• ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7625 / ڈاؤنلوڈ: 3069
سائز سائز سائز
مذھب و عقل

مذھب و عقل

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

عنوان: مذہب و عقل

مصنف: سید علی نقی نقوی

***

تمہید

جب کہ دنیا میں صد ہا مذہب چل رہے ہیں اور ہر ایک اپنے سوا اوروں کو گمراہ بتاتا ہے، تو ایک جویائے حقیقت کا فرض ہے کہ وہ ان سب کو عقل سے پرکھے اور جہاں تک عرصہ حیات میں گنجائش پائے، برابر قدم آگے بڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ کسی ایک کو پورے طور پر صحیح سمجھ لے۔ راستوں کی کثرت سے گھبرا کر تحقیق سے جی چرانا اور ناچار سب کو خیرباد کہہ دینا دماغی کاہلی ہے جس کا نتیجہ ہرگز اطمینان بخش نہیں ہو سکتا۔

نظام ہستی میں دانائی کارفرما ہے، جس کے مظاہرات کو آنکھ دیکھ رہی ہے۔ عقل سمجھ رہی ہے، دل مان رہا ہے۔

اس دانائی کا مرکز ایک ہستی ضرور ہے جس کا اس تمام نظام کے ساتھ یکساں تعلق ہے۔ ذہن اس کا اقرار کر لے، یہ ذہن کی حقیقت شناسی ہے مگر وہ ذہنی تخلیق کا نتیجہ نہیں ہے۔ تخلیق کی ضرورت تو اس کے لئے ہوتی ہے جس کی کوئی اصل حقیقت نہ ہو مگر اس حقیقت کا جلوہ تو خود ذہن کو ہر چیز میں دکھائی دیتا ہے۔ یقیناً وہ ”حقیقت“ ثابت ہے جو ذہن اور اس کی تخلیق سے بالاتر ہے۔

صناعیوں میں قدرت کا ظہور ہے اس لئے قادر صناع کا پتہ چلتا ہے۔ وہ صناعیوں سے علٰیحدہ ضرور ہے کیونکہ صناعیاں تو بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں مگر وہ برابر قائم ہے جو اس کے موجود ہونے کا قائل ہو گا اسے وجود کا مقرر ہونا پڑے گا۔ مگر یہ وجود اس کی ذات سے علٰیحدہ نہیں ہے۔ نہ اس کی قدرت ذات سے جدا ہے۔

شرع محمدی اور قرآنی ہدایتوں کے پیرو ”مسلمان“ کہلاتے ہیں۔ یہ کلام اللہ اور رسول اللہ کو منجانب اللہ سمجھتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کلام جسمانی طور پر ذات الٰہی سے صادر ہوتا ہے یا وہ کسی خاص مقام پر بیٹھ کر رسول کو بھیجتا ہے ہرگز نہیں۔ خدا جسم سے بری اور مقام سے بے نیاز ہے۔ مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ اس کلام کا خالق ہے یعنی اپنے خاص ارادہ سے کسی مخلوق کی زبان پر اس کو جاری کراتا ہے اور کسی خاص شخص کو اپنے منشا کے موافق احکام پہنچانے اور خلق کی رہنمائی کے لئے مقرر کرتا ہے۔

امامیہ فرقہ میں بارہویں امام کی امامت اور غیبت کا ماننا ضرور ہے۔ گیارہ امام سب مختلف پردوں میں امامت یعنی ہدایت خلق کا کام انجام دیتے رہے ویسے ہی بارہویں امام بھی انجام دیتے ہیں۔

جن عقلی پتوں پر گیارہ اماموں کی امامت کو تسلیم کیا انہی سے بارہویں کی امامت اور حیات کا ثبوت ہے۔

کوئی شے عدم سے وجود میں آ کر بالکل فنا نہیں ہوتی۔ کسی نہ کسی صورت سے باقی رہتی ہے۔ انسان کے لئے بھی کوئی مستقبل ہے۔ جس پر جزا و سزا کا انحصار ہے۔ یہ عقل کا فیصلہ ہے۔ پہلے کی باتیں خود یاد نہ ہوں نہ سہی مگر معتبر بتانے والوں کی اطلاع دہی کو غلط کیسے کہا جائے جب کہ اپنے آپ کو کچھ یاد نہیں اور کہنے والوں کو عقل سچائی کی سند دے چکی۔

یوں ہی آئندہ کی باتیں، کچھ تو عقل عقل خود سمجھتی ہے اور کچھ کے لئے بتانے والوں کے چہرے دیکھتی ہے۔ جو کچھ وہ بتلاتے ہیں اس پر سر جھکاتی ہے کیونکہ اس کے خلاف وہ خود کوئی فیصلہ نہیں رکھتی۔

عقیدوں پر عقل کا پہرا ہے۔ بے شک مراسم کو حیثیت کا پابند ہونا چاہئے اسی بنا پر ”مذہب اور عقل“ کو کتابی صورت میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ عقل و مذہب کی جدائی کا جو دھنڈورا پیٹا جاتا ہے اس کی حقیقت کھلے۔ آئینہ سے جھائیاں دور ہو جائیں او ر حقیقت کا چہرہ صاف نظر آنے لگے۔

علی نقی النقوی

۱۶ ۔ ماہ صیام ۱۳۶۰ ھ

تعارف

مذہب ایک روشن حقیقت ہے جس کا جلوہ ”عقل“ کے آئینہ میں نظر آتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آئینہ دھندلا نہ ہو۔ ورنہ اپنی کدورت سے چہرہ کو داغدار بنائے گا۔ عیب اس کا ہو گا۔ حقیقت پر حرف آئے گا۔ منشاء یہ ہے کہ مذہب پر صحیح عقل کی روشنی میں تبصرہ کیا جائے اور پاکیزہ اسلام غلط توہمات اور باطل اعتراضات سے بری ہو جائے۔ بالکل سچا اور بے عیب نظر آئے اور عقل و مذہب کے تفرقہ کا خیال برطرف ہو۔ کیونکہ عقل و مذہب میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مذہب عقل کو آواز دیتا ہے اور عقل مذہب کو ثابت کرتی ہے۔

مگر عقل اور وہم میں مدتوں سے کاوش چلی آتی ہے ”وہم، بھیس بدل بدل کر عقل کے راستے سے ہٹاتا رہتا ہے۔ پہلے بھی کدتھی ، اب بھی ضد ہے۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے توہمات جہالت کے دور کی پیداوار تھے اس لئے ان کا پردہ جلدی چاک ہو جاتا تھا۔ اب ”نئی روشنی“ کے علمی پندار کا نتیجہ ہیں جبکہ سائنس بڑی ترقی کر گیا ہے اس لئے ملمع بہت اچھا ہونے لگا۔ ایمی ٹیشن ایسا تیار ہوتا ہے کہ اصل اور نقل میں تمیز دشوار ہوتی ہے۔ کوٹو جم اصلی گھی کو مات کر رہا ہے۔ اسی بھاؤ بکتا ہے۔ اس کہیں اصلی گھی ہے بھی تو اس کی قدروقیمت رائگاں۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

حکومتیں زیادہ تر عقل و مذہب کے ہمیشہ سے خلاف رہیں۔ کیونکہ یہ دونوں حکومتوں کے ظلم و استبداد اور من مانی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں مگر مذہب کو اپنی طاقت پر ہمیشہ بھروسا رہا اسے جتنا مٹایا گیا اتنا نمایاں ہوتا رہا۔ یہ اس کی فطری سچائی کا کرشمہ ہے۔

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے

عقل ہر چند جھوٹ مبالغہ کی گنجائش مطلق نہیں رکھتی مگر وہم اکثر عقل کا سوانگ بھر لیتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو عقلائے زمانہ عقلی باتوں میں مختلف نہ ہوتے اور آپس میں کبھی دست و گریبان نہ ہوتے۔

بدیں وجہ، خدا، رسول، کتاب، روح، عقائد اور مراسم میں مذہب اور عقل کے سچے فیصلے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ توہمات کو دخل در معقولات کا موقع نہ ملے۔

بے شٹک رواسم جو اکثر آس پاس کی قوموں کی دیکھا دیکھی رواج پا چکے ہیں وہ آج فضا میں بدنما، ترقیوں کو مانع، مذہب کو نقصان رساں، عقل کے رہزن، حیثیت کے دشمن ہیں۔ ان کو بدلنا ضروری ہے۔

یعنی عقائد کے بارے میں غلط توہمات کا دفعیہ۔ نقصان رساں مراسم میں ترمیم درکار ہے۔

اس لئے مراسم کی حقیقت اور عقیدوں کی غلط تعبیروں کے عقارے کھولے ہیں۔ جو ”اصلاح“ کے پردہ میں مفسدہ پردازی کا توڑ، ہوسناک معترضین کے چیلنج کا دفیعہ، ملمع کار انشاء پردازوں کے نوٹس کا جواب، دعویداران فہم سے تبادلہ خیال کا الٹی میٹم ہیں۔

موجوہ صناعیوں کے دور میں تخیل کی فیکٹری میں پرانے اور نئے سبھی قسم کے شبہات ڈھلتے ہیں۔ مصلحان قوم، صاحبان فہم، اہل نظر، اہل قلم کا یہ فرض ہے کہ وہ ان شبہات کی حقیقت کو ظاہر کریں۔

عقیدوں میں مداخلت، معاشرت میں تغیر، رواج میں تبدل، دستور میں دست اندازی کبھی تو حقیقت پروری کی بنیاد پر ضروری اور مناسب ہوتی ہے اور کبھی صرف ”فیشن“ کے لحاظ سے اس کو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں وہ تمدن کا فلسفہ اور خودآرائی کا آئینہ نہیں بلکہ خودبینی اور خودنمائی کا آئینہ ہے جو عقل اور استدلال کی چٹان پر گر کر پاش پاش ہوتا ہے۔ دل کہتا ہے:

از قضا آئینہ چینی شکست

اور دماغ خوش ہو کر آواز دیتا ہے۔

خوب شد! اسباب خودبینی شکست

جدت پرستوں کی مکدر کی ہوئی ہوا ہے جو سات سمندر پار سے ہیضہ اور طاعون کی طرح آئی ہے اور پھیل گئی ہے۔ فیشن کی وبا عام ہے مرد داڑھی مونچھیں منڈاتے ہیں اور عورتیں سر کے بال ترشواتی ہیں۔ غرض فطرت سے جنگ کا دور دورہ ہے۔ روس میں خدا کو سلطنت سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ ہندوستان میں بھی اینٹی گاڈ سوسائٹی بنی ہے۔ اس دباؤ کے خلاف انسانی تمدن کی صحت کو قائم رکھنا آسان نہیں مشکل کام ہے۔ پھر بھی یہ اطمینان ہے کہ جو بھی ہو عارضی بات ہے۔ آخر طبیعت غالب آئے گی اور مرض کے جراثیم ختم ہوں گے۔

وہ عقائد جن کوعقل کی تائید حاصل ہے۔ جو فطرت کی تحریک سے خون میں سرایت کئے ہوئے، رگ و پے میں پیوست، دل میں گھر اور دماغ میں خانہ بنا چکے ہیں آخر اپنی طاقت دکھلائیں گے اور غیرفطری شبہات و توہمات کی کدورت کو دور کرکے ذہن کے آئینہ کو صاف کر دیں گے۔

بے شک وہ رسمیں جو عقلی فیصلوں کے خلاف صرف بربنائے رواج قائم ہو گئی ہیں، ان کو بدلنا، رواج کو توڑنا، اور عادت کوچھوڑنا ضرور ہے۔

اس انقلاب کے لئے ہر ایک کو تیار ہونا چاہئے اور اس کی کوشش کرنا چاہئے۔ ہاں اپنا عرصہ حیات، خوشگوار بنانے کے لئے ان رسموں کے لحاظ سے اصلاحِ معاشرت کی ضرورت ہے۔ بیجا پابندیوں میں وقت، مراسم میں حیثیت ضائع کرنے کا موقع نہیں ہے۔

اس لئے عقیدت کی اصلی حقیقت کو پیش اور رسموں کے نقائص کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اصحاب فہم کا اعتراف، بوالہوس معترضین کا عاجلانہ اضطراب توقع دلاتا ہے کہ شبہات کی سمیت کے لئے یہ تریاق ضرور اثر کرے گا۔ معترضین کی زبانیں بند ہوں گی اور مذہب کے خلاف صدائیں خاموش ہو

عقیدہ

عقل کی کسوٹی پر کس کے، دماغ سے خوب اچھی طرح ٹھونک بجا اور پرکھ کے جس خیال کو ذہن مانے اور دل قبول کرے وہ سچا ”عقیدہ“ ہے۔

مذہب حق عقائد میں کہنے سننے اور تقلید کرنے یعنی بے سوچے سمجھے دوسرے کی بات مان لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ منقولات کا درجہ معقولات کے بعد ہے۔ منقولات وہ مانے جاتے ہیں جن کے ماننے پر عقل خود مجبور کرے اس لئے وہ منقولات بھی معقولات سے الگ نہیں۔ منقولات قدیمہ اور مسلمات سابقہ میں عقل کو تحقیق کا حق ہے۔ اور تحقیق کی آخری مزل یقین ہے۔ عقیدہ بھی اسی کے ماتحت ہے اسی لئے مذہب تحقیق کو ضروری قرار دیتا ہے اور عقل کو پکار پکار کر متوجہ کرتا ہے۔

مگر یہ جسے تم اکثر ”تحقیق“ کا لقب دیتے ہو۔ وہم، وسوسہ اور خیال سے ساز رکھتا ہے، اس سے ضرور ہوشیار چلنا چاہئے۔

مذہب

ٹھوس حقیقتوں کا مجموعہ جن کی سچائی پر عقل نے گواہی دی۔ جو دنیا کی تمدنی اصلاح کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے، وہی سچا مذہب ہے۔

یوں تو دعویدار بہت ہیں جنگ میں بالو چمک کر اکثر پیاسوں کو پانی کا دھوکا دیتی ہے مگر سانچ کو آنچ کیا۔ کھوٹا کھرا چلن میں کھل ہی جاتا ہے۔

بے شک سچے مذہب میں معاشرت کے اصول، تمدن کے قاعدے، نیکی کی ہدایت، بدی سے ممانعت ہے اور جبروتی قوت بھی ساتھ ہے۔ جزا، سزا، قہر، غضب، رحم و عطا ثابت حقیقتیں ہیں جن کی اہمیت کے سامنے عقل سرنگوں ہے۔

سچا مذہب عقل والوں کو آواز دیتا ہے اور جو باتیں عقل سے ماننے کی ہیں ان میں عقل سے کام لینے کی ہدایت کرتا ہے تاکہ سرکش انسان جذبات کی پیروی نہ کرے اور کمزور اور کاہل عقلیں اپنے باپ دادا کے طورطریقہ، ماحول کے تقاضے ہم چشموں کے بہلانے پھسلانے سے متاثر ہو کر سیدھے راستے سے نہ ہٹیں ”حقیقت“ کسی کے ذہن کی پیداوار نہیں ہوتی، اس لئے سچا مذہب کسی کی جودت طبع کا نتیجہ نہیں۔ بے شک اس تک پہنچنا اور پہنچ کر اس پر برقرار رہنا انسان کی عقلی بلندی کی دلیل ہے۔

جھوٹے مذہب، ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو دنیا کو بربادی کی طرف لے جانے والے، معاشرت کے تباہ کرنے والے، تمدن کے جھوٹے دعویدار، تہذیب کے بدترین دشمن۔ بدی کے محرک اور فتنہ انگیزی کے باعث ہوں۔ لیکن سچا مذہب وہی ہے جو عالم میں امن و سکون کا علمبردار، معاشرت کا بہتر رہبر، تمدن کا سچا مشیر، تہذیب کا اچھا معلم، طبیعت کی خودروی، بدی کی روک تھام، ممنوعات سے باز رکھنے کو زبردست اتالیق ہے۔ فتنہ انگیزی سے بچنے بچانے کو نگہبان، امن و امان کا محافظ، جرائم کا سدراہ، فطرت کی بہترین اصلاح ہے۔

انسان کی فطرت میں دونوں پہلو ہیں۔ حیوانیت و جہالت اور عقل و معرفت، مذہب کا کام ہے دوسرے پہلو کو قوت پہنچا کر پہلے کو مغلوب بنانا اور اس کے استعمال میں توازن اور اعتدال قائم کرتا۔ فطرت کے جوش اور جذبات کو فطرت کی دی ہوئی عقل سے دباتا اور انسان کو روکتا تھامتا رہتا ہے۔ جذبات کے گھٹاٹوپ میں قوت امتیاز کا چراغ دکھاتا۔ اور اچھا برا راستہ بتاتا ہے خطرے اور کجروی سے باز رکھتا ہے۔

طبیعت انسانی ایک سادہ کاغذ ہے۔ جیسا نقش بناؤ ویسا ابھرے، جوانی کی اودھم، خواہشوں کی شورش، نفس کی غداری، جس کو بدی کہا جاتا ہے اس کی صلاحیت بھی فطری ہے اور شرم، حیا و نیکی اور پارسائی، تعلیم کی قبولیت اور ادب آموزی کی قدرت بھی فطری ہے۔ بے شک پہلی طاقت کے محرکات چونکہ مادی ہوتے ہیں، انسان کے آس پاس، آمنے سامنے موجود رہتے ہیں اس لئے اکثر ان کی طرف میلان جلدی ہو جاتا ہے۔ پھر بھی جن کی عقل کامل اور شعور طاقتور ہوتا ہے۔ وہ ان تمام محرکات کے خلاف نیکی کی طرف خود سے مائل ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ جن کی عقل کمزور اور کاہل ہے وہ نیکی کی جانب مائل کرائے جاتے ہیں اس نیک توفیق کی عقل انجام بین پر صد ہزار آفریں۔ جس نے مذہب کی باتوں کو سمجھا اور دوسروں کو بتلایا اور حیوانوں کو انسان بنایا۔ مذہب نہ ہو تو حیوانیت پھر سے عود کر آئے۔ شہوانی خواہشوں کا غلبہ ہو۔ انسان حرص و ہوس کی وجہ سے اعتدال قائم نہیں رکھ سکتا اس لئے مذہب کا دباؤ اس کے لئے بہترین طریق ہے۔

فطرت نے درد دکھ کی بے چینیاں، بے بسی کا عالم، سکرات کا منظر، نزع کی سختیاں، موت کا سماں آنکھ سے دکھا دیا، مذہب نے مستقبل کے خطرہ، آخرت کی دہشت، بازپرس کے خوف، بدلے کے اندیشے پر عقل کو توجہ دلائی۔

عقل نے غور کیا، سمجھا اور صحیح مانا اور نگاہ دوربیں سے ان نتائج کو معلوم کر لیا۔

اصلاح کے لئے لامذہب بھی کہتے ہیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے اور بے شمار اصلاح پسندوں نے انجام سوچ کر یہ رویہ اچھا سمجھا ہے۔ تو کبھی مذہب کی ان تنبیہوں کو صرف ”دھمکی“ بتا کر اور ان نتیجوں کو ”نامعلوم“ کہہ کر ان کی وقعت نہ گھٹائیں۔ نہیں تو ایک طرف حقیقت کا انکار ہو گا دوسری طرف اصلاح کے مقصد کو ٹھیس لگے گی جس کی ضرورت کا ان کو بھی اقرار ہے۔

عقل

سوچنے سمجھنے والی، دیکھی باتوں پر غور کرکے ان دیکھی باتوں پر حکم لگانے والی بڑے بڑے کلیے بنانے والی اور ان کلیوں پر نتیجے مرتب کرنے والی قوت کا نام عقل ہے۔

انسا ن کے علاوہ تمام حیوانوں میں صرف حواس ہیں اور وہ حواس کے احاطہ میں اچھا برا، نفع نقصان پہچان لیتے ہیں۔ مگر یہ قوت جس کا نام ”عقل“ ہے انسان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی کی وجہ سے آدمی کو ذوق جستجو پیدا ہوتا ہے اور اس جستجو سے پھر اس کی عقل اور بڑھتی ہے۔ وہ اسی عقل کے برکات سے معلومات کا ذخیرہ فراہم کرتا رہتا ہے۔ موجودہ لوگوں سے تبادلہ خیال، پچھلی کتابوں سے سبق لے کر ہزاروں برس کی گزشتہ آوازوں میں اپنی صدا بڑھا کر آئندہ صدیوں تک پہنچانے کا حریص ہے، اس کی عقل کبھی محدود یا مکمل نہیں ہو سکتی وہ اپنی عقل کا قصور مان کر آگے بڑھ رہا ہے۔

یہ ذوق ترقی انسان کے علاوہ کسی دوسرے میں نا پید ہے۔ انسان کے سوا دوسرا مخلوق لاکھوں برس طے کرے تب بھی انسان نہیں بن سکتا۔

انسان اصل نسل میں سب سے الگ اور خود ہی اپنی مثال ہے۔ بے شک تہذیب و تمدن میں اس کی حالتیں بدلتی رہیں لامعلوم صدیوں کو طے کرکے موجودہ تہذیب و تمدن کی منزل تک پہنچا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے ہر طرح ترقی کی۔

اس نے بہت سے قدم ناسمجھی کے بھی اٹھائے جن سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹا۔ واللہ علم آگے بڑھ کے کہاں پہنچے۔

اس کا عقلی کمال اس میں ہے کہ وہ اپنے معلومات کی کوتاہی کا احساس قائم رکھے۔ اسی لئے اکثر باتوں میں خود عقل حکم لگانے سے انکار کرتی ہے اور انہیں اپنے دسترس کے حدود سے بالاتر قرار دیتی ہے۔

بہت باتوں کو خود عقل سماع کے حوالہ کرتی ہے ان میں اپنا کام بس اتنا سمجھتی ہے کہ امکان کی جانچ کرے، محال نہ ہونے کا اطمینان کر لے۔ اس کے بعد صحت اور عدم صحت مخبر کے درجہ اور اعتبار سے وابستہ ہے۔

واہمہ مشاہدہ کی گود کا پلا، اس کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اس نے بہت باتوں کو جن کی مثال آنکھ سے نہیں دیکھی غیرممکن کہہ دیا۔

اسی کے ماتحت انبیاء کے معجزات کا انکار کیا مگر عقل جو مادیت کے پردے اٹھا کر کائنات کے شکنجے توڑ کر حقیقتوں کا پتہ لگانے میں مشتاق ہے۔ اس نے وقوع اور امکان میں فرق رکھا، محال عادی اور محال عقلی کے درجے قرار دیئے اور غیرمعمولی مظاہرات کو جو عام نظام اور دستور کے خلاف ہوں ممکن بتایا اسی سے معجزات انبیاء کی تصدیق کی۔

آج ہزاروں صناعوں کی کارستانیوں نے اس کو ثابت کر دیا۔ موجودہ زمانہ کی ہزاروں شکلیں، لاکھوں اوزار، بے شمار ہتھیار، لاانتہا مشینیں، ہزار ہاملیں ایسے ایسے منظر دکھاتی ہیں جنہیں سو دو سو برس پہلے بھی کسی سے کہتے تو وہ دیوانہ بناتا اور سب باتوں کو غیرممکن ٹھہراتا۔ آج وہ سب باتیں ممکن نہیں بلکہ واقع نظر آتی ہیں۔

ان کارستانیوں نے معجزات انبیاء کا خاکہ کیا اڑایا، بلکہ ان کو ثابت کر دکھایا۔

جو بات آج علم کی تدریجی اور طبیعی ترقی کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئی آج معجزہ نہیں ہے۔ لیکن یہی موجودہ انکشافات کے پہلے، عام اسباب کے مہیا کئے بغیر صرف خداوندی رہنمائی سے ظاہر ہوئی تو معجزہ ٹھہری۔

ٹاکی سینما میں عقل کا تماشا ہو یا انجنوں اور موٹروں کی تیزرفتاری، ہوائی جہاز ہو یا ٹیلی فون، وائرلس، ریڈیو، اور لاؤڈاسپیکر سب نے کائنات کی پوشیدہ طاقتوں کا راز کھولا، راز بھی وہ جو لاکھوں برس تک عام انسانوں سے پوشیدہ رہا۔ پھر انسان کو کیا حق ہے کہ و ہ کسی چیز کو صرف اپنے حدود مشاہدہ سے باہر ہونے کی وجہ سے غیرممکن بتا دے۔

مگر یہ انسان کی سخن پروری ہے کہ وہ ان حقیقتوں کو دیکھ کر بھی انبیاء کے معجزات کو افسانہ کہتا ہے۔

عقل ایک واحد طاقت ہے جس کے ماتحت بہت سی قوتیں ہیں۔ ان میں سے ہر قوت ایک احساس ہے اور عقل کا نتیجہ علم ہے۔ انسان کا دماغ مخزن ہے۔ قوت عاقلہ اور پانچوں حواس اس میں معلومات جمع کرتے رہتے ہیں۔ یہی سرمایہ انسان کی کائنات زندگی ہے۔

طبائع انسانی جذبات کے ماتحت جدت پر مائل ہیں۔ ہواؤ ہوس کی شوخیاں نچلا بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔

کبھی حجری زمانہ تھا، بتوں کی خدائی تھی۔ اب شمسی عہد ہے، عالم کا نظام، اجسام میں کشش، مہر کی ضیا سے قائم ہے، پہلے آسمان گردش میں تھا، زمین ساکت تھی۔ اب آسمان ہوا ہو گیا۔ زمین کو چکر ہے، ابھی تک جسم فنا ہو جاتا تھا روح باقی رہتی تھی۔ اب کہا جاتا ہے کہ جسم کے آگے روح کا وجود ہی نہیں۔ یہ انسان کے ناقص خیالات ہیں جن میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مگر عقل بردبار، ثابت قدم اور مستقل مزاج ہے۔ وہ جن باتوں کو ایک دفعہ یقین کے ساتھ طے کر چکی۔ ہمیشہ انہیں یقینی سمجھتی ہے کوئی سنے یا نہ سنے مانے یا نہ مانے وہ اپنی کہے جاتی ہے۔

مذہب کے خلاف توہمات ہمیشہ سے صف بستہ تھے۔ آج بھی پرے جمائے ہیں۔ جذبات انسانی اس کی گرفت سے نکلنے کو پھڑپھڑائے اور اب بھی پھڑپھڑاتے ہیں مگر عقل اور فطرت کی مدد سے اس کا شکنجہ ہمیشہ مضبوط رہا اور اب بھی مضبوط ہے۔ خدا کی سنت یعنی فطرت کی رفتار کو تبدیلی نہیں ہوتی۔ زمانہ کی تاثیر، ماحول کا اثر، صورتیں۔ شکلیں، ڈیل ڈول، وضع قطع، ذہنیت میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔

صدیوں میں ملکوں کا جغرافیہ، قوموں کی تاریخ، برسوں میں مقامی فضا طبیعتوں کا رنگ۔ مہینوں میں فصلوں کا تداخل، ہفتوں میں چاند کا بدر و ہلال، گھنٹوں میں مہر کا عروج و زوال۔ منٹوں میں سطح آب پر یا لب جو حبابوں کا بگڑنا۔ دم بھر میں سانس کا الٹ پھیر، آنا جانا۔ حیات سے ممات سب کچھ ہوا کرے۔ مگر عقل کی ثابت حقیقتیں کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔

اسلام انہی حقیقتوں کی حمایت کا بیڑا اٹھائے ہے۔ اسے میں توہمات کے سیلاب سے مقابلہ۔ جذبات سے بیر، دنیا جہان کے خیالات سے لڑائی ٹھانی ہے مگر ہے تو نیک صلاح۔

اگر خاموش بنشنیم گناہ است

انسان کی بھیڑیا دھان خلقت نے ایک وقت میں حیوانات کے ساتھ ساز کیا اور ذی اقتدار انسانوں کو خدا ماننے میں تامل نہیں کیا۔ پھر خدا کو انسان کے قالب میں مانا بلکہ ان سے بھی پست ہو کر درختوں کی پوجا کی۔ اور پہاڑوں کو معبود بنا لیا۔ اب جب کہ وہ ترقی کا مدعی ہے تو مادہ کے ذروں کو سب کچھ سمجھتا اور کائنات کی پوشیدہ قوتوں کی پرستش کر رہا ہے۔ خیر اس کی نگاہ حاضر مجسموں سے پوشیدہ طاقتوں کی طرف مڑی تو!

امید ہے کہ اگر عقل صلاح کار کا مشورہ قبول کرے تو غیب پر ایمان لے آئے اور مافوق الطبیعت خدا کی ہستی کا اقرار کر لے، وہ خدا جو آسمان اور زمین سب کا مالک ہے کسی جگہ میں محدود نہیں۔ بے شک خلق کی ہدایت کے لئے زمین پر اپنے پیغام بر بھیجتا اور ان کی زبانی بہترین تعلیمات پہنچاتا ہے اور خصوصی دلائل اور نشانیوں کے ذریعہ ان کی تصدیق کرتا ہے۔ ان دلائل کا نام معجزات ہے۔ مستقبل کے اخبار ان کے ماتحت ہیں۔ فطرت و عقل دونوں ان کے ہم آہنگ ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

خدا

مذہب حق اور عقل دونوں متحد ہیں اس لئے مذہبی اور عقلی خدا الگ الگ نہیں ہے۔

وہ واحد ہے لاشریک ہے، تمام اوصاف حمیدہ سے متصف ہے۔ مَاعَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرفتکَ اس کے سب سے زیادہ پہچاننے والے کی آواز ہے۔ لامکان ہے، قاب قوسین اَواَدنیٰ اس سے تقرب کا ایک مجازی نشان ہے۔ کوہ طور کی تجلی اس کی قدرت کی ایک ادنیٰ شان ہے۔ سب کو دیکھتا ہر ایک کی سنتا ہے اس معنی سے کہ اس کی دانائی ہر شے کو عام ہے۔ الفاظ اس کے مخلوق ہیں یہی اس کا کلام ہے۔ جبرئیل اور موسیٰ سے انہی معنی میں ہم کلام ہے۔ قیامت کے روز پوچھ گچھ اس کے حکم سے ہو گی۔ صحائف فرقان، توریت، انجیل، زبور، سب اس کے مخلوق کلام ہیں۔

انسان اپنے خالق کی جستجو میں سرگردان ہے لیکن اس کا وہم و ادراک تخلیق عناصر اور ایتھر کی پیچیدگیوں میں الجھ کر فضائے لامحدود سے آگے نہیں بڑھتا مگر عقل قدم آگے بڑھاتی ہے نظام ہستی کو دیکھ کر یقین کرتی ہے کہ یہ عظیم الشان کارخانہ کسی دانشمند نے سوچ سمجھ کر عمداً بنایا ہے۔ جس صنعت کا کوئی صانع نظر نہ آئے۔ جس قوت کا باعث کوئی دکھائی نہ دے۔ جس دانائی کا کوئی دانشمند معلوم نہ ہو سکے اس کے لئے خواہ مخواہ کوئی مجاز نہیں ہو سکتا کہ جو چاہے سمجھ لے بے شک عقل کا کام غور کرنا ہے اور اسی کو اپنے یقین کی بنا پر مافوق الادراک میں دخل در معقولات کا حق ہے۔

خدا دکھائی نہیں دیتا۔ جان یا روح بھی نظر نہیں آتی۔ جسم سامنے ہے اور متحرک ہے۔ جسم بغیر کی قوت کے متحرک نہیں ہو سکتا، اس کے اندر کوئی قوت ضرور ہے جو متحرک کر رہی ہے اور دکھائی نہیں دیتی۔ یہ سچ ہے کہ قوت جسم نہیں رکھتی مگر بغیر جسم کے ثابت بھی نہیں ہو سکتی اس لئے وہ جسم کے ساتھ شامل اور پیوستہ خود نمایاں ہوتی ہے۔ ہم نے اس کا نام قوت نامیہ رکھ لیا مگر چونکہ وہ خود جسم کے وجود کی محتاج ہے اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ قوت متحرکہ نے جسم کی بنیاد ڈالی ہے۔

عقل نے مزید کاوش کی تو کائنات کے ذرے ذرے میں ایک اور مقدم تر کیفیت محسوس کی جو ذی حیاتوں میں قوت مقناطیسی اور ذی روحوں میں جذبات یا فطرت کی حیثیت سے وابستہ پائی گئی، یعنی اجسام میں کشش اور نر و مادہ کے درمیان خواہش بن کر نمودار ہے۔ یہی دو جسموں کو ملا کر تیسرا جسم اور قوت نامیہ پیدا کر رہی ہے اور اس میں خلاقی طاقت مضمر نظر آتی ہے۔ یہی ابتدائی اور بنیادی قوت نظام ہستی کی بانی معلوم ہوتی ہے۔ ہم نے اس کا نام قوت جاذبہ رکھ لیا۔ ان سب آثار کے مخزن اور مرکز کو ہر جسم میں جان کہنے لگے یہ جسم و جان باہم آمیختہ ایک دوسرے کے ساختہ پرواختہ پائے گئے۔ اگر ہم جان کو جسم سے بے نیاز پاتے تو شاید جان کو خدا مان لیتے مگر ہم جسم و جان کو شامل اور پیوستہ مخلوق پاتے ہیں اس لئے ہماری عقل ان کو خدا ماننے پر تیار نہیں ہوتی اور جسم و جان کے پیدا کرنے والے کو خدا مانا ہے۔

اسی طرح ظاہربظاہر آفتاب کی حرارت، ایتھر کی کاوشیں، عناصر کی جدوجہد، فضائے لامحدود میں ہر قسم کی خلقت بناتی رہتی ہے۔ اس کی طرف بھی تخلیق کی نسبت کا دھوکا ہوتا ہے۔

مگر ظاہر ہے کہ عناصر کے دماغ نہیں جو سوچیں، عقل نہیں جو دانائی ظہور میں آئے اور کائنات کی ہر شے کی ساخت میں سوچی سمجھی، دانائی پائی جاتی ہے۔ وہ سلیقہ شعار جس کی کارسازیاں، پتھر، عناصر، موالید ثلاثہ سے ظاہر ہیں دکھائی نہیں دیتا مگر ضرور وہ ان سبے سے بالاتر ہے اس لئے ہم نے ان سے مقدم اور بالاتر قوت اول و اعلیٰ کو اپنا رب یا خالق مان لیا ہے۔ واضح ہو گیا کہ خدا انسان کی ذہنی تخلیق نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ثابت ہے جس کو ذہن نے اس کے آثار اور مخلوقات کو دیکھ کر معلوم کیا ہے اور اسی کو نظام ہستی کا بانی قرار دیا ہے۔

عقل و مذہب کے معلومات میں سب سے زیادہ مہتم بالشان وجود خداوندی ہے۔ ذہن انسانی نے اب تک خداشناسی میں ہرچند کدوکاوش کی مگر مسلمانوں کے وحدہ لاشریک سے بہتر اوصاف نہ بتلا سکا۔ جس کی ذات، اصل حقیقت کو سمجھنا ناممکن ہے لیکن صنعت مانع کو دکھا رہی ہے۔ خلقت خالق کو بتا رہی ہے۔ سلیقہ دانشمندیاں پیش کر رہا ہے۔ پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ قدرت دیکھیں قادر نہ کہیں، صاعی دیکھیں دانائی نہ مانیں۔ مخلوق کے ہوتے بھی خالق نہ مانا جائے۔

عقل کے پتلوں نے صحن عالم میں مخلوق کی تصویریں چلتی پھرتی دیکھیں۔ افلاک کو حکمت سے رفیع، کائنات کو قدرت سے وسیع۔ موجودات کو فطرت سے موضوع، خلاکوخلقت سے مملو پایا۔ خالق کو تسلیم کر لیا۔ غور سے دیکھا تو اپنے گردوپیش کی تمام مخلوق میں آفتاب کو کارفرما۔ عناصر کو جلوہ آرا پایا۔ زمانے بھر میں اسی کی گرما گرمی پائی۔ فضائے فلکی میں آل آفتاب کو گھومتے پھرتے ستاروں کو جگمگاتے، سیاروں کو چکر کھاتے دیکھا۔ اجسام میں کشش، کشش میں رابطہ، اجرام میں گردش، گردش میں ضابطہ نظر آیا، مگر سب کو قاعدہ کا پابند، فطرت کا تابع، قانون قدرت کا مطیع دیکھا۔ سطح ارضی پر ہوا کو حاوی، پانی کو جاری، نباتات میں نمو، جمادات کو قائم، حیوانات کو متحرک پایا، ان کی بقا کے لئے ہوا میں روح، پانی میں زندگی، نباتات میں غذا پائی، سب کے پیکروں میں اعضا کا تناسب، ہر شے ضروری اجزاء سے مرکب، ہر جسم مناسب اعضا سے مرتب، ہر چیز موزونیت سے سجی سجائی پائی، ان کی خلقت میں منشاء، نوعیت میں ارادہ، صنعت میں سلیقہ، صناعی میں دانائی نظر آئی، کثرت مشاہدہ نے دماغ کو ایسا گھیرا کہ عقل سے نہیں کے بجائے ہاں کہنا پڑا۔ لاکھ موجودات کے مشاہدہ نے دکھایا، بتایا، سمجھایا، ہزار ذہن رسا کی جدت، طبع کی جودت، واہمہ کی قوت، خیال کی وسعت، تصور کی رفعت، فکر کی نزاکت سے کام لیا، مگر دل و دماغ کی قوتیں، مصور قدرت کا ہیولیٰ قائم نہ کر سکیں۔ نظام عالم قائم رکھنے والی تمام قوتوں کو مخلوق پایا۔ وہم نے سب قوتوں کے مجموعہ کو واحد قدرت قرار دینا چاہا مگر عقل نے زبان روکی۔

مجموعہ کا درجہ اجزاء کے وجود کے بعد ہے پھر جب سب قوتیں مخلوق ہیں تو مجموعہ ان کا ضرور بالضرور مخلوق ہوا، مجبوراً ماننا پڑا کہ خالق وہ ہے جو ان سب قوتوں سے بالاتر ہے اور اس نظام سے الگ موجود ہے۔

وہ خالق ہے مجموعہ عناصر خاک و باد، آب، آتش کا۔ صانع ہے موالید ثلاثہ حیوانات، نباتات، جمادات کا، موجد ہے جان، قوت نامیہ، قوت جاذبہ کا۔ اسی سے وجود میں آئی ہے ساری کائنات، پائے ہیں سب نے ضرورتیں رفع کرنے کے لئے مناسب اعضاء، مہیا ہو گیا ہے ہر ایک کے لئے سامان غذاء جس سے اس کی زندگی کی بقا ہے۔ اسی لئے اسے رحیم و کریم اور رازق کہا جاتا ہے وہ ہرگز کسی جزو کا کل نہیں ہے۔ نہیں تو درجہ میں اجزاء کے بعد ہوتا بلکہ جزو و کل ہر ایک کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ بے ہمتا ہے۔ اس لئے واحد کہتے ہیں۔ ورنہ واحد بھی نہیں، وہ احد یعنی اکیلا ہے جو شمار میں نہیں آتا۔ گنتی میں نہیں سماتا۔ وہ پاک و ہپاکیزہ جسم سے منزہ ہے جس کو فنا نہیں، تغیر نہیں، تبدل نہیں، اس کی قدرت کے کرشمے صریحاً آنکھ سے دیکھ رہے ہیں پھر بھی وہ خود غائب ہے۔

وہ سب پر حاوی، ہر شے میں دخیل ہے، اس لئے حاضر کہہ سکتے ہیں۔ صحن عالم میں مخلوق کا اژدہام دیکھا۔ خلا کو خلقت سے مملو پایا، خلاق تسلیم کر لیا۔

کائنات کے ذرہ ذرہ میں حکمت سے عادل مانا۔ قادر، حاضر، دانا، خلاق اور عادل سب عقل سے تسلیم کیا۔ پھر بھی عقل بتلاتی ہے کہ اس کی ذات، نری کھری ذات ہی ہے۔ صفات اس سے الگ نہیں۔

عقل کی سمجھی کامل ذات کو لفظوں سے سمجھانے بیٹھے تو یہ اور ان کے سوا اور بہت صفتیں بن گئیں۔ سب صفتیں حقیقت کے اعتبار سے ٹھیک ہیں کیونکہ کمال کے بہت سے پہلوؤں کو الفاظ میں ادا کرنے والی ہیں۔ مگر حاشا ان کے ظاہری مفہوم کے لحاظ سے انہیں صفت نہ سمجھو۔ صفت تو وہی ہے جو ذات سے الگ ہو۔

خالق میں ذات اور صفات کا تفرقہ کہاں۔ اس کی لامحدود، کامل ذات کی تعبیر نے ہجوم صفات کی شکل اختیا رکی۔

جب قادر اور حکیم ہے تو مہربانی کے موقع پر رحیم، سختی کے محل پر قہار بھی ضرور ہے۔ مہربانی کے نتیجہ میں ستار اور غفار بھی، رزاق بھی ہے۔ دانا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ سننے کی چیز ہو یا دیکھنے کی۔ اس لحاظ سے سمیع و بصیر ہے۔ کلام کا خالق ہے۔ اس لئے متکلم ہے یہ سب باتیں لفظ نہیں، معنی ہیں جو عقل نے سوچے اور ان کے لئے قریب تر الفاظ مقرر کئے ہیں۔

لفظوں کے ظاہری معنی پر جا کر اعتراض ہی کرنا چاہو تو قادر، حاضر، دانا، خلاق اور عادل بھی نہ کہو کیونکہ یہ سب مفہوم کے اعتبار سے صف ہیں اور اس کی ذات صفات سے بری۔ لیکن اگر حقیقت طلبی چاہتے ہو اور نیک نیتی کے ساتھ سمجھنے سمجھانے کے لئے ان الفاظ کا استعمال کرتے ہو تو معنی پر غور کرو اس کمال کے نتیجہ کو دیکھو جو صفت میں مضمر ہے۔ اس نقص پر نہ جاؤ جو اس کے ظاہری مفہوم میں مضمر ہے۔ رحیم کہو اس اعتبار سے کہ اس سے اچھے اچھے فائدے خلق کو حاصل ہوتے ہیں۔ جذبات کا خیال ہرگز دل میں نہ لاؤ۔ قہار کہو اس لحاظ سے کہ عدالت کے تقاضا سے بہت سوں پر اس کی جانب سے سختی بھی ہوتی ہے۔ غصہ اور غضب کی انفعالی کیفیت کا توہم نہ کرو۔

سننے دیکھنے کے معنی فقط یہ سمجھو کہ دیکھنے سننے کی چیزیں اس کے علم میں ہیں اعضاء کا دھیان نہ لاؤ۔ متکلم بھی اس لحاظ سے ہے کہ کلام کو جہاں چاہے پیدا کرتا ہے مگر کام و دہان کا تصور ذہن سے دور رکھو کیونکہ وہ جسم سے مبرا ہے۔ انسانوں کی طرح بولنا سننا اس کی شان سے دور ہے۔ حضرت موسیٰ جس کلام کو سنتے تھے وہ بھی اللہ کا مخلوق ہے۔ اور قرٓن بھی اس کا پیدا کیا ہوا ایک کلام ہے۔ دانائی کے لحاظ سے ہر بات کو سنتا دیکھتا ہے۔ قوی کے مقابل میں ضعیف کو پامال ہوتے بھی دیکھتا ہے۔ اور اپنی حکمت و عدالت سے اس کی پاداش مقرر کرتا ہے۔ اس کے بندے جو اس کے ناظر ہونے کے دل سے قائل ہیں۔ ہرگز دیدہ و دانستہ بدافعالیوں کی جسارت نہیں کرتے۔ بداعمالیوں کی جرات مطلق نہیں ہوتی۔

قیامت کا اعتقاد، عدالت کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب بے دیکھے خدا کو عقل سے پہچانا اور اس کو عادل عقل سے مانا تو قیامت کا بھی عقل کے کہنے سے اقرار کیا۔

سوچا سمجھا جانا پہچانا مرکز ہے اس لئے عقل کو اس کے گرد چکر ضرور ہے۔

وہم کی وسوسہ انگیزیاں ہیں جن سے ایک را زکی بے شمار تاویلیں۔ ایک واقعہ کی کثرت سے داستانیں، ایک مزل کے بے حد راستے، ایک نشان کے صدہا نام، ایک نور کی لاانتہا صورتیں ہو گئیں۔

اس معنی سے کہ وہ کسی کے مانند نہیں کہو کہ خدا کوئی شے نہیں بے شک صحیح ہے۔ خدا کوئی چیز نہیں لاریب درست ہے۔ مگر خدا نہیں ہے، بخدا یہ غلط ہے۔

کیا خدائی کے ہوتے بھی خدا نہیں ہے، خلقت کے ہوتے بھی خالق نہیں ہے صنعت کو دیکھتے بھی صانع نہیں ہے۔ موجودات کے ہوتے بھی اس کا وجود نہ مانو گے۔ پھر کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہم کسی علیحدہ وجود کے مقر نہیں۔ عقل کی تسلی کے لئے دنیا کو غور سے دیکھو!

اس کا وجود علیحدہ یعنی مستقل ہے۔ اس کی شہادت کائنا ت کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے، اس کی تصدیق بدن کا رویاں رویاں کر رہا ہے۔ اس کی گواہی عناصر اربعہ کی ترتیب دے رہی ہے۔ مخلوق کے اعضاء کی ترکیب دے رہی ہے۔ موالید ثلاثہ کی تخلیق دے رہی ہے۔ قدرت کو فطرت کی صورتوں میں دیکھو۔ خالق کا نشان خلقت کی شکلوں سے پہچانو، وہی ہے کمال بخش عقل، وہی ہے سراسر عدل، اس کی قدرت آشکار ہے ذرہ ذرہ میں، موالید ثلاثہ میں، مجموعہ عناصر میں۔ حواس خمسہ میں، سات طبق زمین، نہ افلاک میں، اس کا جلوہ ہے، آفتاب کی ضیاء، ذرہ کی ضو میں، وہی ہے پیدا کرنے والا کشش کا مرکز میں، وہی ہے خزانہ دار عقل کا۔ وہی ہے قوت کا ماخذ، وہی ہے روح کا موجد، اسی کی کشش ہے دل میں، اسی سے عقل ہے دماغ میں، اسی سے قوت ہے اعضاء میں، اسی سے روح ہے بدن میں، اسی سے کائنات کی ہر شے، شے ہے اور ہر ایک میں ایک حد کا کمال ہے۔ وہ عرش سے بالا، جان سے نزدیک ہے۔ وہ قریب سے قریب تر، دور سے دور تر ہے۔

دور کیوں جاؤ، ،خود کو دیکھو خدا کو پہچانو، آپ میں ہو تو آپ میں دیکھو، کاوش تحقیق اپنے ہی میں خدا کا نشان پا رہی ہے۔ اپنے ہی جسم کے اعضاء کی ترتیب پر غور کرنے سے خدا سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ عقل، منشا، ارادہ، صناعی، دانائی، سب خداوندی قدرت کے پرتو ہیں۔ جو تمہارے روئیں روئیں جوڑ پٹھے سے معلوم ہو رہے ہیں۔ کائنات کی ہر شے قدرت کا نشان ہے۔ مگر وہ خود کسی شے میں نہیں ہے۔ کسی جگہ پر نہیں ہے۔ کسی خلوت، جلوت، کشمکش، ہنگامے۔ چہل پہل، گہماگہمی، ہجوم، جمگھٹے، انبوہ، جرگے، گروہ، جماعت، اژدہام، غول، جم غفیر میں اس کی ہستی شامل نہیں۔

وید، بھاگوت، اور پرن، توریت، انجیل، زبور اور فرقان سب اس کے ثناخواں ہیں۔ دیر و حرم میں اس کی یاد، دین اور دھرم میں اس کے گیان ہیں، عرب میں رب، عجم میں خدا، انڈیا میں پریمشر، یورپ میں گاڈ، اس کے مختلف نام اور نشان ہیں۔ صبح کی نوبت، شام کا نقارہ، موذن کی اذان، سنکھ کی آواز، ناقوس کی صدا، گرجا کا گھڑیال سب اس کی عظمت کے اعلان ہیں جن میں کچھ دلوں کے بنائے اور کوئی اس کا فرمان ہے۔

کائنات کی لامحدود وسعت میں ڈھونڈھو، اس کا دیدار کہیں نصیب نہیں، افلاک کی بلندی اور طبقات الارض کی پستی سے اسے یکساں نسبت ہے۔ قطبین کا قیام، زمین و آسماں کی گردش، مہر و ماہ کاطلوع و غروب، عروج و زوال فضائے بسیط کے ستارے اور سیارے، دریا کی روانی، موجوں کی اچھل کود۔ ہوا کے جھونکے، پانی کے تھپیڑے، صحرا کی ویرانی، دشت کا سناٹا۔ بہار کی تازگی، خزاں کی اداسی، سمندر کے شور، پہاڑوں کی خاموشی سے پوچھو۔ سب اس کا کلمہ پڑھتے ہیں، سننے والا کان چاہئے، بجلی کی لپک، سورج کی چمک میں دیکھو۔ سب میں اسکی قدرت کا نور ہے۔ دیکھنے والی آنکھ چاہئے۔

آفتاب دوردراز فاصلہ سے چمکتا ہوا سنہری گولہ ہے۔ ظاہر میں روشنی کا مخرج، باطن میں حرارت کا مخزن۔ حقیقت میں ثوابت اور سیاروں کی کشش کا مرکز ہے۔

ہم نے نظام عالم میں اسی کو کارفرما پایا جو کچھ پایا اسی کی گرمی سے، جو کچھ دیکھا اسی کی روشنی سے۔ خلقت بھر سے فائق پایا۔ اپنا خالق، موجودات کا اخلاق کائنات کا آفرید گار ماننا چاہا مگر عقل نے بتایا کہ جو نکلتا ڈوبتا رہے جو ظاہر ہوتا چھپتا رہے۔ وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ سامنے آ جانے سے پردہ فاش ہو گیا۔ وہ بات وہ شان، وہ عظمت تشریف لے گئی۔ صانع کی صنعت، خالق کی خلقت ہو گیا۔ یہ خودآرا نہیں، خود آیا نہیں، خدا کیونکر ہو سکتا ہے۔

اس کی درخشانی کے سبب اس کے جسم کے اجزاء ہیں، اجزا کو کیمیائی ترکیب دینے والے قدرت کے اسباب ہیں۔

محیط عالم، قدرت کا معائنہ، لامحدود کائنات کا مشاہدہ بے شمار موجودات کی ترتیب کا سلیقہ ایک دانشمند ہستی کے وجود کا یقین دلا رہا ہے۔ مگر مشاہدہ اس تک پہنچتا نہیں۔ تصور کوئی صورت بناتا نہیں، خیال پیش نہیں کرتا، حواس خمسہ سے محسوس نہیں ہوتا۔ ایتھر سے باہر، عاصر سے بالاتر ہے، دکھانے کو اشارہ، بتانے کو لفظیں نایاب ہیں۔

البتہ عقل کی نکتہ رسی پر صد ہزار آفریں۔ جس نے مخلوق سے الگ کرکے اسے بتا دیا کہ قادر ہے، حاضر ہے، دانا ہے، خلاق اور عادل ہے، اور کامل بلکہ سراسر کمال ہے۔ اور اسی کے ماتحت وہ سب کچھ ہے جسے عقل کمال کے تحت میں داخل کرے بشرطیکہ اس میں نقص کا شائبہ بھی نہ ہو۔

عقل رکھتے ہوئے اگر مان لو تو تعجب نہیں مگر نہ مانو تو سخت تعجب ہے جبکہ عالم کے ذرہ ذرہ میں اس کی قدرت کا جلوہ نمایاں ہے۔

رسول

رسول بھی مذ ہبی وہی ہے جو کہ عقلی ہے۔ تفرقہ کرنا اپنی عقل کی کوتاہی ہے۔

نبی اور رسول اصطلاحی لفظیں۔

لغت کے اعتبار سے مجاز، اصطلاح کے لحاظ سے حقیقت ہیں۔

نبی کے معنی خبر دینے والا، یعنی ان حقیقتوں کا بتلانے والا جو عام نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ پیشین گوئی اور غیب کی خبر دینی، اس کی حقیقت کاجزو نہیں ہے بلکہ نبی کی تصدیق کے لئے بطور اعجاز ایک خارجی صفت ہے۔ رسول کے معنی فرستادہ، خدا کا پیغام پہنچانے والے ہیں۔ مگر معنی کی حقیقت میں محل کے اختلاف سے تبدیلی ہوتی ہے۔ بھیجنے کا تعلق کسی مادی ہستی کے ساتھ ہو تو وہ بھیجنا بھی مادی ہو گا یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا لازم ہو گا لیکن جب غیرمادی ذات یا غیرمادی چیز کے ساتھ اس کا تعلق ہو تو بھیجنے والے کا مقام۔ قیام اور جسم کچھ بھی درکار نہیں۔ اس کے معنی ہیں صرف یہ کہ خدا کی مرضی اور حکم کی بناء پر کوئی اصلاح خلق اور دنیا کو سچائی کی تعلیمات پہنچانے کا ذمہ دار ہو۔

وہ ظاہر و باطن ہر طرح انسان ہوتے ہیں مگر عامہ بشر سے مافوق۔ مافوق البشر نہیں بلکہ بلند مرتبہ والے بشر۔ نور سے خلقت کا ہونا ایک مجازی تعبیر ہے صفائے نفس اور کمال عقل کی۔

فضائل اور مناقب کی حدیثیں جو محمد و آل محمد کے لئے وارد ہوئی ہیں انہیں رسالت و نبوت کے عمومی عقائد میں داخل کرنا ہرگز درست نہیں، نبیوں کی فہرست طولانی ہے۔ سب کے لئے کس نے کہا ہے اور کب کہ تمام مخلوق و ملائکہ سے پہلے خلق کئے گئے ہیں یا خدا نے اپنے ہی نور سے خلق فرمایا ہے۔ یاان ہی کی خاطر سب چیزوں کو خلق کیا ہے۔ یا یہاں سے سننے سمجھنے، دیکھنے رہنے آسمان پر جایا کرتے ہیں۔

خداوند عالم کی خصوصی تعلیم جو انبیاء تک پہنچتی ہے اسی کا نام وحی ہے۔ بیشک بعض انبیاء کو کتاب بھی عطا ہوئی۔

روحانی حیثیت کے سفیر کا پیام و سلام پہنچانا بھی عقل کے نزدیک لائق انکار نہیں ہے۔ کارخانہ قدرت کو بے شک بخوبی دیکھا بھالا، غور کیا اور سمجھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو معرفت ان کی ناقص ہوتی۔ دوسروں کی تکمیل و تربیت کس طرح کرتے اکثر رموز الٰہی سے واقب بھی کئے جاتے ہیں مگر دونوں جہان کا مالک سوائے اللہ کے کوئی نہیں، سب طرح کی قوت سوائے اس کے کسی کو نہیں۔ وہ جتنے اختیارات جس کو دیدے۔ جتنی قوت جس کو عطا کر دے اتنی اس کو ہے۔ اسی قوت سے انبیاء کام لیتے ہیں۔ اس قوت کا درجہ بھی مصلحت اور ضرورت کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ کی مرضی پر ہے۔ نظام عالم کبھی ٹوٹتا نہیں۔ مگر عام معمول اور ظاہری دستور کا انتظام کبھی کبھی ان کے ہاتھوں خدا توڑ بھی دیتا ہے۔ دنیا میں ہر زمانہ میں بہت سے واقعات عام دستور کے خلاف ہوتے رہتے ہیں اور نظام عادت اکثر ٹوٹتا رہتا ہے۔ مگر یہی خلاف دستور و عادت امر جب نبی کے دعوے کے مطابق، اس کے قول کے ثبوت میں ہو جاتا ہے تو معجزہ کہلاتا ہے۔ وفات پانے کے بعد مادی زندگی انبیاء کے لئے بھی ثابت نہیں، ہاں روح جتنی کامل ہو اس کے ادراکات اتنے قوی اور کامل ہوں گے۔ ان معنوں سے ان کو روحانی زندگی حاصل ہے۔ اور ان کا ذریعہ خدا کی بارگاہ میں کارآمد ہے۔

فطرت الٰہی سے نہیں بلکہ اکثر نقائص مادی سے اپنے عقلی و روحانی کمال کی بدولت بری ہیں۔ گناہوں سے بالکل معصوم، غلطی سے بے شک بری ہیں۔ نہیں تو ان کا قول و فعل تمام خلق کے لئے سند نہیں ہو سکتا۔

یہ ہیں انبیاء کے عمومی صفات، اس کے علاوہ بہت باتیں خاص خاص انبیاء کے مناقب کی ہیں۔ جو منقول طور پر بتائی گئی ہیں اور عقل ان کے انکار کا کوئی خاص سبب نہیں پاتی۔

سختی کے وقت ملائکہ کا مدد کو آنا۔ قیامت میں بخشوانا۔ شفیع روز محشر۔ خاتم المرسلین اور اشرف الانبیاء حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خصوصی اوصاف و مناقب ہیں۔

محال (عقلی) کا ممکن بنانا ہرگز کسی نبی و رسول کا کام نہیں۔ بلکہ محالات سے تو خدا کی قدرت بھی متعلق نہیں ہوتی۔

آنحضرت عملی طور سے اصلاحِ خلق کا کام اور رسالت کے فرائض ابتدائے عمر سے انجام دے رہے تھے۔ جب چالیس برس تک اپنے عقلی اور عملی کمال کو قوم سے منوا لیا تو آواز غیبی سے زبانی دعوائے رسالت پر مامور ہوئے۔

واہمہ خلاق اس کا ہوتا ہے جس کی عقل ناقص ہو اور مالیخولیا یا خبط میں مبتلا ہو لیکن وہ انسان جس کے کمال عقل کی گواہی واقعات، حالات اور اس کے حکیمانہ تعلیمات نے دے دی ہو وہ اس خبط میں کبھی مبتلا نہیں ہو سکتا۔ وہ آواز سنے گا تو حقیقت ہو گی۔ خواہ وہ صدا فلک کی ہو یا ملک کی بہرحال اصلیت رکھے گی۔

بشر ہونے میں آپ کے کوئی شک نہیں۔

آپ خود فرماتے تھے کہانا بشرمثلکم ۔ اگر بشر نہ ہوتے تو عالم بشری کے لئے نمونہ کیسے بنتے مگر بشر ایسے تھے جو کمال بشری کا نمونہ بن سکے۔ ذاتی طور پر غیب دان کوئی رسول نہیں تھا۔ مگر خداوندی تعلیم ہے۔ آپ نے غیب کی خبریں ضرور دیں۔ پارہ ۲۱ سورہ روم آیت۔ ۱ ۔

۲۸ ۔ مقام پر قرآن میں موجود ہے کہ آپ کو معجزہ عطا ہوا۔

وحی ذہنی تصور کا نام نہیں ہوتا۔ ورنہ ہر مالیخولیائی اور خبطی وحی کا مرکز سمجھا جائے بلکہ وحی نام ہے خداوندی پیغام کا خواہ بذریعہ ملک ہو یا صدائے غیب سے،

خدا دکھائی نہیں دے سکتا اس لئے سورہ والنجم میں بھی جبرئیل ہی مراد ہو سکتے ہیں۔

صدائے غیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی جسم میں پیدا ہو اس لئے اللہ جب چاہے جہاں چاہے اسے خلق کر سکتا ہے۔

نبی کی ضرورت اس وقت ہوئی جب شریعت محدود مدت تک کے ضروریات کو پیش نظر رکھ کر جاری کی گئی ہوئی لیکن جب نوع انسانی کی تعلیم کا نصاب آخری درجہ تک پہنچا۔ تو شریعت ایسی بھیجی گئی جس کے قواعد و ضوابط سے ہر زمانہ کے ضروریات میں رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسی شریعت کے پہنچا دینے کے بعد کسی پیغام لانے والے معلم کی ضرورت باقی نہیں رہی اور جس کے ہاتھوں یہ کامل شریعت آئی وہ آخری پیغمبر ہوا۔

یہ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔ افراد کے عمل نہ کرنے اور منحرف ہونے سے اور اس طرح خلق کے گمراہ ہونے سے شریعت و رسول کی ضرورت پیدا نہیں ہوا کرتی۔ ورنہ بہت سے انبیاء وہ تھے جن کے زمانہ میں فیصدی ۹۹ آدمی گمراہ تھے اور ایک آدمی راہ راست پر تھا۔ خود آنحضرت کے زمانہ میں اوراس کے بعد کسی وقت میں ایسا نہیں ہوا کہ حق پرستوں کی تعداد گمراہوں سے بڑھ جائے۔ پھر اس سبب سے اگر آج کسی رسول کی ضرورت پیدا ہو تو اس کے بہت پہلے یہ ضرورت پیدا ہو چکی اور خود آنحضرت کی موجودگی میں اور رسول کی بعثت ہونا چاہئے تھی۔

معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی بعثت کا یہ سبب نہیں ہوتا بلکہ یہ سبب ہوتا ہے کہ گزشتہ شریعت کے تعلیمات جتنی مدت کے حالات کے لحاظ سے بھیجے گئے تھے وہ میعاد ختم ہو گئی اس لئے دوسرا رسول بھیجا جاتا ہے۔ اب اگر کسی رسول کے تعلیمات کو بغیر کسی مقررہ میعاد کے ہمیشہ کے لئے جاری کیا گیا ہو تو اس کے بعد کسی رسول کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ ہر دین اپنے اپنے وقت کے مصالح کے لحاظ سے کامل ضرور تھا مگر بلااستثناء کامل دین وہی ہے جس کے بعد دوسرے دین کی ضرورت باقی نہ رہے۔ پارہ ۶ سورہ مائدہ آیت ۴ میں پیغمبر کو مخاطب کرکے نہیں کہا گیا ہے کہ تمہارا دین کامل ہوا یا تم پر نعمتیں تمام کی گئیں بلکہ نوع بشر کو مخاطب کرکے یہ ارشاد ہوا ہے کہ اس لئے سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ دین کامل ہوا ہے تو آنحضرت کا۔ نعمتیں تمام کی گئی ہیں تو آنحضرت پر، بلکہ دین کامل ہوا تو تمام خلق کا اور نعمتیں تمام ہوئیں تو نوع بشر پر اس لئے نہ اس دین کے بعد کوئی دین، اور نہ اس نعمت سے مکمل تر اس کے بعد کوئی نعمت۔ یہی ایک نعمت تا ابد تمام دنیا کے لئے ہے اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ دنیا تاابد نعمتوں سے محروم ہو گئی۔

پارہ ۸ سورہ اعراف آیت ۳۵ ۔

یابنی اٰدم امّا یأتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیاتی کا یہ ترجمہ بالکل غلط ہے کہ ”اے اولاد آدم(ع) تمہارے پاس تمہارے ہی ہم جنس رسول ضرور آئیں گے جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائیں گے“۔

آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اولاد آدم(ع)، اگر آئیں تمہارے پاس تمہارے ہم جنس رسول جو میری آیتیں پڑھ کر سنائیں تو جو شخص پرہیزگاری اختیار کرے او راپنے اعمال کی اصلاح کرے تو وہ محزون نہ ہو گا۔

اس میں ایک عام اصول کا اعلان کیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا رسول جو آیا ہے اس پر اگر ایمان لاؤ گے تو نجات پاؤ گے لیکن اب اس کے بعد کوئی رسول آنے والا ہے یا نہیں، اس کا یہاں پر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ بلکہ دوسری آیت میں بتلا دیا ہے کہ اس رسول کے بعد کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں۔

اب اس آیت کی برکت سے نہ مرزا غلام احمد صاحب کا رسول بنایا جانا درست ہے۔ نہ آئندہ اس آیت کے رو سے لوگ رسول بن سکتے ہیں۔ اس کے انسداد کے لئے قرآن کا فرمان کہ (ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبین) اور یہ اعلان کہ (اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی )کافی ہے۔

اشرف الانبیاء

ہمارے رسول حضرت خاتم النبین کثرت فضائل و خصوصیات کے لحاظ سے تمام انبیاء میں اشرف و بہتر ہیں۔ گزشتہ انبیاء میں حضرت عیسیٰ(ع) سب سے آخر میں تھے۔ جن کی ماننے والی ایک بڑی امت موجود ہے ان کی فضلیت کے متعلق حسب ذیل خصوصیات کا توہم ہوتا ہے مگر وہ توہم صحیح نہیں ہے۔

( ۱) عیسیٰ روح اللہ ہیں۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ خدا کی جان و روح ہیں۔

بلکہ ان کی روح کو مقام شرف میں اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے یہ حضرت عیسیٰ سے کیا مخصوص ہے بلکہ سلسلہ انبیاء میں جو سب سے پہلے فرد تھے حضرت آدم، جو اولوالعزم بھی نہیں ہیں ان کے متعلق کہا ہے۔ فاذانفخت فیہ من روحی۔

اس کے برخلاف ہمارے حضرت کا خود روح ہونا کیسا آپ امنزل روح تھے جیسا کہ ارشاد ہوا۔ ولقد ارسلنا الیک روحامن امرنا۔

اور دوسری جگہ:تنزل الملائکة والروح ۔

( ۲) حضرت عیسیٰ(ع) بے باپ کے پیدا ہوئے مگر حضرت آدم تو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے یہ سبب فضلیت نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم(ع) سب کے نزدیک افضل ہیں مگر وہ بھی ماں باپ دونوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کو ذاتی شرافت سے کوئی تعلق نہیں ۔

( ۳) عیسیٰ(ع) کی والدہ صدیقہ ہیں اور انہیں خدا نے پاک فرمایا اور تمام جہان کی عورتوں سے بڑھ کر برگزیدہ کیا مگر اس سے زیادہ خصوصیات ہمارے رسول کو حاصل ہے کہ حضرت کی دختر صدیقہ، مطہرہ، اور مریم سے زیادہ علم و طہارت کی حامل ہے اور سیدة نساء العالمین ہے۔ یہ خصوصیت عیسیٰ(ع) کو ہرگز حاصل نہیں ہے۔

( ۴) حضرت عیسیٰ(ع) کا صرف بطن مادر سے پیدا ہونے کے بعد نبوت کا دعویٰ تھا اور ہمارے رسول نے فرمایا کہ میں عالم ارواح میں خصوصیات نبوت کا حامل تھا۔ کنت نبّیا و اٰدم بین المآ ء والطین۔

( ۵) اٰتانی الکتاب کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ عیسیٰ(ع) کی ولادت کے ساتھ کتاب دنیا میں آ گئی تھی بلکہ اس سے مطلب صرف اتنا ہے کہ مجھ کو اس نے کتاب عطا فرمانے کے لئے منتخب کیا ہے۔ یہی صورت ہمارے پیغمبر کے لئے ہے۔

عیسیٰ(ع) کی کتاب بطور اعجاز نہیں دی گئی تھی مگر ہمارے رسول کی کتاب کو معجزہ قرار دیا گیا۔

( ۶) عیسیٰ(ع) کو پیدا ہوتے ہی کلام کی ضرورت اس لئے آئی کہ ان کی ماں کے دامن پر ایک بڑا شرمناک دھبا آ رہا تھا۔ ہمارے رسول کے یہاں خدانخواستہ ایسے کسی الزام کی گنجائش نہ تھی۔

( ۷) ہر نبی کو معجزہ اس کے اہل زمانہ کے لحاظ سے عطا ہوتا ہے جس چیز میں کمال کا اس زمانہ والوں کو ادعا ہو۔

عیسیٰ(ع) کو معجزے عطا ہوئے تھے جسمانی اس لحاظ سے کہ اس زمانہ میں فن طب کا زور تھا مگر ہمارے رسول کے زمانہ میں فصاحت و بلاغت اور کلام و بیان کا دور دورہ تھا اس لئے ان کو معجزہ اس طرح کا عطا ہوا۔

عیسیٰ(ع) کے معجزات فانی تھے مگر ہمارے رسول کا معجزہ باقی ہے۔ اور ہر زمانہ میں رسول کی سچائی ثابت کرنے کو کافی ہے۔

( ۸) یہ بالکل غلط ہے کہ آنحضرت کو معجزے نہیں دیئے گئے آپکو بھی معجزات عطا ہوئے جن کے متعلق آیات قرآنی کا حوالہ آئندہ آئے گا۔

( ۹) مصائب اٹھانا خاصان خدا کا شیوہ ہے مگر حضرت عیسیٰ(ع) کو سولی سے بچانے کا سبب یہ تھا کہ موسوی جماعت میں یہ بات مقرر تھی کہ جو سولی پر چڑھایا جائے گا وہ ملعون ہو گا، حضرت عیسیٰ(ع) کو سولی سے بچایا گیا تاکہ ان کی روحانی عظمت پر حرف نہ آئے یونہی حضرت رسول کی سچائی کے اظہار کے موقع پر چونکہ قرآن میں ارشاد ہوا تھا کہ لو تقوّل علینا بعض الا قاویل لاخذنامنہ بالیمین ثم لقطعنامنہ الوتین اس لئے آنحضرت کو خود شہادت ظاہری نہیں عطا ہوئی اور آپ کو قتل سے محفوظ رکھا گیا اور شب ہجرت قتل سے آپ کی حفاظت ہوئی جس طرح عیسیٰ(ع) کی حفاظت سولی پر چڑھنے سے کی گئی۔

( ۱۰) حضرت عیسیٰ(ع) کی یہ خصوصیت کہ اہل کتاب میں سے کوئی نہ بچے گا مگر یہ کہ مرنے سے پہلے عیسیٰ(ع) پر ضرور ایمان لائے گا۔ اس سے بہتر خصوصیت ہمارے رسول کے لئے ہے کہ آخر میں آپ کا دین سب پر غالب آئے گا (لیظھرہ علی الدین کلہ) اور آپ کے اتباع خلافت فی الارض کے مالک ہوں گے۔

(وعداللّٰه الذین امنوامنکم وعملوالصالحات لیستخلفتهم فی الارض )

( ۱۱) عیسیٰ(ع) کے متعلق ارشاد ہوا۔ اتینا عیسی بن مریم البینات وایدناہ بروح القدس تو ہمارے رسول کے لئے بھی ارشاد ہوا۔ وقداتیناک من لدنا ذکرا اورآپ کے اتباع کی امداد کثیرالتعداد۔ ملائکہ سے ہوئی (وایده بجنودلم تروها )۔ (ولقد نصرکم اللّٰه ببد روانتم اذلة)

( ۱۲) حضرت عیسیٰ(ع) آسمان پر گئے اور ہمارے پیغمبر منزل قاب قوسین و ادنیٰ پر تشریف لے گئے۔

( ۱۳) عیسیٰ(ع) ابھی تک زندہ ہیں تو یہ خصوصیت ہمارے رسول کے بارھویں جانشین حضرت مہدی موعود(ع) کو عطا ہوئی کہ انہیں اب تک حیات حاصل ہے۔

( ۱۴) حضرت عیسیٰ(ع) کے پیروؤں کو غالب رکھنے کا وعدہ ہوا اور ہمارے پیغمبر کے دین کے غالب رہنے اور آپ کی جماعت کے بلند رہنے اور بلاشرکت غیرے اللہ کی عبادت اطیمنان سے کرتے رہنے کا صاف وعدہ ہوا۔

( ۱۵) معجزات تمام انبیاء کو وقتی دیئے گئے۔ اسی میں عیسیٰ(ع) بھی داخل ہیں اور ہمارے پیغمبر کو معجزہ دائمی عطا ہوا۔ یہ خصوصیت کسی نبی کو حاصل نہیں ہے۔

روایتی اور تاریخی واقعات

( ۱۶) حضرت عیسیٰ(ع) باوجودیکہ تبلیغ میں گھومتے پھرتے رہے مگر آپ پر ایمان لانے والے صرف چند نفر ماہی گیر تھے مگر حضرت رسول پر ایمان لانے والے آپ کی زندگی میں ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچے۔

( ۱۷) حضرت عیسیٰ(ع) کو اتنا اقتدار کبھی حاصل ہی نہ ہوا کہ ملک و مال حاصل ہوتا اور حضرت محمد مصطفی نے اس اقتدار کے باوجود فقیرانہ شان سے زندگی بسر کی۔

( ۱۸) عیسیٰ(ع) کو اتنی قوت نہیں حاصل ہوئی کہ وہ تلوار اٹھاتے پھر بھی انہوں نے اپنے ساتھ والوں کو تلوار رکھنے کی تاکید کی۔ آنحضرت نے باوجود قوت شمشیرزنی اور جنگ کرنے کے پھر بھی رحم و کرم کی وہ مثالیں پیش کیں جو انسانیت کے لئے سبق آموز ہیں۔

( ۱۹) حضرت عیسیٰ(ع) عورتوں سے علیحدہ رہے اور شادی نہیں کی، اس طرح ان کی زندگی خلق خدا کے لئے مثال بننے سے قاصر رہی مگر ہمارے رسول نے تعلقات دنیا قائم رکھنے کے ساتھ پھر بھی روحانی فرائض کو مکمل طور پر انجام دیا اس طرح تعمیر انسانیت کی مثال پیش کی۔

( ۲۰) حضرت عیسیٰ(ع) کے معجزے جو مفاد عامہ کے تھے وہ خاص خاص افراد سے متعلق ہوتے تھے اور جسمانی بیماریوں سے متعلق تھے اور ہمارے رسول کا معجزہ قرآن جو مفاد عامہ کے لئے ہے وہ تمام خلق کے واسطے ہے اور انسانیت و روحانیت کے کمال کا ذریعہ ہے۔

مذکورہ وجوہ سے اشرف الانبیاء ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی ثابت ہوتے ہیں۔


3

4

5

6