• ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6517 / ڈاؤنلوڈ: 1685
سائز سائز سائز
مذھب و عقل

مذھب و عقل

مؤلف:
اردو

معجزہ

لغت میں ”وہ بات جو عاجز کر دے“ معجزہ ہے۔ اہل مذاہب کی اصطلاح میں خداوندی منصب جیسے نبوت، رسالت یا امامت کے عہدوں کے واسطے ان کے حامل کو جو غیرمعمولی خصوصیات حاصل ہوں۔ جنہیں وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کریں وہ معجزہ ہیں۔ اگر کوئی غیرمعمولی خصوصیت ایسی جو دلیل نبوت بن سکے نہیں ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر دعویدار کو سچا رسول، نبی یا امام مان لیا جائے۔

پیغمبر اسلام کا باقی اور دائمی معجزہ قرآن ہے۔ آپ نے عمومی حیثیت سے اسی کو ثبوت رسالت میں پیش کیا۔ یہ روایت نہیں درایت ہے۔ اور یہ تمام انبی(ع) کے معجزات میں اس کی امتیازی صفت ہے۔ رہ گئے دیگر انبی(ع)ء کے معجزات وہ ہم تک بطور روایت پہنچے ہیں۔ ویسے معجزات ہمارے رسول کے لئے بھی حاصل ہوئے اور ہم تک روایتہ پہنچے۔ شق القمر اسی طرح کا معجزہ ہے۔

قرآن کی آیت اقتربت الساعة وانشق القمر۔ کا یہ ترجمہ کہ ”قریب آ گئی ساعت اور شق القمر“ بالکل غلط ہے۔

جس عربی دان سے چاہے پوچھ لو ترجمہ اس کا یہ ہوا کہ ”قریب آ گئی ساعت اور شق ہوا قمر۔“

روایات کے اختلاف سے اصل واقعہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وفات رسول ایسی مسلمہ حقیقت مگر کس تاریخ یہ وفات ہوئی مسلمانوں میں عظیم اختلاف کا مرکز ہے۔

نماز ایسی مسلمہ بات مگر رسول نماز کس طرح پڑھتے تھے اس میں مسلمانوں میں بڑا اختلاف ہے۔

پھر جس طرح تاریخ کے اختلاف سے وفات رسول کا اصل واقعہ مشکوک نہیں ہو سکتا۔ نماز کے خصوصیات میں اختلاف سے اصل حقیقت کہ رسول نماز پڑھتے تھے محل انکار نہیں بن سکتی تو ویسے ہی صورت و کیفیت اور تفصیل کے اختلاف سے اصل واقعہ شق القمر کی صحت پر اثر نہیں پڑ سکتا جبکہ مجموعی حیثیت سے تمام روایات اس کے وقوع پر متفق ہیں۔

چاند کی ہیئت مختلف مقامات کے دیکھنے والوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ سوائے قریب الافق مقامات کے ایک شکل و صورت پر ایک وقت میں چاند کہیں نظر نہیں آتا۔ عرب اور اس کے قریب الافق مقامات میں تاریخ نگاری کا رواج بالکل نہیں تھا ان کی تاریخ راویوں کے بیانات ہی سے مدون ہوئی ہے اوراسلام کے غلبہ کے بعد تمام لکھنے پڑھنے والے افراد اور تدوین و تصنیف کرنے والے لوگ اسلام لا چکے تھے۔ ان ہی راویوں نے اس واقعہ کی روایت بیان کی اور ہم تک پہنچی۔ غیراسلامی جماعت کے افراد کی کوئی تاریخ تدوین کردہ اس وقت کی موجود ہو اور اس میں یہ واقعہ درج نہ ہو تو خیر اس کی صحت پر کچھ اثر بھی پڑے۔

بہرحال یہ روایتی بحث ہے۔ اسلام اور نبوت رسول کی بنیاد معجزہ شق القمر پر ہرگز نہیں ہے۔ اس کی بنیاد ان عظیم الشان گوناگوں معجزات پر ہے جو اس ایک قرآن عظیم میں مضمر ہیں۔ یہی ہزاروں معجزوں کا ایک معجزہ ہے جو ہمیشہ کے واسطے رسول کی تصدیق کے لئے بہترین دلیل او رحجت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ خود قرآن میں موجود ہے کہ آنحضرت کو معجزے عطا نہیں فرمائے گئے۔ ثبوت میں ۱۴ آیتیں پیش کی جاتی ہیں۔ مگر ان آیتوں میں کہیں بھی معجزہ کی لفظ نہیں ہے۔ ان میں جو کچھ ہے وہ ”آیات“ اور ”بینات“ کی لفظ ہے۔ ان ہی کا ترجمہ ”معجزہ“ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ان آیات سے معجزہ کی نفی کا ثبوت اسی وقت ہو سکتا ہے۔ جب یہ مان لیا جائے کہ قرآنی اصطلاح میں معجزہ کو ”آیت“ اور ”بینہ“ کہا جاتا ہے۔ اگر اس کو مان لیا جاتا ہے تو آپ کو قرآن مجید میں حسب ذیل ۲۸ مقام پر واصح اور صاف الفاظ میں ثبوت ملے گا کہ ہمارے رسول کو بھی معجزات عطا ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

نمبر ------- پارہ ------ سورہ ------ مضمون

۱ ---------------------- یقینا ہم نے اتارے ہیں تم پر روشن معجزات، اور نہیں انکار کر سکتے ان کا مگر فاسق لوگ ۔

۲ -------- ۲ ----- بقرہ ------ جو لوگ علم نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ کیوں ہم سے خدا بات نہیں کرتا یا کوئی خاص معجزہ کیوں نہیں اترتا۔ ایسا ہی کہا تھا ان لوگوں نے جو ان کے پہلے تھے ان کے ہی قول کی مثل یقیناً ہم نے معجزات ظاہر کئے ان لوگوں کے لئے جو یقین لانے پر آمادہ ہیں۔

۳ ---------------- اگر تم نے لغزش کی بعد اس کے کہ معجزے تمہاری طرف آ چکے تو جان لو کہ خدا زبردست اور صاحب حکمت ہے۔

۴ --------------- کیونکہ خدا راہ راست پر لائے گا ان لوگوں کو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد پھر انکار کیا اور گواہی دی کہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس معجزے آئے۔ اور خدا ہدایت نہیں کرتا ان لوگوں کی جو ظالم ہوں۔

۵ -------------- ان لوگوں کے سامنے جو بھی معجزہ ان کے پروردگار کی طرف سے آتا ہے۔ یہ اس سے روگردانی ہی کرتے ہیں۔

۶ ------------- ہمیں معلوم ہے کہ تمہیں رنج ہوتا ہے ان لوگوں کی باتوں سے، یہ لوگ تمہاری ذات کو تھوڑی جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم خدا کے معجزوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں۔

۷ ------------- جنہوں نے جھٹلایا ہمارے معجزوں کو یہ بہرے ہیں اور گونگے ہیں، تاریکی میں مبتلا ہیں۔

۸ ----------- جب آئیں تمہارے پاس وہ لوگ جو ہمارے معجزوں پر ایمان لاتے ہیں تو کہو سلامتی ہے تمہارے واسطے، تمہارے پروردگار نے لازم کر لیا ہے اپنے اوپر رحمت کو،

۹ ------------ جب ان کے پاس کوئی معجزہ آتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ویسی ہی باتیں نہ آئیں جو اور پیغمبروں کو ملی تھیں خدا خوب بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنا پیغام کس طرح بھیجے۔

۱۰ -------------- یقیناً آیا تمہارے پاس معجزہ تمہارے پروردگار کی جانب سے اور ہدایت و رحمت تو پھر کون شخص زیادہ ظالم ہو گا اس سے کہ جو خدا کی طرف کے معجزات کی تکذیب کرے اور ان سے روگردانی کرے۔

۱۱ ------------- جب ہم کسی ایک معجزے کے بجائے بدل کر دوسرا معجزہ بھیج دیتے ہیں اور خدا زیادہ واقف ہے اس چیز کے متعلق جسے وہ اتارتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم تو اپنے دل سے گڑھتے ہو۔ بلکہ اکثر ان میں سے علم نہیں رکھتے۔

۱۲ --- ۱۴ ---- النحل_۱۰۴ ------ وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے خدا کے معجزات پر خدا ان کو جبراً راہ راست تک نہیں پہنچائے گا اور ان کے لئے دردناک سزا مقرر ہے۔

۱۳ ----- ۱۵ ----- الإسراء_۹۷_۹۸ ------ ہم ان کو روز قیامت اندھا بہرا محشور کریں گے یہ ان کا بدلہ ہے اس بات کا کہ انہوں نے ہماری طرف کے معجزوں کا انکار کیا۔

۱۴ ------- ۱۵ ------- الكهف_۵۷ ------ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جس کو اس کے پروردگار کی طرف کے معجزات کے ذریعہ سے یاددہانی کی گئی مگر اس نے روگردانی کی۔

۱۵ ---------- ۱۶ ------- مريم_۷۷ ------- کیا دیکھا تم نے اس شخص کو جس نے انکار کیا ہمارے معجزات کا۔

۱۶ -------- ۱۷ ------- الحج_۱۶ ------- ہم نے اس کو اتارا ہے، روشن معجزوں کی حیثیت سے اور خدا ہدایت کرتا ہے جس کی چاہتا ہے۔

۱۷ -------- ۱۸ -------- المؤمنون_۵۷_۵۸_۵۹_۶۰_۶۱ ------- وہ لوگ جو اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو اپنے پروردگار کی طرف کے معجزات پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نیک باتوں میں تیزی کرتے ہیں اور قدم آگے بڑھاتے ہیں۔

۱۸ -------- ۱۸ ------- النور_۱ -------- سورہ ہے جس کو ہم نے اتارا اور مقرر کیا اور اس میں معجزات اتارے کہ جو روشن ہیں۔

۱۹ ------- ۱۸ ------- النور_۳۴ ------- یقیناً ہم نے تمہاری طرف اتارے ہیں واضح معجزات اور ویسی ہی باتیں جو پہلے زمانہ کے لوگوں کو ملی تھیں اور موعظہ و نصیحت پرہیزگاروں کے لئے۔

۲۰ --------- ۱۸ -------- النور_۴۶ ------ ہم نے اتارے ہیں روشن معجزے اور خدا جس کو چاہتا ہے راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

۲۱ -------- ۲۰ -------- النمل_۹۳ ------ کہو الحمدللہ عنقریب ہم تمہیں معجزات دکھلائیں گے جنہیں تم پہچانتے ہو گے۔

۲۲ ------- ۲۳ ------- الصافات_۱۴_۱۵ ------ جب وہ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہے مگر کھلا ہوا جادو۔

۲۳ ---------- ۲۴ ------- غافر_۸۱ ------ دکھلا رہا ہے وہ اپنے معجزے۔ پس خدا کے کن کن معجزات کا تم انکار کرو گے۔

۲۴ -------- ۲۵ ------- الجاثية_۹ -------- جب ہمارے معجزات میں ان کو کسی کا علم ہوتا ہے تو یہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے لئے ذلت آمیز سزا ہے۔

۲۵ ------- ۲۶ -------- الأحقاف_۷ ------- جب ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ہمارے روشن معجزے تو جو لوگ انکار کرتے ہیں۔ وہ حق کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے۔

۲۶ ------- ۲۷ ------- الحديد_۹ ------ وہ اتارتا ہے اپنے بندہ پر روشن معجزات تاکہ نکالے تمہیں تاریکی کے پردوں سے روشنی کی طرف۔

۲۷ ------- ۲۸ ------ الصف_۶ ----- کہا عیسیٰ بن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل میں خدا کا رسول ہوں تمہاری جانب تصدیق کرنے والا اس توریت کی جو میرے قبل تھی اور بشارت دینے والا ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا تو جب وہ آیا ان کی طرف معجزات کے ساتھ تو انہوں نے کہا کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے۔

۲۸ ------- ۳۰ ------- البينة_۴ ------- نہیں اختلاف کیا ان لوگوں نے کہ جنہیں کتاب عطا ہوئی ہے مگر بعد اس کے کہ ان کی طرف معجزہ آ گیا۔

ان تمام آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ رسالت مآب بھی اسی طرح معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے جس طرح سابق انبی(ع)ء معجزات کے ساتھ آئے تھے اب جب کہ اتنی آیتوں میں رسول کو معجزوں کا عطا کیا جانا مذکور ہے تو غور کیجئے ان چودہ آیتوں پر جو اس کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں کہ ہمارے رسول کو معجزے نہیں عطا ہوئے۔

بات یہ ہے کہ سنت آلٰہیہ یہ رہی کہ تمام انبیا کے معجزے یکساں نہیں رہے بلکہ ہر نبی کو حکمت و مصلحت کے لحاظ سے مخصوص معجزات عطا ہوئے جو اسی نبی سے خاص ہیں۔ رسول کو بھی خدا کی طرف سے وہ معجزات عطا ہوئے جو آپ کے ساتھ خاص ہیں۔

مشرک لوگ عناد اور تعصب سے ان تمام معجزوں سے سرتابی کرتے ہوئے کبھی مضحکہ کے انداز پر اور کبھی بہانہ کے طور پ رنئے نئے معجزوں کی فرمائش کرتے تھے۔ حقیقت طلبی کے جذبہ سے نہیں بلکہ صرف اپنے انکار کی سخن پروری کے لئے۔ اور کبھی یہ چاہتے تھے کہ بالکل وہی معجزے جو سابق انبی(ع)ء کو مل چکے ہیں وہ ان کو بھی دیئے جائیں۔ ان کے جواب میں کبھی یہ کہا گیا ہے کہ یہ معجزات پہلے انبی(ع)ء پر آ چکے ہیں اور لوگوں نے تکذیب کی۔ پھر اب ان ہی معجزات سے کیا فائدہ اور کبھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ معجزے دیکھو گے تب بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے۔ اور کبھی یہ کہا گیا کہ معجزے تمہارے سامنے موجود ہیں اگر تم ایمان لانا چاہو تو وہ کافی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہر فرد کی فرمائش پر معجزہ ہی ہونے لگے تو معجزہ بازیچہ اطفال بن جائے اور اس کی غیرمعمولی عظمت و اہمیت باقی نہ رہے۔

اب ان آیتوں پر الگ الگ نظر ڈالئے۔ خود ان کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ یہ خاص فرمائشی معجزات سے متعلق ہیں۔

( ۱) کہتے ہیں کہ خدا نے تو ہم سے عہد کیا ہے کہ جب کوئی رسول یہ معجزہ نہ دکھائے کہ وہ قربانی کرے اور اس کو آسمانی آگ آ کر چٹ کر جائے اس وقت تک ہم ایمان نہ لائیں گے۔ تم کہدو کہ بہت پیغمبر مجھ سے قبل تمہارے پاس واضح اور روشن معجزات اور جس چیز کی تم نے فرمائش کی ہے لے کر آئے تم نے قتل کر ڈالا۔

( ۲) کہتے ہیں کہ اسی نبی پر اس کے پروردگار کی جانب سے کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ تم کہدو کہ خدا معجزے کے نازل کرنے پر ضرور قادر ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اس آیت کے قبل یہ موجود ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ان لوگوں کے اقوال سے تمہیں صدمہ پہنچتا ہے یہ لوگ فقط تمہاری ہی تکذیب تھوڑی کرتے ہیں بلکہ خدا کے معجزوں کی تکذیب کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ آیت ہے کہ جو لوگ ہمارے معجزوں کی تکذیب کرتے ہیں یہ تاریکیوں میں اندھے اور گونگے ہیں۔

( ۳) ان لوگوں نے خدا کی سخت قسمیں کھائیں کہ ان کے پاس کوئی معجزہ آئے تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے، ”کہو کہ معجزہ تو بس خدا ہی کے پاس ہے اور تمہیں کی امعلوم کہ معجزے آئیں گے تو یہ ایمان نہ لائیں گے۔ اور ہم ان کی آنکھیں الٹ پلٹ کر دیں گے۔“

کتنے غضب کی بات ہے کہ ترجمہ لکھ کر اتنا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ بعد کا ٹکڑا مقصد کے لئے مضر ہے۔

آخری فقرہ کو اس طرح ملا کر پڑھئے ”اور ہم ان کی آنکھیں الٹ پلٹ کر دیں گے جس طرح یہ لوگ ایمان نہیں لائے اور چھوڑ دیں گے ان کو سرکشی میں ان کی تاریکی میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے۔“

اس سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے معجزہ آیا اور یہ لوگ ایمان نہیں لائے او راب ان کی خواہش صرف سرکشی اور عناد پر مبنی ہے۔ اسی لئے ان کا مطالبہ پورا نہیں کیا جاتا۔

( ۴) جب تم ان کے پاس کوئی خاص معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے اسی کو کیوں نہ منتخب کیا۔ تم کہدو کہ میں تم بس وحی کا پابند ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس آتی ہے۔“

اس آیت سے کسی طرح مطلب نکل ہی نہیں سکتا تھا جب تک اس کے معنی میں ترمیم نہ کی جائے۔

اس لئے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ ”جب تم ان کے پاس کوئی معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے اسے کیوں نہیں بنا لیا۔“

آیت میں یہ لفظ ہے (لولا اجتبیتھا) اجتباء کے معنی بنانے کے ہرگز نہیں ہیں بلکہ اجتباء کے معنی منتخب کرنے کے ہیں اور انتخاب کے لفظ سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے معجزات ان کے سامنے موجود تھے مگر وہ یہ چاہتے تھے کہ جو معجزہ وہ کہہ رہے ہیں وہی پیش کیا جائے۔ اس لئے وہ کہتے تھے کہ آپ نے بجائے دوسرے معجزات کے اسی کو کیوں نہ منتخب کیا۔

( ۵) کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ تو تم کہدو کہ ”غیب تو صرف خدا کے واسطے خاص ہے“ اس میں اصل آیت میں اتنا ٹکڑا اور ہے، ”پس انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔“

انتظار اسی بات کا ہوتا ہے جو آئندہ ہونے والی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں مطلوبہ معجزہ کا انکار نہیں کیا گیا ہے بلکہ آئندہ کا وعدہ کیا گیا اور چونکہ خدا کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا اس لئے ماننا پڑے گا کہ یہ معجزہ ضرور ظاہر ہوا۔

( ۶) یہ لوگ کہہ بیٹھیں کہ خزانہ کیوں نہیں نازل کیا یا اس کے ساتھ فرشتہ کیوں نہ آیا۔ تو تم صرف ڈرانے والے ہو، خدا ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔ اس میں تو معجزہ کا کہیں نام بھی نہیں ہے بلکہ دو خاص باتوں کا ذکر ہے، ایک خزانہ نازل ہونا اور دوسرے ان کے ساتھ فرشتہ کا لوگوں کے سامنے آنا۔ ان دونوں باتوں کی نفی سے مطلق معجزہ کا انکار کہاں ثابت ہوتا ہے۔

( ۷) تم سے کہا کہ جب تک تم ہمارے واسطے زمین سے چشمہ نہ بہا نکالو گے ہم تم پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے یا کھجوروں کا اور انگوروں کا تمہارا کوئی باغ ہو ان میں تم بیچ بیچ میں نہریں جاری کرکے دکھا دو۔ یا جیسا تم گمان رکجھتے تھے ہم پر آسمان ہی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گراؤ۔ یا خدا اور فرشتوں کو گواہی میں لا کھڑا کرو۔ یا تمہارے لئے کوئی طلائی محل سرا ہو، یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور جب تک تم ہم پر کتاب نازل نہ کرو گے کہ ہم اسے خود پڑھ بھی لیں اس وقت تک ہم تمہارے قائل نہ ہوں گے۔ تم کہدو کہ سبحان اللہ میں ایک آدمی رسول کے سوا اور آخر کیا ہوں۔ اس میں بھی تمام تر فرمائشی معجزات کا تذکرہ ہے اور مطلق معجزہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

( ۸) کہتے ہیں کہ یہ اپنے پروردگار کی طرف سے ہمارے پاس کوئی معجزہ کیوں نہیں لاتے۔ تو کیا اگلی کتابوں میں ان کے پاس نہیں پہنچے۔ یہ ترجمہ بھی غلط ہے اور بالکل بے معنی ہے۔

آخری فقرہ کا آیت کے ترجمہ یہ ہے کہ ”کیا اگلی کتابوں میں جو کچھ تھا۔ اس کا ثبوت (بینہ) ان کے پاس نہیں آیا۔“

اس سے تو بینہ یعنی دلیل نبوت کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ معجزہ کی نفی کہاں ثابت ہوتی ہے۔

( ۹) جس طرح کے اگلے پیغمبر(ع) معجزے لائے تھے ویسا ہی کوئی معجزہ یہ بھی کیوں نہیں لاتا۔ ان سے پہلے ہم نے جن بستیوں کو تباہ کر ڈالا وہ ان معجزات پر ایمان نہیں لائے تو کیا یہ لوگ ایمان لائیں گے۔“

اس میں بھی ان ہی خاص طرح کے معجزات کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پہلے انبی(ع)ء پر اتر چکے تھے اور ان ہی کا انکار کیا گیا ہے۔

( ۱۰) ” جب حق ان کے پاس پہنچا تو کہنے لگے جیسے موسیٰ(ع) کو معجزے عطا ہوئے ویسے ہی اس رسول کو کیوں نہیں دیئے گئے۔ کیا جو معجزے موسیٰ(ع) کو عطا ہوئے ان سے ان لوگوں نے انکار نہ کیا تھا۔“ اس میں تو خاص حضرت موسیٰ(ع) کے معجزات کا تذکرہ ہے۔

( ۱۱) کہتے ہیں کہ اس کے پروردگار کی طرف سے معجزے کیوں نہیں نازل ہوئے۔ کہہ دو کہ ”معجزے تو بس خدا ہی کے پاس ہیں اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔“ اس کے پہلے یہ آیت موجود ہے کہ ”یہ روشن معجزات ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جو صاحبان علم ہیں اور ہمارے معجزات کا انکار وہی کرتے ہیں کہ جو ظالم ہیں۔“

اس سے صاف طور پر معجزوں کا ثبوت ہوتا ہے۔ اب اگر اسی کے بعد اس جماعت کا انکار مذکور ہے تو یہ صرف ان کی ہٹ دھرمی کا اظہار ہے۔

جبکہ ۲۸ جگہ قرآن میں صاف معجزات کا ثبوت موجود ہے اور گیارہ آیتیں ان چودہ نکات میں سے جو معجزوں کی نفی کے متعلق پیش کی گئی ہیں وہ صرف فرمائشی معجزات سے متعلق ہے اور خود ان میں ایسے ضمیمے اور قرائن موجود ہیں جو معجزات کے وجود کا پتہ دیتے ہیں تو اگر دو تین آیتوں میں صرف یہ الفاظ نظر آئیں گے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ معجزہ کیوں نہیں دکھایا جاتا، تو ماننا پڑے گا کہ یہاں بھی مراد خاص مطلوبہ معجزات ہیں اور کچھ نہیں۔

اصول دین

اول توحید:

خدا ایک ہے اس کا شریک کوئی نہیں۔

قدرت جو کائنات کے ذرہ ذرہ میں شامل ہے ذات قادر کا پتہ دے رہی ہے اس حیثیت سے اسی کو قدرت بھی کہہ سکتے ہو کہ اس کی ذات سے الگ قدرت کوئی چیز نہیں۔

دوم عدل:

خدا عادل ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک طرف رحیم و غفار ہے اور دوسری طرف قہار۔ عذاب نازل کرنا عدل کا نتیجہ ہے۔ عاصیوں کے گناہوں کی پاداش معصوموں کو نہیں ملتی۔ جو عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں وہ یا گناہ کرنے سے یا بخوشی گناہگاروں کا ساتھ دینے سے۔ رحم بھی عدل کے حدود کے ماتحت ہوتا ہے۔ اتفاقی گناہ کا مرتکب جب کہ دل سے پشیمان ہوا تو رحم کا حقدار ہے اس استحقاق کے درجے مختلف ہیں۔ سرکش اور گناہ پر اصرار رکھنے والا آدمی رحمت کا حقدار نہیں نہ اس پر رحمت کی برش ہے، وہ قہر کا مستوجب ہے اور یہ قہر بھی عدالت کا نتیجہ ہے۔ محل اور موقع جداگانہ ہے۔ ہر ایک کا کردار جدا اور اس کے ساتھ برتاؤ بھی الگ ہے، یہی عین عدالت ہے بے شک عزت و ذلت، بادشاہت اور فقیری، دینا اور لینا، فراغت اور بے فکری سب خدا کے چاہنے سے ہوتی ہے مگر اس کا چاہنا حکمت و عدالت کے اصول کے موافق ہوتا ہے۔ کفار کی جسانی طاقت مقابلہ بھی اسی کی دی ہوئی ہے اگر اس نے ان کے مقابلہ میں اپنے رسول کو فرشتوں کی غیبی طاقت عطا کرکے توازن قائم کر دیا تو اصول عدالت کے خلاف کیا ہے؟

کفار کی شرارتوں اور فساد کی طاقتوں کو شکست دینا جس طرح بھی ہو صلاح عالم کا ذریعہ ہے جو عین حکمت کے مطابق ہے۔ عدالت اصول حکمت و مصلحت کے لحاظ ہی کا نام ہے۔ جو شے موافق حکمت ہو وہی عدالت ہے۔

جب تک انسان طالب حقیقت رہتا ہے خدا مدد کرتا ہے اور ایسے اسباب فراہم کرتا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر آ جائے۔ جب انسان ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے تو خدا اس کی پاداش میں اپنی نگاہ موڑ لیتا ہے اور گمراہی چھوڑ دیتا ہے۔ یہ بداعمالی کی ایک سزا ہے جو اصول عدالت کے مطابق ہے۔ اس نگاہ موڑ لینے کے بعد دلوں کے مرض میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ بھی اپنے کرتوت کا نتیجہ ہے اسی کا نام ڈھیل دینا ہے۔ الٹ پلٹ کرنا بھی کرتوتوں کی بدولت ہے تو عدالت کے خلاف کیا ہے۔ بے شک خدا چاہتا تو جبری طاقت سے کام لیتا، اس صورت میں یہ لوگ شرک نہ کرتے مگر یہ جبر کرنا اصول عدالت کے خلاف ہوتا۔ اسی طرح وہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر ایسا بھی عدالت ہی کی بناء پر نہ ہوا۔ وہ چاہتا تو ایک ہی گروہ بنا دیتا مگر اسے تو ہر ایک کے اختیار عمل کے مطابق اس سے سلوک کرنا ہے۔ جو اپنے اختیار سے گمراہی پر مصر ہیں خدا انہیں گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے، خدا کی توفیق سلب ہونے سے غفلت میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ یہ آنکھوں پر پردوں کا پڑنا ہے اور بیشک جو اتنا بداعمال ہو کہ خدا اسے گمراہی کے سپرد رہنے دے اور ہدایت سے ہاتھ اٹھا لے تو پر کون اسے راہ راست پر لا سکتا ہے۔ کوئی اسے راہ پر لانے والا نہیں۔ کیونکہ اس کا عناد اور اصرارہدایت کی آواز پر رخ ہی نہیں کرنے دے گا۔

اس سے کیا حرف آ سکتا ہے اس قدرت کاملہ کے انصاف پر جو کامل عقل اور مکمل عدل ہے۔

سوم نبوت:

نبی کی تصدیق ان خصوصی دلائل اور آیات وبینات کے ذریعہ سے ہو گی جو اس کے کمال صفات اور بلندی ذات اور خداوندی انتساب کے شاہد ہیں۔ انہی دلائل سے اس کے بشیر و نذیر ہونے میں اثر پیدا ہو گا۔ جو اس کے دلائل سے ایمان نہ لائے گا وہ اس کے بشارت و انذار سے اثرپذیر بھی نہیں ہو گا۔

چہارم امامت:

پیغمبر کی جانشینی ہے اس لئے پیغمبر کی زبان سے نام کا اعلان کافی ہے۔ قرآن تو مجمل ہدایات کا مجموعہ ہے جس کی تفصیل پیغمبر کے قول و عمل سے ہوئی ہے۔ اسی لئے ہم تنہا قرآن کو ہدایت کے لئے کافی نہیں سمجھتے پھر جو شخص کہ قرآن کو بنی امیہ کی تالیف بتاتا ہو اسے تو قرآن میں ائمہ کے نام ڈھونڈنے کا کوئی موقع ہی نہیں۔ بقول شخصے” قلم در کف دشمن است“ بنی امیہ کی تالیف اور اس میں ہمارے ائمہ کے نام، یہ غلط خیال و محال ہے۔

پنجم معاد:

یہ جزا و سزا کے لئے انسانوں کی باز گشت ہے۔ اس کے ثبوت کے لئے عقل کا فیصلہ ہے۔ تفصیلی حالات اور بہشت و دوزخ کے کیفیات بے شک نبی کی زبان سے معلوم ہوئے۔ مگر نبی کی سچائی ان کے دلائل نبوت سے جب حاصل ہے تو آئندہ کے لئے ان کا قول ہر طرح سند ہے واقفیت کے لئے ان کا بتلانا کافی ہے۔ خدا کو دیکھا نہیں عقل سے پہچانا ایسے ہی قیامت کو سمجھ لو۔

فروع دین

اول نماز:

خدا کے حکم کی پابندی کے لئے اس کی بارگاہ میں تھوڑی دیر کی حاضری ہے۔ بے سمجھے ہوئے بھی پڑھتے ہیں صرف حکم کی پابندی کے لئے۔ یہ بھی عین فرض شناسی ہے جو عبادت کی حقیقت ہے۔

دوسرے روزہ:

بے شک صحت و برداشت کے ساتھ ہے مگر بیماری کے لئے اصلیت درکار ہے۔ بہانہ بازوں کا اعتبار نہیں۔

تیسرے حج:

استطاعت کی صورت میں فرض ہے مگر بغیر استطاعت بھی قبول ہے۔ بہت سوں کو جب ایک دفعہ عمر بھر میں استطاعت حاصل ہو گئی تو پھر چاہے روپیہ اڑ جائے، حیثیت لٹ جائے حج کا فرض عائد ہے۔ ایسے بہت کم ہوں گے جنہیں عمر بھر میں ایک دفعہ بھی اتنی استطاعت نہیں ہوئی۔

چوتھے زکوٰة:

مقدرت کیسی، مخصوص مقدار سے زیادہ روپیہ کو ایک سال تک روکے رہنے پر واجب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا سرمایہ چلتا پھرتا رہے۔ کام میں لگا رہے ایک جگہ بند کرکے نہ رکھا جائے۔

پانچویں خمس:

مصارف اس کے مقرر ہیں۔ اب بھی موجود ہیں۔ یہ فروع محل نظر ہے۔

چھٹے جہاد:

خود سے پیش قدمی کرنا ہو تو اجازت امام درکار ہے مگر مدافعانہ جنگ کا دروازہ کھلا ہے۔ حفاظت خوداختیاری کے لئے قوم و ملت کی جانب سے جہاد میں اجازت امام کی ضرورت نہیں ہے۔

امامت

بارھویں امام(ع) کی حیات کے لئے عقلی دلائل کی تلاش ہے، عقل بتلاتی ہے کہ خدا کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ رسول کی پیشین گوئی جھوٹ نہیں ہو سکتی۔ قطعی دلائل سے ثابت ہو جانے والے پیشوایاں اور ائمہ معصومین(ع) کی بات مہمل نہیں ہو سکتی۔

زندگی اور موت دونوں ممکن الوقوع باتیں ہیں۔ ہر ممکن کے ثبوت یا نفی کی تعین ذرائع اطلاع سے ہوتی ہے۔ بارھویں امام کی زندگی کے لئے خبریں موجود ہیں۔ موت کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے عقل کا فیصلہ ثبوت کے حق میں ہے۔

یاد رہے کہ امکانی حوادث میں عقلی دلائل صرف امکان سے متعلق ہو سکتے ہیں وقوع سے نہیں۔ روزمرہ کے ہونے والے حوادث میں بھی دلیل عقلی سے وقوع کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ مثلاً زید کی عمر ساٹھ برس ہونا کس عقلی دلیل سے ثابت ہے؟ اس کے باپ کی عمر پچاس سال ہونا۔ اس کے دادا کی عمر پینسٹھ سال ہونا۔ اس کے کسی بھائی کا صرف بیس برس کی عمر مں انتقال ہو جانا۔ اس کے کسی فرزند کا تین ہی برس کی عمر میں باپ کو داغ جدائی دے دینا۔ اس کے ایک بچہ کا شیرخوارگی ہی کے عالم میں رخصت ہو جانا وغیرہ ان تمام واقعات کو اور اس افتراق حالات کو اگر عقلی معیار سے جانچنے کی کوشش کی جائے تو دلائل ساتھ چھوڑ دیں گے، حجت و برہان جواب دے دیں گے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ جب ان حوادث روزگار میں کسی ایک کے عقلی ثبوت کا مطالبہ کیا جائے تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بات بھی غیرممکن اور محال نہیں ہے پھر جب معتبر اشخاص نے اس کے وقوع کو بیان کیا اور متعلقہ افراد نے جو واقف ہو سکتے تھے خبر دی ہے تو یہی ذریعہ اس کے وقوع کے تسلیم کرنے کا ہے۔

عمر کے متعلق جہاں تک غور کیا گیا عقلائے عالم، حکمائے زمانہ، اطبائے دہر شروع سے اب تک اس کا کوئی معیار ہی نہیں مقرر کر سکے ہیں کہ کس بناء پر کس کی عمر زیادہ اور کس کی کمی ہوئی ہے اور یہ کہ واقعی اس کی ایک منضبط حد کیا ہے پھر جب عقلی حیثیت سے اس کا کوئی معیار ہی نہیں مقرر ہو سکا تو اس میں حدبندی کا حق کیا ہے کہ اتنی عمر تو ہو سکتی ہے مگر اس سے زیادہ نہیں۔ رہ گیا مشاہدہ تو حوادث کائنات میں ہر زمانہ میں ایسی صورتیں ظاہر ہوتی رہتی ہیں جن کے مثل مشاہدہ اس کے قبل نہ ہوا تھا حالانکہ اگر صرف مشاہدہ کی بناء پر ہم کوئی مقدار مقرر کریں تو جو بھی زیادہ سے زیادہ مقدار مقرر کریں گے اس میں کوئی ایک فرو غیرمعمولی ضرور ہو گی۔

کوئی کتنا ہی جئے، چاہے ہزاروں برس کی عمر ہو پھر بھی آخر میں تو یہ زندگی ختم ہونا ہے۔ قرآن ٹھیک کہہ رہا ہے کہ کسی بشر کو سدا کی زندگی نہیں دی گئی۔ سدا یعنی ہمیشہ کی زندگی کسی کو بھی نہیں۔

تاریخی مشاہدے:

دو ہزار برس یا اس کے پہلے سے تاریخی دور ہے۔ اس مدت میں بہت سوں کے متعلق تاریخ غیرمعمولی طور پر طولانی عمر کا پتہ دیتی ہے۔

نام شخص عمر نام شخص عمر

شریح قاضی ۱۲۱ سال عمرو بن المسیح ۱۵۰ سال

ارطاة بن سہیہ ۱۳۰ قروة بن نفاثہ سلولی ۱۵۰

فرزدق شاعر ۱۳۰ معاذ بن مسلم ہراء ۱۵۰

منقذ بن عمرو ۱۳۰ ابورہم بن مطعم ۱۵۰

ابو عثمان الہندی ۱۳۰ بحر بن حارث کلبی ۱۶۰

جبیر بن اسود ۱۳۴ بشر بن معاذ توزی ۱۶۰

لبید بن ربیعہ ۱۴۰ میمون بن حریز ۱۷۵

طفیل بن زید حارثی ۱۴۰ صبیرہ بن سعد ۱۸۰

طفیل بن یزید مازنی ۱۴۰ نابغہ جعدی ۱۸۰

قیس بن سائب ۱۴۰ اوس بن حارثہ بن لام طلائی ۲۰۰

جابر بن عبداللہ عقیلی ۱۵۰ حتطلہ بن شرتی ۲۰۰

زربن حبیش ۲۱۲ اماناة بن قیس بن شیباں ۳۲۰

عبید بن شریہ ۲۴۰ جہمتہ بن عوف ۳۶۰

سلمان فارسی ۲۵۰ شیخ یمن ۳۹۰

حظر بن مالک ۲۸۰ جبیر بن حارث ۵۷۰

عمرو بن صممہ ۳۰۰ زریب بن ثرملا ۱۹۰۰

یہ چند واقعات ہیں جو سردست عرب کی تاریخ سے پیش نظر ہیں۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ اور ایران کے سلاطین کی تاریخ میں ایک ایک کی عمر سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک کی مندرج ملتی ہے۔

اب کوئی ان سب کا انکار کرے اور پھر کہے کہ ”بتائیے تاریخ میں کس کو زندگی کے لئے یہ دن نصیب ہوئے ہیں۔“ تو اس کا کیا علاج ہے۔

فطرت کا کوئی آئین ایسا منضبط نہیں دکھلایا جا سکتا جس کی بناء پر عمر کے لئے خاص مدت ثابت ہو۔

یہ کہنا کہ قدرت کا قانون ہے کہ بچہ جوان ہو کر بوڑھا ہو جاتا ہے کیا مشاہدہ کے سوا کسی عقلی استدلال پر مبنی ہے؟ پھر مشاہدہ کا حال تو اس کے پہلے معلوم ہو چکا ہے۔

”جوان ہو کر بوڑھا ہوتا ہے“ مگر جوانی کتنے دن تک قائم رہ سکتی ہے اس کا کوئی کلیہ اور اصول نہیں۔

فطرت کے آئین ہیں کہ بڑھاپے میں اعضاء روزبروز مضمحل ہوتے ہوتے روح فراہم کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر بڑھاپا کب آ جائے گا۔ یہ عمر کے لحاظ سے مختلف ہے، پھر جب کہ عمر کی کوئی میعاد نہیں تو بڑھاپے کی حد کون مقرر کر سکتا ہے۔

فطرت کا آئین جو واقعات کی بناء پر ثابت ہے اس آئین کا انضباط خود سنے ہوئے غیرمعمولی واقعات کی تصدیق اور تکذیب پر ہے یعنی اگر ان واقعات کو تسلیم کر لیا جائے تو حدود آئین اتنے وسیع ہو جائیں گے اور تکذیب کی جائے تو حدود آئین مختصر۔

اس صورت میں خود آئین اس واقعہ کی تصدیق یا تکذیب کا معیار کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے۔

قدرت کے قاعدوں کی کوئی لفظی کتاب ہرگز نہیں ہے۔ اگر ہے تو واقعاتی کتب جس کے سطور حوادث کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اگر کوئی واقعہ غیرمعمولی صورت پر ہوا ہے تو وہ بھی اس کتاب کا ایک جزو ہے۔ اس کا انکار کر دینا اس کتاب کی ایک سطر کو چھیل دینا یا محو کر دینا ہے۔

ذاتی تجربے؟ اللہ اللہ کہاں عالم کی وسیع اور لامحدود کائنات اور کہاں انسان کا محدود تجربہ۔ اگر انسان کے محدود تجربہ ہی میں ”قضا کی فضا“ کو محدود کر دیا جائے تو گولر کے بھنگے کی دنیا بے شک گولر کی اندرونی محدود فضا ہی ہے۔

انسان اشرف المخلوقات، صرف اس لئے ہے کہ وہ اپنی جہالت کا احساس کرتا ہوا اآگے بڑھتا رہتا ہے اور اگر کہیں وہ اپنے کو جہانیاں جہاں گشت محقق ماضی و حال، مستقبل اندیش، نکتہ رس، حقیقت آشنا سمجھ کر طلب سے قدم روک بیٹھا اور کائنات کو اپنے محدود تجربوں اور مشاہدوں کا پابند سمجھنے لگا تو وہ ہرگز گولر کے بھنگے اور کنوئیں کے مینڈک یا فضا کے بلند پرواز تیزنظر گدھ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ بے شک عقیدہ عقل کے مطابق ہے اور عقل بتلاتی ہے کہ خالق قویٰ جس کسی کی قوت کو چاہے جتنی مدت تک برقرار رکھے۔ اس میں ہمارا اور کسی کا اختیار نہیں ہے۔ جن چیزوں کو ضروریات زندگی سمجھا جاتا ہے۔ اول تو عقلی حیثیت سے ضروریات زندگی نہیں بلکہ اس دنیا کی کثیف و ثقیل غذاؤں کے پیداکردہ ضروریات ہیں۔ دوسرے یہ کہ ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے کسی خاص عمر کی حد نہیں مقرر ہے۔ وہ قوائے طبعی کے سلامت رہنے کے ساتھ بہرحال پورے ہو سکتے ہیں۔

گمراہی کا دور انبیاء و مرسلین(ع) کی موجودگی میں بھی رہا۔ ائمہ کے زمانہ میں بھی رہا۔ اب بھی ہے۔ ہدایت پانے والے جب بھی ہدایت پاتے تھے اب بھی ہدایت پاتے ہیں۔ امامت گیارہ اماموں کی، زمانہ والوں کی مخالفانہ سرگرمیوں کے باعث پوشیدہ رہی مگر وہ بزرگوار برابر کسی نہ کسی پردہ میں ہدایت کے فرائض انجام دیتے رہے اسی طرح بارھویں امام بھی اپنا فرض انجام دیتے رہے ہیں جو حاصل ان امامتوں کا تھا وہی اس امامت کا بھی ہے اور یہی عدل الٰہی کا تقاضا ہے۔

نماز

خدا کے حضور اس کی حمد اپنی عبودیت سے اقبال، نعمتوں کا شکریہ، مدعا کا اظہار ہے۔ دوگانہ ہو یا پنجگانہ۔ یا جماعت، اسلام میں باہم یک جہتی قائم کرنے کو وضع کی گئی ہے۔ اسی یک جہتی کے قائم رکھنے کے لئے اس کے لئے مخصوص الفاظ خاص عربی زبان کے مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ تاکہ وہ آپس کی زبانوں کے باہمی اختلاف کے باوجود ایک متحدہ قوت کا رمزونشان رہے حضور قلب اس تصور سے متعلق ہے کہ یہ کس بزرگ مرتبہ ذات کی عبودیت کا مظاہرہ ہے۔ جتنا یہ احساس قوی ہو گا اتنا ہی حضور قلب اور خضوع و خشوع زیادہ ہو گا۔ ادھرادھر کے دھیان دل میں نہ آئیں گے۔ اس کا زبان فہمی سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو عربی جاننے اور سمجھنے والے سب ہی نماز کو اعلیٰ درجہ کے حضور قلب سے ادا کرتے مگر ایسا نہیں ہے ہزاروں عالم فاضل، عربی دان طالب علم بھی اگر موقع کا صحیح احساس نہیں رکھتے تو دل و دماغ ان کے یکسو نہیں رہتے اور ہزاروں میں ایک بھی حضور قلب سے نہیں پڑھتا۔ یہ معرفت خدا کے نقص کا نتیجہ ہے عربی دانی یا غیرعربی دانی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

بے سمجھے بھی اگر اس احساس کے ساتھ پڑھتا ہے کہ اس کے مالک کا عائدکردہ فریضہ ہے تو یہی عین عبادت ہے۔ دربار قدرت میں اس کی بڑی وقعت ہے اور اس عبادت کی بڑی عزت ہے کیونکہ وہ فرض شناسی کا نتیجہ ہے۔ سوسائٹی میں بھی اس کی بے حد عزت ہے۔ رہ گئی دنیاسازی یہ نیت سے وابستہ ہے۔ اور نیت کا حال بس خدا کو معلوم ہے۔

تقلید

زندگی کے ہر شعبہ میں ناواقف آدمی کا بہتر سے بہتر واقفکار آدمی کو تلاش کرکے اس پر بھروسا کرنا اور اسکے کہے پر عمل کرنا ایک عقلی ناقابل انکار اصول ہے۔ بیماری میں حکیم ڈاکٹر۔ مقدمہ کی کشمکش میں بہترین وکیل اور بیرسٹر۔ مکان کی تعمیر میں ماہر فن انجینئر، غرض ہر کام میں جو اس کا ماہر ہو اسے اپنا علاج و درمان سپرد کیا جائے گا۔ اسی کا نام تقلید ہے۔ واقف کار اور ماہر شخص کی تلاش میں خوب عقل سے سوچ سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ آنکھ بند کرکے ہر ایک کے کہے پر نہ چلنا ورنہ گھاٹے میں رہو گے لیکن جب کسی ایک کو اس شعبہ کا ماہر سمجھ لیا تو پھر اس کی ہدایتوں میں میخیں نہ نکالو۔ اس کی رہنمائی پر عمل کرو یہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اس کے کہے پر چل کر غلطی بھی کی تو اپنا بھی ضمیر مطمئن ہو گا اور دوسروں کو بھی اعتراض کا حق نہ ہو گا اور جو اس کے کہے کے خلاف کیا اور ٹھوکر کھائی تو خود اپنے نزدیک مجرم اور خلق کے نزدیک ملزم ہو گئے۔ نقصن مایہ اور شماتت ہمسایہ اسی کانام ہے۔