ منصور دوانیقی نے آپعليه‌السلام کو بے انتہا پریشانیوں میں مبتلا کیا اور کئی مرتبہ آپعليه‌السلام کو قتل کر نے کی دھمکی دی آپعليه‌السلام نے منصور دواینقی کی ان ہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وصی کی جان بچانے کے لئے ایک اور سیاسی حربہ استعمال کیا ۔

امام صادقعليه‌السلام نے اپنی وصیت میں اپنے پانچ وصی مقرر کئے۔

۱ ۔ ابو جعفر منصور دوانیقی خلیفہ وقت

۲ ۔ محمد بن سلیمان (مدینہ کا گورنر )

۳ ۔ عبداللہ افطح (آپعليه‌السلام کے فرزند)

۴ ۔ موسیٰ بن جعفر(آپعليه‌السلام کے فرزند)

۵ ۔ حمیدہ (آپعليه‌السلام کی زوجہ محترمہ)

البتہ یہ وصیت جیسا کہ پہلے عرض کیا سیاسی تھی کیونکہ امام صادقعليه‌السلام کے وصی اور جانشین امام موسیٰ کا ظمعليه‌السلام تھے۔

جب امامعليه‌السلام کے انتقال کی خبر منصور کو ملی تو اس نے اپنے ایک وزیر کو بلایا اور کہا کہ والی مدینہ کے نام خط لکھو۔

"یہ خط والی مدینہ محمد بن سلیمان کے لئے خلیفہ وقت منصور کی طرف سے ہے اگر جعفر بن محمد نے کسی خاص شخص کو اپنا وصی بنایا ہو تو اس کو اپنے پاس بلاؤ اور اس کا سر تن سے جدوا کر دو"۔

یہ خط والی مدینہ کے پاس پہنچا تو اس کا جواب کچھ یوں آیا کہ جعفر بن محمد نے پانچ افراد کو اپنا وصی بنایا ہے۔

۔ منصور دوانیقی۱

۲ ۔ محمد بن سلیمان

۳ ۔ عبداللہ افطح

۴ ۔ موسیٰ بن جعفر

۵ ۔ حمیدہ۔ (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۳۱۰)

جب منصور کو یہ خط ملا تو اس نے کہا کہ

"میرے پاس ان افراد کو قتل کر نے کا کوئی راستہ نہیں "۔

(اعلام الوری صفحہ ۱۹۰)

ٍ اس کے علاوہ امامعليه‌السلام نے ایک اور وصیت بھی کی کہ میری وفات کے سات سال بعد تک حج کے ایام میں عزاداری امام حسینعليه‌السلام کی جائے اور اس عزاداری کے لئے آپعليه‌السلام نے اپنے مال کا کچھ حصہ مقرر فرمایا۔

یہ وصیت بھی سیاسی تھی کیونکہ ان مجالس کے ذریعے سے دوسرے افراد امامعليه‌السلام کی مظلومیت سے با خبر ہوتے اور ان کو پتہ چلتا کہ کس طرح امامعليه‌السلام پر ظلم ہوئے ہیں اور جب اس کے ذریعے ان کے دل اماموں کی طرف مائل ہوتے اور وہ ائمہعليه‌السلام کی زندگی کے بارے میں جستجو کر تے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگ باطل حکومت سے دوری اختیار کرتے اور صالح افراد لوگوں کے امور کو سنبھالتے۔

امام موسیٰ کاظم عليه‌السلام اور سیاست

امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام کا زمانہ امامت ۳۵ سال پر محیط تھا اور اس دوران چار عباسی خلیفہ گزرے جن میں سے ہارون رشید نے سب سے زیادہ خلافت کی اور اسی خلیفہ نے امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی اور سب سے زیادہ پریشان کیا لیکن اسکے باوجود امامعليه‌السلام کو جب بھی فرصت ملتی آپ حکومت کے خلاف سر گرم عمل ہوجاتے۔

امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام کی زندگی کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آگ کی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کراوں کہ ائمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی میں آپ کو اکثر واقعات بار بار پڑھنے کو ملتے ہیں اسکی وجہ یہ کہ ائمہ (علیہم السلام)کی سیاسی زندگی تقریباً ایک جیسی تھی کیونکہ ہر خلیفہ وقت کا ہدف ایک تھا اور وہ یہ کہ ان شخصیات کو کسی نہ کسی طرح لوگوں سے جدا کردیا جائے۔یہ شخصیات عوام سے اپنا رابطہ مضبوط نہ کرسکیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

اس کے مقابلے میں ائمہ (علیہم السلام)کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح راستے کی نشاندہی کردی جائے ان کو کمال کا راستہ بتادیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ائمہ (علیہم السلام)نے کبھی بھی حکومت کو اپنے اور عوام کے درمیان روکاوٹ نہ بننے دیا ائمہ (علیہم السلام)نے چھوٹی ملاقاتوں میں جزئی مسائل کے جواب میں بھی لوگوں کی ہدایت فرمائی جیسا کہ پہلے امام صادق کا امیرالمومنین کے نام والا قصہ بیان کیا گیا کہ جس میں امام صادق نے ایک جزئی مسئلہ پر ایک کلی موضوع کوبیان کیا۔ان تمام اہداف اور مقاصد میں ائمہ (علیہم السلام)کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عوام کو بتایا جائے کہ یہ حکومت غیر قانونی ہے۔یہ خلیفہ غاصب ہیں اور اس منصب کے حق دار نہیں ہیں۔

امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام کی زندگی میں بھی ہمیں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں جو کہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے سلسلے میں تھے۔مثال کے طور پر امام موسیٰ کاظم کا ایک ماننے والا جن کا نام صفوان تھا ان کے پاس اس زمانے میں اونٹ ہوا کرتے تھے جس کو وہ قافلے والوں کو کرائے پر دیتے تھے ایک دفعہ حج کے زمانے میں ہارون رشید نے ان اونٹوں کوکرائے پر لیا امام کوجب اسکی خبرملی تو امام نے صفوان کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر دئیے ہیں صفوان نے کہا جی مولا۔

امام نے فرمایا کہ پھر تو ضرور تمہاری یہ دعا ہوگی کہ جب تک اونٹوں کا کرایہ نہ مل جائے ہارون رشید اور اس کے دربار والے زندہ رہیں؟ صفوان نے جواب دیا جی مولا۔

امامعليه‌السلام نے فرمایا:

"جو بھی ان کی بقاء کی دعا کرے گا وہ ان میں سے ہے اور جو ان میں سے ہے اسکا ٹھکانہ جہنم ہے"

صفوان نے جب یہ سنا تو چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا توبہ کی اور اپنے اونٹ کسی کو بیچ دئیے

ہارون رشید کوجب اس کی خبرملی تو ہارون نے کہا کہ اگر صفوان سے پرانی دوستی نہ ہوتی تو اس کو پھانسی پر لٹکا دیتا۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۱ ۔ ۱۳۲)

اسی کے ذیل میں امام صادق اور امام کاظمعليه‌السلام کا ایک واقعہ ذکر کروں گا اور پھر جو چیز مقدمہ کے طور پر عرض کی گئی اس سے متعلق کچھ نتیجہ اخذ کریں گے۔

ایران کے شہر کا گورنر نجاشی تھا جو کہ شیعان اہل بیت میں سے تھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر اور پریشان ہوکر امام صادقعليه‌السلام کو خط لکھا اور اس میں حکومت کے ظلم وستم اورخلیفہ کی زیادتیوں کے بارے میں لکھا اور آخر میں امام سے درخواست کی کہ:

"میں یہ گورنری چھوڑنا چاہتا ہو ں کیونکہ ڈرتاہوں کہ میری آخرت کا کیا ہوگا آپ مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس مقام کو چھوڑدوں"

امامعليه‌السلام نے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

تمہارا خط ملنے سے مجھے خوشی بھی ہوئی اور میں پریشان بھی ہوا خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ:

"خدا سے امیدوار ہوں کہ خدا تمہارے ذریعے سے آل محمدکے بے آسرالوگوں کوپناہ دے آل محمد کے بے بس لوگوں کو تمہارے ذریعے سے عزت دے آل محمد کے غریب لوگوں کو تمہارے ذریعے سے غنی کرے، ضعیف لوگوں کو قوی کرے اور دشمن کی آگ کو ان کی نسبت تمہارے ذریعے سے کم کرے"

میری پریشانی کا سبب یہ کہ:

"سب سے چھوٹی چیز جس کی وجہ سے میں پریشان ہو ں وہ یہ ہے کہ خدا نہ کرے کہ تم ہمارے دوستوں میں سے کسی سے بھی برا سلوک کرو اور اسکے نتیجہ میں خطیرہ القدس کی خوشبو سے بھی محروم ہوجاو"(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۲)

امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام کے ماننے والوں میں علی بن یقطین نامی ایک شخص تھا جو کہ خلیفہ کے دربار میں وزیرتھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام کو ایک خط لکھا کہ:

"خلیفہ کے ظلم وستم کی انتہا ہوچکی ہے میری برداشت سے باہرہے یہاں پر مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے میں روز قیامت کے حساب وکتاب کے بارے میں سوچ کر اور پریشان ہوجاتا ہوں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہاں سے فرار ہوجاوں اور کہیں چھپ جاوں۔"

امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام نے اسکے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

"تم کو اجازت نہیں دوں گا کہ تم اس کام کو چھوڑدو جوکہ تم انکے دربار میں انجام دے رہے ہو بس خدا کو مت بھولنا"

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۴۳)

اگر ہم پچھلے صفحوں پر ایک نظر ڈالیں تو ہم کو ایسے واقعات نظر آئیں گے کہ جس میں ائمہ (علیہم السلام)نے اپنے ماننے والوں کو خلفاء سے رابطہ برقرار کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن ان دو واقعات کی طرف نگاہ ڈالیں تو امام صادقعليه‌السلام اور امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام گورنر اور وزیر کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ حکومت چھوڑدیں وہ شخص جس نے اپنے اونٹ فقط کرائے پردے رکھے ہیں اس کواتنی مہلت بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنے اونٹوں کا کرایہ لینے تک انتظار کرلے یا اگر کوئی کسی ذریعے سے وزیروں کے لئے کام کررہا ہے تو فرماتے ہیں کہ اسکی جگہ دوذج میں ہے آخر اسکا کیا سبب ہے؟آیا یہ دومخالف سوچیں ہیں؟ آیا یہ ایک دوسرے کے مخالف عمل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسکا جواب کیا ہے؟

ان سوالوں کے جواب میں چند نکات بیان کروں گا جس کی بناء پر ائمہ اطہار(علیہم السلام) کے عمل میں یہ اختلافی چیزیں نظرآتی ہیں ان کی وجہ سے ائمہ (علیہم السلام)کے عمل میں کسی قسم کا کوئی تضادنہیں۔

وہ شخص جو کہ دربار میں یا حکومت کے ساتھ کام کررہاہے اسمیں مندرجہ ذیل صفات ہونی چاہئیں۔

۱ ۔ متقی اور پرہیز گارہونا۔

۲ ۔ ولایت ائمہ (علیہم السلام)پر ایمان ہونا۔

۳ ۔ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرنا۔

ٍ ۴ ۔ صاحبان ایمان کادفاع اور ان کی حفاظت کرنا۔

ٍ ۵ ۔ راز دار رہنا۔

اسی ضمن میں ایک اوراہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا چلوں اور ایک اورواقعہ حضرت امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام کی زندگی کے بارے میں بیان کروں ۔

خلفاء بنی عباس کی تاریخ کے اندر ہمیں کچھ ایسے خلفاء بھی ملتے ہیں جو بڑے نرم دل تھے، اور انہوں نے جو مال ان سے پہلے والے خلفاء نے غصب کیا تھا وہ واپس کردیا تھا، من جملہ ان میں فدک بھی تھا جو کہ انہوں نے واپس کرنے کی حامی بھری اس سلسلے میں واقعہ بعد میں بیان کروں گا۔ جس نکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہ ان خلفاء کی نرمی اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ ائمہ اطہار(علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے بلکہ پے درپے ظالم حکمرانوں کی وجہ سے عوام کے اندر غصہ بھرچکا تھا اور مختلف جگہوں سے حکومت کے خلاف تحریکیں شروع ہوگئی تھیں ان تحریکوں اور ان مخالفتوں کود بانے کے لئے خود حکومت کے مشیر ایسے خلیفہ کو چنتے تھے جو کہ کم ظلم کرے اور لوگوں کے غصب شدہ حقوق ان کو واپس دے دے،’اور یہی افراد جب دیکھتے تھے کہ عوام کا غصہ کم ہوگیا تو خود ہی اس خلیفہ کو زہر دے کرماردیتے تھے۔

مہدی عباسی(بنی عباس کا تیسرا خلیفہ)نے اپنے آباء واجداد کے گناہ پرپردہ ڈالنے کیلئے اور آزادی کی تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے تخت پر بیٹھنے کے بعدعام اعلان کیا کہ اگر کسی کا حق میری گردن پر ہے وہ آکر اسکا مطالبہ کرے تو اسکا حق اس کو واپس لوٹادیا جائیگا۔

امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام نے جب یہ اعلان سنا تو مہدی عباسی کے پاس گئے اس وقت مہدی عباسی لوگوں کے حقوق ان کو واپس کرنے میں مشغول تھا۔

امامعليه‌السلام نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا:

"کیا ہمارے چھنے ہوئے حقوق ہم کو واپس نہیں دیئے جائیں گے؟

مہدی عباسی نے کہا: آپ کے حقوق کون سے ہیں ۔

امامعليه‌السلام نے جواب میں فرمایا کہ "فدک"

مہدی نے کہا کہ فدک کی حدود معین کر دیں تو میں فدک آپ کو واپس پلٹا دوں گا۔

امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام نے اس کے جواب میں فرمایا :

" فدک کی پہلی حدا حد کا پہاڑ ہے اس کی دوسری حد عریش مصر ہے اس کی تیسری حد خزر کے ساحل تک ہے اور اس کی چوتھی حد عراق اور شام ہے۔ (یعنی تمام حکومت اسلامی) "

مہدی عباسی نے تعجب سے پوچھا کہ یہ فدک کی حدود ہیں!

امام کاظمعليه‌السلام نے فرمایا :ہاں

یہ سن کر مہدی عباسی اس قدر غصہ میں آیا کہ غصہ کے آثار اس کے چہرے سے عیاں تھے کیونکہ امام موسیٰ کا ظمعليه‌السلام اس جواب کے ذریعے سے اس کو سمجھانا چاہتے تھے کہ حکومت اسلامی کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہو نی چاہیے مہدی عباسی وہاں سے اٹھ کر جانے لگا اور زیر لب کہہ رہا تھا کہ یہ حدیں بہت زیادہ ہیں اس کے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا۔ (بحار الانوار جلد ۴۸ صفحہ ۱۵۶)


3

4

5