• ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8148 / ڈاؤنلوڈ: 2217
سائز سائز سائز
بصیرتیں

بصیرتیں

مؤلف:
اردو

آزاد کی انشائیہ نگاری

مولانا محمد حسین آزاد حالانکہ ان کا ادبی پس منظر عربی وفارسی کا تھا لیکن جہاں تک ان کی انشائیہ نگاری کا تعلق ہے اس میں شک نہیں کہ ان کے پیش نظر انگریزی کے Personal essay بھی رہے ہوں گے۔

آزاد کی ہشت پہلو ادبی شخصیت میں تذکرہ نگاری ، ادبی تحقیق و تاریخ سبھی شامل ہیں اور پھر بچوں کیلئے ان کی درسی کتابیں ان کی شاعرانہ شخصیت ، آب حیات ، دربار اکبری ، قصص ہند، سخند ان فارس اور وہ کتابیں بھی ہیں جب وہ قدرے ہوش سے آزاد ہو چکے تھے ان میں سیاک و نماک جیسی کتاب بھی ہے جو تقریباً ناقابل فہم ہے۔ وہ اردو ادب کی منفرد شخصیتیں جنہوں نے شاعری کو ایک نئی جہت دی ان کی شاعری میں بھی رمزیہ اور تمثیلی انداز نظر آتا ہے چنانچہ ان کی مثنوی صبح امید اور خواب امن میں رزمیہ اور تمثیلی پہلو نمایاں ہیں۔

نیرنگ خیال ان کے انشائیوں کا مجموعہ ہے جس کے دو حصے ہیں۔ حصہ اول میں آٹھ اور حصہ دوم میں پانچ انشایئے ہیں۔ ابتداء میں دیباچہ اور ’’ اردو اور انگریزی انشاء پردازی پر کچھ خیالات ‘ کے عنوان سے ان کا ایک مضمون شامل ہے یہ مضمون نیرنگ خیال کی اشاعت سے چار سال قبل یعنی۱۸۷۶ء میں انجمن مفید عام کے رسالے میں شائع ہوا۔ اس مضمون سے آزاد کے اسلوب اور ادبی نظریات کا اندازہ ہوتا ہے کے انشائیہ شاید ترجمہ نہ کئے جائیں لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ یہ انگریزی سے مستفادہیں۔ دیباچہ میں وہ خود لکھتے ہیں کہ:

’’ اے جوہر زبان کے پرکھنے والوں ، میں زبان انگریزی میں بالکل بے زبان ہوں اور اس ناکامی کا مجھے بھی افسوس ہے۔ یہ چند مضمون جو لکھے ہیں ہیں کہہ سکتا کہ ترجمہ کئے ہیں۔ ہاں جو کچھ کانوں سنے سنا فکر مناسب نے زبان کے حوالہ کیا۔ ہاتھوں نے اسے لکھ دیا اب حیران ہوں کہ نکتہ شناس اسے دیکھ کر کیا کہیں گے‘۔

(نیرنگ خیال۔ حصہ اول دیباچہ )

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آزاد نے انگریزی کے مضامین پڑھوا کرسنے اور اگر پڑھے بھی تواس کے معانی و مطالب دریافت کئے۔ خود ان کے کہنے کے مطابق انہیں انگریزی سے برائے نام ربط ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے مضامین انگریزی کے مشہور مضمون نگار Add son اور Johnson سے ماخوذ ہیں۔

ڈاکٹر محمد صادق نے ان مضامین کے نام دیئے ہیں جن سے آزاد نے استفادہ کیا ہے۔ ڈاکٹر منظر اعظمی نے ڈاکٹر صادق کے حوالے سے ہی مضامین کے نام دیئے ہیں جو ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔ (اردو میں تمثیل نگاری صفحہ ۲۷۱)

۱۔ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ The endeavour of mank nd to get r d of the r burden a dream by Add son ۔

۲۔ شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار، The v s on of the table of fame-by Add son ۔

۳۔ آغاز آفرینش میں عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گا۔ An allegor cal h story of rest & labour-by johnson ۔

۴۔ جھوٹ اور سچ کا رزم نامہ Truth falsehood and f ct on an allegory-by Johnson ۔

۵۔ گلشن امید کی بہار The Garden of hope-by Johnson ۔

۶۔ سیرزندگی The voyage of l fe -by Johnson ۔

۷۔ علوم کی بدنصیبی The conduct of patronage-by Johnson ۔

۸۔ علمیت اور ذکاوت کے مقابلے The allegory of w t and learn ng-by Johnson ۔

اگر یہ مندرجہ بالا مضامین جانسن اور ایڈیسن سے ماخوذ ہیں لیکن اگر ان مصنفین سے مستفاد کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے کیونکہ انہیں پوری طرح ترجمہ کہنا مشکل ہے۔ مثلاً شہرت عام و بقائے دوام کا دربار کے سارے کردار ہندوستانی ہیں۔ ان میں غالب اور ذوق بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کرداروں سے بے چارہ انگریز بے خبر تھا اور یہ کردار صرف اور صرف محمد حسین آزاد کی انشاء پردازی کا نتیجہ ہیں۔

نیرنگ خیال کے آغاز میں اپنے ’’ مضمون اردو اور انگریزی انشاء پردازی پر کچھ خیالات ‘ میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ ان کے دور میں بھی اردو انشاء پردازی پر اعتراض کئے جا رہے تھے۔ آزاد کے خیال میں کچھ اعتراضات درست تھے مگر کچھ چشم پوشی کے قابل تھے۔ بہرحال انگریزی کے جو مضامین ان کی نظر سے گزرے یا جن کے بارے میں انہوں نے سنا اور متاثر ہوئے انہیں اردو کے قالب میں ڈھالنے کیلئے انہوں نے ایک اصول کو پیش نظر رکھا۔ وہ لکھتے ہیں۔

’’جو سرگذشت بیان کرے اس طرح ادا کرے کہ سامنے تصویر کھینچ دے اور نشتر اس کا دل پر کھٹکے۔ ۔ ۔ بیشک فن انشاء اور لطف زبان تفریح طبع کا سامنا ہے لیکن جس طرح ہمارے متاخرین نے ایک ہی مرض کی دواسمجھ لیا ہے انگریزی میں ایسا نہیں ہے‘

اس اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نیرنگ خیال کے انشاء لکھتے ہوئے آزاد کو

۱-فن انشاء کی نزاکتوں کا احساس تھا۔

۲۔ اہل فرنگ کی طرح وہ ان کی بنیاد کسی مقصد پر رکھنا چاہتے تھے۔

۳۔ وہ اپنے ادبی سرمایہ سے بے خبر نہ تھے مگر متاخرین سے اختلاف بھی رکھتے تھے۔

۴۔ ان کی مجتہدانہ فکر مناسب زبان کے حوالے سے خیالات کو پیش کرنا چاہتی تھی۔

انہوں نے انشاء پردازی کا قاعدہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آسان اور سیدھی سادی تشبیہیں اور قریب کے استعارے استعمال کئے جائیں جو سنتے ہی سمجھ میں آ جائیں۔ آزاد چاہتے تھے کہ انگریزی باغ سے نئے پودے لے کر اپنا گلزار سجایاناچاہئے مگ ریہ تصرف خوبصورتی کے ساتھ ہو۔ وہ اپنی مشرقی روایات کو ترک نہیں کرنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ خاکے میں اس طرح جان ڈالی جائے کہ ہندوستانی کہیں کہ میراورسودا کے زمانے نے عمر دوبارہ پائی۔

’’ انگریزی روغن چڑھا کر ایسا خوش رنگ کرو کہ انگریز کہیں کہ ہندوستان میں شیکسپیر کی روح نے ظہور کیا‘

اسلوب:۔

آزاد کے اسلوب اور ان کی انشاء پردازی پر اگر یہ لکھا جائے تو درست ہو گا کہ انہوں نے واقعی نہایت عمدہ رنگ و روغن چڑھایا اور اگر ان انشائیوں کو صرف ترجمہ کہا جائے تو معلوم ہوتا ہے ایڈیسن اور جانسن عمامہ باندھے ہوئے ہاتھوں میں ظرافت کی ٹہنی لئے ہوئے استعارے کے ساز پر ایشیائی نغمات سنا رہے ہیں۔

آزاد اردو کے اولین محقق ، ادبی مورخ ، نقاد، رمز نگار، ڈرامہ نویس ، لسانی مفکر ، موادتدریس کے مصنف اور جدید اردو شاعر ی کے اولین معمار بھی ہیں ان کی شخصیت کا ہر پہلو لازوال خصوصیات کا حامل ہے لیکن ان کی انشا پردازی ان کی تمام خصوصیات پر فوقیت رکھتی ہے اور نیرنگ خیال ان کی انشاء پردازی کا شاہکار ہے۔

آزاد کا یہ گرانقدر ادبی کارنامہ آب حیات کے ساتھ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا جس کے زیادہ تر انشائیے ۷۵سے ۸۰کے درمیان لکھے گئے۔ دیباچہ ۱۸۷۵ء میں لکھا گیا۔ مجموعے کا آخری انشائیہ ’’ شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار‘ جولائی۱۸۷۶ء میں لکھا گیا جب کہ پانچواں انشائیہ ’’ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘ جون ۱۸۷۹ء میں آزاد کی پھوپھی کا انتقال ہوا جنہوں نے ان کی پرورش کی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ مجموعہ کافی دیر سے یعنی ۱۸۸۰ء میں شائع ہوسکا۔ ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنے باپ کی شہادت اور بھرا ہوا گھر اجڑتے دیکھا تھا۔ یہ بھی دیکھا تھا کہ ان کی ایک بچی ماں کی آغوش میں توپ کے گولے کی آواز سن کر دہل کر مر گئی تھی لیکن زندگی کے کسی مرحلہ پر بھی نہ توآزادمایوس ہوئے اور نہ انہوں نے کشاکش حیات کے آگے سپرڈالی۔

یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ان کے مضامین میں ان کی شخصیت نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزاد اپنی ہی تخلیق کر دہ دنیا میں سانس لیتے تھے ان کی ادبی شخصیت میں تخلیق کی آرائش اہم جزو کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ادبی تخلیق تخیل کے دائرہ میں ہی ممکن ہے۔ اپنی طرف سے کوئی بات پیدا کرنا ہی انشاء ہے اور تخیل ہی کے ذریعہ اپنی طرف سے کوئی بات پیدا کی جاسکتی ہے ان کی نظر میں اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ ایسا ہوا ہے یا ہوتا ہے بلکہ یہ پہلو زیادہ نمایاں ہونا چاہئے کہ ایسا ہوا ہو گا یا ہوسکتا ہے۔ تحقیق و تاریخ میں اس طرز فکر سے ادبی نقصان ہوسکتا ہے اور ہوا۔ لیکن نیرنگ خیال کیلئے یہ انداز نظر بہت مناسب تھا۔

آزاد کے ان تمام انشائیوں میں رمزیہ کی بنیاد ی خصوصیت یعنی افسانویت پائی جاتی ہے اور افسانویت کا محور تخلیل ہے یہ تخیل ہی کی کرشمہ سازی ہے کہ وہ تجربہ کی تجسیم کرتے ہیں مثلاً وہم انسان کی ایک ذہنی کیفیت ہے مگر آزاد نے اسے اس طرح جسم ولباس عطا کیا ہے کہ لگتا ہے جیسے وہم کوئی آدمی ہے یہ حلیہ ملاحظہ ہو۔

’’ ایک شخص اسوکھا سہمادبلاپے کے مارے فقط ہوا کی حالت ہو رہا تھا اس انبوہ میں نہایت چالاکی اور پھرتی سے پھر رہا تھا اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا جس میں دیکھنے سے شکل نہایت بری معلوم ہونے لگتی تھی وہ ایک ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے ہوئے تھا جس کا دامن قیامت سے بندھا ہوا تھا اس پر دیوزادوں اور جناتوں کی تصویریں زردوزی سے کڑھی تھیں اور جب وہ ہواسے لہراتی تھیں تو ہزاروں عجیب و غریب صورتیں اس پر نظر آتی تھیں اس کی آنکھیں وحشیانہ تھیں مگر نگاہ میں افسردگی تھی اور اس کا نام وہم تھا‘

یہ بیان ڈرامائیت سے بھرپور ہے یہ ایک ذہنی کیفیت کا بیان بھی ہے اور ایک شخص کا سراپا بھی اور دوسرے زاویے سے دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی واہمہ جس جس طرح سے کام کرتا ہے ، استعار ے کی لڑیاں اسے واضح کرتی چلی جاتی ہیں۔ دامن پر جناتوں اور دیوزادوں کی تصویریں اس رخ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جن کے سلسلے میں انسان افسانے تراشتا رہتا ہے۔ وہم وحشت ہے اس میں سیمابیت ہے اسے قرار نہیں مگر وہم کی حقیقت کچھ نہیں ، چنانچہ آزاد نے اس کے بے حقیقت ہونے کو افسردگی سے استعارہ کیا ہے اس کے سراپا میں جو ڈرامائیت ہے وہ آزاد کے اسلوب کی اہم خصوصیت ہے اس کے ہاتھ میں آئینے کا ہونا اور چالاکی و پھرتی سے پھرنا وہم کے کردار کو متحرک اور ڈرامائیت سے بھرپور بنا دیتا ہے۔

خطاب خود کلامی:

آزاد کے اسلوب کا ایک اہم وصف ان کی رنگین خطابت اور ان کے مکالموں میں خود کلامی کا انداز ہے۔ یہ تخیل کی ایسی بلندی ہے جو ہر اسٹیج پر انہیں محو کلام رکھتی ہے وہ زور تخیل سے ایسی جگہ پہونچ جاتے ہیں جہاں وہ تنہا ہوتے ہیں اور تب وہ خود سے محوِ کلام ہوتے ہیں مثلاً دیباچہ کی یہ آخری سطر ملا خطہ ہو۔

’’ سبب یہ کہ ملک میں ابھی اس طرز کا رواج نہیں ، خیر آزاد، نا امید نہیں ہونا چاہئے‘

خود کلامی کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:

’’ کیوں آزاد! مجھے تو ان لوگوں پر رشک آتا ہے جو شہرت کی ہوس یا انعاموں کی طمع پر خاک ، گوشہ عافیت میں بیٹھے ہیں اور سب بلاؤں سے محفوظ ہیں ، نہ انعام سے خوشی ، نہ محرومی سے ناخوش ، نہ تعریف کی تمنا، نہ عیب چینی کی پروا ، اے خد ادل آزاد دے اور حالت بے نیاز‘

ان سطور کو لکھتے ہوئے آزاد کے ذہن میں غالب کا یہ مصرع رہا ہو گا ’’ نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پروا‘ ان کی انشا پردازی پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلم فرخی لکھتے ہیں :

’’ اکثر وہ قاری کے سامنے بلند آواز سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں ‘

(محمد حسین آزاد حیات اور کارنامے ، اسلم فرخی ص ۶۷۸)

یہی بلند آواز میں سوچنا خود کلامی ہے اور اسی خود کلامی اور ڈرامائیت کے ذریعے آزاد جذبات واحساسات کو جیتا جاگتا روپ عطا کرتے ہیں وہ پہلے کسی خصوصیت یا صفت کو جسمانی پیکر دیتے ہیں اس کے بعد اس جسمانی پیکر میں کچھ لاحقے لگا کر ایسی شکل و صورت دیتے ہیں کہ اس کی ڈرامائیت اور افسانویت بڑھ جاتی ہے اور تاثر میں بھی اضافہ ہوتا ہے ’’ سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ ‘ میں صداقت زمانی دانش خاتون کی بیٹی ہے۔ آزاد کنایہ میں اس اخلاقی پہلو کی بھی وضاحت کر دیتے ہیں کہ حقیقی دانش مندی صداقت کو جنم دیتی ہے۔ استعارہ ، کنایہ اور رمز کا شاندار نمونہ ملا خطہ ہوا۔ یہ جھوٹ کا سراپا ہے۔

’’ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہو کر سخت لڑائی آ پڑتی۔ اس وقت دروغ دیوزاد اپنی دھوم دھام بڑھانے کیلئے سرپر بادل کا دھواں دھار پگڑ لپیٹ لیتا تھا ، لاف و گزاف کو حکم دیتا کہ شیخی اور نمود کے ساتھ آگے جا کر غل مچانا شروع کر دو، ساتھ ہی دغا کو اشارہ کر دیتا کہ گھات لگا کر بیٹھ جا۔ دائیں ہاتھ میں طراری کی تلوار ، بائیں میں بے حیائی کی ڈھال ہوتی تھی۔ غلط نما تیروں کا ترکش آویزاں ہوتا تھا۔ ہوا و ہوس دائیں بائیں دوڑتے پھرتے تھے‘۔

ان سطور میں ایک طرف تواستعار ہ کی تابندہ لڑیاں اور تجربہ کی تجسیم ہے تودوسری طرف میدان جنگ کا نقشہ بھی نظر آتا ہے ایسی فضاء آفرینی ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے نظروں کے سامنے لڑائی ہو رہی ہے اور میدان جنگ نے اپنے چہرہ سے وقت کے گرد و غبار کی نقاب الٹ دی ہو لیکن اس افسانویت کے ساتھ جھوٹ کے جتنے رخ اور جتنی جہتیں ہوسکتی ہیں ان کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔ جھوٹا ہمیشہ ڈینگ مارتا ہے۔ جھوٹ کا ایک بڑا سجایا روپ آپ اپنی مدح کرنا ہے اور اگر کبھی جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو بے حیائی اور بے غیرتی اور ڈھٹائی سے کام لیا جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے کا محرک لالچ ہوتی ہے جسے ہواوہوس کے دائیں بائیں دوڑنے سے تعبیر کیا ہے۔

اس طرح اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزاد اخلاقی مسائل کو آفاقی رخ دے کر استعاروں کے سہارے آگے بڑھاتے ہیں۔ یہاں بھی معافی کی دونوں سطحیں موجود ہیں اور موج تہہ نشین کی طرح معانی موضوع کی ساری لہروں کو مرتعش کرتے رہتے ہیں۔

آزاد کے یہاں ظرافت بھی ہے یہ ظرافت سراپانگاری میں جھلکتی ہے۔ چنانچہ نیرنگ خیال میں ہر انشائیہ میں کہیں نہ کہیں ایک سراپاتبسم زیر لب کی تخلیق کرتا ہے مثلاً ’’ آغاز آفرینش میں باغ عالم کا کیا رنگ تھا‘ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آزاد نے اس میں ایک قوم کاسراپا کھینچا ہے جو کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ اقتباس ملا خطہ ہو:

’’ایک پیر خرد و دیرینہ سال محمد شاہی دربار کا لباس جامہ ے۔ ۔ ۔ کھڑکی دار بگڑی باندھے جریب پٹکتے آئے تھے مگر ایک

لکھنو کے بانکے پیچھے پیچھے گالیں ا دیتے تھے بانکے۔ ۔ ۔ ان سے دست و گریباں ہو جاتے لیکن چار

خاکساراور پانچواں تاجدار ان کے ساتھ تھا یہ بچا لیتے تھے(شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار)

آزاد کے اسلوب کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ان کا جادو نگار قلم ہر منظر کو متحرک بنا کر پیش کرتا ہے۔ فضاء آفرینی کی یہ کیفیت یوں تو ان کے ہر کارنامے میں نظر آتی ہے لیکن نیرنگ خیال میں اپنے عروج پر ہے ان کی منظر کشی ایک طرف تو ادبیت کی چاشنی رکھتی ہے تودوسری طرف صرف چند سطروں میں مرقع کھینچ کر دکھ دیا ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:

’’ سب کے سب ضعف و نا طاقتی سے زمین پر بچھے جاتے تھے۔ ۔ ۔ ان میں تھکن اور سستی کی وبا پھیلی ہوئی تھی اور ناتوانی ان پر سوارتھی ، صورت اس کی یہ کہ آنکھیں بیٹھی ہوئیں ، چہرہ مرجھایا ہوا ، رنگ زرد ، منہ پر جھریاں پڑیں کمر جھکی ، گوشت بدن کا خشک ، ہڈیاں نکلی ہوئیں ، غرض دیکھا کہ سب ہانپتے کانپتے روتے بسورتے آہ آہ کرتے چلے آتے ہیں۔ ‘

اس فضاء آفرینی اور رنگین بیانی میں صرف لفاظی ہی نہیں ہے بلکہ خیال کی عظمت ، اخلاقیات اور علم کی پختگی بھی ہے۔ جتنا سوچتے جایئے اتنا ہی نئے نئے گوشے اور نئے نئے امکانات سامنے آتے جاتے ہیں۔ ذیل کے اقتباس میں بھی یہی کیفیت ہے۔

’’ ایجاد و اختراع تو ذکاوت کے مصاحب تھے اور قدامت اور تقلید علم سے محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ اسی واسطے ذکاوت کو تو وہی بات پسند آتی تھی جو کہ آج تک کسی نے دیکھی ہو نہ سنی ہو ، علم کا قاعدہ تھا کہ بزرگان سلف کے قدم بہ قدم چلنا تھا اور ان کی ایک ایک بات پر جان قربان کرنا تھا بلکہ اس کے نزدیک جس قدر بات پرانی تھی اسی قدر سراور آنکھوں پر رکھنے کے قابل تھی۔ (علمیت اور ذکاوت کے مقابلے )

اسی طرح ایک بہت ہی اہم اور ابدی و آفاقی پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی دولت کے آگے علم و ذکاوت دونوں کی کوئی قیمت نہیں ہے یہ شگفتہ عبارت ملا خطہ ہو۔

’’ یہ لوگ روتی صورت ، سوتی مورت ، دولت کے بندے تھے اور اسی کی عبادت کرتے تھے۔ زرد مال کے خزانے ان کے عبادت خانے تھے۔ وہاں کیا علم کیا ذکاوت ، کسی کی بھی دعا قبول نہ ہوتی تھی اور سبب اس کا یہ تھا کہ ان کی آنکھوں پر روپئے کی چربی تھی ، کانوں میں غفلت کی روئی تھی۔ ذکاوت نے ان پر بہت گل افشانیاں کیں مگر ان کے لبوں پر کبھی تبسم کا رنگ بھی نہ آیا‘۔ (علمیت اور ذکاوت کے مقابلے )

آزاد کے اسلوب میں علم بیان کی آرائش بھی ہے۔ استعارات کی طرفگی اور تشبیہات کی دوشیزگی ہے ، رمز و تمثیل کے اشارے و کنایے ہیں ، نازک خیالی کا طلسم ہے۔ ظرافت کی شگفتہ کلیاں ہیں ان تمام گوشوں کے ساتھ اخلاقیات کی آفاقیت بھی ہے اور مشرقیت کی وہ خیال انگیزی بھی ہے جو فکر و نظر کی راہ میں زندگی کے پاکیزہ اصولوں کی مشعلیں روشن کرتی ہے۔

آزاد مشرق کی ادبی روایات کے وارث ، امین ا رپاسدار تھے لیکن انہوں نے مغرب سے بھی اپنے اسلوب کو روشن تابناک بنانے کیلئے رنگ و روغن مستعارلیا۔ مہدی افادی نے بجا طور پر انہیں آقائے اردو کا خطاب دیا اور بلاشبہ یہ قبا ان کی ادبی قامت پر سجتی ہے اور لازوال ہے۔

نیرنگ خیال حصہ کا پہلا انشائیہ ’’ آغاز آفرینش میں باغ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا‘ ہے۔ اس میں آزاد نے مجرد اشیا اور صفات کو جسمانی پیکر عطا کر کے ان کے ذریعے درس و نصیحت کی باتیں کہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابتداء میں ساری اولاد آدم بے فکری میں بسر کرتی تھی۔ وہ فطرت کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور قدرتی عیش و آرام سے لطف اندوز ہوتے تھے لیکن بعد میں خود غرضی ، فریب ، سینہ زوری جیسے شیاطین نے غلبہ حاصل کر لیا۔ جس کے نتیجے میں مصائب کا طوفان امڈ پڑا۔ پھر آرام اور محنت کے باہمی توازن سے صورت حال میں تبدیلی آئی۔ آزاد یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آرام پسندی اور کاہلی کی وجہ سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں دوسرا انشائیہ سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ ہے جس میں آزاد نے سچ اور جھوٹ کے بارے میں تمثیلی انداز میں لکھا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں روز ازل سے کش مکش رہی ہے۔ سچ میں جو سختی اور تلخی ہے اس سے جھوٹ کو موقع مل جاتا ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے اور سچ غالب آتا ہے۔

تیسرے انشایئے ’’ گلشن امید کی بہار‘ میں آزاد نے یہ بتایا ہے کہ امید کے سہارے دنیا قائم ہے۔ لیکن امید کے ساتھ ساتھ محنت بھی ضروری ہے ورنہ افلاس جڑ پکڑ لیتا ہے۔

چوتھے انشایئے ’’ سیرزندگی‘ میں وہ زندگی کی بے ثباتی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ عمر رواں کا جہاز بڑھتا رہتا ہے۔ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے۔ انسان لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کا سفر کرتا ہے۔ حیات ایک دریا ہے اور ڈوبنا یعنی موت سے ہم کنار ہونا سب کا مقدر ہے۔ کوئی پہلے ڈوبتا ہے اور کوئی بعد میں۔

پانچواں انشائیہ ’’ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘ میں آزاد نے انسانی فطرت کے ایک اہم پہلو کو پیش کیا ہے۔ انسان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ اسے اپنی مصیبت بڑی اور دوسروں کی مصیبت کم معلوم ہوتی ہے اور اگر کسی طرح سے اپنی مصیبت سے نجات دلا دی جائے اور دوسروں کی مصیبت کو اس کے سرلاددیاجائے تواسے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی مصیبت ہی بہتر تھی۔

چھٹا انشائیہ’’ علوم کی بدنصیبی‘ ہے جس میں آزاد نے بتایا ہے کہ علوم کی بدولت انسان زندگی کی آسائش حاصل کر سکتا ہے لیکن نا اہلوں کی وجہ سے اہل کمال کو مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ خوشامد اور غرور کی لعنت جب انسان پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے تو اچھائی ختم ہو جاتی ہے اور برائیاں جنم لینے لگتی ہیں۔ رشک وحسد کی وجہ سے بدنامی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ساتویں انشایئے’’ علمیت اور ذکاوت کے مقابلے ‘ میں آزاد نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ انہوں نے Learn ng کیلئے علمیت اور W t کیلئے ذکاوت کا لفظ استعمال کیا ہے انہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ ذکاوت میں W t کا مفہوم پوری طرح نہیں آتا لیکن انہیں کوئی اور لفظ نہ سوجھ سکا۔ اس انشائیہ میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ محض علم یا محض ذکاوت کافی نہیں بلکہ ان دونوں کا امتزاج ضروری ہے۔

آٹھواں انشائیہ شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار تقریباً طبع زاد ہے۔ اس دربار میں انہوں نے ایسے لوگوں کو پیش کیا ہے جنہوں نے دنیا میں بڑے بڑے کام کئے اور شہرت حاصل کی۔ آزاد نے راجہ رام جی اور والمیکی سیاس دربار کا آغاز کیا ہے۔ پھر راجہ بھون اور سنگھاسن بیتسےی کا ذکر کیا ہے۔ وہ یونان سے اگر افلاطون ارسطو اور سکندر کو لے آئے ہیں تو ایران سے شاہنامہ کے ہیرورستم اور فردوسی کو لائے ہیں۔ فردوسی کا ذکر ہندوستان میں محمود غزنوی کے ساتھ بھی کیا ہے اور بہت ساری اہم شخصیتوں کی خصوصیات کے ساتھ آخر میں بڑے دلچسپ انداز میں اپنا بھی ذکر کیا ہے۔ ذیل میں یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔