• ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8150 / ڈاؤنلوڈ: 2220
سائز سائز سائز
بصیرتیں

بصیرتیں

مؤلف:
اردو

اکبر یہ جانتے ہیں کہ

بوس و کنار و وصل حسیناں ہے خوب شغل

کمتر بزرگ ہوں گے خلاف اس خیال کے

ضمناً یہ عرض کرنے کو دل چاہتا ہے کہ عہد اکبری کے بزرگ یقیناً اس خیال کے خلاف نہ تھے۔

حالانکہ دور حاضر کے بزرگان جدید پیار کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں ، آج کے شاعر سے نئے

بھول کر اپنا زمانہ یہ بزرگان جدید

آج کے پیار کو معیوب سمجھتے ہوں گے

اکبر اس سے باخبر ہیں کہ جوانی جب بھی آتی ہے بدنامی بردوش آتی ہے۔

خوب جی بھر کے ہو لئے بدنام

حق ادا کر دیا جوانی کا

غزل کا یہ تیز معاملہ بندی والا انداز ہی ان کے یہاں نہیں ہے بلکہ انہوں نے غزل کی روایات اور ان کے ان تلازموں کو بھی برتا ہے جن میں معنویت، تہہ داری اور کہیں کہیں نازک خیالی بھی نظر آتی ہے۔ ان کے اکثر اشعار پر غالب کا گہرا اثر ہے۔ کہیں کہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب کا کلام سامنے رکھ کر لکھا ہے۔

عشق میں حُسن بتاں وجہ تسلی نہ ہوا

لفظ چمکا مگر آئینہ معنی نہ ہوا

اور کہیں بھونڈی تقلید بھی ملتی ہے، کہتے ہیں

تو کہئے اگر وقعت عاشق نہیں دل میں

ے کون سی سیکھی ہے زباں آپ نے ’’تیں ‘ کی

یہ لفظ ’’تیں ‘ اپنی خالص الہ آبادیت کے ساتھ محبوب کے ارزل ہونے کا پتہ دیتا ہے اور غالب بیچارے ’’تو‘ ہی پر کبیدہ خاطر تھے۔ اکبر ’’تو‘ پر راضی ہیں۔ ’’تیں ‘ پر برہم! محبوب اس سے بھی گیا گزرا ہے۔

غالب کی مشہور زمین ’’حال اچھا ہے‘ میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور کچھ اشعار لکھے ہیں۔ لیکن غالب کا اثر ان کی غزلوں میں شوخی، ظرافت اور مکالمہ کے انداز میں جھلکتا ہے۔ یہ شعر دیکھئے۔

کبھی لرزتا ہوں کفر سے میں کبھی ہوں قربان بھولے پن پر

خدا کا دیتا ہوں واسطہ جب تو پوچھتا ہے وہ بت ’’خدا کیا‘

کبھی غالب کا وہ گاڑھا رنگ بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جو ذہن کو ہچکولے دیتا ہے

خدا بننا تا مقصد اس لئے مشکل یہ پیش آئی

نہ کھینچتا دار پر ثابت اگر کرتا خدا ہونا

’’ہونا‘ اور ’’بننا‘ میں جو نازک فرق ہے۔ وہ غالب کی ہی دین ہے اور اب غالب ہی کے رنگ میں یہ ضرب المثل شعر سنئے

ذہن میں جو گھر گیا لا انتہاء کیوں کر ہوا

جو سمج میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا

غالب کا مشہور قطعہ ’’اے تازہ وار دان بساط ہوائے دل‘ ذہن میں رکھئے اور اب یہ شعر پڑھئے

نہ وہ احباب نہ وہ لوگ، نہ وہ بزم طرب

صبح دم وہ اثر جلسہ شب کچھ بھی نہیں

اکبر اپنے بہت ہی کم عمر ہم عصر اقبال سے بے حد متاثر تھے چنانچہ اکثر اقبال کا انداز بھی اپنانے کی کوشش کی ہے

یہ عشق ہی ہے کہ منزل ہے جس کی الا اللہ

خرد نے صرف رہ لا الہ پائی ہے

عارضی ہیں موسم گل کی یہ ساری مستیاں

لالہ گلشن میں اگر ساغر بدوش آیا تو کیا

لیکن غالب اور اقبال ان کے بس کی بات نہیں تھے اس لئے انہوں نے اس رنگ کو اپنایا نہیں ، ترک کیا اور غزل کی وہ روایات جو انہیں وراثت میں ملی تھیں اسے ہی آگے بڑھاتے ہوئے اس طرح کے شعر کہے

کرتی ہے بے خودی یہ سوز دروں کو ظاہر

اے شمع ہم تو عاشق تیری زبان پر ہیں

زندگانی کا مزا دل کا سہارا نہ رہا

ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ دہا

یہ اسے کرتی ہے روشن وہ مٹاتا ہے اسے

رات سے پوچھو کہ بہتر شمع ہے یا آفتاب

کبھی کبھی ایسے معرکہ شعر بھی مل جاتے ہیں۔

عشق نازک مزاج ہے بے حد۔

عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا

غزلوں میں سہل ممتنع کا انداز بھی جھلکتا ہے

اب کہاں اگلے سے وہ راز و نیاز

مل گئے، صاحب سلامت ہو گئی

ہمیں تو آٹھ پہر رہتی ہے تمہاری یاد

کبھی تمہیں بھی ہمارا خیال آتا ہے؟

مسرت ہوئی ہنس لئے وہ گھڑی

مصیبت پڑی رو کے چپ ہولیے

اکبر نے اس عہد کے شعری مزاج کے مطابق مشکل قوافی میں بھی ا چھے شعر نکالے ہیں۔

یوں خیال گل رخاں میں ہے منور داغ دل

جل رہا ہو جس طرح پھولوں کی چادر میں چراغ

موضوع کے اعتبار سے ان کا ایک رخ معاملہ بندی کا تھا، تو دوسرا رخ تصوف ہے۔ دراصل بنیادی چیز اپنے جذبے، عقیدے یا عشق سے وفاداری ہے، عرفان یا بصیرت عطا کرنے والا جذبہ ہے، وہ تصوف کو عرفان اور بصیرت و آگہی کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے اس شعر سے ان کے نظریہ عشق پر روشنی پڑتی ہے۔

عجیب نسخۂ عرفاں دیا تصوف نے

کہ نشہ تیز ہوا اور شراب چھوٹ گئی

عقل زاہد، عشق صوفی میں بس اتنا فرق ہے

اس کو خوف آخرت ہے اس کو ذوق آخرت

خوف و ذوق کے لطیف رشتے پر جس انداز سے اکبر نے روشنی ڈالی ہے وہ بس انہیں کا حصہ ہے۔ انہوں نے تصوف سے اسی ذوق و عرفان کا اکتساب کیا ہے اس لئے ان کا تصور اخلاقی، روایتی اخلاق سے الگ ہے۔ وہ بے ثباتی دنیا کا تذکرہ اس انداز سے کرتے ہیں۔

ایک ساعت کی یہاں کہہ نہیں سکتا کوئی

یہ بھلا کون بتائے تمہیں کل کیا ہو گا

لیکن وہ اس بے ثباتی کے ساتھ مجہولیت کے قائل نہیں ہیں ، فعالیت کے قدردان ہیں ، ان کی اخلاقیات حالی طرح جذبے سے بے نیاز نہیں ہے بلکہ اقبال کی طرح بے چینی اور تڑپ پیدا کرنے والی ہے۔ وہ جہد و عمل کی تحریک دیتے ہیں اور بصیرت و آگہی کو سرمایۂ حیات سمجھتے ہیں۔ ان اشعار کے سحرجلال کو اکبر کی اخلاقیات کا مصحف کہنا چاہئے۔

سینے میں دل آگاہ جو ہو کچھ غم نہ کرو ناشاد سہی

بیدار تو ہے مشغول تو ہے نغمہ نہ سہی فریاد سہی

ہر چند بگولہ مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے

اک وجہ تو ہے، اک رقص تو ہے بے چین سہی برباد سہی

وہ خوش کہ کروں گا قتل اسے یا قید قبض میں رکھوں گا

میں خوش کہ طالب تو ہے مرا صیاد سہی جلاد سہی

وہ گفتار کا غازی بننے پر زور نہیں دیتے بلکہ کردار کا غازی بنانا چاہتے ہیں۔ تقریر نہیں تاثیر کے قائل ہیں۔ شعر دیکھئے

باطن میں ابھر کر ضبط فغاں لے اپنی نظر سے کار زیاں

دل جوش میں لا فریاد نہ کر تاثیر دکھا تقریر نہ کر

دل آگاہ کا یہ شاعر ہر قیمت پر یہ چاہتا ہے کہ شمع بصیرت نہ بجھنے پائے وہ زمانے کے رنگ میں ڈھلنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ تہذیب نفس کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں۔

بدل گئی ہوں ہوائیں تو روک دل کی ترنگ

نہ پی شراب اگرموسم بہار نہ ہو

اہل نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ موسم بہار اگر نہیں ہے اور شراب اگر نہ پینے پر زور ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلے بہار پیدا کی جائے تب شراب پی جائے۔

ان کی شاعری کا یہ رخ بھی قابل توجہ ہے کہ وہ سفلہ پروری، زمانہ سازی، موقع پرستی، کم نظری برداشت نہیں کر پاتے۔ دل آگاہ کا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے۔

کم بضاعت کو جو اک ذرہ بھی ہوتا ہے فروغ۔ ۔ ۔ خود نمائی کو وہ اڑ چلتا ہے جگنو کی طرح وہ کتنی خوبصورتی سے کہتے ہیں

معذور ہوں میں حضرت کو اگر مجھ سے ہو گلا بیباکی کا

نیکی کا ادب تو آساں ہے مشکل ہے ادب چالاکی کا

اس دور میں اشراف پر جو گزر رہی تھی اس کا ایک رخ ملاحظہ ہو

ادھر وہی طبع کی نزاکت ادھر زمانے کی آنکھ بدلی

بڑی مصیبت شریف کو ہے امیر ہو کر غریب ہونا

یہ شعر پڑھئے تو ایسا لگتا ہے کہ دور حاضر میں بیٹھا ہوا یہ درد مند بوڑھا ایٹمی توانائی کے اس دور کا سچا نقشہ کھینچ رہا ہے۔

لاکھوں کو مٹا کر جو ہزاروں کو ابھارے

اس کو تو میں دنیا کی ترقی نہ کہوں گا

اور انقلاب کے شائقین کے لئے اور دور حاضر کے ایک المناک بین الاقوامی سیاسی حادثے پر اکبر کی پیشن گوئی بھی ملاحظہ ہو۔

ہم انقلاب کے شائق نہیں زمانے میں

کہ انقلاب کو بھی انقلاب ہی دیکھا

ان اشعار کے خوش رنگ گلستاں میں وہ جو زندگی بھر اپنی بدصورتی کے ساتھ سارے زمانے کو ہنساتا رہا، اب ذرا اس کا درد و کرب بھی دیکھ لیجئے اس کی اپنی ذاتی زندگی میں ۱۹۱۰ ء میں اہلیہ کا صدمہ، ہاشم کی موت، ساری زندگی کی دربدری، مدخولہ، گورنمنٹ ہونے کی وجہ سے شدید گھٹن اور ان سے بڑھ کر تنہائی کا احساس، دوستوں کا ساتھ چھوڑ جانا، اپنے ہی وطن میں رہ کر اجنبی کی طرح زندگی گزارنا۔ غرض کہ درد و کرب کی دنیا ہے جو اس ستم ظریف شاعر کے یہاں نظر آتی ہے، کہتے ہیں۔

اس انقلاب پر جو میں روؤں تو ہے بجا

مجھ کو وطن میں اب کوئی پہچانتا نہیں

وہ مرے پیش نظر تھے فلک نہ دیکھ سکا

چھٹے تو پھر میں انہیں آج تک نہ دیکھ سکا

سیر غربت کوئی جلسہ جو دکھا دیتی ہے

یاد احباب وطن مجھ کو رلا دیتی ہے

خبر ملتی نہیں مجھ کو کچھ یاران گذشتہ کی

خدا جانے کہاں ہیں کس طرح ہیں کیا گزرتی ہے

اور اب یہ شعر ہر ڈھلتی ہوئی عمر کے آدمی کا المیہ بن جاتا ہے

اب جسم میں باقی ہے مسرت کا لہو کم

احباب میں مرحوم بہت ’’سلمہ‘ کم

اور اس شعر کے درد کو دیکھئے

بزم عشرت کہیں ہوتی ہے تو رو دیتا ہوں

کوئی گزری ہوئی محبت مجھے یاد آتی ہے

دل آگاہ کا یہ شاعر غزل میں نشاطیہ شاعری کا وہ رخ پیش کرتا ہے جو ذہنی عیاشی نہیں ہے بلکہ اس میں حقیقی تجربہ بھی جھلکتا ہے۔ ان اشعار میں ایک انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ آج بھی یہ انسان اصطلاحوں کے جنگل میں ثقیل الفاظ کے پتھروں سے سنگ سار ہو رہا ہے۔ وہ جو ایک شاعر ہے نرم و نازک جذبات و احساسات والا، دل آگاہ کا شاعر۔ اور اس پر پتھر برسائے جا رہے ہیں کہ یہ شاعر نہیں مصلح قوم ہے، معمار قوم ہے، تہذیبی محرکات کا ادا شناس ہے۔ کوئی اسے ترقی پسند کہتا ہے ، کوئی رجعت پسند، کوئی حقیقت پسند اور وہ ان پتھروں کے نیچے کراہتے ہوئے کہتا ہے

’’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘

اس کی آہ تو سن لیجئے! دل آگاہ کا یہ شاعر جب آہ کرتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اسے شاعر کی حیثیت سے دیکھا بی جائے، اس کی شناخت اور پہچان ایک ایسے انسان کی بھی ہو جو شخصیت پر پڑے ہوئے سارے غلاف ہٹا کر اپنی ذات کا درد و کرب سنانا چاہتا تھا۔

بے شک اس نے ہنسایا ہے لیکن اس ہنسی کے پس منظر میں اس کی آہ بھی شامل ہے۔ دراصل ذرا غور کیجئے تو یہ محسوس ہو گا کہ اکثر جسے ہم قہقہہ سمجھتے ہیں وہ صرف آہ ہوتی ہے!

اس کے مجلسی تبسم پر نہ جائیے۔ اس کی روح کی حقیقت اس کے آنسوؤں میں دیکھئے !

روشنی کا مسافر

زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی

ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے

چالیس برس گزر گئے

اکبر پور میں سالانہ مجالس ہوتی تھیں۔ اس کے روح رواں چودھری سبط محمد نقوی صاحب تھے۔ حالانکہ تمام تنظیمی امور اور مہمانوں کی تواضع و تکریم کے فرائض انور صاحب انجام دے رہے تھے ہم لوگ اکبر پور ہی سے بڑے گاؤں آئے تھے اور کار میں فخر العلماء ، مرزا محمد عالم صاحب مرحوم بھی تھے اور انھوں نے راستے میں چودھری صاحب کے سلسلے میں بہت سی باتیں بتائی تھیں۔

ایک بار وہ الہ آباد بھی تشریف لائے تھے اور بھیا صاحب (عباس حسینی مرحوم) کے مہمان رہے۔ پھر ایک طویل وقفہ گزر گیا مجھے شرف نیاز حاصل نہ ہوسکا۔ میں حیدرآباد چلا گیا تھا وہاں سے مارچ ۱۹۸۷ء میں عزیز محترم کاظم علی خاں صاحب کی دعوت پر یو جی سی کی طرف سے منعقدہ سمینار لکھنو آنا ہوا۔ اسی سمینار میں ایک فاضل پروفیسر نے جو بہت ہی نستعلیق لباس میں تھے ، اودھ کی تہذیب سے متعلق کچھ غیر ذمہ دارانہ فقرے کہے۔ وہ اپنی بات پوری بھی نہ کر پائے تھے کہ حاضرین میں پچھلی نشست سے مخالفت میں ایک آواز ابھری۔

یہ صاحب کھدر پوش تھے اور وضع قطع سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شاید پروفیسر موصوف کی بات نہ سمجھ پائے ہوں لیکن علمی ولسانی گرفت کے ساتھ انھوں نے اتنی بے تکلفی سے حوالے دینے شروع کئے معلوم ہوتا تھا کہ کتا بیں نظروں کے سامنے ہیں اوراق الٹتے جا رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ، پروفیسر موصوف نے بڑی کوشش کی کہ کہیں سے راہ فراز نکل سکے مگر ممکن نہ ہوا۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔

دوسرے سیشن میں مجھے مرزا دبیر پر مقالہ پیش کرنا تھا ، صدارت چودھری سبط محمد کر رہے تھے یعنی وہ شخص جس نے تھوڑی دیر قبل اپنے علی تیشہ تیز سے ایک فاضل ، مغرب سے مرعوب پروفیسر کی دانش وری پر ضرب کاری لگائی تھی حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ماحول میں سہماہوا تھا ، آواز میں لرزش تھی مجھ سے پہلے قمراحسن صاحب مرزا دبیر کے مرثیے

اے شمس و قمر نور کی محفل ہے یہ محفل

کا عالمانہ مگر انتہائی دلچسپ شاعرانہ انداز میں تجزیہ پیش کر چکے تھے۔ میں نے جب مضمون ختم کیا تواسی کے بعد صدارتی ارشادات تھے۔ چودھری صاحب نے بڑی پذیرائی کی تھی اور توصیفی کلمات سے نوازا تھا جلسہ کے بعد میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ لوگ فیشن کے طور پر علامہ شبلی کی مخالفت کرتے ہیں یہ مثبت رویہ نہیں ہے ، دبیر کی صناعی اور ان کے یہاں واقعات کی اہمیت اور موسیقی پر ان کی گرفت، ان کا بیانیہ انداز اور مصائب میں نئے رخ پیدا کرنا ، یہ وہ پہلو تھے جن کا میں نے ذکر بھی کیا اور جو مجھے پسند آئے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ مرزا دبیر صاحب مرحوم و مغفور پر ایک اچھی سی کتاب لکھیں ، انھیں میرانیس سے الگ کر کے دیکھیں ‘

میں نے آداب کیا ، شکریہ ادا کیا اور اگر انھوں نے اتنی توصیف نہ کی ہوتی تو شاید دبیر پر قلم اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی ہوتی مگراس توصیف کے بعد یہ دھڑکا تھا کہ میں کم از کم ان کی توقعات پر کھرا نہ اتروں گا۔

پھر ایک طویل وقفہ میرے اور ان کے درمیان حائل رہا جب امجد سلمہ ، نیا دور کے ایڈیٹر منتخب ہوئے اور مجھے ۱۹۹۴ء سے تقریباً ہردوسرے تیسرے مہینہ لکھنو جانا پڑا تو جن لوگوں کو امجد سلمہ کا سرپرست بنایا تھا ان میں چودھری صاحب بھی تھے۔ وہ صبح کے ناشتہ پر تشریف لائے۔ امجد سلمہ نے نیا دور کے کسی نمبر کیلئے ان سے فرمائش کی۔ ناشتہ کا اہتمام تھا وہ مجھ سے گفتگو کرتے جاتے تھے۔ ساتھ ہی مجدسلمہ کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھ رہے تھے۔ پھر فرمایا ’’ میاں آپ نے کچھ لکھا ہے‘ امجد سلمہ نے تین چار صفحے لکھے تھے میں نے کہا ’’ بہ نظر اصلاح ملاحظہ فرمائیں اور بچے کی سرپرستی فرمائیں ‘

کہنے لگے ’’ آپ نے دیکھ لیا ہے‘

میں نے کہا’’ جائے استاد خالیست‘

انھوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا دیکھتے گئے ، جا بجا نشان بھی لگائے پھر واپس کرتے ہوئے کہا’’ مشق جاری رکھئے صلاحیت ہے ‘ امجد سلمہ ، اندرون خانہ گئے تو مجھ سے ارشاد فرمایا ’’ سلمہ ماشا اللہ با صلاحیت ہے اور اس کے روشن مستقبل کیلئے دعاگو بھی ہوں ، خدا نظر بد سے بچائے ، کیوں نہ ہو کس خانوادے سے تعلق رکھتا ہے، پھر انھوں نے امجد سلمہ کے نانا سرکار امجد حسین مرحوم مجتہد العصر کے محامدومحاسن اور علمی جلالت پر اس طرح روشنی ڈالی جیسے وہ بھی اسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہوں۔

میں نے عرض کیا’’ میرا دعویٰ ہے کہ امجد سلمہ ، تو کیا ،ان اطراف کے بہت سارے بزرگ حضرات بھی سرکارموصوف کے بارے میں اتنی معلومات نہ رکھتے ہوں گے‘

کہنے لگے ’’ میں نے سلطان المدارس سے صدر الافاضل کیا ہے اور علماء کا خادم رہا ہوں ، انھیں کا فیض صحبت ہے میرا خیال ہے کہ سرکار امجد حسین اعلی اللہ مقامہٗ ان چند علماء میں تھے جن پر مجتہد مطلق کا اطلاق ہوسکتا تھا‘۔

اسی گفتگو میں یہ بھی معلوم ہوا کہ موصوف علامہ ذیشان حیدر جوادی کے بھی معترف و مداح ہیں اور مولانا غلام حسین سے بھی روابط ہیں۔

ا س ملاقات کے بعد اکثر و بیشتر ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتا تھا ان کا انکسار ، ان کی سادگی ، ان کی جلالت علمی اور ان کی وسیع النظری بے حد متاثر کن تھی وہ اودھ کی تہذیب کے دلدادہ تھے ، شیدائی تھے بلکہ فدائی تھے۔ عام طورسے بطور فیشن لوگ اودھ کی تہذیب پر قلم اٹھاتے ہیں تو انھیں ’’ امراؤ جان ادا‘ یا نجم الغنی کی تاریخ اودھ کے کچھ حصے یا واجد علی شاہ کی زندگی کا ایک رخ یاد رہ جاتا ہے۔

نقوی صاحب اس پر بہت برہم ہوتے تھے چنانچہ محترم محقق رشید حسن خاں نے مثنویات شوق میں مقدمہ کے طور پر کچھ ایسا ہی رخ اختیار کیا جو چودھری صاحب کیلئے سخت ناپسندیدہ تھا میں نے اس خیال سے بھی رشید حسن خاں صاحب کی حمایت کی کہ چودھری صاحب کے قیمتی خیالات سے تفصیل و شرح وبسط کے ساتھ آگہی ہوسکے گی انھوں نے خود ہی ذکر چھیڑا اس لئے کہ اسی زمانے میں خان صاحب کی مرتبہ باغ و بہار اور گلزارنسیم پر تبصرہ شائع ہوا تھا جس میں ان کی توصیف کی تھی چودھری صاحب کہنے لگے ’’ یہ دیکھئے ! آپ نے اتنی تعریف کی ہے یہ بھی اودھ کی تہذیب کے بارے میں وہی لکھ رہے ہیں جو بطور فیشن لوگ لکھتے آئے ہیں بغیر سوچئے سمجھے ، بغیر پڑھے لکھے ، جزو پر کل کا اطلاق کرنا اور غیر منطقی انداز فکر‘

میں نے عرض کیا’’ وہ تودرست ہے لیکن شوق کے جو اشعار یا امراؤ جان کا جو بیان ہے۔ ۔ ۔ ‘

’’میاں ! کیا ستم ہے کہ آپ لوگ یہ دو کتابیں تو یاد رکھیں سات سومرثیے بھول جائیں ، علماء ، فرنگی محل کو نظر انداز کر دیں ، خاندان اجتہاد کی طرف سے منھ موڑ لیں ، فسا نہ عجائب میں سرور نے ہر فن کے ماہرین کی جو فہرست دی ہے اسے بھلا دیں اور بس طوطے کی طرح سے رٹتے رہیں زوال آمادہ تہذیب‘۔ ۔ ۔ لکھنو میں عیاشی تھی ، طوائفوں کی کثرت تھی ، واجد علی شاہ کی تین سو ممتوعات تھیں میں عرض کرتا ہوں آپ سے ! کس دور کے معاشرہ میں عیاش افراد نہیں رہے ؟ ایک یادو یا کچھ اشخاص کی بنیاد پر پورے معاشرے کا فیصلہ کرنا کہاں تک جائز ہے ؟ اس شریف آدمی نے کم از کم عورتوں کو کوئی سماجی حیثیت تو دی تھی ایک مسلکی حیثیت انھیں حاصل تھی۔ تنور میں ڈال کر جلاتا تو نہیں تھا ان کا احترام تو کرتا تھا۔ آج کیا ہو رہا ہے۔

میں نے عرض کیا

’’جو غلط ہے وہ کل بھی غلط تھا آج بھی غلط ہے اور آئندہ بھی رہے گا‘۔

کہنے لگے ’’ ڈاکٹر صاحب اس نکتہ پر آپ سے متفق ہوں لیکن ایک فرد یا کچھ افراد پر پورے معاشرے کو تو مت تولیے یہ کتنا غلط فیصلہ ہو گا یہ تاریخ کے ساتھ کتنی بڑی بددیانتی ہو گی۔ آپ اپنے دوست کے خلاف قلم اٹھائیے میں نے جو کچھ کہا ہے کہ اس پر ایمان داری سے غور کیجئے‘

میں ان سے متفق تھا لیکن اپنے حالات کی وجہ سے نہیں لکھ سکا، نیرمسعود سے کہا اور لکھوایا، ظاہر ہے نیرمسعود سے بہتر اودھ کی تہذیب پر فی الحال کون لکھ سکتا ہے۔

چودھری صاحب سیاسی طور پر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے ساتھیوں میں تھے۔ لوہیا صاحب اکبر پور سے تھوڑے فاصلے پر شہدادپور کے رہنے والے تھے اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلی چودھری صاحب کا بڑا احترام کرتے تھے۔ چودھری صاحب اگر چاہتے تو انھیں مال ایونیو پر بہت شان دار بنگلہ مل تھا لیکن انھوں نے اپنی رہائش گاہ امام باڑہ غفران مآب کا ایک کمرہ منتخب کیا وہیں بیٹھے یا پڑھتے رہتے تھے یا لکھتے رہتے تھے میں نے ہمیشہ انھیں سفید لباس میں دیکھا ایک وضع۔ اور اس کو انھوں نے آخر تک نبھایا۔ سردیوں میں البتہ موٹی سی اونی چادر کاندھے پر رہتی کبھی کبھی کرتا بھی زیب تن فرماتے تھے۔ عموماً تقریبات میں شرکت فرماتے تھے الگ تھلگ زندگی پسندیدہ نہ تھی مگر ایک مخصوص دائرے میں ہمیشہ کنول کے پھول کی طرح رہے یعنی سطح آب کے اوپر اور پانی سے غیر آلودہ۔

وہ وحدت کے علمبردار تھے اتحاد کی یہ تمنا اور تڑپ ملکی سطح پر بھی اور مسلکی سطح پر بھی یوں تو ان کے تعلقات سبھی سے تھے مگر علماء فرماتے محل سے ان کے بہت زیادہ روابط تھے ان کے انتقال کا صدمہ حضرت عمر انصاری کو بے حد ہوا جس کا اندازہ ان کے اشعار سے لگایاجاسکتا ہے جو اس شمارہ میں موجود ہیں۔

نقوی صاحب کے مضامین بے شمار ہیں ’’نیا دور‘ کے وہ خصوصی میں تھے۔ اودھ آئینہ ایام میں ان کا مضمون ’’ اودھ کے ممتاز علماء ’’ تحقیق نوادرات میں سے ہے اس مضمون کے دوسرے حصہ میں وہ علماء خیر آباد اور علمائے کا کوری کا ذکر کرنے والے تھے۔ ان کا دوسرا مضمون ’’ نیا دور‘‘ ادارت کار‘ نصف صدی نمبر میں شائع ہوا تھا۔ یادگار آزادی نمبر میں ’’ اردو کے پچاس سال‘ کے عنوان سے تحقیقی مضمون شائع ہوا تھا اس کے حلال بے شمار مضامین ہیں جنہیں کتابی شکل و صورت میں یکجا کر کے مرتب کیا جانا چاہئے اور اس ادبی اثاثہ کو محفوظ کرنا چاہئے توازن فکر ، مدلل عالمانہ انداز ، موضوع سے بے ربط نہ ہونا ، انتشار فکر سے اپنے کو بچانا اور نہایت سیلس زبان کا استعمال ان کی خصوصیات تھیں۔ امجد علی شاہ پر بھی ان کی ایک کتاب ہے۔

یہاں تک لکھنے کے بعد انگریزی کی ایک کہاوت یاد آ رہی ہے۔ ’’ Last but not the least ‘ اور وہ ہے ان کی مراسلہ نگاری ، اردو ہندی کیا چیز ہے انگریزی میں بھی اس طرح مستقل مراسلہ لکھنے والا کوئی نظر نہیں آتا وہ اس فن کے موجد بھی اور یہ لکھوں تو غلط نہ ہو گا کہ خاتم بھی تھے۔ مراسلے دراصل خبروں اور ان کے متعلقات پر تبصرہ ہوتے ہیں۔

نقوی صاحب کا معمول تھا کہیں کسی خبر یا کسی کی تحریر میں بے تکاپن نظر آیا اور ان کا قلم شمشیر بکف بلند ہوا اس معاملہ میں کوئی مروت نہ تھی ایک بار میری بھی نظر چوک گئی ایک صاحب نے اعتراض کیا میں نے سکوت اختیار کر لیا۔ چودھری صاحب نے بلا تکلف میری اس غلطی کی نشاندہی بھی کی اور دلائل سے غلطی ثابت کی دوسرے روز میرا مراسلہ ’’قومی آواز‘ میں شائع ہوا جس میں ’’ سہونطر ‘ کا اعتراف کر لیا گیا تھا۔ چودھری صاحب نے اس اعتراف کی قدر و توصیف کی۔

وہ عبداللہ ناصر حسین امین ، شاہ نواز قریشی اور احمد ابراہیم علوی وغیرہ کی تحریروں میں توازن ، جرأت اور استدلال کے مداح تھے ان کی مراسلہ نگاری اپنے میں ایک فن تھی اور اگر ان سب کو مرتب کر کے شائع کیا جائے تو ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب بن سکتی ہے جب سے قومی آواز بند ہوا ان کی مراسلہ نگاری کی تیز رفتار ی میں بھی بتدریج کمی آتی گئی۔

مجھے اعتراف ہے کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کے بہت سارے گوشے تشنہ رہ گئے لیکن یقین ہے کہ ان کے مضامین کا مجموعہ مرتب کیا جائے گا اور اس میں ان کی حیات اور خدمات پر مضامین اکٹھا کئے جائیں گے تو ان میں اگر مجھے موقع دیا گیا تو ان کی بے نظیر شخصیت کے اور بہت سے گوشے پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ ان کے اٹھ جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اب وہ روشنی فکر کہیں گم ہو گئی ہے بے اختیار قلم لکھتا ہے کہ۔

اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔