اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں 0%

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

مؤلف: آیۃ اللہ شہید مطہّری(رہ)
زمرہ جات:

مشاہدے: 8462
ڈاؤنلوڈ: 2306

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8462 / ڈاؤنلوڈ: 2306
سائز سائز سائز
اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

مؤلف:
اردو

۵) بیرونی استعمار کے خلاف جنگ

اس کا مطلب اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں سیاسی دخل اندازی اور اقتصادی استعمار جس میں حصول مراعات کے ظالمانہ نظام کا اجراء اور مسلمانوں کے اقتصادی اور مالی ذرائع کو ختم کر کے تہذیبی استعمار کو لانا اور پھر مسلمانوں کی تہذیب کو برباد کرنا اور ان کو تہذیبی طور پر کمزور بنانا ہے۔ آخری نوآبادیاتی یا استعمار یہ ہے کہ اس بات کو ثابت کریں کہ صرف مغربی تہذیب ہی ہے جو انسان کی خوشحالی کا سبب بن سکتی ہے‘ تہذیبی استعمار اتنی شدت کے ساتھ پھیلایا گیا کہ ذی فہم مسلمان بھی یہ یقین کرنے لگے کہ اگر کسی مشرقی کو تہذیب یافتہ ہونا ہے تو وہ اہل یورپ کی تقلید کرے‘ وہ یورپی وضع قطع اختیار کر کے ان کی زبان سیکھے‘ ان کا لباس زیب تن کرے‘ ان کی عادات‘ خصائل‘ اعتقادات‘ فلسفہ‘ آرٹ اور تمام دیگر چیزیں اپنائے۔

سید نے دین اور سیاست کی ہم بستگی کو دو محاذوں پر ضروری قرار دیا‘ پہلا محاذ‘ اندرونی استبداد اور دوسرا خطرہ بیرونی استعمار۔ انہوں نے انتھک کوشش کی کہ مسلمانوں کے ضمیر کو استبداد اور استعمار کے خلاف بیدار کیا جائے اور اس پروگرام کا ان کے اصلاحی مشن میں اہم مقام ہے۔ اس کے مقابل میں استعمار کے کارندوں نے”سیکولرزم“ اور ”علمانیت“ کے نام پر مذہب اور سیاست کے درمیان دیوار بنانے کی کوشش کی۔ اس مخالف تحریک کی روح رواں کمال اتاترک تھا اور اس کا واحد مقصد سید جمال کے پروگراموں کو چیلنج کرنا تھا۔ عرب دنیا میں سیکولرزم کا پروپیگنڈہ عربی عیسائیوں نے کیا۔ یہ نظریہ صاف ظاہر کرتا ہے کہا گر مذہب اور سیاست میں ہم بستگی پیدا کر دی جائے تو عربی عیسائیوں کو لئے کوئی ایسا کام نہیں رہ جاتا جو وہ سوسائٹی میں ادا کر سکیں۔ عرب عیسائی اس میں اکیلے نہیں تھے بلکہ کچھ مسلمان بھی اس نظریہ میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی روشن خیال اور ذی فہم لوگ بھی ان کے پرجوش طرفدار بن گئے‘ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟

یہ مسلمان حقیقت میں ایک اور بیماری کا شکار تھے‘ ہم جانتے ہیں کہ سنی دنیا میں خلیفہ اور حاکم ایک ہی ہوتا تھا اور جس کی اطاعت مذہبی فریضہ تھا‘ دین اور سیاست کا ایسا رابطہ بنایا گیا کہ سیاست نے دین کو استعمال کرنا شروع کر دیا‘ اس لئے ان کا مقصد یہ تھا کہ عثمانی خلیفہ اور حاکم مصر ایک دنیاوی مقام پر فائز سمجھے جائیں نہ کہ دینی‘ تاکہ لوگوں کا مذہبی اور ملی ضمیر ان پر تنقید کے سلسلے میں آزاد رہے‘ یہ صحیح راستہ تھا‘ سید جمال کے نزدیک دین اور سیاست کی وابستگی کا یہ مطلب نہیں‘ بقول کواکبی:

”جو کچھ اس نے تعلیم دی وہ یہ تھی کہ مسلمان عوام اپنی سیاسی سرنوشت میں اپنی شرکت کو ایک مذہبی فریضہ و ذمہ داری سمجھیں‘ دین اور سیاست کی وابستگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذہب کو سیاست سے ملایا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کو مذہب کے ساتھ ملا دیا جائے۔

وہ عرب جو سیکولرزم اور دین کو سیاست سے جدا رکھنے کے لئے مہم چلاتے رہے‘ انہوں نے کبھی اس سے انکار نہیں کیا کہ عوام کا سیاست میں شامل ہونا ایک دینی فریضہ ہے‘ لیکن دین اور سیاست کی جدائی کی جو پالیسی اتاترک نے اختیار کی وہ عوام کے لئے ایک بدبختی تھی‘ ایران میں بھی ایسا ہی ہوا اور عملاً دین کو سیاست سے جدا کر دیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں اس کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پیکر اسلام سے اسلام کا ایک عزیز ترین عضو جدا کر دیا گیا۔“

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اوپر دیئے گئے مفہوم کے تحت دین اور سیاست کی وابستگی یعنی حکام کو مقام قدس دینا صرف سنی مکتب کے ساتھ وابستہ ہے‘ تشیع اس کو قبول نہیں کرتا‘ اس کا ان کی تاریخ میں وجود نہیں ملتا‘ ان کے ہاں ”اولوالامر“ کی تشریح ایسی ہرگز نہیں ہے جو سنیوں نے کی ہے۔

۶) اسلامی اتحاد

غالباً سید جمال ہی پہلا شخص تھا جس نے مغرب کے خلاف اسلامی اتحاد کا نعرہ بلند کیا‘ اسلامی اتحاد کا مطلب مذہبی اتحاد نہیں ہے جو کہ غیر عملی امر ہے‘ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک متحدہ سیاسی محاذ بنایا جائے اور استعماریت کے خلاف متحدہ صف بنائی جائے۔

سید نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ مغربی عیسائیوں میں عموماً اور انگلستان میں خصوصاً ابھی تک ”صلیبی روح“ زندہ اور شعلہ زن ہے‘ بے شک مغرب نے تعصب کے خلاف آزاد منشی کا برقعہ پہن لیا ہے‘ لیکن ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف تعصب ابھی تک موجود ہے۔ مغرب پرستوں کے برخلاف تعصب کا ہونا سید کے نزدیک برا نہیں تھا‘ ہر دوسری چیزوں کی طرح تعصب بھی افراط و تفریط اور اعتدال رکھتا ہے‘ تعصب میں افراط انسان میں غیر استدلالی جانبداری اور اندھی تقلید پیدا کرتا ہے‘ جو برائیاں ہیں‘ اپنے منطقی و عقلی عقائد کی حمایت کے معنی میں تعصب بہت اچھی چیز ہے۔

سید نے فرمایا:

”اہل یورپ جو یہ جانتے ہیں کہ دین ہی وہ واسطہ ہے جو کہ مسلمانوں کو آپس میں ملاتا ہے‘ اس کو کمزور کرنے کے لئے انہوں نے تعصب کی مکارانہ مخالفت کی‘ لیکن خود ہر مذہب اور ہر جماعت سے زیادہ متعصب ہیں‘ گلیڈسٹوں سینٹ پرس کی روح کا ترجمان ہے‘ یعنی صلیبی جنگوں کی یاددہانی کرانے والا۔“

سید کے حقیقت پسندانہ خیالات کو اس وقت مزید تقویت پہنچی‘ جب جنگ عظیم اول میں یہودی افواج کے یورپی کمانڈر نے عرب اسرائیل جنگ کے دوران بیت المقدس کو مسلمانوں سے لے کر یہودیوں کی تحویل میں دے دیا اور صیہونی حکومت اسرائیل کا قیام کر کے یہ اعلان کیا ”اب صلیبی جنگیں ختم ہو گئیں“۔

استعماریت نے قوم پرستی اور نسل پرستی کے بیج بوئے اور مسلمان ملکوں میں ”پان عربی ازم‘ پان ایرانی ازم‘ پان ترکی ازم اور پانی ہندو ازم“ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ ایسی پالیسی کے تحت مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی گئی‘ شیعہ سنی جھگڑے ہوئے‘ دنیائے اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سے حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ یہ سب کچھ ”اسلامی اتحاد“ کے خلاف استعماری سازشیں تھیں۔

سید کا مقصد اسلامی سوسائٹی کے نیم مردہ بدن میں حضرت عیسیٰعليه‌السلام کی طرح مزاحمت اور جہاد کی روح پھونکنا تھا‘ انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ جہاد کے اصول کو دوبارہ اپنائیں‘ کیونکہ اس کا بھولنا ان کے انحطاط کا اہم سبب تھا‘ اگر مغربی لوگوں میں صلیبی روح ابھی تک موجود ہے تو مسلمان جہادی روح کو کیوں چھوڑ چکے ہیں؟

کتاب سیری در اندیشیا ہائے سیاسی عربی میں منقول ہے کہ

”سید برطانیہ کو نہ صرف استعماری قوت بلکہ مسلمانوں کا ”صلیبی دشمن“ تصور کرتا تھا‘ ان کا خیال تھا کہ برطانیہ کا مقصد اسلام کی مکمل بیخ کنی ہے اور وہ مسلمانوں کا اس لئے دشمن ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے ہیں۔ یہ برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ مسلمانوں کا کچھ علاقہ ان سے چھین کر کسی دوسری اسلام دشمن کمیونٹی کو دے دیتا ہے‘ لہٰذا وہ مسلمانوں کی شکست پر خوش ہوتا ہے اور اپنا مفاد مسلمانوں کی تباہی و بربادی میں دیکھتا ہے۔ برطانیہ کے خلاف مہم میں ان کو اور بھی یقین ہو گیا کہ اسلام مزاحمت اور جہاد کا دین ہے اور انہوں نے دینی جہاد کے شروع کرنے پر مزید زور دیا۔ ان کے نزدیک اس حکومت کے خلاف جس نے اسلام کو ختم کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا‘ طاقت استعمال کرنے کے سوا کوئی اور چارئہ کار نہیں تھا۔“

۷) مغرب کے جاہ و جلال کے خلاف جنگ

انیسویں صدی میں جو واقعات و تبدیلیاں مغرب میں ہوئے ہیں‘ ان سے اکثر مسلمان ناواقف رہے اگر ان میں کسی نے یورپ کا چکر لگایا اور تھوڑا بہت جانا کہ مغرب میں خیا ہو رہا ہے‘ تو ان سے مرعوب ہو گئے اور ان کی ترقی نے ان کو بہت متاثر کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مشرق کے مسلمان مغرب کے عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ اٹھ سکیں۔ ناصرالدین نے مغرب کے ایک دورے کے دوران اپنے وزیراعظم کو کہا کہ

”اے وزیراعظم! ہم مغرب تک پہنچنے کی کوشش نہ کریں‘ آپ نے فقط جو کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں‘ کوئی شخص اپنی آواز بلند نہ کرے۔“

سر سید احمد خان جو ہندوستان میں مسلم لیڈر تھے‘ شروع شروع میں مسلسل برطانوی استعماریت کے خلاف لڑتے رہے‘ یہ بات ان کے دوستوں اور مخالفین دونوں نے تسلیم کی ہے کہ ۱۲۸۴ ھ میں پہلے برطانوی دورے نے ان کے ذہن پر کافی اثرات مرتب کئے۔ انہوں نے مغرب کی تمدنی اور سیاسی ترقی‘ اقتصادی فوجی اور تہذیبی طاقت کا مشاہدہ کیا‘ تو استعماریت دشمن خیالات ہوا میں بکھر گئے‘ وہ مغربی تہذیب سے اس قدر متاثر ہوئے اور اس کے رعب و دبدبہ میں آئے کہ یہ گمان کر بیٹھے کہ اس تہذیب کو توڑنا یا اس کے آگے چوں چرا کرنا محال ہے۔ انہوں نے سوچا کہ برطانیہ کے خلاف جہاد کرنا بے فائدہ ہے‘ اس لئے انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو ہندوؤں کی کوششوں سے لاتعلق کر لیا جو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر برطانوی استعماریت کے خلاف کر رہے تھے‘ بلکہ مسلمانوں کی تحریک مسلم لیگ کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی‘ جس تحریک کے علامہ اقبال ایک کارکن تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ سے تعاون کرنا چھوڑ دیا‘ انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں انگریزوں کی خوشنودی حاصل کریں۔ اب بدلا ہوا سر سید مغربی تہذیب و تمدن کا پرچار کرنے والا بن گیا‘ شاید انہوں نے یہ بھی کوشش کی کہ قرآن کی تاویل مغربی مادی نقطہ نظر سے کی جائے۔

اس کے برعکس سید جمال نہ تو مغربی تہذیب سے متاثر ہوئے اور نہ ہی اس سے مرعوب ہوئے‘ انہوں نے مسلمانوں کو ناامیدی اور مایوسی سے دور رہنے کی تلقین کی اور مغربی استعماریت کے ہّوے کے خلاف جرات مندی کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے اکٹھا کیا۔

ڈاکٹر حمید عنایت نے لکھا ہے:

”سید جمال نے ناامیدی اور مایوسی کے خلاف اپنے جہاد کو اپنے رسالہ ”عروة الوثقٰی“ میں خوب ابھار‘ وہ یہ رسالہ عربی زبان میں پیرس سے نکالتے تھے۔ یہ بات اسی زمانے کی ہے جب کہ برطانوی استعمار ایشیاء میں پوری طرح کامیاب و کامران ہو چکا تھا۔ کئی واقعات کے رونما ہونے سے مثلاً ایران کی ۱۸۵۶ ء میں جنگ ہرات میں شکست‘ ۱۸۵۷ ء میں ہندوستانی بغاوت کی ناکامی اور ۱۸۸۲ ء میں مصر پر قبضہ ہو جانا‘ مسلمانوں کے ذہنوں میں برطانوی استعماریت ایک ناقابل شکست طاقت کی حیثیت سے جاگزیں ہو گئی۔ سید جمال نے سوچا کہ جب تک مسلمانوں کو ”عقدئہ ب یچارگی“ سے آزاد نہ کرا لیا جائے ان کا بیرونی نوآبادیت اور اندرونی استبداد کے خلاف انقلاب برپا کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے اپنا مشن بنایا کہ مسلمانوں میں جہاد کی روح پھونکی جائے‘ انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں مکمل اتحاد و یکجہتی پر زور دیا تاکہ برطانیہ کے توسیع پسندانہ عزائم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔“

سید کے اس نظریے کا اظہار ان کے اس مضمون سے ہوتا ہے جو انہوں نے ”ایک کہانی“ کے عنوان سے اپنے رسالہ ”عروة الوثقٰی“ میں شائع کیا‘ اس کا خلاصہ یہ ہے:

”شہرالتسخر کے باہر ایک عبادت گاہ تھی جہاں ہر مسافر رات کے اندھیرے کے ڈر سے پناہ لیتا تھا‘ لیکن جو کوئی بھی عبادت گاہ جاتا تھا تو پراسرار موت کا شکار ہو جاتا۔ اس نے لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا اور لوگوں نے عبادت گاہ میں پناہ لینی چھوڑ دی۔ آخرکار ایک ایسا شخص جو اپنی زندگی سے عاجز تھا‘ پختہ ارادے کے ساتھ اس کے اندر گھس گیا‘ اچانک خوفناک اور ڈراؤنی آوازیں ہر طرف سے آنے لگیں‘ لیکن آدمی ڈٹا رہا اور ہر خوف و اندیشہ کے لئے تیار رہا‘ کیونکہ وہ اپنی زندگی سے تنگ تو آ ہی چکا تھا۔ اس کے عزم سے عبادت گاہ کا خوفناک طلسم دھڑام سے گر گیا‘ عبادت گاہ کی دیواروں میں بڑے شگافوں سے ان کے گنجینے اس آدمی کے قدموں میں گر گئے‘ تب اس کو معلوم ہوا کہ سابقہ لوگ جس چیز سے قتل ہوئے وہ صرف غیبی خوف تھا۔ برطانیہ بھی اسی طرح ایک عبادت خانہ ہے جہاں بھٹکے ہوئے لوگ سیاست کے اندھیرے سے خوف کھا کر پناہ لیتے ہیں‘ دہشت نات توہمات ان کو برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی ایسا شخص جو کہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا ہو‘ لیکن ناقابل تسخیر حوصلے کا مالک ہو تو وہ اس طلسمی عبادت گاہ کے اندر داخل ہو کر بلند چیخ کے ساتھ اس کی دیواروں کو پاش پاش کر دے۔“

یہ اسی طرح کی کہانی ہے جو کہ مثنوی مولانا رومی کی تیسری کتاب میں ”مہمانوں کو قتل کرنے والی مسجد“ کے عنوان سے موجود ہے‘ لیکن سید نے اس کو تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ مسجد کی بجائے عبادت گاہ کے نام سے بتایا ہے تاکہ غیر مسلم ماحول میں بھی اس کو سمجھایا جا سکے۔

سید کی آرزو

سید نے مسلم سوسائٹی کے لئے جو اصلاحی پروگرام اور معاشرتی نظریہ پیش کیا تھا اس کا اگر خلاصہ پیش کیا جائے تو ”اسلامی اتحاد“ سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے‘ نسل‘ زبان‘ علاقہ اور گروپ کے اختلافات کو اسلامی بھائی چارہ کی جگہ قطعاً نہیں لینی چاہئے اور مسلمانوں کے تہذیبی‘ نظریاتی اور روحانی اتفاق میں شگاف ڈالنے کے لئے کسی بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ان کے نزدیک مسلم دنیا وہ ہے جہاں کا ہر فرد تعلیم یافتہ اور عالم ہو‘ عہد حاضر کے آئینی اور ٹیکنالوجی علوم سے کماحقہ آگاہ ہو اور ہر قسم کی استعماریت اور استبدادیت سے آزاد ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کا پیروکار بننا چاہئے نہ کہ اس کا الٹ۔ اسلام کا حاکم اس کے ابتدائی دنوں کے حاکم کی طرح ہونا چاہئے‘ یعنی سادہ اور بغیر پیچیدہ اسباب‘ آرائش و زینت کے جو بعد میں اسلامی تاریخ کے طویل دور میں ان کے ساتھ مل گئے‘ حق کے لئے جہاد کی روح مسلمانوں میں دوبارہ عود کر آئے اور ذاتی عزت و وقار اور دوسرے لفظوں میں استعماریت اور استبداد سے نفی ان کی ذات میں پیدا ہو جائے۔

جہاں تک ہمارا خیال ہے سید نے جاگیرداری نظام جو ان دنوں اسلامی سوسائٹی میں موجود تھا‘ کے متعلق کوئی رائے نہیں دی اور نہ ہی اسلامی تعلیمی اور خانوادگی نظاموں کے سلسلے میں رائے دی‘ حالانکہ وہ ان سے کافی وابستہ رہے۔ معلوم نہیں کہ سید کے خیال میں ان نظاموں کو اسلام کے طے شدہ معیار کے مطابق کس طرح اپنایا جا سکتا تھا‘ بے شک انہوں نے اپنے زمانے کی استبدادی حکومت کے خلاف بے رحم جنگ لڑی‘ لیکن انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے سیاسی فلسفہ کا نقشہ نہیں کھینچا‘ جس کے ساتھ ان کا متواتر لگاؤ رہا‘ اس کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا‘ غالباً استعماریت اور استبدادیت کے خلاف ابتدائی مہمات میں وہ کافی مصروف رہے اور ان کو ایسا کرنے کا موقع نہ مل سکا‘ شاید ان کے خیال میں اسلامی انقلاب کے لئے پہلا قدم یہ تھا کہ مسلمانوں کو آمریت اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف مہم میں لگانا چاہئے۔ جب ایک دفعہ وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو دوسرا صحیح قدم اٹھانا ان کے لئے مشکل نہیں ہو گا‘ لہٰذا مہم کا دوسرا حصہ سید نے آنے والوں کے لئے چھوڑ دیا۔

سید کی خصوصیات

سید قدرتی اور اکتسابی دونوں صلاحیتوں کے مالک تھے‘ اس قسم کا ملاپ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے‘ اس بات کی ان تمام لوگوں نے تصدیق کی ہے جنہوں نے سید کو قریب سے دیکھا۔ لاجواب ذہانت رکھنے کے ساتھ ہی فصاحت اور خطابت بھی عروج پر تھی‘ ان کی آواز میں جادو تھا‘ مصر میں ان کی خطابت لوگوں کے ذہنوں میں طوفان برپا کر دیتی اور لوگ جذبات سے چیخنے چلانے لگتے۔

اکتسابی صلاحیتوں میں سے اہم صلاحیت یہ تھی کہ ان کو صحیح اسلامی تہذیب ہوئی‘ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم قزدین‘ تہران اور نجف میں حاصل کی۔ خصوصاً نجف میں انہوں نے اپنے زمانے کی دو عظیم ہستیوں جناب مجتہداعظم خاتم الفقہاء حاج شیخ مرتضیٰ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ اور نامور فلسفی و روحانی پیشوا ملا حسینقلی ہمدانی سے فیض حاصل کیا۔ سید نے علوم عقلی کی تعلیم ان سے حاصل کی اور یہ دونوں مرحوم بزرگ حاج ملا ہادی سبزواری کے شاگرد تھے۔ ان کے علاوہ نجف کے دو اہم معزز افراد بھی سید کے دوست بن گئے‘ ان میں سے ایک سید احمد تہرانی کربلائی اپنے دور کے مشہور عارف اور حکیم بزرگ تھے اور دوسرے سید سعید حبوبی جو عراق کے مشہور شاعر‘ ادیب‘ عارف اور مجاہداعظم تھے۔ ان کے انقلابی خیالات نے عراقی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دونوں سے سید کی دوستی مرحوم اخوند ہمدانی کے مکتب میں ہوئی۔

سید کے حالات زندگی لکھنے والے ان فلسفیانہ‘ اخلاقی‘ تربیتی‘ سلوکی اور علمی خیالات سے نابلند ہیں جو کہ اخوند ہمدانی کے مکتب میں رائج تھے اور وہ لوگ سید احمد تہرانی کربلائی اور سید سعید حبوبی کے متعلق بھی زیادہ نہیں جانتے۔ وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ سید کے دل و دماغ پر اس مکتب اور دوسرے حضرات کا کیا اثر تھا‘ ان سطور کے لکھنے والے کو جب سید پر ان حضرات کے اثر کا علم ہوا تو سید کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آئے اور ان کی شخصیت کی ایک نئی اہمیت کا پتہ چلا۔

اسلامی تہذیب کے بارے میں وسیع علم کا ہونا اور اس کے عمیق اثرات نے سید کو ہندوستان کے دورے کے دوران یورپی تہذیب کی رو میں بہہ جانے سے بچایا۔

سید کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کو اپنے زمانے کے تمام علوم پر کافی دسترس تھی‘ وہ کئی بیرونی زبانیں جانتے تھے‘ مثلاً انگریزی‘ فرانسیسی اور روسی زبان۔ انہوں نے براعظم ایشیاء‘ یورپ اور افریقہ کے کچھ حصوں میں سفر کیا‘ ہر مقام پر مناسب قیام کرتے رہے۔ ان ملکوں کی اہم شخضیات‘ سیاسی حضرات‘ صاحبان علم و دانش سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں‘ ان تمام چیزوں نے وسیع النظری میں بہت اضافہ کیا۔

ان کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی دنیا کو بہت قریب سے دیکھا۔ حجاز‘ مصر‘ ہندوستان‘ ایران‘ ترکی اور افغانستان کا دورہ کر کے تمام اہم لوگوں سے ملاقات کی‘ ہر ملک میں انہوں نے مناسب قیام کیا اور ان کی تحریکوں کا تجزیہ کیا اور ان کی شخصیات و رجحانات کا گہرا مطالعہ کیا‘ اس چیز نے سید کو ان غلطیوں سے بچا لیا جن کے دوسرے مصلح مرتکب ہوئے۔

ان کی چوتھی خصوصیت یہ تھی کہ اسلامی ممالک کی سیاسی‘ اقتصادی اور جغرافیائی حالات کے متعلق ان کی معلومات وسیع تھیں‘ جو خط انہوں نے میرزا حسین شیرازی کو لکھا‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایران کے اس دور کے مسائل سے پوری طرح باخبر تھے اور ان کو پردہ سیاست کے پیچھے استعماری چال بازیوں و عیاریوں کا بھی پورا علم تھا۔

کواکبی

سنی اصلاحأ دنیا کا تیسرا علمبردار شیخ عبدالرحمان کواکبی ہے‘ وہ صفوی نژاد اور شام کا رہنے والا تھا اور شیخ صفی الدین اردبیلی کی نسل میں سے تھا‘ وہ ترکی اور فارسی زبانیں جانتا تھا اور عُبدہ کا براہ راست اور سید جمال کا بالواسطہ شاگرد تھا۔ وہ شام میں ۱۲۷۱ ھ میں پیدا ہوا اور زندگی کا زیادہ حصہ اپنے ملک میں ہی گزرا۔

زندگی کے آخری ایام میں وہ مصر گیا اور چند سال گزارنے کے بعد ۱۲۲۱ ھ میں ۵۰ سال کی عمر پا کر وہیں فوت ہو گیا۔

کواکبی اسلامی فلاسفر تھا اور وہ استبدادیت کے خلاف اٹھا۔ وہ ان ترک استبدادی حکام کے خلاف برسرپیکار رہا جو شام پر حکومت کر رہے تھے۔ کواکبی نے دو یادگاریں چھوڑی ہیں‘ ایک کتاب ”طبائع الاستبداد“ جس کا فارسی ترجمہ ایران میں آئینی تحریک کے دوران شائع ہوا اور دوسری کتاب ”ام القریٰ“ جس میں اصلاح لانے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔

سید کی طرح کواکبی نے بھی سیاسی بیداری کو بنیادی طور پر اہم اور ضروری سمجھا۔ وہ یہ بھی یقین کرتے تھے کہ سیاسی حکومت چاہے وہ آئینی ہو یا کسی اور شکل میں بذات خود اتنی صلاحیت نہیں رکھتی کہ استبدادیت کے سیلاب کو روک سکے‘ یہ ممکن ہے کہ کسی قسم کی حکومت بھی استبدادی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ حقیقت میں استبداد کو روکنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں میں اجتماعی سیاسی شعور پیدا کیا جائے اور ان کے ضمیر کو جگایا جائے‘ تاکہ وہ حکام پر کڑی نظر رکھ سکیں۔

استبدادیت کے اژدھا کو صرف عوام کے ضمیر کی بیداری ہی دور رکھ سکتی ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم حکومت وقت کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں‘ حکومت ہرگز حکومت نہیں جب تک کہ لوگوں کی شعوری سطح بلند نہ ہو‘ لہٰذا کواکبی سید جمال کے مطابق‘ لیکن عُبدہ کے خلاف اس رائے پر قائم رہے کہ اصلاح کے تمام پروگراموں سے پہلے مسلمانوں کا سیاسی شعور بلند کیا جائے۔ کواکبی دین اور سیاست کی ہم بستگی کا سختی سے پابند تھا اور اس کا اعتقاد تھا کہ اسلام دین سیاست ہے اور اگر ”اسلامی توحید“ کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور لوگ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کے مفاہیم سے کماحقہ آگاہ ہو جائیں تو وہ استبدادیت کے خلاف ناقابل تسخیر دیوار بنا سکتے ہیں۔

دو ممتاز پیشروؤں کی طرح (سید جمال اور عُبدہ) کواکبی بھی اصلی توحیدی نظریے کے سیاسی اور عملی پہلوؤں پر اعتماد کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہافضل الذکر لا اله الا الله ہے اور اس کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے‘ اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے اور عبادت کا مطلب خضوع و خشوع ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ ہی کے آگے خضوع و خشوع ہے‘ ہر وہ امر جو اطاعت خدائے بزرگ کے زمرے میں نہیں آتا‘ وہ شرک اور بت پرستی ہے۔ کواکبی اسلامی توحید کو صرف فکری‘ اعتقادی اور نظری جو تھیوری پر اختتام پذیر ہو‘ نہیں سمجھتا تھا بلکہ اس کو عمل اور خارجی مقاصد کی طرف لے جانا چاہتا تھا‘ تاکہ نظام توحیدی کا ٹھوس نظریہ قائم ہو جائے۔

انصاف سے دیکھا جائے تو اسلام کی علمی‘ اجتماعی اور سیاسی وحدت کی تفسیر علامہ مجتہداعظم میرزا محمد حسین نائینی مرحوم سے زیادہ کسی نے نہیں کی‘ انہوں نے اپنی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ میں قرآن اور نہج البلاغہ سے لاجواب استدلال پیش کئے۔ کواکبی جیسے فلاسفر جس کی تلاش میں ہیں‘ مرحوم نائینی نے معتبر اسلامی مدارک سے اس کتاب میں خوب انداز سے پیش کئے‘ لیکن بدقسمتی سے ہمارے وقت کی شورش زدہ ذہنیت نے کتاب کے نشر ہونے پر اپنا ایسا ردعمل دکھایا کہ مرحوم نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔

کواکبی کی رائے میں ہر استبدادی حاکم اپنی کرسی کو بچانے کے لئے ”قدسی“ جبہ پہن لیتا ہے اور دینی علوم میں حصہ دار بننے کا بہانہ صرف اس لئے کرتا ہے کہ وہ مذموم مقاصد حاصل کرے‘ صرف جو چیز لوگوں کو اس بات سے بچا سکتی ہے کہ ظالم حکام ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں‘ وہ یہ ہے کہ عوام کی دینی اور سیاسی شعور کی سطح بہت ہی بلند ہو۔

کواکبی نے اسلام کے کچھ علماء سلف (اہل سنن میں) پر تنقید کی کہ انہوں نے نظم و ضبط کے نام پر عدل اور آزادی کا گلا گھونٹ دیا‘ یعنی انہوں نے امن و امان کے نام پر آزادی کی رکاوٹ کا سبب بن کر ظالم اور استبدادی حکام کے ہاتھ مضبوط کئے‘ آزادی کو جو کہ انسانیت کے لئے اللہ پاک کا بہترین تحفہ ہے‘ قتل کیا اور عدل کو اپنے پاؤں تلے روندا۔

آزادی اور نظم و ضبط کے رابطہ میں کواکبی نے آزادی کو مقدم سمجھا اور اس طرح دین اور سیاست یا دین و آزادی میں‘ دین کو مقدم جانا‘ کیونکہ دین ہی صحیح آزادی (جو سیاسی ضمیر کو بیدار کرتی ہے) کو حاصل کرنے کا اہم سبب ہے‘ علم اور آزادی یا علم و سیاست کے موازنہ میں اس نے یقین کیا کہ تمام علوم ہمیں آزادی کی رو میں نہیں بہا لے جاتے اور اجتماعی آگاہی کی سطح پر ان دونوں کو ایک ساتھ نہیں رکھا جا سکتا‘ لہٰذا استبدادی حاکم کچھ علوم پر عبور نہیں رکھتا‘ بلکہ وہ خود ان کے رائج کرنے والا بن جاتا ہے‘ لیکن ان دوسرے علوم سے دہشت زدہ رہتا ہے جو کہ عوام میں اجتماعی اور سیاسی بیداری پیدا کرتے ہیں‘ انہوں نے لوگوں کو آمریت اور ظلم کے خلاف آزادی کی جستجو کے لئے بیدار کیا۔

کواکبی کہتا ہے:

”استبدادی حکام علوم لغت اور زبان پر عبور حاصل کرنے کے اس وقت تک مخالفت نہیں کرتے جب تک یہ سننے اور پڑھنے والوں میں حکمت اور شجاعت پیدا نہیں کرتی‘ وہ جانتے ہیں کہ تاریخ میں حسان کی طرح کم ہی ایسے شاعر ہوتے ہیں جو اپنی سحر بیانی سے لوگوں کے جذبات کو ابھار کر ایک لشکر کی صورت میں دشمن کے مقابلے میں لے جاتے ہیں‘ مسنتقین اور شیلی دوبارہ پیدا نہیں ہوتے‘ اس طرح استبدادی حکام ان دینی علوم کو بھی برداشت نہیں کر سکتے‘ مثلاً آخرت‘ عملی زندگی اور روحانیت وغیرہ۔ جو علوم ان کے لئے خطرناک ہیں وہ یہ ہیں‘ علوم حقیقی زندگی‘ فلسفہ عقلی‘ ملک اور اس کی حکومت کا علم‘ تاریخ اور خطابت کا علم‘ وہ ان سے علوم سے خوف زدہ رہتے ہیں‘ جو جہالت اور بے عملی کے بادلوں کو اڑا لے جائیں اور آفتاب درخشاں ظاہر ہو کر پانے تابانی سے انسانی دماغوں میں حرارت اور روشنی پیدا کر دے۔

(سیری در اندیشہ ہائے سیاسی عرب‘ ۱۶۹)