خدا
مذہب حق اور عقل دونوں متحد ہیں اس لئے مذہبی اور عقلی خدا الگ الگ نہیں ہے۔
وہ واحد ہے لاشریک ہے، تمام اوصاف حمیدہ سے متصف ہے۔ مَاعَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرفتکَ اس کے سب سے زیادہ پہچاننے والے کی آواز ہے۔ لامکان ہے، قاب قوسین اَواَدنیٰ اس سے تقرب کا ایک مجازی نشان ہے۔ کوہ طور کی تجلی اس کی قدرت کی ایک ادنیٰ شان ہے۔ سب کو دیکھتا ہر ایک کی سنتا ہے اس معنی سے کہ اس کی دانائی ہر شے کو عام ہے۔ الفاظ اس کے مخلوق ہیں یہی اس کا کلام ہے۔ جبرئیل اور موسیٰ سے انہی معنی میں ہم کلام ہے۔ قیامت کے روز پوچھ گچھ اس کے حکم سے ہو گی۔ صحائف فرقان، توریت، انجیل، زبور، سب اس کے مخلوق کلام ہیں۔
انسان اپنے خالق کی جستجو میں سرگردان ہے لیکن اس کا وہم و ادراک تخلیق عناصر اور ایتھر کی پیچیدگیوں میں الجھ کر فضائے لامحدود سے آگے نہیں بڑھتا مگر عقل قدم آگے بڑھاتی ہے نظام ہستی کو دیکھ کر یقین کرتی ہے کہ یہ عظیم الشان کارخانہ کسی دانشمند نے سوچ سمجھ کر عمداً بنایا ہے۔ جس صنعت کا کوئی صانع نظر نہ آئے۔ جس قوت کا باعث کوئی دکھائی نہ دے۔ جس دانائی کا کوئی دانشمند معلوم نہ ہو سکے اس کے لئے خواہ مخواہ کوئی مجاز نہیں ہو سکتا کہ جو چاہے سمجھ لے بے شک عقل کا کام غور کرنا ہے اور اسی کو اپنے یقین کی بنا پر مافوق الادراک میں دخل در معقولات کا حق ہے۔
خدا دکھائی نہیں دیتا۔ جان یا روح بھی نظر نہیں آتی۔ جسم سامنے ہے اور متحرک ہے۔ جسم بغیر کی قوت کے متحرک نہیں ہو سکتا، اس کے اندر کوئی قوت ضرور ہے جو متحرک کر رہی ہے اور دکھائی نہیں دیتی۔ یہ سچ ہے کہ قوت جسم نہیں رکھتی مگر بغیر جسم کے ثابت بھی نہیں ہو سکتی اس لئے وہ جسم کے ساتھ شامل اور پیوستہ خود نمایاں ہوتی ہے۔ ہم نے اس کا نام قوت نامیہ رکھ لیا مگر چونکہ وہ خود جسم کے وجود کی محتاج ہے اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ قوت متحرکہ نے جسم کی بنیاد ڈالی ہے۔
عقل نے مزید کاوش کی تو کائنات کے ذرے ذرے میں ایک اور مقدم تر کیفیت محسوس کی جو ذی حیاتوں میں قوت مقناطیسی اور ذی روحوں میں جذبات یا فطرت کی حیثیت سے وابستہ پائی گئی، یعنی اجسام میں کشش اور نر و مادہ کے درمیان خواہش بن کر نمودار ہے۔ یہی دو جسموں کو ملا کر تیسرا جسم اور قوت نامیہ پیدا کر رہی ہے اور اس میں خلاقی طاقت مضمر نظر آتی ہے۔ یہی ابتدائی اور بنیادی قوت نظام ہستی کی بانی معلوم ہوتی ہے۔ ہم نے اس کا نام قوت جاذبہ رکھ لیا۔ ان سب آثار کے مخزن اور مرکز کو ہر جسم میں جان کہنے لگے یہ جسم و جان باہم آمیختہ ایک دوسرے کے ساختہ پرواختہ پائے گئے۔ اگر ہم جان کو جسم سے بے نیاز پاتے تو شاید جان کو خدا مان لیتے مگر ہم جسم و جان کو شامل اور پیوستہ مخلوق پاتے ہیں اس لئے ہماری عقل ان کو خدا ماننے پر تیار نہیں ہوتی اور جسم و جان کے پیدا کرنے والے کو خدا مانا ہے۔
اسی طرح ظاہربظاہر آفتاب کی حرارت، ایتھر کی کاوشیں، عناصر کی جدوجہد، فضائے لامحدود میں ہر قسم کی خلقت بناتی رہتی ہے۔ اس کی طرف بھی تخلیق کی نسبت کا دھوکا ہوتا ہے۔
مگر ظاہر ہے کہ عناصر کے دماغ نہیں جو سوچیں، عقل نہیں جو دانائی ظہور میں آئے اور کائنات کی ہر شے کی ساخت میں سوچی سمجھی، دانائی پائی جاتی ہے۔ وہ سلیقہ شعار جس کی کارسازیاں، پتھر، عناصر، موالید ثلاثہ سے ظاہر ہیں دکھائی نہیں دیتا مگر ضرور وہ ان سبے سے بالاتر ہے اس لئے ہم نے ان سے مقدم اور بالاتر قوت اول و اعلیٰ کو اپنا رب یا خالق مان لیا ہے۔ واضح ہو گیا کہ خدا انسان کی ذہنی تخلیق نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ثابت ہے جس کو ذہن نے اس کے آثار اور مخلوقات کو دیکھ کر معلوم کیا ہے اور اسی کو نظام ہستی کا بانی قرار دیا ہے۔
عقل و مذہب کے معلومات میں سب سے زیادہ مہتم بالشان وجود خداوندی ہے۔ ذہن انسانی نے اب تک خداشناسی میں ہرچند کدوکاوش کی مگر مسلمانوں کے وحدہ لاشریک سے بہتر اوصاف نہ بتلا سکا۔ جس کی ذات، اصل حقیقت کو سمجھنا ناممکن ہے لیکن صنعت مانع کو دکھا رہی ہے۔ خلقت خالق کو بتا رہی ہے۔ سلیقہ دانشمندیاں پیش کر رہا ہے۔ پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ قدرت دیکھیں قادر نہ کہیں، صاعی دیکھیں دانائی نہ مانیں۔ مخلوق کے ہوتے بھی خالق نہ مانا جائے۔
عقل کے پتلوں نے صحن عالم میں مخلوق کی تصویریں چلتی پھرتی دیکھیں۔ افلاک کو حکمت سے رفیع، کائنات کو قدرت سے وسیع۔ موجودات کو فطرت سے موضوع، خلاکوخلقت سے مملو پایا۔ خالق کو تسلیم کر لیا۔ غور سے دیکھا تو اپنے گردوپیش کی تمام مخلوق میں آفتاب کو کارفرما۔ عناصر کو جلوہ آرا پایا۔ زمانے بھر میں اسی کی گرما گرمی پائی۔ فضائے فلکی میں آل آفتاب کو گھومتے پھرتے ستاروں کو جگمگاتے، سیاروں کو چکر کھاتے دیکھا۔ اجسام میں کشش، کشش میں رابطہ، اجرام میں گردش، گردش میں ضابطہ نظر آیا، مگر سب کو قاعدہ کا پابند، فطرت کا تابع، قانون قدرت کا مطیع دیکھا۔ سطح ارضی پر ہوا کو حاوی، پانی کو جاری، نباتات میں نمو، جمادات کو قائم، حیوانات کو متحرک پایا، ان کی بقا کے لئے ہوا میں روح، پانی میں زندگی، نباتات میں غذا پائی، سب کے پیکروں میں اعضا کا تناسب، ہر شے ضروری اجزاء سے مرکب، ہر جسم مناسب اعضا سے مرتب، ہر چیز موزونیت سے سجی سجائی پائی، ان کی خلقت میں منشاء، نوعیت میں ارادہ، صنعت میں سلیقہ، صناعی میں دانائی نظر آئی، کثرت مشاہدہ نے دماغ کو ایسا گھیرا کہ عقل سے نہیں کے بجائے ہاں کہنا پڑا۔ لاکھ موجودات کے مشاہدہ نے دکھایا، بتایا، سمجھایا، ہزار ذہن رسا کی جدت، طبع کی جودت، واہمہ کی قوت، خیال کی وسعت، تصور کی رفعت، فکر کی نزاکت سے کام لیا، مگر دل و دماغ کی قوتیں، مصور قدرت کا ہیولیٰ قائم نہ کر سکیں۔ نظام عالم قائم رکھنے والی تمام قوتوں کو مخلوق پایا۔ وہم نے سب قوتوں کے مجموعہ کو واحد قدرت قرار دینا چاہا مگر عقل نے زبان روکی۔
مجموعہ کا درجہ اجزاء کے وجود کے بعد ہے پھر جب سب قوتیں مخلوق ہیں تو مجموعہ ان کا ضرور بالضرور مخلوق ہوا، مجبوراً ماننا پڑا کہ خالق وہ ہے جو ان سب قوتوں سے بالاتر ہے اور اس نظام سے الگ موجود ہے۔
وہ خالق ہے مجموعہ عناصر خاک و باد، آب، آتش کا۔ صانع ہے موالید ثلاثہ حیوانات، نباتات، جمادات کا، موجد ہے جان، قوت نامیہ، قوت جاذبہ کا۔ اسی سے وجود میں آئی ہے ساری کائنات، پائے ہیں سب نے ضرورتیں رفع کرنے کے لئے مناسب اعضاء، مہیا ہو گیا ہے ہر ایک کے لئے سامان غذاء جس سے اس کی زندگی کی بقا ہے۔ اسی لئے اسے رحیم و کریم اور رازق کہا جاتا ہے وہ ہرگز کسی جزو کا کل نہیں ہے۔ نہیں تو درجہ میں اجزاء کے بعد ہوتا بلکہ جزو و کل ہر ایک کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ بے ہمتا ہے۔ اس لئے واحد کہتے ہیں۔ ورنہ واحد بھی نہیں، وہ احد یعنی اکیلا ہے جو شمار میں نہیں آتا۔ گنتی میں نہیں سماتا۔ وہ پاک و ہپاکیزہ جسم سے منزہ ہے جس کو فنا نہیں، تغیر نہیں، تبدل نہیں، اس کی قدرت کے کرشمے صریحاً آنکھ سے دیکھ رہے ہیں پھر بھی وہ خود غائب ہے۔
وہ سب پر حاوی، ہر شے میں دخیل ہے، اس لئے حاضر کہہ سکتے ہیں۔ صحن عالم میں مخلوق کا اژدہام دیکھا۔ خلا کو خلقت سے مملو پایا، خلاق تسلیم کر لیا۔
کائنات کے ذرہ ذرہ میں حکمت سے عادل مانا۔ قادر، حاضر، دانا، خلاق اور عادل سب عقل سے تسلیم کیا۔ پھر بھی عقل بتلاتی ہے کہ اس کی ذات، نری کھری ذات ہی ہے۔ صفات اس سے الگ نہیں۔
عقل کی سمجھی کامل ذات کو لفظوں سے سمجھانے بیٹھے تو یہ اور ان کے سوا اور بہت صفتیں بن گئیں۔ سب صفتیں حقیقت کے اعتبار سے ٹھیک ہیں کیونکہ کمال کے بہت سے پہلوؤں کو الفاظ میں ادا کرنے والی ہیں۔ مگر حاشا ان کے ظاہری مفہوم کے لحاظ سے انہیں صفت نہ سمجھو۔ صفت تو وہی ہے جو ذات سے الگ ہو۔
خالق میں ذات اور صفات کا تفرقہ کہاں۔ اس کی لامحدود، کامل ذات کی تعبیر نے ہجوم صفات کی شکل اختیا رکی۔
جب قادر اور حکیم ہے تو مہربانی کے موقع پر رحیم، سختی کے محل پر قہار بھی ضرور ہے۔ مہربانی کے نتیجہ میں ستار اور غفار بھی، رزاق بھی ہے۔ دانا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ سننے کی چیز ہو یا دیکھنے کی۔ اس لحاظ سے سمیع و بصیر ہے۔ کلام کا خالق ہے۔ اس لئے متکلم ہے یہ سب باتیں لفظ نہیں، معنی ہیں جو عقل نے سوچے اور ان کے لئے قریب تر الفاظ مقرر کئے ہیں۔
لفظوں کے ظاہری معنی پر جا کر اعتراض ہی کرنا چاہو تو قادر، حاضر، دانا، خلاق اور عادل بھی نہ کہو کیونکہ یہ سب مفہوم کے اعتبار سے صف ہیں اور اس کی ذات صفات سے بری۔ لیکن اگر حقیقت طلبی چاہتے ہو اور نیک نیتی کے ساتھ سمجھنے سمجھانے کے لئے ان الفاظ کا استعمال کرتے ہو تو معنی پر غور کرو اس کمال کے نتیجہ کو دیکھو جو صفت میں مضمر ہے۔ اس نقص پر نہ جاؤ جو اس کے ظاہری مفہوم میں مضمر ہے۔ رحیم کہو اس اعتبار سے کہ اس سے اچھے اچھے فائدے خلق کو حاصل ہوتے ہیں۔ جذبات کا خیال ہرگز دل میں نہ لاؤ۔ قہار کہو اس لحاظ سے کہ عدالت کے تقاضا سے بہت سوں پر اس کی جانب سے سختی بھی ہوتی ہے۔ غصہ اور غضب کی انفعالی کیفیت کا توہم نہ کرو۔
سننے دیکھنے کے معنی فقط یہ سمجھو کہ دیکھنے سننے کی چیزیں اس کے علم میں ہیں اعضاء کا دھیان نہ لاؤ۔ متکلم بھی اس لحاظ سے ہے کہ کلام کو جہاں چاہے پیدا کرتا ہے مگر کام و دہان کا تصور ذہن سے دور رکھو کیونکہ وہ جسم سے مبرا ہے۔ انسانوں کی طرح بولنا سننا اس کی شان سے دور ہے۔ حضرت موسیٰ جس کلام کو سنتے تھے وہ بھی اللہ کا مخلوق ہے۔ اور قرٓن بھی اس کا پیدا کیا ہوا ایک کلام ہے۔ دانائی کے لحاظ سے ہر بات کو سنتا دیکھتا ہے۔ قوی کے مقابل میں ضعیف کو پامال ہوتے بھی دیکھتا ہے۔ اور اپنی حکمت و عدالت سے اس کی پاداش مقرر کرتا ہے۔ اس کے بندے جو اس کے ناظر ہونے کے دل سے قائل ہیں۔ ہرگز دیدہ و دانستہ بدافعالیوں کی جسارت نہیں کرتے۔ بداعمالیوں کی جرات مطلق نہیں ہوتی۔
قیامت کا اعتقاد، عدالت کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب بے دیکھے خدا کو عقل سے پہچانا اور اس کو عادل عقل سے مانا تو قیامت کا بھی عقل کے کہنے سے اقرار کیا۔
سوچا سمجھا جانا پہچانا مرکز ہے اس لئے عقل کو اس کے گرد چکر ضرور ہے۔
وہم کی وسوسہ انگیزیاں ہیں جن سے ایک را زکی بے شمار تاویلیں۔ ایک واقعہ کی کثرت سے داستانیں، ایک مزل کے بے حد راستے، ایک نشان کے صدہا نام، ایک نور کی لاانتہا صورتیں ہو گئیں۔
اس معنی سے کہ وہ کسی کے مانند نہیں کہو کہ خدا کوئی شے نہیں بے شک صحیح ہے۔ خدا کوئی چیز نہیں لاریب درست ہے۔ مگر خدا نہیں ہے، بخدا یہ غلط ہے۔
کیا خدائی کے ہوتے بھی خدا نہیں ہے، خلقت کے ہوتے بھی خالق نہیں ہے صنعت کو دیکھتے بھی صانع نہیں ہے۔ موجودات کے ہوتے بھی اس کا وجود نہ مانو گے۔ پھر کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہم کسی علیحدہ وجود کے مقر نہیں۔ عقل کی تسلی کے لئے دنیا کو غور سے دیکھو!
اس کا وجود علیحدہ یعنی مستقل ہے۔ اس کی شہادت کائنا ت کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے، اس کی تصدیق بدن کا رویاں رویاں کر رہا ہے۔ اس کی گواہی عناصر اربعہ کی ترتیب دے رہی ہے۔ مخلوق کے اعضاء کی ترکیب دے رہی ہے۔ موالید ثلاثہ کی تخلیق دے رہی ہے۔ قدرت کو فطرت کی صورتوں میں دیکھو۔ خالق کا نشان خلقت کی شکلوں سے پہچانو، وہی ہے کمال بخش عقل، وہی ہے سراسر عدل، اس کی قدرت آشکار ہے ذرہ ذرہ میں، موالید ثلاثہ میں، مجموعہ عناصر میں۔ حواس خمسہ میں، سات طبق زمین، نہ افلاک میں، اس کا جلوہ ہے، آفتاب کی ضیاء، ذرہ کی ضو میں، وہی ہے پیدا کرنے والا کشش کا مرکز میں، وہی ہے خزانہ دار عقل کا۔ وہی ہے قوت کا ماخذ، وہی ہے روح کا موجد، اسی کی کشش ہے دل میں، اسی سے عقل ہے دماغ میں، اسی سے قوت ہے اعضاء میں، اسی سے روح ہے بدن میں، اسی سے کائنات کی ہر شے، شے ہے اور ہر ایک میں ایک حد کا کمال ہے۔ وہ عرش سے بالا، جان سے نزدیک ہے۔ وہ قریب سے قریب تر، دور سے دور تر ہے۔
دور کیوں جاؤ، ،خود کو دیکھو خدا کو پہچانو، آپ میں ہو تو آپ میں دیکھو، کاوش تحقیق اپنے ہی میں خدا کا نشان پا رہی ہے۔ اپنے ہی جسم کے اعضاء کی ترتیب پر غور کرنے سے خدا سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ عقل، منشا، ارادہ، صناعی، دانائی، سب خداوندی قدرت کے پرتو ہیں۔ جو تمہارے روئیں روئیں جوڑ پٹھے سے معلوم ہو رہے ہیں۔ کائنات کی ہر شے قدرت کا نشان ہے۔ مگر وہ خود کسی شے میں نہیں ہے۔ کسی جگہ پر نہیں ہے۔ کسی خلوت، جلوت، کشمکش، ہنگامے۔ چہل پہل، گہماگہمی، ہجوم، جمگھٹے، انبوہ، جرگے، گروہ، جماعت، اژدہام، غول، جم غفیر میں اس کی ہستی شامل نہیں۔
وید، بھاگوت، اور پرن، توریت، انجیل، زبور اور فرقان سب اس کے ثناخواں ہیں۔ دیر و حرم میں اس کی یاد، دین اور دھرم میں اس کے گیان ہیں، عرب میں رب، عجم میں خدا، انڈیا میں پریمشر، یورپ میں گاڈ، اس کے مختلف نام اور نشان ہیں۔ صبح کی نوبت، شام کا نقارہ، موذن کی اذان، سنکھ کی آواز، ناقوس کی صدا، گرجا کا گھڑیال سب اس کی عظمت کے اعلان ہیں جن میں کچھ دلوں کے بنائے اور کوئی اس کا فرمان ہے۔
کائنات کی لامحدود وسعت میں ڈھونڈھو، اس کا دیدار کہیں نصیب نہیں، افلاک کی بلندی اور طبقات الارض کی پستی سے اسے یکساں نسبت ہے۔ قطبین کا قیام، زمین و آسماں کی گردش، مہر و ماہ کاطلوع و غروب، عروج و زوال فضائے بسیط کے ستارے اور سیارے، دریا کی روانی، موجوں کی اچھل کود۔ ہوا کے جھونکے، پانی کے تھپیڑے، صحرا کی ویرانی، دشت کا سناٹا۔ بہار کی تازگی، خزاں کی اداسی، سمندر کے شور، پہاڑوں کی خاموشی سے پوچھو۔ سب اس کا کلمہ پڑھتے ہیں، سننے والا کان چاہئے، بجلی کی لپک، سورج کی چمک میں دیکھو۔ سب میں اسکی قدرت کا نور ہے۔ دیکھنے والی آنکھ چاہئے۔
آفتاب دوردراز فاصلہ سے چمکتا ہوا سنہری گولہ ہے۔ ظاہر میں روشنی کا مخرج، باطن میں حرارت کا مخزن۔ حقیقت میں ثوابت اور سیاروں کی کشش کا مرکز ہے۔
ہم نے نظام عالم میں اسی کو کارفرما پایا جو کچھ پایا اسی کی گرمی سے، جو کچھ دیکھا اسی کی روشنی سے۔ خلقت بھر سے فائق پایا۔ اپنا خالق، موجودات کا اخلاق کائنات کا آفرید گار ماننا چاہا مگر عقل نے بتایا کہ جو نکلتا ڈوبتا رہے جو ظاہر ہوتا چھپتا رہے۔ وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ سامنے آ جانے سے پردہ فاش ہو گیا۔ وہ بات وہ شان، وہ عظمت تشریف لے گئی۔ صانع کی صنعت، خالق کی خلقت ہو گیا۔ یہ خودآرا نہیں، خود آیا نہیں، خدا کیونکر ہو سکتا ہے۔
اس کی درخشانی کے سبب اس کے جسم کے اجزاء ہیں، اجزا کو کیمیائی ترکیب دینے والے قدرت کے اسباب ہیں۔
محیط عالم، قدرت کا معائنہ، لامحدود کائنات کا مشاہدہ بے شمار موجودات کی ترتیب کا سلیقہ ایک دانشمند ہستی کے وجود کا یقین دلا رہا ہے۔ مگر مشاہدہ اس تک پہنچتا نہیں۔ تصور کوئی صورت بناتا نہیں، خیال پیش نہیں کرتا، حواس خمسہ سے محسوس نہیں ہوتا۔ ایتھر سے باہر، عاصر سے بالاتر ہے، دکھانے کو اشارہ، بتانے کو لفظیں نایاب ہیں۔
البتہ عقل کی نکتہ رسی پر صد ہزار آفریں۔ جس نے مخلوق سے الگ کرکے اسے بتا دیا کہ قادر ہے، حاضر ہے، دانا ہے، خلاق اور عادل ہے، اور کامل بلکہ سراسر کمال ہے۔ اور اسی کے ماتحت وہ سب کچھ ہے جسے عقل کمال کے تحت میں داخل کرے بشرطیکہ اس میں نقص کا شائبہ بھی نہ ہو۔
عقل رکھتے ہوئے اگر مان لو تو تعجب نہیں مگر نہ مانو تو سخت تعجب ہے جبکہ عالم کے ذرہ ذرہ میں اس کی قدرت کا جلوہ نمایاں ہے۔