• ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7114 / ڈاؤنلوڈ: 2438
سائز سائز سائز
مذھب و عقل

مذھب و عقل

مؤلف:
اردو

خدا

مذہب حق اور عقل دونوں متحد ہیں اس لئے مذہبی اور عقلی خدا الگ الگ نہیں ہے۔

وہ واحد ہے لاشریک ہے، تمام اوصاف حمیدہ سے متصف ہے۔ مَاعَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرفتکَ اس کے سب سے زیادہ پہچاننے والے کی آواز ہے۔ لامکان ہے، قاب قوسین اَواَدنیٰ اس سے تقرب کا ایک مجازی نشان ہے۔ کوہ طور کی تجلی اس کی قدرت کی ایک ادنیٰ شان ہے۔ سب کو دیکھتا ہر ایک کی سنتا ہے اس معنی سے کہ اس کی دانائی ہر شے کو عام ہے۔ الفاظ اس کے مخلوق ہیں یہی اس کا کلام ہے۔ جبرئیل اور موسیٰ سے انہی معنی میں ہم کلام ہے۔ قیامت کے روز پوچھ گچھ اس کے حکم سے ہو گی۔ صحائف فرقان، توریت، انجیل، زبور، سب اس کے مخلوق کلام ہیں۔

انسان اپنے خالق کی جستجو میں سرگردان ہے لیکن اس کا وہم و ادراک تخلیق عناصر اور ایتھر کی پیچیدگیوں میں الجھ کر فضائے لامحدود سے آگے نہیں بڑھتا مگر عقل قدم آگے بڑھاتی ہے نظام ہستی کو دیکھ کر یقین کرتی ہے کہ یہ عظیم الشان کارخانہ کسی دانشمند نے سوچ سمجھ کر عمداً بنایا ہے۔ جس صنعت کا کوئی صانع نظر نہ آئے۔ جس قوت کا باعث کوئی دکھائی نہ دے۔ جس دانائی کا کوئی دانشمند معلوم نہ ہو سکے اس کے لئے خواہ مخواہ کوئی مجاز نہیں ہو سکتا کہ جو چاہے سمجھ لے بے شک عقل کا کام غور کرنا ہے اور اسی کو اپنے یقین کی بنا پر مافوق الادراک میں دخل در معقولات کا حق ہے۔

خدا دکھائی نہیں دیتا۔ جان یا روح بھی نظر نہیں آتی۔ جسم سامنے ہے اور متحرک ہے۔ جسم بغیر کی قوت کے متحرک نہیں ہو سکتا، اس کے اندر کوئی قوت ضرور ہے جو متحرک کر رہی ہے اور دکھائی نہیں دیتی۔ یہ سچ ہے کہ قوت جسم نہیں رکھتی مگر بغیر جسم کے ثابت بھی نہیں ہو سکتی اس لئے وہ جسم کے ساتھ شامل اور پیوستہ خود نمایاں ہوتی ہے۔ ہم نے اس کا نام قوت نامیہ رکھ لیا مگر چونکہ وہ خود جسم کے وجود کی محتاج ہے اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ قوت متحرکہ نے جسم کی بنیاد ڈالی ہے۔

عقل نے مزید کاوش کی تو کائنات کے ذرے ذرے میں ایک اور مقدم تر کیفیت محسوس کی جو ذی حیاتوں میں قوت مقناطیسی اور ذی روحوں میں جذبات یا فطرت کی حیثیت سے وابستہ پائی گئی، یعنی اجسام میں کشش اور نر و مادہ کے درمیان خواہش بن کر نمودار ہے۔ یہی دو جسموں کو ملا کر تیسرا جسم اور قوت نامیہ پیدا کر رہی ہے اور اس میں خلاقی طاقت مضمر نظر آتی ہے۔ یہی ابتدائی اور بنیادی قوت نظام ہستی کی بانی معلوم ہوتی ہے۔ ہم نے اس کا نام قوت جاذبہ رکھ لیا۔ ان سب آثار کے مخزن اور مرکز کو ہر جسم میں جان کہنے لگے یہ جسم و جان باہم آمیختہ ایک دوسرے کے ساختہ پرواختہ پائے گئے۔ اگر ہم جان کو جسم سے بے نیاز پاتے تو شاید جان کو خدا مان لیتے مگر ہم جسم و جان کو شامل اور پیوستہ مخلوق پاتے ہیں اس لئے ہماری عقل ان کو خدا ماننے پر تیار نہیں ہوتی اور جسم و جان کے پیدا کرنے والے کو خدا مانا ہے۔

اسی طرح ظاہربظاہر آفتاب کی حرارت، ایتھر کی کاوشیں، عناصر کی جدوجہد، فضائے لامحدود میں ہر قسم کی خلقت بناتی رہتی ہے۔ اس کی طرف بھی تخلیق کی نسبت کا دھوکا ہوتا ہے۔

مگر ظاہر ہے کہ عناصر کے دماغ نہیں جو سوچیں، عقل نہیں جو دانائی ظہور میں آئے اور کائنات کی ہر شے کی ساخت میں سوچی سمجھی، دانائی پائی جاتی ہے۔ وہ سلیقہ شعار جس کی کارسازیاں، پتھر، عناصر، موالید ثلاثہ سے ظاہر ہیں دکھائی نہیں دیتا مگر ضرور وہ ان سبے سے بالاتر ہے اس لئے ہم نے ان سے مقدم اور بالاتر قوت اول و اعلیٰ کو اپنا رب یا خالق مان لیا ہے۔ واضح ہو گیا کہ خدا انسان کی ذہنی تخلیق نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ثابت ہے جس کو ذہن نے اس کے آثار اور مخلوقات کو دیکھ کر معلوم کیا ہے اور اسی کو نظام ہستی کا بانی قرار دیا ہے۔

عقل و مذہب کے معلومات میں سب سے زیادہ مہتم بالشان وجود خداوندی ہے۔ ذہن انسانی نے اب تک خداشناسی میں ہرچند کدوکاوش کی مگر مسلمانوں کے وحدہ لاشریک سے بہتر اوصاف نہ بتلا سکا۔ جس کی ذات، اصل حقیقت کو سمجھنا ناممکن ہے لیکن صنعت مانع کو دکھا رہی ہے۔ خلقت خالق کو بتا رہی ہے۔ سلیقہ دانشمندیاں پیش کر رہا ہے۔ پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ قدرت دیکھیں قادر نہ کہیں، صاعی دیکھیں دانائی نہ مانیں۔ مخلوق کے ہوتے بھی خالق نہ مانا جائے۔

عقل کے پتلوں نے صحن عالم میں مخلوق کی تصویریں چلتی پھرتی دیکھیں۔ افلاک کو حکمت سے رفیع، کائنات کو قدرت سے وسیع۔ موجودات کو فطرت سے موضوع، خلاکوخلقت سے مملو پایا۔ خالق کو تسلیم کر لیا۔ غور سے دیکھا تو اپنے گردوپیش کی تمام مخلوق میں آفتاب کو کارفرما۔ عناصر کو جلوہ آرا پایا۔ زمانے بھر میں اسی کی گرما گرمی پائی۔ فضائے فلکی میں آل آفتاب کو گھومتے پھرتے ستاروں کو جگمگاتے، سیاروں کو چکر کھاتے دیکھا۔ اجسام میں کشش، کشش میں رابطہ، اجرام میں گردش، گردش میں ضابطہ نظر آیا، مگر سب کو قاعدہ کا پابند، فطرت کا تابع، قانون قدرت کا مطیع دیکھا۔ سطح ارضی پر ہوا کو حاوی، پانی کو جاری، نباتات میں نمو، جمادات کو قائم، حیوانات کو متحرک پایا، ان کی بقا کے لئے ہوا میں روح، پانی میں زندگی، نباتات میں غذا پائی، سب کے پیکروں میں اعضا کا تناسب، ہر شے ضروری اجزاء سے مرکب، ہر جسم مناسب اعضا سے مرتب، ہر چیز موزونیت سے سجی سجائی پائی، ان کی خلقت میں منشاء، نوعیت میں ارادہ، صنعت میں سلیقہ، صناعی میں دانائی نظر آئی، کثرت مشاہدہ نے دماغ کو ایسا گھیرا کہ عقل سے نہیں کے بجائے ہاں کہنا پڑا۔ لاکھ موجودات کے مشاہدہ نے دکھایا، بتایا، سمجھایا، ہزار ذہن رسا کی جدت، طبع کی جودت، واہمہ کی قوت، خیال کی وسعت، تصور کی رفعت، فکر کی نزاکت سے کام لیا، مگر دل و دماغ کی قوتیں، مصور قدرت کا ہیولیٰ قائم نہ کر سکیں۔ نظام عالم قائم رکھنے والی تمام قوتوں کو مخلوق پایا۔ وہم نے سب قوتوں کے مجموعہ کو واحد قدرت قرار دینا چاہا مگر عقل نے زبان روکی۔

مجموعہ کا درجہ اجزاء کے وجود کے بعد ہے پھر جب سب قوتیں مخلوق ہیں تو مجموعہ ان کا ضرور بالضرور مخلوق ہوا، مجبوراً ماننا پڑا کہ خالق وہ ہے جو ان سب قوتوں سے بالاتر ہے اور اس نظام سے الگ موجود ہے۔

وہ خالق ہے مجموعہ عناصر خاک و باد، آب، آتش کا۔ صانع ہے موالید ثلاثہ حیوانات، نباتات، جمادات کا، موجد ہے جان، قوت نامیہ، قوت جاذبہ کا۔ اسی سے وجود میں آئی ہے ساری کائنات، پائے ہیں سب نے ضرورتیں رفع کرنے کے لئے مناسب اعضاء، مہیا ہو گیا ہے ہر ایک کے لئے سامان غذاء جس سے اس کی زندگی کی بقا ہے۔ اسی لئے اسے رحیم و کریم اور رازق کہا جاتا ہے وہ ہرگز کسی جزو کا کل نہیں ہے۔ نہیں تو درجہ میں اجزاء کے بعد ہوتا بلکہ جزو و کل ہر ایک کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ بے ہمتا ہے۔ اس لئے واحد کہتے ہیں۔ ورنہ واحد بھی نہیں، وہ احد یعنی اکیلا ہے جو شمار میں نہیں آتا۔ گنتی میں نہیں سماتا۔ وہ پاک و ہپاکیزہ جسم سے منزہ ہے جس کو فنا نہیں، تغیر نہیں، تبدل نہیں، اس کی قدرت کے کرشمے صریحاً آنکھ سے دیکھ رہے ہیں پھر بھی وہ خود غائب ہے۔

وہ سب پر حاوی، ہر شے میں دخیل ہے، اس لئے حاضر کہہ سکتے ہیں۔ صحن عالم میں مخلوق کا اژدہام دیکھا۔ خلا کو خلقت سے مملو پایا، خلاق تسلیم کر لیا۔

کائنات کے ذرہ ذرہ میں حکمت سے عادل مانا۔ قادر، حاضر، دانا، خلاق اور عادل سب عقل سے تسلیم کیا۔ پھر بھی عقل بتلاتی ہے کہ اس کی ذات، نری کھری ذات ہی ہے۔ صفات اس سے الگ نہیں۔

عقل کی سمجھی کامل ذات کو لفظوں سے سمجھانے بیٹھے تو یہ اور ان کے سوا اور بہت صفتیں بن گئیں۔ سب صفتیں حقیقت کے اعتبار سے ٹھیک ہیں کیونکہ کمال کے بہت سے پہلوؤں کو الفاظ میں ادا کرنے والی ہیں۔ مگر حاشا ان کے ظاہری مفہوم کے لحاظ سے انہیں صفت نہ سمجھو۔ صفت تو وہی ہے جو ذات سے الگ ہو۔

خالق میں ذات اور صفات کا تفرقہ کہاں۔ اس کی لامحدود، کامل ذات کی تعبیر نے ہجوم صفات کی شکل اختیا رکی۔

جب قادر اور حکیم ہے تو مہربانی کے موقع پر رحیم، سختی کے محل پر قہار بھی ضرور ہے۔ مہربانی کے نتیجہ میں ستار اور غفار بھی، رزاق بھی ہے۔ دانا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ سننے کی چیز ہو یا دیکھنے کی۔ اس لحاظ سے سمیع و بصیر ہے۔ کلام کا خالق ہے۔ اس لئے متکلم ہے یہ سب باتیں لفظ نہیں، معنی ہیں جو عقل نے سوچے اور ان کے لئے قریب تر الفاظ مقرر کئے ہیں۔

لفظوں کے ظاہری معنی پر جا کر اعتراض ہی کرنا چاہو تو قادر، حاضر، دانا، خلاق اور عادل بھی نہ کہو کیونکہ یہ سب مفہوم کے اعتبار سے صف ہیں اور اس کی ذات صفات سے بری۔ لیکن اگر حقیقت طلبی چاہتے ہو اور نیک نیتی کے ساتھ سمجھنے سمجھانے کے لئے ان الفاظ کا استعمال کرتے ہو تو معنی پر غور کرو اس کمال کے نتیجہ کو دیکھو جو صفت میں مضمر ہے۔ اس نقص پر نہ جاؤ جو اس کے ظاہری مفہوم میں مضمر ہے۔ رحیم کہو اس اعتبار سے کہ اس سے اچھے اچھے فائدے خلق کو حاصل ہوتے ہیں۔ جذبات کا خیال ہرگز دل میں نہ لاؤ۔ قہار کہو اس لحاظ سے کہ عدالت کے تقاضا سے بہت سوں پر اس کی جانب سے سختی بھی ہوتی ہے۔ غصہ اور غضب کی انفعالی کیفیت کا توہم نہ کرو۔

سننے دیکھنے کے معنی فقط یہ سمجھو کہ دیکھنے سننے کی چیزیں اس کے علم میں ہیں اعضاء کا دھیان نہ لاؤ۔ متکلم بھی اس لحاظ سے ہے کہ کلام کو جہاں چاہے پیدا کرتا ہے مگر کام و دہان کا تصور ذہن سے دور رکھو کیونکہ وہ جسم سے مبرا ہے۔ انسانوں کی طرح بولنا سننا اس کی شان سے دور ہے۔ حضرت موسیٰ جس کلام کو سنتے تھے وہ بھی اللہ کا مخلوق ہے۔ اور قرٓن بھی اس کا پیدا کیا ہوا ایک کلام ہے۔ دانائی کے لحاظ سے ہر بات کو سنتا دیکھتا ہے۔ قوی کے مقابل میں ضعیف کو پامال ہوتے بھی دیکھتا ہے۔ اور اپنی حکمت و عدالت سے اس کی پاداش مقرر کرتا ہے۔ اس کے بندے جو اس کے ناظر ہونے کے دل سے قائل ہیں۔ ہرگز دیدہ و دانستہ بدافعالیوں کی جسارت نہیں کرتے۔ بداعمالیوں کی جرات مطلق نہیں ہوتی۔

قیامت کا اعتقاد، عدالت کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب بے دیکھے خدا کو عقل سے پہچانا اور اس کو عادل عقل سے مانا تو قیامت کا بھی عقل کے کہنے سے اقرار کیا۔

سوچا سمجھا جانا پہچانا مرکز ہے اس لئے عقل کو اس کے گرد چکر ضرور ہے۔

وہم کی وسوسہ انگیزیاں ہیں جن سے ایک را زکی بے شمار تاویلیں۔ ایک واقعہ کی کثرت سے داستانیں، ایک مزل کے بے حد راستے، ایک نشان کے صدہا نام، ایک نور کی لاانتہا صورتیں ہو گئیں۔

اس معنی سے کہ وہ کسی کے مانند نہیں کہو کہ خدا کوئی شے نہیں بے شک صحیح ہے۔ خدا کوئی چیز نہیں لاریب درست ہے۔ مگر خدا نہیں ہے، بخدا یہ غلط ہے۔

کیا خدائی کے ہوتے بھی خدا نہیں ہے، خلقت کے ہوتے بھی خالق نہیں ہے صنعت کو دیکھتے بھی صانع نہیں ہے۔ موجودات کے ہوتے بھی اس کا وجود نہ مانو گے۔ پھر کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہم کسی علیحدہ وجود کے مقر نہیں۔ عقل کی تسلی کے لئے دنیا کو غور سے دیکھو!

اس کا وجود علیحدہ یعنی مستقل ہے۔ اس کی شہادت کائنا ت کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے، اس کی تصدیق بدن کا رویاں رویاں کر رہا ہے۔ اس کی گواہی عناصر اربعہ کی ترتیب دے رہی ہے۔ مخلوق کے اعضاء کی ترکیب دے رہی ہے۔ موالید ثلاثہ کی تخلیق دے رہی ہے۔ قدرت کو فطرت کی صورتوں میں دیکھو۔ خالق کا نشان خلقت کی شکلوں سے پہچانو، وہی ہے کمال بخش عقل، وہی ہے سراسر عدل، اس کی قدرت آشکار ہے ذرہ ذرہ میں، موالید ثلاثہ میں، مجموعہ عناصر میں۔ حواس خمسہ میں، سات طبق زمین، نہ افلاک میں، اس کا جلوہ ہے، آفتاب کی ضیاء، ذرہ کی ضو میں، وہی ہے پیدا کرنے والا کشش کا مرکز میں، وہی ہے خزانہ دار عقل کا۔ وہی ہے قوت کا ماخذ، وہی ہے روح کا موجد، اسی کی کشش ہے دل میں، اسی سے عقل ہے دماغ میں، اسی سے قوت ہے اعضاء میں، اسی سے روح ہے بدن میں، اسی سے کائنات کی ہر شے، شے ہے اور ہر ایک میں ایک حد کا کمال ہے۔ وہ عرش سے بالا، جان سے نزدیک ہے۔ وہ قریب سے قریب تر، دور سے دور تر ہے۔

دور کیوں جاؤ، ،خود کو دیکھو خدا کو پہچانو، آپ میں ہو تو آپ میں دیکھو، کاوش تحقیق اپنے ہی میں خدا کا نشان پا رہی ہے۔ اپنے ہی جسم کے اعضاء کی ترتیب پر غور کرنے سے خدا سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ عقل، منشا، ارادہ، صناعی، دانائی، سب خداوندی قدرت کے پرتو ہیں۔ جو تمہارے روئیں روئیں جوڑ پٹھے سے معلوم ہو رہے ہیں۔ کائنات کی ہر شے قدرت کا نشان ہے۔ مگر وہ خود کسی شے میں نہیں ہے۔ کسی جگہ پر نہیں ہے۔ کسی خلوت، جلوت، کشمکش، ہنگامے۔ چہل پہل، گہماگہمی، ہجوم، جمگھٹے، انبوہ، جرگے، گروہ، جماعت، اژدہام، غول، جم غفیر میں اس کی ہستی شامل نہیں۔

وید، بھاگوت، اور پرن، توریت، انجیل، زبور اور فرقان سب اس کے ثناخواں ہیں۔ دیر و حرم میں اس کی یاد، دین اور دھرم میں اس کے گیان ہیں، عرب میں رب، عجم میں خدا، انڈیا میں پریمشر، یورپ میں گاڈ، اس کے مختلف نام اور نشان ہیں۔ صبح کی نوبت، شام کا نقارہ، موذن کی اذان، سنکھ کی آواز، ناقوس کی صدا، گرجا کا گھڑیال سب اس کی عظمت کے اعلان ہیں جن میں کچھ دلوں کے بنائے اور کوئی اس کا فرمان ہے۔

کائنات کی لامحدود وسعت میں ڈھونڈھو، اس کا دیدار کہیں نصیب نہیں، افلاک کی بلندی اور طبقات الارض کی پستی سے اسے یکساں نسبت ہے۔ قطبین کا قیام، زمین و آسماں کی گردش، مہر و ماہ کاطلوع و غروب، عروج و زوال فضائے بسیط کے ستارے اور سیارے، دریا کی روانی، موجوں کی اچھل کود۔ ہوا کے جھونکے، پانی کے تھپیڑے، صحرا کی ویرانی، دشت کا سناٹا۔ بہار کی تازگی، خزاں کی اداسی، سمندر کے شور، پہاڑوں کی خاموشی سے پوچھو۔ سب اس کا کلمہ پڑھتے ہیں، سننے والا کان چاہئے، بجلی کی لپک، سورج کی چمک میں دیکھو۔ سب میں اسکی قدرت کا نور ہے۔ دیکھنے والی آنکھ چاہئے۔

آفتاب دوردراز فاصلہ سے چمکتا ہوا سنہری گولہ ہے۔ ظاہر میں روشنی کا مخرج، باطن میں حرارت کا مخزن۔ حقیقت میں ثوابت اور سیاروں کی کشش کا مرکز ہے۔

ہم نے نظام عالم میں اسی کو کارفرما پایا جو کچھ پایا اسی کی گرمی سے، جو کچھ دیکھا اسی کی روشنی سے۔ خلقت بھر سے فائق پایا۔ اپنا خالق، موجودات کا اخلاق کائنات کا آفرید گار ماننا چاہا مگر عقل نے بتایا کہ جو نکلتا ڈوبتا رہے جو ظاہر ہوتا چھپتا رہے۔ وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ سامنے آ جانے سے پردہ فاش ہو گیا۔ وہ بات وہ شان، وہ عظمت تشریف لے گئی۔ صانع کی صنعت، خالق کی خلقت ہو گیا۔ یہ خودآرا نہیں، خود آیا نہیں، خدا کیونکر ہو سکتا ہے۔

اس کی درخشانی کے سبب اس کے جسم کے اجزاء ہیں، اجزا کو کیمیائی ترکیب دینے والے قدرت کے اسباب ہیں۔

محیط عالم، قدرت کا معائنہ، لامحدود کائنات کا مشاہدہ بے شمار موجودات کی ترتیب کا سلیقہ ایک دانشمند ہستی کے وجود کا یقین دلا رہا ہے۔ مگر مشاہدہ اس تک پہنچتا نہیں۔ تصور کوئی صورت بناتا نہیں، خیال پیش نہیں کرتا، حواس خمسہ سے محسوس نہیں ہوتا۔ ایتھر سے باہر، عاصر سے بالاتر ہے، دکھانے کو اشارہ، بتانے کو لفظیں نایاب ہیں۔

البتہ عقل کی نکتہ رسی پر صد ہزار آفریں۔ جس نے مخلوق سے الگ کرکے اسے بتا دیا کہ قادر ہے، حاضر ہے، دانا ہے، خلاق اور عادل ہے، اور کامل بلکہ سراسر کمال ہے۔ اور اسی کے ماتحت وہ سب کچھ ہے جسے عقل کمال کے تحت میں داخل کرے بشرطیکہ اس میں نقص کا شائبہ بھی نہ ہو۔

عقل رکھتے ہوئے اگر مان لو تو تعجب نہیں مگر نہ مانو تو سخت تعجب ہے جبکہ عالم کے ذرہ ذرہ میں اس کی قدرت کا جلوہ نمایاں ہے۔

رسول

رسول بھی مذ ہبی وہی ہے جو کہ عقلی ہے۔ تفرقہ کرنا اپنی عقل کی کوتاہی ہے۔

نبی اور رسول اصطلاحی لفظیں۔

لغت کے اعتبار سے مجاز، اصطلاح کے لحاظ سے حقیقت ہیں۔

نبی کے معنی خبر دینے والا، یعنی ان حقیقتوں کا بتلانے والا جو عام نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ پیشین گوئی اور غیب کی خبر دینی، اس کی حقیقت کاجزو نہیں ہے بلکہ نبی کی تصدیق کے لئے بطور اعجاز ایک خارجی صفت ہے۔ رسول کے معنی فرستادہ، خدا کا پیغام پہنچانے والے ہیں۔ مگر معنی کی حقیقت میں محل کے اختلاف سے تبدیلی ہوتی ہے۔ بھیجنے کا تعلق کسی مادی ہستی کے ساتھ ہو تو وہ بھیجنا بھی مادی ہو گا یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا لازم ہو گا لیکن جب غیرمادی ذات یا غیرمادی چیز کے ساتھ اس کا تعلق ہو تو بھیجنے والے کا مقام۔ قیام اور جسم کچھ بھی درکار نہیں۔ اس کے معنی ہیں صرف یہ کہ خدا کی مرضی اور حکم کی بناء پر کوئی اصلاح خلق اور دنیا کو سچائی کی تعلیمات پہنچانے کا ذمہ دار ہو۔

وہ ظاہر و باطن ہر طرح انسان ہوتے ہیں مگر عامہ بشر سے مافوق۔ مافوق البشر نہیں بلکہ بلند مرتبہ والے بشر۔ نور سے خلقت کا ہونا ایک مجازی تعبیر ہے صفائے نفس اور کمال عقل کی۔

فضائل اور مناقب کی حدیثیں جو محمد و آل محمد کے لئے وارد ہوئی ہیں انہیں رسالت و نبوت کے عمومی عقائد میں داخل کرنا ہرگز درست نہیں، نبیوں کی فہرست طولانی ہے۔ سب کے لئے کس نے کہا ہے اور کب کہ تمام مخلوق و ملائکہ سے پہلے خلق کئے گئے ہیں یا خدا نے اپنے ہی نور سے خلق فرمایا ہے۔ یاان ہی کی خاطر سب چیزوں کو خلق کیا ہے۔ یا یہاں سے سننے سمجھنے، دیکھنے رہنے آسمان پر جایا کرتے ہیں۔

خداوند عالم کی خصوصی تعلیم جو انبیاء تک پہنچتی ہے اسی کا نام وحی ہے۔ بیشک بعض انبیاء کو کتاب بھی عطا ہوئی۔

روحانی حیثیت کے سفیر کا پیام و سلام پہنچانا بھی عقل کے نزدیک لائق انکار نہیں ہے۔ کارخانہ قدرت کو بے شک بخوبی دیکھا بھالا، غور کیا اور سمجھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو معرفت ان کی ناقص ہوتی۔ دوسروں کی تکمیل و تربیت کس طرح کرتے اکثر رموز الٰہی سے واقب بھی کئے جاتے ہیں مگر دونوں جہان کا مالک سوائے اللہ کے کوئی نہیں، سب طرح کی قوت سوائے اس کے کسی کو نہیں۔ وہ جتنے اختیارات جس کو دیدے۔ جتنی قوت جس کو عطا کر دے اتنی اس کو ہے۔ اسی قوت سے انبیاء کام لیتے ہیں۔ اس قوت کا درجہ بھی مصلحت اور ضرورت کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ کی مرضی پر ہے۔ نظام عالم کبھی ٹوٹتا نہیں۔ مگر عام معمول اور ظاہری دستور کا انتظام کبھی کبھی ان کے ہاتھوں خدا توڑ بھی دیتا ہے۔ دنیا میں ہر زمانہ میں بہت سے واقعات عام دستور کے خلاف ہوتے رہتے ہیں اور نظام عادت اکثر ٹوٹتا رہتا ہے۔ مگر یہی خلاف دستور و عادت امر جب نبی کے دعوے کے مطابق، اس کے قول کے ثبوت میں ہو جاتا ہے تو معجزہ کہلاتا ہے۔ وفات پانے کے بعد مادی زندگی انبیاء کے لئے بھی ثابت نہیں، ہاں روح جتنی کامل ہو اس کے ادراکات اتنے قوی اور کامل ہوں گے۔ ان معنوں سے ان کو روحانی زندگی حاصل ہے۔ اور ان کا ذریعہ خدا کی بارگاہ میں کارآمد ہے۔

فطرت الٰہی سے نہیں بلکہ اکثر نقائص مادی سے اپنے عقلی و روحانی کمال کی بدولت بری ہیں۔ گناہوں سے بالکل معصوم، غلطی سے بے شک بری ہیں۔ نہیں تو ان کا قول و فعل تمام خلق کے لئے سند نہیں ہو سکتا۔

یہ ہیں انبیاء کے عمومی صفات، اس کے علاوہ بہت باتیں خاص خاص انبیاء کے مناقب کی ہیں۔ جو منقول طور پر بتائی گئی ہیں اور عقل ان کے انکار کا کوئی خاص سبب نہیں پاتی۔

سختی کے وقت ملائکہ کا مدد کو آنا۔ قیامت میں بخشوانا۔ شفیع روز محشر۔ خاتم المرسلین اور اشرف الانبیاء حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خصوصی اوصاف و مناقب ہیں۔

محال (عقلی) کا ممکن بنانا ہرگز کسی نبی و رسول کا کام نہیں۔ بلکہ محالات سے تو خدا کی قدرت بھی متعلق نہیں ہوتی۔

آنحضرت عملی طور سے اصلاحِ خلق کا کام اور رسالت کے فرائض ابتدائے عمر سے انجام دے رہے تھے۔ جب چالیس برس تک اپنے عقلی اور عملی کمال کو قوم سے منوا لیا تو آواز غیبی سے زبانی دعوائے رسالت پر مامور ہوئے۔

واہمہ خلاق اس کا ہوتا ہے جس کی عقل ناقص ہو اور مالیخولیا یا خبط میں مبتلا ہو لیکن وہ انسان جس کے کمال عقل کی گواہی واقعات، حالات اور اس کے حکیمانہ تعلیمات نے دے دی ہو وہ اس خبط میں کبھی مبتلا نہیں ہو سکتا۔ وہ آواز سنے گا تو حقیقت ہو گی۔ خواہ وہ صدا فلک کی ہو یا ملک کی بہرحال اصلیت رکھے گی۔

بشر ہونے میں آپ کے کوئی شک نہیں۔

آپ خود فرماتے تھے کہانا بشرمثلکم ۔ اگر بشر نہ ہوتے تو عالم بشری کے لئے نمونہ کیسے بنتے مگر بشر ایسے تھے جو کمال بشری کا نمونہ بن سکے۔ ذاتی طور پر غیب دان کوئی رسول نہیں تھا۔ مگر خداوندی تعلیم ہے۔ آپ نے غیب کی خبریں ضرور دیں۔ پارہ ۲۱ سورہ روم آیت۔ ۱ ۔

۲۸ ۔ مقام پر قرآن میں موجود ہے کہ آپ کو معجزہ عطا ہوا۔

وحی ذہنی تصور کا نام نہیں ہوتا۔ ورنہ ہر مالیخولیائی اور خبطی وحی کا مرکز سمجھا جائے بلکہ وحی نام ہے خداوندی پیغام کا خواہ بذریعہ ملک ہو یا صدائے غیب سے،

خدا دکھائی نہیں دے سکتا اس لئے سورہ والنجم میں بھی جبرئیل ہی مراد ہو سکتے ہیں۔

صدائے غیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی جسم میں پیدا ہو اس لئے اللہ جب چاہے جہاں چاہے اسے خلق کر سکتا ہے۔

نبی کی ضرورت اس وقت ہوئی جب شریعت محدود مدت تک کے ضروریات کو پیش نظر رکھ کر جاری کی گئی ہوئی لیکن جب نوع انسانی کی تعلیم کا نصاب آخری درجہ تک پہنچا۔ تو شریعت ایسی بھیجی گئی جس کے قواعد و ضوابط سے ہر زمانہ کے ضروریات میں رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسی شریعت کے پہنچا دینے کے بعد کسی پیغام لانے والے معلم کی ضرورت باقی نہیں رہی اور جس کے ہاتھوں یہ کامل شریعت آئی وہ آخری پیغمبر ہوا۔

یہ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔ افراد کے عمل نہ کرنے اور منحرف ہونے سے اور اس طرح خلق کے گمراہ ہونے سے شریعت و رسول کی ضرورت پیدا نہیں ہوا کرتی۔ ورنہ بہت سے انبیاء وہ تھے جن کے زمانہ میں فیصدی ۹۹ آدمی گمراہ تھے اور ایک آدمی راہ راست پر تھا۔ خود آنحضرت کے زمانہ میں اوراس کے بعد کسی وقت میں ایسا نہیں ہوا کہ حق پرستوں کی تعداد گمراہوں سے بڑھ جائے۔ پھر اس سبب سے اگر آج کسی رسول کی ضرورت پیدا ہو تو اس کے بہت پہلے یہ ضرورت پیدا ہو چکی اور خود آنحضرت کی موجودگی میں اور رسول کی بعثت ہونا چاہئے تھی۔

معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی بعثت کا یہ سبب نہیں ہوتا بلکہ یہ سبب ہوتا ہے کہ گزشتہ شریعت کے تعلیمات جتنی مدت کے حالات کے لحاظ سے بھیجے گئے تھے وہ میعاد ختم ہو گئی اس لئے دوسرا رسول بھیجا جاتا ہے۔ اب اگر کسی رسول کے تعلیمات کو بغیر کسی مقررہ میعاد کے ہمیشہ کے لئے جاری کیا گیا ہو تو اس کے بعد کسی رسول کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ ہر دین اپنے اپنے وقت کے مصالح کے لحاظ سے کامل ضرور تھا مگر بلااستثناء کامل دین وہی ہے جس کے بعد دوسرے دین کی ضرورت باقی نہ رہے۔ پارہ ۶ سورہ مائدہ آیت ۴ میں پیغمبر کو مخاطب کرکے نہیں کہا گیا ہے کہ تمہارا دین کامل ہوا یا تم پر نعمتیں تمام کی گئیں بلکہ نوع بشر کو مخاطب کرکے یہ ارشاد ہوا ہے کہ اس لئے سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ دین کامل ہوا ہے تو آنحضرت کا۔ نعمتیں تمام کی گئی ہیں تو آنحضرت پر، بلکہ دین کامل ہوا تو تمام خلق کا اور نعمتیں تمام ہوئیں تو نوع بشر پر اس لئے نہ اس دین کے بعد کوئی دین، اور نہ اس نعمت سے مکمل تر اس کے بعد کوئی نعمت۔ یہی ایک نعمت تا ابد تمام دنیا کے لئے ہے اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ دنیا تاابد نعمتوں سے محروم ہو گئی۔

پارہ ۸ سورہ اعراف آیت ۳۵ ۔

یابنی اٰدم امّا یأتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیاتی کا یہ ترجمہ بالکل غلط ہے کہ ”اے اولاد آدم(ع) تمہارے پاس تمہارے ہی ہم جنس رسول ضرور آئیں گے جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائیں گے“۔

آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اولاد آدم(ع)، اگر آئیں تمہارے پاس تمہارے ہم جنس رسول جو میری آیتیں پڑھ کر سنائیں تو جو شخص پرہیزگاری اختیار کرے او راپنے اعمال کی اصلاح کرے تو وہ محزون نہ ہو گا۔

اس میں ایک عام اصول کا اعلان کیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا رسول جو آیا ہے اس پر اگر ایمان لاؤ گے تو نجات پاؤ گے لیکن اب اس کے بعد کوئی رسول آنے والا ہے یا نہیں، اس کا یہاں پر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ بلکہ دوسری آیت میں بتلا دیا ہے کہ اس رسول کے بعد کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں۔

اب اس آیت کی برکت سے نہ مرزا غلام احمد صاحب کا رسول بنایا جانا درست ہے۔ نہ آئندہ اس آیت کے رو سے لوگ رسول بن سکتے ہیں۔ اس کے انسداد کے لئے قرآن کا فرمان کہ (ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبین) اور یہ اعلان کہ (اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی )کافی ہے۔

اشرف الانبیاء

ہمارے رسول حضرت خاتم النبین کثرت فضائل و خصوصیات کے لحاظ سے تمام انبیاء میں اشرف و بہتر ہیں۔ گزشتہ انبیاء میں حضرت عیسیٰ(ع) سب سے آخر میں تھے۔ جن کی ماننے والی ایک بڑی امت موجود ہے ان کی فضلیت کے متعلق حسب ذیل خصوصیات کا توہم ہوتا ہے مگر وہ توہم صحیح نہیں ہے۔

( ۱) عیسیٰ روح اللہ ہیں۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ خدا کی جان و روح ہیں۔

بلکہ ان کی روح کو مقام شرف میں اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے یہ حضرت عیسیٰ سے کیا مخصوص ہے بلکہ سلسلہ انبیاء میں جو سب سے پہلے فرد تھے حضرت آدم، جو اولوالعزم بھی نہیں ہیں ان کے متعلق کہا ہے۔ فاذانفخت فیہ من روحی۔

اس کے برخلاف ہمارے حضرت کا خود روح ہونا کیسا آپ امنزل روح تھے جیسا کہ ارشاد ہوا۔ ولقد ارسلنا الیک روحامن امرنا۔

اور دوسری جگہ:تنزل الملائکة والروح ۔

( ۲) حضرت عیسیٰ(ع) بے باپ کے پیدا ہوئے مگر حضرت آدم تو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے یہ سبب فضلیت نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم(ع) سب کے نزدیک افضل ہیں مگر وہ بھی ماں باپ دونوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کو ذاتی شرافت سے کوئی تعلق نہیں ۔

( ۳) عیسیٰ(ع) کی والدہ صدیقہ ہیں اور انہیں خدا نے پاک فرمایا اور تمام جہان کی عورتوں سے بڑھ کر برگزیدہ کیا مگر اس سے زیادہ خصوصیات ہمارے رسول کو حاصل ہے کہ حضرت کی دختر صدیقہ، مطہرہ، اور مریم سے زیادہ علم و طہارت کی حامل ہے اور سیدة نساء العالمین ہے۔ یہ خصوصیت عیسیٰ(ع) کو ہرگز حاصل نہیں ہے۔

( ۴) حضرت عیسیٰ(ع) کا صرف بطن مادر سے پیدا ہونے کے بعد نبوت کا دعویٰ تھا اور ہمارے رسول نے فرمایا کہ میں عالم ارواح میں خصوصیات نبوت کا حامل تھا۔ کنت نبّیا و اٰدم بین المآ ء والطین۔

( ۵) اٰتانی الکتاب کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ عیسیٰ(ع) کی ولادت کے ساتھ کتاب دنیا میں آ گئی تھی بلکہ اس سے مطلب صرف اتنا ہے کہ مجھ کو اس نے کتاب عطا فرمانے کے لئے منتخب کیا ہے۔ یہی صورت ہمارے پیغمبر کے لئے ہے۔

عیسیٰ(ع) کی کتاب بطور اعجاز نہیں دی گئی تھی مگر ہمارے رسول کی کتاب کو معجزہ قرار دیا گیا۔

( ۶) عیسیٰ(ع) کو پیدا ہوتے ہی کلام کی ضرورت اس لئے آئی کہ ان کی ماں کے دامن پر ایک بڑا شرمناک دھبا آ رہا تھا۔ ہمارے رسول کے یہاں خدانخواستہ ایسے کسی الزام کی گنجائش نہ تھی۔

( ۷) ہر نبی کو معجزہ اس کے اہل زمانہ کے لحاظ سے عطا ہوتا ہے جس چیز میں کمال کا اس زمانہ والوں کو ادعا ہو۔

عیسیٰ(ع) کو معجزے عطا ہوئے تھے جسمانی اس لحاظ سے کہ اس زمانہ میں فن طب کا زور تھا مگر ہمارے رسول کے زمانہ میں فصاحت و بلاغت اور کلام و بیان کا دور دورہ تھا اس لئے ان کو معجزہ اس طرح کا عطا ہوا۔

عیسیٰ(ع) کے معجزات فانی تھے مگر ہمارے رسول کا معجزہ باقی ہے۔ اور ہر زمانہ میں رسول کی سچائی ثابت کرنے کو کافی ہے۔

( ۸) یہ بالکل غلط ہے کہ آنحضرت کو معجزے نہیں دیئے گئے آپکو بھی معجزات عطا ہوئے جن کے متعلق آیات قرآنی کا حوالہ آئندہ آئے گا۔

( ۹) مصائب اٹھانا خاصان خدا کا شیوہ ہے مگر حضرت عیسیٰ(ع) کو سولی سے بچانے کا سبب یہ تھا کہ موسوی جماعت میں یہ بات مقرر تھی کہ جو سولی پر چڑھایا جائے گا وہ ملعون ہو گا، حضرت عیسیٰ(ع) کو سولی سے بچایا گیا تاکہ ان کی روحانی عظمت پر حرف نہ آئے یونہی حضرت رسول کی سچائی کے اظہار کے موقع پر چونکہ قرآن میں ارشاد ہوا تھا کہ لو تقوّل علینا بعض الا قاویل لاخذنامنہ بالیمین ثم لقطعنامنہ الوتین اس لئے آنحضرت کو خود شہادت ظاہری نہیں عطا ہوئی اور آپ کو قتل سے محفوظ رکھا گیا اور شب ہجرت قتل سے آپ کی حفاظت ہوئی جس طرح عیسیٰ(ع) کی حفاظت سولی پر چڑھنے سے کی گئی۔

( ۱۰) حضرت عیسیٰ(ع) کی یہ خصوصیت کہ اہل کتاب میں سے کوئی نہ بچے گا مگر یہ کہ مرنے سے پہلے عیسیٰ(ع) پر ضرور ایمان لائے گا۔ اس سے بہتر خصوصیت ہمارے رسول کے لئے ہے کہ آخر میں آپ کا دین سب پر غالب آئے گا (لیظھرہ علی الدین کلہ) اور آپ کے اتباع خلافت فی الارض کے مالک ہوں گے۔

(وعداللّٰه الذین امنوامنکم وعملوالصالحات لیستخلفتهم فی الارض )

( ۱۱) عیسیٰ(ع) کے متعلق ارشاد ہوا۔ اتینا عیسی بن مریم البینات وایدناہ بروح القدس تو ہمارے رسول کے لئے بھی ارشاد ہوا۔ وقداتیناک من لدنا ذکرا اورآپ کے اتباع کی امداد کثیرالتعداد۔ ملائکہ سے ہوئی (وایده بجنودلم تروها )۔ (ولقد نصرکم اللّٰه ببد روانتم اذلة)

( ۱۲) حضرت عیسیٰ(ع) آسمان پر گئے اور ہمارے پیغمبر منزل قاب قوسین و ادنیٰ پر تشریف لے گئے۔

( ۱۳) عیسیٰ(ع) ابھی تک زندہ ہیں تو یہ خصوصیت ہمارے رسول کے بارھویں جانشین حضرت مہدی موعود(ع) کو عطا ہوئی کہ انہیں اب تک حیات حاصل ہے۔

( ۱۴) حضرت عیسیٰ(ع) کے پیروؤں کو غالب رکھنے کا وعدہ ہوا اور ہمارے پیغمبر کے دین کے غالب رہنے اور آپ کی جماعت کے بلند رہنے اور بلاشرکت غیرے اللہ کی عبادت اطیمنان سے کرتے رہنے کا صاف وعدہ ہوا۔

( ۱۵) معجزات تمام انبیاء کو وقتی دیئے گئے۔ اسی میں عیسیٰ(ع) بھی داخل ہیں اور ہمارے پیغمبر کو معجزہ دائمی عطا ہوا۔ یہ خصوصیت کسی نبی کو حاصل نہیں ہے۔

روایتی اور تاریخی واقعات

( ۱۶) حضرت عیسیٰ(ع) باوجودیکہ تبلیغ میں گھومتے پھرتے رہے مگر آپ پر ایمان لانے والے صرف چند نفر ماہی گیر تھے مگر حضرت رسول پر ایمان لانے والے آپ کی زندگی میں ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچے۔

( ۱۷) حضرت عیسیٰ(ع) کو اتنا اقتدار کبھی حاصل ہی نہ ہوا کہ ملک و مال حاصل ہوتا اور حضرت محمد مصطفی نے اس اقتدار کے باوجود فقیرانہ شان سے زندگی بسر کی۔

( ۱۸) عیسیٰ(ع) کو اتنی قوت نہیں حاصل ہوئی کہ وہ تلوار اٹھاتے پھر بھی انہوں نے اپنے ساتھ والوں کو تلوار رکھنے کی تاکید کی۔ آنحضرت نے باوجود قوت شمشیرزنی اور جنگ کرنے کے پھر بھی رحم و کرم کی وہ مثالیں پیش کیں جو انسانیت کے لئے سبق آموز ہیں۔

( ۱۹) حضرت عیسیٰ(ع) عورتوں سے علیحدہ رہے اور شادی نہیں کی، اس طرح ان کی زندگی خلق خدا کے لئے مثال بننے سے قاصر رہی مگر ہمارے رسول نے تعلقات دنیا قائم رکھنے کے ساتھ پھر بھی روحانی فرائض کو مکمل طور پر انجام دیا اس طرح تعمیر انسانیت کی مثال پیش کی۔

( ۲۰) حضرت عیسیٰ(ع) کے معجزے جو مفاد عامہ کے تھے وہ خاص خاص افراد سے متعلق ہوتے تھے اور جسمانی بیماریوں سے متعلق تھے اور ہمارے رسول کا معجزہ قرآن جو مفاد عامہ کے لئے ہے وہ تمام خلق کے واسطے ہے اور انسانیت و روحانیت کے کمال کا ذریعہ ہے۔

مذکورہ وجوہ سے اشرف الانبیاء ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی ثابت ہوتے ہیں۔