تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 138815
ڈاؤنلوڈ: 3431

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138815 / ڈاؤنلوڈ: 3431
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تاریخ اسلام

دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک

مہدی پیشوائی

مترجم : کلب عابد خان سلطانپوری

مجمع جہانی اہل البیت

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اہل تشیع کے جلیل القدر عالم دین آقائے پیشوائی کی گرانقدر کتاب ''تاریخ اسلام '' فاضل جلیل عالیجناب مولانا کلب عابد خان سلطانپوری ہندی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اس منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

عرض مترجم

عرصۂ داراز سے یہ خواہش تھی کہ ایک ایسی تاریخی کتاب کا ترجمہ کروں جو کسی حد تک کامل، معتبر، مستند اور مدلل ہو۔ جس میں واقعات کے تمام جزئیات کے حوالے درج ہوں۔ اور واقعات کا تجزیہ او ران کی تحلیل نیز شبہات و اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہوں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کافی جستجو اور تحقیق کے بعد، مؤلف محترم جناب مہدی پیشوائی صاحب کی کتاب ''تاریخ اسلام'' میری نظروں سے گزری، کتاب کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوا کہ مجھے ایسی ہی کتاب کی تلاش تھی چنانچہ ابھی اسی فکر میں تھا کہ مجمع جہانی اہل البیت ٪ کی جانب سے اس کتاب کے ترجمہ کا کام میرے سپرد کیا گیا تو میں نے بخوشی قبول کرلیا مضامین و مقالات وغیرہ لکھنے کا شوق پہلے ہی سے تھا اور حقیر کے متعدد مضامین ادارۂ تنظیم المکاتب کے ماہانہ رسالہ میں شائع ہوچکے ہیں لیکن ترجمہ کے میدان میں یہ میری پہلی کاوش ہے۔ترجمہ کیسا ہے یہ فیصلہ قارئین کے حوالہ ہے البتہ اتنا بہرحال طے ہے کہ ایک زبان کے جملہ مطالب کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ وہی حضرات لگاسکتے ہیں جنھوں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے۔ میری کوشش یہی تھی کہ کتاب کے جملہ مطالب ہمارے اردو زبان معاشرہ تک پہنچ جائیں اگر چہ بشریت کے ناطے ہر قسم کے کمال کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

امید ہے کہ میری یہ کوشش بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل کرے گی نیز حقیر اور اس کے تمام بزرگوں کے لئے ذخیرۂ آخرت قرار پائے گی۔

والسلام

احقر العباد:کلب عابد خان

۷

مقدمۂ مولف

تمام تعریفیں اس ذات پروردگار کے لئے ہیں جس نے ہمیں اس کتاب کی نگارش کی توفیق عطا کی اور درود و سلام ہو عظیم الشان رسول، حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے برحق معصوم جانشینوں اور اصحاب پاک پر۔

قارئین کرام کی خدمت میں جو کتاب پیش کی جا رہی ہے یہ دس سال سے زیادہ عرصہ تک ملک کی اعلیٰ علمی درس گاہوں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں نوٹس کی صورت میں تدریس کی جاچکی ہے۔ یہ کتاب، دقیق مطالعہ اور کلاس میں کئے گئے طرح طرح کے تاریخی سوالات کے جوابات میں، تاریخ اسلام سے برسوں کی واقفیت اور انسیت کے بعد تدوین و تالیف ہوئی ہے۔

اس کتاب کی تدوین و تالیف میں کچھ نکات کا لحاظ کیا گیا ہے جس کی طرف قارئین کرام، مخصوصاً طالب علموں اور اساتذہ کرام کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

١۔ کتاب کے پہلے حصہ کی فصلوں میں ظہور اسلام سے قبل، جزیرة العرب کے حالات کو بطور مفصل بیان کیا گیاہے اس لئے کہ اس دور کے حالات سے مکمل واقفیت کے بغیر اسلامی تاریخ کے بے شمار واقعات کا صحیح ادراک کرنا اور ان کا تحلیل و تجزیہ کرنا ناممکن ہے۔

اسلامی تاریخ میں بہت سے واقعات کا تعلق زمانۂ جاہلیت سے ہے لہٰذا ظہور اسلام کے بعد جزیرة العرب کے حالات کو سمجھنے کے لئے ظہور اسلام سے پہلے کے حالات سے واقفیت ضروری ہے۔ اسی بنا پر ان واقعات کے صحیح ادراک اور ان کے ایک دوسرے سے مربوط ہونے اور ظہور اسلام کے بعد اس علاقہ میں آنے والی بنیادی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے اس باب کے مباحث کوکچھ تفصیل سے پیش کیا گیا ہے، اس کے برخلاف بعد کے ابواب میں ہماری سعی و کوشش رہی ہے کہ حتی الامکان اختصار سے کام لیا جائے۔

۸

٢۔ زیادہ تر حوالے حاشیہ پر، اس لئے ذکر کردیئے گئے ہیں تاکہ اگر قاری محترم واقعات کی تفصیلات کو معلوم کرنا چاہے تو اس سے کم از کم بعض حوالہ جات کی طرف رسائی حاصل کرسکے اس کے علاوہ یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ واقعات کی شہرت یا اس کا تواتر ثابت ہو جائے۔

٣۔ عام طور سے تاریخی واقعات کی تفصیلات اور اس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں اس کے حوالے ذکر کئے جاتے ہیں جب کہ اصل میں وہ حوالے ان تمام تفصیلات اور جزئیات کے نہیں ہوتے ۔ ان حوالوں کو دیکھ کر قاری خیال کرتا ہے کہ اس کے زیر مطالعہ بحث کی تفصیلات تمام کتابوں میں موجود ہیں۔ جبکہ یہ طریقہ زیادہ دقیق اور درست نہیں ہے خاص طور سے اگر بعض تفصیلات بہت زیادہ اہم یا محل اختلاف ہوں۔

اس کتاب میں عام روش کے برخلاف ہر واقعہ کی تمام تفصیلات اور پہلوؤں کو بالکل الگ کر کے بیان کیا گیاہے۔ مثال کے طور پر جنگوں کی تفصیلات جیسے وقوع جنگ کا سبب، اس کی تاریخ، دونوں طرف کے سپاہیوں کی تعداد، جنگ کا طریقہ، طرفین کو پہنچنے والے نقصانات، مال غنیمت کی تقسیم کا طریقہ اور جنگ کے آثار و نتائج وغیرہ ، جدا طریقہ سے ذکر ہوئے ہیں ان جزئیات کا مطالعہ کرنے سے قاری متوجہ ہو جاتا ہے کہ واقعات کا کون سا حصہ کس کتاب میں بیان ہوا ہے اور ضرورت کے وقت آسانی سے اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔ مولف کے عقیدہ کے مطابق اس روش کے اپنانے میں (کئی اہم اور لطیف فائدے ہیں) بہت زیادہ دقت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں مؤلف کو زیادہ زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔

٤۔ قرآنی شواہد اور حدیثی تائیدات پوری کتاب میں ذکر ہوئی ہیں البتہ ضرورت کے تحت (قرآن کریم کی آیات، روایات اور تاریخی متون کے خاص حصوں کو عربی متن کے طور پر حاشیہ پر تحریر کردیا گیا ہے اور اس کا ترجمہ اصل کتاب میں نقل کردیا گیا ہے تاکہ کتاب کے متن میں یکسانیت اور روانی باقی رہے اور جو حضرات عربی داں نہیں ہیں ان کے لئے ملال آور نہ ہو۔

۹

٥۔ ضروری مقامات پر بحث کی مناسبت سے تجزیہ اور تحلیل کر کے شبہات کا واضح جواب دیا گیا ہے جبکہ بعض مقامات پر تفصیلی تجزیہ سے پرہیز کرتے ہوئے بہت سے موضوعات (جیسے جنگ فجار میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت اور آپ کے سینہ کا شگافتہ کرنا اور عبد المطلب کے نذر کی بحث) کو اس لئے نظر انداز کیا گیا ہے کہ کتاب کی تدریس صرف ٣٤ درسوں کی صورت میں ہونا طے پائی ہے لہٰذا اس کے لئے اس سے زیادہ ضخیم ہونا مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بعض مطالب تخصصی اور مہارتی پہلو رکھتے ہیں اور ان کے ذکر کا اپنا محل ہے۔ لہٰذا اصل موضوع کی طرف مختصر سے اشارہ کے بعد اس طرح کی بحثوں کے حوالے حاشیہ پر بیان کردیئے گئے ہیں تاکہ اس موضوع میں دلچسپی لینے والے حضرات ان کی طرف رجوع کرسکیں۔

٦۔ دوسرے درجے کے مطالب، اقوال کے اختلاف کی جگہیں، غیر ضروری گوشے اور تکمیلی و اضافی تفصیلات وغیرہ عام طور سے حاشیہ پر بیان کی گئیں ہیں ۔ بہر حال کتاب کو دقیق، مستحکم اور مفید بنانے کے لئے، مطالب کے نقل میں دقت، ترجموں کی صحت، تجزیہ و تحلیل کی درستگی اور پھر ان کی نتیجہ گیری میں ہر ممکن کوشش اور زحمتیں اٹھائی گئیں ہیں ۔ لیکن پھر بھی کتاب، نقص ا و راصلاح و تکمیل سے بے نیاز نہیں ہے۔ لہٰذا اساتذہ کرام اور طلاب محترم اور صاحبان نظر کی تنقید اور مشورے کتاب کی اصلاح اور تکمیل کی راہ میں مفید ثابت ہوں گے۔

خلوص اور وفاداری کا تقاضہ ہے کہ اپنے دیرینہ دوست، نامور خطیب، مایہ ناز قلم کار حجة الاسلام و المسلمین الحاج غلام رضا گل سرخی کاشانی مرحوم کا بھی تذکرہ کروں جن کے تعاون اور مدد سے اس کتاب کی تدوین کا ابتدائی کام انجام پایاہے۔ لہٰذا اپنے اس مرحوم دوست کے لئے خداوند عالم کی بارگاہ میں رحمت اور بلندی درجات کا خواہاں ہوں۔ اور اسی طرح سے حجج اسلام الحاج شیخ علی اکبر ناصح اور فرج اللہ فرج الٰہی کا بھی شکر گزار ہوں کہ ان حضرات نے کتاب کی تصحیح، ٹائپ اور مقدماتی مباحث کی تدوین اور تالیف میں ہمارا ہر طرح سے تعاون کیا۔

آخر میں درسی کتابوں کی تدوین اور تاریخ اسلام کے شعبہ کے سرپرست نیز اراک کی آزاد اسلامی یونیورسٹی کا بھی شکر گزار ہوں۔

والسلام

قم۔ مہدی پیشوائی

محرم الحرام ١٤٢٤ ہجری قمری

۱۰

پہلا حصہ

مقدماتی بحثیں

پہلی فصل : جزیرة العرب کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی صورتحال

دوسری فصل: عربوں کے صفات اور نفسیات

تیسری فصل: جزیرہ نمائے عرب اور اس کے اطراف کے ادیان و مذاہب

۱۱

پہلی فصل

جزیرة العرب کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی صورتحال

جزیرہ نمائے عرب جس کو ''جزیرة العرب'' بھی کہتے ہیں یہ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ہے جو مغربی ایشیا کے جنوب میں واقع ہے۔

یہ جزیرہ مغربی شمال سے مشرقی جنوب تک ''غیر متوازی چوکور'' شکل میں ہے.(١) اور اس کی مساحت تقریباً بتیس (٣٢) لاکھ مربع کلو میٹر ہے.(٢) اس جزیرہ نما کے تقریباً ٤٥ حصے میں اس وقت سعودی عرب واقع ہے.(٣) اور اس کا بقیہ حصہ دنیا کی موجودہ سیاسی تقسیم بندی کے اعتبار سے چھ ملکوں یعنی یمن، عمان، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور کویت میں بٹا ہوا ہے۔

اس جزیرہ نما کی سرحد، جنوب کی سمت سے خلیج عدن، تنگۂ باب المندب، بحر ہند اور بحر عمان میں محدود ہے اور مغرب کی سمت میں یہ بحر احمر اور مشرق کی طرف خلیج عمان، خلیج فارس اور عراق تک پھیلا ہوا ہے اور شمال کی جانب سے ایک وسیع صحرا جو کہ درّۂ فرات سے سر زمین شام تک ہے اس جزیرہ کو گھیرے

______________________

(١)حسین قراچانلو، حرمین شریفین (تہران: انتشارات امیر کبیر، ط ١، ١٣٦٢)، ص ٩.

(٢) یورپ کی ایک تہائی مساحت، فرانس کی چھ گنا مشرقی اور مغربی جرمنی کی نو برابر، دس برابر اٹلی ملک کی، ٨٠ گنا سویزرلینڈ اور ایران کی مساحت کے دوگنی مساحت ہے۔

(٣) مؤسسۂ گیتا شناسی، گیتا شناسی کشورھا (تہران: انتشارات گیتا شناسی، ط ٤، ١٣٦٥)، ص ٢٠٥.

۱۲

ہوئے ہے۔ اور چونکہ اس علاقہ کی، دریا اور پہاڑ وغیرہ جیسی کوئی قدرتی سرحد نہیں ہے لہٰذا جغرافیہ دان قدیم زمانے سے ہی سعودی عرب کی شمالی سرحدوں کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔(١)

اگرچہ جزیرہ نمائے عرب خلیج فارس، بحر عمان، بحر احمر اور بحر مڈی ٹرانہ سے گھرا ہوا ہے لیکن صرف جنوبی حصہ کے علاوہ اس پانی سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ علاقہ دنیا کے بہت زیادہ خشک اور گرم علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہاں ایک ایسا بڑا دریا بھی موجود نہیں ہے جس میں بحری جہاز کا راستہ ہو بلکہ اس کے بجائے وہاں ایسی گھاٹیاں موجود ہیں جن میں کبھی کبھار سیلاب آجاتا ہے۔

اس علاقہ میں خشکی کی وجہ، اس جزیرہ میں پھیلے ہوئے ایسے پہاڑ ہیں جو ایک بلند دیوار کے مانند جزیرۂ سینا سے شروع ہوتے ہیں اور مغرب کی سمت میں بحر احمر کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے ہیں اور جنوب کے مغربی گوشہ سے ٹیڑھے ترچھے (غیر مستقیم) انداز میں جنوبی اور مشرقی ساحل سے ، خلیج فارس تک ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح سے سعودی عرب تین طرف سے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور یہ پہاڑ سمندروں کی رطوبت کو اس علاقہ میں سرایت کرنے سے روک دیتے ہیں۔(٢)

دوسرے یہ کہ اس کے اطراف کے ملکوں میں پانی کا ذخیرہ اتنا کم ہے کہ افریقا اور ایشیا کی اس وسیع آراضی کی گرمی اور خشکی کو یہاں کی مختصر سی بارش متعادل موسم میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ کیونکہ عرب میں ہمیشہ چلنے والی موسمی ہوائیں (جن کو سموم کہتے ہیں) بحر ہند کے جنوبی علاقہ سے اٹھتے ہوئے ابرباراں کو جزیرة العرب میں برسنے سے روک دیتی ہیں۔(٣)

______________________

(١) فیلیپ خلیل حتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابو القاسم پایندہ (تہران: انتشارات آگاہ، طبع دوم، ١٣٦٦ ش)، ص ٢١

(٢) علی اکبر فیاض ، تاریخ اسلام، (تہران: انتشارات تہران یونیورسٹی، ط ٣ ١٣٦٧)، ص٢؛ آلبرمالہ و ژول ایزاک، تاریخ قرون وسطی تا جنگ صد سالہ، ترجمہ: میرزا عبد الحسین ہژیر (تہران: دنیای کتاب، ١٣٦٢)، ص ٩٥.

(٣) فلیپ حتی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤

۱۳

جزیرة العرب کی تقسیم

عرب اور عجم کے جغرافیہ نویسوں نے جزیرة العرب کو کبھی موسم (آب و ہوا) کے لحاظ سے اور کبھی قوم یا نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے.(١) اور بعض معاصر دانشوروں نے اس کو مندرجہ ذیل تین بنیادی علاقوں میں تقسیم کیا ہے:

١۔ مرکزی حصہ جس کا نام ''صحرائے عرب'' ہے۔

٢۔ شمالی حصہ جس کا نام ''حجاز'' ہے۔

٣۔ جنوبی حصہ جو ''یمن'' کے نام سے مشہور ہے۔(٢)

_______________________

(١) مَقدِسی، چوتھی صدی کا مسلمان دانشور کہتا ہے کہ ملک عرب چار بڑے علاقوں ، حجاز، یمن ، عمان اورہجر پر مشتمل ہے۔ (احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، ترجمہ علی نقی منزوی (تہران: گروہ مؤلفین و مترجمین، ایران، ط ١، ١٣٦١)، ص ١٠٢، لیکن دوسروں نے کہا ہے کہ وہ پانچ حصے یعنی تہامہ، حجاز، نجد، یمن اور عروض پر مشتمل ہے. (الفداء ،تقویم البلدان، ترجمہ: عبد المحمد آیتی (تہران: انتشارات بنیاد فرھنگ ایران، ١٣٤٩)، ص ١٠٩، یاقوت حموی، معجم البلدان، بہ تصحیح محمد امین الخانجی الکتبی (قاہرہ: مطبعة السعادة، ط ١، ١٣٢٤ھ. ق)، ص١٠١، اور ٢١٩؛ شکری آلوسی، بغدادی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط ٢،)، ج١، ص ١٨٧؛ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (بیروت: دار العلم ، للملایین، ط ١، ١٩٦٨)، ج١، ص ١٦٧۔

ان کے علاوہ دوسری تقسیمات بھی ذکر ہوئی ہیں جس کا ہمارے زمانے میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہے ۔ رجوع کریں: گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی (تہران: کتاب فروشی اسلامیہ)، ص ٣١

(٢) یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشری، (جاہلیت و اسلام) ، تہران: مطبوعاتی فراہانی ١٣٤٦)، ص٢٣٤۔ ٢٣١)

۱۴

جزیرة العرب کی تقسیم، اس کے شمالی اور جنوبی (قدرتی) حالات کی بنا پر

موجودہ دور میں ایک دوسری بھی تقسیم رائج ہوئی ہے جو اس کتاب کے لئے زیادہ مناسب ہے۔ یہ تقسیم، زندگی کے ان حالات کی بنیاد پر ہے جو اس علاقہ کے انسانوں، حیوانوں اور مقامات پر اثر انداز تھے اور یہ شرائط وہاں کے باشندوں کی انفرادی اور اجتماعی خصوصیات اور تبدیلیوں میں جلوہ گر ہوئے جو ظہور اسلام تک باقی رہے کیونکہ جزیرة العرب دومخالف جغرافیائی حالات کا گہوارہ رہا ہے اور وہاں کے اجتماعی حالات کا دارو مدار پانی کے وجود پر ہے اور پانی کی موجودگی یا عدم موجودگی ہی وہاں کے اجتماعی حالات پر اثر انداز ہوتی ہے جس کی بنا پر اس کا جنوبی علاقہ یعنی ''یمن'' ،اس کے شمالی اور مرکزی علاقہ سے الگ ہو جاتا ہے۔

جنوبی جزیرة العرب (یمن) کے حالات

اگر ہم اس سرزمین کے نقشہ پر نگاہ ڈالیں تو جزیرة العرب کے مغربی جنوب کے آخر میں ایک علاقہ مثلث کی شکل میں نظر آتا ہے جس کے مشرقی ضلع میں بحر عرب کا ساحل اور مغربی ضلع میں بحر احمر کا ساحل ہے اور ظہران (جوکہ مغرب میں واقع ہے) سے وادی حضر موت (جوکہ مشرق میں واقع ہے) تک کھینچے جانے والے خط کو مثلث کا تیسرا ضلع قرار دیا جاسکتا ہے ان حدود میں جو علاقہ ہے اس کو قدیم زمانے سے ''یمن'' کہا جاتا ہے اس علاقہ میں پانی کی فراوانی اور مسلسل بارش کی وجہ سے کاشتکاری اچھی اور آبادی زیادہ رہی ہے۔ اس بنا پر یہ علاقہ شمالی یا مرکزی جزیرة العرب سے قابل قیاس نہیں ہے۔

۱۵

جیسا کہ معلوم ہے کہ ایک بڑی آبادی کے لئے دائمی جائے سکونت کی ضرورت پڑتی ہے اور اسی وجہ سے قصبے اور شہر بنتے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں وہاں بستے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی نظام لازم ہوتا ہے لہٰذا اس کے لئے قانون بنایا جاتا ہے (اگرچہ وہ ابتدائی اور آسان ہی کیوں نہ ہو) اور یہ بات واضح ہے کہ قوانین کے ساتھ حکومت کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ ان دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقہ میں حضرت مسیح کی ولادت سے صدیوں سال قبل حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور ان کے ذریعہ تہذیب و ثقافت کو رواج ملا ہے.(١) ۔ جو حکومتیں اس علاقہ میں قائم ہوئی ہیں وہ یہ ہیں:

١) حکومت معین: یہ حکومت ١٤٠٠ سے ٨٥٠ سال قبل عیسوی تک برقرار رہی اور حکومت سبا کے تسلط پر ختم ہوگئی۔

٢)حکومت حضر موت: جو ١٠٢٠ عیسوی سے قبل شروع ہوئی اور ٦٥ عیسوی کے بعد تک باقی رہی اور حکومت سبا کے مسلط ہونے کے ساتھ ختم ہوگئی۔

٣)حکومت سبا: جو ٨٥٠ عیسوی سے لیکر ١١٥ عیسوی سال قبل مسیح تک برسر اقتدار رہی اور حمیری سبا وریدان کے برسر اقتدار آتے ہی بکھر گئی۔

٤)حکومت قتیان: جو ٨٦٥ سے لے کر ٥٤٠ سال قبل مسیح تک برسر اقتدار رہی اور حکومت سبا کے آتے ہی نابود ہوگئی۔

٥) حکومت سبا و ریدان: حضر موت اور اطراف یمن جن کے بادشاہوں کے سلسلہ کو ''تبع'' کہا گیا ہے اور ان کی حکومت سال عیسوی سے ١١٥ سال پہلے شروع ہوئی اور عیسوی کے بعد ٥٢٣ء تک برقرار رہی اور اس کی راجدھانی ''ظفار'' تھی۔(٢)

_______________________

(١) سید جعفر شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام (تہران: مرکز اشاعت یونیورسٹی، ط٦، ١٣٦٥)، ص ٣.

(٢) احمد حسین شرف الدین، الیمن عبر التاریخ (قاہرہ: مطبعة السنة المحمدیہ ، ط ٢، ١٣٨٤ھ.ق)، ص ٥٣.

۱۶

جنوبی عرب کی درخشاں تہذیب

یمن کی پر رونق تہذیب مورخین کی نگاہ میں قابل تحسین واقع ہوئی ہے جیسا کہ ہَرُودَت (قبل مسیح پانچویں صدی میںیونان کا ایک بزرگ مورخ) دور سبا میں اس سرزمین کی تہذیب اور عالی شان محلوں اور ہیرے اور جواہرات سے مرصع دروازوں کا ذکر کر کے کہتا ہے کہ ان میں سونے چاندی کے ظروف اور قیمتی دھاتوں سے بنی ہوئی پلنگیں موجود تھیں۔(١) کچھ مورخین نے صنعاء کے عالی شان محل (غمدان) کا ذکر کیا ہے جو بیس منزلہ تھا جس میں سو عدد کمرے تھے اور کمروں کی دیواریں بیس ہاتھ لمبی اور ساری چھتیں آئینہ کاری اور شیشے سے مزین تھیں۔(٢)

ستر ابون (روم کا مشہور سیاح) نے بھی سن عیسوی سے ایک صدی قبل اس سرزمین کا دورہ کیا تو اس علاقہ کے تمدن کے بارے میں ھرودت کی طرح اپنے خیالات کا اظہار اس طرح سے کیا۔ مأرب ایک عجیب و غریب شہر ہے جس کی عمارتوں کی چھتیں عاج سے بنائی گئی ہیں اور ان کو ہیرے اورجواہرات سے مرصع تختیوں سے مزین کیا گیا ہے۔ اور وہاں ایسے خوبصورت ظروف دیکھنے کو ملے جن کو دیکھ کر انسان حیرت زدہ ہو جائے۔(٣)

اسلامی مورخین اور جغرافیہ دان جیسے مسعودی (وفات ٣٤٦ھ) اور ابن رُستہ (تیسری صدی ہجری کے دانشوروں سے ہیں)نے بھی اس علاقہ کے لوگوں کی ظہور اسلام سے قبل، پُر رونق اور خوشحال زندگی، عمارتوں اور آبادیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔(٤)

_______________________

(١) گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی (تہران: کتاب فروشی اسلامیہ)، ص ٩٢.

(٢) سید محمود شکری آلوسی بغدادی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط٢)، ج١، ص ٢٠٤.

(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ترجمہ: علی جواہر کلام (تہران: امیر کبیر، ١٣٣٣)، ج١، ص ١٣.

(٤) مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: محمد محیی الدین عبد الحمید (دار الرجاء للطبع و انشر)، ج٢، ص ٨٩؛ ابن رستہ، الاعلاق النفیسہ، ترجمہ و تعلیق: حسین قراچانلو (تہران: امیر کبیر، ط ١، ١٣٦٥)، ص ١٣٢.

۱۷

انیسویں اور بیسویں صدی میں آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطالعے اور بحثوں اور مورخین کی تحقیقات سے اس علاقہ کی تاریخ واضح ہوئی اور ایسی نئی دستاویزات اور شواہد ملے جن سے اس سرزمین کے درخشاں اور قدیمی تمدن کا پتہ چلتاہے۔ عدن، صنعائ، مأرب اور حضر موت کے آثار قدیمہ اس بات کے گواہ ہیں کہ عرب کے جنوبی علاقہ یمن اور اس کے نواح میں بسنے والوں میں عظیم تمدن پایا جاتا تھا جو فینیقیہ اور بابل کے تمدن کے مقابلہ میں تھا۔ یمن کے قدیمی تمدن کا ایک مظہر مأرب کا سب سے بڑا بند تھا۔(١) یہ بند جو دقیق ریاضی محاسبات اور پیچیدہ نقشہ کے مطابق بنایا گیا تھا اس کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا نقشہ بنانے والا علم ہندسہ کا کس قدر ماہر تھا کہ اس سے اس علاقہ میں کس قدر کاشتکاری اور خوشحالی پیدا ہوئی۔(٢)

یمن کے لوگ کاشتکاری کے علاوہ، تجارت بھی کرتے تھے اور سبئیان مشرق و مغرب کی تجارت کا وسیلہ تھے کیوں کہ ملک یمن اس زمانہ میں چند متمدن ملکوں کے درمیان واقع تھا۔ ہندوستان کے تاجر اپنے تجارتی مال کو سمندر کے ذریعہ یمن اور حضر موت لایا کرتے تھے اور یمن کے تاجر اس کو حبشہ، مصر، فینیقیہ، فلسطین، مدین کے شہر، ادوم، عمالقہ اور مغربی ممالک لے جایا کرتے تھے۔ اور اہل مکہ بھی اپنے تجارتی مال کو خشکی کے راستے سے دنیا کے مختلف آباد علاقوں میں بھیجتے تھے(٣) ۔ ایک زمانہ تک مشرق و سطیٰ کی تجارت یمنیوں کے ہاتھ میں تھی(٤) بحر احمر کی راہوں میں مشکلات کی بنا پر سبئیوں نے خشکی کے

_______________________

(١) مأرب بند، یمن کے موجودہ دار الحکومت صنعاء کے مشرقی سمت میں ١٩٢کلو میٹر کے فاصلہ واقع پر ہے۔

(٢) اس بند کے نقشے اور اس کی تعمیری خصوصیات سے مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں : فرہنگ قصص قرآن (ضمیمۂ قصص قرآن) صدر بلاغی، (تہران: امیر کبیر، ط ٣، ص ٨٢ اور ٨٨؛ احمد حسین شرفالدین، الیمن عبر التاریخ ، ص ١٣٢۔ ١٢٢۔

(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ج١، ص ١١.

(٤) ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن، ترجمہ: احمد آرام و ھمکاران (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط٢، ١٣٦٧)، ج١، ص ٣٤١.

۱۸

راستے کو اختیار کیا اسی لئے وہ یمن سے شام تک کی مسافت کو جزیرة العرب کے مغربی ساحل سے طے کرتے تھے۔ یہ راستہ ''مکہ'' اور ''پترا'' سے گزر کر شمال کی جانب مصر، شام اور عراق کی طرف نکلتا ہے۔(١)

مأرب کے بند کی تباہی

یمنیوں میں برائیوں کا رواج اور اندرونی فتنوں اور فسادات کی بنا پر وہاں کا چمکتا ہوا خورشیدتمدن روز بروز غروب ہونے لگا تھا اور بند مأرب جو کہ مرمت کا محتاج تھا وہاں کے حکمراں اور باشندے اس کی مرمت نہیں کرسکے آخر کار ٹوٹنے کی وجہ سے سیلاب نے آس پاس کی آبادی اور کھیتی کو نابود کردیا اوراس کے اطراف میں پانی کی قلت کی بنا پر کاشتکاری ختم ہوگئی اور لوگ دوسری جگہ کوچ کرنے پر مجبور ہوگئے(٢) ۔ قرآن کریم کے دو سوروں میں قوم سبا کا نام آیا ہے۔

ایک ملکۂ سبا کے ذکر اور ان کے نام حضرت سلیمان کے خط کی مناسبت سے اس طرح تذکرہ ہے ''زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ (ہدہد) آیا اور کہا: میں ایسی چیز جانتا ہوں جس سے آپ باخبر نہیں ہیں میں سرزمین سبأ سے آپ کے لئے یقینی خبر لایاہوں میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو وہاں حکومت کرتی ہے اور تمام چیزیں اس کے اختیار میں ہیں (خاص طور سے ) ایک بڑا تخت رکھتی ہے''۔(٣)

اور دوسری جگہ مأرب نامی بند کے ٹوٹنے سے سیلاب کی آمد اور برائیوں اور فحشاء کے رواج کے

_______________________

(١) فیلیپ حِتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات آگاہ، ط٢، ١٣٦٦)، ص ٦٥۔ ٦٤؛ رجوع کریں: گوشتاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ص ٩٤؛ احمد حسین شرف الدین، الیمن عبر التاریخ، ص ١٠٥؛ آلوسی، بلوغ الارب، ج١، ص ٢٠٣.

(٢) حسن ابراہیم، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط ٥، ١٣٦٢)، ص ٣٢.

(٣) سورۂ نمل ،٢٧، آیت ٢٣۔ ٢٢.

۱۹

نتیجے میں قوم کے انحطاط کی مناسبت سے یوں ذکر ہوا ہے ۔ ''اور قوم سبأ کے لئے ان کے وطن ہی میں ہماری نشانیاں تھیں کہ داہنے بائیں دونوں طرف باغات تھے۔ تم لوگ اپنے پروردگار کا دیا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو تمہارے لئے پاکیزہ شہر اور بخشنے والا پروردگار ہے۔ مگر ان لوگوں نے انحراف کیاتو ہم نے ان پر بڑے زوروں کا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغات کو ایسے دو باغات میں تبدیل کردیا جن کے پھل بے مزہ تھے اوران میں جھاؤ کے درخت اور کچھ بیریاں تھیں یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزا دی ہے اور ہم ناشکروں کے علاوہ کس کو سزا دیتے ہیں۔ اور جب ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سفر کو معین کردیا کہ اب دن و رات جب چاہو سفر کرو محفوظ رہوگے۔ تو انھوں نے اس پر بھی یہ کہا کہ پروردگار ہمارے شہروں اور آبادیوں میں دوری پیدا کردے اور اس طرح اپنے نفس پر ظلم کیا تو ہم نے انھیں کہانی بنا کر چھوڑ دیا اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ یقینا اس میں صبر و شکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔(١)

حمزہ اصفہانی نے اس بند کی تباہی کو ظہور اسلام سے چار صدی قبل(٢) ، ابوریحان بیرونی نے تقریبا ٥صدی قبل(٣) اور یاقوت حموی نے حبشیوں کے تسلط کے زمانہ میں ذکر کیا ہے(٤) اور چونکہ حبشیوں کا تسلط چھٹی صدی کے وسط میں ہوا تھا لہٰذا بعض مورخین کا گمان ہے کہ اس بند

_______________________

(١) سورۂ سبا، ٣٤،آیت ١٩۔ ١٥

(٢) حمزہ اصفہانی، تاریخ پیامبران و شاھان( تاریخ ملوک الارض و الانبیائ)، ترجمہ: جعفر شعار (تہران: امیر کبیر، ط ٢، ١٣٦٧)، ص ١٢٠ اور ١٣٢۔

(٣) آثار الباقیہ، ترجمہ: ابکر دانا سرشت (تہران: امیر کبیر، ط ١ ، ١٣٦٣)، ص ١٨١۔

(٤) معجم البلدان، تصحیح محمد امین الخانجی الکتبی (قاہرہ: مطبعة السعادة، ط ١، ١٣٢٤ھ.ق)، ج٧، ص ٣٥٥.

۲۰