ائمہ اور سیاست

ائمہ اور سیاست 40%

ائمہ اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ائمہ اور سیاست
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7409 / ڈاؤنلوڈ: 4411
سائز سائز سائز
ائمہ اور سیاست

ائمہ اور سیاست

مؤلف:
اردو

امر بالمعروف ونہی عن المنکر۱

ہجرت کا نواں سال تھاحضرت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اطلاع ملی کہ روم کے لشکر نے جس کی تعداد ۴۰ ہزار تھی مدینہ سے ۶۱۰ کلومیٹر دور تبوک کے مقام پر پڑاو ڈالا ہوا ہے اور مسلمانوں پر حملہ کی تیاری میں مصروف ہے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جنگ کی تیاری کیلئے فوجی بھرتی کا اعلان کردیا مدینہ میں رہنے والے مسلمانوں نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ جنگ کی تیاری شروع کر دی لیکن ان افراد میں سے تین ایسے بھی افراد تھے جنہوں نے ان تمام تیاریوں سے اپنے آپ کو الگ رکھا اور پھر بعد میں جنگ کے لئے بھی نہیں گئے۔ یہ تین افراد کعب ابن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ تھے البتہ یہ لوگ منافق یا مخالف اسلام نہیں تھے بلکہ انہوں نے اس معاملے میں سستی سے کام لیا بے توجہی دکھائی۔

لشکراسلام نے جنگ کے لئے تبوک کی طرف کوچ کیا دشمن کو جب اسکی اطلاع ملی تو دشمن نے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا اس طرح سے اسلامی فوج پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قیادت میں جنگ کئے بغیر واپس آگئی۔

وہ تین افراد مدینہ میں پیغمبر کی خدمت میں حاضرہوئے اور ان سے جنگ میں شرکت نہ کرنے پر معذر ت چاہی پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا حتیٰ کہ ایک جملہ تک نہیں کہا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی بھی ان سے بات نہ کرے ان تین افراد کا سوشل بائیکاٹ شروع ہوگیا یہاں تک کہ ان کے گھرو الوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی اس سوشل بائیکاٹ کا اس قدر دباو تھا کہ قرآن اس سلسلے میں فرماتا ہے۔

حَتّٰی اِذَا اَضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضَ بِمَا رَحُبَتْ

زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی۔

(سورةتوبہ آیت ۱۱۸)

جب انہوں نے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی توسمجھ گئے کہ اب خدا کے علاوہ کوئی ہمارا حامی نہیں اور کوئی ہماری سننے والا نہیں ہے یہ سمجھ کر انہوں نے ایک دوسرے سے بھی رابطہ منقطع کرلیا اور بیابانوں کی طرف نکل گئے اور راز ونیاز اور استغفار میں مشغول ہوگئے۔ ۵۰ دن تک توبہ میں مشغول رہنے کے بعد خدا نے ان کی توبہ قبول کی اور سورہ توبہ کی ۱۱۸ نمبر آیت پیغمبر پرنازل ہوئی

وَّ( عَلَی الثَّلااَاثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاط حَتّٰیآا اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوْآ اَنْ لَّامَلْجَاَ مِنَ اللهِ اِلَّاآ اِلَیْهِط ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْاط اِنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُع )

"اور ان تینوں پربھی فضل کیا جو (جہاد) میں پیچھے رہ گئے تھے (اور ان پر سحتی کی گئی) یہاں تک کے زمین باجود اس وسعت کے ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں (تک) ان پر تنگ ہوگئیں اور ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ خدا کے سوا اورکہیں پناہ کی جگہ نہیں۔ پھرخدا نے ان کو توفیق دی تاکہ وہ خدا کی طرف رجوع کریں بے شک خدا بڑاتوبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔"

یہ سزا ہے ایسے افراد کی جوکہ مسلمانوں کے امور میں بے توجہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

اس واقعہ کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم آئمہ کی زندگی میں موجود ایک اورمشترک اصول کی طرف اشارہ کریں گے اور وہ ہے "امر با المعروف و نہی عن المنکر "

آئمہ اطہار(علیہم السلام)زندگی کے مختلف شعبوں میں لوگوں کو برائیوں سے روکتے تھے اور ان کے پھیلاؤ کے مقابلے میں رکاوٹ بنتے تھے۔ آئمہ(علیہم السلام) کی عملی زندگی میں بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مقدمہ کے طورپر ایک بحث کو بیان کیا جائے۔

جنگ،جنگ کا لفظ سنتے ہی آپ کا ذہن سرحدوں پر ہو نے والی جنگ کی طرف جائے گا جس میں ٹینک اور توپوں کا آزادانہ استعمال ہوتاہے لیکن جب دشمن اپنے حریف کو پوری طرح زیر کرنا چاہتا ہو اور اس کو اپنا غلام بناناچاہتاہو تو پھر وہ تین طرح کی جنگیں تین مختلف محاذوں پر پے در پے شروع کرتاہے ۔

۱ ۔سیاسی جنگ ۲ ۔فوجی جنگ

۳ ۔ثقافتی جنگ۔

۱۔سیاسی جنگ

اس کے اندر دشمن کچھ پست فطرت یا نادان افراد کو مختلف چیزوں کا لالچ دے کر اپنا آلہ کار بنالیتاہے یہ افراد ظاہراً تو وطن پرست ہوتے ہیں لیکن باطن میں دشمن کے ساتھ ملے ہوتے ہیں یا پھر ایسے کام کرتے ہیں جو کہ دشمن کے فائدہ کے ہوتے ہیں ۔ان کا سب سے بڑا مقصد سیاسی بد امنی پھیلانا ہوتاہے یہ افرادمختلف عناوین سے معصوم لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلیتے ہیں اور ان کو اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں البتہ ان کی پہچان بڑ ی مشکل ہوتی ہے۔

۲۔فوجی جنگ

اس جنگ میں دشمن اپنی تمام قوت کے ساتھ اپنے حریف کے مد مقابل ہوتا ہے اور کسی بھی چالاکی سے گریز نہیں کرتا۔ اس کی کوشش فقط یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح بھی مد مقابل کو زیر کرلیا جائے ۔اس جنگ میں کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مورد حملہ قرار پانے والی قوم سختیوں کو برداشت کرے اور اتحاد اور ایمان کے ساتھ مد مقابل دشمن کا سامنا کرے۔

۳۔ثقافتی جنگ

یہ سب سے خطرناک جنگ ہے ۔فوجی جنگ کے مقابلے میں اس میں کسی قسم کا کوئی شور اور ولولہ دشمن کی طرف سے نہیں پایا جاتا اور دشمن نہایت اطمینان اور خاموشی کے ساتھ یہ کوشش کرتاہے کہ مد مقابل کے عوام کی فکر و سوچ کو ثقافتی حربوں سے مورد حملہ قرار دے اور اس کی سوچوں کو منحرف اور بے اساس بنادے۔

دشمن کی ثقافتی یلغار ایک شب خون کی طرح ہے اور ثقافتی قتل و غارتگری ہے جوکہ انسان کو اندر سے خالی کردیتی ہے وہ شخص جوکہ ثقافتی جنگ میں مغلوب ہوجائے وہ جسمانی طورپر زخمی نہیں ہے لیکن اس کی فکر اور سوچ مجروح و آلودہ ہے ۔ظاہری طور پر وہ دشمن کا اسیر نہیں ہے لیکن اندر سے جھوٹی اقدار وغیرہ کا اسیر ہے ۔ جنگ قیدی اپنی دلیری اور شجاعت کی وجہ سے قوم کیلئے مایہ افتخار ہیں جبکہ ثقافتی قیدی قوم کی شرمندگی کا سبب ہیں۔

جس طرح سے فوجی جنگ میں دشمن کے خلاف ہر ایک فرد کا حرکت میں آنا ضروری ہے اسی طرح سے ثقافتی جنگ میں بھی قوم کے ہر فرد کا حرکت میں آنا ضروری ہے اور اس موقعہ پر بے توجہی کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے۔البتہ بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ فقط امام جماعت ، امام کعبہ یا علماء کا فریضہ ہے کہ وہ اس کے خلاف جہاد کریں یہ اسلام کے نقطہ نظر کے بالکل الٹ سوچ ہے اور تمام لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ زبانی ،عملی اور قلبی طور پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو انجام دیں ۔مختلف مناسب اور معقول طریقوں سے اس تباہی اور بربادی کے خلاف اٹھیں اوراس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک دشمن کی نابودی کا یقین حاصل نہ ہوجائے۔

قرآن اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر

قرآن میں امر بالمعروف و نہی ازمنکر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ۱۰ سے زائد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا گیا ہے اور خداوند کریم کی ذات سے لے کر ایک ایک فرد کوذمہ دار بنایاگیا ہے۔

"( وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُوٴْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍلازموقف یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَهط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُهُمُ اللهُ ط اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ) "

(سورئہ توبہ : آیت ۷۱)

مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے ولی (دوست)ہیں ایک دوسرے کو امربالمعروف ونہی ازمنکر کرتے ہیں اور نماز پڑھا کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں ،خدا اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں خدا بہت جلد اپنی رحمت ان پر نازل فرمائے گا خداوند عزیز و حکیم ہے۔

قرآن میں سب سے پہلے خود ذات خداوند کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

( اِنَّ اللّٰهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ) "

خدا عدل اور احسان کا حکم دیتاہے اور فحش اور ظلم و ستم سے منع کرتاہے۔

(سورئہ نحل :آیت ۹۰)

انبیاء(علیہم السلام) کے فریضہ کے بارے میں انکے اوصاف گنواتے ہوئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ان کی صفات میں شمارکیاہے۔ارشاد ہوا:

"( یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ ) "

(سورئہ اعراف:آیت ۱۵۷)

صالح حکمران یعنی آئمہ اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کیلئے قرآن کا بیان کچھ یوں ہے:

"( اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ ) "سورئہ حج :آیت ۴۱

"خدا کے دوست وہ لوگ ہیں کہ جب بھی زمین پر ان کو قدرت دی جائے تو وہ نماز قائم کریں گے زکوٰة ادا کریں گے امربالمعروف ونہی عن المنکر کریں گے اور تمام کاموں کا اختتام خدا کے ہاتھ میں ہے"۔

مومنین کے وہ گروہ جو کہ اس امر کو انجام دیں قرآن میں اس کا بیان یہ ہے:

"( وَ لااَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَهُمُ الْبَیِّنٰتُط وَ اُولٰٓئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) "

(سورہ آل عمران : آیت ۱۰۴)

"تمہارے درمیان ایک گروہ ہوناچاہئے جوکہ نیک کاموں کی دعوت دے اور امر بالمعروف ونہی ازمنکر کرے اور یہی فلاح پائے ہوئے ہیں"۔

تمام کی تمام امت پر اس کام کو انجام دینا ضروری ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:

"( کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ ) "

(سورہ آل عمران : آیت ۱۱۰)

"تم سب سے بہتر قوم کی حیثیت رکھتے ہو جو کہ لوگوں کے لئے آئی ہے کیوں کہ تم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کر تے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو"

ہر صالح فرد ہر مومن شخص ہر نیک آدمی کے لئے امر بالمعروف نہی عن المنکر کرنا ضروری ہے۔

قرآن میں دوجگہ پر ایسے مومن افراد کا ذکر ہوا ہے ایک مومن آل فرعون اور ایک مومن آل یٰسین جس کا تذکرہ قرآن یوں کر تا ہے:

"( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌصلیقا مِّنْ ٰالِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَهٓ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلااًا اَنْ یَّّقُوْلَ رَبِّیَ اللهُ وَ قَدْ جَآئَکُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُمْ ) " (سورہ مومن : آیت ۲۸)

"وہ خاندان آل فرعون کا مومن مر د جس نے اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھا اور اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اس کو قتل کر و جس نے یہ کہا کہ میرا رب اللہ ہے جب کہ اس کے لئے وہ اپنے ساتھ محکم اور واضح دلیلیں تمہارے پر ور دگار کی طرف سے لایا ہے۔ "

"( وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّسْعٰی قَالَ ٰیقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ ) " ( سورة یٰسین آیت ۲۰)

"مومن شخص دور سے آیا اور کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں خدا کے بھیجے ہوئے افراد کی پیروی کرو"۔

ان تمام آیات سے جو کہ اوپر بیان کی گئیں یہ بات واضح طور سے سامنے آجاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں یہ دو فریضے اہمیت کے حامل ہیں اور تمام افراد، چاہے وہ انبیاء ہوں، چاہے صالح حکمران ہو ں ، چاہے مومنین کے گروہ اور چاہے تنہا ایک شخص ہی کیوں نہ ہو سب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس فریضہ کو ترک نہ کریں اور کسی بھی لمحہ بے تو جہی کا اظہار نہ کریں ۔

آخر میں رسول گرامی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک حدیث نقل کر تا چلوں آپ فرماتے ہیں:

"خدا کسی امت کے تمام افراد کو ایک خاص گروہ کے گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہیں کر تا مگر اس وقت جب تک لوگ اپنے درمیان منکرات کو دیکھیں اور نہی عن المنکر پر قدرت رکھتے ہوں مگر نہی عن المنکر نہ کریں تو خدا وند عام و خاص تمام لوگوں پر عذاب نازل کر تا ہے"۔ (تفسیر المنار ، جلد ۹ ، صفحہ ۶۳۸)

یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ عذاب سے مراد فقط دنیا کا عذاب یا آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ اجتماعی، سیاسی ، اخلاقی اور اقتصادی عذاب بھی اس میں شامل ہیں

امربالمعروف ونہی ازمنکر آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی میں

آئمہ اطہار(علیہم السلام)نے جب کوئی تحریک شروع کی تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے تھی ۔ اگر حکومت وقت سے جنگ کر نے کی قدرت تھی یا منکرات اس قدر بڑھ گئے تھے کہ قیام ضروری ہو گیا تھا تو ہمیں کر بلا کی وہ نہ بھولنے والی تحریک یاد آتی ہے جس کا مقصد خود امام حسین- کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:

"میں نے ہوس اور جاہ طلبی کے لئے قیام نہیں کیا ہے میرا خروج اور قیام اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے ہے میں چاہتا کے نیکی کی دعوت دوں اور برائیوں سے روکوں"۔

(نفس المہوم۔ صفحہ ۴۵)

اور اگر قیام نہ کر سکے تو قول اور عمل سے یہ جہاد انجام دیا اور جابر سے جابر حکمرانوں کے سامنے حق گوئی کو ترک نہ کیا۔

شقرانی رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے آزادکر دہ غلام کا بیٹا تھا اسی وجہ سے خاندان نبوت سے آشنائی بھی تھی لیکن اس کے با وجود شراب پیتا تھا وہ خود نقل کر تا ہے کہ: ایک دفعہ منصور دوانیقی لوگوں میں تحفے تقسیم کر رہا تھا لوگوں کا ہجوم لگ گیامیں کسی کو نہیں پہچانتا تھا جس کے ذریعے سے یہ تحفہ حاصل کر تا ۔ دیکھا کہ امام صادق- وہاں سے گزر رہے ہیں میں نے اپنی حاجت ان سے بیان کی امام- نے اس کو قبول کر لیا اور آگے جا کر میرے لئے تحفہ لے لیا اور مجھ کو تحفہ دیتے ہوئے فرمایا:

"اے شقرانی نیکی ہر شخص سے ہو اچھی ہے مگر تم سے بہت اچھی کیونکہ تم سے ہماری نسبت ہے اور برائی ہر شخص سے ہو بری ہے لیکن تم سے ہماری نسبت ہے اس لئے بہت بری ہے"۔

انوار البھیہ صفحہ ۲۴۵

ایک دفعہ امام جعفر صادق- حیرہ کے سفر پر گئے ہوئے تھے (حیرہ کو فہ اور بصرہ کے درمیان ایک شہر ہے )وہاں پر منصور دوانیقی بھی موجود تھا اور اس نے اپنے بیٹے کی ولادت کی خوشی میں جشن کا اہتمام کیا تھا امام صادق- کو بھی نا گزیر وہاں پر جانا پڑا دسترخوان بچھا یا گیا اور مہمان کھانے میں مشغول ہو گئے اسی دوران کسی نے پانی مانگا تو پانی کے بجائے اس کو شراب پیش کی گئی جیسے ہی شراب کا جام اس کے ہاتھ میں دیا گیا ویسے ہی امام صادق- اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور یہ فرماتے ہوئے جشن کی محفل کو ترک کر دیا کہ رسول خدا کا ارشاد ہے۔

ملعون ہے وہ شخص جو ایسے دسترخوان پر بیٹھے کہ جہاں شراب ہو۔

(فروع کافی جلد ۶ صفحہ ۲۶۸)

لمحہ فکر یہ ہے ہمارے لئے کہ کیا ہم کسی ایسی محفل میں ہوتے جس میں سر عام گناہ انجام پا رہے ہوں تو کیا ہم اس کو ترک کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم واقعاً امام- کے پیرو کار ہیں تو ہمیں یہ کر نا پڑے گا۔

یعقوب سراج کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امام صادق- کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ گہوارے کے نزدیک اپنے فرزند (موسیٰ کاظم-) سے باتیں کر رہے ہیں جب فارغ ہوئے تو میں ان کے نزدیک گیا۔ مجھ سے فرمانے لگے کہ اپنے مولا کے نزدیک جاؤ اور سلام کرو میں گہوار ے کے نزدیک گیا اور سلام کیا موسی بن جعفر- جو کہ بچے تھے اور گہوارے میں تھے متانت کے ساتھ میرے سلا م کا جواب دیا اور مجھ سے فرمانے لگے کہ جاؤ جو نام کل تم نے اپنی بیٹی کے لئے چنا ہے اس کو تبدیل کردو اور پھر میرے پاس آؤ کیونکہ خدا اس قسم کے ناموں کو پسند نہیں کر تا ۔ امام صادق- نے مجھ سے فرمایا کہ جاؤ اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تا کہ ہدایت پاؤ یعقوب سراج کہتے ہیں کہ میں نے بھی فوراً اپنی بیٹی کا نام تبدیل کر دیا۔ (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۳۱۰)

عام طور پر لوگ اس طرف توجہ نہیں کر تے اور بچوں کے نام رکھتے ہوئے بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں جب کہ بچوں کے ناموں کا ان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ نام کے چناؤ کے وقت اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں کہ وہ خدا کو پسند ہو۔

موسی بن بکیر کہتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ کاظم- کے حضور میں تھا اور کچھ دینار حضرت کے آگے رکھے ہوئے تھے آپ- نے ان میں سے ایک سکہ کو اٹھایا اور دو ٹکڑے کر کے مجھے دیتے ہوئے فرمایا:

"اس جعلی دینار کو کنوئیں میں پھینک دو تاکہ اس سے کوئی معاملہ نہ ہو سکے" (اصول کافی جلد ۵ ، صفحہ ۱۶۰)

امام- کے پاس حکومت نہیں تھی لیکن پھر بھی امام- کے لئے یہ بات قابل بر داشت نہ تھی کہ معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی خیانت ہو ۔

حضرت امام رضا- جب خراسان میں تشریف فرما تھے تو مامون کے حکم سے مختلف فرقوں کے علماء و اکابر مناظرہ کے لئے آتے تھے اور امام- ان سے بحث و مناظرہ فر ماتے تھے۔ اسی طرح کی ایک نشت میں عمران صابی جو کہ نامور دانشمندوں میں سے تھا امام- سے توحید کے سلسلے میں سوال و جواب کر رہا تھا ۔ اما م- محکم دلیلوں کے ذریعے سے اس کے نظریات کو رد کر رہے تھے بحث اور مناظرہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا نماز کا وقت ہو گیا۔ امام- نے مامون کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا " اَلصَّلٰوةُ قَدْ حَضَرَتْ "نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ عمران صابی نے کہا:

"اے میرے مولا میرے سوالوں کے جوابات کو منقطع نہ کیجئے ورنہ میرا دل ٹو ٹ جائے گا"

امام- نے عمران صابی کے اس جملہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور فر مایا: نصلی و نعود "نماز پڑھ کر واپس آجاؤں گا۔ "

امام- اپنے اصحاب کے ساتھ اٹھے اور نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ سے بحث کا آغاز کیا۔

جب امام رضا- کا قیام خراسان میں تھا ، تو کسی دور دراز علاقہ سے شیعوں کا ایک گروہ امام- کی زیارت کے لئے آیا یہ لوگ کہنے کو تو شیعہ تھے مگر گناہوں میں آلودہ تھے تقریباً ایک مہینہ تک ان لوگوں کا خراسان میں قیام رہا اور ہر روز دو مر تبہ اما م کے گھر زیارت کے لئے جاتے تھے لیکن گھر کا دربان ان کو گھر میں داخل ہو نے کی اجازت نہیں دیتا تھا آخرتھک ہار کر ایک دن انہوں نے دربان کے ذریعے سے امام کے حضور پیغام بھجوایا کہ ہم بہت دور سے آپ کی زیارت کے لئے آئے ہیں اگر آپ سے ملاقات نہ ہوئی تو روسیاہ ہو جائیں گے اور جب وطن واپس پہنچیں گے تو لوگوں کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہمیں ملاقات کی اجازت دے دیجئے ۔ دربان نے ان لوگوں کا پیغام امام- کی خدمت میں پہنچادیا۔ امام- نے ان کو اجازت دی جب انہوں نے امام- کو دیکھا تو شکایت کی ۔ امام- نے ان لوگوں کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا کہ یہ جو میں تم لوگوں کو اجازت نہیں دے رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ تم لوگ یہ دعوی کرتے ہو کہ تم شیعان علی- میں سے ہو لیکن تم لوگوں کا کہنا غلط ہے۔ علی- کے شیعہ تو حسن- و حسین- سلمان و ابوزر و مقداد و عمار جیسے لوگ تھے تم لوگ یہ دعوی ٰکر تے ہو کہ تم علی- کے شیعہ ہو لیکن اپنے اکثر کاموں میں تم ان کی مخالفت کر تے ہو۔

یہ سنتے ہی ان افراد کے سر شرم کے مارے جھک گئے اسی وقت امام- کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور امام- نے بھی ان کو بغل گیر کر لیا۔ (بحار الانوار جلد ۶۸ ، صفحہ ۱۵۸ ، ۱۵۹ سے اقتباس )

امام محمد تقی- کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جو بہت خوش نظر آرہا تھا ۔ امام- نے خوشی کا سبب دریافت کیا اس نے کہا کہ یا بن رسول اللہ میں نے آپ کے والد بزر گوار سے سنا ہے کہ "بہترین دن وہ ہے کہ جب انسان خدا کی طرف سے یہ توفیق حاصل کرے کہ اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ نیکی کر ے اور ان کی مدد کرے اور اس دن ضرور خوش ہو"میں نے آج دس نادار اور بے سہارا افراد جو کہ بال بچوں والے تھے ان کی مالی مدد کی ہے اور آج میں بہت خوش ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں ضرور خوش ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کے اس نیکی کو تباہ و بر باد نہ کرو اس شخص نے کہا کہ کس طرح سے میں اس نیکی کو تباہ کر سکتا ہوں جب کہ میں آپ کے خالص شیعوں میں سے ہوں امام- نے فرمایا کہ اس آیت کی وجہ سے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے:

"( وَلااَا تَبْطُلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی ) "

"اپنے صدقات کو جتانے اور تکلیف پہنچانے کی وجہ سے بر باد نہ کرو"

اس نے کہا کہ جن افراد پر میں نے احسان کیا نہ ان پر جتایا نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائی ۔ امام- نے فرمایا: یہاں پر مراد ہر قسم کی تکلیف ہے نہ فقط ان لوگوں کی جن کی تم نے مدد کی ہے تمہاری نظر میں ان کو تکلیف دینا عذاب کا سبب ہے یا فرشتوں کو جو کہ تمہارے اوپر مامور کئے گئے ہیں؟ یا ہم اھل بیت کو تکلیف پہنچانا؟ اس نے کہا کہ آپ- اہل بیت کو اور ملائکہ کو تکلیف پہنچنا حضرت نے فرمایا کہ تم نے مجھ کو تکلیف پہنچائی ہے اور تمہارا احسان اور نیکی سب بر باد ہو گئی۔ اس نے کہا کہ کیوں اور کس طرح؟

امام- نے فرمایا: کہ یہی بات جو تم نے کہی کہ میں کس طرح اپنی نیکی کو بر باد کر سکتا ہوں جب کہ آپ کا مخلص شیعہ ہوں۔ امام- نے پوچھا تم کو پتا ہے کہ ہمارا خالص اور مخلص شیعہ کون ہے؟ اس نے تعجب سے جواب دیا نہیں!

امام- نے فرمایا:مومن آل فرعون، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار تم نے اپنے آپ کو ان افراد کے برابر سمجھا ہے کیا تم نے اپنی اس بات سے مجھ کو اور فرشتوں کو تکلیف نہیں پہنچائی اس نے کہا کہ: استغفراللّٰہ واتوب الیہ یا بن رسول اللّٰہ " تو پھر میں کیا کہوں؟ امام- نے فرمایا کہ:

تم کہو کہ "میں آپ کے چاہنے والوں میں سے ہوں آپ کے دوستوں کو دوست اور دشمنوں کو دشمن رکھتا ہوں۔ " اس نے کہا کہ میں یہی کہوں گا اور جو کچھ پہلے کہا اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کو یا فرشتوں کو تکلیف دوں اور میں نے توبہ کی ۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں اب تمہاری وہ نیکیاں جو بر باد ہو گئیں تھیں تم کو واپس مل گئیں ۔

متوکل خلیفہ عباسی کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ امام ہادی- اسلحہ جمع کر رہے ہیں اور خلیفہ کے خلاف قیام کا ارادہ رکھتے ہیں متوکل نے حکم دیا کہ امام- کے گھر پر رات میں چھاپہ مارا جائے اور وہ جس حال میں بھی ہوں ان کو میرے پاس لے آؤ۔ جب امام- کو متوکل کے پاس لائے تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شراب پینے میں مشغول تھا اس نے کھڑے ہو کر اما م- کا ستقبال کیا اور اپنے برابر میں ان کو بیٹھنے کی جگہ دی اور امام- کو شراب کا جام پیش کیا۔

اما م- نے فرمایا: ہر گز میرا گوشت و خون شراب سے آلودہ نہیں ہوا ہے تو متوکل نے کہا پھر کوئی شعر سنائیے۔ امام- نے فرمایا کہ مجھے زیادہ شعر حفظ نہیں ہیں متوکل نے زیادہ اصرار کیا تو امام نے چند شعر سنائے۔

امام کے چند شعر

باتواعلی قلل لجبال تحر سهم

غلب الرجال فما اغنتهم القلل

والستنزد بعد عز عن معاقلهم

فادوعا حفرا بئس مانزلوا

ناداهم صارخ من بعد ماقبروا

ابن الاسرته و الیبجاغن الحلل

ابن الوجوه التی کانت منعمة

من عونها تضرب الاستار الکلل

فافصح القبر عنهم حین ساء لهم

تلک الوجوه علیها الدور یقتل

قد طالما اکلوا دهرا وما شربوا

فاصحبوا بعد طول الدهر قد اکلو

ترجمہ اشعار:

۱ ۔ظالم افراد پہاڑوں کی چوٹیوں پر سوتے ہیں اور اپنے لئے قوی ہیکل دربان اور نگہبان کا انتخاب کر تے ہیں تا کہ وہ ان کے لئے پہرہ دے سکیں لیکن جب موت ان کے پاس آتی ہے تو وہ دربان کچھ نہیں کر سکتے۔

۲ ۔ان کو ان کی پناہ گاہوں سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے اور تاریک گڑھوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے ہاں یہ کیسی خراب جگہ ہے۔

۳ ۔اور جب دفن کر دیئے جاتے ہیں تو منادی ندا دیتا ہے کہ ہاں کہاں گئے وہ تخت و تاج اور شاہانہ لباس۔

۴ ۔کہاں گئے وہ چہرے جو ہمیشہ نازو نعمت میں رہتے تھے اور ہمیشہ تاج پہنتے تھے۔

۵ ۔قبر ان کی طرف سے جواب دے گی یہاں ہیں وہ چہرے کہ جن کو کھانے کے لئے کیڑے ایک دوسرے پر دوڑ پڑے ہیں، اور جو کیڑوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔

۶ ۔ایک زمانے تک کھانے پینے میں مشغول رہنے کے بعد اب یہ کیڑے مکوڑوں کی غذا بنے ہوئے ہیں۔

یہ شعر سننے کے بعد تمام افراد رونے لگے اور متوکل نے حکم دیا کہ اس شراب کی بساط کو اٹھا دیں۔ اور امام ہادی- کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔

امر بالمعروف اور نہی ازمنکر کا طریقہ

ہر کام کو صحیح انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں پوری طرح سے آگاہی حاصل ہو تاکہ صحیح نتیجہ تک پہنچا جا سکے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس کے صحیح راستہ سے اس کو انجام دیں ۔

امر بالمعروف کو نتیجہ تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ دو چیزوں کی پابندی کی جائے۔

۱ ۔ظاہری طریقہ ۲ ۔بنیادی طریقہ

۱۔ظاہری طریقہ

یعنی معاشرے کے ظاہری ڈھانچے کو محفوظ رکھا جائے مثلا اگر معاشرے میں لڑکیاں اور خواتین حجاب کی پابندی نہ کریں یا بے حجاب مجمع عام میں آنے لگیں تو نہی عن المنکر کے طور پر ان کو روکا جائے تا کہ معاشرے کی عفت محفوظ رہے ۔ ظاہری طریقے میں ضروری ہے۔

گناہ گار کو سمجھایاجائے اگر اہل منطق ہے تو دلائل کے ساتھ اگر نہیں ہے تو پھر آرام اور پیار سے اس سے یہ بات کی جائے۔

جیسا کہ سورہء نحل کی آیت ۱۲۵ میں لفظ "ھی احسن" استعمال ہوا ہے ۔ ارشاد ہے:

"حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ پرور دگا ر کی طرف دعوت دو اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے مناظرہ کرو"

حکمت: اشارہ ہے منطق ، دلائل اور عقلی راستوں کی طرف۔

موعظہ:اشارہ ہے محبت کے راستوں کی طرف۔

مجادلہ: اشارہ ہے مناظرہ اور دوستانہ گفتگو کے مختلف طریقوں کی طرف ۔

۲۔بنیادی طریقہ

یہ ایک گہرا اور بنیادی راستہ ہے جو کہ انسان کے اندر درست راستہ کی ضمانت فراہم کر تا ہے اس طرح ہے کہ گناہ اور انحراف اس کی زندگی میں اجنبی ہو جاتے ہیں ۔ جیسے صفائی کے مسئلہ میں جو کہ علاج سے پہلے ہے اگر انسان صفائی کا خیال رکھے تو بیمار نہیں ہو گا اور اگر ہو بھی گیا تو صفائی کے دوسرے طریقوں سے جیسے واکسینشن کے ذریعہ سے اس کو دور کر دیا جائے گا۔

اسلام میں صفائی وہ بنیادی راستہ ہے جو کہ انسان کو گناہ اور انحراف سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس راستہ میں چند امور کی پابندی ضروری ہے۔

۱۔خاندان کی تربیت

بچوں کی صحیح پر ورش والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گناہ کے نقصانات جسمانی نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں اور اس کے مضر اثرات بھی بہت زیادہ ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ڈاکٹر کی طرح ہر کسی کو اس کی بیماری کے مطابق نسخہ لکھ کر دیا جائے:

اگر بچپن ہی میں بچے کو واکسی نیٹ کر دیا جائے جیسے جسمی طور پر کیا جاتا ہے تو وہ پھر بڑے ہو کر گناہ نہیں کر ے گا۔

حدیث میں آیا ہے:

"ہر بچہ فطرت (اسلامی) پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں خدا رحمت کرے ان والدین پر جو اپنے بچوں کو صحیح راستے تک مدد کرتے ہیں"

(فرع کافی جلد ۶ صفحہ ۴۸)

حضرت امیرا لمومنین- ارشاد فر ماتے ہیں:

"فرزند کا حق والدین پر یہ ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھیں ، ادب سکھائیں اورقرآن کی تعلیم دیں۔

(نہج البلاغہ حکمت ۳۹۹)

۲۔اچھی اور بری چیزوں کی پہچان

یعنی انسان پاک اور ناپاک آدمیوں کی شناخت رکھتا ہو اور اپنی روح کی سلامتی کے لئے ناپاک انسانوں سے رابط منقطع کر دے۔

رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں:

"انسان اپنے دوست اور ہم نشین کے دین پر ہوتا ہے"

(اصول کانی جلد ۲ صفحہ ۳۷۵)

حضرت امام محمد تقی جو اد- کا فرمان ہے:

"بدکار شخص سے دوستی مت کرو کیونکہ وہ اس تلوار کی مانند ہے جس کا ظاہر خوبصورت ہے اور باطن برا ہوتا ہے "

(بحار جلد ۷۳ صفحہ ۱۹۵ )

اقسام امر بالمعروف و نہی عن المنکر

اور انہیں سے وہ لوگ کہ جو نہ زبان سے ، نہ دل سے اور نہ ہاتھ سے (نہی عن المنکر نہیں کر تے ہیں) وہ حقیقت میں مردہ ہیں اور زندوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں !"

(نہج البلاغہ حکمت ۲۷۴ )

کمترین مرحلہ قلبی یہ ہے کہ دل میں نیک آدمی سے محبت کر ے اور برے آدمی سے نفرت۔ جب اچھے آدمی سے ملے تو خوشی کے ساتھ اور برے آدمی ملے تو غصہ اور ناراضگی کی حالت میں ۔

اگر قلبی طور پر ظاہر نہ ہو تو پھر زبان کی باری ہے ۔ اور زبان کے تین مر حلے ہیں۔

۱ ۔حکمت دلائل ۲ ۔ نصیحت ۳ ۔مجادلہ

اگر زبانی طور پر اثر نہ ہو تو پھر عمل کی باری ہے جس کے مختلف مراتب ہیں کتاب چھپوانا، مقالہ نویسی، مدارس کا قیام، مراکز تربیتی ، دینی محافل دینی اور تبلیغ کے مراکز قائم کر نا اور برائی وگناہ کے ٹھکانوں کو ختم کر نا۔

اس امید کے ساتھ کہ ان واقعات کو پڑھ کر عام نوجوان یہ سوچ پیدا کریں کہ یہ تمام سیرت کے لائق تقلید ہیں یہ درست ہے کہ ہم رسول گرامی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرح صادق وامین کی صفات پیدا نہیں کر سکتے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہ ہم خیانت اور جھوٹ کو عام کرنا شروع کر دیں۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی قابل تقلید ہے اگر ایسا نہ ہو تو فلسفہ امامت بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیرت آئمہ(علیہم السلام) پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے

فہرست

آئمہ(علیہم السلام) اور سیاست ۴

فلسفہ دنیاداری ۴

سرمایہ دار قرآن میں ۵

نتیجہ : ۵

حضرت امیر المومنین اور سیاست ۸

الف۔حضرت امیر المومنین- کی سیاست میں عدالت ۸

ب۔ امام کی سیاست گمراہ افراد سے دوری ۹

ج۔ امام-کی سیاست ،آزاد منش افراد کی حمایت ۱۰

حضرت امام حسن و امام حسین اور سیاست ۱۱

حضرت امام حسن-اور سیاست: ۱۱

حضرت امام حسین- اور سیاست ۱۱

کربلا: ۱۲

حضرت امام زین العابدین- اور سیاست ۱۳

حضرت امام محمد باقر- اور سیاست ۱۵

امام جعفر صادق- اور سیاست ۱۷

امام موسیٰ کاظم- اور سیاست ۲۲

امام رضا- اور سیاست ۲۶

امام محمد تقی- اور سیاست ۳۰

امام علی نقی- اور سیاست ۳۲

امام جعفر صادق- اور سیاست

امام جعفر صادق- کے زمانے میں بنی امیہ اور بنی عباس اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ- اور آپ- کے والد بزرگوار حضرت امام باقر- نے اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ دونوں نے اس زمانے میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

اس یونیورسٹی کا مقصد خالص اسلام کی ترویج تھا اس کے ساتھ ساتھ امام صادق- نے اپنے زمانے کے خلیفہ کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت اور معاشرے کی رہبری ہمارا حق ہے۔

امام جعفر صادق- نے منصور دوانیقی کے زمانے میں جب کہ بنی عباس اپنی حکومت قائم کر چکے تھے لیکن حکومت کو مضبوط کر نے کے لئے ہر مخالف کو تہہ تیغ کر رہے تھے۔ حضرت- نے اس وقت بھی اپنے اقوال کے ذریعے سے خلیفہ تک یہ بات پہنچائی کہ حکومت اور معاشرے کی قیادت ہمارا حق ہے اس کے ساتھ ساتھ امام جعفر صادق- نے ان شیعان حید ر کرار کو جو ظلم و ستم کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کوئی الگ چیز ہے اور دین ایک دوسری چیز، ان کے لئے بھی یہ بات واضح کر دی کہ حکومت حق ولایت ہے اور ولایت فقط ہمارے لئے ہے مثال کے طور پر امام- نے ایک دفعہ فرمایا کہ:

اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے نماز، زکوة ، حج، روزہ، اور ولایت۔

زرارہ نے امام- سے سوال کیا ان میں سے بر تر کون سی چیز ہے؟

امام- نے بلا جھجھک فرمایا:

"ولایت بر تر ہے کیونکہ ولایت تمام چیزوں کی چابی ہے اور حاکم، لوگوں کو ان کی طرف راہنمائی کر تا ہے"

(وسائل الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۸۰۷)

کس وضاحت کے ساتھ امام- نے ان افراد کو جو کہ یہ سوچتے ہیں کہ دین اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں یہ ثابت کر دیا کہ دین کا اجراء اور اس کا کمال حکومت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، حکومت ہی ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ دین کا اجراء کماحقہ کر ے حکومت ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ قدرت عطا کرتی ہے کہ وہ دین کے خلاف ہو نے والی ہر سازش کو ختم کر دے اس لئے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہر ظالم و فاسق شخص خلافت کے عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا متقی اور پر ہیز گار ہو نا ضروری ہے۔

اسی زمانے میں جب کچھ علماء نے بنی عباس کی حکومت کو اپنے فائدے حاصل کر نے کے لئے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کی اور لوگوں کو سمجھانا چاہا کہ یہ حکومت صحیح ہے تو امام جعفر صادق- نے اس کے خلاف بھی اپنا جہاد شروع کیا اور اپنے اقوال کے ذریعے سے ایسے علماء کی مذمت کی جو ظالم اور جابر حکمرانوں کے دربار میں زندہ لاشوں کے عنوان سے جاتے تھے امام جعفر صادق- نے فرمایا:

فقہاء انبیاء کے نمائندہ ہیں اور جب بھی یہ فقہاء سلاطین کے دربار کے چکر لگا نا شروع کر دیں تو ان کو متہم کر و (یعنی اس کے صحیح عالم ہونے کے بارے میں شک کرو۔)(کشف الغمہ جلد ۲ صفحہ ۱۸۲)

کبھی امام- نے اپنے درسوں میں یا اپنی تقریروں میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ حدیث نقل کر نی شروع کر دی کہ:

"فقہاء اس وقت تک انبیاء کے نمائندہ ہیں جب تک دنیا ان پر حاوی نہ ہو جائے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دنیا کب حاوی ہو گی تو فرمایا ظالم سلطان کی اطاعت کے وقت اور جب بھی تم ایسا دیکھو تو اپنے دین کو ان سے جداکر لو" (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۲)

ایک دفعہ امام صادق- بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ عذافر دوکان پر کھڑے کچھ خرید رہے ہیں امام- نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا عذافر سنا ہے کہ ابو ایوب اور ربیع (خلیفہ کے دو وزیر) کے لئے کام کر رہے ہو یاد رکھو قیامت کے دن تمہارا حال ان دو جیسا ہو گا سوچو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم کو ظالم کی مدد کر نے والے کے نام سے آواز دے کر بلایا جائے گا یہ سنتے ہی عذافر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

امام- نے پھر فرمایا کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا فقط اسی چیز سے ڈرا رہا ہوں جس سے خدا وند نے مجھ کو ڈرایا ہے۔

یہ کہنے کے بعد امام- آگے چل دئیے عذا فراس قدر متاثر ہوئے کہ کہتے ہیں کہ آخر عمر تک غمگین و افسردہ رہے۔ (وسائل الشعیہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۸)

امام نے سربازار اپنے ماننے والے کی مذمت کر نے کے لئے اور ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے یہ بات کہی یقینا امام- یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ جو افراد اطراف میں کھڑے ہوئے ہیں وہ بھی یہ بات سن لیں کہ ظالم کی مدد کر نا ایسا ہی ہے جیسا کہ خود ظلم کر نا۔

ایک اور موقعہ پر امام صادق- نے فرمایا:

"جو کوئی یہ چاہے کہ ظالمین باقی رہیں وہ ایسے ہے کہ جیسے وہ چاہتا ہو کہ خدا کی معصیت اور نافرمانی ہو تی رہے۔

(وسائل شعیہ جلد ۲ صفحہ ۱۳۰)

ان اقوال کے ذریعے سے امام- لوگوں کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے شیعہ یا ہمارے ماننے والے ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے کہ ہم ان ظالموں کو اقتدار سے ہٹا دیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھ جائیں نہیں بلکہ ہمارا جہاد ظالموں سے جاری ہے اور وہ زبان کے ذریعے سے ہے جس کو ختم کر نے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ ہماری زبانوں کو کاٹ دیا جائے۔

امام صادق- ہی کے زمانے میں بنی عباس کی حکومت کے قیام کے بعد لوگوں میں یہ باتیں کی گئیں کہ اگر یہ حکومتیں صحیح نہیں ہیں تو کم از کم ان کے ساتھ مل کر لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام تو کیا جا سکتا ہے ۔ بہت سے سادہ لوح افراد اس دھوکہ میں آگئے اور حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ امام- نے حکومت کی اس حکمت عملی کو بھی فقط اپنے اقوال کے ذریعے سے شکست دی امام- نے ایک موقعہ پر ایک چھوٹا سا جملہ ارشاد فرمایا کہ

"حتیٰ مسجد کی تعمیر میں بھی ظالموں کی مدد نہ کرو"۔

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۴)

حضرت امام جعفر صادق- نے معاشرے میں پھیلے ہوئے ان افراد کی بھی مذمت کی جو دولت کے لالچ میں جانتے ہوئے بھی کہ یہ حکمران غاصب اور ظالم ہیں ان کی مدح و سرا میں مشغول تھے۔

امام گرامی قدر فرماتے ہیں کہ:

"اگر کوئی ظالم حکمرانوں کی مدح کر ے اور اس کی دولت کے لالچ میں عزت کر ے تو وہ شخص اسی ظالم کا پڑوسی ہوگا آخرت میں"۔

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۳)

لمحہ فکر یہ ہے ہم لوگوں کے لئے کہ آج ہم اگر کسی ایسے شخص کی مدح کریں کہ جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ظالم ہے لیکن کیونکہ وہ ہمارے ذاتی حقوق ہم کو دلادے گا یا پھر ہم کو کسی اچھی جگہ نوکری دلوا سکتا ہے اور ہم اس ظالم شخص کی مدح شروع کر دیں تو یاد رکھئے کہ ہماری جگہ بھی دوزخ میں ہو گی۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آئمہ(علیہم السلام) بار بار لوگوں تک یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ حکومت اور ولایت ہمارا حق ہے اور ہم ہی اس منصب کے اہل ہیں۔ اسی ضمن میں امام- کی بھی سیاسی حکمت عملی کا تقاضہ یہی تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ اول اسلام سے لے کر انتہا تک جتنے بھی خلیفہ آئیں گے اگر وہ ہمارے علاوہ کوئی ہو تو غاصب ہے۔ ان نظریات کا اظہار ایسا تھا جیسے شیر کے منہ سے شکار چھین لینا امام- نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے بیانات اس طرح سے دیئے کہ افراد تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ اس طرح سے ہوا کہ اس زمانے میں لوگ بنی امیہ یا بنی عباس کے خلفاء کو امیرا لمومنین کہہ کر پکارتے تھے ایک شیعہ نے آپ سے سوال کیا کہ کیا امام قائم (عج) کے ظہور کے بعد ان کو امیر المومنین کہہ کر سلام کر سکیں گے؟

امام- نے اس سوال کے جواب میں ایک پورا نظریہ دیااور فرمایا:

"یہ نام مخصوص ہے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب- سے ان سے پہلے نہ کسی کو اس نام سے پکارا گیا اور نہ ان کے بعد کسی کو اس نام سے پکارا جائے گا مگر کافر"۔

(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۱۳)

امام- نے کمال صراحت سے یہ بات لوگوں تک پہنچاد ی کہ جو بھی اپنے آپ کو امیرالمومنین کہلوائے وہ کافر ہے۔

اپنے آخر ی دور میں بھی امام- نے سیاسی نزاکتوں کو سمجھااور اس کے توڑکے مطابق عمل کیا۔ منصور دوانیقی نے آپ- کو بے انتہا پریشانیوں میں مبتلا کیا اور کئی مرتبہ آپ- کو قتل کر نے کی دھمکی دی آپ- نے منصور دواینقی کی ان ہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وصی کی جان بچانے کے لئے ایک اور سیاسی حربہ استعمال کیا ۔

امام صادق- نے اپنی وصیت میں اپنے پانچ وصی مقرر کئے۔

۱ ۔ ابو جعفر منصور دوانیقی خلیفہ وقت

۲ ۔ محمد بن سلیمان (مدینہ کا گورنر )

۳ ۔ عبداللہ افطح (آپ- کے فرزند)

۴ ۔ موسیٰ بن جعفر(آپ-کے فرزند)

۵ ۔ حمیدہ (آپ- کی زوجہ محترمہ)

البتہ یہ وصیت جیسا کہ پہلے عرض کیا سیاسی تھی کیونکہ امام صادق- کے وصی اور جانشین امام موسیٰ کا ظم- تھے۔

جب امام- کے انتقال کی خبر منصور کو ملی تو اس نے اپنے ایک وزیر کو بلایا اور کہا کہ والی مدینہ کے نام خط لکھو۔

"یہ خط والی مدینہ محمد بن سلیمان کے لئے خلیفہ وقت منصور کی طرف سے ہے اگر جعفر بن محمد نے کسی خاص شخص کو اپنا وصی بنایا ہو تو اس کو اپنے پاس بلاؤ اور اس کا سر تن سے جدوا کر دو"۔

یہ خط والی مدینہ کے پاس پہنچا تو اس کا جواب کچھ یوں آیا کہ جعفر بن محمد نے پانچ افراد کو اپنا وصی بنایا ہے۔

۔ منصور دوانیقی۱

۲ ۔ محمد بن سلیمان

۳ ۔ عبداللہ افطح

۴ ۔ موسیٰ بن جعفر

۵ ۔ حمیدہ۔ (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۳۱۰)

جب منصور کو یہ خط ملا تو اس نے کہا کہ

"میرے پاس ان افراد کو قتل کر نے کا کوئی راستہ نہیں "۔

(اعلام الوری صفحہ ۱۹۰)

ٍ اس کے علاوہ امام- نے ایک اور وصیت بھی کی کہ میری وفات کے سات سال بعد تک حج کے ایام میں عزاداری امام حسین- کی جائے اور اس عزاداری کے لئے آپ- نے اپنے مال کا کچھ حصہ مقرر فرمایا۔

یہ وصیت بھی سیاسی تھی کیونکہ ان مجالس کے ذریعے سے دوسرے افراد امام- کی مظلومیت سے با خبر ہوتے اور ان کو پتہ چلتا کہ کس طرح امام- پر ظلم ہوئے ہیں اور جب اس کے ذریعے ان کے دل اماموں کی طرف مائل ہوتے اور وہ آئمہ- کی زندگی کے بارے میں جستجو کر تے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگ باطل حکومت سے دوری اختیار کرتے اور صالح افراد لوگوں کے امور کو سنبھالتے۔

امام موسیٰ کاظم- اور سیاست

امام موسیٰ کاظم- کا زمانہ امامت ۳۵ سال پر محیط تھا اور اس دوران چار عباسی خلیفہ گزرے جن میں سے ہارون رشید نے سب سے زیادہ خلافت کی اور اسی خلیفہ نے امام موسیٰ کاظم- کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی اور سب سے زیادہ پریشان کیا لیکن اسکے باوجود امام- کو جب بھی فرصت ملتی آپ حکومت کے خلاف سر گرم عمل ہوجاتے۔

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آگ کی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کراوں کہ آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی میں آپ کو اکثر واقعات بار بار پڑھنے کو ملتے ہیں اسکی وجہ یہ کہ آئمہ(علیہم السلام)کی سیاسی زندگی تقریباً ایک جیسی تھی کیونکہ ہر خلیفہ وقت کا ہدف ایک تھا اور وہ یہ کہ ان شخصیات کو کسی نہ کسی طرح لوگوں سے جدا کردیا جائے۔یہ شخصیات عوام سے اپنا رابطہ مضبوط نہ کرسکیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

اس کے مقابلے میں آئمہ(علیہم السلام)کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح راستے کی نشاندہی کردی جائے ان کو کمال کا راستہ بتادیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آئمہ(علیہم السلام)نے کبھی بھی حکومت کو اپنے اور عوام کے درمیان روکاوٹ نہ بننے دیا آئمہ(علیہم السلام)نے چھوٹی ملاقاتوں میں جزئی مسائل کے جواب میں بھی لوگوں کی ہدایت فرمائی جیسا کہ پہلے امام صادق کا امیرالمومنین کے نام والا قصہ بیان کیا گیا کہ جس میں امام صادق نے ایک جزئی مسئلہ پر ایک کلی موضوع کوبیان کیا۔ان تمام اہداف اور مقاصد میں آئمہ(علیہم السلام)کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عوام کو بتایا جائے کہ یہ حکومت غیر قانونی ہے۔یہ خلیفہ غاصب ہیں اور اس منصب کے حق دار نہیں ہیں۔

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی میں بھی ہمیں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں جو کہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے سلسلے میں تھے۔مثال کے طور پر امام موسیٰ کاظم کا ایک ماننے والا جن کا نام صفوان تھا ان کے پاس اس زمانے میں اونٹ ہوا کرتے تھے جس کو وہ قافلے والوں کو کرائے پر دیتے تھے ایک دفعہ حج کے زمانے میں ہارون رشید نے ان اونٹوں کوکرائے پر لیا امام کوجب اسکی خبرملی تو امام نے صفوان کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر دئیے ہیں صفوان نے کہا جی مولا۔

امام نے فرمایا کہ پھر تو ضرور تمہاری یہ دعا ہوگی کہ جب تک اونٹوں کا کرایہ نہ مل جائے ہارون رشید اور اس کے دربار والے زندہ رہیں؟ صفوان نے جواب دیا جی مولا۔

امام- نے فرمایا:

"جو بھی ان کی بقاء کی دعا کرے گا وہ ان میں سے ہے اور جو ان میں سے ہے اسکا ٹھکانہ جہنم ہے"

صفوان نے جب یہ سنا تو چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا توبہ کی اور اپنے اونٹ کسی کو بیچ دئیے

ہارون رشید کوجب اس کی خبرملی تو ہارون نے کہا کہ اگر صفوان سے پرانی دوستی نہ ہوتی تو اس کو پھانسی پر لٹکا دیتا۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۱ ۔ ۱۳۲)

اسی کے ذیل میں امام صادق اور امام کاظم- کا ایک واقعہ ذکر کروں گا اور پھر جو چیز مقدمہ کے طور پر عرض کی گئی اس سے متعلق کچھ نتیجہ اخذ کریں گے۔

ایران کے شہر کا گورنر نجاشی تھا جو کہ شیعان اہل بیت میں سے تھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر اور پریشان ہوکر امام صادق- کو خط لکھا اور اس میں حکومت کے ظلم وستم اورخلیفہ کی زیادتیوں کے بارے میں لکھا اور آخر میں امام سے درخواست کی کہ:

"میں یہ گورنری چھوڑنا چاہتا ہو ں کیونکہ ڈرتاہوں کہ میری آخرت کا کیا ہوگا آپ مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس مقام کو چھوڑدوں"

امام- نے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

تمہارا خط ملنے سے مجھے خوشی بھی ہوئی اور میں پریشان بھی ہوا خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ:

"خدا سے امیدوار ہوں کہ خدا تمہارے ذریعے سے آل محمدکے بے آسرالوگوں کوپناہ دے آل محمد کے بے بس لوگوں کو تمہارے ذریعے سے عزت دے آل محمد کے غریب لوگوں کو تمہارے ذریعے سے غنی کرے، ضعیف لوگوں کو قوی کرے اور دشمن کی آگ کو ان کی نسبت تمہارے ذریعے سے کم کرے"

میری پریشانی کا سبب یہ کہ:

"سب سے چھوٹی چیز جس کی وجہ سے میں پریشان ہو ں وہ یہ ہے کہ خدا نہ کرے کہ تم ہمارے دوستوں میں سے کسی سے بھی برا سلوک کرو اور اسکے نتیجہ میں خطیرہ القدس کی خوشبو سے بھی محروم ہوجاو"(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۲)

امام موسیٰ کاظم- کے ماننے والوں میں علی بن یقطین نامی ایک شخص تھا جو کہ خلیفہ کے دربار میں وزیرتھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر امام موسیٰ کاظم- کو ایک خط لکھا کہ:

"خلیفہ کے ظلم وستم کی انتہا ہوچکی ہے میری برداشت سے باہرہے یہاں پر مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے میں روز قیامت کے حساب وکتاب کے بارے میں سوچ کر اور پریشان ہوجاتا ہوں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہاں سے فرار ہوجاوں اور کہیں چھپ جاوں۔"

امام موسیٰ کاظم- نے اسکے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

"تم کو اجازت نہیں دوں گا کہ تم اس کام کو چھوڑدو جوکہ تم انکے دربار میں انجام دے رہے ہو بس خدا کو مت بھولنا"

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۴۳)

اگر ہم پچھلے صفحوں پر ایک نظر ڈالیں تو ہم کو ایسے واقعات نظر آئیں گے کہ جس میں آئمہ(علیہم السلام)نے اپنے ماننے والوں کو خلفاء سے رابطہ برقرار کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن ان دو واقعات کی طرف نگاہ ڈالیں تو امام صادق- اور امام موسیٰ کاظم -گورنر اور وزیر کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ حکومت چھوڑدیں وہ شخص جس نے اپنے اونٹ فقط کرائے پردے رکھے ہیں اس کواتنی مہلت بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنے اونٹوں کا کرایہ لینے تک انتظار کرلے یا اگر کوئی کسی ذریعے سے وزیروں کے لئے کام کررہا ہے تو فرماتے ہیں کہ اسکی جگہ دوذج میں ہے آخر اسکا کیا سبب ہے؟آیا یہ دومخالف سوچیں ہیں؟ آیا یہ ایک دوسرے کے مخالف عمل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسکا جواب کیا ہے؟

ان سوالوں کے جواب میں چند نکات بیان کروں گا جس کی بناء پر آئمہ اطہار(علیہم السلام) کے عمل میں یہ اختلافی چیزیں نظرآتی ہیں ان کی وجہ سے آئمہ(علیہم السلام)کے عمل میں کسی قسم کا کوئی تضادنہیں۔

وہ شخص جو کہ دربار میں یا حکومت کے ساتھ کام کررہاہے اسمیں مندرجہ ذیل صفات ہونی چاہئیں۔

۱ ۔ متقی اور پرہیز گارہونا۔

۲ ۔ ولایت آئمہ(علیہم السلام)پر ایمان ہونا۔

۳ ۔ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرنا۔

ٍ ۴ ۔ صاحبان ایمان کادفاع اور ان کی حفاظت کرنا۔

ٍ ۵ ۔ راز دار رہنا۔

اسی ضمن میں ایک اوراہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا چلوں اور ایک اورواقعہ حضرت امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بیان کروں ۔

خلفاء بنی عباس کی تاریخ کے اندر ہمیں کچھ ایسے خلفاء بھی ملتے ہیں جو بڑے نرم دل تھے، اور انہوں نے جو مال ان سے پہلے والے خلفاء نے غصب کیا تھا وہ واپس کردیا تھا، من جملہ ان میں فدک بھی تھا جو کہ انہوں نے واپس کرنے کی حامی بھری اس سلسلے میں واقعہ بعد میں بیان کروں گا۔ جس نکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہ ان خلفاء کی نرمی اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ آئمہ اطہار(علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے بلکہ پے درپے ظالم حکمرانوں کی وجہ سے عوام کے اندر غصہ بھرچکا تھا اور مختلف جگہوں سے حکومت کے خلاف تحریکیں شروع ہوگئی تھیں ان تحریکوں اور ان مخالفتوں کود بانے کے لئے خود حکومت کے مشیر ایسے خلیفہ کو چنتے تھے جو کہ کم ظلم کرے اور لوگوں کے غصب شدہ حقوق ان کو واپس دے دے،’اور یہی افراد جب دیکھتے تھے کہ عوام کا غصہ کم ہوگیا تو خود ہی اس خلیفہ کو زہر دے کرماردیتے تھے۔

مہدی عباسی(بنی عباس کا تیسرا خلیفہ)نے اپنے آباء واجداد کے گناہ پرپردہ ڈالنے کیلئے اور آزادی کی تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے تخت پر بیٹھنے کے بعدعام اعلان کیا کہ اگر کسی کا حق میری گردن پر ہے وہ آکر اسکا مطالبہ کرے تو اسکا حق اس کو واپس لوٹادیا جائیگا۔

امام موسیٰ کاظم- نے جب یہ اعلان سنا تو مہدی عباسی کے پاس گئے اس وقت مہدی عباسی لوگوں کے حقوق ان کو واپس کرنے میں مشغول تھا۔

امام- نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا:

"کیا ہمارے چھنے ہوئے حقوق ہم کو واپس نہیں دیئے جائیں گے؟

مہدی عباسی نے کہا: آپ کے حقوق کون سے ہیں ۔

امام- نے جواب میں فرمایا کہ "فدک"

مہدی نے کہا کہ فدک کی حدود معین کر دیں تو میں فدک آپ کو واپس پلٹا دوں گا۔

امام موسیٰ کاظم- نے اس کے جواب میں فرمایا :

" فدک کی پہلی حدا حد کا پہاڑ ہے اس کی دوسری حد عریش مصر ہے اس کی تیسری حد خزر کے ساحل تک ہے اور اس کی چوتھی حد عراق اور شام ہے۔ (یعنی تمام حکومت اسلامی) "

مہدی عباسی نے تعجب سے پوچھا کہ یہ فدک کی حدود ہیں!

امام کاظم- نے فرمایا :ہاں

یہ سن کر مہدی عباسی اس قدر غصہ میں آیا کہ غصہ کے آثار اس کے چہرے سے عیاں تھے کیونکہ امام موسیٰ کا ظم- اس جواب کے ذریعے سے اس کو سمجھانا چاہتے تھے کہ حکومت اسلامی کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہو نی چاہیے مہدی عباسی وہاں سے اٹھ کر جانے لگا اور زیر لب کہہ رہا تھا کہ یہ حدیں بہت زیادہ ہیں اس کے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا۔ (بحار الانوار جلد ۴۸ صفحہ ۱۵۶)

امام رضا- اور سیاست

حضرت امام رضا- کا طرز زندگی بھی اپنے اجداد کی طرح تھا۔ آپ-نے بھی اپنی تمام زندگی ظالموں کے خلاف جہاد میں گزاری ، اور ان میں بنی عباس کے خلفاء سرفہرست تھے کہ جن کی خلافت کو آپ- نے کبھی بھی قانونی حیثیت نہیں دی۔

آپ- کے ایک صحابی سلیمان جعفری نے کہا کہ میں امام-کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مامون کی حکومت سے تعلقات کے بارے میں آپ- کا نظریہ کیا ہے؟

حضرت امام رضا- نے جواب میں فرمایا:

"ان کی طرف عمداً اور جان بوجھ کر توجہ دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے اور اس کی سزا آتش دوزخ ہی"

وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۸ بحار الانوار جلد ۷۵ صفحہ ۳۷۴

کیونکہ امام رضا- نے ولی عہدی کو قبول کر لیا تھا اس لئے بعض افراد کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو تاتھا لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت امام رضا- نے کیوں ولی عہدی کو قبول کیا؟

اسلامی سلطنت میں بڑھتی ہوئی اسلامی تحریکوں کو دیکھ کر مامون کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب حکومت کو خطرہ لاحق ہے ، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت امام رضا- مدینہ میں تھے اور آپ- کا رابطہ عام لوگوں سے مضبوط تھا مامون نے اس رابطے کو توڑنے کے لئے اور آپ- کو زیر نگرانی رکھنے کے لئے ایک چال چلی ۔

خراسان سے مدینہ خط بھیجا کہ میں حکومت کے تمام امور آپ- کو سونپنا چاہتا ہوں اس لئے آپ- خراسان تشریف لے آئیے ۔

مدینہ کے گورنر نے حالات کو کچھ اس طرح سے بنایا کہ امام- کو اپنی مرضی کے بغیر مدینہ چھوڑنا پڑا(البتہ تمام آئمہ اطہار- کے لئے مدینہ چھوڑنا بہت مشکل ہو تا تھا کیونکہ وہاں پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت زہرا(علیہ السلام) کی مطہر اور منور قبریں ہیں )۔

جب حضرت امام رضا- مامون کے پاس پہنچے تو مامون نے آپ- کو خلافت کی پیشکش کی۔ آپ- نے بڑی سختی سے اس کو رد کر دیا تقریباًدو ہفتہ تک اس گفتگو کا سلسلہ جاری رہا ایک دن مامون نے کہا کہ میں خلافت سے استعفاء دینا چاہتا ہوں اور خلافت کے امور آپ- کے ہاتھ میں سونپنا چاہتا ہوں ۔

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا:

"اگر یہ خلافت تمہاری ہے اور خدا نے اس کو تمہارے لئے قرار دیا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو لباس خدا نے تمہارے لئے سیا ہے تم اسے دوسرے کو پہنا دو اور اگر خلافت تمہاری چیز نہیں ہے توجائز نہیں ہے کہ جو چیز تمہاری نہیں ہے اس کو مجھے دے دو۔عیون اخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ۱۳۹ ، ۱۴۰

مامون کا زور بڑھتا گیا اور آپ- کا انکار اپنی جگہ پر رہا مامون آپ کا انکار دیکھ کر کچھ نرم ہوا اور آپ- کو جانشینی کی پیشکش کی۔ آپ- نے اس کو بھی قبول کر نے سے انکار کر دیا مامون نے بہت زور دیا آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس گستاخ نے کہا کہ اگر آپ- نے جانشینی قبول نہیں کی تو میں آپ- کو قتل کر دوں گا۔

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا کہ:

خدا نے مجھ کو منع کیا ہے کہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالوں اور اب جب کہ تم زبردستی کر رہے ہو تو میں اپنی شرائط کے ساتھ جانشینی کو قبول کروں گا:

۱ ۔ کسی کو کسی کے مقام سے ہٹاؤں گا نہیں اور کسی کو کسی کے مقام پر فائز نہیں کروں گا۔

۲ ۔ فتویٰ نہیں دوں گا۔

۳ ۔ قضاوت نہیں کروں گا۔

۴ ۔ وہ چیز جو کہ قائم ہے اس کو تبدیل نہیں کروں گا۔

(مناقب آل ابیطالب- جلد ۴ صفحہ ۳۶۳)

یہ شرائط اس بات کی مکمل نشاندہی کر رہی ہیں کہ امام- نے مامون کی سیاست کو سمجھتے ہوئے اس کا جواب دیا مامون یہ چاہتا تھا کہ حضرت امام رضا- کو حکومت میں لاکر یہ ثابت کر دے عام مسلمان کے لئے کہ میری حکومت قانونی ہے اور شرعی ہے لیکن امام- نے اس کے مقابلے میں اپنی خاص روش اختیار کی اور یہ بات سمجھا دی کہ میرا مامون کی ظالم حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور جانشینی فقط ایک عنوان کی حیثیت رکھتی ہے۔

امام- نے اپنی روش کے ذریعے سے دو چیزوں کی وضاحت کی۔

ٍ ۱ ۔ امام- مامون کی حکومت سے راضی نہیں تھے۔

۲ ۔ جانشینی کو قبول کر نا ظاہری تھا کیونکہ امام- کی نظر میں آپ کا زندہ رہنا معاشرے کے لئے ضروری تھا اور اس زمانے کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں امام- نے یہ بات صریحاً بیان کر دی تھی کہ میں تم سے پہلے دنیا سے چلا جاؤں گا (یعنی مجھے جانشین بنا نا بے معنی ہی)امام- نے جانشینی کو قبول کر نے کے بعد محروم اور نادار فقراء اور مساکین کی تاحد امکان مدد کی اور ان کے حقوق ان کو دلوائے۔

اپنی مفصل نشستوں میں شیعہ مذہب کی حقانیت کو ثابت کیا اور تشیع کے اصولوں کو جو کہ دراصل خالص اسلام کے اصول ہیں روشن اور واضح کیا اور ان کو پھیلایا جس کی وجہ سے شیعت کو عروج ملا اور بہت سے علاقوں میں شیعت پھیل گئی یہی مسائل تھے کہ جو آگے چل کر اس بات کا سبب بنے کے آپ- کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔

ان تمام شرائط کے با وجود امام- نے مامون کی سیاست کو سمجھا اور اس کو موقعہ پر ختم کر دیا اور اس کے مقابل اپنے آپ- کوجھکا یا نہیں ، لیکن اگر امام- ان تمام چالاکیوں کے سامنے سادگی سے بیٹھے رہتے اور سیاسی مسائل کو سمجھتے تو شاید وہ واقعات پیش نہ آتے جو کہ تاریخ میں ثبت ہوئے۔

ان تفصیلات کے ذیل میں ایک واقعہ بیان کر تا چلوں کہ کس طرح سے امام رضا- نے مامون کی مخالفت کی ہے امام- کو مدینہ اور حجاز سے یہ خبر دی گئی کہ وہاں پر مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہے اور وہاں کے حکمرانوں نے بھی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں۔

ایک دن مامون ہاتھ میں لمبا چوڑا سا خط لئے امام- کے پاس آیا اور اس خط کو پڑھا اس میں کابل کے اطراف کے کچھ علاقوں کی فتح کی خبر دی گئی تھی جب خط ختم ہو گیا تو امام- نے مامون سے پوچھا کہ:

"کیا تم مشرک اور کافر قوموں کی کچھ زمین کو فتح کرنے کی وجہ سے خوش ہو؟"

مامون نے تعجب سے پوچھا آیا ان شہروں کی فتح خوشی کی بات نہیں ہے؟

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا:

"امت محمد کے سلسلے میں خدا کے فرمان کی مخالفت سے پرہیز کرواور اسی طرح سے قیادت کے سلسلے میں بھی جو کہ تمہارے ہاتھ میں ہے کیونکہ تم نے مسلمانوں کے امور کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور عوام پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کر دیا ہے جو کہ خدا کے فرمان کے خلاف کام کر تے ہیں اور تم یہاں پر بیٹھے ہوئے ہو اور مرکز وحی کو چھوڑ دیا ہے اور وہاں کے مظلوم عوام کی فکر میں نہیں ہو"

(عیون اخبار الرضا ج ۲ صفحہ ۱۵۹،۱۶۰)

یہاں پر امام- نے مامون کو مبارک باد دینے کے بجائے اس کے نمائندوں کی بے عدالتی پر اس کو ڈانٹا اور مصلح کہنے کی بجائے ا س کوفاسد کہا۔

آئمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا کسی بھی زمانہ میں کسی بھی صورت حال میں ۔ آئمہ(علیہم السلام) کے ان ہی اصولوں میں مظلوم عوام کی حمایت تھی اور ان کی مدد کر نا تھی کبھی راتوں کو روٹیوں کی بوری کمر پر رکھ کر کبھی اندھے اور بوڑھے شخص کو کھانا کھلا کر ، کبھی جنگ کر کے اور کبھی درس و بحث کی محفلوں میں بیٹھ کر ، اس اصول کی حفاظت تمام آئمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے حالات کے مطابق کی ۔ امام رضا- نے بھی گو کہ سیاسی صورتحال سے اس قدر مضبوط نہ تھے مگر اس کے با وجود بھی کس قاطعیت اور یقین کے ساتھ آپ- نے ظالم حکمرانوں کے سامنے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی۔

ایک دفعہ ایک زاہد اور متقی شخص نے چوری کی اور وہ پکڑا گیا جب اس کو مامون کے دربار میں لایا گیا تو اس نے مامون سے بحث مباحثہ شروع کر دیا بحث نے طول پکڑایہاں تک کہ آخر میں مامون نے امام- سے رائے معلوم کی امام- نے کمال صراحت کے ساتھ مامون کے جواب میں فرمایا کہ:

"خدا نے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے کہا کہ "فللّٰہ الحجة البالغہ" "خدا کے لئے دلیل قاطع ہے(سورہء انعام : ۱۴۹) اور یہ حجت وہی ہے کہ جاہل اپنے جہل کے باوجود اس کو سمجھ لیتا ہے اور عالم اپنے علم کے ذریعے سے اس تک پہنچتا ہے اور دنیا اور آخرت حجت اور دلیل کی بناء پر ہے اور یہ مرد اس کے پاس بھی دلیل ہے"

یہ سننا تھا کہ مامون غصہ میں آگیا لیکن کیونکہ دربار میں تھا اس لئے اس زاہد کو رہا کر دیا اور لوگوں سے کنارہ گیری اختیار کر لی اور امام رضا- سے بھی ملاقاتیں بند کر دیں یہی سبب تھا کہ اس نے امام رضا- کو شہید کر وا دیا اس کے علاوہ امام- کے بہت سے اصحاب کو بھی شہید کر دیا۔ (عیون اخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ۲۳۷ ، ۲۳۸)

آئمہ اطہار (علیہم السلام)کی عملی زندگی کو اگر ہم دقت کی نظر سے دیکھیں یا کم از کم دیکھ ہی لیں تو پھر ہمارے لئے یہ سوال باقی نہ رہے کہ ہم کس شخصیت کو اپنے لئے معیار بنائیں کس روش کو اپنائیں کس تنظیم کو اختیار کریں ہمارے لئے راستہ روشن ہے صرف اس بات کی دیر ہے کہ ہم اس پر اپنی عملی زندگی میں عمل کریں ۔ اور سیرت آئمہ(علیہم السلام) کو یہ کہہ کر نہ چھوڑ دیں کہ ہم تو اس قابل نہیں اور یہ عمل تو فقط آئمہ (علیہم السلام)ہی انجام دے سکتے تھے اگر ہم یہ سوچ کر آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی کو چھوڑ دیں تو میرے خیال میں یہ سب سے بڑا ظلم ہو گا جو کہ ہم ان کے حق میں کریں گے۔


3

4

5