• ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6431 / ڈاؤنلوڈ: 1550
سائز سائز سائز
مذھب و عقل

مذھب و عقل

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

عنوان: مذہب و عقل

مصنف: سید علی نقی نقوی

***

تمہید

جب کہ دنیا میں صد ہا مذہب چل رہے ہیں اور ہر ایک اپنے سوا اوروں کو گمراہ بتاتا ہے، تو ایک جویائے حقیقت کا فرض ہے کہ وہ ان سب کو عقل سے پرکھے اور جہاں تک عرصہ حیات میں گنجائش پائے، برابر قدم آگے بڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ کسی ایک کو پورے طور پر صحیح سمجھ لے۔ راستوں کی کثرت سے گھبرا کر تحقیق سے جی چرانا اور ناچار سب کو خیرباد کہہ دینا دماغی کاہلی ہے جس کا نتیجہ ہرگز اطمینان بخش نہیں ہو سکتا۔

نظام ہستی میں دانائی کارفرما ہے، جس کے مظاہرات کو آنکھ دیکھ رہی ہے۔ عقل سمجھ رہی ہے، دل مان رہا ہے۔

اس دانائی کا مرکز ایک ہستی ضرور ہے جس کا اس تمام نظام کے ساتھ یکساں تعلق ہے۔ ذہن اس کا اقرار کر لے، یہ ذہن کی حقیقت شناسی ہے مگر وہ ذہنی تخلیق کا نتیجہ نہیں ہے۔ تخلیق کی ضرورت تو اس کے لئے ہوتی ہے جس کی کوئی اصل حقیقت نہ ہو مگر اس حقیقت کا جلوہ تو خود ذہن کو ہر چیز میں دکھائی دیتا ہے۔ یقیناً وہ ”حقیقت“ ثابت ہے جو ذہن اور اس کی تخلیق سے بالاتر ہے۔

صناعیوں میں قدرت کا ظہور ہے اس لئے قادر صناع کا پتہ چلتا ہے۔ وہ صناعیوں سے علٰیحدہ ضرور ہے کیونکہ صناعیاں تو بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں مگر وہ برابر قائم ہے جو اس کے موجود ہونے کا قائل ہو گا اسے وجود کا مقرر ہونا پڑے گا۔ مگر یہ وجود اس کی ذات سے علٰیحدہ نہیں ہے۔ نہ اس کی قدرت ذات سے جدا ہے۔

شرع محمدی اور قرآنی ہدایتوں کے پیرو ”مسلمان“ کہلاتے ہیں۔ یہ کلام اللہ اور رسول اللہ کو منجانب اللہ سمجھتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کلام جسمانی طور پر ذات الٰہی سے صادر ہوتا ہے یا وہ کسی خاص مقام پر بیٹھ کر رسول کو بھیجتا ہے ہرگز نہیں۔ خدا جسم سے بری اور مقام سے بے نیاز ہے۔ مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ اس کلام کا خالق ہے یعنی اپنے خاص ارادہ سے کسی مخلوق کی زبان پر اس کو جاری کراتا ہے اور کسی خاص شخص کو اپنے منشا کے موافق احکام پہنچانے اور خلق کی رہنمائی کے لئے مقرر کرتا ہے۔

امامیہ فرقہ میں بارہویں امام کی امامت اور غیبت کا ماننا ضرور ہے۔ گیارہ امام سب مختلف پردوں میں امامت یعنی ہدایت خلق کا کام انجام دیتے رہے ویسے ہی بارہویں امام بھی انجام دیتے ہیں۔

جن عقلی پتوں پر گیارہ اماموں کی امامت کو تسلیم کیا انہی سے بارہویں کی امامت اور حیات کا ثبوت ہے۔

کوئی شے عدم سے وجود میں آ کر بالکل فنا نہیں ہوتی۔ کسی نہ کسی صورت سے باقی رہتی ہے۔ انسان کے لئے بھی کوئی مستقبل ہے۔ جس پر جزا و سزا کا انحصار ہے۔ یہ عقل کا فیصلہ ہے۔ پہلے کی باتیں خود یاد نہ ہوں نہ سہی مگر معتبر بتانے والوں کی اطلاع دہی کو غلط کیسے کہا جائے جب کہ اپنے آپ کو کچھ یاد نہیں اور کہنے والوں کو عقل سچائی کی سند دے چکی۔

یوں ہی آئندہ کی باتیں، کچھ تو عقل عقل خود سمجھتی ہے اور کچھ کے لئے بتانے والوں کے چہرے دیکھتی ہے۔ جو کچھ وہ بتلاتے ہیں اس پر سر جھکاتی ہے کیونکہ اس کے خلاف وہ خود کوئی فیصلہ نہیں رکھتی۔

عقیدوں پر عقل کا پہرا ہے۔ بے شک مراسم کو حیثیت کا پابند ہونا چاہئے اسی بنا پر ”مذہب اور عقل“ کو کتابی صورت میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ عقل و مذہب کی جدائی کا جو دھنڈورا پیٹا جاتا ہے اس کی حقیقت کھلے۔ آئینہ سے جھائیاں دور ہو جائیں او ر حقیقت کا چہرہ صاف نظر آنے لگے۔

علی نقی النقوی

۱۶ ۔ ماہ صیام ۱۳۶۰ ھ

تعارف

مذہب ایک روشن حقیقت ہے جس کا جلوہ ”عقل“ کے آئینہ میں نظر آتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آئینہ دھندلا نہ ہو۔ ورنہ اپنی کدورت سے چہرہ کو داغدار بنائے گا۔ عیب اس کا ہو گا۔ حقیقت پر حرف آئے گا۔ منشاء یہ ہے کہ مذہب پر صحیح عقل کی روشنی میں تبصرہ کیا جائے اور پاکیزہ اسلام غلط توہمات اور باطل اعتراضات سے بری ہو جائے۔ بالکل سچا اور بے عیب نظر آئے اور عقل و مذہب کے تفرقہ کا خیال برطرف ہو۔ کیونکہ عقل و مذہب میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مذہب عقل کو آواز دیتا ہے اور عقل مذہب کو ثابت کرتی ہے۔

مگر عقل اور وہم میں مدتوں سے کاوش چلی آتی ہے ”وہم، بھیس بدل بدل کر عقل کے راستے سے ہٹاتا رہتا ہے۔ پہلے بھی کدتھی ، اب بھی ضد ہے۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے توہمات جہالت کے دور کی پیداوار تھے اس لئے ان کا پردہ جلدی چاک ہو جاتا تھا۔ اب ”نئی روشنی“ کے علمی پندار کا نتیجہ ہیں جبکہ سائنس بڑی ترقی کر گیا ہے اس لئے ملمع بہت اچھا ہونے لگا۔ ایمی ٹیشن ایسا تیار ہوتا ہے کہ اصل اور نقل میں تمیز دشوار ہوتی ہے۔ کوٹو جم اصلی گھی کو مات کر رہا ہے۔ اسی بھاؤ بکتا ہے۔ اس کہیں اصلی گھی ہے بھی تو اس کی قدروقیمت رائگاں۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

حکومتیں زیادہ تر عقل و مذہب کے ہمیشہ سے خلاف رہیں۔ کیونکہ یہ دونوں حکومتوں کے ظلم و استبداد اور من مانی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں مگر مذہب کو اپنی طاقت پر ہمیشہ بھروسا رہا اسے جتنا مٹایا گیا اتنا نمایاں ہوتا رہا۔ یہ اس کی فطری سچائی کا کرشمہ ہے۔

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے

عقل ہر چند جھوٹ مبالغہ کی گنجائش مطلق نہیں رکھتی مگر وہم اکثر عقل کا سوانگ بھر لیتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو عقلائے زمانہ عقلی باتوں میں مختلف نہ ہوتے اور آپس میں کبھی دست و گریبان نہ ہوتے۔

بدیں وجہ، خدا، رسول، کتاب، روح، عقائد اور مراسم میں مذہب اور عقل کے سچے فیصلے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ توہمات کو دخل در معقولات کا موقع نہ ملے۔

بے شٹک رواسم جو اکثر آس پاس کی قوموں کی دیکھا دیکھی رواج پا چکے ہیں وہ آج فضا میں بدنما، ترقیوں کو مانع، مذہب کو نقصان رساں، عقل کے رہزن، حیثیت کے دشمن ہیں۔ ان کو بدلنا ضروری ہے۔

یعنی عقائد کے بارے میں غلط توہمات کا دفعیہ۔ نقصان رساں مراسم میں ترمیم درکار ہے۔

اس لئے مراسم کی حقیقت اور عقیدوں کی غلط تعبیروں کے عقارے کھولے ہیں۔ جو ”اصلاح“ کے پردہ میں مفسدہ پردازی کا توڑ، ہوسناک معترضین کے چیلنج کا دفیعہ، ملمع کار انشاء پردازوں کے نوٹس کا جواب، دعویداران فہم سے تبادلہ خیال کا الٹی میٹم ہیں۔

موجوہ صناعیوں کے دور میں تخیل کی فیکٹری میں پرانے اور نئے سبھی قسم کے شبہات ڈھلتے ہیں۔ مصلحان قوم، صاحبان فہم، اہل نظر، اہل قلم کا یہ فرض ہے کہ وہ ان شبہات کی حقیقت کو ظاہر کریں۔

عقیدوں میں مداخلت، معاشرت میں تغیر، رواج میں تبدل، دستور میں دست اندازی کبھی تو حقیقت پروری کی بنیاد پر ضروری اور مناسب ہوتی ہے اور کبھی صرف ”فیشن“ کے لحاظ سے اس کو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں وہ تمدن کا فلسفہ اور خودآرائی کا آئینہ نہیں بلکہ خودبینی اور خودنمائی کا آئینہ ہے جو عقل اور استدلال کی چٹان پر گر کر پاش پاش ہوتا ہے۔ دل کہتا ہے:

از قضا آئینہ چینی شکست

اور دماغ خوش ہو کر آواز دیتا ہے۔

خوب شد! اسباب خودبینی شکست

جدت پرستوں کی مکدر کی ہوئی ہوا ہے جو سات سمندر پار سے ہیضہ اور طاعون کی طرح آئی ہے اور پھیل گئی ہے۔ فیشن کی وبا عام ہے مرد داڑھی مونچھیں منڈاتے ہیں اور عورتیں سر کے بال ترشواتی ہیں۔ غرض فطرت سے جنگ کا دور دورہ ہے۔ روس میں خدا کو سلطنت سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ ہندوستان میں بھی اینٹی گاڈ سوسائٹی بنی ہے۔ اس دباؤ کے خلاف انسانی تمدن کی صحت کو قائم رکھنا آسان نہیں مشکل کام ہے۔ پھر بھی یہ اطمینان ہے کہ جو بھی ہو عارضی بات ہے۔ آخر طبیعت غالب آئے گی اور مرض کے جراثیم ختم ہوں گے۔

وہ عقائد جن کوعقل کی تائید حاصل ہے۔ جو فطرت کی تحریک سے خون میں سرایت کئے ہوئے، رگ و پے میں پیوست، دل میں گھر اور دماغ میں خانہ بنا چکے ہیں آخر اپنی طاقت دکھلائیں گے اور غیرفطری شبہات و توہمات کی کدورت کو دور کرکے ذہن کے آئینہ کو صاف کر دیں گے۔

بے شک وہ رسمیں جو عقلی فیصلوں کے خلاف صرف بربنائے رواج قائم ہو گئی ہیں، ان کو بدلنا، رواج کو توڑنا، اور عادت کوچھوڑنا ضرور ہے۔

اس انقلاب کے لئے ہر ایک کو تیار ہونا چاہئے اور اس کی کوشش کرنا چاہئے۔ ہاں اپنا عرصہ حیات، خوشگوار بنانے کے لئے ان رسموں کے لحاظ سے اصلاحِ معاشرت کی ضرورت ہے۔ بیجا پابندیوں میں وقت، مراسم میں حیثیت ضائع کرنے کا موقع نہیں ہے۔

اس لئے عقیدت کی اصلی حقیقت کو پیش اور رسموں کے نقائص کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اصحاب فہم کا اعتراف، بوالہوس معترضین کا عاجلانہ اضطراب توقع دلاتا ہے کہ شبہات کی سمیت کے لئے یہ تریاق ضرور اثر کرے گا۔ معترضین کی زبانیں بند ہوں گی اور مذہب کے خلاف صدائیں خاموش ہو

عقیدہ

عقل کی کسوٹی پر کس کے، دماغ سے خوب اچھی طرح ٹھونک بجا اور پرکھ کے جس خیال کو ذہن مانے اور دل قبول کرے وہ سچا ”عقیدہ“ ہے۔

مذہب حق عقائد میں کہنے سننے اور تقلید کرنے یعنی بے سوچے سمجھے دوسرے کی بات مان لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ منقولات کا درجہ معقولات کے بعد ہے۔ منقولات وہ مانے جاتے ہیں جن کے ماننے پر عقل خود مجبور کرے اس لئے وہ منقولات بھی معقولات سے الگ نہیں۔ منقولات قدیمہ اور مسلمات سابقہ میں عقل کو تحقیق کا حق ہے۔ اور تحقیق کی آخری مزل یقین ہے۔ عقیدہ بھی اسی کے ماتحت ہے اسی لئے مذہب تحقیق کو ضروری قرار دیتا ہے اور عقل کو پکار پکار کر متوجہ کرتا ہے۔

مگر یہ جسے تم اکثر ”تحقیق“ کا لقب دیتے ہو۔ وہم، وسوسہ اور خیال سے ساز رکھتا ہے، اس سے ضرور ہوشیار چلنا چاہئے۔

مذہب

ٹھوس حقیقتوں کا مجموعہ جن کی سچائی پر عقل نے گواہی دی۔ جو دنیا کی تمدنی اصلاح کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے، وہی سچا مذہب ہے۔

یوں تو دعویدار بہت ہیں جنگ میں بالو چمک کر اکثر پیاسوں کو پانی کا دھوکا دیتی ہے مگر سانچ کو آنچ کیا۔ کھوٹا کھرا چلن میں کھل ہی جاتا ہے۔

بے شک سچے مذہب میں معاشرت کے اصول، تمدن کے قاعدے، نیکی کی ہدایت، بدی سے ممانعت ہے اور جبروتی قوت بھی ساتھ ہے۔ جزا، سزا، قہر، غضب، رحم و عطا ثابت حقیقتیں ہیں جن کی اہمیت کے سامنے عقل سرنگوں ہے۔

سچا مذہب عقل والوں کو آواز دیتا ہے اور جو باتیں عقل سے ماننے کی ہیں ان میں عقل سے کام لینے کی ہدایت کرتا ہے تاکہ سرکش انسان جذبات کی پیروی نہ کرے اور کمزور اور کاہل عقلیں اپنے باپ دادا کے طورطریقہ، ماحول کے تقاضے ہم چشموں کے بہلانے پھسلانے سے متاثر ہو کر سیدھے راستے سے نہ ہٹیں ”حقیقت“ کسی کے ذہن کی پیداوار نہیں ہوتی، اس لئے سچا مذہب کسی کی جودت طبع کا نتیجہ نہیں۔ بے شک اس تک پہنچنا اور پہنچ کر اس پر برقرار رہنا انسان کی عقلی بلندی کی دلیل ہے۔

جھوٹے مذہب، ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو دنیا کو بربادی کی طرف لے جانے والے، معاشرت کے تباہ کرنے والے، تمدن کے جھوٹے دعویدار، تہذیب کے بدترین دشمن۔ بدی کے محرک اور فتنہ انگیزی کے باعث ہوں۔ لیکن سچا مذہب وہی ہے جو عالم میں امن و سکون کا علمبردار، معاشرت کا بہتر رہبر، تمدن کا سچا مشیر، تہذیب کا اچھا معلم، طبیعت کی خودروی، بدی کی روک تھام، ممنوعات سے باز رکھنے کو زبردست اتالیق ہے۔ فتنہ انگیزی سے بچنے بچانے کو نگہبان، امن و امان کا محافظ، جرائم کا سدراہ، فطرت کی بہترین اصلاح ہے۔

انسان کی فطرت میں دونوں پہلو ہیں۔ حیوانیت و جہالت اور عقل و معرفت، مذہب کا کام ہے دوسرے پہلو کو قوت پہنچا کر پہلے کو مغلوب بنانا اور اس کے استعمال میں توازن اور اعتدال قائم کرتا۔ فطرت کے جوش اور جذبات کو فطرت کی دی ہوئی عقل سے دباتا اور انسان کو روکتا تھامتا رہتا ہے۔ جذبات کے گھٹاٹوپ میں قوت امتیاز کا چراغ دکھاتا۔ اور اچھا برا راستہ بتاتا ہے خطرے اور کجروی سے باز رکھتا ہے۔

طبیعت انسانی ایک سادہ کاغذ ہے۔ جیسا نقش بناؤ ویسا ابھرے، جوانی کی اودھم، خواہشوں کی شورش، نفس کی غداری، جس کو بدی کہا جاتا ہے اس کی صلاحیت بھی فطری ہے اور شرم، حیا و نیکی اور پارسائی، تعلیم کی قبولیت اور ادب آموزی کی قدرت بھی فطری ہے۔ بے شک پہلی طاقت کے محرکات چونکہ مادی ہوتے ہیں، انسان کے آس پاس، آمنے سامنے موجود رہتے ہیں اس لئے اکثر ان کی طرف میلان جلدی ہو جاتا ہے۔ پھر بھی جن کی عقل کامل اور شعور طاقتور ہوتا ہے۔ وہ ان تمام محرکات کے خلاف نیکی کی طرف خود سے مائل ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ جن کی عقل کمزور اور کاہل ہے وہ نیکی کی جانب مائل کرائے جاتے ہیں اس نیک توفیق کی عقل انجام بین پر صد ہزار آفریں۔ جس نے مذہب کی باتوں کو سمجھا اور دوسروں کو بتلایا اور حیوانوں کو انسان بنایا۔ مذہب نہ ہو تو حیوانیت پھر سے عود کر آئے۔ شہوانی خواہشوں کا غلبہ ہو۔ انسان حرص و ہوس کی وجہ سے اعتدال قائم نہیں رکھ سکتا اس لئے مذہب کا دباؤ اس کے لئے بہترین طریق ہے۔

فطرت نے درد دکھ کی بے چینیاں، بے بسی کا عالم، سکرات کا منظر، نزع کی سختیاں، موت کا سماں آنکھ سے دکھا دیا، مذہب نے مستقبل کے خطرہ، آخرت کی دہشت، بازپرس کے خوف، بدلے کے اندیشے پر عقل کو توجہ دلائی۔

عقل نے غور کیا، سمجھا اور صحیح مانا اور نگاہ دوربیں سے ان نتائج کو معلوم کر لیا۔

اصلاح کے لئے لامذہب بھی کہتے ہیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے اور بے شمار اصلاح پسندوں نے انجام سوچ کر یہ رویہ اچھا سمجھا ہے۔ تو کبھی مذہب کی ان تنبیہوں کو صرف ”دھمکی“ بتا کر اور ان نتیجوں کو ”نامعلوم“ کہہ کر ان کی وقعت نہ گھٹائیں۔ نہیں تو ایک طرف حقیقت کا انکار ہو گا دوسری طرف اصلاح کے مقصد کو ٹھیس لگے گی جس کی ضرورت کا ان کو بھی اقرار ہے۔

عقل

سوچنے سمجھنے والی، دیکھی باتوں پر غور کرکے ان دیکھی باتوں پر حکم لگانے والی بڑے بڑے کلیے بنانے والی اور ان کلیوں پر نتیجے مرتب کرنے والی قوت کا نام عقل ہے۔

انسا ن کے علاوہ تمام حیوانوں میں صرف حواس ہیں اور وہ حواس کے احاطہ میں اچھا برا، نفع نقصان پہچان لیتے ہیں۔ مگر یہ قوت جس کا نام ”عقل“ ہے انسان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی کی وجہ سے آدمی کو ذوق جستجو پیدا ہوتا ہے اور اس جستجو سے پھر اس کی عقل اور بڑھتی ہے۔ وہ اسی عقل کے برکات سے معلومات کا ذخیرہ فراہم کرتا رہتا ہے۔ موجودہ لوگوں سے تبادلہ خیال، پچھلی کتابوں سے سبق لے کر ہزاروں برس کی گزشتہ آوازوں میں اپنی صدا بڑھا کر آئندہ صدیوں تک پہنچانے کا حریص ہے، اس کی عقل کبھی محدود یا مکمل نہیں ہو سکتی وہ اپنی عقل کا قصور مان کر آگے بڑھ رہا ہے۔

یہ ذوق ترقی انسان کے علاوہ کسی دوسرے میں نا پید ہے۔ انسان کے سوا دوسرا مخلوق لاکھوں برس طے کرے تب بھی انسان نہیں بن سکتا۔

انسان اصل نسل میں سب سے الگ اور خود ہی اپنی مثال ہے۔ بے شک تہذیب و تمدن میں اس کی حالتیں بدلتی رہیں لامعلوم صدیوں کو طے کرکے موجودہ تہذیب و تمدن کی منزل تک پہنچا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے ہر طرح ترقی کی۔

اس نے بہت سے قدم ناسمجھی کے بھی اٹھائے جن سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹا۔ واللہ علم آگے بڑھ کے کہاں پہنچے۔

اس کا عقلی کمال اس میں ہے کہ وہ اپنے معلومات کی کوتاہی کا احساس قائم رکھے۔ اسی لئے اکثر باتوں میں خود عقل حکم لگانے سے انکار کرتی ہے اور انہیں اپنے دسترس کے حدود سے بالاتر قرار دیتی ہے۔

بہت باتوں کو خود عقل سماع کے حوالہ کرتی ہے ان میں اپنا کام بس اتنا سمجھتی ہے کہ امکان کی جانچ کرے، محال نہ ہونے کا اطمینان کر لے۔ اس کے بعد صحت اور عدم صحت مخبر کے درجہ اور اعتبار سے وابستہ ہے۔

واہمہ مشاہدہ کی گود کا پلا، اس کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اس نے بہت باتوں کو جن کی مثال آنکھ سے نہیں دیکھی غیرممکن کہہ دیا۔

اسی کے ماتحت انبیاء کے معجزات کا انکار کیا مگر عقل جو مادیت کے پردے اٹھا کر کائنات کے شکنجے توڑ کر حقیقتوں کا پتہ لگانے میں مشتاق ہے۔ اس نے وقوع اور امکان میں فرق رکھا، محال عادی اور محال عقلی کے درجے قرار دیئے اور غیرمعمولی مظاہرات کو جو عام نظام اور دستور کے خلاف ہوں ممکن بتایا اسی سے معجزات انبیاء کی تصدیق کی۔

آج ہزاروں صناعوں کی کارستانیوں نے اس کو ثابت کر دیا۔ موجودہ زمانہ کی ہزاروں شکلیں، لاکھوں اوزار، بے شمار ہتھیار، لاانتہا مشینیں، ہزار ہاملیں ایسے ایسے منظر دکھاتی ہیں جنہیں سو دو سو برس پہلے بھی کسی سے کہتے تو وہ دیوانہ بناتا اور سب باتوں کو غیرممکن ٹھہراتا۔ آج وہ سب باتیں ممکن نہیں بلکہ واقع نظر آتی ہیں۔

ان کارستانیوں نے معجزات انبیاء کا خاکہ کیا اڑایا، بلکہ ان کو ثابت کر دکھایا۔

جو بات آج علم کی تدریجی اور طبیعی ترقی کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئی آج معجزہ نہیں ہے۔ لیکن یہی موجودہ انکشافات کے پہلے، عام اسباب کے مہیا کئے بغیر صرف خداوندی رہنمائی سے ظاہر ہوئی تو معجزہ ٹھہری۔

ٹاکی سینما میں عقل کا تماشا ہو یا انجنوں اور موٹروں کی تیزرفتاری، ہوائی جہاز ہو یا ٹیلی فون، وائرلس، ریڈیو، اور لاؤڈاسپیکر سب نے کائنات کی پوشیدہ طاقتوں کا راز کھولا، راز بھی وہ جو لاکھوں برس تک عام انسانوں سے پوشیدہ رہا۔ پھر انسان کو کیا حق ہے کہ و ہ کسی چیز کو صرف اپنے حدود مشاہدہ سے باہر ہونے کی وجہ سے غیرممکن بتا دے۔

مگر یہ انسان کی سخن پروری ہے کہ وہ ان حقیقتوں کو دیکھ کر بھی انبیاء کے معجزات کو افسانہ کہتا ہے۔

عقل ایک واحد طاقت ہے جس کے ماتحت بہت سی قوتیں ہیں۔ ان میں سے ہر قوت ایک احساس ہے اور عقل کا نتیجہ علم ہے۔ انسان کا دماغ مخزن ہے۔ قوت عاقلہ اور پانچوں حواس اس میں معلومات جمع کرتے رہتے ہیں۔ یہی سرمایہ انسان کی کائنات زندگی ہے۔

طبائع انسانی جذبات کے ماتحت جدت پر مائل ہیں۔ ہواؤ ہوس کی شوخیاں نچلا بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔

کبھی حجری زمانہ تھا، بتوں کی خدائی تھی۔ اب شمسی عہد ہے، عالم کا نظام، اجسام میں کشش، مہر کی ضیا سے قائم ہے، پہلے آسمان گردش میں تھا، زمین ساکت تھی۔ اب آسمان ہوا ہو گیا۔ زمین کو چکر ہے، ابھی تک جسم فنا ہو جاتا تھا روح باقی رہتی تھی۔ اب کہا جاتا ہے کہ جسم کے آگے روح کا وجود ہی نہیں۔ یہ انسان کے ناقص خیالات ہیں جن میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مگر عقل بردبار، ثابت قدم اور مستقل مزاج ہے۔ وہ جن باتوں کو ایک دفعہ یقین کے ساتھ طے کر چکی۔ ہمیشہ انہیں یقینی سمجھتی ہے کوئی سنے یا نہ سنے مانے یا نہ مانے وہ اپنی کہے جاتی ہے۔

مذہب کے خلاف توہمات ہمیشہ سے صف بستہ تھے۔ آج بھی پرے جمائے ہیں۔ جذبات انسانی اس کی گرفت سے نکلنے کو پھڑپھڑائے اور اب بھی پھڑپھڑاتے ہیں مگر عقل اور فطرت کی مدد سے اس کا شکنجہ ہمیشہ مضبوط رہا اور اب بھی مضبوط ہے۔ خدا کی سنت یعنی فطرت کی رفتار کو تبدیلی نہیں ہوتی۔ زمانہ کی تاثیر، ماحول کا اثر، صورتیں۔ شکلیں، ڈیل ڈول، وضع قطع، ذہنیت میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔

صدیوں میں ملکوں کا جغرافیہ، قوموں کی تاریخ، برسوں میں مقامی فضا طبیعتوں کا رنگ۔ مہینوں میں فصلوں کا تداخل، ہفتوں میں چاند کا بدر و ہلال، گھنٹوں میں مہر کا عروج و زوال۔ منٹوں میں سطح آب پر یا لب جو حبابوں کا بگڑنا۔ دم بھر میں سانس کا الٹ پھیر، آنا جانا۔ حیات سے ممات سب کچھ ہوا کرے۔ مگر عقل کی ثابت حقیقتیں کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔

اسلام انہی حقیقتوں کی حمایت کا بیڑا اٹھائے ہے۔ اسے میں توہمات کے سیلاب سے مقابلہ۔ جذبات سے بیر، دنیا جہان کے خیالات سے لڑائی ٹھانی ہے مگر ہے تو نیک صلاح۔

اگر خاموش بنشنیم گناہ است

انسان کی بھیڑیا دھان خلقت نے ایک وقت میں حیوانات کے ساتھ ساز کیا اور ذی اقتدار انسانوں کو خدا ماننے میں تامل نہیں کیا۔ پھر خدا کو انسان کے قالب میں مانا بلکہ ان سے بھی پست ہو کر درختوں کی پوجا کی۔ اور پہاڑوں کو معبود بنا لیا۔ اب جب کہ وہ ترقی کا مدعی ہے تو مادہ کے ذروں کو سب کچھ سمجھتا اور کائنات کی پوشیدہ قوتوں کی پرستش کر رہا ہے۔ خیر اس کی نگاہ حاضر مجسموں سے پوشیدہ طاقتوں کی طرف مڑی تو!

امید ہے کہ اگر عقل صلاح کار کا مشورہ قبول کرے تو غیب پر ایمان لے آئے اور مافوق الطبیعت خدا کی ہستی کا اقرار کر لے، وہ خدا جو آسمان اور زمین سب کا مالک ہے کسی جگہ میں محدود نہیں۔ بے شک خلق کی ہدایت کے لئے زمین پر اپنے پیغام بر بھیجتا اور ان کی زبانی بہترین تعلیمات پہنچاتا ہے اور خصوصی دلائل اور نشانیوں کے ذریعہ ان کی تصدیق کرتا ہے۔ ان دلائل کا نام معجزات ہے۔ مستقبل کے اخبار ان کے ماتحت ہیں۔ فطرت و عقل دونوں ان کے ہم آہنگ ہیں۔ ملاحظہ ہو۔