• ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6523 / ڈاؤنلوڈ: 1697
سائز سائز سائز
مذھب و عقل

مذھب و عقل

مؤلف:
اردو

مذہب اسلام

باامن و امان عرصہ حیات طے کرنے کے لئے مافوق انسانی لامحدود طاقت کو سمجھ کر اور مان کر کچھ اصول کے پابند ہو جانے کا نام مذہب ہے۔ خداوندی پیغام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا نام اسلام ہے۔ جس نے اس پیغام کو نہ مانا کافر ہوا یہ تفریق ہمیشہ سے قائم ہے خدا کا دین ہمیشہ سے اسلام رہا اصطلاحی طور پر نام بے شک حضرت ابراہیم(ع) سے چلا۔ پیغام ایک تھا پیغام لانے والے بدلتے گئے او راصلاح خلق کے عملی تعلیمات پروگرام کے مطابق تبدیل ہوتے رہے ہر پیغامبر کے پیغام پہنچانے پر جنہوں نے انکار سے کام لیا وہ کافر ٹھہرے جنہوں نے تسلیم کر لیا اور اقرارکیا وہ مسلم قرار پائے۔

اس پیغام کے آخری حامل اور شریعت کے معلم حضرت محمد مصطفی تھے اس لئے آخری معیار اسلام اور کفر کا آپ کی رسالت کو تسلیم کرنا اور نہ تسلیم کرنا قرار پایا۔ اب جتنے لوگ آپ کے پہنچائے ہوئے پیغام اور بتلائی ہوئی شریعت کو مانتے ہیں وہ مسلم کہے جانے کے حقدار ہیں۔ اسلام کے اصل اصول کو فطری بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہوش و حواس میں رہ کر ہر انسان اپنے خالق کا مقر ہے اور اگر باپ دادا کے راستے کی محبت، ماحول کا اثر، پرانے رسم و رواج کی لاج مانع نہ ہو تو خالق کے پیغام کے سامنے سر جھکانا بھی فطرت کا تقاضا ہے۔

اسلام کا مذہب اٹل اور ٹھوس حقائق کا مجموعہ ہے جو ہمیشہ سے ایک حالت پر برقرار ہیں۔

بے شک شریعت اسلام جو وسیع اور جامع اور جاودانی ہدایات کو لے کر آئی ہے ناسخ ہے تمام گزشتہ شریعتوں کی۔

تاریخ شاہد ہے کہ علمبردارانِ اسلام نے تبلیغ وحدانیت اور تکذیب شرک سے لاکھوں کافر مسلمان بنا دیئے بلکہ یوں کہا جائے کہ اپنے لاجواب تعلیمات سے کروڑوں آدمی انسان بنا دیئے۔

اسلام اب بھی وہی ہے۔ اس کی ٹھوس حقیقتیں وہی ہیں اس کے لاجواب تعلیمات وہی ہیں۔ رہ گئی ”مسلمان“ نام اختیار کرنے والی جماعت کی بے راہروی تو یہ آج بھی ہے اور پہلے بھی تھی اور اس کے بعد بھی تھی اور خود پیغمبر اسلام کی زبان سے اسلام کا پیغام پہنچائے جانے کے دور میں بھی تھی اور اس کے بعد بھی رہی۔ بات یہ ہے کہ زبان سے اقرار والے سب دل سے تو مومن نہیں ہوتے۔ نہ سب ان حقیقتوں کی صحیح معرفت رکھتے ہیں۔ جنہیں وہ عقیدے کے طور پر مان رہے ہیں۔ کیونکہ ماننا اور ہے اور جاننا یا سمجھنا اور ہے۔ عقائد، واہمہ، غلو، تعصب کی آمیزش ہمیشہ سے رہی۔ روایتی مذہب ہمیشہ بنتے رہے۔ مجموعہ میں ابتری اور شیرازہ میں برہمی کب نہ تھی۔ اسلام کفر میں، سچ جھوٹ میں کب نہ چھپا تھا عقیدت کو ازروئے حقیقت دل میں جگہ دینے والے ہمیشہ سے کم تھے۔ آج بھی وہی صورت ہے امتداد زمانہ سے کچھ بدتر سہی حالانکہ بدتر بھی نہیں کہہ سکتے۔

ہر فرقہ کا دوسرے فرقوں کو کافر بنانا، بے بنیاد باتوں پر لڑنا جھگڑنا، تعلیمات اسلام کے خلاف لباس، وضع، سوسائٹی کی پیروی اور رواج کی پابندی اور اپنے خودساختہ رسوم قدیمہ اور مسلمات دیرینہ کی پابندی کرنا۔

یہ باتیں بے شک افسوسناک ہیں جو اسلام کی ترقی میں سدراہ ہیں مگر عقل کا کام ہے کہ وہ حقیقت کے جواہرات کی تلاش کرے اگرچہ وہ گرد میں اٹے ہوئے ملیں۔ گرد جھاڑو تو ہیرا اپنی چمک پوری دکھلائے گا اس کی قیمت میں کمی نہیں ہو گی۔ کتب پارینہ، اقوال دیرینہ اور مسلمات سابقہ بے شک ماننے کے قابل ہیں۔ بشرطیکہ مستند وجوہ سے ان کی صحت ثابت ہو۔

عقل کو نقل سے دبانا اور مسائل عقلیہ کو تاویل سے مکرانا درست نہیں بشرطیکہ وہم کو عقل او رمحدود مشاہدہ کے نتائج کو مسائل عقلیہ کے نام سے پیش نہ کیا جا رہا ہو۔

مشاہدہ جزئیات سے متعلق ہوتا ہے او راپنی حد میں اس کے مکرانے کا کسی کو حق نہیں مگر مشاہدہ کا نتیجہ ہمیشہ جزئی ہوتا ہے اور اس پر کلی اصول کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی، اوہام پرستی کبھی حقیقت پروری کا ذریعہ نہیں ہو سکتی مگر آج کل کی روشنی میں اوہام کو مسائل عقلیہ اور عقلی دلائل کو اوہام سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔ ٖ

خرد کانام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد

عقائد اگر حقیقت کے مطابق ہیں تو ان کی پرورش عین حقیقت کی پرستش ہے۔ پیر اگر رہبر حقیقت ہوں تو ان کی پیروی صحیح طریقت ہے۔ ملا اگر عالم باعمل ہوں تو ان کی تقلید عین ہدایت ہے۔ مرشد اگر واقعی ”مرشد“ یعنی راہ رشاد کے مالک ہیں تو ان کے ارشاد کی تعمیل نجات کی ضامن ہے۔ مگر آب و سراب میں تمیز، یاقوت اور ایمی ٹیشن میں فرق عقل و شعور کی آزمائش اور انسانیت کی کسوٹی ہے۔ خدائے واحد کے علاوہ پرستش کسی کی صحیح نہیں مگر اس کی طرف تعلق سے کسی کی تعظیم، کسی شے کا احترام خواہ وہ کوئی قبر ہو۔ کوئی شبیہ ہو۔ یا کوئی خداساختہ یا خودساختہ چیز حقیقتاً اللہ کی پرستش اور اس کی عبادت ہے نیت سے عمل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کعبہ بھی خودساختہ ہے۔ قرآن کے نقوش بھی کاتب کے خودساختہ ہیں مگر یہ سب عزت و احترام کے مستحق ہیں اور ان کے سامنے سر جھکانا عین اسلام ہے اس نسبت کی وجہ سے جو ان کو خالق کی طرف حاصل ہے۔

واقعات و معجزات اگر صحیح ذرائع سے ثابت ہوں تو ان کا ماننا جزو ایمان ہے۔

اسلاف کے کارنامے ضرور عزت و افتخار کے ساتھ ظاہر کرنے کے مستحق ہیں، بے شک واقعات میں اصل اور تراشیدہ، کارناموں میں کردہ اور ناکردہ کے جانچ کی ضرورت ہے۔ مگر کچھ غلط اصول یا خودساختہ توہمات کی بناء پر ہر واقعہ اور معجزہ کو آنکھ بند کرکے تراشیدہ اور ہر غیرمعمولی کارنامہ کو ناکردہ کہہ دینا بھی آج کل کے دماغوں کا بڑا کارنامہ ہے جو عقل و ہوش کے مخالف ہے۔

اسلام عقلی مذہب ہے تو اس کے اصول کا ماننا بھی ضرور ہے اسی ماننے کا نام عقیدہ ہے پھر مطلق اعتقاد کی بیخ و بن کیوں اکھاڑتے ہو۔ اس کے احکام کو عقل و دانش کے مطابق جانتے ہو تو ناواقف لوگوں کو واقفیت حاصل کرنے کے لئے واقف کار لوگوں سے دریافت کرنا ضروری ہے۔ پھر مطلق تقلید کی مخالفت کیوں کرتے ہو۔

اسلام کی کتاب بے شک رفعةً آسمانی اور باعتبار خلقت نسبتہً کلام آلہی ہے۔

غلط ہے جو کہے کہ آسمان پر خدا کا مقام ہے اور وہ وہاں بیٹھا ہوا رسولوں کو بھیجتا ہے اور کتابوں کو نازل کرتا ہے۔

بے شک ایسا ہی ہے کہ ہم اپنے پیکر میں سر کو تمام اعضا سے برتر پاتے ہیں اس لئے اپنے اشارہ میں خدا کو رفعةً اور ادباً سر سے اوپر اور اپنے محاورے میں افلاک سے بالاتر بتاتے ہیں حالانکہ قدرت کی حیثیت سے اس کو جہات ستہ میں اوپر نیچے آگے پیچھے دہنے بائیں کسی طرف محدود نہیں بنا سکتے۔

بانی اسلام عام ذرائع تعلیم کے لحاظ سے ان پڑھ تھے مگر علم و معرفت اور عقل و حکمت کا جوہر ان کا خداداد تھا۔ اپنے دماغ سے جو باتیں انہوں نے دنیا کو بتلائیں اور سنائیں وہ احادیث کہیں گئیں ان میں بھی حکمت اور دانشمندی کے خزانے مضمر ہیں مگر خود ان کے دل و زبان پر قدرت کی طرف سے ایک ایسا کلام جاری ہوتا رہا جس سے خود ان کے اقوال کو کوئی نسبت اور مماثلت نہیں اس کو وہ اپنے رب کا کلام مانتے اور بتلالتے تھے او راپنے خالق کی طرف سے ایک سفیر یعنی جبرئیل کے ذریعہ آیا ہوا ظاہر کرتے تھے۔ انہوں نے جبرئیل کی تشریح اوصاف کے ذریعہ سے اس طرح سے کی کہ معلوم ہوا وہ خدا کی روحانی مخلوق ایک فرشتہ ہے۔

جبر کے معنی پیغام اور ئیل کے معنی قوت الٰہیہ کہنا آپ کے قول کی بلاوجہ تاویل اور اپنے دل کی ایجاد ہے۔ حضرت کے دعوے سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔

جماعت اسلام نے بھی صرف ان ہی اقوال کو جو ان کے ذاتی کلام سے ممتاز اور بالاتر تھے خدا کی طرف سے اترا ہوا کلام مانا ہے اور اس وحی کا مجموعہ قرآن، عرب کے لہجہ میں اوپر سے آیا ہوا فرمان ہے۔

بانی اسلام کی سیرت تھی کہ سوال کا جواب، نیکی کی ہدایت، بدی سے ممانعت یا کسی بات کا حکم اپنے دل سے نہ دیتے تھے، بلکہ اس غیبی طاقت کی ہدایت کے منتظر رہتے تھے دل سے سوچ سمجھ کر جو باتیں کی ہیں وہ حدیثیں ہیں تمہارے ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان کا انداز، طریقہ طرز ایک خاص ہے اور جو وحی ربانی کا کلام ہے وہ بھی سامنے ہے اس کاانداز و طریقہ بالکل جدا ہے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حدیثیں بے سوچے سمجھے فوراً کہہ دی جاتی تھیں۔ ہرگز نہیں، وہ بھی عقل خداداد کی رہنمائی، توفیق ربانی، تائید آسمانی سے متعلق تھیں مگر آں ہمہ دیگر اور کلام قرآنی چیزے دیگر ہے۔ اسی کی تبلیغ پر رسالت کے مدعی ہوئے۔ یعنی جو خداوندی پیغام ان کو ودیعت ہوئے خواہ عقل خداداد سے اور خواہ قول خداساز سے ان کو ہم تک پہنچانے کے رسول ہیں۔

آپ نے اپنی بساط تلقین ہرگز اس نیم تاریخی اور روایتی زمین پر نہیں بچھائی جو یہودونصاریٰ اور بنی اسرائیل کو خوشگوار تھی بلکہ آپ نے ان کے روایات کی تصحیح کی، ان کی ترمیم کی اور ان کو اصلی صورت پر پیش کیا۔

دیکھ لو آدم(ع) کا جنت میں گندم کھانے کا قصہ، حضرت داؤد(ع) کا اوریائے حتی والا واقعہ۔ بائبل میں اور قرآن میں۔ معلوم ہو گاکہ ان کہ وہ اجزاء جو شان رسالت واوہیت کے خلاف ہیں قرآن میں کہیں موجود نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی اظہارات میں قرآن نے تقلید سے نہیں۔ تحقیق سے کام لیا۔

گزشتہ واقعات میں ”تانہ باشد چیزکے“ کے مطابق جتنی اصلیت تھی اس کو بیان کیا گیا اور آدمیوں کی بنائی ہوئی ”چیزہا“ کے جو اضافے تھے انہیں خذف کر دیا۔ نیکی کی ہدایت، جزا کی بشارت دی، بدی سے ممانعت کی، سزا سے ڈرایا، قوم میں شریعت قائم کی۔ جہالت کی فضا تھی، عرب میں لکھے پڑھے ہوئے آدمیوں کی کمی تھی، آپ نے کوشش کے ساتھ لکھے پڑھے آدمی فراہم کئے جو کچھ کلام آٰلہی کی حیثیت سے آپ کی زبان پر جاری ہوتا۔ اسے فوراً کاتب کو بلا کر خود لکھوا دیتے تھے او راپنے بھائی، داماد اور شاگرد خاص حضرت علی ابن طالب(ع) کی حفاظت میں دے دیتے تھے۔ دوسرے لوگ بھی جو کچھ سنتے تھے۔ یاد کرتے تھے اور ہڈی چمڑے لکڑی پتہ، پوست، کاغذ جو پاتے تھے اس پر لکھ لیتے تھے۔

حضرت کی وفات کے بعد ایک طرف تو حضرت علی(ع) نے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر سب سے پہلا کام یہی کیا کہ ان تمام مکتوبات کو کتاب کی شکل میں مرتب کر لیا۔ دوسری طرف بااقتدار جماعت یعنی خلیفہ اول حضرت ابوبکر اور ان کے گروہ نے بڑی کوشش سے آیتوں کو ترتیب دے کر صحیفوں کی شکل میں جمع کیا۔ اور اصحاب نے بھی اپنے اپنے سلیقہ کے مطابق اپنے اپنے محفوظات کو کتاب کی شکل میں ترتیب دے لیا۔ جیسے ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کے جمع کئے ہوئے مصحفوں میں اگر کچھ فرق تھا تو ترتیب کا تھا اسی لئے جب حضرت علی(ع) کے جمع کئے ہوئے قرآن کو لوگوں نے نہ لیا تو آپ نے اس کی اشاعت ضروری نہیں سمجھی۔ بلکہ آپ ہمیشہ اسی قرآن پر عمل اور اس کی تعظیم پر لوگوں کو مامو رکرتے رہے جو مسلمانوں میں رائج ہو گیا تھا۔

آپ نے معمولی احکام شرعیہ کے لئے جن کے متعلق حکومت کا طرز عمل خلاف آئین حقیقت تھا۔ علانیہ مخالفت کے طور پر (جو آپ کے نزدیک مفاد اسلامی کے خلاف تھی) نہ سہی مگر اظہار حقیقت کے طور پر اظہار واقعہ سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ پھر غیرممکن تھا کہ قرآن میں کسی قسم کی قطع برید ہوتی، کوئی الحاق و اضافہ کیا جاتا اور اس پر آپ احتجاج سے خاموش رہتے اور اس کا صاف اعلان نہ کر دیتے۔ حضرت عثمان کی جدوجہد اپنے دور میں صرف یہ رہی کہ مسلمانوں کو ایک ترتیب کا پابند بنا دیں اور وہ تمام مصاحف جن کی ترتیبیں مختلف تھیں جو عبداللہ بن مسعود و ابی بن کعب وغیرہ کے پاس تھے انہیں تلف کرا دیں اس لئے کہ وہ لوگ اپنی ہی ترتیب کے مطابق اپنے شاگردوں کو تعلیم بھی دیتے تھے اور اسی کی اشاعت کرتے تھے۔ حضرت علی(ع) نے اپنے ترتیب دادہ مصحف کی اس کے پہلے ہی اشاعت نہ کی تھی اس لئے اب اس دور میں آپ کے اس مصحف کے خلاف کوئی کوشش و کاوش بھی نہ ہوئی۔ موجودہ ترتیب بے شک ترتیب عثمانی ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ اکثر جگہ بے ربط ہے۔ آیتیں سورے اپنی جگہ پر نہیں۔ مکی مدنی آگے پیچھے۔ پہلے بڑے سورے رکھے پھر بتدریج چھوٹے سوروں پر اختتام کیا ہے مگر کوئی شبہ نہیں کہ ہر آیت اپنی جگہ وہی کلام ہے جو پیغمبر اسلام نے بحیثیت کلام اللہ پیش کیا۔ اس میں ہمارے خیال میں کمی نہیں ہوئی اور زیادتی تو قطعاً نہیں ہوئی۔

ترتیب میں بنی امیہ کا سلیقہ ہو تو ہو مگر بہترین احکام و ہدایات کے ساتھ قدیم حکایات کے ہونے میں بنی امیہ کا قصور سمجھنا غلطی ہے۔ حکایات بھی اس کی طرف کے ہیں جس کی جانب کے احکام و ہدایات ہیں نہ مکرر سہ کرر فقرے تاید و یاددہانی کے طو رپر مختلف وقت پر آئے ہوئے مضامین میں تکرار۔ نصیحت اور عبرت کے استحکام کے لئے ایک بات پر دو چار بار بلکہ دس بار اس لئے کہ زودفراموش افراد کو یاد رہے۔ بیان میں انتشار موقع اور محل کے اختلاف سے۔ نصیحت کہیں پر صراحتہً اور کہیں ضمناً، یہ شاذ نہیں بلکہ ہر مقام پر یہاں تک کہ قصص و حکایات میں نصیحت ہی اصل مقصد و مفاد۔ ہدایت جا بجا نہیں بلکہ ہر جا۔ قسمیں حسن بیان اور کلام کی سجاوٹ اور شان کے لئے، خودستائیاں دنیا کو اپنی معرفت حاصل کرانے کے لئے جس میں دنیا کی بہبود اور ترقی کا راز پنہاں۔ دوزخ سے دھمکیاں شریر طبیعتوں کی اصلاح کے لئے بہشت کی بشارتیں نیک اعمال والوں کی ہمت افزائی کے لئے۔ پچھلے قصے پرانی حکایتیں، سبق دینے اور عبرت حاصل کرانے کے لئے۔ انسان کی خلافت انسان کے مقصد خلقت بتانے کو، آدم(ع) کی حکایت۔ انسان کی قدر و شان اور اس کی عملی کمزوری کا امکان جتانے کو۔ جانوروں کی باتیں خالق کی ہمہ گیر قدرت کے اظہار کے لئے۔ موسیٰ(ع) کا تکلم، انبیائے سابق کی معرفت حاصل کرانے کے لئے، شیطان کی کہانی بنی آدم کی تنبیہ و توجہ دہانی کے لئے، ہابیل قابیل کا قصہ رشک و عداوت کا انجام بتانے کے لئے۔ بلقیس کا تخت۔ سلیمان(ع) کی سلطنت مال ومتاع دنیا کی بے اعتباری دکھانے کے لئے، طوفان کی واردات دنیا کی موجودہ سرکش آبادی کو خوف دلانے کے لئے۔ یوسف(ع) کا قصہ اسباب معیشت کی فراوانی کے موقع پر نبی(ع) خدا کی پاکدامانی کے اظہار کے لئے، ہاروت ماروت کی سرگزشت جادو اور ظلم کی حقیقت کھولنے کے لئے۔ زکری(ع) کا ذکر، انبی(ع) کا تذکرہ صالحین کی یاد تازہ کرکے ان کے اسوہ حسنہ کی طرف دنیا کو دعوت دینے کے لئے، عزیر کی دوبارہ حیات، حیات بعدالموت کے تصدیق و اقرار کے لئے، غرض کوئی جزو بیکار نہیں کوئی بات فضول نہیں ہر ایک خدائے حکیم کی جانب سے حکمت اور مصلحت کی بناء پر بندوں کی ہدایت و اصلاح کےلئے مذکور ہوئی ہے۔

بنی امیہ لاکھ برے سہی مگر ان کی اتنی مجال نہ تھی کہ یہ سب کچھ قرآن میں بڑھا دیتے اور مسلمان ٹھنڈے دل سے گوارا کر لیتے بلکہ اس پر یونہی پردہ پڑا رہتا اور کوئی اس پردہ کو نہ اٹھاتا۔ نہ اس کا انکشاف کرتا۔ یہ بات بالکل غیرممکن ہے۔

بنوامیہ کو بڑھانا ہی تھا۔ تو اپنی تعریف او رمنقبت کے سورے بڑھا دیتے اپنی سلطنت کی حقیقت کے لئے آیتیں تصنیف کرتے۔ نہیں کیا ضرورت تھی کہ یہودیوں کے تالیف قلب کو موسیٰ(ع) کا یدبیضا۔

لاٹھی، عصا، بچھڑے کا قصہ، طور کا واقعہ، لاش فرعون کی بقاء۔ نصاریٰ کے استفسار پر پچھلی کتابوں کے معلومات ک ااظہار، ذوالقرنین کی گام فرسائی وغیرہ وغیرہ کی تصنیف کے لئے سرمغزی کرتے او ران تمام باتوں کا اضافہ قرآن میں کر دیتے۔ جو ایسا گمان کرے عقل کے ساتھ کھیل کھیلتا ہے او رکلام الٰہی کی تکذیب کو اس پردہ میں چھپاتا ہے کہ آئی گئی بنی امیہ کے سر ڈالتا ہے مگر دنیا ایسی سادہ لوح نہیں ہے کہ وہ ان چکموں میں آئے اور ایسی بیوقوف بنے۔

کون نہیں جانتا کہ بنی امیہ نے احکام شرع میں جو تبدیلیاں کیں اور مذہب کے ساتھ جو بغاوت کی اس کے خلاف آل رسول اور سچے مسلمان احتجاج کرتے رہے اور نہ صرف احتجاج بلکہ قربانیاں پیش کرتے رہے۔ کربلا کی خونی تاریخ کی اسی پر بنیاد ہے۔ کیا ممکن تھا کہ قرآن میں اس تصنیف و ایجاد پر آل رسول اور تمام سچے مسلمان خاموش رہتے اور آج سے پہلے اس کا کبھی اظہار نہ کیا جاتا۔

یہ بھی دیکھئے کہ بنی امیہ کے بعد سلطنت بنی عباس کی قائم ہوئی جو بنی امیہ کے حریف تھے۔ اس لئے لوگوں کو اس دور میں بنی امیہ کے نقائص و معائب بیان کرنے کا خوب موقع ملا۔ مگر اس وقت بھی قرآن جوں کا توں قائم رہا اور کسی نے بنی امیہ کے خلاف یہ الزام نہیں عائد کیا کہ انہوں نے یہود اورنصاریٰ کی خاطر اس میں غلط افسانے شامل کئے ہیں اور جھوٹے حکایات درج کئے ہیں۔

حکومت کا دباؤ ہرگز مسلمانوں کے زبان اور دل پر ایسا سخت پہرہ نہیں بٹھا سکتا تھا کہ اتنا اہم معاملہ دبا رہتا اور ایک صدا بھی اس کے خلاف بلند نہ ہوتی۔ نہ پہلے نہ بعد اس وقت جبکہ حکومت کا دباؤ اٹھ چکا تھا اور دوسری حکومت قائم ہو چکی تھی۔

نہ یہود اور نصاریٰ کا رسوخ امور سلطنت میں اس درجہ تھا کہ وہ اپنی طبیعت کے موافق قرآن میں تبدیلیاں کر سکتے۔

شروع والی خلافت کے دور میں تو کچھ نو مسلم یہود ایسے تھے بھی جن کے روایات احادیث و اخبار کے ذیل میں مسلمانوں میں رواج پا گئے مگر اس کے بعد پھر کوئی ایسی جماعت یہودونصاریٰ میں سے کبھی برسراقتدار نہیں رہی۔ عثمان کا قتل جن الزاموں پر تھا وہ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ انہوں نے یہود اور نصاریٰ کی جماعت کی خاطر قرآن کی آیتیں یا سورے تصنیف کرکے الحاق کئے۔

ان کے قتل ہو جانے کے واقعہ ہی سے ظاہر ہے کہ مسلمان اتنے مردہ دل نہیں تھے کہ وہ آسانی سے ان باتوں کو گوارا کر لیتے جو ان کے نزدیک بالکل غلط ہیں۔ جب معمولی الزامات پر عثمان قتل کر دیئے جاتے ہیں تو قرآن میں اضافے ہوتے اسے مسلمان کیسے گوارا کر سکتے۔

ایں خیال است و محال است

غیرمذہب والا اگر عقل و انصاف سے کام لے گا تو وہ ایسے اعتراض نہیں کر سکتا جن کی کوئی بنیاد نہ ہو۔

آسمان حسی طریقہ پر سروں کے اوپر بطور چھت کے نظر آتا ہے، حقیقت اس کی جو کچھ ہو۔ بہرحال وہ کچھ اجسام و اجرام کا مجموعہ ہو، ایتھر کا طبقہ ہو، حد نگاہ ہو، کچھ ہو۔ قرآن نے کب کہا کہ وہ لوہے سونے چاندی یا پیتل کا کوئی ٹھوس جسم ہے یہ تو سمجھ کا فتور ہے کہ لوگوں نے اپنے دل سے ایسا ہی سمجھ لیا تھا وہ سمجھا کریں۔ مگر قرآن پر اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ چھت پر خدا کا مقام ہرگز نہیں بتایا۔ کتاب کے بلند مضامین اگر کسی بلند طبقہ سے اسے متعلق بتائیں تو نہ ماننا اپنے ضمیر سے مقابلہ کرنا ہے۔

قرآنی حکایتوں میں بہت سی باتوں کی صحت واقعات سے ثابت ہو چکی، بہت سی باتوں کے لئے مستقبل کا انتظار کرو، محدود معلومات کے ساتھ کامل دانائی کا دعویٰ عقل انسانی کے شایان شان نہیں ہے۔

ترتیب میں بے شک زید بن ثابت کی صلاح ہے مگر قریش کی فصیح ترین زبان قدرت کا انتخاب ہے۔ مکہ کے زباں دانوں، مدینہ کے زباں آشناؤں اور قریش کے فصیح اللسانوں کا سرِ عاجزی جھکانا ہند کے عربی میں دخل نہ رکھنے والے بے تمیزوں کے لئے بھی سند ہے۔

ترتیب کی بے ربطی سے آیتوں کے مضامی کو مجذوب کی بڑ کہنے والا مشرکین عرب کا ہم زباں ہے جو رسول کو مجنون اور دیوانہ کہتے تھے۔

سورہ النجم بھی سامنے ہے۔ آیات میں وہی شکوہ و دبدبہ اور شان ہے جو فصاحت و بلاغت کی جان ہے۔ پریشان خیالی سے دیکھنے پر بیان منتشر عبارت طول طویل، مکررسہ کرر فقرے اور الفاظ کی تکرار نظر آئے اور بے ربط طبیعت کو حکایتیں بے ربط معلوم ہوں تو اس میں قرآن کا کوئی قصور نہیں، اس میں ہدایات بھی ہیں اور نصائح بھی۔ خدا کے جاہ و جلال کا نقشہ ہے جو مقصد رسالت ہے اسے چاہے خودستائیاں کہو اور چاہے جو کچھ مگر خودستائی ناقص انسانوں کی زبان سے قابلِ مذمت اور کامل ہستی کی طرف سے انسان کے فہم و عرفان کی تکمیل کاذریعہ ہے۔

دہلانا۔ بہلانا۔ یعنی عذاب و ثواب۔ بہشت و دوزخ کا تذکرہ چاہے طبیعتوں پر بار ہو لیکن منکروں کو بھی اقرار ہے کہ اصلاح خق کے لئے یہ طریقہ بہتر ہے۔ عیسیٰ(ع) کی تعریف اور موسیٰ(ع) کی شریعت کا تذکرہ حق کا اظہار ہے رہ گیا مفسرین کی مختلف عقل آرائیوں کا حاشیہ۔ وہ نہ قرآن کے اندر ہے۔ نہ قرآن اس کا ذمہ دار ہے۔

سورہ کہف میں بھی کوئی بات ایسی نہیں جو عقل کے خاف ہو۔ دیوار چین مشہور ہے۔ تاتار کے غیرمعمولی انسانوں کی آبادی بھی ہر ایک کو معلوم ہے۔ آفتاب حسی صورت سے سمندر میں اندر ڈوبتا اور اس سے نکلتا ہے۔ سمندر کے اندر ہی دوسری سمت امریکہ کے جزائر کا اب انکشاف ہوا۔ اس لئے پانی میں زمین کی شرکت کا عین حمہ کی لفظ سے اظہار کیا گیا۔ آج تک حفریات میں ہزاروں چیزیں برآمد ہوتی ہیں جن کا پہلے پتہ نہ تھا۔ سینکڑوں پہاڑ۔ ہزاروں غار اب تک ایسے ہیں جن تک تحقیق کا ہاتھ نہیں پہنچا۔ پھر اصحاب کہف کی نسبت کس لئے انکار ہے؟

حضرت خضر(ع) کے ہاتھ سے بچہ کا قتل ایک سابق شریعت کی بات ہے۔ جس کی بنیاد باطنی اسرار پر ہے۔ اس سے ہرگز بچہ کی خلقت کا عبث ہونا ضروری نہیں ٹھہرتا تمہیں کیا معلوم کی اتنی ہی عمر میں خلقت کا منشا پوا نہیں ہو گیا جب مقصد کی تکمیل ہو گئی تو دنیا سے اٹھا لینے کا ذریعہ بنایا گیا۔ یہ پشمانی نہیں ہے بلکہ حالات کے لحاظ سے نتائج کی تبدیلی ہے۔ موت کا فرشتہ مارتا تو بھی خدا کے حکم سے ہوتا خضر(ع) باطنی شریعت کے ہوتے ہوئے منشائے قدرت کے رازدار اور ملک الموت کے قائم مقام بنائے جائیں تو ہمیں اعتراض کا کیا حق ہے؟ بے شک ہماری شریعت کی بنیاد ظاہری اسباب پر ہے اس لئے ہماری شریعت میں اس عمل کی مثال نہیں لائی جا سکتی۔

آسمان حد نگاہ ہو یا کچھ، پھر بھی بلندی کی سمت ایک کائنات کا عالم آباد ہے اسی کو قرآنی زبان میں افلاک و سماوات کہا جا رہا ہے۔

ثوابت کی گردش ثابت ہو مگر سیارات کے لحاظ سے وہ اتنی سست ہے کہ حسی طور پر مفقود ہے اسی لئے بطور تقابل سیارات کے ساتھ ثوابت کا ثبوت صحیح ہے۔

یہ تمام اعتراضات اپنی جہالت اور کوتاہی معلومات کی نشانی ہیں۔

اپنے ناقص معلومات نہیں بلکہ سچے علم و معرفت کی قسم کہ اس کتاب کے تمام آیات بجنسہٖ تزیل آسمانی ہیں۔

(وانه لتنزیل من رب العالمین نزل به الروح الامین علی قبلک لتکون من المنذرین )

بلسان عربی مبین ۔

لایاتیه الباطل من بین یدیه ولامن خلفه تنزیل من حکیم حمید ۔