• ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6518 / ڈاؤنلوڈ: 1685
سائز سائز سائز
مذھب و عقل

مذھب و عقل

مؤلف:
اردو

کتاب

بے شک تخمیناً ۲۵ کروڑ زندہ مسلمان مقر ہیں کہ قرآن کلام اللہ ہے کتاب خود بھی اسے بتا رہی ہے۔ مگر کلام اللہ کے یہ معنی سمجھنا بالکل غلط ہے کہ وہ اس کے زبان و دہن سے نکلا ہوا ہے۔ وہ تو جسم و جسمانیات سے بری ہے پہلے بھی کہا جا چکا اور پھر سنئے اور سمجھئے کہ کلام اللہ کے معنی ہیں خدا کا اپنے ارادہ خاص سے خلق کیا ہوا کلام خواہ کسی درخت میں یا فضا میں یا فرشتے کی زبان پر یا رسول کے قلب و دماغ میں۔ اسی کا نام کلام اللہ ہے۔ یہ کہنا کہ ”بنی امیہ نے اپنے دور حکومت میں بانی اسلام کے ارشادات کو قریش کی فصیح تر زبان میں اپنے طریق پر مرتب کیا ہے۔“ ہرگز صحیح نہیں ہے۔ اس میں بس اتنا جزو درست ہے کہ اس کتاب (قرآن) کے اجزاء (سوروں) کی ترتیب بنی امیہ کے پہلے حکمران خلیفہ ثالث عثمان بن عفان نے اپنے زمانہ میں دلوائی ہے۔ مگر الفاظ قرآن اور متن آیات میں بنی امیہ کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ وہ قریش کی فصیح ترین زبان میں آیا تو رسول کے دل و زبان ہی پر آیا۔ ان ہی الفاظ کا مجموعہ آیاتِ قرآن کی صورت میں محفوظ تھا جسے پہلے خلیفہ اول ابوبکر ابن ابی قحافہ نے سوروں کی شکل میں ترتیب دلایا۔ پھر خلیفہ ثالث عثمان نے اپنے وقت میں سوروں کو مرتب کرکے کتاب کی شکل میں پھیلایا۔

آئین فطرت اور قانون قدرت کے خلاف کوئی بات کلام الٰہی میں نہیں ہو سکتی۔ یہ معقول مگر آئینِ فطرت اور قانونِ قدرت سے مراد ہمارے محدود مشاہدات اور مختصر تجربات ہرگز نہیں ہو سکتے۔

ہزاروں مثالیں ایسی ہم نے دیکھی اور سنی ہیں جو ہمارے عام مشاہدوں کے خلاف ہیں۔

پھر ہم کسی ایسی بات کو جو صرف ہمارے تجربہ و مشاہدہ کی دنیا سے باہر ہو آئین فطرت اور قانون قدرت کے خلاف کیسے سمجھ سکتے ہیں۔

خالق خود ہی ہمارے حدود و مشاہدہ سے بالاتر ہے تو اس کی طرف روحانی بات چیت کو ہم مادی لباس پہنائیں ہی کیوں جو ہمیں سمجھنے میں دشواری ہو۔ معاہدہ ہے اور گفتگو جس میں ایک فریق ہے خالق اور دوسرا فریق مادہ سے بے نیاز روحیں تو یہاں کی گفتگو کو کانوں سے سنی جانے والی گفتگو سمجھنا عقل و دانش کا ثبوت نہیں ہے۔ وہ صلاحیتوں اور ارواح کے روحانی جوہروں کی زبان تھی جو خالق کی ربوبیت کی اقراری تھی۔ اب مادہ کی کثافتوں میں گرفتار رہ کر کتنے ہیں جو اس معاہدہ و اقرار سے دور ہو جاتے ہیں اور اسے فراموش کرتے ہیں یعنی اپنی روحانی صلاحیتوں کو دبا کر خدا سے الگ ہو جاتے اور اس طرح اپنی روح کے معاہدہ کو بھول جاتے ہیں۔

کچھ وہ ہیں جو مادی طاقتوں کو مغلوب رکھتے ہوئے اپنی روحانیت کی زندگی کو برقرار رکھتے خالق اور اس کی طرف کے متعلقہ فرائض کا احساس رکھتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے اس معاہدہ کو یاد رکھا ہے اور اسے ہرگز فراموش نہیں کیا ہے۔

اب بتائیے کہ اس میں آئین فطرت اور قانون قدرت کے خلاف کیا بات ہے۔ اسی طرح انسان کی خلافت عیسیٰ(ع) کی ولادت، اصحاب کہف کی نیند، یوسف(ع) کا حسن، سلیمان(ع) کی قدرت، نوح(ع) کا طول حیات، خضر(ع) کی عمر جاودانی، جانوروں کی بات چیت، موسیٰ(ع) سے تکلم،ان تمام باتوں میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے خلاف کوئی عقلی دلیل قائم ہو زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ وہ غیرمعمولی بات ہے جو عام طور سے نہیں ہوا کرتی۔

مگر ایسی غیرمعمولی باتیں دنیا میں مختلف اسباب کی بناء پر ہوتی ہی رہتی ہیں کون کہہ سکتا تھا کہ آدمی ہوا پر اڑیں گے۔ یہ گزشتہ ہزاروں صدیوں میں کسی نے نہیں دیکھا تھا مگر یہ آئین فطرت اور قانون قدرت کے خلاف تھا؟ اگر ایسا تھا تو آج یہ کیسے وجود میں آ گیا۔ کس کے مشاہدہ میں آیا تھا کہ ہزاروں میل کی آواز اپنی جگہ پر بیٹھ کر سن لی جائے مگر پھر بھی یہ قانون فطرت اور آئین قدرت کے خلاف نہ تھا نہیں تو آج آنکھوں کے سامنے نہ آتا۔

یہی صورت معجزات انبی(ع)ء کی ہوتی ہے وہ عام مشاہدات سے باہر ضرور ہوتے ہیں مگر عقل کے خلاف نہیں ہوتے اس لئے انہیں قانونِ فطرت یا آئین قدرت کے خلاف نہیں سمجھنا چاہئے۔

مٹی سے بنائے پتلے کو ملائکہ سے سجدہ کرانا اس منصب کی اہمیت دکھلانے کے لئے جس کے واسطے یہ خاکی نژاد انسان مقرر ہوا ہے نہ قانون قدرت کے خلاف ہے نہ آئین فطرت کے منافی۔

کتاب سے مراد وہ الفاظ قرآنی ہیں جو قلمبند ہونے پر بصورت کتاب مرتب ہوتے ہیں اس کے لئے خدا و رسول کے لئے کتابت ثابت ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

امت کے لئے چار نکاح عدالت کی شرط کے ساتھ اور وہ بڑی دشوار۔ پیغمبر کی آزمائش کو سخت رکھا گیا۔ متعدد ازواج کی موجودگی میں نہ کسی کے حقوق میں کوتاہی نہ دوسرے فرائض میں فروگزاشت۔

یہ معمولی انسانوں کا کام نہیں ہو سکتا۔

نافرمانی پر آدمیوں کی شکل میں تبدیلی ہونا۔ مردوں کا قدرت نمائی کے موقع پر زندہ کرنا۔ یہ سب وہ غیرمعمولی مظاہرات ہیں جو کسی دلیل عقلی سے غیرممکن الوقوع نہیں ہیں۔

یہ کس نے کہا کہ قہر الٰہی سے جو بستیاں اجاڑی گئیں ان میں معصوم بچے موجود تھے اور وہ بھی اسی عذاب سے ہلاک ہوئے۔

بلکہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ عذاب کے بہت پہلے سے اولاد کا سلسلہ قطع کر دیا جاتا تھا۔

کلام اللہ کے معنی کئی دفعہ دہرائے جا چکے اللہ کا خصوصی پیدا کیا ہوا کلام خواہ جسم میں ہو یا جان میں، یہی وہ ہے جو خدا کی طرف منسوب ہوتا ہے۔

وہ سب کا رب ہے اور ہر ایک قوم کو نوازتا رہا ہے۔ سب سے آخر عرب کو نوازا کیونکہ ان میں قومی عصبیت سب سے زیادہ تھی۔ کسی اور پر کلام اترتا تو وہ مانتے نہیں ان کی اصلاح کے لئے اس کی ضرورت تھی کہ کلام ان میں اتارا جائے ان کی زبان میں ہو۔ زبانیں سب اپنی اپنی قوم کی ایجاد ہیں۔ اگر خدا ان سب کو چھوڑ کر کسی نئی زبان میں اتارتا۔ تب تو پھر کوئی بھی نہ سمجھتا۔ اسی لئے عرب میں جو سب سے فصیح زبان تھی حجاز کا لہجہ اور قریش کا محاورہ اس کو منتخب کیا۔ یہ خدا کی نہیں۔ ہماری محتاجی ہے کہ ہماری زبان میں ہو تو ہم سمجھیں۔ اسے دنیا کے موجودہ نظام سے کام نکالنا منظور تھا ضرورت کیا تھی کہ وہ زبان میں توڑپھوڑ، دماغ انسانی میں تصرف کرے۔ وہ قادر ہر ممکن بات پر ہے۔ مگر ممکن ہر شے جو قدرت کا نتیجہ ہو حکمت کے مطابق تو نہیں ہوتی۔

یہ غلط ہے کہ جو چیز قدرت کی طرف سے ہے وہ بلاامتیاز خاص و عام، بلاتفریق ادنیٰ و اعلیٰ بلاتخصیص انبیاء و اوصیا، بلااستثنائے شخصے سب کے لئے برابر ہے۔

عقل، قوت طاقت، بلکہ خط و خال، قدوقامت، شکل شمائل سب قدرت کی طرف سے ہیں مگر برابر نہیں ہیں۔

مناظر قدرت، چاند کی چاندنی، آفتاب کی دھوپ، فضا میں آواز زبان پر ذائقہ، زہر کا اثر، اشیاء کی تاثیر، تکلیف و راحت کا احساس، تناسل کا قانون، تخلیق کے قاعدے، موت کے اسباب مختلف حالات کے لحاظ سے جداگانہ ہیں۔

خالق کے عطیے حواس خمسہ، قوت ناطقہ، جسم، روح، عناصر سب کے لئے ہیں مگر پھر بھی مختلف طبائع و اشخاص میں مختلف ہیں۔ قدرت کے تحفے ہوا پانی، گرمی، سردی، برسات، دن، رات، چاند، سورج، تارے، زمین آسمان، سیارے سب کے لئے ہیں مگر خواص اور حالات الگ الگ ہیں قدرت کے عظیم الشان کارخانہ میں صلاحیتوں کے لحاظ سے تقسیم اور تفریق قائم ہے۔

بے شک اللہ کی جانب سے مذہب سب کا ایک ہے مگر مستفید ہونے میں اپنے عقل و عمل کی طاقتوں کے اختلاف سے تفرقہ ہے۔

خدا نے کتاب دی سب کو ایک مگر سمجھنے میں دماغ و ذہن کی قوتوں کی تبدیلی سے امتیاز ہے۔

قدرت کے عطیے قوتوں کے بڑھنے کے ساتھ ترقی کرتے ہیں کوئی ضرورت نہیں کہ ایک ہی کتاب ابتدائے خلقت سے دی جائے۔ وہ دلچسپ و دلنشیں ہے مگر اکثر میں سمجھنے کا قصور ہے۔

ہدایت خدا کی طرف سے ہے مگر اس سے اثر لینا ارادہ و اختیار کے ساتھ وابستہ ہے۔ بے شک، اختیار کی طاقتیں داخل فطرت ہیں مگر خود اختیار ہی میں دونوں پہلوؤں کی گنجائش ہے۔ مذہبی اصول میں ہرگز تبدیلی نہیں ہوتی۔ نہ وہ قابل ترمیم میں ہیں۔ یہ شریعت کے آئین ہوتے ہیں جن میں حالات کے لحاظ سے تبدیلی و ترمیم ہوتی ہے۔

خدا خود سب بندوں کی یکساں سمجھ میں کب آیا جو اس کی کتاب سب بندگان الٰہی کی سمجھ میں یکساں آئی اور سب کو یکساں سمجھاتا۔ اصول میں تمام ہادی متفق القول ہیں۔ لیکن احکام ممنوعات، میراثی ترتیب، تعزیری قوانین، مالی حقوق میں زمانہ کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے جو حکیمانہ نگاہ کا تقاضا ہے۔

ہدایت انسان کے لئے ہرگز غیرارادی و اختیاری افعال کی طرح نہیں ہے جو خودبخود سرزد ہوں بلکہ انسان کے حسن کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جزا و سزا بیکار ہوتی۔ تعریف و مذمت کا استحقاق نہ ہوتا۔

جس متحیر عقل کو قدرت کی لامحدود کائنات، خلقت کے اژدہام، ستاروں کے جمگھٹے، سیاروں کے انبوہ میں محض ایک معمولی ستارہ دنیا، اور دنیا کی بے شمار مخلوق میں سے ایک ضعیف البیان انسان اور پیکر انسانی کے منجملہ تمام اعضاء کے آنکھ کی پتلی کے چھوٹے سے تل کی حقیقت اور اس کے رموز و اسرار معلوم نہ ہوں یا جو آنکھ کرہ ارضی کے تین حصوں کو گھیرے ہوئے پانی کے ایک قطرہ میں ایک سو بیس طرح کی خلقت کے نظارہ سے لاکھوں برس محروم رہی ہو اور اب جدید سائنس کے آلات سے احساس کر سکی ہو، یا جس کی نظریں عالم کے نظام اور اجسام کی کشش میں ڈانوال ڈول رہی ہوں کبھی زمین کو مرکز مانیں اور کبھی سورج کو یا جو عناصر کے اعتدال اور ذرات کے امتزاج کے کیمیاوی طریقہ کو نہ سمجھ سکی ہوں اس لئے باوجود اجزاء کو سمجھ لینے کے پھر بھی علیحدہ اجزاء کو اس طرح ترکیب دینے پر قادر نہ ہوں یا جس کو غوروفکر میں سینکڑوں سنسان خاموش راتیں جاگ کر کاٹنے کی ضرورت پڑی ہو پھر بھی نقطہ حقیقت دور ہی رہا ہو یا جسے تبادلہ خیال میں صدہا دماغوں سے مشورہ اور بیسیوں کتابوں سے سبق لینا پڑا ہو۔ پھر بھی آخر میں وہ یہی سمجھا ہو کہ ہمارے مجہولات کی دنیا معلومات سے زیادہ ہے یا جس کی غلطیوں اور خامیوں کا یہ عالم ہو کہ ایک ایک صفحہ لکھنے کے لئے ورق کے ورق سیاہ کرکے پھر چاک کر ڈالے ہوں اس کے متعلق کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ عالم کائنات کے اسرار و رموز کو بالکل سمجھ سکتا ہے یا اپنے محسوسات و مشاہدات کو معیار حقیقت سمجھ سکتا ہے۔

پھر جب کہ ہر انکشاف کا کاشف اور صنعت کا موجد اپنے اپنے وقت میں ایک ہوا ہے پھر دوسروں نے اس کی پیروی کی تو یہ باور کرنے میں کیا حیرت ہے کہ کسی وقت میں یہ محیط عالم قدرت کسی ایک کامل انسان سے رازداری رکھتی ہو بات کرنے والی نہ سہی، وہ کلام کی خالق ہے اسی لحاظ سے وہ اپنے ارادہ کے مطابق جو بات ہو اسے پہنچاتی اور اپنے منشاء کو پورا کرتی ہے۔

عقل ہرگز مشاہدہ اور دستور کی پابند نہیں ہوتی۔ وہ دلیل کے پیچھے چلتی اور حجت کی تلاش کرتی ہے جب تک کسی شے کے غیرممکن ہونے پر دلیل نہ قائم ہو وہ اسے امکان کے دائرہ میں برقرار رکھتی ہے۔

عقل اسی معیار پر مضامین مندرجہ قرآن کو جانچتی ہے اور ہر ایک کی صحت کا اقرار کرتی ہے۔ وہ نہ عیسیٰ(ع) کی تخلیق کو بعید از حقیقت سمجھتی۔ نہ نوح(ع) کے طول حیات کو خلاف فطرت جانتی۔ نہ یوسف(ع) کے حسن۔ موسیٰ(ع) کے یدبیضا۔ اصحاب کہف کی نیند، خضر(ع) کی عمر جاودانی کو لایعنی قصہ کہانی کہتی ہے۔ یہ سب باتیں مادیت میں گھرے ہوئے اوہام کی ہیں جو محسوسات کے شکنجے میں اسیر ہو کر اپنے عقلی جوہر کو کھو بیٹھتے ہیں۔ عقل ان کی باتوں سے فریادی ہے اور سب سے زیادہ اس بات پر چراغ پا ہے کہ یہ اپنے من گھڑت محدود تخیلات کو عقل کے نام سے پیش کرتے اور عقل کو بدنام کرتے ہیں۔ جھوٹے کے آگے سچا رو مرے مثل اصل ہے مجبوراً عقل ”جواب جاہلاں“ پر اکتفا کرتی ہے اور خاموشی اختیار کرتی ہے۔

جس طرح انسانوں میں باہم فرق ہے، مقامی تاثیر، ماحول کے اثر سے، کالا گورا رنگ، اچھی شکل، بری صورت، چھوٹے بڑے قد قوی اور ضعیف اعضا وغیرہ، مختلف اسباب کے ماتحت ہیں یوں ہی انسانی ذہنیت دماغ اور اس کے ادراکات میں فرق ہو جاتا ہے۔ مادیت کی فضا میں رہنے سہنے بسنے اور سانس لینے والے اشخاص میں زیادہ تر مافوق الطبیعت ادراکات سے قاصر رہتے ہیں، یہ ان کی عقل کا نہیں ماحول کا قصور ہے جو عقل کو کام نہیں کرنے دیتا۔ مگر وہ اس کا احساس نہیں کرتے وہ کہہ دیتے ہیں قدرت نے ہر شخص کے دماغ میں عقل ودیعت فرمائی ہے اس لئے عقل سے سمجھا ہے تو سمجھا دیجئے۔

بے شک سمجھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ سمجھنے کا ارادہ بھی ہو نہیں تو اگر ”میں نہ سمجھوں تو بھلا کوئی سمجھائے مجھے“ پر عمل ہوا تو تمام کوششیں بے سود ہیں۔ نہ انبیاء و مرسلین(ع) کے نصائح فائدہ مند، نہ قرآن کی ہدایت کارآمد، نہ خداوندی مذہب سمجھانے میں کامیاب ہے یہ سب باتیں اپنے ہاتھوں، سب کوتاہیاں اپنے گنوں سے ہیں۔ ذاتی افعال کا نتیجہ ہیں قدرت کو اس سے کیا سروکار۔ اس کی کتاب سب کے سمجھنے کے لائق اور مذہب سب کے ماننے کے قابل ہے۔

اس کے یہاں مساوات ہے۔ وہ عادل ہے۔ اس کے گھر انصاف ہے۔ وہ سب کے لئے یکساں، اس کے نزدیک سب برابر ہیں۔

روح

حیوان کی جان کو روح کہتے ہیں مگر وہ ہے کیا؟ اس کی حقیقت لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے اس لئے جاننا چاہئے کہ امر رب ہے۔

انسانی روح اس کے ساتھ بہت سے خصائص ادراک کی حامل ہے اور جسمانی خواص سے الگ ہے اس لئے اس کے ماننے میں کیا عذر ہے کہ وہ وجود جسم سے ماقبل ہے اور مرنے کے بعد بھی ناپید نہیں ہوتی۔ جب کہ اس کے خواس جسم سے الگ ہیں جسم کی ناتوانی کے باوجود وہ توانا اور جسم کی توانائی کے باوجود وہ ناتوان ہوتی ہے۔ جسم کے مرض کی حالت میں وہ صحیح اور جسم کی صحت کی حالت میں وہ اکثر مریض ہوتی ہے۔ پھر اگر جسم کی فنا کے ساتھ وہ باقی رہے تو اس میں عقل کو کیا گنجائش انکار ہے۔ فضا میں اس کی سیرکرنا۔ جسم سے پھر ملحق ہونا۔ وادی السلام یا وادی برہوت میں قیام ہونا، یہ باتیں مذہبی روایات میں وارد ہیں۔ جو کسی عقلی اصول کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن دوسرے جسموں میں حلول کرنا، سر پر آنا، شیطان بننا، ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوا کرنا۔

بھوت پریت، برم راکس، اگیابیتال، شہید مرد، نٹ بن جانا، درختوں میں عمارتوں میں ٹھکانا بنا لینا۔ بازاری باتیں ہیں جن کی مذہب پر ذمہ داری نہیں۔ شریر آدمی اس دنیا میں ہیں شیطان ہیں۔ بعد مردن ان کے شیطان بننے کی کوئی اصلیت نہیں دوسرے جسموں میں حلول کرنا آریوں کا آواگون ہے اس کو مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔

اسباب و سامان خانہ داری سے مستفید ہونے کے معنی صرف اتنے صحیح ہیں کہ اگر کسی غریب کو اس کے ذریعہ سے امداد پہنچائی گئی تو اس کا نیک صلہ قدرت کی طرف سے دینے والے کی نیت کے لحاظ سے میت کی روح کو حاصل ہو سکتا ہے جو اخروی نعمتوں کے لباس میں ہو گا۔

ایسا ہرگز نہیں کہ یہ دینوی سازوسامان بجنسہٖ روح کے کام آئے۔ اور اس سے وہ فائدہ اٹھائے۔

قوت جاذبہ و نامیہ کو روح کہنا غلط ہے اس لئے کہ یہ توپھول پتی گھانس اور درخت میں بھی موجود ہے۔ مگر روح اس میں نہیں مانی جاتی وہ حیوان سے مخصوص ہے۔ اور انسانی روح وہ اس سے خاص ہے۔

ہوا کی ضرورت نباتات کے لئے بھی ویسی ہی ہے جیسے حیوان کے لئے پھر اس کی جان کو روح کیوں نہیں کہتے۔

پرانے زمانہ کے ریاضت کرنے والے سادھوں برسوں تک سانس روکے رکھنے کی مشق کرتے تھے۔ اس عرصہ میں خارجی ہوا ان کے جسم میں اعضاء کے ذریعہ سے نہیں پہنچتی تھی پھر بھی اس عالم میں روح ان کے جسم میں موجود تھی۔

پھر جب وہ چاہتے ہیں تو برسوں کے بعد سانس لے لیتے ہیں ہوا کی آمد نہیں تھی پھر بھی روح موجود تھی اگر روح نہ رہتی تو ہمیشہ کے لئے مر جاتے پھر سانس کیسے لیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ روح کوئی اور چیز ہے۔

پھیپھڑوں کی کشش، دل کی حرکت سے ہوا کی آمد ورفت کے ذریعہ فضا کے حیات بخش اجزاء کا پہنچنا، اور برے اور مضر اجزاء کا نکال پھینکنا، خون کا دوران، عناصر کا اعتدال اور امتزاج، اجزاء کی ترکیب اور ترتیب، اندرونی اعضا کا عمل یہ سب روح کے آثار و لوازم ہیں۔ روح کے نکلنے سے یہ تمام مشینری بے کار اور معطل ہو جاتی ہے روز ہزار پرزے بگڑیں جب تک روح ہے اسی وقت تک زندگی قائم رہتی ہے اور نفس کی آمدوشد برقرار رہتی ہے۔

قدرت نے عالم کا نظام اسباب پر قرار دیا ہے مگر اپنے سے علاقہ قطع نہیں کیا ہے وہ جب چاہتا ہے اسباب کا نظام بدل دیتا ہے۔ اور نتائج میں تبدیلی کر دیتا ہے۔ اس لئے ہر شے جو فنا ہوتی ہے کسی سبب سے فنا ہوئی مگر پھر خدا کی مشیت کے ماتحت۔ بے شک خصوصی حیثیت سے مشیت کا عمل اس وقت نمایاں ہے جب نظام اسباب کی رفتار کو روکنا اور ان کے رویہ کا بدلنا ہو ورنہ جو عام نوعی نظام جاری کر دیا اسی کے مطابق ہو گا اور اس کے ہر ہر جزو میں خصوصی منشا او رمفاد کے ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہو گی۔ جبکہ بحیثیت مجموعی وہ پورا نظام ایک خاص حکمت اور مصلحت پر مبنی کیا گیا ہے۔

بڑے فائدے کے لئے چھوٹے نقصانات گوارا کئے جاتے ہیں اور میزان میں آ کر وہ نقصان نقصان نہیں رہتے بلکہ فائدہ بن جاتے ہیں۔ یہی حالت نظام کائنات کی ہے۔

خالق کا کام بے شک بنانا ہے۔ اور بگاڑنا بھی اس کا حقیقت میں بنانا ہی ہوتا ہے۔ کوتاہ نظر انسان اسے بگاڑنا سمجھتا ہے پھر بننے بگڑنے میں خود اسی نے اسباب کا عمل دخل رکھا ہے اسی لئے بیماری میں علاج سے عناصر، اعضا، اعصاب کا امتزاج درست کیا جاتا ہے اور یہ قدرت کے خلاف مقابلہ نہیں قرار پاتا، نہ حفظان صحت کے کالجوں میں اس کے مقابلہ کو امدادی افواج کی تیاریاں ہیں بلکہ یہ سب بھی قدرت کے منشاء پر عملدرآمد ہے۔

اس نے ان اسباب کو مقرر کیا ہے اور اس نے ان میں اثر دیا، بے شک وہی کبھی اس اثر کو سلب بھی کر لیتا ہے۔ مگر ہمیں تو عام قانون پر عمل چاہئے اور کامیابی کے لئے پھر بھی قدرت سے لو لگانا چاہئے کہ اسی کی یہ سب فوج ہے اور اسی سے ان افواج کی کامیابی کی ڈھارس ہے۔

عقائد و مراسم

جو باتیں مدت سے چلی آئی ہیں، انہی کے مطابق عملدرآمد کو رواج کہتے ہیں۔ عقیدہ کو رواج پر ہرگز مبنی نہیں ہونا چاہئے بلکہ عقل اور استدلال پر مبنی ہونا چاہئے۔ بے شک مراسم رواج سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہ اگر خلق خدا کے لئے فائدہ رسان ہیں اور ان کی کوئی عقلی بنیاد ہے تو انہیں باقی رہنا چاہئے ورنہ ختم ہونا چاہئے۔

مراسم اکثر بڑھ کر موروثی خلل دماغ ہو گئے ہیں یہ یقیناً اصلاح طلب ہیں۔

قدرت نے ہم کو لامحدود عقل اور گویائی دے کر انسان بنا دیا۔ دماغ دیا ہے کہ سوچ کر سمجھئے، نطق دیا ہے کہ پوچھ کر سمجھئے، آنکھیں دی ہیں کہ پرانے قضیے، گزرے افسانے، قدیم مقولے، موجودہ فضا کو دیکھ بھال کر سمجھئے، سمجھ کی اصلاح یا صحیح اندازے کے لئے عقل عنایت کی ہے۔

بہترین انسان وہی ہے جو قدرت کی دی ہوئی نعمتوں کو اچھی صورت سے صرف میں لائے۔ کسی بات کا بلادلیل اقرار نہ کرے۔ کسی بات کا بلادلیل انکار نہ کرے جبکہ یہ صحیح ہے کہ فطرت کے آئین میں قوت، خواہش، قد، نیند، عمر، وغیرہ کی کوئی حد مقرر نہیں تو پھر کمی یا زیادتی کے درجہ پر ناک بھوں چڑھانا عقل کے اصول پر صحیح نہیں ہے۔ عام و خاص کے اعتدال اور کم و بیش کے اوسط پر دل کی تسلی ہو جائے تو ہو جائے۔ دماغ کوسکون نہیں ہو سکتا جب کہ انہی اوسط حدود میں آخری نقطہ معمول سے باہر ہی ہو گا۔ تو پھر اس آخر پر بھی اضافہ کا امکان کیوں نہ ہو۔

قوت! کوئی شخص دو چار چھ من کا وزن اٹھا لے، اور رام مورتی صاحب بقول شخص ترکیب سے ۳۸ من پتھر کا سینہ پر توڑ ڈالیں تو آخر ۳۸ دوناچھہتر من کا وزن اٹھانا غیرممکن کیسے سمجھا جائے۔ دماغ یہاں خاموش اور عقل دم بخود رہے گی انکار کی جرات نہ کرے گی۔ واہمہ ہے جو مشاہدہ کے آگے ایک انچ قدم آگے بڑھانے میں تھراتا ہے۔ وہ تو رام مورتی صاحب کا قصہ بھی اگر پہلے پہل سنتا تو انکار پر تل جاتا اس لئے کہ اس کے سامنے وہ انوکھا تھا تو اس سے زیادہ طاقت کے مظاہرہ پر بھی وہ انکار کی جرات کرتا ہے۔ مگر عقل دوراندیش کہتی ہے کہ جب قوت کی کوئی حد نہیں مقرر تو اس سے زیادہ بھی قوت کا امکان ہے یوں ہی خواہش، قد اور نیند کو سمجھ لو، عمر کے لئے کسی نے کوئی میعاد مقرر نہیں کی۔ کوئی حد قرار نہیں دی۔ اب تم اصول فطرت کے مشاہدے تک مانتے ہو تو جو آخری مشاہدہ قراردو گے وہ عام نظام فطرت سے الگ ہی ہو گا۔

پھر جب عام نظام سے وہ الگ ہے اور مانا گیا اس لئے کہ مشاہدہ میں آ گیا تو اس سے زیادہ مقدار کے مشاہدہ کا اگر کوئی ادعا رکھتا ہو تو تم کس عقلی اصول کی بناء پر اس کا انکار کرو گے۔ اس کا باور نہ کرنے والا اپنے محدود مشاہدات کے حلقہ کا قیدی واہمہ ہے۔ اس کو عقل سے کوئی تعلق نہیں۔

عقل کو بیکار بدنام کرنا اپنی انسانیت کو دھبا لگانا ہے۔ عقل تو دلیل کی پابند ہے۔ وہ بلادلیل ہرگز کوئی مفروضہ قائم نہیں کرتی۔ نہ کسی بات کا انکار کرتی ہے۔ نہ وہ واقعات کو مشاہدات کا پابند سمجھتی ہے۔

نظام قدرت میں مداخلت اور آسمان پر دست درازی اگر اسی کے منشاء سے ہو جو اس نظام کا موجد اور آسمان کا بانی ہے تو ہمارا یا کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ اس کی قدرت کو مان کر اس کی کارفرمائی کا انکار بالکل بعید از انسانیت ہے۔

جزا، سزا، قیامت

انسان جو کچھ سوچتا یا کرتا ہے ان میں اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں بری بھی اچھی باتوں کا بدلا جزا۔ برے کاموں کا بھگتان سزا اور وہ موقع جب سب کو ان کے کئے کی آخری جزا یا سزا ملے اس کا نام قیامت ہے۔

دل میں خواہش، دماغ میں عقل قدرت کی جانب سے ودیعت ہے۔ دماغ دل کا مشیر قانونی ہے۔ دل مچلا عقل نے اچھا برا سمجھا دیا۔ مگر عقل کی آوا ز اسی کو سنائی دیتی ہے جس کا ضمیر مردہ نہ ہوا ہو۔ عادی مجرم جن کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے عیب کو ہنر سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہ سمجھنا ان کا اپنے عمل کا نتیجہ ہے اس لئے وہ اس میں الزام سے بچ نہیں سکتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ احساس گناہ کا نتیجہ جو روحانی تکلیف ہو سکتی ہے وہ تو ان کو نہیں ہوتی۔

اگر دل کے دھڑکے، ضمیر کے اضطراب، نتیجہ کی دہشت ہی سزائے جرم قرار دی جائے تو نتیجہ یہ ہے کہ ابتدائی مجرم نوسکھیے گناہگار کی سزا سخت اور عادی مجرموں کی سزا اس سے کم اور ایک وقت میں بالکل مفقود ہو جائے۔

بھلا یہ اصول کس انصاف کے قانون پر ٹھیک ہو گا کہ جتنا جرم کا ارتکاب ہوتا جائے سزا ختم ہوتی جائے اور جو گناہ میں بالکل منج جائے اس کے سزا بالکل رخصت ہو جائے۔

زبردست کمزور کا گلا کاٹتا، اس کے مال اسباب جائداد پر قبضہ کرتا اور خوش ہوتا ہے۔

وکیل جھوٹا مقدمہ بنا کر عدالت سے ڈگری حاصل کرتا ہے۔ اور ناز کرتا ہے۔

گواہ جھوٹی گواہی دے کر حقدار کا حق مارتا اور جرح میں نہ ٹوٹنے پر بغلیں بجاتا ہے۔

ڈاکو، چور، اٹھائی گیرے کمزور حکومتوں کے دور میں خوب مزے اڑاتے ہیں اور پھر بھی بال بیکا نہیں ہوتا۔

مہاجن ہزاروں غریبوں کے گھر برباد کرکے اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے اور مونچھوں پر تاؤ دیتا ہے۔ آئین و قانون کی آڑ میں حکام کی طرف سے سینکڑوں مظلوموں کے گلے کٹتے ہیں اور وہ مطمئن ہیں اس لئے کہ قانون خود ان ہی کے ہاتھ کا کھیل ہے۔

بتائیے ان تمام جرائم کی پاداش میں کون سا دل کا دھڑکا، ضمیر کا اضطراب، نتیجہ کی دہشت، صحت کی خرابی، انجام کی دھمکی حشر برپا کر دیتی ہے۔ کون سی عدالت کی زحمتیں اور قانونی سزائیں قیامت ڈھاتی ہیں۔

رہ گئی بدنامی و رسوائی یعنی آدمیوں کا برا کہنا تو اس سے تو اچھے آدمی بچتے ہیں نہ برے۔ اچھے آدمیوں کو یہ تکلیف بروں سے زیادہ برداشت کرنا پڑتی ہے اور ان کی روح کو ایذا بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ان پر عائدکردہ الزامات حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔

تو بتائیے ان کے لئے یہ اچھے کاموں کی جزا ہے یا سزا، بے شک بہت سے جرائم کے برے نتائج خود ان ہی جرائم کے بعد ظاہر ہو جاتے ہیں مگر جزا و سزا کو ان وقتی نتائج میں محدود بناؤ گے تو بہت سے اچھے کام تمہیں مورد سزا نظر آئیں گے اور بہت سے برے کاموں پر تمہیں جزا کا قائل ہونا پڑے گا اگر انصاف اور عدالت کی دنیا میں اچھے برے میں حد فاصل کا برقرار رہنا ضروری ہے تو ان وقتی اور عارضی نتائج کے آگے تم کو ایک مستقل اور مختتم جزا و سزا کا ماننا ضروری ہے۔ وہی قیامت ہے۔ جو اس کے حقیقی معتقد ہیں وہ ہرگز گناہوں کے ارتکاب کی جسارت نہیں رکھتے۔ جو اندیشہ معاد سے آزاد ہیں انہیں جرائم سے با زرکھنے کے لئے صرف قانونی تحفظ کا سامان کافی ہے اس لئے وہ جرائم سے متنفر نہیں ہوتے بلکہ صرف اپنے بچاؤ کے خواہاں ہی رہتے ہیں۔