ائمہ اور سیاست

ائمہ اور سیاست 0%

ائمہ اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ائمہ اور سیاست

مؤلف: سید افتخار عابد نقوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 6247
ڈاؤنلوڈ: 2137

تبصرے:

ائمہ اور سیاست
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6247 / ڈاؤنلوڈ: 2137
سائز سائز سائز
ائمہ اور سیاست

ائمہ اور سیاست

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

عنوان: ائمہ اور سیاست

مصنف: سید افتخار عابد نقوی

ماخذ:شیعہ اسٹیڈیز

آئمہ(علیہم السلام) اور سیاست

آئمہ(علیہم السلام) کی روشن زندگی میں ایک قطعی اور مشترک اصول جو کہ تمام زاویوں سے نظر آتاہے وہ سیاست میں شرکت کرنا ہے اور آئمہ(علیہم السلام)کا سیاست میں شامل ہونا اس طرح ہے کہ اس کو ان کی زندگی سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔

ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اس رکن کی طرف زیادہ اہمیت دیں ، کیونکہ دنیادار لوگوں نے مسلمانوں کی دنیا اور دین کو ختم کرنے کیلئے ہمیشہ یہ نعرہ لگایاہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اس صدی میں اسلام کو زندہ کرنے والی شخصیت حضرت امام خمینی (رحمۃاللہ) فرماتے ہیں:

"خدا کی قسم اسلام پورے کا پورا سیاست ہے، اسلام کو غلط طریقے سے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے"۔

حضرت امام خمینی اپنی کتاب تحریر الوسیلہ میں فرماتے ہیں کہ:

اسلام کے فلسفے سے بے خبر کچھ لوگ آئمہ(علیہم السلام) کے کچھ اقوال کو نہ سمجھتے ہوئے اس نظرئیے کی تائید کرتے ہیں کہ اسلام اور سیاست الگ الگ ہیں اور دلیل کے طور پر آئمہ(علیہم السلام) کے اقوال کو پیش کرتے ہیں جیسے کہ امام علی- نے فرمایا :

تمہاری دنیا میرے نزدیک بکری کے بلغم سے زیادہ بے وقعت ہے۔

یا ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اے دنیا! تو میرے علاوہ کسی اور کو جاکر دھوکہ دے ۔ میں تو تجھے تین طلاقیں دے چکاہوں جن کے بعد پلٹنے کی گنجائش نہیں ہے۔

مندرجہ بالا جملات میں حضرت امیر المومنین- نے دنیا سے دوری کا اظہار کیا ہے اور یہ دوری اس بات پر دلیل ہے کہ آئمہ(علیہم السلام) دنیا کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس بنا ء پر آئمہ(علیہم السلام)کس طرح سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں جب کہ سیاست کا دوسرا نام دنیا ہے۔

فلسفہ دنیاداری

دنیا کی دو قسمیں ہیں: ۱ ۔مذموم ۲ ۔مدوح

جب بھی دنیا حلال طریقے سے حاصل کی جائے اور معنوی اہداف کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے تو یہ خدا کی نظر میں پسندیدہ ہے۔

اور جب بھی دنیا غلط راستے سے حاصل کی جائے اور خود دنیا ہدف ہو تو وہ خداکی نظر میں ناپسند ہے۔

حضرت امیر المومنین- کی سرزنش یا دوری اس دنیا سے مربوط ہے جو کہ خدا کی نظر میں ناپسند ہے جوکہ دین بیچنے کیلئے استعمال کی جائے۔

پہلا قول: ان منافقین سے تعلق رکھتا ہے کہ جنہوں نے اس دنیا کی خاطر یا یوں کہہ لیجئے کہ اس دنیا نے ان کو رسول اکرم کی وفات کے بعد رہبری اور قیادت کے مقام کو غصب کرنے پر اکسایا۔ مولا نے یہ جملہ "خطبہ شقشقیہ "میں فرمایا جو کہ اسی سلسلہ میں ہے۔

دوسرا قول :اس دنیاسے متعلق ہے کہ جس میں دنیا کیلئے بیت المال سے غلط فائدہ اٹھایا جائے یہ قول مولا نے بیت المال کی تقسیم کے دوران فرمایا۔

خود قرآن کے اندر ہمیں سرمایہ دار افراد کی دونوں قسمیں نظر آتی ہیں۔

سرمایہ دار قرآن میں

۱ ۔ قارون ۔گناہ کا سبب اور برایہ کا نمونہ

ہم نے قارون اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسادیا۔

(سورئہ قصص :آیت ۸۱)

۲ ۔سلیمان-۔انسان کی نجات کا سبب اور سعادت کا نمونہ

یہ محض میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے تاکہ وہ میرا امتحان لے کہ میں اس کا شکر کرتاہوں یا ناشکری کرتاہوں۔

(سورئہ نمل:آیت ۴۰)

نتیجہ :

اگر دنیا کے امکانات اور دولت سلیمان- جیسے افراد کے ہاتھوں میں آجائے تو نعمت ہے اور اگر قارون جیسے افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے تو عذاب ہے۔ حضرت امیر المومنین- کی دنیا سے مراد قارون والی دنیا ہے نہ کہ حضرت سلیمان- کی دنیا۔

آئمہ اطہار(علیہم السلام) اور سیاسی حکمت عملی سیاست ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے یو ں کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاست کا لفظ قابل بحث ہے ہر کوئی اپنی نظر کے مطابق اسکی تعریف کرنے کی کوشش کرتاہے لیکن یہاں پر ہم سیاست کے لفظ یا موضوع کو آئمہ(علیہم السلام) ک نظر سے دیکھیں گے(کیونکہ ہر امام سیاست دان تھے )اور پھر ان کی زندگی میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات کو بیان کریں گے۔

حضرت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب- نے اپنے اقوال زریں میں سیاست کی تعریف کچھ یوں کی ہے۔

"سِیَاسَةُ الْعَدْلِ ثَلاَثٌ لِیْنٌ فِیْ حَزْمٍ وَ اِسْتِقْصَاءٌ فِیْ عَدْلٍ وَ اِفْضَالٌ فِیْ قَصْدٍ "(غرر الحکم جلد ۱ ، صفحہ ۴۳۴)

عادلانہ سیاست تین چیزوں میں ہے

۱ ۔ اپنے کاموں میں میانہ روی اختیا ر کرنا ۔

۲ ۔عدالت کے اجراء میں تحقیق کرنا۔

۳ ۔مدد کے وقت میانہ روی اختیار کرنا۔

سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبیٰ- سے کسی نے پوچھا کہ سیاست کیا ہے امام نے جواب میں فرمایا:

سیاست خدا کے حقوق ،زندہ لوگوں کے حقوق اور مردہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کا نام ہے۔ خدا کے حقوق یہ ہیں کہ جس بات کا حکم دے اس کو انجام دیا جائے اور جس سے منع کرے اس سے پرہیز کیا جائے، زند ہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ لوگوں سے متعلق جو فرائض ہیں ان کو انجام دیا جائے ان کی خدمات کی جائے قائد اسلامی سے مخلص رہا جائے جب تک کہ وہ خدا سے مخلص ہے اور جب وہ منحرف ہوجائے تو اسکے خلاف آواز بلند کرنا اور مردہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کی خوبیوں کا ذکر کرنا اور ان کی برائیوں کو یاد نہ کرنا کیونکہ خدا انکے اعمال کی باز پرس کیلئے موجود ہے۔(حیاة الحسن باقر شریف قرشی جلد ۱ صفحہ ۴۲)

مولائے کائنات ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

"بِئْسَ السِّیَاسَةِ الْجَوْرِ "

ظلم کرنا بری سیاست ہے۔(غرر الحکم جلد ۱ صفحہ ۴۳۴)

اگر ہم مندرجہ بالا ارشادات سے نتیجہ نکالنا چاہیں تو یہ چند باتیں ہمارے سامنے آئیں گی کہ:

سیاست دو طرح کی ہے۔

۱ ۔مثبت سیاست ۲ ۔منفی سیاست

۱ ۔مثبت سیاست وہی ہے جو کہ احادیث میں بیان ہوئی اور اگرہم لغت کی طرف رجوع کریں تو بھی سیاست کے معنی یہی نظر آتے ہیں:

"سیاست یعنی کسی چیز کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا"۔

۲ ۔منفی سیاست یعنی ظلم کرنا ،ہرکام کو اسکے صحیح طریقے سے انجام نہ دینا یا آج کل کی دنیا میں سیاست کے رائج الوقت معنی دھوکہ بازی کے ہیں جسے "میکیاولی" کی سیاست کہا جاتاہے۔

گذشتہ باتوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آئمہ(علیہم السلام)سیاست دان تھے کیونکہ انہوں نے ہمارے سامنے سیاست کے معنی بیان کئے۔

ایک اور دلیل کے ذریعے بھی ہم اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی میں سیاست کا عمل دخل تھا اور تمام آئمہ(علیہم السلام) سیاست دان تھے اور وہ یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آئمہ(علیہم السلام) انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کا مشن اور مقصد فقط معاشرے کی اصلاح اور لوگوں کو کمال کی منزل تک پہنچانا تھا اور یہی سیاست کے معنی بھی ہیں۔

قرآن انبیاء کے اس مقصد کی کچھ اس طرح نشاندہی کرتاہے۔

۱ ۔"( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَ الْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ) "

ہم نے یقینا اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بھیجا اوران کے ساتھ کتاب اور ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔(سورئہ حدید :آیت ۲۵)

۲ ۔"( الٓراٰوقف کِتٰبٌ اَنْزَلْنهُاٰا اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ لا ۵ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ) "(سورئہ ابراھیم : آیت ۱)

(اے رسول یہ قرآن وہ)کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لئے نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو انکے پروردگار کے حکم سے کفر کی تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ غرض اس کی راہ پر لاؤ جو سب پر غالب اور سز ا وار حمد ہے۔

۳ ۔ "( اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَه مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَ الْاِنجِیْلِز یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثاَا وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْ ) "(سورئہ اعراف :آیت ۱۵۷)

یعنی :"جو لوگ ہمارے نبی امی پیغمبر کے قدم بقدم چلتے ہیں جس (کی بشارت) کو اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھاہواپا تے

ہیں ( وہ نبی )جو اچھے کام کا حکم دیتاہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک و پاکیزہ چیزیں تو ان پر حلال اور ناپاک گندی چیزیں ان پر حرام کردیتاہے اور وہ (سخت احکام کا )بوجھ جو ان کی گردن پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر ( پڑے ہوئے) تھے ان سے ہٹادیتاہے۔"

ان آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیاء کی نبوت کا مقصد عدالت کا اجراء لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف ہدایت کرنا ، ظالم حکمرانو ں سے نجات دلانا اور ان کو ایمان کے پرچم تلے جمع کرنا تھا ، اور یہ بات واضح ہے کہ ان مقاصد کو حکومت (اقتدار) کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہ تھا ۔

نتیجہ کے طورپر ہمارے سامنے تین چیزیں آتی ہیں:

۱ ۔ اسلام ایک کامل نظام حیات ہے اورسیاست اس کا ایک اہم حصہ ہے۔

۲ ۔ انبیاء اور آئمہ(علیہم السلام) اس سیاست کو (جو کہ ایک کامل نظام حیات کا اہم حصہ ہے)رائج کرنے کیلئے بھیجے گئے ہیں۔

۳ ۔ اسلام نے غیبت کے زمانے میں ہم پر بھی اس سلسلے میں ذمہ داری ڈالی ہے

حضرت امیر المومنین اور سیاست

حضرت امیر المومنین- کی زندگی میں سیاسی روش کی بے شمار مثالیں ہیں۔مندرجہ ذیل سطروں میں ہم تین نکات پر روشنی ڈالیں گے ۔

الف۔حضرت امیر المومنین- کی سیاست میں عدالت

حضرت امیر المومنین- کی سیاست یہ تھی کہ معاشرے کو اسلامی عدالت کے ساتھ چلایا جائے۔

امام کی سیاست یہ تھی کہ حاکمیت اور حکومت ہدف اور مقصد نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے اسلام کو بچانے کا اور اس کی سیاسی حکمت عملی کو انجام دینے کا ۔ اس سلسلے میں خود حضرت امیر امومنین- فرماتے ہیں کہ:

یہاں تک کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کچھ لوگ اسلام سے پلٹ گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نابود کردیں(یہاں پر ) میں ڈرگیا کہ اگر اسلا م اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں توشاید ان کی نابودی اور اسلا م میں شگاف کا منظر دیکھوں اور یہ مصیبت میرے لئے حکومت اور خلافت چھوڑنے سے زیادہ سخت ہے۔ (خطبہ ۲۶ نہج البلاغہ)

یہاں سے ہم امام- اور معاویہ کی سیاست میں فرق کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔معاویہ اصلاح امور کے نام پر ہر چیز کرنے کو تیار تھا چاہے وہ اسلا م کے خلاف ہی کیوں نہ ہو جبکہ حضرت امیر المومنین- ہر کام کو انجام دیتے تھے مگر اسلام کے دائرے میں رہ کر۔

جب حضرت امیر المومنین- نے زمام حکومت کو ہاتھ میں لیا تو فرمایا کہ:

اگر خداکا عہد و پیمان نہ ہوتا علماء اور دانشوروں سے کہ وہ ظالموں کے بھرے پیٹ اور مظلوموں کی بھوک کے سامنے خاموش نہ رہیں ، میں خلافت کی رسی کو چھوڑدیتا اور اپنی آنکھیں بند کرلیتا۔(خطبہ ۳ نہج البلاغہ )

معاویہ اپنی سیاست میں اگر مکرو فریب سے کام نہ لیتا تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا ۔حضرت امیر المومنین- مشروع اور جائز سیاست میں کامیاب رہے لیکن نامشروع اور ناجائز سیاست میں کبھی آگے نہ بڑھے ۔ خود حضرت امیر المومنین- اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :

خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست دان نہیں ہے لیکن دھوکہ بازی اور گناہ کرتاہے اگر دھوکہ بازی ایک بری صفت نہ ہوتی تومیں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست دان شخص ہوتا۔(خطبہ ۲۰۰ ،نہج البلاغہ)

یا ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :

اگر دھوکہ دہی آتش جہنم کا سبب نہ ہوتی تومیں سب سے زیادہ فریب دینے والا انسان ہوتا۔(منھاج البراعة جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۶)

کچھ لوگوں نے معاویہ کی حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا کہ معاویہ حضرت امیر المومنین- سے زیادہ عقلمند ہے البتہ ایسے لوگ عقل کی صحیح تعریف نہیں جانتے تھے۔

کسی نے حضرت امام صادق-سے پوچھا کہ عقل کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا:

عقل و ہ ہے جس کے ذریعے سے خدا کی عبادت کی جائے اور بہشت کو خریدا جائے۔

پوچھنے والے نے پوچھا ، تو پھر معاویہ کی عقل کیا تھی ۔حضرت نے فرمایا:

"تلک النکراء تلک الشیطنة ، وهی شبیهة بالعقل ولیست بالعقل "

وہ دھوکہ بازی تھی و ہ شیطنت تھی وہ ظاہری شباہت عقل سے رکھتی تھی لیکن عقل نہیں تھی ۔

(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۱۱ باب العقل والجہل جلد ۳)

ب۔ امام کی سیاست گمراہ افراد سے دوری

حضرت امیر المومنین- کی سیاست لوگوں کے ساتھ دو طرح کی تھی وہ افراد جو لائق اور قابل تھے ان کو اپنی طرف جذب کرلیتے تھے جیسے مالک اشتر، عمار(رحمۃاللہ)‘ یاسر(رحمۃاللہ)،کمیل بن زیاد وغیرہ اور جو افراد اس قابل نہیں تھے ان کو اپنے سے دور کردیتے تھے کیونکہ حضرت امیر المومنین- کی تربیت ایسے ماحو ل میں ہوئی جیسا کہ خداوند ارشاد فرماتاہے کہ :

" میں کبھی بھی گمراہوں کو اپنا بازو قرارنہیں دیتا "(کہف ۵۱)

سقیفہ کے برقرار ہونے کے بعد ابوسفیا ن جو کہ مختلف وجوہ کی بناء پر ابوبکر کی حکومت سے خوش نہیں تھا کچھ افراد کے ساتھ امام کے حضور آیا تاکہ حضرت- کی بیعت کرے اسی ضمن میں اس نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تومیں عظیم لشکر کے ساتھ آپ کی حمایت کروں۔

امام- جو ابو سفیان کو اچھی طرح سے جانتے تھے اسکی ان باتوں میں نہیں آئے اور اسکے جواب میں فرمایا:

اے لوگو! فتنہ کی پہاڑ جیسی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے توڑدو۔ اختلافات اور بکھرنے سے باز آؤ بلند پروازی اور برتری کے تاج کو اپنے سر سے اتار پھینکو۔(خطبہ ۵ نہج البلاغہ)

امام- اپنی سیاسی بالا نظری کی وجہ سے جانتے تھے کہ یہ وقت حکومت ہاتھ میں لینے کا وقت نہیں اسی لئے جملہ کے بعد حضرت نے فرمایا:

کچے پھل کو توڑنا ایسا ہے جیسے نمکین زمین میں بیج بونا۔

ج۔ امام-کی سیاست ،آزاد منش افراد کی حمایت

امام نے ہمیشہ آزاد منش افراد کی حمایت کی اس سلسلے میں جو اہم واقعہ ہم کو امام- کی زندگی میں نظر آتا ہے وہ ابو ذر غفاری کی جلا وطنی کاہے ویسے تو کئی واقعات ہیں لیکن کیونکہ یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے کہ جب امام- کے ہاتھ میں زمام حکومت نہیں اور حکومت وقت صحابی رسول کو جلاوطن کررہی ہے۔ مدینہ کے اندر کرفیو نافذ ہے خلیفہ وقت کی طرف سے حکم تھا کہ کوئی بھی ابوذر سے خدا حافظی نہ کرے اور اس نے مروان کو حکم دیاکہ جو کوئی بھی خداحافظی کے لئے آئے اسکو پکڑلو۔

لیکن اما م-نے حکومت کے ان احکامات کی پرواہ نہ کی اور اپنے فرزندان گرامی حسن-و حسین-، اپنے بھائی عقیل اور عمار یاسر کے ساتھ ابوذر کو رخصت کرنے کیلئے گئے ۔اسی اثناء میں کہ جب امام حسن- ابوذر سے باتیں کررہے تھے مروان نے پکارا کہ اے حسن- خاموش ہوجاؤ کیا خلیفہ کا حکم نہیں سنا کہ ابوذر سے باتیں کرنا منع ہے۔امام علی- نے آگے بڑھ کے مروان کے سامنے آئے اور فرمایا دور ہوجاؤ خدا تمہیں آتش جہنم میں ڈالے۔

امام- اور ان کے چاہنے والوں کا یہ کام صد در صد سیاسی تھا اور حکومت وقت کے خلاف تھا کیونکہ ابو ذر کا عمل حکومت کے خلاف صحیح ہے اور حکومت کا رویہ غلط ہ

حضرت امام حسن و امام حسین اور سیاست

حضرت امام حسن-اور سیاست:

حضرت امام حسن-کی سیاسی زندگی کا سب سے اہم واقعہ جو کہ ہر تاریخ نگار کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتاہے وہ صلح امام حسن-ہے۔

جب دشمن ایک دوسرے کے روبرو قرا ر پاتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہو تاہے کہ اپنے آپ کو حق پر اور دوسرے کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کریں اور اصل ہدف بھی یہی ہوتاہے لیکن جب تک انسان کاباطن لوگوں کے سامنے نہ آجائے یا یوں کہہ لیجئے کہ جب تک لوگ ہارنے والے یا جیتنے والے کے باطن سے آگاہ نہ ہوجائیں اس وقت تک اسکے بار ے میں صحیح رائے قائم نہیں کرپاتے اگر امام حسن- معاویہ سے جنگ کرکے جیت بھی جاتے تب بھی لوگ یہی خیال کرتے کہ شاید معاویہ حق پر تھا یا یہ کہ یہ جنگ ناحق لڑی گئی ۔لیکن امام حسن- نے معاویہ کے ساتھ صلح کرکے لوگوں کے سامنے اس کے باطن کی پہچان کروا دی۔

جب امام حسن- نے معاویہ کے بھیجے ہوئے سادے کاغذپر اپنی شرائط لکھ کردے دیں تو معاویہ کوفہ میں داخل ہوا اور اس نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یوں کہا:

"میں نے اس لئے تم سے جنگ نہیں لڑی کہ تم نماز اور حج بجالاؤ اور زکوٰة دو کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ یہ کام انجام دیتے ہو۔ میں نے اس لئے تمہارے ساتھ جنگ کی تاکہ تم کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بناؤں اور تم لوگوں پرحکومت کروں"۔

اور اسکے بعد کہا:

یاد رکھو !اللہ نے ہمارے لئے ہماری بات کو درست کردیا ۔ہماری دعوت کو عزت دی ، تو اب جن شرطوں کو میں نے ماناتھا ان سب سے میں انکار کرتاہوں ،اور ہر وہ وعدہ جومیں نے تم میں سے کسی ایک سے بھی کیاتھا وہ میرے پیروں تلے روندا جاچکاہے۔

یہاں سے لوگ سمجھ گئے کہ کون اسلام کی خاطر جنگ کررہا تھا اور کس کو صرف حکومت چاہئے تھی۔

حضرت امام حسین- اور سیاست

حضرت امام حسین- نے صرف یزیدہی کے خلاف آواز بلند نہیں کی بلکہ معاویہ کے زمانے میں بھی آپ نے لوگوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروائی کے معاویہ خلافت اور حکومت کے لائق نہیں ہے۔

۵۸ ئھ میں حج کے موقع پر آپ نے سر زمین منٰی میں بنی ہاشم اور انصار کے برجستہ افراد کی ایک کانفرنس بلائی جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا:

اس طاغوت (معاویہ)نے جو کچھ ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ کیا ہے وہ سب آپ لوگ جانتے ہیں۔میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اگر سچ کہوں تو میری تصدیق کیجئے گا۔ اور اسکے بعد اپنے ملک یا شہر واپس جانے کے بعدمیری باتوں کولوگوں تک پہنچائے اور ان کو معاویہ کی بد اعمالیوں سے آگاہ کیجئے اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیجئے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اس حالت کے باقی رہنے کی وجہ سے حق نابود نہ

ہوجائے لیکن خدا اپنے نور کی تکمیل کرے گا چاہے کا فر یا فاسق اس کو پسند نہ کریں۔(احتجاج طبرسی جلد ۲ صفحہ ۱۸،۱۹)

کربلا کے واقعہ سے ۳ سال پہلے معاویہ کی زندگی میں امام حسین-نے حج کے موقع پر حکومت کے خلاف لوگوں کو قیام کی دعوت دی۔

کربلا:

امام حسین- کی کر بلا کی تحریک ایک مکمل سیاسی تحریک تھی اگر دین سیاست سے جدا ہو تا تو پھر امام حسین- کے لئے ضروری تھا کہ وہ مدینہ میں کونے میں بیٹھ جاتے اور عراق کی طرف حرکت نہ کر تے اس صورت میں کوئی بھی آپ سے کچھ نہ کہتا۔

اگر ہم کر بلا کے واقعے کی تحلیل کریں اور اس واقعے کا مطالعہ کر یں تو ہم کو مندرجہ ذل نکات کی صورت میں نتیجہ ملے گا۔

۱ ۔یزید نے امام حسین- سے بیعت لینا چاہی امام- نے انکار کر دیا۔

۲ ۔امام حسین- نے فوج جمع کر نے اور یزید کی حکومت کو ختم کر نے کے لئے عراق کی طرف کوچ کیا۔

۳ ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نے امام حسین- کو اس بات کی طرف مائل کیا کہ وہ ظلم و ستم کو جڑ سے اکھاڑنے اور عدل کو بر قرار کر نے لئے شہادت کی سرحد تک جہاد کریں۔

مندر جہ بالا تینوں چیزیں سیاسی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عین دین بھی ہیں۔

امام حسین- ہر چند کہ ظاہری طور شکست سے دوچار ہوئے لیکن تا قیقام قیامت آگاہی اور روشنی کا ایک ایسا راستہ چھوڑ گئے۔ حق کے متلاشی انسان کے لئے صراط مستقیم کا سامان فراہم کرے۔

کیا خوب تجزیہ کیا ہے عربی زبان کے ادیب نے

"کربلا میں روز عاشور کامیابی ، ناکام ہونے والوں کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے"

(کتاب ابو الشہدا عباس عقاد صفحہ ۱۸۱)

حضرت امام زین العابدین- اور سیاست

جب بھی ہم امام زین العابدین- کا ذکر کر تے ہیں تو ان کو بیمار امام- کی حیثیت سے پہچانتے ہیں ، اور اگر اس کے ساتھ سیاست کا ذکر بھی ہو جائے تو شاید ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوں کے حضرت سجاد-نے کر بلا کے اس عظیم سانحہ کے بعد بھی سیاست میں حصہ لیا ہو گا۔

بنیادی طور پر ذلت اور غلامی سے آزادی ، عزت اور آزادی واپس لانے اور ایک بڑے انقلاب کے لئے زمین ہموار کر نے کے لئے لوگوں کو صحیح حقائق سے روشناس کر انے اور ان کے ضمیروں کو جگانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہ کیاجائے اور پہچان کرائی جائے تاکہ وہ ذمہ داری کا احساس کریں اس طرح انقلاب خود بخود وجود میں آنے لگیں گے۔

اس کے پہلے قدم کو خود امام حسین- اور ان کے اصحاب نے کر بلا میں انجام دیا اور دوسرے مرحلہ کی ذمہ داری حضرت زینب(علیہا السلام) اور حضرت سجاد- کے کندھوں پر پڑی۔ اور فقط یہی ایک راستہ تھا کہ جس کے ذریعے سے نبی امیہ کی حکومت کی جڑوں کو کاٹا جا سکے۔ اس کی بہترین مثال امام سجاد- کا شام کے دربار میں وہ خطبہ تھا کہ جس سے پریشان ہو کر یزید نے موذن کو اذان دینے کا حکم دیا یہی خطبہ تھا جس کے سبب اس کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں لوگ بغاوت نہ کر دیں آخر وہ کیا سبب تھا جس کی وجہ سے یہ تمام لوگ اس خدشہ کا اظہار کر رہے تھے یہ وہی آگاہی اور شناخت تھی اور احساس تھا کہ جس کی ذمہ داری امام سجاد- نے قبول کی تھا آپ- فرماتے ہیں :

جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا میں اس کو خود اپنی شناخت کروا دوں میں مکہ اور منیٰ کا بیٹا ہوں میں زمزم اور صفا کا بیٹا ہوں میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے حجراسود کو عبا کے چار گوشوں سے اٹھایا میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے احرام باندھنے کے بعد بہترین طواف اور سعی کی میں اس کا بیٹا ہوں جو انسانوں میں سب سے بہترین ہے میں اس کا بیٹا ہوں جو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا، میں اس کا بیٹا ہوں جو سدرة المنتہیٰ تک پہنچا، میں اس کا بیٹا ہوں جو آسمانوں کی سیر کے وقت حق سے اس قدر نزدیک ہوا کہ آواز آئی "قاب قوسین اوادنی" میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس پر خدائے بزرگ نے وحی نازل کی میں محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا بیٹا ہوں علی مرتضیٰ-کا بیٹا ہوں میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے مشرکوں سے اس قدر جنگ کی کہ زبان سے "لاالہ الا اللّٰہ"کہنے لگے میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے رکاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں دو تلواروں اور دو نیزوں کے ساتھ لڑائی کی اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کی طرف کفر نہیں کیا میں اس کا بیٹا ہوں کہ جو مومنین میں صالح ترین، وارث پیغمبران ، کافروں کو نابود کر نے والا، مسلمانوں کا پیشوا اور رہبر، مجاہدوں کا نور ، عابدوں کا زیور و زینت ، گریہ کر نے والوں کا فخر ، صابروں میں صابر، بہترین جہاد کرنے ولاہے۔

میرے جد وہ ہیں کہ جن کے ساتھ جبرئیل ہے جن کا مددگار میکائیل ہے اور جو خود مسلمانوں کی ناموس کا حامی اور نگہبان تھا ، جس نے مارقین، ناکثین اور قاسطین کے ساتھ جنگ کی اور دشمنان خدا کے ساتھ جنگ کی۔ میں قریش کے بر ترین فرد کا بیتا ہوں کہ جس نے سب سے پہلے پیغمبر کی حمایت کی جو مسلمانوں میں سب سے آگے تھا، مشرکوں کو نابود کر نے والا، ولی امر خدا، حکمت الہیٰ کا باغ اور علم کا مرکز وہ تھا۔

میں فاطمہ الزہراء(علیہ السلام)کا بیٹا ہوں خواتین کی سردار کا بیٹا۔

یہاں پر امام- نے اس قدر گفتگو کی کہ لوگ رونے لگے وہ شام کے لوگ جو علی- کے دشمن تھے۔

ان تمام مراحل کو طے کرنے کے بعد امام کا دوسرا ہدف کر بلا کی تحریک کو زندہ رکھنا تھا لوگوں کو مظلومیت حسین- کا احساس دلانا تھا اس کام کو آپ- نے ایسے انجام دیا کہ ہر جگہ کر بلا کا ذکر کرتے ۔ آپ- نے اپنی انگوٹھی پر بھی اس ہدف کے تحت عبارت کندہ کروائی جو یہ تھی کہ

"خَزِیَ وَ شَقِیَ قَاتِلُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِی "

رسوا اور بد بخت ہو جائے قاتل حسین بن علی-۔

حضرت امام صادق-سے نقل کر تے ہیں کہ آپ- نے فرمایا کہ امام سجاد- نے ۳۵ سال تک اپنے والد کے مصائب پر گریہ کیا اس مدت میں دن کو روزے رکھتے تھے اور جب افطار کے وقت کھانا لایا جاتا تو آپ- گریہ فرماتے اور کہتے:

" فرزند رسول اللہ کو بھوکا قتل کیا گیا! فرزند رسول اللہ کو پیاسا قتل کیا گیا

ایک دفعہ حضرت امام سجاد- بازار سے گزررہے تھے کہ ایک شخص کی آواز سنائی دی"انار جل غریب فارحمونی"میں غریب مرد ہوں مجھ پر رحم کیجئے۔ حضرت کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی آپ- اس کے قریب گئے اور پوچھا کہ اگر تقدیر میں یہ لکھا ہو کہ تم یہاں پر مر جاؤ تو کیا تمہارا جنازہ زمین ہی پر پڑا رہے گا اس نے جواب دیا اللہ اکبر کس طرح ممکن ہے کہ میرے جنازہ کو دفن نہ کریں جبکہ میں مسلمان ہوں ۔ امام- منقلب ہو گئے اور فرمایا:

کس قدر افسوس کی بات ہے اے پدر بزر گوار حسین- کہ آپ کا جنازہ تین دن تک بغیر دفن کے خاک پر پڑا رہا جب کہ آپ نواسہ رسول تھے۔ (مأساة الحسین تالیف شیخ عبدالوھاب ۱۵۲)

حضرت امام محمد باقر- اور سیاست

امام-کے زمانہ امامت میں بنی امیہ کے دو ایسے خلیفہ گزرے کہ جنہوں نے حکومت اسلامی میں علم کی ترویج کی۔ ولید بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز ۔ولید بن عبدالملک چونکہ خود زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا اس لئے شاید اپنی کمزوریوں پر پر دہ ڈالنے کے لئے علوم و فنون کی ترویج کی۔ لیکن عمر بن عبدالعزیز نے دانستہ طور پر حکومت اسلامی میں علمی شخصیات کو رائج کیا۔

ان خلفاء کی وجہ سے امام محمد باقر- نے حالات کو بہتر جانا کہ ایسے ماحول میں تعلیمات اسلام کو جو کہ ۱۰۰ سالہ دور میں مسخ ہو کر رہ گئی تھیں دوبارہ زندہ کیا جائے۔

ٍ اس تھوڑے سے عرصے میں ان خدمات کا ذکر نہیں کر سکتا کہ جو حضرت امام محمد باقر- نے انجام دیں لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ عظیم اسلامی مدرسہ جس میں شاگردوں کی تعدادچار ہزار تک پہنچی اور امام جعفر صادق-نے اپنے زمانہ میں چلا یا وہ حضرت امام باقر- کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

اس زمانہ کے خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے حضرت سے واپسی پر مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ امام باقر- اور ان کے فرزند جعفر بن محمد- کو شام کی طرف روانہ کر دو۔

حضرت مجبوراً اپنے فرزند ارجمند کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے اور دمشق پہنچے ہشام نے اپنا جاہ و جلال دکھانے کے لئے تین دن تک امام- کو ملاقات کی اجازت نہ دی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تین دن تک امام کی عظمت کو کم کر نے کے حربے سوچتا رہا اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب امام- دربار میں داخل ہوں تو ان کے سامنے تیز اندازی کا ایک مقابلہ کرایا جائے اور امام- کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی جائے اور اس طرح جب امام- شکست کھا جائیں گے تو اہل دربار اس بات کا چرچا پورے شام میں کر دینگے ۔ جب امام- دربار میں داخل ہوئے تو خلیفہ کے کچھ افراد تیر اندازی میں مشغول ہو گئے امام- دربار میں تشریف فرما ہوئے کچھ دیر بعد خلیفہ نے امام- کی طرف رخ کر کے کہا کہ کیا تیر اندزی کے مقابلے میں شرکت کر نا پسند کریں گے۔

امام- نے جواب میں فرمایا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میرا تیر اندازی کا وقت گذر چکا ہے امام کا جواب سن کر تو خلیفہ کا اصرار اور بڑھ گیا اور خلیفہ نے امام- کی طرف تیر کمان بڑھانے کا اشارہ کیا امام نے بھی بلاجھجھک تیر کمان لے لیا، پہلا تیر چلایا جو سیدھا نشانہ پر لگا دوسرا چلایا جو پہلے تیر کو چیرتا ہوا ہدف پر لگا تیسرا تیر چوتھا تیر یہاں تک کہ امام- نے یکے بعد دیگرے نو تیر چلائے جو سب کے سب ہدف پر لگے یہ منظر دیکھنے کے بعد تمام درباری اور خلیفہ انگشت بدندان رہ گئے تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش و ہواس بر قرار ہوئے تو خلیفہ نے امام- کو مخصوص جگہ پر بیٹھنے کی دعوت دی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا کہ جعفر (حضرت امام جعفر صادق-) بھی آپ کی طرح تیر اندازی جانتے ہیں؟

امام- نے جواب میں فرمایا:

"ہمارا خاندان اکمال دین اور اتمام نعمت کو جو الیوم اکملت کی آیت میں آیا ہے ایک دوسرے سے ارث میں لیتے ہیں اور زمین ہر گز ایسے افراد سے خالی نہیں رہے گی"۔(حمد بن جدید بن رستم الطبری۔ دلائل امامہ نجف منشورات المطبوعة الحیدریہ ۱۳۸۳ ھ (منشورات الرضی قم) صفحہ ۱۰۵)

دوسرا واقعہ عیسائیوں کے پادری کے ساتھ مناظرہ ہے کہ جب آپ- دربار سے نکل کر واپس جانے لگے تو دیکھا بہت سے افراد مجمع لگائے کسی کا انتظار کر رہے ہیں پوچھا تو معلوم ہوا کہ عیسائی ہیں جو کہ مختلف مقامات سے آئے ہیں اور اپنے مسائل کا حل لینے کے لئے پادری کے انتظار میں ہیں حضرت بھی ان افراد کے مجمع میں بیٹھ گئے جب پادری آیا تو اس کی توجہ حضرت کے نورانی چہرہ کی طرف مبذول ہوئی پوچھا مسلمانوں ہو یا عیسائی جواب ملا کہ مسلمان نادانوں میں سے نہیں ہوں پادری نے پوچھا پہلے میں سوال کروں یا تم امام- نے فرمایا اگر چاہتے ہو تو سوال کرو پادری نے پوچھا کس وجہ سے مسلمان کہتے ہیں کہ اہل بہشت کھانا کھائیں گے لیکن ان سے کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہو گی کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے۔

امام-نے جواب میں فرمایا: اس کی روشن مثال ماں کے رحم میں بچہ کی ہے جو غذا کھاتا ہے لیکن کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہوتی ۔

پادری نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا تم نے کہا تھا کہ دانشمندوں میں نہیں ہوں۔

امام- نے فرمایا: کہ میں نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا تھا کہ نادانوں میں سے نہیں ہوں۔

پادری نے کہا ایک اور سوال ہے امام- نے فرمایاپوچھو اس نے کہا کس دلیل کی بنا پر کہتے ہو کی جنت کی نعمتوں میں جتنا خرچ کیا جائے کم نہیں ہو گا دنیا میں اس کی کوئی مثل ہے امام- نے فر مایا ہاں ہے اس زمانہ میں اس کی روشن مثال آگ کی ہے اگر ایک چراغ کی لو سے ایک ہزار چراغ بھی جلا لو تو اس کی روشنی کم نہیں ہو گی۔

پادری نے جتنے سوال تھے کر ڈالے اور سب کے جواب حاصل کر لئے اور جب اپنے آپ کو عاجز دیکھا تو غصہ کر کے چلا گیا۔

اس واقعہ کے بعد اہل شام میں خوشی کا احساس پھیل گیا اور امام کا معنوی اثر بڑھ گیا ہشام نے امام- کو تحفے تحائف بھیجے اور چونکہ امام- کے معنوی اثر سے پریشان تھا اس لئے خط لکھا کہ آپ آج ہی مدینہ کے لئے روانہ ہو جائیں