اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں 0%

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

مؤلف: آیۃ اللہ شہید مطہّری(رہ)
زمرہ جات:

مشاہدے: 8470
ڈاؤنلوڈ: 2319

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8470 / ڈاؤنلوڈ: 2319
سائز سائز سائز
اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

مؤلف:
اردو

تحریک کی قیادت

کوئی تحریک بغیر قیادت کے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی‘ لیکن جب ایک تحریک اسلامی ہو اور اس کے مقاصد بھی کلی طور پر اسلامی ہوں تو اس کی قیادت کونسا لیڈر کرے؟ یا کونسے لیڈروں کا گروپ کرے؟

سب سے پہلے قیادت کو ان تمام شرائط پر پورا اترنا چاہئے جو کہ اس کے کام کے متعلق ہوں‘ پھر رہنما مکمل طور پر اسلام شناس ہونے چاہئیں اور ان کو اسلام کے فلسفہ اخلاقی‘ اجتماعی‘ سیاسی اور معنوی سے کماحقہ آگاہ ہونا چاہئے۔ وہ اسلام کے فلسفہ جہان بینی سے مکمل واقفیت رکھتے ہوں‘ وہ ہستی خلقت‘ مبداء‘ خالق ہستی‘ ہستی کی ضرورت اور وجوہات وغیرہ کے بارے میں علم رکھتے ہوں‘ وہ انسان اور سوسائٹی کے بارے میں مکمل اور عمیق آگاہی رکھتے ہوں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ یہ رہنما فرد کی سوسائٹی کے ساتھ روابط کے سلسلے میں اسلامی آئیڈیالوجی کے بارے میں ایک واضح ذہن رکھیں کہ انسان سوسائٹی بنانے میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ وہ سوسائٹی میں کن چیزوں کو عزیز رکھتا ہے؟ اور کن چیزوں کے خلاف ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اور اس کے آخری مقاصد کیا ہیں؟ اور وہ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے کون سے راستے استعمال کرتا ہے؟

یہ ظاہر ہے کہ صرف وہ اشخاص قیادت کر سکتے ہیں‘ جن کی رسومات سے آزاد اسلامی معاشرہ میں پرورش ہوئی ہو اور جو قرآن‘ سنت‘ فقہ اور معارف اسلامی سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں‘ لہٰذا صرف مذہبی اور روحانی قائدین ہی اسلامی تحریکوں کی قیادت کر سکتے ہیں۔ تقریباً ایک سال اور آٹھ مہینے قبل (بارہویں محرم کی شب ۱۳۹۶ ھ) میں ایک مسلم خواتین اور مردوں کے اجتماع میں مدعو تھا‘ میں نے پہلے نہیں سوچا تھا کہ یہ اجتماع ایک درجن سے زیادہ خصوصی دوستوں پر مشتمل ہو گا۔ کچھ صاحبان نظر اور اسلامی مفکرین بھی وہاں موجود تھے۔ آج ان میں سے کچھ ایران سے دور ہیں‘ کچھ جلا وطن کر دیئے گئے ہیں اور کچھ فوت ہو چکے ہیں۔

موقع و محل کے پیش نظر‘ کیونکہ یہ اجتماع مسلمانوں پر مشتمل تھا‘ وہ سننے والے تمام اسلامی‘ مذہبی معاملات میں دلچسپی رکھتے تھے‘ لہٰذا تمام بولنے والوں اور خود مجھ سے التجا کی گئی تھی کہ ہم ایسی تقریریں کریں کہ شرکاء کو کچھ فائدہ پہنچے۔

میں خود شش و پنج میں گرفتار تھا کہ موضوع سخن کیا ہونا چاہئے؟ خصوصاً اس بات کی وجہ سے کہ یہ تقریر ٹیپ ہونی تھی اور بعد میں طلباء میں تقسیم کی جانی تھی‘ اچانک سننے والوں میں سے ایک غیر ذمہ دار آدمی نے ایک بات کہی اور وہی میرا موضوع سخن بن گیا‘ اس کی بات کا خلاصہ یہ ہے:

”لوگوں کو ان علوم (اسلامی معارف) کے شر سے نجات دلائی جائے۔“

اس وقت میں ان باتوں کو یاد کرنے کی کوشش کروں گا‘ جو میں نے اس سوال کے جواب میں کہی تھیں‘ کیونکہ یہ باتیں ہمارے موضوع کے متعلق ہیں۔

ارسطو نے فلسفہ کے بارے میں یہ جملے کہے ہیں کہ

”اگر تم فلسفی بننا چاہتے ہو تو اپنے کو فلسفیانہ رنگ میں رنگو اور اگر تم فلسفی نہیں بننا چاہتے تو بھی اپنے آپ کو فلسفی رنگ میں رنگو۔“

اس کی توضیح میں اس طرح کروں گا کہ ارسطو نے کہا کہ اگر فلسفہ صحیح ہے تو اس کی تائید کرو اور اگر غلط ہے تو اس کا انکار کرو‘ اگر فلسفہ قابل تائید ہے تو چاہئے کہ فلسفی ہو کر فلسفیانہ انداز میں اس کی تائید کرو اور اگر فلسفہ ناقابل تائید ہے تو چاہئے کہ فلسفی بن کر فلسفیانہ انداز میں اس کی ترید کرو۔ اس وجہ سے ہر حالت میں فلسفے کا جاننا ضروری ہے اور کسی فلسفہ کا انکار بھی ایک فلسفہ کی قسم ہے۔ وہ لوگ جو کچھ علوم کو اس طرح حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کے علوم کا فلسفیانہ غور فکر سے کوئی باہمی رشتہ نہیں ہوتا اور یہ لوگ فلسفہ کی نفی کرنے لگتے ہیں‘ یہ بہت سخت غلطی میں مبتلا ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ علماء اسلام نے ہزاروں سال کے عرصہ میں انسانی معاشرہ‘ تمدن جہاں اور جہاں کے معارف‘ علوم ریاضیات‘ علوم طبیعات‘ علوم انسانی‘ فلسفیانہ علوم‘ قانون اور ادبیات کے سلسلے میں کوئی خدمت کی ہے یا نہیں‘ حالانکہ بے شک انہوں نے خدمت کی‘ لیکن میں کہتا ہوں کہ ہماری فقہ‘ ہمارا فلسفہ‘ ہمارا فلسفہ زندگی‘ فلسفہ تعلیم و تربیت‘ اخلاقیات‘ تفسیر‘ احادیث‘ ادبیات اور ہمارے قوانین کو قبول کرتا ہے تو وہ ایک فقیہ بنتا ہے‘ ایک فلسفہ بنتا ہے اور ایک عارف بنتا ہے اور اگر وہ اس کی نفی کرتا ہے تو اس کو بھی ان علوم کو سمجھنا چاہئے اور ان کو اکٹھا کر کے سوچ و بچار کے بعد ان کی تردید کرنی چاہئے۔ یہ قطعاً صحیح نہیں ہے کہ ایک آدمی جو ایک فلسفہ اور فقہ کی کتاب کے متعلق کچھ نہیں جانتا‘ وہ صرف کتاب کو دیکھ کر ہی اس کی تردید کر دے۔

میں اپنے نقطہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہوں گا کہ ہماری تحریک عملاً عروج پر ہے‘ کسی اجتماع تحریک کے لئے ضروری ہے کہ فکری اور کلچرل تحریکیں اس کی پشت پناہی پر ہونی چاہئیں‘ بصورت دیگر معاشرتی وابستگیاں اس پر حاوی ہو کر اس اجتماعی تحریک کو جذب کرنا شروع کر دیتی ہیں اور اس کا رخ موڑ دیتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ اسلامی تمدن کی دولت سے ناواقف تھے اور وہ مکھی کی طرح دوسرے معاشروں کے جالے میں پھنس گئے‘ دوسری طرف وہ اسلامی معاشرتی حریک جو ہماری اپنی اجتماعی تحریک سے نکلی ہے وہ اپنے قدیمی کلچرل سے مستفید ہوتی ہے اور دوسرے خارجی کلچر سے متاثر نہیں ہوتی۔ یہ ہمارے لئے کافی نہیں ہو گا کہ ہم اسلام کی تحریک کو اس طرح چلائیں کہ دوسرے کلچرز کی اینٹوں سے اپنے کلچر کی عمارت کی تعمیر کریں‘ مثلاً ہم مارکسزم یا دوسرے نظریات کو دیکھیں اور ان کو اسلام میں ملانے کی کوشش کریں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم صرف اسلام کی ہدایت نہ کریں‘ بلکہ اسلام کے فلسفہ اخلاق‘ فلسفہ تاریخ‘ فلسفہ سیاسیات‘ فلسفہ اقتصادیات‘ فلسفہ دین‘ فلسفہ الٰہی جو اسلامی تعلیمات کے متن میں موجود ہیں‘ کی تدوین کریں اور ہمارے افراد ان کو اختیار کریں۔

قیادت کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے میں یہ کہتا ہوں کہ آج ہمیں خواجہ نصیرالدین طوسی‘ ابو علی سینا‘ ملا صدار‘ شیخ انصاری‘ شیخ بہائی اور محقق حلی جیسے بزرگ علماء کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ علماء ہم ایسے نہیں چاہتے جیسے جیسے وہ اپنے اپنے ادوار میں تھے‘ بلکہ اوپر دیئے ہوئے علماء دور عصر کے مزاج کے مطابق ہونے چاہئیں اور وہ اس دور کے تمام احساسات سے بخوبی واقف ہونے چاہئیں۔

میں اپنے سوال کو سمجھانے کے لئے مزید کہوں گا کہ کچھ نوجوانوں نے جو ولولہ انگیز جذبہ ایمانی رکھتے ہیں‘ میرے سے رائے طلب کی کہ وہ یونیورسٹیوں کی تعلیم مکمل کر کے ڈگریاں لینے والے ہیں‘ اب اسلامی علوم کے سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اتنے شوقین ہیں کہ وہ یونیورسٹی کی تعلیم کو فوراً ختم کر کے اسلاف کی تعلیمات کو سیکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن میں نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور ان کو نصیحت کی کہ وہ یونیورسٹی کی تعلیم ادھوری نہ چھوڑیں بلکہ اس کو مکمل کر کے پھر اپنی پسند کی لائن اختیار کریں۔ میں نے ان کو رائے دی کہ کچھ ان میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد سائنسی علوم کے خاص خاص شعبوں میں مہارت حاصل کریں اور کچھ اپنے آپ کو مذہبی علوم کے لئے وقف کریں۔ میں نہیں چاہتا کہ کافی سارے لوگ عوامی فنڈ پر گزارہ کریں۔

نوجوانوں کا یہ رجحان ایک صحت مندانہ فعل ہے‘ اس طرح سے یہ طالب علم زمانہ قدیم کے علوم اور جدید سائنسی علوم میں ایک رابطہ کا کام کریں گے اور اس سے بیش بہا اسلامی فائدہ پہنچے گا۔

ان نظریات کو سمیٹنے پر جو میں نے اس اجتماع میں پیش کئے‘ یہ خلاصہ پیش کیا جا سکتا ہے:

”یہ عظیم اور خود کفیل اسلامی کلچر ہے جس پر تحریک کا سارا دار و مدار ہے اور ہونا چاہئے‘ یہ علمائے اسلام اسلامی کلچر کے ماہرین اور زمانہ شناس ہیں جو قیادت کر سکتے ہیں اور جن کو کرنی چاہئے۔“

چند روز پیشتر میرے ایک دوست نے ایک کتاب دی‘ جس میں ”در روش“ کے عنوان سے ایک مقالہ تھا۔ یہ مقالہ ایک دوست نے لکھا‘ جو سالہا سال سے یورپ میں رہا ہے۔ میں اس ے کبھی نہیں ملا ہوں‘ لیکن اس کا عقیدت مند ہوں۔ اس مقابلہ میں اس نے ”روایتی لیڈرشپ“ پر بحث کی ہے‘ اس مقالہ کے شروع میں اس نے ”حرکت“، ”بنیاد“ اور حرکت کی بنیاد میں تبدیلی کو بیان کیا ہے کہ کس طرح حرکت ماہیت میں تغیر اور تحریک پیدا کرتی ہے‘ نظاموں اور قالبوں کی صورت میں آتی ہے‘ اس نے ”متحرک“ کی ساکن میں تبدیلی پر بھی بحث کی ہے۔ اگر ہماری اجتماعی طاقتیں موج در موج اٹھیں اور جذب ہو جائیں تو یہ حرکت کی بنیاد میں تبدیلی کی وجہ ہے۔ یہ اس لئے ایسا ہے‘ کیونکہ عمل اور فکر کو ایک شکل و قالب دینے کی ضرورت ہے‘ لہٰذا سب سے بنیادی کام یہ ہے کہ قالب‘ قالبوں کو ختم کر دینا چاہئے‘ پھر فرض کر لینا کہ دین اسلام نوجوان کا دین ہے اور نوجوان قالبوں کو ختم کرتے ہیں‘ پس اسلام قالب شکنی کا دین ہے‘ اس کے بعد اس نے ”سنتی روایتی لیڈرشپ“ کے سوال پر بحث کی ہے‘ جو اس وقت ہمارے زیربحث ہے۔

میرا یہ نادید دوست ہمیں اس بات کی اجازت دینے پر پس پشت نہیں کرے گا کہ اس کے بیان پر تنقید کی جائے‘ ہم بیان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کو خوش آمدید کہیں گے۔

پہلی بات جو ہمارے دوست نے سوچی ہے‘ وہ یہ ہے کہ حرکت اور جنبش کے لئے ثبات کا انکار ضروری ہے‘ لیکن اس نے یہ نہیں سوچا کہ اگر حرکت ثبات کے بغیر ہو تو اس کا نتیجہ ابتری اور بے نظمی ہے‘ نہ کہ ترقی و ارتقاء۔

قرآن جہاں ہدایت‘ حرکت اور کمال کی تعلیم دیتا ہے وہاں وہ صراط مستقیم کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ انسان کو جب صراط مستقیم پر چلنا ہے تو یہ صراط مستقیم بذات خود کیا ہے؟ کیا صراط مستقیم ہدایت کرتا ہے؟ کیا یہ راستہ بھی متحرک ہے؟ کیا یہ صراط مستقیم محافظ ہے اور ان کا نگراں ہے جو کہ اس راستے کو اختیار کرتے ہیں؟ کیا یہ حرکت کو بنیاد میں تبدیل کرنے والا عامل ہے؟ کیا روایتی رہبروں کے لئے یہ گناہ ہے کہ وہ کلچر کے پاسدار ہیں؟ یعنی اس کلچر کے جو کمال اور حرکت کے ساتھ صراط مستقیم پر ہے۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:

”زندگی صرف تغیر اور سادہ نہیں ہے۔“

اس کے اندر بقاء و دوام کے عناصر موجود ہیں اور مزید کہتا ہے کہ

”اسلام خدا کے ساتھ وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے‘ نہ کہ حکومت استبداد کی وفاداری کا۔“

اور خدا ہر زندگی کی اخروی روحانی بنیاد ہے‘ لہٰذا خدا کے ساتھ وفاداری کا مطلب اپنی طبیعت مثالی کے ساتھ وفاداری ہے۔ ایک سوسائٹی جو اس حقیقت پسندانہ نکتے پر یقین رکھتی ہو اسے چاہئے کہ وہ بذات خود اپنی زندگی میں ”ابدیت“ اور ”تغیر“ کی آپس میں سازگاری پیدا کرے‘ اجتماعی حیات کی تنظیم کے لئے ابدی اصول اس کے پاس ہونے چاہئیں‘ اس تغیر دائمی دنیا میں جو چیز ابدی و دائمی ہے وہ ہمارے لئے ایک مضبوط جگہ کھڑے ہونے کے لئے مہیا کرتی ہے۔

ہمارے دوست نے ”ساکن“ اور ”ثابت“ میں اشتباہ کیا ہے‘ اگر وہ اسلامی کلچر سے بخوبی واقف ہوتا‘ تو وہ یہ جانتا کہ تغیر اور متغیر ہونا بغیر ثبات کے ناممکن ہیں۔ ہر چیز جو حرکت کرتی ہے یا کم از کم منزل اور مرحلہ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے‘ وہ ایک خاص معین مدار میں حرکت کرتی ہے یا تبدیلی لاتی ہے‘ وہ مدار بذات خود ثبات ہے‘ اس میں کوئی تبدیلی یا حرکت نہیں‘ وہ چیز جو تبدیل ہوتی ہے یا کچھ عبور کرتی ہے وہ مرحلہ و منزل ہے نہ کہ مدار اور راستہ ہے۔

اگر ہمارے دوست ہر چیز کے ”وجود تاریخی“ کا قائل ہے‘ حتیٰ کہ اصول حقائق‘ مکتب‘ آئیڈیالوجی اور کلچر کا وجود تاریخی ہونا‘ تو پھر ہزار اور چار سو سال پرانے اسلام جس کی جان و دل سے وہ دفاع کرتا ہے‘ سے کیا چاہتا ہے؟

شاید یہ کہا جائے کہ اسلام بذات خود حرکت اور جنبش ہے‘ جو اپنے وجود کو دائمی زندگی بخشتا ہے‘ نہ کہ بنیاد و نظام۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ اسلام نہ تو حرکت ہے اور نہ متحرک‘ نہ جنبش ہے اور نہ جنبش دینے والا‘ یہ اسلامی سوسائٹی ہے جو اسلام کے مدار میں اور صراط مستقیم پر حرکت کر رہی ہے یا چاہئے کہ اسلامی سوسائٹی کو حرکت میں ہونا چاہئے‘ نہ کہ اسلام کو۔

یہ صحیح ہے کہ بعض دفعہ کوئی عظیم ہلچل مچا دینے والا واقعہ یا اجتماعی واقعہ اپنی اصل روح سے محروم ہو جاتا ہے اور آداب و رسوم و تکلفات کا ایک بے اثر سلسلہ باقی رہ جاتا ہے۔

حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام نے فرمایا ہے کہ

”امویوں کے ہاتھوں میں اسلام کی ایسی مثثال تھی جیسے کوئی شخص کسی برتن کو الٹا پکڑے ہوئے ہو اور برتن میں موجود تمام چیز نیچے گر رہی ہو‘ حتیٰ کہ برتن خالی ہو جائے اور صرف برتن اس کے ہاتھ میں رہے۔“

یکفا الاسلام کما یکفا الانا

یہ اجتماعی عمل حرکت کو بنیاد میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے‘ ایک مثال سے میں اس کی مزید توضیح کرنا چاہتا ہوں۔

امام حسین علیہ السلام کی روایتی عزاداری حرکت کی بنیاد میں تبدیلی ہے‘ یہ عزاداری کے جس کے متعلق کہا گیا ہے:

من بکی او بکی او بتا کی و جبت له الجنة

بہت سی اہم باتیں اس میں پنہاں ہیں۔ عزاداری کا اصل فلسفہ یہ ہے کہ یزید‘ ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں سے اظہار بیزاری کیا جائے اور امام حسینعليه‌السلام کی طرفداری اور حمایت کی جائے۔ حسینعليه‌السلام نے ایک وقت میں ایک مکتب کی صورت اختیار کی‘ وہ ایک ہی وقت میں ایک اجتماعی اور معین شدہ سوسائٹی کے طور طریقوں کی مثال بن گئے اور دوسرے معین شدہ طور طریقوں کی نفی کرنے والے بن گئے‘ حقیقت میں ایک آنسو کا قطرہ بہانا ذاتی قربانی کے مترادف ہے۔

سخت ترین یزیدی شرائط اور پابندیوں کی موجودگی میں حزب حسینیعليه‌السلام میں شمولیت اختیار کرنا‘ شہداء پر برملا آنسو بہانا‘ سچوں کی حمایت کا بہ بانگ دہل اعلان کرنا اور اہل باطل کے خلاف اہل حق کے ساتھ مل کر جنگ کرنا‘ حقیقت میں ذاتی قربانی کی قسمیں ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کی عزاداری حقیقت میں ایک حرکت ہے‘ ایک موج ہے اور ایک اجتماعی جنگ ہے۔

لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ یہ فلسفہ اور یہ روح معدوم ہوتی گئی اور برتن خالی ہونا شروع ہو گیا‘ حتیٰ کہ برتن کا تمام مواد ختم ہو گیا اور یہ صرف ایک ”عادت“ بن گئی کہ کچھ لوگ جمع ہو کر عزاداری کے مراسم میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کے بحث و مباحثے کسی ایک اجتماعی سمت کا تعین نہیں کرتے‘ اجتماعی نقطہ نظر سے اس کو کوئی بامعنی اور نتیجہ خیز عمل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ یہ نقطہ ایک مذہبی فریضہ سمجھا جاتا ہے اور مذہبی رسم کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور اس کا عہد حاضر کے حسینیوں اور عہد حاضر کے یزیدیوں اور عبدالیوں سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حرکت بنیاد یا عادت میں تبدیل ہو گئی ہے اور یہ ہے برتن کا خالی ہو جانا‘ یہ اتنی رسمی صورت اختیار کر گئی ہے کہ اگر یزید بن معاویہ قبر سے نکل آئے تو وہ نہ صرف خوشی سے اس رسم میں شریک ہو گا‘ بلکہ ان رسوم کی ادائیگی کے لئے ایک بڑے گروہ کی تشکیل بھی کرے گا۔ ان اجتماعوں میں لگاتار آنسو بہانے کا کیا فائدہ؟ یہ بات صحیح ہے اور میں نے کئی اجتماعات میں اس کے متعلق بیان کیا ہے‘ لیکن ہمارے دوست سے سوال یہ ہے کہ آیا ہمارا پرانا کلچر جو کہ روایتی رہبری کی حفاظت میں ہے‘ کیا چیز ہے؟ کیا سید جمال‘ مدرس‘ آیت اللہ خمینی اور طالقانی ان رسوم اور وضع داریوں کے محافظ ہیں؟ پھر ہم پوچھیں گے کہ رہنماؤں میں سے کونسا ایسا رہنما ہے جو عوام میں اتنا ہیجان اور حرکت پیدا کر سکے‘ جتنا کہ روایتی لیڈرشپ پیدا کر سکتی ہے؟ کیا کوئی غیر سمی رہنما پچھلے دس سال کے دوران لوگوں میں دس فیصد حرکت پیدا کر سکا ہے؟

کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہ اسلامی تحریک کی قیادت کو ”مذہبی علماء کے طبقے“ سے روشن خیال طبقے کی طرف منتقل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ دلائل دیتے ہیں کہ ایرانی سوسائٹی ایک مذہبی سوسائٹی ہے اور اجتماعی عمر کے لحاظ سے پندرہویں اور سولہویں صدی کے یورپ کی مانند ہے‘ جہاں صرف مذہبی نعروں نے لوگوں میں حرکت پیدا کی۔ دوسری طرف ایرانی لوگ مسلم ہیں اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں‘ جو انقلابی اور حرکت پیدا کرنے والا مذہب ہے۔ آج کا ایران اجتماعی صورت میں پندرہویں اور سولہویں صدی کے یورپ کی مانند ہے‘ جہاں کی فضا میں صرف مذہبی سانس لی جا سکتی ہے اور صرف مذہبی نعروں کی بناء پر ہیجان پیدا کیا گیا ہے۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ ہر سوسائٹی میں ایسے مخصوص روشن خیال افراد کا گروہ موجود رہتا ہے جو انسانی خود آگاہی رکھتے ہیں اور موجودہ دور کے انسان کے مصائب و مسائل کا احساس رکھتے ہیں اور صرف اسی گروہ میں صلاحیت ہے کہ سوسائٹی کی آزادی کا بوجھ اٹھا سکیں۔ ایران کے آج کے روشن خیال اگر موجودہ ایران اور موجودہ یورپ کا آپس میں مقابلہ کریں تو وہ غلطی پر ہوں گے اور یہ ھھھھ میں ہو گا کہ وہ ایران کے لئے وہی نسخہ تجویز کریں جو یورپ کے لئے رسل اور سارتر تجویز کر رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کا ایران پندرہویں اور سولہویں صدی کے یورپ کی سطح پر ہے‘ نہ کہ بیسویں صدی کے یورپ کی سطح کا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلام ”مسیحیت“ نہیں ہے‘ اسلام اور بالخصوص شیعی اسلام حرکت‘ انقلاب و خون‘ آزادی‘ جہاد اور شہادت کا مذہب ہے۔ ایران کے روشن خیال اس فریب نظر میں نہ آئیں‘ کیونکہ آج کے یورپ میں مذہب نہیں ہے اور وہاں مذہبی نقوش کو ختم کر دیا گیا ہے‘ لہٰذا ایران میں بھی مذہبی نقوش کو ختم کر دینا چاہئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نہ تو ایران یورپ ہے اور نہ اسلام مسیحیت ہے۔ ایران کے روشن خیال افراد کو چاہئے کہ وہ اس انقلاب کے عظیم منبع سے حرکت اور طاقت حاصل کر کے اپنے لوگوں کی آزادی کی کوشش کریں‘ لیکن یہ یقینی ہے کہ اس کے ساتھ کچھ شرائط بھی ہیں‘ ان کے مطابق پہلی شرط یہ ہے کہ اس وقت مذہب کے جو محافظ اور نگہبان ہیں‘ ان کی نمبرداری ختم کرنی چاہئے۔

ان روشن خیال افراد سے میری پہلی گزارش یہ ہو گی کہ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام ایک ”حقیقت“ ہے نہ کہ ”مصلحت“ اور یہ ایک ”نصب العین“ ہے نہ کہ ”ایک وسیلہ“، لہٰذا صرف وہ افراد اسلام کی طاقت اور حرکت سے مستفیض ہو سکتے ہیں جو اس کو حقیقت اور ہدف سمجھتے ہیں‘ نہ کہ وہ جو اس کو مصلحت اور وسیلہ خیال کرتے ہیں۔ اسلام ایک ایسا ”اوزار“ نہیں ہے جس سے سولہویں صدی میں استفادہ کیا گیا ہے اور اب بیسویں صدی میں اس کے استعمال کی ضرورت نہ رہی ہو۔ اسلام انسانیت کے لئے صراط مستقیم ہے‘ ایک متمدن انسان اتنا ہی اس کی رہنمائی کا محتاج ہے جتنا ایک غیر متمدن انسان۔ یہ ترقی یافتہ انسان کو اتنی ہی آزادی اور نجات و سعادت عطا کرتا ہے جتنا ابتدائی انسان میں! یہ ایک بہت بڑا المیہ ہو گا کہ ہم اسلام کو محض ایک وسیلہ اور ایک مصلحت کے طور پر جہان بینی اور اجتماعی حالات کے لئے استعمال کریں۔ اس لئے ہم ان لوگوں سے اپیل کریں گے کہ وہ ان حالات کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور اسلام کو اگر وہ حقیقت اور ہدف کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تو ہرگز مصلحت اور وسیلہ کی نگاہ سے بھی نہ دیکھیں۔

تاہم اگر اسلام ایک وسیلہ اور اوزار ہے تو پھر یہ حقیقی اسلام ہے نہ کہ وہ اسلاسم جس پر صرف اسلام کا خول چڑھایا گیا ہو‘ اگر ہر وسیلہ اور اوزار کے استعمال کے لئے خصوصی مہارت حاصل کرنا ضروری ہوتی ہے تو پھر اسلام کے لئے بھی ایسا ہونا چاہئے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک نام نہاد روشن خیال جو فلاں پروفیسر کے ساتھ صبح کے ناشتے میں شریک رہتا ہے‘ کبھی اس نے ایسا علم حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ حقیقی اور نقلی اسلام کی پہچان کی جا سکے؟ اور کبھی سوسائٹی کے مفاد کے لئے اس علم کو استعمال کیا ہے؟

تیسری بات اگر مجھے معاف کیا جائے تو عرض کروں گا کہ یہ قابل احترام روشن خیال افراد کافی دیر کے بعد خواب سے بیدار ہوئے ہیں‘ کیونکہ قدیم متولوں نے حرکت و قوت کے اس سرچشمے کی نشاندہی کی ہے اور وہ اس سے استفادہ کرنے کے طریقوں سے واقف ہیں اور وہ اب نہیں چاہتے کہ ان کا ”خول“ اتر جائے۔

لہٰذا ہم ان روشن خیالوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ”انتقال اقتدار“ اور ”خول کے اتراؤ“ کے خوابوں کو بھول جائیں اور عالم انسانیت کی دوسری خدمت اور اس کے متعلق فکر کرنے پر اپنی توجہ مبذول کریں۔

اسلام‘ اسلامی تہذیب‘ اسلام کی طاقت اور صلاحیت کو اسلام کے ان متولیوں کے لئے چھوڑ دینی چاہئے جو اسلام کی نگہداشت کرتے ہیں اور جو اسلام کے ماحول میں پروان چڑھے ہیں اور جن کے اوزاروں سے عام لوگ مانوس ہیں۔

رسالہ ”اقبال معمارِ تجدید بنائے اسلام“ میں سید جمال کی سرگرمیوں اور انہوں نے اسلامی دنیا میں جو ہیجان اور انقلابی کیفیت برپا کر دی‘ کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے درج ہے کہ

”اس نے اتنی طاقت اور اثر کیسے حاصل کیا؟ وہ کیا اسباب تھے جو اس بات کے موجب بنے کہ تن تنہا ایک شخص کی آواز مملکتوں کے حدود کو توڑ کر لوگوں کے دلوں میں اترتی رہی‘ کیا یہ اس سبب کے علاوہ کوئی سبب تھا کہ مسلمان اس آواز کو اپنے کسی شناسا کی آواز محسوس کرتے تھے۔ محسوس کرتے ہیں کہ یہ آواز اپنی درخشاں تاریخ‘ تہذیب کے ضمیر کی گہرائیوں اور اعلیٰ افتخار سے ابھری تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ آواز کوئی اجنبی آواز نہیں تھی اور نہ ہی باہر کے خیالات کی عکاسی کرنے والی آواز تھی۔ یہ انہی آوازوں کی گونج تھی جو کبھی حرا‘ مکہ‘ مدینہ‘ احد‘ قادسیہ‘ بیت المقدس‘ جبل الطارق اور صلیبی جنگوں کے دوران ابھری تھیں۔ یہ وہی صدا تھی جو عزت و وقار کے لئے جہاد کرنے کے لئے بلند کی گئی اور تاریخ اسلام میں یہ صدا بار بار گوش گزار ہوتی رہی۔“

یہ جو کچھ سید کے بارے کہا گیا ہے‘ بالکل ٹھیک ہے اور حقائق پر مشتمل ہے‘ اس کی صدا تہذیبی روح کی گہرائیوں سے اور اسلام کی پرافتخار تاریخ سے نکلی تھی۔ یہ اس لئے کہ سید بذات خود اسی تہذیب کی پیداوار تھا اور اس کی روح نے اسی تہذیب میں نشوونما پائی۔

ایران کی اسلامی بیداری کی تحریکوں کے لئے یہ باعث افتخار ہے کہ ان کی قیادت ان بہادر‘ نڈر اور صاحب علم افراد کے ہاتھ میں ہے جو موجودہ دور کی ضروریات و احتیاجات سے کماحقہ آگاہ ہیں‘ عوام کے ہمدرد ہیں اور اسلام کی سربلندی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ ناامیدی‘ مایوسی اور جو شیطان کی فوجیں ہیں‘ ان کے اندر نہیں پائی جاتیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ مراجع کے مقابلے میں ماضی میں کئی ایسے مراجع گزرے ہیں جن کی حوزئہ مرجعیت کی شان بہت اعلیٰ اور ان کے مقلدین کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے‘ لیکن مقابلتاً ان کی شہرت اور اثر کم تھا‘ غیر متزلزل طور پر مذہبی کاموں کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا موجودہ قیادت کی امتیازی صفت ہے۔

ہم اس بے لوث عظیم الشان قیادت کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ہمارے لئے یہ بات باعث فخر ہو گی کہ ان شاندار خدمات کو تاریخ کے صفحوں میں محفوظ کر لیں اور خداوند عزوجل کے سامنے دست بدعا ہوں کہ ان کی کامیابیوں میں اضافہ کرے۔

مراجع عظام جن میں آیت اللہ العظمیٰ شریعت مداری‘ آیت اللہ العظمیٰ گل پائیگانی‘ آیت اللہ العظمیٰ مرغشی نجفی جنہوں نے کلمہ حق کی آواز بلند کی‘ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی اور فخر کا باعث بنے ہیں‘ ان کے نام گرامی تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ درخشاں رہیں گے۔ یہ صرف وہ کم ترین اجر ہے جو خداوند تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے۔

لیکن مجھے ان کے متعلق کہنے دیجئے جو کہ ”پردیسی“ ہے اور ہمارے دلوں کی دھڑکنیں اس کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اس کا نام‘ اس کی یاد‘ اس کے کلمات‘ اس کی پرجوش روح‘ اس کا پختہ ارادہ و عزم‘ اس کی استقامت‘ اس کی شجاعت‘ اس کی رجائیت اور اس کا ایمانی جذبہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے یعنی میرا مقصد فرزندان ایران میں سے سب سے پیارا اور سب سے اعلیٰ‘ آنکھوں کی ٹھنڈک اور ملت ایران کا عزیز ترین استاد عالی قدر اور ہمارا بزرگ حضرت آیت اللہ العظمیٰ خمینی ادام اللہ ظلہ العالی‘ وہ ایسا حسین تحفہ ہے جو خداوند تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اور وہ ان واضح کلمات کے مصداق ہیں:

ان الله فی کل خلف عدوه ینقون عنه تحریف المبطلین

میری قلم بے تاب ہے کہ اس استاد بزرگ کہ جس کی صحبت اور شاگردی میں‘ میں نے ۱۲ سال گزارے‘ کچھ لکھوں‘ میں نے ان سے بے پناہ روحانی اور معنوی فیض حاصل کئے۔

ظاہراً اس اسلامی بیداری کی تحریک میں روحانی اور غیر روحانی شخصیات کی بھاری تعداد نے حصہ لیا‘ ایسے لوگ اور گروپ بھی جو کہ اس تحریک کی فکری اور عملی فعالیت سے کئی سال پہلے اس میں کام کر رہے تھے‘ بلاشبہ انہوں نے جدید نسل کے ذہنوں میں ایسے خیالات اور نقش بنائے جو اس عظیم تحریک کے لئے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ کچھ دوسرے لوگوں نے تحریک کے آخری مرحلے تک پہنچانے میں تعاون کیا‘ اس کو وسعت دینے اور اہمیت کے ظاہر کرنے کے لئے بہت زیادہ قربانیاں دیں‘ حتیٰ کہ ان کو جیلوں میں ڈالا گیا‘ ان کو نیست و نابود کیا گیا‘ ان کو خوفناک اذیتیں دے دے کر ان کی زندگیاں ختم کر دی گئیں‘ کچھ اور ایسے ہیں جن کے تاریخ میں درخشندہ طور پر محفوظ کر لئے گئے ہیں‘ وہ تحریک میں وسعت پیدا کر کے اس کو بلندیوں پر لے گئے اور اس کو ایک خاص سمت میں ڈال دیا۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جو آدھے راستے پر ہی تھک گئے اور ان کے اعصاب جواب دے گئے اور انہوں نے اپنے قدم روک لئے اور کچھ نے اپنے کو بدل لیا‘ کچھ نے اپنے راستے کو بدل کر دوسرے نظریات کو جذب کر کے اپنے ذہنوں میں ناسور پیدا کر لئے۔ اگر اس تحریک کی تحلیلی اور علمی تاریخ تعصبات اور تہمات سے بالاتر ہو کر لکھی جائے تو یہ ایک ضخیم کتاب بنے گی‘ اس چھوٹی سی کتاب میں ہم اس موضوع پر زیادہ نہیں لکھ سکتے اور ان تمام مطالب کی وضاحت نہیں کر سکتے‘ ہم صرف یہاں خداوند تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ وہ تمام لوگوں کی خیر و برکت دے جن کی سچے دل کی اور نیک نیت کے ساتھ اس تحریک کے مقاصد کے حصول کی خاطر سرگرم ہیں۔