تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )9%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 166942 / ڈاؤنلوڈ: 5408
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تاریخ اسلام

دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک

مہدی پیشوائی

مترجم : کلب عابد خان سلطانپوری

مجمع جہانی اہل البیت

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اہل تشیع کے جلیل القدر عالم دین آقائے پیشوائی کی گرانقدر کتاب ''تاریخ اسلام '' فاضل جلیل عالیجناب مولانا کلب عابد خان سلطانپوری ہندی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اس منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

عرض مترجم

عرصۂ داراز سے یہ خواہش تھی کہ ایک ایسی تاریخی کتاب کا ترجمہ کروں جو کسی حد تک کامل، معتبر، مستند اور مدلل ہو۔ جس میں واقعات کے تمام جزئیات کے حوالے درج ہوں۔ اور واقعات کا تجزیہ او ران کی تحلیل نیز شبہات و اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہوں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کافی جستجو اور تحقیق کے بعد، مؤلف محترم جناب مہدی پیشوائی صاحب کی کتاب ''تاریخ اسلام'' میری نظروں سے گزری، کتاب کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوا کہ مجھے ایسی ہی کتاب کی تلاش تھی چنانچہ ابھی اسی فکر میں تھا کہ مجمع جہانی اہل البیت ٪ کی جانب سے اس کتاب کے ترجمہ کا کام میرے سپرد کیا گیا تو میں نے بخوشی قبول کرلیا مضامین و مقالات وغیرہ لکھنے کا شوق پہلے ہی سے تھا اور حقیر کے متعدد مضامین ادارۂ تنظیم المکاتب کے ماہانہ رسالہ میں شائع ہوچکے ہیں لیکن ترجمہ کے میدان میں یہ میری پہلی کاوش ہے۔ترجمہ کیسا ہے یہ فیصلہ قارئین کے حوالہ ہے البتہ اتنا بہرحال طے ہے کہ ایک زبان کے جملہ مطالب کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ وہی حضرات لگاسکتے ہیں جنھوں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے۔ میری کوشش یہی تھی کہ کتاب کے جملہ مطالب ہمارے اردو زبان معاشرہ تک پہنچ جائیں اگر چہ بشریت کے ناطے ہر قسم کے کمال کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

امید ہے کہ میری یہ کوشش بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل کرے گی نیز حقیر اور اس کے تمام بزرگوں کے لئے ذخیرۂ آخرت قرار پائے گی۔

والسلام

احقر العباد:کلب عابد خان

۷

مقدمۂ مولف

تمام تعریفیں اس ذات پروردگار کے لئے ہیں جس نے ہمیں اس کتاب کی نگارش کی توفیق عطا کی اور درود و سلام ہو عظیم الشان رسول، حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے برحق معصوم جانشینوں اور اصحاب پاک پر۔

قارئین کرام کی خدمت میں جو کتاب پیش کی جا رہی ہے یہ دس سال سے زیادہ عرصہ تک ملک کی اعلیٰ علمی درس گاہوں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں نوٹس کی صورت میں تدریس کی جاچکی ہے۔ یہ کتاب، دقیق مطالعہ اور کلاس میں کئے گئے طرح طرح کے تاریخی سوالات کے جوابات میں، تاریخ اسلام سے برسوں کی واقفیت اور انسیت کے بعد تدوین و تالیف ہوئی ہے۔

اس کتاب کی تدوین و تالیف میں کچھ نکات کا لحاظ کیا گیا ہے جس کی طرف قارئین کرام، مخصوصاً طالب علموں اور اساتذہ کرام کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

١۔ کتاب کے پہلے حصہ کی فصلوں میں ظہور اسلام سے قبل، جزیرة العرب کے حالات کو بطور مفصل بیان کیا گیاہے اس لئے کہ اس دور کے حالات سے مکمل واقفیت کے بغیر اسلامی تاریخ کے بے شمار واقعات کا صحیح ادراک کرنا اور ان کا تحلیل و تجزیہ کرنا ناممکن ہے۔

اسلامی تاریخ میں بہت سے واقعات کا تعلق زمانۂ جاہلیت سے ہے لہٰذا ظہور اسلام کے بعد جزیرة العرب کے حالات کو سمجھنے کے لئے ظہور اسلام سے پہلے کے حالات سے واقفیت ضروری ہے۔ اسی بنا پر ان واقعات کے صحیح ادراک اور ان کے ایک دوسرے سے مربوط ہونے اور ظہور اسلام کے بعد اس علاقہ میں آنے والی بنیادی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے اس باب کے مباحث کوکچھ تفصیل سے پیش کیا گیا ہے، اس کے برخلاف بعد کے ابواب میں ہماری سعی و کوشش رہی ہے کہ حتی الامکان اختصار سے کام لیا جائے۔

۸

٢۔ زیادہ تر حوالے حاشیہ پر، اس لئے ذکر کردیئے گئے ہیں تاکہ اگر قاری محترم واقعات کی تفصیلات کو معلوم کرنا چاہے تو اس سے کم از کم بعض حوالہ جات کی طرف رسائی حاصل کرسکے اس کے علاوہ یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ واقعات کی شہرت یا اس کا تواتر ثابت ہو جائے۔

٣۔ عام طور سے تاریخی واقعات کی تفصیلات اور اس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں اس کے حوالے ذکر کئے جاتے ہیں جب کہ اصل میں وہ حوالے ان تمام تفصیلات اور جزئیات کے نہیں ہوتے ۔ ان حوالوں کو دیکھ کر قاری خیال کرتا ہے کہ اس کے زیر مطالعہ بحث کی تفصیلات تمام کتابوں میں موجود ہیں۔ جبکہ یہ طریقہ زیادہ دقیق اور درست نہیں ہے خاص طور سے اگر بعض تفصیلات بہت زیادہ اہم یا محل اختلاف ہوں۔

اس کتاب میں عام روش کے برخلاف ہر واقعہ کی تمام تفصیلات اور پہلوؤں کو بالکل الگ کر کے بیان کیا گیاہے۔ مثال کے طور پر جنگوں کی تفصیلات جیسے وقوع جنگ کا سبب، اس کی تاریخ، دونوں طرف کے سپاہیوں کی تعداد، جنگ کا طریقہ، طرفین کو پہنچنے والے نقصانات، مال غنیمت کی تقسیم کا طریقہ اور جنگ کے آثار و نتائج وغیرہ ، جدا طریقہ سے ذکر ہوئے ہیں ان جزئیات کا مطالعہ کرنے سے قاری متوجہ ہو جاتا ہے کہ واقعات کا کون سا حصہ کس کتاب میں بیان ہوا ہے اور ضرورت کے وقت آسانی سے اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔ مولف کے عقیدہ کے مطابق اس روش کے اپنانے میں (کئی اہم اور لطیف فائدے ہیں) بہت زیادہ دقت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں مؤلف کو زیادہ زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔

٤۔ قرآنی شواہد اور حدیثی تائیدات پوری کتاب میں ذکر ہوئی ہیں البتہ ضرورت کے تحت (قرآن کریم کی آیات، روایات اور تاریخی متون کے خاص حصوں کو عربی متن کے طور پر حاشیہ پر تحریر کردیا گیا ہے اور اس کا ترجمہ اصل کتاب میں نقل کردیا گیا ہے تاکہ کتاب کے متن میں یکسانیت اور روانی باقی رہے اور جو حضرات عربی داں نہیں ہیں ان کے لئے ملال آور نہ ہو۔

۹

٥۔ ضروری مقامات پر بحث کی مناسبت سے تجزیہ اور تحلیل کر کے شبہات کا واضح جواب دیا گیا ہے جبکہ بعض مقامات پر تفصیلی تجزیہ سے پرہیز کرتے ہوئے بہت سے موضوعات (جیسے جنگ فجار میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت اور آپ کے سینہ کا شگافتہ کرنا اور عبد المطلب کے نذر کی بحث) کو اس لئے نظر انداز کیا گیا ہے کہ کتاب کی تدریس صرف ٣٤ درسوں کی صورت میں ہونا طے پائی ہے لہٰذا اس کے لئے اس سے زیادہ ضخیم ہونا مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بعض مطالب تخصصی اور مہارتی پہلو رکھتے ہیں اور ان کے ذکر کا اپنا محل ہے۔ لہٰذا اصل موضوع کی طرف مختصر سے اشارہ کے بعد اس طرح کی بحثوں کے حوالے حاشیہ پر بیان کردیئے گئے ہیں تاکہ اس موضوع میں دلچسپی لینے والے حضرات ان کی طرف رجوع کرسکیں۔

٦۔ دوسرے درجے کے مطالب، اقوال کے اختلاف کی جگہیں، غیر ضروری گوشے اور تکمیلی و اضافی تفصیلات وغیرہ عام طور سے حاشیہ پر بیان کی گئیں ہیں ۔ بہر حال کتاب کو دقیق، مستحکم اور مفید بنانے کے لئے، مطالب کے نقل میں دقت، ترجموں کی صحت، تجزیہ و تحلیل کی درستگی اور پھر ان کی نتیجہ گیری میں ہر ممکن کوشش اور زحمتیں اٹھائی گئیں ہیں ۔ لیکن پھر بھی کتاب، نقص ا و راصلاح و تکمیل سے بے نیاز نہیں ہے۔ لہٰذا اساتذہ کرام اور طلاب محترم اور صاحبان نظر کی تنقید اور مشورے کتاب کی اصلاح اور تکمیل کی راہ میں مفید ثابت ہوں گے۔

خلوص اور وفاداری کا تقاضہ ہے کہ اپنے دیرینہ دوست، نامور خطیب، مایہ ناز قلم کار حجة الاسلام و المسلمین الحاج غلام رضا گل سرخی کاشانی مرحوم کا بھی تذکرہ کروں جن کے تعاون اور مدد سے اس کتاب کی تدوین کا ابتدائی کام انجام پایاہے۔ لہٰذا اپنے اس مرحوم دوست کے لئے خداوند عالم کی بارگاہ میں رحمت اور بلندی درجات کا خواہاں ہوں۔ اور اسی طرح سے حجج اسلام الحاج شیخ علی اکبر ناصح اور فرج اللہ فرج الٰہی کا بھی شکر گزار ہوں کہ ان حضرات نے کتاب کی تصحیح، ٹائپ اور مقدماتی مباحث کی تدوین اور تالیف میں ہمارا ہر طرح سے تعاون کیا۔

آخر میں درسی کتابوں کی تدوین اور تاریخ اسلام کے شعبہ کے سرپرست نیز اراک کی آزاد اسلامی یونیورسٹی کا بھی شکر گزار ہوں۔

والسلام

قم۔ مہدی پیشوائی

محرم الحرام ١٤٢٤ ہجری قمری

۱۰

پہلا حصہ

مقدماتی بحثیں

پہلی فصل : جزیرة العرب کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی صورتحال

دوسری فصل: عربوں کے صفات اور نفسیات

تیسری فصل: جزیرہ نمائے عرب اور اس کے اطراف کے ادیان و مذاہب

۱۱

پہلی فصل

جزیرة العرب کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی صورتحال

جزیرہ نمائے عرب جس کو ''جزیرة العرب'' بھی کہتے ہیں یہ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ہے جو مغربی ایشیا کے جنوب میں واقع ہے۔

یہ جزیرہ مغربی شمال سے مشرقی جنوب تک ''غیر متوازی چوکور'' شکل میں ہے.(١) اور اس کی مساحت تقریباً بتیس (٣٢) لاکھ مربع کلو میٹر ہے.(٢) اس جزیرہ نما کے تقریباً ٤٥ حصے میں اس وقت سعودی عرب واقع ہے.(٣) اور اس کا بقیہ حصہ دنیا کی موجودہ سیاسی تقسیم بندی کے اعتبار سے چھ ملکوں یعنی یمن، عمان، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور کویت میں بٹا ہوا ہے۔

اس جزیرہ نما کی سرحد، جنوب کی سمت سے خلیج عدن، تنگۂ باب المندب، بحر ہند اور بحر عمان میں محدود ہے اور مغرب کی سمت میں یہ بحر احمر اور مشرق کی طرف خلیج عمان، خلیج فارس اور عراق تک پھیلا ہوا ہے اور شمال کی جانب سے ایک وسیع صحرا جو کہ درّۂ فرات سے سر زمین شام تک ہے اس جزیرہ کو گھیرے

______________________

(١)حسین قراچانلو، حرمین شریفین (تہران: انتشارات امیر کبیر، ط ١، ١٣٦٢)، ص ٩.

(٢) یورپ کی ایک تہائی مساحت، فرانس کی چھ گنا مشرقی اور مغربی جرمنی کی نو برابر، دس برابر اٹلی ملک کی، ٨٠ گنا سویزرلینڈ اور ایران کی مساحت کے دوگنی مساحت ہے۔

(٣) مؤسسۂ گیتا شناسی، گیتا شناسی کشورھا (تہران: انتشارات گیتا شناسی، ط ٤، ١٣٦٥)، ص ٢٠٥.

۱۲

ہوئے ہے۔ اور چونکہ اس علاقہ کی، دریا اور پہاڑ وغیرہ جیسی کوئی قدرتی سرحد نہیں ہے لہٰذا جغرافیہ دان قدیم زمانے سے ہی سعودی عرب کی شمالی سرحدوں کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔(١)

اگرچہ جزیرہ نمائے عرب خلیج فارس، بحر عمان، بحر احمر اور بحر مڈی ٹرانہ سے گھرا ہوا ہے لیکن صرف جنوبی حصہ کے علاوہ اس پانی سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ علاقہ دنیا کے بہت زیادہ خشک اور گرم علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہاں ایک ایسا بڑا دریا بھی موجود نہیں ہے جس میں بحری جہاز کا راستہ ہو بلکہ اس کے بجائے وہاں ایسی گھاٹیاں موجود ہیں جن میں کبھی کبھار سیلاب آجاتا ہے۔

اس علاقہ میں خشکی کی وجہ، اس جزیرہ میں پھیلے ہوئے ایسے پہاڑ ہیں جو ایک بلند دیوار کے مانند جزیرۂ سینا سے شروع ہوتے ہیں اور مغرب کی سمت میں بحر احمر کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے ہیں اور جنوب کے مغربی گوشہ سے ٹیڑھے ترچھے (غیر مستقیم) انداز میں جنوبی اور مشرقی ساحل سے ، خلیج فارس تک ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح سے سعودی عرب تین طرف سے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور یہ پہاڑ سمندروں کی رطوبت کو اس علاقہ میں سرایت کرنے سے روک دیتے ہیں۔(٢)

دوسرے یہ کہ اس کے اطراف کے ملکوں میں پانی کا ذخیرہ اتنا کم ہے کہ افریقا اور ایشیا کی اس وسیع آراضی کی گرمی اور خشکی کو یہاں کی مختصر سی بارش متعادل موسم میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ کیونکہ عرب میں ہمیشہ چلنے والی موسمی ہوائیں (جن کو سموم کہتے ہیں) بحر ہند کے جنوبی علاقہ سے اٹھتے ہوئے ابرباراں کو جزیرة العرب میں برسنے سے روک دیتی ہیں۔(٣)

______________________

(١) فیلیپ خلیل حتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابو القاسم پایندہ (تہران: انتشارات آگاہ، طبع دوم، ١٣٦٦ ش)، ص ٢١

(٢) علی اکبر فیاض ، تاریخ اسلام، (تہران: انتشارات تہران یونیورسٹی، ط ٣ ١٣٦٧)، ص٢؛ آلبرمالہ و ژول ایزاک، تاریخ قرون وسطی تا جنگ صد سالہ، ترجمہ: میرزا عبد الحسین ہژیر (تہران: دنیای کتاب، ١٣٦٢)، ص ٩٥.

(٣) فلیپ حتی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤

۱۳

جزیرة العرب کی تقسیم

عرب اور عجم کے جغرافیہ نویسوں نے جزیرة العرب کو کبھی موسم (آب و ہوا) کے لحاظ سے اور کبھی قوم یا نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے.(١) اور بعض معاصر دانشوروں نے اس کو مندرجہ ذیل تین بنیادی علاقوں میں تقسیم کیا ہے:

١۔ مرکزی حصہ جس کا نام ''صحرائے عرب'' ہے۔

٢۔ شمالی حصہ جس کا نام ''حجاز'' ہے۔

٣۔ جنوبی حصہ جو ''یمن'' کے نام سے مشہور ہے۔(٢)

_______________________

(١) مَقدِسی، چوتھی صدی کا مسلمان دانشور کہتا ہے کہ ملک عرب چار بڑے علاقوں ، حجاز، یمن ، عمان اورہجر پر مشتمل ہے۔ (احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، ترجمہ علی نقی منزوی (تہران: گروہ مؤلفین و مترجمین، ایران، ط ١، ١٣٦١)، ص ١٠٢، لیکن دوسروں نے کہا ہے کہ وہ پانچ حصے یعنی تہامہ، حجاز، نجد، یمن اور عروض پر مشتمل ہے. (الفداء ،تقویم البلدان، ترجمہ: عبد المحمد آیتی (تہران: انتشارات بنیاد فرھنگ ایران، ١٣٤٩)، ص ١٠٩، یاقوت حموی، معجم البلدان، بہ تصحیح محمد امین الخانجی الکتبی (قاہرہ: مطبعة السعادة، ط ١، ١٣٢٤ھ. ق)، ص١٠١، اور ٢١٩؛ شکری آلوسی، بغدادی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط ٢،)، ج١، ص ١٨٧؛ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (بیروت: دار العلم ، للملایین، ط ١، ١٩٦٨)، ج١، ص ١٦٧۔

ان کے علاوہ دوسری تقسیمات بھی ذکر ہوئی ہیں جس کا ہمارے زمانے میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہے ۔ رجوع کریں: گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی (تہران: کتاب فروشی اسلامیہ)، ص ٣١

(٢) یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشری، (جاہلیت و اسلام) ، تہران: مطبوعاتی فراہانی ١٣٤٦)، ص٢٣٤۔ ٢٣١)

۱۴

جزیرة العرب کی تقسیم، اس کے شمالی اور جنوبی (قدرتی) حالات کی بنا پر

موجودہ دور میں ایک دوسری بھی تقسیم رائج ہوئی ہے جو اس کتاب کے لئے زیادہ مناسب ہے۔ یہ تقسیم، زندگی کے ان حالات کی بنیاد پر ہے جو اس علاقہ کے انسانوں، حیوانوں اور مقامات پر اثر انداز تھے اور یہ شرائط وہاں کے باشندوں کی انفرادی اور اجتماعی خصوصیات اور تبدیلیوں میں جلوہ گر ہوئے جو ظہور اسلام تک باقی رہے کیونکہ جزیرة العرب دومخالف جغرافیائی حالات کا گہوارہ رہا ہے اور وہاں کے اجتماعی حالات کا دارو مدار پانی کے وجود پر ہے اور پانی کی موجودگی یا عدم موجودگی ہی وہاں کے اجتماعی حالات پر اثر انداز ہوتی ہے جس کی بنا پر اس کا جنوبی علاقہ یعنی ''یمن'' ،اس کے شمالی اور مرکزی علاقہ سے الگ ہو جاتا ہے۔

جنوبی جزیرة العرب (یمن) کے حالات

اگر ہم اس سرزمین کے نقشہ پر نگاہ ڈالیں تو جزیرة العرب کے مغربی جنوب کے آخر میں ایک علاقہ مثلث کی شکل میں نظر آتا ہے جس کے مشرقی ضلع میں بحر عرب کا ساحل اور مغربی ضلع میں بحر احمر کا ساحل ہے اور ظہران (جوکہ مغرب میں واقع ہے) سے وادی حضر موت (جوکہ مشرق میں واقع ہے) تک کھینچے جانے والے خط کو مثلث کا تیسرا ضلع قرار دیا جاسکتا ہے ان حدود میں جو علاقہ ہے اس کو قدیم زمانے سے ''یمن'' کہا جاتا ہے اس علاقہ میں پانی کی فراوانی اور مسلسل بارش کی وجہ سے کاشتکاری اچھی اور آبادی زیادہ رہی ہے۔ اس بنا پر یہ علاقہ شمالی یا مرکزی جزیرة العرب سے قابل قیاس نہیں ہے۔

۱۵

جیسا کہ معلوم ہے کہ ایک بڑی آبادی کے لئے دائمی جائے سکونت کی ضرورت پڑتی ہے اور اسی وجہ سے قصبے اور شہر بنتے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں وہاں بستے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی نظام لازم ہوتا ہے لہٰذا اس کے لئے قانون بنایا جاتا ہے (اگرچہ وہ ابتدائی اور آسان ہی کیوں نہ ہو) اور یہ بات واضح ہے کہ قوانین کے ساتھ حکومت کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ ان دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقہ میں حضرت مسیح کی ولادت سے صدیوں سال قبل حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور ان کے ذریعہ تہذیب و ثقافت کو رواج ملا ہے.(١) ۔ جو حکومتیں اس علاقہ میں قائم ہوئی ہیں وہ یہ ہیں:

١) حکومت معین: یہ حکومت ١٤٠٠ سے ٨٥٠ سال قبل عیسوی تک برقرار رہی اور حکومت سبا کے تسلط پر ختم ہوگئی۔

٢)حکومت حضر موت: جو ١٠٢٠ عیسوی سے قبل شروع ہوئی اور ٦٥ عیسوی کے بعد تک باقی رہی اور حکومت سبا کے مسلط ہونے کے ساتھ ختم ہوگئی۔

٣)حکومت سبا: جو ٨٥٠ عیسوی سے لیکر ١١٥ عیسوی سال قبل مسیح تک برسر اقتدار رہی اور حمیری سبا وریدان کے برسر اقتدار آتے ہی بکھر گئی۔

٤)حکومت قتیان: جو ٨٦٥ سے لے کر ٥٤٠ سال قبل مسیح تک برسر اقتدار رہی اور حکومت سبا کے آتے ہی نابود ہوگئی۔

٥) حکومت سبا و ریدان: حضر موت اور اطراف یمن جن کے بادشاہوں کے سلسلہ کو ''تبع'' کہا گیا ہے اور ان کی حکومت سال عیسوی سے ١١٥ سال پہلے شروع ہوئی اور عیسوی کے بعد ٥٢٣ء تک برقرار رہی اور اس کی راجدھانی ''ظفار'' تھی۔(٢)

_______________________

(١) سید جعفر شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام (تہران: مرکز اشاعت یونیورسٹی، ط٦، ١٣٦٥)، ص ٣.

(٢) احمد حسین شرف الدین، الیمن عبر التاریخ (قاہرہ: مطبعة السنة المحمدیہ ، ط ٢، ١٣٨٤ھ.ق)، ص ٥٣.

۱۶

جنوبی عرب کی درخشاں تہذیب

یمن کی پر رونق تہذیب مورخین کی نگاہ میں قابل تحسین واقع ہوئی ہے جیسا کہ ہَرُودَت (قبل مسیح پانچویں صدی میںیونان کا ایک بزرگ مورخ) دور سبا میں اس سرزمین کی تہذیب اور عالی شان محلوں اور ہیرے اور جواہرات سے مرصع دروازوں کا ذکر کر کے کہتا ہے کہ ان میں سونے چاندی کے ظروف اور قیمتی دھاتوں سے بنی ہوئی پلنگیں موجود تھیں۔(١) کچھ مورخین نے صنعاء کے عالی شان محل (غمدان) کا ذکر کیا ہے جو بیس منزلہ تھا جس میں سو عدد کمرے تھے اور کمروں کی دیواریں بیس ہاتھ لمبی اور ساری چھتیں آئینہ کاری اور شیشے سے مزین تھیں۔(٢)

ستر ابون (روم کا مشہور سیاح) نے بھی سن عیسوی سے ایک صدی قبل اس سرزمین کا دورہ کیا تو اس علاقہ کے تمدن کے بارے میں ھرودت کی طرح اپنے خیالات کا اظہار اس طرح سے کیا۔ مأرب ایک عجیب و غریب شہر ہے جس کی عمارتوں کی چھتیں عاج سے بنائی گئی ہیں اور ان کو ہیرے اورجواہرات سے مرصع تختیوں سے مزین کیا گیا ہے۔ اور وہاں ایسے خوبصورت ظروف دیکھنے کو ملے جن کو دیکھ کر انسان حیرت زدہ ہو جائے۔(٣)

اسلامی مورخین اور جغرافیہ دان جیسے مسعودی (وفات ٣٤٦ھ) اور ابن رُستہ (تیسری صدی ہجری کے دانشوروں سے ہیں)نے بھی اس علاقہ کے لوگوں کی ظہور اسلام سے قبل، پُر رونق اور خوشحال زندگی، عمارتوں اور آبادیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔(٤)

_______________________

(١) گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی (تہران: کتاب فروشی اسلامیہ)، ص ٩٢.

(٢) سید محمود شکری آلوسی بغدادی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط٢)، ج١، ص ٢٠٤.

(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ترجمہ: علی جواہر کلام (تہران: امیر کبیر، ١٣٣٣)، ج١، ص ١٣.

(٤) مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: محمد محیی الدین عبد الحمید (دار الرجاء للطبع و انشر)، ج٢، ص ٨٩؛ ابن رستہ، الاعلاق النفیسہ، ترجمہ و تعلیق: حسین قراچانلو (تہران: امیر کبیر، ط ١، ١٣٦٥)، ص ١٣٢.

۱۷

انیسویں اور بیسویں صدی میں آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطالعے اور بحثوں اور مورخین کی تحقیقات سے اس علاقہ کی تاریخ واضح ہوئی اور ایسی نئی دستاویزات اور شواہد ملے جن سے اس سرزمین کے درخشاں اور قدیمی تمدن کا پتہ چلتاہے۔ عدن، صنعائ، مأرب اور حضر موت کے آثار قدیمہ اس بات کے گواہ ہیں کہ عرب کے جنوبی علاقہ یمن اور اس کے نواح میں بسنے والوں میں عظیم تمدن پایا جاتا تھا جو فینیقیہ اور بابل کے تمدن کے مقابلہ میں تھا۔ یمن کے قدیمی تمدن کا ایک مظہر مأرب کا سب سے بڑا بند تھا۔(١) یہ بند جو دقیق ریاضی محاسبات اور پیچیدہ نقشہ کے مطابق بنایا گیا تھا اس کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا نقشہ بنانے والا علم ہندسہ کا کس قدر ماہر تھا کہ اس سے اس علاقہ میں کس قدر کاشتکاری اور خوشحالی پیدا ہوئی۔(٢)

یمن کے لوگ کاشتکاری کے علاوہ، تجارت بھی کرتے تھے اور سبئیان مشرق و مغرب کی تجارت کا وسیلہ تھے کیوں کہ ملک یمن اس زمانہ میں چند متمدن ملکوں کے درمیان واقع تھا۔ ہندوستان کے تاجر اپنے تجارتی مال کو سمندر کے ذریعہ یمن اور حضر موت لایا کرتے تھے اور یمن کے تاجر اس کو حبشہ، مصر، فینیقیہ، فلسطین، مدین کے شہر، ادوم، عمالقہ اور مغربی ممالک لے جایا کرتے تھے۔ اور اہل مکہ بھی اپنے تجارتی مال کو خشکی کے راستے سے دنیا کے مختلف آباد علاقوں میں بھیجتے تھے(٣) ۔ ایک زمانہ تک مشرق و سطیٰ کی تجارت یمنیوں کے ہاتھ میں تھی(٤) بحر احمر کی راہوں میں مشکلات کی بنا پر سبئیوں نے خشکی کے

_______________________

(١) مأرب بند، یمن کے موجودہ دار الحکومت صنعاء کے مشرقی سمت میں ١٩٢کلو میٹر کے فاصلہ واقع پر ہے۔

(٢) اس بند کے نقشے اور اس کی تعمیری خصوصیات سے مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں : فرہنگ قصص قرآن (ضمیمۂ قصص قرآن) صدر بلاغی، (تہران: امیر کبیر، ط ٣، ص ٨٢ اور ٨٨؛ احمد حسین شرفالدین، الیمن عبر التاریخ ، ص ١٣٢۔ ١٢٢۔

(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ج١، ص ١١.

(٤) ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن، ترجمہ: احمد آرام و ھمکاران (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط٢، ١٣٦٧)، ج١، ص ٣٤١.

۱۸

راستے کو اختیار کیا اسی لئے وہ یمن سے شام تک کی مسافت کو جزیرة العرب کے مغربی ساحل سے طے کرتے تھے۔ یہ راستہ ''مکہ'' اور ''پترا'' سے گزر کر شمال کی جانب مصر، شام اور عراق کی طرف نکلتا ہے۔(١)

مأرب کے بند کی تباہی

یمنیوں میں برائیوں کا رواج اور اندرونی فتنوں اور فسادات کی بنا پر وہاں کا چمکتا ہوا خورشیدتمدن روز بروز غروب ہونے لگا تھا اور بند مأرب جو کہ مرمت کا محتاج تھا وہاں کے حکمراں اور باشندے اس کی مرمت نہیں کرسکے آخر کار ٹوٹنے کی وجہ سے سیلاب نے آس پاس کی آبادی اور کھیتی کو نابود کردیا اوراس کے اطراف میں پانی کی قلت کی بنا پر کاشتکاری ختم ہوگئی اور لوگ دوسری جگہ کوچ کرنے پر مجبور ہوگئے(٢) ۔ قرآن کریم کے دو سوروں میں قوم سبا کا نام آیا ہے۔

ایک ملکۂ سبا کے ذکر اور ان کے نام حضرت سلیمان کے خط کی مناسبت سے اس طرح تذکرہ ہے ''زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ (ہدہد) آیا اور کہا: میں ایسی چیز جانتا ہوں جس سے آپ باخبر نہیں ہیں میں سرزمین سبأ سے آپ کے لئے یقینی خبر لایاہوں میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو وہاں حکومت کرتی ہے اور تمام چیزیں اس کے اختیار میں ہیں (خاص طور سے ) ایک بڑا تخت رکھتی ہے''۔(٣)

اور دوسری جگہ مأرب نامی بند کے ٹوٹنے سے سیلاب کی آمد اور برائیوں اور فحشاء کے رواج کے

_______________________

(١) فیلیپ حِتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات آگاہ، ط٢، ١٣٦٦)، ص ٦٥۔ ٦٤؛ رجوع کریں: گوشتاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ص ٩٤؛ احمد حسین شرف الدین، الیمن عبر التاریخ، ص ١٠٥؛ آلوسی، بلوغ الارب، ج١، ص ٢٠٣.

(٢) حسن ابراہیم، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط ٥، ١٣٦٢)، ص ٣٢.

(٣) سورۂ نمل ،٢٧، آیت ٢٣۔ ٢٢.

۱۹

نتیجے میں قوم کے انحطاط کی مناسبت سے یوں ذکر ہوا ہے ۔ ''اور قوم سبأ کے لئے ان کے وطن ہی میں ہماری نشانیاں تھیں کہ داہنے بائیں دونوں طرف باغات تھے۔ تم لوگ اپنے پروردگار کا دیا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو تمہارے لئے پاکیزہ شہر اور بخشنے والا پروردگار ہے۔ مگر ان لوگوں نے انحراف کیاتو ہم نے ان پر بڑے زوروں کا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغات کو ایسے دو باغات میں تبدیل کردیا جن کے پھل بے مزہ تھے اوران میں جھاؤ کے درخت اور کچھ بیریاں تھیں یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزا دی ہے اور ہم ناشکروں کے علاوہ کس کو سزا دیتے ہیں۔ اور جب ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سفر کو معین کردیا کہ اب دن و رات جب چاہو سفر کرو محفوظ رہوگے۔ تو انھوں نے اس پر بھی یہ کہا کہ پروردگار ہمارے شہروں اور آبادیوں میں دوری پیدا کردے اور اس طرح اپنے نفس پر ظلم کیا تو ہم نے انھیں کہانی بنا کر چھوڑ دیا اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ یقینا اس میں صبر و شکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔(١)

حمزہ اصفہانی نے اس بند کی تباہی کو ظہور اسلام سے چار صدی قبل(٢) ، ابوریحان بیرونی نے تقریبا ٥صدی قبل(٣) اور یاقوت حموی نے حبشیوں کے تسلط کے زمانہ میں ذکر کیا ہے(٤) اور چونکہ حبشیوں کا تسلط چھٹی صدی کے وسط میں ہوا تھا لہٰذا بعض مورخین کا گمان ہے کہ اس بند

_______________________

(١) سورۂ سبا، ٣٤،آیت ١٩۔ ١٥

(٢) حمزہ اصفہانی، تاریخ پیامبران و شاھان( تاریخ ملوک الارض و الانبیائ)، ترجمہ: جعفر شعار (تہران: امیر کبیر، ط ٢، ١٣٦٧)، ص ١٢٠ اور ١٣٢۔

(٣) آثار الباقیہ، ترجمہ: ابکر دانا سرشت (تہران: امیر کبیر، ط ١ ، ١٣٦٣)، ص ١٨١۔

(٤) معجم البلدان، تصحیح محمد امین الخانجی الکتبی (قاہرہ: مطبعة السعادة، ط ١، ١٣٢٤ھ.ق)، ج٧، ص ٣٥٥.

۲۰

کی تباہی ٥٤٢ سے ٥٧٠ عیسوی کے درمیان میں ہوئی ہے۔(١) بہرحال شاید اس بند کی تباہی تدریجی طور پر ہوئی ہے اور چند بار مرمت کے بعد آخر کار یہ منہدم ہوگیا۔

قرآن مجید میں قوم تُبّع(٢) اور ان کے انجام کار کا دو جگہ پر ذکر ہوا ہے۔

١۔ ''بھلا یہ لوگ زیادہ بہتر ہیں یا قوم تُبَّع اور ان سے پہلے والے افراد جنھیں ہم نے اس لئے تباہ کردیا کہ یہ سب مجرم تھے''(٣)

٢۔ان سے پہلے قوم نوح، اصحاب رس(٤) اور ثمود نے بھی تکذیب کی تھی۔ اور اسی طرح قوم عادوفرعون ، قوم لوط ،اصحاب ایکہ(٥) اورقوم تُبَّع نے بھی رسولوں کی تکذیب کی تو ہمارا وعدہ پورا ہوگیا۔(٦)

جزیرة العرب پرجنوبی تہذیب کے زوال کے اثرات

جنوبی ملکوں کا انحطاط اور جزیرة العرب کے جنوب میں تمدن کا زوال اور بند مأرب کی تباہی اس علاقہ کے حالات کی تبدیلی کا باعث بنی کیونکہ وہاں پر زندگی کی سہولیتں مفقود ہوگئیں تھیں اور بند کے

_______________________

(١) فیلیپ خلیل حتی، تاریخ عرب، ص٨٢.

(٢) تُبَّع (جس کی جمع تبایعہ ہے) یمن میں حمیری بادشاہوں کا لقب ہوا کرتا تھا ۔ یہ لوگ دوسرے درجہ کے بادشاہ ہوا کرتے تھے پہلے درجہ کے بادشاہ، سبا اور ریدان کے بادشاہ تھے جنھوں نے ١١٥ سال قبل مسیح سے ٢٧٥ سال بعد مسیح تک حکومت کی ہے۔ سبا، ریدان، حضر موت اور شَحر ، کے دوسرے درجے کے بادشاہوں نے ٢٧٥ سے ٥٣٢ تک بعد مسیح حکومت کی ہے۔ (احمد حسین شرف الدین، الیمن عبر التاریخ، ص ٩٧۔ ٩٠)

(٣) سورۂ دخان، ٤٤،آیت ٣٧.

(٤) وہ قوم جو یمامہ میں زندگی بسر کرتی تھی۔

(٥) قوم شعیب.

(٦)ق.(٠ ٥) ١٤۔ ١٢.

۲۱

اطراف کی کھیتیاں پانی کی عدم موجودگی کی بنا پر ختم ہوگئیں تھیں لہٰذا وہاں پر آباد قوموں میں سے کچھ لوگ مجبور ہوکر دوسری جگہ کوچ کرگئے۔ اس انتشار کے نتیجے میں تنوخ خاندان جو کہ یمنی قبیلہ ازد سے تھا، حیرہ (عراق) ہجرت کرگیا اور وہاں ''لخمیان'' کی حکومت کی بنیاد ڈالی اور ''آل جَفنہ'' کا خاندان شام چلا گیا اور وہاں مشرقی اردن کے علاقہ میں حکومت کی بنیاد ڈالی اور ''سلسلۂ غسانیان'' کے نام سے مشہور ہوا۔(١)

قبیلۂ اوس اور خزرج، یثرب (مدینہ) خزاعہ، مکہ اور اس کے اطراف میں قبیلۂ بجیلہ و خثعم اور دوسرے چند گروہ، سروات کے علاقہ میں جاکر ہمیشہ کے لئے بس گئے(٢) اور ان میں سے ہر ایک نے اپنی ایک مستقل تاریخ کی بنیاد ڈالی۔

شمالی جزیرة العرب{حجاز} کے حالات

حجاز ایسا خشک علاقہ ہے جہاں پر بارش کم ہوتی ہے اور (پہاڑی اور ساحلی علاقوں کے علاوہ) لو چلتی ہے اور اس سے وہاں کے باشندوں کی زندگی متاثر ہے اور چونکہ یہاں کے رہنے والے، یمنیوں کے برخلاف آب و گیاہ کی کمی کی بنا پر صرف پالتو جانوروں کا ایک مختصر گلہ یا اونٹ کے علاوہ دوسری چیزیں نہیں رکھ سکتے تھے لہٰذا یہ لوگ اپنی خوراک اور پوشاک عموماً اونٹ کے ذریعہ فراہم کرتے تھے اور چونکہ دور دراز کے علاقوں میں ہجرت اور صحراؤوں میں رفت و آمد صرف اسی طرح کی گلہ داری کے ذریعہ ممکن تھی لہٰذا ایک سیاسی نظام کا قیام اور خانہ بدوشوں کے لئے دائمی سکونت ممکن نہ تھی اس وجہ سے

_______________________

(١) حمزۂ اصفہانی، تاریخ پیامبران و شاہان، ص ٩٩ اور ١١٩ ؛ نیز رجوع کریں: حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ص ٤٤؛ ابوریحان بیرونی، الآثار الباقیہ، ص ١٨١ اور ١٨٣۔

(٢) کارل بروکلمان، تاریخ ملل و دول اسلامی، ترجمہ: ھادی جزایری، (تہران: ادارہ ترجمہ ونشر کتاب، ١٣٤٦)، ص٥.

۲۲

یہاں کے لوگ (جنوبی علاقہ کے لوگوں کی بہ نسبت جو کہ شہر نشین اور کاشتکار تھے) غیر متمدن، خانہ بدوش اور صحرا ئی لوگ تھے۔ مکہ کے علاوہ حجاز کے دوسرے شہر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے تھے۔

انھیں علاقائی دشواریوں اورخراب راستوں کی وجہ سے اہل حجاز کا، اس زمانہ کے متمدن لوگوں سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا اور یہ قدرتی اور جغرافیائی حالات باعث بنے تھے کہ یہ علاقہ سلاطین جہاں کی طمع اور ان کے حملوں سے محفوظ رہا اور اس طرح سے دنیا کے بڑے سلاطین اور فاتحان عالم جیسے رامِس دوم چودھویں صدی میں قبل مسیح ، سکندر مقدونی کو قبل مسیح چوتھی صدی میں اورایلیوس گالوس (اگوست کے زمانہ میں پہلی صدی عیسوی میں روم کا بادشاہ) کو حجاز پر تسلط سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اسی طرح ایرانی شہنشاہوں نے بھی اس علاقہ پر قبضہ نہیں کیا اسی لئے حجاز کے لوگ آسودہ خاطر ہوکر اپنی زندگی گزار رہے تھے(١) ۔ ایک مورخ اس بارے میں لکھتا ہے:

جس وقت دمتریوس، یونانی سردار (اسکندر کے بعد) سعودی عرب پر قبضہ کرنے کے ارادہ سے پترا پہونچا تو اس علاقہ کے بدّووں نے اس سے کہا: اے امیر بزرگ! کیوں ہم سے جنگ کے لئے آئے ہو؟ ہم ایسے ریگستانی علاقہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ جہاں زندگی گزارنے کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ہم اس بیابان اور تپتے ہوئے صحرا میں اس بنا پر زندگی بسر کر رہے ہیں کہ کسی کے ماتحت اور غلام بن کر نہ رہیں۔ لہٰذا ہماری جانب سے پیش کردہ ہدیہ قبول فرمائیں اور اپنی جگہ واپس چلے جائیں اورایسی صورت میں ہم آپ کے باوفا ساتھیوں میں سے ہوں گے لیکن اگر آپ نے ہمارا محاصرہ کر کے، ہمارے صلح کے مشورے کو قبول نہ کیا تو آپ کو ایک زمانہ تک اپنی راحت و سکون کی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور آپ ہماری اس عادت اور طرز زندگی کو جو شروع سے چلی آرہی ہے تبدیل نہیں کرسکتے اور اگر ہم میں سے چند افراد کو اسیر کر کے لے بھی گئے تو آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ یہ لوگ اپنی ہمیشہ کی آزاد زندگی کو چھوڑ کر آپ کی غلامی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا دمتریوس نے

_______________________

(١) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ترجمہ: علی جواہر کلام، (تہران: امیر کبیر، ١٣٣٣)، ج١، ص ١٥.

۲۳

ان کے پیش کردہ ہدیہ کو قبول کرلیا اور ایک ایسی جنگ سے جس میں مشکلات اور پریشانیوں کے علاوہ اس کے ہاتھ کچھ نہ آتا چشم پوشی کر کے واپس چلا گیا۔(١)

ایک دانشمند کہتا ہے کہ جزیرة العرب انسان اور زمین کے درمیان روابط کے منقطع نہ ہونے کا ایک کامل نمونہ ہے۔ اگر مختلف ملکوں میں جیسے ہندوستان، یونان، اٹلی، انگلینڈ اور امریکہ میں موقع پرست قومیں مسلسل ایک دوسرے کو شکست دینے یا اپنے زیر تسلط رکھنے کی بنا پر دوسری جگہ کوچ کرگئی ہیں۔ تاریخ عرب میں کوئی ایسا جنگجو بادشاہ نہیں ملا جس نے ریگستان کے سینہ کو چاک کرکے وہاں پر دائمی سکونت اختیار کی ہو، بلکہ عرب کے لوگ (تاریخی دستاویزات کے مطابق) ہمیشہ اپنی سابقہ حالت پر باقی رہے۔ اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔(٢)

صحرا نشین

جزیرة العرب کا شمالی علاقہ (حجاز) زیادہ تر صحرائی ہے لہٰذا وہاں کے اکثر قبائل ظہور اسلام سے قبل بادیہ نشین و صحرا گرد تھے۔ بدو عرب قدرتی مناظر سے محروم اوراپنے زندگی کے میدان میں صرف گلہ بانی کے ذریعہ وہ بھی محدود اور قدیم طرز پر، زندگی گزارتے تھے۔ وہ لوگ بھیڑ بکریوں کے اون اور اونٹ کے بالوں سے بنے ہوئے خیموں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اور جس جگہ آب و گیاہ موجود ہو وہیں جاکر بس جاتے تھے اور پانی اور سبزے کے ختم ہونے پر دوسرے علاقہ کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے یہ لوگ ہریالی اور چراگاہ کی کمی کی وجہ سے صرف چند اونٹ اور مختصر گلہ کے علاوہ دوسرے چوپائے نہیں رکھ سکتے تھے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے : ''صحرا میں تین چیزوں، بدو عرب، اونٹ

_______________________

(١) گوسٹاولوبون، تاریخ تمدن اسلام، ج١، ص ٨٨.

(٢) فیلیپ حتی، تاریخ عرب، ص ١٤۔

۲۴

اور کھجور کے درخت کی حکومت ہوتی ہے''۔ اور اگر اس میں ریگزار کا بھی اضافہ کردیا جائے تو بنیادی طور پر چار چیزوں کا صحرا پر غلبہ ہوتا ہے۔ پانی کی قلت، گرمی کی شدت، راہوں کی صعوبت اور آذوقہ کی کمی، عام طور سے انسانوں کے بڑے دشمن ہیں اور انسانوںکو خوف و خطرہ انھیں سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب یہ معلوم ہو کہ عرب اور صحرا نے کبھی بھی غیروں کے تسلط کو اپنے اوپر برداشت نہیں کیا تو ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہیئے. صحرا کی خشکی، اس کا استمرار اور یکسانیت، بدؤوں کے جسم و عقل کی تکوین میں تجلی پاگیا تھا۔ یہ لوگ کاشتکاری یا دوسرے پیشے اور کام کو اپنی شان کے لائق نہیں سمجھتے تھے۔(١) لہٰذا متمدن حکومتوں اور شہری نظام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور صحرا و ریگستانی علاقوں میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور یہ بات ان کی موروثی خصلت میں شامل تھی۔(٢)

یہ لوگ ایک وسیع صحرا کے سپوت اور آزاد مزاج تھے لہٰذا بغیر کسی عمارت کی رکاوٹ کے یہ لوگ صاف و شفاف ہو اسے بہرہ مند ہوتے تھے، سورج کی دائمی تپش اور بارش و سیلاب کے پانی کو روکنے کے لئے کوئی سد نہیں تھا بلکہ تما م چیزیں قدرتی طور پر آزاد اور اپنی اصلی حالت پر تھیں۔

کاشتکاری اور کاروبار نے انھیں محدود اور مصروف نہیں کر رکھا تھا اور نہ ہی شہر کی بھیڑ بھاڑ سے وہ تنگ آگئے تھے اور چونکہ آزاد زندگی کی عادت تھی لہٰذا آزادی کو پسند کرتے تھے اور اپنے کو کسی قانون اور نظام کا پابند نہیں سمجھتے تھے اور جو بھی ان پر فرمانروائی کرنا چاہتا تھا اس سے پوری طاقت کے ساتھ لڑتے تھے۔ صرف دو چیزیں ان کو محدود کئے ہوئے تھیں:

١۔ ایک بت پرست نظام کی قید و بند اور اس کے مذہبی رسومات ۔

٢۔دوسرے قبیلوں کے آداب و رسومات اور قبیلے سے وابستگی کی بنا پر جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی تھیں۔

_______________________

(١) فیلیپ حتی، تاریخ عرب، (تہران: آگاہ ط٢، ١٣٦٦)، ص ٣٥، ٣٣.

(٢) گوسٹاولوبون، تاریخ تمدن اسلام، ج١، ص ٦٥۔ ٦٤؛ ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن،( عصر ایمان)، ج٤، (بخش اول)، ترجمہ: ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط٢، ١٣٦٨)، ص ٢٠١.

۲۵

البتہ ان کے یہاں قبیلہ کے رسم و رواج کی پیروی خلوص اور اعتقاد جازم کے ہمراہ تھی۔(١)

لارمنس بلجیکی (مشرقی محقق) کہتا ہے: عرب، آزادی اور ڈیموکراسی کا نمونہ تھے۔ لیکن ایسی افراطی ڈیموکراسی جس کی کوئی حد نہیں تھی۔ اور جو بھی ان کی طاقت اور آزادی کو محدود کرنا چاہتا تھا (اگرچہ یہ محدودیت ان کے فائدہ میں ہو) وہ اس کے خلاف قیام کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔ جس سے ان کے ظلم اور جرائم کا پتہ چلتا ہے جس سے تاریخ عرب کا ایک عظیم حصہ پُر ہے۔(٢)

قبائلی نظام

ظہور اسلام سے قبل حجاز کا علاقہ کسی حکومت کے تابع نہیں تھا اور وہاں کوئی سیاسی نظام نہیں پایا جاتا تھا اسی بنا پر ان کی معاشرتی زندگی ایران اور روم کے لوگوں سے بہت زیادہ فرق کرتی تھی۔ کیونکہ یہ دونوں ملک سعودی عرب کے ہمسایہ تھے اور ان میں مرکزی حکومت پائی جاتی تھی جس کے زیر نظر ملک کے تمام علاقے تھے اور وہاں پر مرکز کے قوانین نافذ تھے۔ لیکن حجاز (مجموعی طور سے شمال اور مرکز جزیرة العرب کے علاقہ کو کہتے ہیں) میں ایک مرکزی حکومت شہروں میں بھی موجود نہیں تھی۔ عرب کے سماج کی بنیاد قبیلے پر اور ان کا سیاسی اور اجتماعی نظام، قبائلی نظام کے مطابق تھا۔ اور یہ نظام ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں نمایاں تھا۔ اور اس نظام میں لوگوں کی حیثیت صرف کسی قبیلہ سے منسوب

_______________________

(١) احمد امین، فجرالاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریة، ط٩، ١٩٦٤)، ص ٤٦.

(٢) وہی حوالہ، ص ٣٤۔ ٣٣، نعمان بن منذر (حیرہ کے بادشاہ) نے کسریٰ (بادشاہ ایران)، کے جواب میں جس نے پوچھا تھا کہ کیوںعرب کی قوم ایک حکومت اور نظام کے تحت نہیں رہتی ہے؟ کہا دوسری قومیں چونکہ اپنے کو کمزور محسوس کرتی ہیں اور دشمن کے حملہ سے خوف کھاتی ہیں ، لہٰذا اپنے کاموں کوایک خاندان کے سپرد کردیتی ہیں لیکن عربوں میں ہر ایک چاہتاہے کہ ہم بادشاہ رہیں اور وہ خراج و ٹیکس دینے سے نفرت کرتے ہیں (آلوسی بلوغ الارب، ج١، ص ١٥٠)

۲۶

ہونے کی بنا پرمتعین ہوتی تھی۔

قبیلہ جاتی زندگی کا تصور نہ تنہا صحرا نشینوں میں بلکہ شہروں میں بھی نمایاں تھا۔ اس علاقہ میں ہر قبیلہ ایک مستقل ملک کے مانند تھا اور اس دور میں قبائل کے درمیان تعلقات ویسے ہی تھے جیسے آج کسی ملک کے تعلقات دوسرے ملکوں سے ہوتے ہیں۔

نسلی رشتہ

اس زمانہ میں عربوں میں ''ملیت'' اور ''قومیت'' وحدت دین، زبان یا تاریخ جیسے مختلف موضوعات کی بنیاد پر متصور نہیں تھی بلکہ چند خاندانوں کے مجموعہ کو'' قبیلہ'' کہتے تھے اور حسب و نسب اور خاندانی رشتے اور ناطے ہی افراد کے درمیان تعلقات کی بنیاد تھے۔ اور انھیں چیزوں کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان تعلقات اور رشتے قائم تھے کیونکہ ہر قبیلہ کے لوگ اپنے کو اسی قبیلہ کے خون سے سمجھتے تھے.(١) خانوادے کے اجتماع سے خیمہ اور خیموں کے اجتماع سے قبیلہ وجود پاتا تھا ۔ اور متعدد قبیلوں سے مل کر بڑی تنظیمیں تشکیل پاتی تھیں جیسے یہودیوں کی تنظیم ایک ہی نسل اور خاندان کی بنیاد پر تھی۔ یہ لوگ اپنے خیموں کو اتنا قریب نصب کرتے تھے کہ اس سے چند ہزار افراد پر مشتمل قبیلہ ہو جاتا تھا اور پھر ایک ساتھ مویشیوں کے ہمراہ کوچ کرتے تھے۔(٢)

قبیلہ کی سرداری

قبیلہ کے سردار اور نمائندہ کو ''شیخ'' کہا جاتا تھا(٣) شیخ عام طور پرسن رسیدہ ہوتا تھا اور قبیلہ کی سرداری چند چیزوں کی بنا پر ملتی تھی۔ بڑی شخصیت، تجربہ یا قبیلہ سے دفاع کرنے میں شجاعت کا اظہار

_______________________

(١) احمد امین ، فجر الاسلام، ص ٢٢٥؛ عبد المنعم ماجد، التاریخ السیاسی للدولة العربیہ، (قاہرہ: ط ٧، ١٩٨٢)، ص٤٨.

(٢) کارل بروکلمان، تاریخ دول و ملل اسلامی، ص ٦۔ ٥.

(٣) رئیس ، امیر اور سید بھی کہا جاتا ہے۔ (عبد المنعم ، التاریخ السیاسی للدولة العربیہ، ص ٤٩)

۲۷

اور کثرت مال ہے(١) شیخ کے انتخاب میں امتیازی صفات جیسے سخاوت، شجاعت، صبر، حلم، تواضع اور انداز بیان کا لحاظ بھی کیا جاتا تھا۔(٢)

قبیلہ کا سردار، فیصلے ، جنگ اوردوسرے عمومی امور میں، ڈکٹیٹر شپ کا درجہ نہیں رکھتاتھا بلکہ ہر کام کے لئے ،اس کمیٹی سے مشورہ لیتا تھا جو بزرگان قوم و قبیلہ کے ذریعہ تشکیل پاتی تھی اور یہی وہ افراد تھے جو شیخ کا انتخاب کرتے تھے او ر جب تک اس کے گروہ والے اس سے خوش رہتے تھے وہ اپنے منصب پر باقی رہتا تھا(٣) ورنہ معزول کردیا جاتا تھا. لیکن بہرحال قبیلہ کے دستور کے مطابق، تمام افراد رئیس کی پیروی کرتے تھے اوراس کے مرنے کے بعداس کا بڑا بیٹا اور کبھی ایک سن رسیدہ شخص جس کے اندر اس کی تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں یا وہ شخص جو خاص شخصیت اور لیاقت کا مالک ہوا کرتا تھا اسے اس منصب کے لئے چنا جاتا تھا۔

دین اسلام نے قبیلہ جاتی نظام سے جنگ کی اور اس کو ختم کیا اور حسب و نسب جو اس نظام کی بنیاد تھی اس کو اہمیت نہیں دی اور نئے اسلامی معاشرے کی بنیاد، وحدت عقیدہ اور ایمان پر استوار کی، جو کہ اجتماعی رشتہ جوڑ نے میں بہت مؤثرہے اور اس طرح وحدتِ خون کی جگہ، وحدت ایمان کو بنیاد قرار دیا اور تمام مومنین کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا(٤) اور اس طرح سے عرب سماج کے ڈھانچے کی بنیاد میں تبدیلی پیدا ہوئی۔

_______________________

(١) وہی حوالہ.

(٢) آلوسی، بلوغ الارب، تصحیح محمد بہجة الأثری، (قاہرہ: دارالکتب الحدیثہ، ط٣)، ج٢، ص ١٨٧

(٣) فیلیپ حتی،تاریخ عرب، ص ٣٩.

(٤) (انما المومنون اخوة) سورۂ حجرات، ٤٩،آیت ١٠.

۲۸

قبائلی تعصب

تعصب اس حد تک تھا کہ قبیلہ کی روح قرار دیا گیا تھا اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ شخص بے انتہا اپنے قبیلہ کے افراد سے وابستہ تھا۔ مجموعی طور پر صحرا نشینوں میں قبیلہ جاتی تعصب، وطن پرستی کے تعصب کی مانند تھا.(١) وہ کام جو ایک متمدن شخص اپنے ملک، مذہب یا قوم کے لئے انجام دیتا ہے بدو عرب اپنے قبیلے کے لئے انجام دیتے تھے اور اس راہ میں ہر کام انجام دینے کے لئے تیار رہتے تھے، یہاں تک کہ اپنی جان نثار کر دیتے تھے۔(٢)

عربوں کے درمیان، قبائلی لوگوں کا برتاؤ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کے حق میں تعصب کی حد تک ہوتا تھا یعنی یہ لوگ ہر حال میں اپنے اقرباء کی حمایت کرتے تھے چاہے وہ حق پر ہوں یا باطل پر، خطاکار ہوں یا درست کار، ان کی نظروں میں اگر کوئی اپنے بھائی کی حمایت کرنے میں کوتاہی کرے تو اس کی شرافت داغ دار ہوجاتی ہے اس سلسلہ میں وہ کہتے تھے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔

ایک عرب شاعر نے اس بارے میں کہا ہے: جس وقت ان کے بھائیوں نے مشکلات میں ان کی مدد چاہی تو وہ بغیر کسی سوال اور دلیل کے ان کی مدد کو دوڑ پڑے۔(٣)

یہی وجہ تھی کہ اگر قبیلہ کے کسی فرد کی اہانت ہوجاتی تو وہ پورے قبیلہ کی اہانت سمجھی جاتی تھی۔ اور قبیلہ کے لوگوںکی ذمہ داری ہوتی تھی کہ اس اہانت اور بے عزتی کے داغ کو مٹانے کے لئے وہ اپنی پوری طاقت صرف کردیں۔(٤)

دین اسلام اس طرح کے اندھے قبائلی تعصب کی مذمت کرتا ہے اور اسے جاہلانہ اور غیر منطقی قرار دیتا

_______________________

(١) فیلیپ حتی ، گزشتہ حوالہ، ص ٣٨.

(٢) ویل ڈورانٹ ، گزشتہ حوالہ، (عصر ایمان) ، ج٤، ص ٢٠٠.

(٣) لایسئلون اخاہم حین یندبہم ٭ فی النائبات علی ماقال برہانا(احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ١٠)

(٤) حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط٥، ١٣٦٢)، ج١، ص ٣٨۔ ٣٧؛ عبد المنعم ماجد، گزشتہ حوالہ، ص ٥١۔ ٥٠.

۲۹

ہے۔'' اس وقت کو یاد کرو جب کفار اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسا تعصب رکھتے تھے''۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فرمایا ہے: جو شخص تعصب کرے یا اس کے لئے تعصب کیا جائے وہ اسلام سے خارج ہے(٢) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: جو شخص تعصب کی بات کرے یا لوگوں کو تعصب کی طرف دعوت دے یا تعصب کی روح اور فکر رکھتے ہوئے مرجائے وہ ہم میں سے نہیں ہے(٣) نیز آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم لوگوں نے عرض کیا: مظلوم کی مدد کرنا تو معلوم ہے، ظالم کی کس طرح سے مدد کریں؟ آپ نے فرمایا: اسے ظلم کرنے سے روکو۔(٤)

قبائلی انتقام

عرب میں اس وقت کوئی ایسی مرکزی حکومت یا کمیٹی موجود نہیں تھی جو لوگوں کے اختلافات کو ختم کرے اور وہاں پر عدل و انصاف قائم کرسکے۔ جس پر ظلم و ستم ہوتا تھا وہ اپنا انتقام لیتا تھا اور اگر ظالم دوسرے قبیلہ کا ہوا کرتا تھا تو مظلوم کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنا بدلہ اس قبیلہ کے تمام افراد سے لے اور یہ چیز

_______________________

(١) (اذجعل الذین کفروا فی قلوبهم الحمیة حمیة الجاهلیة ) سورۂ فتح،٤٨ آیت ٢٦.

(٢)من تعصب او تعصب له فقد خلع ربقة الاسلام من عنقه (صدوق)، ثواب الاعمال، و عقاب الاعمال ،( تہران: مکتبة الصدوق)، ص ٢٦٣؛ کلینی، الاصول من الکافی (تہران:مکتبة الصدوق، ط ٢، ١٣٨١ھ.ق)، ج٢، ص٣٠٨.

(٣)لیس منا من دعا الی عصبیة، و لیس منا من قال (علی عصبیة) و لیس منا من مات علی عصبیة ۔ (سنن ابی داؤد (بیروت: دارالفکر)، ج٤، کتاب الادب، باب فی العصبیة، ص ٣٣٢، حدیث ٥١٢١).

(٤)عن انس قال: قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصر أخاک ظالماً أو مظلوماً قالوا: یا رسول اللّٰه هذا ننصره مظلوماً فکیف ننصره ظالماً؟ قال: تأخذ فوق یدیه ۔ (صحیح بخاری بحاشیة السندی (بیروت: دارالمعرفة)، ج٢، کتاب المظالم، ص ٦٦؛ مسند احمد، ج٣، ص٢٠١).

۳۰

عربوں میں بہت عام تھی(١) ۔ کیونکہ لوگوں کی خطائیں پورے قبیلہ کی طرف منسوب ہوتی تھیں اور قبیلہ کا ہر فرد رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ذمہ دار تھا کہ وہ اپنے قبیلے کے تمام افراد کی مدد کرے۔ (بغیر اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے یا ناحق) اور یہ ذمہ داری شروع میں گھر، خاندان اور اقرباء کی جانب سے انجام پا تی تھی۔ اور جب اس میں وہ کامیاب نہیں ہوتے تھے اور خطرہ نہیں ٹلتا تھا تو گروہ اور قبیلہ کے دوسرے افراد اس کی مدد کرتے تھے۔

اگر کوئی قتل ہو جاتا تھا تو قصاص کی ذمہ داری اس کے قریب ترین رشتہ دار پر ہوتی تھی(٢) اور اگر مقتول دوسرے قبیلہ سے ہوتا تھا تو وہاں پر انتقام کی ''رسم'' جاری ہوتی تھی اور قاتل کے قبیلہ کے ہر فرد کو یہ خطرہ لاحق رہتا تھا کہ کہیں مقتول کے بدلہ میں اسے اپنی جان سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ کیونکہ ان کی صحرائی سنت اور رسم یہ تھی کہ ''خون صرف خون کے ذریعہ دھلتا ہے'' اور خون کا بدلہ صرف خون ہے۔

لوگوں نے ایک اعرابی سے کہا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ جس نے تمہیں اذیت پہنچائی ہے اسے معاف کردو اور انتقام نہ لو؟ اس نے جواب دیا کہ میں خوش ہوؤں گا اگر بدلہ لوں اور جہنم میں جاؤوں۔(٣)

قبائلی رقابت اور فخر و مباہات

اس زمانہ میں عرب کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ ایک دوسرے پر فخر و مباہات کیا کرتے تھے اور جو چیزیں اس سماج میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں (اگرچہ وہ چیزیں موہوم اور بے

______________________

(١) حسن ابراہیم حسن، گزشتہ حوالہ، ص ٣٩.

(٢)بروکلمان، گزشتہ حوالہ، ص ٧۔ ٦.

(٣) نویری، نہایة الارب فی فنون الادب (وزارة الثقافہ و الارشاد القومی المصریہ)، ج٦، ص ٦٧.

۳۱

بنیاد ہوتی تھیں)اس پر ناز کرتے تھے اور اس کی بنا پر دوسرے قبائل پر فخر کرتے تھے۔ میدان جنگ میں شجاعت، بخشش اور وفاداری،(١) مال و دولت کثرت اولاد اور کسی بڑے قبیلہ سے تعلق ہر ایک اس زمانہ کے عرب کی نگاہ میں بڑی اہمیت کا حامل اور وسیلہ ٔ برتری تھا اور وہ اس چیز کو اپنے افتخار کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

قرآن کریم نے ان کی باتوں کی اس طرح سے مذمت کی ہے:

''اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اموال اور اولاد کے اعتبار سے تم سے بہتر ہیں او رہم پر عذاب ہونے والا نہیں ہے آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار جس کے رزق میں چاہتا ہے کمی یا زیادتی کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں اور تمہارے اموال اور اولاد میں کوئی ایسا نہیں ہے جو تمہیں ہماری بارگاہ میں قریب بنا سکے علاوہ ان کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے''۔(٢)

ایک دن کسریٰ (بادشاہ ایران) نے نعمان بن منذر (بادشاہ حیرہ) سے پوچھا کہ کیا قبائل عرب میں کوئی ایسا قبیلہ ہے جو دوسروں پر شرف اور برتری رکھتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا: ہاں! تو اس نے کہا: ان کے شرف کی وجہ کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ جس کے باپ دادا میں سے تین شخص لگاتار رئیس قبیلہ ہو ں اور ان کی نسل سے چوتھا بھی رئیس بنے تو قبیلہ کی ریاست اس کے خاندان کو ملتی ہے۔(٣)

عصر جاہلیت میں عرب قبیلہ کے افراد کی کثرت کو اپنے لئے مایہ ٔ افتخارسمجھتے تھے اور اس طرح اپنے رقیب قبائل پر فخر و مباہات کرتے اور ان سے افراد کی تعداد کا مقابلہ کرتے تھے(٤) یعنی اپنے افراد کی تعداد بتا کر یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے قبیلہ کی تعداد دشمن کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔

ایک دن دو قبیلوں کے درمیان اس قسم کا تفاخر شروع ہوا، ہر ایک نے اپنے قبیلہ کے افتخارات بیان

______________________

(١) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨٠۔

(٢)سورۂ سبا،٣٤، آیت ٣٧۔ ٣٥

(٣) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨١۔

(٤) منافرہ، نفر سے بنا ہے یعنی ہر ایک اپنی تعداد دوسرے سے زیادہ بتاتا تھا۔ (آلوسی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٨.) اس قسم کے تفاحر کے بے شمار واقعات، ظہور اسلام سے قبل تاریخ عرب میں نقل ہوئے ہیں۔

۳۲

کئے اور طرفین نے دعویٰ کیا کہ ہماری خوبیاں اور قبیلہ کے افراد، دوسرے قبیلہ کے مقابل میں زیادہ ہیں اس موقع پر دونوں کی تعداد کو شمار کیا گیا، زندہ لوگوں کی سرشماری مفید ثابت نہیں ہوئی تو مردوں کے شمارش کی نوبت آئی اور دونوں طرف کے لوگ قبرستان گئے اور اپنے اپنے مردوں کو شمار کیا۔(١)

قرآن کریم نے ان کے اس جاہلانہ اور غیر عاقلانہ طرز عمل کی اس طرح سے مذمت کی ہے۔

''تمہیں باہمی مقابلۂ کثرت مال اور اولاد نے غافل بنادیا ، یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی اور اپنے مردوں کی قبر وںکو شمار کیا اور اس پر فخر و مباہات کیا ایسا نہیں ہے کہ گمان کرتے ہو ، دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا''۔(٢)

نسب کی اہمیت

جاہل عربوں کے درمیان کمال کا ایک اہم معیار، نسب ہوا کرتا تھا جو ان کی نظر میں بہت اہمیت رکھتا تھا یہاں تک کہ بہت ساری خوبیاں ''نسب'' کی بنا پر ہوا کرتی تھیں۔(٣)

قبائل عرب میں نسلی تفاخر بہت زیادہ پایا جاتا تھا جس کا واضح نمونہ وہ قومی رقابتیں ہیں جو عدنانیوں

______________________

(١) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، ج٢٠، ص ٣٥٣؛ آلوسی،گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٧٩

(٢) سورۂ تکاثر، ١٠٢،آیت ٣۔ ١

(٣) مثلاً اس زمانہ کی رسم یہ تھی کہ اگر کسی کا باپ عرب اور ماں عجمی ہوتی تھی تو اس کو طعنہ اور تحقیر کرنے کے لئے ''ہجین'' کہتے تھے (جو نسب کی پستی اورناخالصی پر دلالت کرتا ہے) اور اگر کوئی اس کے برعکس ہوتا تھا تو اس کو ''مذَرّع''۔۔کہتے تھے۔ ھجین ارث سے محروم رہتا تھا (ابن عبد ربہ اندلسی، العقد الفرید، (بیروت: دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٦، ص ١٢٩؛ ھجین مرد صرف اپنی جیسی عورتوں سے شادی کرنے کا حق رکھتا تھا (محمد بن حبیب المحبر، (بیروت: دار الآفاق الحدیدة)، ص ٣١٠؛ شہرستانی، الملل و النحلل، (قم: منشورات الرضی، ط٢) ص ٢٥٤. دور اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ھجین کے خون بہا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا: اسلام کے ماننے والوں کے خون کی قیمت برابر ہے۔(ابن شہر آشوب، مناقب،( قم: المطبعة العلمیہ، ج١، ص ١١٣.

۳۳

(شمالی عرب) اور قحطانیوں (جنوبی عرب) کے درمیان پائی جاتی تھیں۔(١) اسی بنا پر وہ لوگ اپنے نسب کی شناخت اور حفاظت کو اہمیت دیتے تھے۔

نعمان بن منذر کسریٰ کے جواب میں کہتا ہے: عرب کے علاوہ کوئی بھی امت، اپنے نسب سے واقف نہیں ہے اور اگر ان کے اجداد کے بارے میں پوجھا جائے تو اظہار لاعلمی کرتے ہیں لیکن ہر عرب اپنے آباء و اجداد کو پہچانتا ہے اورغیروں کو اپنے قبیلہ کا جزء نہیں مانتا اور خود دوسرے قبیلہ میں شامل نہیں ہوتا اور اپنے باپ کے علاوہ دوسروں سے منسوب نہیں ہوتا۔(٢)

لہٰذا تعجب کی بات نہیں ہے کہ علم ''نسب شناسی'' اس وقت ایک محدود علم تھا جس کی بڑی اہمیت تھی اور نسب دانوں کوایک خاص مقام حاصل تھا۔

آلوسی جوکہ عرب شناسی کے مسئلہ میں صاحب نظر ہے کہتا ہے: عرب کے جاہل اپنے نسب کی شناخت اور حفاظت کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ یہ شناخت الفت و محبت کا ایک وسیلہ تھی وہ اور ان کے یہاں اس کی زیادہ ضرورت پڑتی تھی کیونکہ ان کے قبائل متفرق ہوتے تھے اور جنگ کی آگ مستقل ان کے درمیان شعلہ ور تھی اور لوٹ و مار ان کے درمیان رائج تھا۔ اور چونکہ وہ کسی قدرت کے ماتحت نہیں

______________________

(١)جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، (بیروت: دار العلم للملائین، ١٩٦٨م)، ج١، ص ٤٩٣کے بعد؛ شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، العصر الجاہلی، ص ٥٥۔

(٢)آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٤٩۔ زمانہ اسلام میں عمر بن خطاب نے اسی فکر سے متاثر ہوکر عراق کے نبطیوں سے جنھوں نے اپنا تعارف اپنے رہنے کی جگہ سے کیا تھا ، ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا: اپنے نسب کو سیکھو اورعراق کے نبطویں کی طرح نہ بنو اس لئے کہ جب ان سے ان کے خاندان اور نسب کے بارے میں پوچھا جاتاہے تو جواب میں کہتے ہیں فلاں جگہ اور فلاں محل کا رہنے والا ہوں ۔ (ابن خلدون ، مقدمہ، تحقیق: خلیل شحادہ و سہیل زکار، نویں فصل، ص ١٦٢؛ ابن عبد ربہ اندلسی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣١٢)۔

۳۴

رہنا چاہتے تھے جو ان کی حمایت کرے لہٰذا وہ مجبور ہوکر اپنے نسب کی حفاظت کیا کرتے تھے تاکہ اپنے دشمن پر کامیاب ہوسکیں کیونکہ رشتہ داروں کی آپسی محبت، حمایت اور تعصب ایک دوسرے کے الفت اور تعاون کا باعث بنتی ہے اور رسوائی اور تفرقہ سے رکاوٹ کا باعث قرار پاتی ہے۔(١)

دین اسلام ہر طرح کی قومی برتری کا مخالف ہے اگر چہ قرآن کریم قریش اور عرب کے درمیان نازل ہوا تھا لیکن اس کے مخاطبین صرف قریش، عرب یا اس کے مانند دوسرے افراد نہیں ہیں بلکہ اس کے مخاطبین عوام الناس ہیں اور اس میں مسلمانوں او رمومنین کے فرائض بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم قومی فرق کو فطری جانتا ہے اور اس فرق کا فلسفہ بتاتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں اور قومی اور نسلی فخر و مباہات کی مذمت کرتا ہے اور بزرگی کا معیار ''تقویٰ'' کوبتاتا ہے۔

اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ ہر شیٔ کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے۔(٢)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے نسلی اور خاندانی فخر و مباہات کی شدت سے مخالفت کی ہے۔ جس کے چند نمونے یہ ہیں:

١۔ فتح مکہ کے موقع پر جب قریش کا اصلی قلعہ منہدم ہوگیا تو آپ نے فرمایا: اے لوگو! خداوند عالم نے نور اسلام کے ذریعہ، زمانۂ جاہلیت میں رائج فخر و مباہات کو ختم کردیا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ تم نسل آدم سے ہو اور آدم خاک سے پیدا ہوئے ہیں۔ خدا کا بہترین بندہ وہ ہے جو متقی ہو کسی کے باپ کا عربی

______________________

(١) بلوغ الارب، ج٣، ص ١٨٢؛ اسی طرح رجوع کریں: المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج١، ص٤٦٧۔ ٤٦٦۔

(٢) سورۂ حجرات،٤٩، آیت ١٣۔ حضرت امام صادق سے ایک روایت کے مطابق اور بعض تفسیروں کیبنیاد پر، مذکورہ آیت میں کلمۂ ''قبائل'' سے مراد عرب کے چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جن میں سے ہر ایک کو ''قبیلہ''کہا جاتا ہے اور ''شعوب'' سے مراد غیر عربی گروہ ہے۔ (طبرسی، مجمع البیان، تفسیر سورۂ حجرات، ذیل آیۂ ١٣)

۳۵

ہونا فضیلت نہیں رکھتا ، یہ صرف زبانی بات ہے اور جس کا عمل اسے کسی مرتبہ پر نہ پہنچا سکے اس کا نسب و خاندان بھی اسے کسی مرتبہ پر نہیں پہنچا سکتا۔(١)

٢۔ حجة الوداع کے موقع پر ایک مفصل خطبہ کے دوران جو کہ اہم اور بنیادی مسائل پر مشتمل تھا آپ نے فرمایا: کوئی عربی، عجمی پر فضیلت نہیں رکھتا، صرف تقویٰ کے ذریعہ آدمی بزرگ اور محترم قرار پاتا ہے۔(٢)

٣۔ایک دن آپ نے قریش کے سلسلے میں گفتگو کے دوران، جناب سلمان کی باتوں کی تائید فرمائی اور قریش کے غلط طرز فکراور انکی نژاد پرستی کے مقابلہ میں روحانی کمالات پر تکیہ کرتے ہوئے فرمایا: اے گروہ قریش! ہر شخص کا دین ہی اس کا حسب و نسب ہے اور ہر کسی کا اخلاق و کردار ہی اس کی مردانگی ہے اور ہر ایک کی اساس اور بنیاد اس کی عقل و فہم اور دانائی ہے۔(٣)

______________________

(١) کلینی ، الروضة من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٢)، ص ٢٤٦؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب اسلامی)، ج٢١، ص ١٣٧ ، اور ١٣٨، اور الفاظ میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ، سیرہ ابن ہشام، ج٤، ص ٥٤، پر نقل ہوا ہے۔

(٢) حسن بن علی بن شعبہ، تحف العقول (قم: مؤسسة النشر الاسلامی، ط٣، ١٣٦٣)، ص ٣٤.

(٣) کلینی ، گزشتہ حوالہ، ص ١٨١۔

۳۶

قبائلی جنگیں

اگر عرب کے درمیان کوئی قتل رونما ہوتا تھا تو اس کی ذمہ داری قاتل کے قریبی ترین افراد پر عائد ہوتی تھی اور چونکہ قاتل کا قبیلہ اس کی حمایت پر آمادہ اور کمر بستہ نظر آتا تھا ، لہٰذا انتقام کے لئے خون ریز جنگیں ہوتی تھیں. اور یہ جنگیں جو عام طور پر چھوٹی باتوں پر ہوتی تھیں کئی سالوں تک جاری رہتی تھیں جیسا کہ ''جنگ بسوس'' جو کہ دو قبیلوں بنی بکر اور بنی تغلب کے درمیان (یہ دونوں قبیلے ربیعہ سے تھے)

چھڑی چالیس سال تک جنگ جاری رہی اور اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ پہلے قبیلہ کا اونٹ جو کہ بسوس نامی خاتون کا تھا بنی تغلب کی چراگاہ میں چرنے کے لئے چلا گیا تو اسے ان لوگوں نے مار ڈالا۔(١)

اسی طرح سے'' داحس اور غبراء نامی'' دو خون ریزجنگ قیس بن زہیر (قبیلہ ٔ بنی قیس کا سردار) اور حذیفۂ ابن بدر (قبیلۂ بنی فزارہ کا سردار) کے درمیان ایک گھوڑ دوڑ کے سلسلہ میں رونما ہوئی اور مدتوں جاری رہی۔ داحس اور غبراء نامی دو گھوڑے تھے ایک قیس کا اور دوسرا حذیفہ کا تھا۔ قیس نے دعوا کیا کہ اس کا گھوڑا مسابقہ میں جیتا ہے اور حذیفہ نے دعوا کیا کہ اس کا گھوڑا مسابقہ میں بازی لے گیا ،اسی مختصر سی بات پر دونوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑک ا ٹھی اور بہت زیادہ قتل اور خونریزی رونما ہوئی۔(٢) اور اس طرح کے واقعات ''ایام العرب'' کے نام سے مشہورہوئے۔ اور اس کے بارے میں کتابیں لکھی گئیں۔البتہ کبھی چند اونٹ خون بہا کے طور پر دے کر مقتول کی دیت ادا کردی جاتی تھی۔ اور ہر قبیلہ کے بزرگ اس قسم کے مسائل کے لئے راہ حل تلاش کرتے اور اس کو قوم کے سامنے پیش کرتے تھے لیکن وہ اس کو قوم پر تھوپتے نہیں تھے۔ اور زیادہ تر قبائل ان تجاویز کو اس وقت قبول کرتے تھے جب طولانی جنگوں سے تھک اور ناامید ہوجاتے تھے تو ان تجاویز کو قبول کرلیتے تھے۔

اگر قاتل کا گروہ، خطاوار کو قصاص کے لئے مقتول کے سپرد کردیتا تو یہ جنگ رونما نہ ہوتی لیکن ان

______________________

(١) محمد احمد جادالمولی بک، علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاہلیة، (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ص ١٦٨۔ ١٤٢؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر، ١٣٩٩ھ.ق)، ج١، ص ٥٣٩۔ ٥٢٣۔

(٢)عبد الملک بن ہشام، سیرة النبی، تحقیق: مصطفی السقائ(اور دوسرے لوگ)، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص٣٠٧؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، قاہرہ: مطبعة السعادة، ط١، ١٣٢٣ھ.ق)، ج١، ص٢٦٨ لفظ (صاد) ۔ ابن اثیر اور جاد المولی بک دونوں قیس کا گھوڑا جانتے تھے۔(الکامل فی التاریخ، ج١، ص ٥٨٢۔ ٥٦٦؛ ایام العرب، ص ٢٧٧۔ ٢٤٦)۔

۳۷

کی نظروں میں ایسا کرنا ان کی عزت و وقار کے خلاف تھا اسی بنا پر وہ اپنے لئے بہتر سمجھتے تھے کہ خطاکار کو خود سزا دیں۔ کیونکہ بادیہ نشینوں کی نگاہ میں عزت اور آبرو کی حفاظت سب سے زیادہ اہم تھی اور وہ اپنے تمام اعمال میں اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے۔

ان کے درمیان جو قوانین اور دستورات رائج تھے وہ کم و بیش حجاز کے شہروں یعنی طائف، مکہ اور مدینہ میں بھی نافذ تھے۔ کیونکہ ان شہروں کے باشندے بھی اپنے سماج میں بادیہ نشینوں کی طرح مستقل اور آزاد رہتے تھے اور کسی کی پیروی نہیں کرتے تھے بادیہ نشینوں میں تعصب اور آبرو پرستی، بے حد اور مبالغہ آمیز تھی۔ لیکن مکہ میں کعبے کے احترام اور تجارتی مرکز ہونے کی بنا پر ایک حد تک متوسط تھی۔(١)

قرآن کریم اس قسم کے تعصب اور انتقام کی مذمت کرتا ہے اور نصرت اور حمایت کا معیار، حق و عدالت کو قرار دیتا ہے اور تاکید فرماتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ عدالت کو شدت کے ساتھ قائم کریں اگرچہ یہ عدالت والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

''اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہی دو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کی حمایت کا تم سے زیادہ سزاوار ہے لہٰذا خبردار! خواہشات کا اتباع نہ کرنا تاکہ انصاف نہ کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے''۔(٢)

______________________

(١) بروکلمان،گزشتہ حوالہ، ص٨.

(٢)سورۂ نسائ، ٤،آیت ١٢٥.

۳۸

غارت گری اور آدم کشی

بدو عرب اپنے قبیلہ کے علاوہ دوسروں سے دوستی اور محبت نہیں کرتے تھے ان کا دائرہ فکر اور فہم صرف اپنے قبیلہ تک محدود ہوتا تھا یہ لوگ اس قدر متعصب اور قبیلہ پرست ہوتے تھے کہ دنیا کی ساری چیزیں صرف اپنے لئے چاہتے تھے اور سب سے زیادہ اپنے اور اپنے رشتہ داروں کا فائدہ چاہتے تھے جیسا کہ ان میں سے کسی نے زمانۂ اسلام میں اپنی جاہلیت کی تہذیب سے متاثر ہوکر اس طرح سے دعا کی، اے خدا! مجھ پر اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحم فرما اور ہمارے علاوہ کسی پر رحم نہ کر۔(١)

ان میں صحرائی زندگی کی بنا پر جو محرومیت پائی جاتی تھی اس کی بنا پر وہ غارت گری کیا کرتے تھے کیونکہ ان کی سرزمین نعمتوں سے محروم تھی اور وہ اس کمی اور محرومیت کو لوٹ مار کے ذریعہ پورا کرتے تھے۔ رہزنی اور غارت گری کو نہ صرف یہ کہ برا فعل نہیں سمجھتے تھے بلکہ (جیسے آج کے دور میں ایک شہر یا صوبہ پر قبضہ کرلینے کو فخر سمجھتے ہیں) اپنے لئے باعث فخر اور شجاعت سمجھتے تھے۔(٢)

البتہ قبیلوں کے درمیان جو رقابت پائی جاتی تھی وہ بھی جنگ اور غارت کا سبب بنتی تھی اور زیادہ تر اختلافات اور جھگڑے، چراگاہوں پر قبضہ کرلینے کی بنا پر ہوتے تھے۔ اور کبھی قبیلہ کی سرداری کے انتخاب پر بھی رشتہ داروں کے درمیان جنگ و خونریزی ہوتی تھی۔ مثلاً اگر بڑا بھائی سرداری کے منصب پر فائز ہو اور مرجائے تو اس کے دوسرے بھائی اپنی عمر کے مطابق قبیلہ کی سرداری کے خواہاں رہتے تھے اور مرنے والی کی اولاد اپنے باپ کے مقام کی آروزمند ہوتی تھی۔ اسی بنا پر اکثر قبیلوں اور

______________________

(٢) اللہم ارحمنی و محمداً و لاترحم معنا احداً (صحیح بخاری، شرح و تحقیق: الشیخ قاسم الرفاعی، (بیروت: دار القلم)، ج٨، کتاب الادب، باب ٥٤٩، ح ٨٩٣، ص ٣٢٧، اور تھوڑے سے الفاظ کے اختلاف کے ساتھ: سنن ابی داؤد (بیروت: دارالفکر)، ج٤، کتاب الادب، باب ''من لیست لہ غیبة''، ص ٢٧١.)

(٣) گوسٹاولوبون، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣.

۳۹

رشتہ داروں کے درمیان جو کہ نسب اور محل سکونت کے لحاظ سے بہت قریب تھے، سخت اختلافات اور جھگڑے ہوتے تھے۔ شعراء بھی اپنے اشعار کے ذریعہ فتنہ کی آگ بھڑکایا کرتے تھے۔ وہ اشعار میں اپنے قبیلہ کے افتخارات کو بیان کرتے تھے اور دوسرے قبیلہ کے عیوب کو برملا کرتے تھے اور لوگوں کے ذہنوں میں گزشتہ باتوں کو تازہ کر کے ان کے دلوں میں کینہ اور لڑائی کا جذبہ پیدا کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر ان کے درمیان لڑائیاں صرف معمولی اور چھوٹی بات پر ہوتی تھیں۔ جس وقت فتنہ کی آگ بھڑکتی تھی تو دونوں قبیلے ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہوجاتے تھے اور ایک دوسرے کو نابود کرنے کی فکرمیں لگ جاتے تھے۔(١)

وحشی گری اور تمدن سے دوری ان کی غارت گری کا ایک دوسرا سبب تھا۔ ابن خلدون کی نگاہ میں اس قوم کے لوگ وحشی تھے اور ان کے درمیان وحشی گری اس قدر پائی جاتی تھی کہ جیسے ان کے سرشت اور عادت میں رچ بس گئی ہو، مثال کے طور پر، کھانے کی دیگ بنانے کے لئے انھیں سنگ کی ضرورت پڑتی تھی تو وہ اس کی خاطر عمارتوں کو مسمار کردیتے تھے تاکہ کھانے کی دیگ ان پتھروں سے بنائیں یا محلوں اور بڑی عمارتوں کو اس بنا پر ویران کردیتے تھے تاکہ ا س کی لکڑی سے خیمہ بنائیں یا اس سے عمارتیں اور ستون خیمہ تیار کریں۔ غارت گری کی عادت ان میں اس قدر پائی جاتی تھی کہ جو بھی چیز وہ دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتے تھے اسے لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کی روزیاں نیزوں کے بل پر فراہم ہوتی تھیں دوسروں کا مال چوری کرنے سے کبھی باز نہیں آتے تھے بلکہ ان کی نظر اگرکسی کے مال و ثروت یا وسائل زندگی پر پڑتی تھی تو اسے وہ لوٹ لیا کرتے تھے۔(٢)

ان کی آمدنی کا ایک ذریعہ لوٹ اور غارت ہوا کرتا تھا جس وقت وہ کسی قبیلہ پر حملہ آور ہوتے تھے تو

______________________

(١) حسن ابراہیم حسن، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٨.

(٢) مقدمہ ترجمۂ محمد پروین گنابادی ، (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ط٤، ١٣٦٢)، ج١، ص ٢٨٦۔ ٢٨٥.

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403