تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 138750
ڈاؤنلوڈ: 3431

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138750 / ڈاؤنلوڈ: 3431
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

پر احسان کیاہے (کہ اسلام کو قبول کرکے ہدایت یافتہ ہوئے ہیں)۔(١)

ایک دن قریش کے سرداروں کا ایک گروہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مجلس کے بغل سے گزرا تو اس وقت صہیب ، خبّاب، بلال، عمار وغیرہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے ان لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر کہا: ''اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! اپنی قوم والوں میں سے صرف ان پر تکیہ کیاہے؟! کیا ہم ان کی پیروی کریں؟! کیا خدا نے صرف ان پر احسان کیا ہے (اور ان کی ہدایت کی ہے؟!) ان کو اپنے سے دور کردو شاید ہم تمہاری پیروی کرلیں ۔ اس وقت سورۂ ''انعام'' کی ٥٢ ویں اور ٥٣ ویں آیت نازل ہوئی۔(٢)

''اور خبر دار جو لوگ صبح و شام اپنے خدا کو پکارتے ہیں اور خدا ہی کو مقصود بنائے ہوئے ہیں انھیں اپنی بزم سے الگ نہ کیجئے گا۔ نہ آپ کے ذمہ ان کا حساب ہے اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے کہ آپ انھیں دھتکار دیں اور اس طرح ظالموں میں شمار ہوجائیں''۔

اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمایا ہے تاکہ وہ یہ کہیں کہ یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے ہمارے درمیان فضل و کرم کیا ہے اور کیا وہ اپنے شکر گزار بندوں کو بھی نہیں جانتا؟!(٣)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے ابتدائی سالوں میں قریش نے چند نمائندے مدینہ بھیجے تاکہ اس شہر کے یہودیوں سے آپ کے بارے میں تحقیق کریں۔ ان لوگوں نے یہودیوں سے کہا: ''جو حادثہ ہمارے شہر میں رونما ہوا ہے اس کے لئے ہم تمہارے پاس آئے ہوئے ہیں ایک یتیم اور حقیر جوان بڑی بڑی باتیں کر رہا ہے اس کا خیال ہے کہ وہ ''رحمان'' کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور ہم، صرف ایک شخص کو اس نام سے جو ''یمامہ'' میں رہتا ہے جانتے ہیں''

یہودیوں نے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی خصوصیات کے بارے میں چند سوالات کئے ان میں ایک سوال یہ تھا

______________________

(١)گزشتہ حوالہ۔

(٢) طبرسی، مجمع البیان، ج٢، ص ٣٠٥.

(٣)سورۂ انعام،آیت ٥٣۔ ٥٢۔

۱۶۱

کہ کن لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے؟

ان لوگوں نے کہا: ہم میں سے پست لوگوں نے۔

یہودیوں کا بڑا عالم ہنسا اور کہا: یہ وہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے جس کی نشانیاں ہماری کتابوں میں موجود ہیں اور اس کی قوم اس کی شدید دشمن ہو جائے گی۔(١)

البتہ مفلوک الحال لوگوں کا تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف رجحان ہرگز مصلحتی اسلام یا طبقاتی منافع کی خاطر نہیں تھا بلکہ انسانی تسلط اور حکمرانی کے نفی کا پہلو اور خدائی حکمرانی کے قبول کرنے کا مسئلہ تھا اور یہ مسئلہ سب سے زیادہ، مستکبرین اور تسلط خواہوں کے اجتماعی طاقت کے لئے خطرہ بن گیا تھا اوران کی مخالفت کو اکسانے کا باعث بنا تھا جیسا کہ گزشتہ پیغمبروں کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہو ا ہے۔

''تو ان کی قوم کے بڑے لوگ جنھوں نے کفر اختیار کرلیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم تو تم کو اپنا ہی جیسا ایک انسان سمجھ رہے ہیں اور تمہارے اتباع کرنے والوںکو دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے پست طبقہ کے سادہ لوح افراد ہیں۔ ہم تمہارے لئے اپنے اوپر کسی فضیلت وبرتری کے قائل نہیں ہیںبلکہ تمھیں جھوٹا خیال کرتے ہیں''۔(٢)

''تو ا ن کی قوم کے بڑے لوگوں نے کمزور بنادیئے جانے والے لوگوں میں سے جوایمان لائے تھے ان سے کہنا شروع کیا کہ کیا تمھیں اس کا یقین ہے کہ صالح خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ بیشک ہمیں ان کے پیغام کا ایمان اور ایقان حاصل ہے۔ تو بڑے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم تو ان باتوں کے منکر ہیں جن پر تم ایمان لائے ہو''۔(٣)

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٦٥؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٩٩۔

(٢) سورۂ ہود، آیت ٢٧۔

(٣) سورۂ اعراف، آیت ٧٦۔ ٧٥۔

۱۶۲

دعوت ذو العشیرہ

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی رسالت کے تیسرے سال فرشتۂ وحی خدا کا حکم لیکر آپ کے پاس نازل ہوا کہ اپنے خاندان والوں اور رشتہ داروں کو ڈرائیں اور انھیں دعوت دیں:

''اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈارئیے اور جو صاحبان ایمان آپ کا اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکا دیجئے پھر یہ لوگ آپ کی نافرمانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں کے اعمال سے بیزار ہوں''(١)

اس آیت کے نازل ہونے پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے علی کو حکم دیا کہ کھانے کا انتظام کیا جائے اور عبد المطلب کی اولاد کو دعوت دی جائے تاکہ خدا کا حکم ان تک پہنچایا جاسکے۔ چنانچہ علی نے ایسا ہی کیا۔ تقریباً کم و بیش چالیس (٤٠) افراد جمع ہوئے جن میں ابوطالب، حمزہ اور ابولہب بھی تھے، کھانا کم تھا اور عام طور سے اتنا کم کھانا اتنے بڑے مجمع کے لئے ناکافی تھا۔ لیکن سب نے سیر ہوکر کھایا ۔ ابولہب نے کہا: ''اس نے تم پر جادو کر دیا ہے'' یہ بات سن کر سارا مجمع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سننے سے کنارہ کش ہوگیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی کوئی بات نہیں کہی اور مجلس کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر تمام ہوگئی۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے دوسرے دن علی نے پھر اسی طرح کھانے کا انتظام کیا اور ان لوگوں کو دعوت دی اس مرتبہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجمع سے کھانا کھانے کے فوراً بعد فرمایا: ''عرب کے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو مجھ سے بہتر چیز تمہارے لئے لے کر آیا ہو میں دنیا اور آخرت کی بھلائی اور نیکی تمہارے لئے لیکر آیا ہوںخدا نے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی جانب دعوت دوں تم میں سے کون ہے جو اس وقت میری مدد کرنے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ وہ میرا بھائی، وصی اور جانشین تمہارے درمیان قرار پائے''

کسی نے جواب نہ دیا، علی جو کہ سب سے کم سن تھے، کہا: اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میں آپ کی مدد

______________________

(١)سورۂ شعرا، آیت ٢١٦۔ ٢١٤۔

۱۶۳

کرنے کے لئے تیار ہوں'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''یہ تمہارے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہے، اس کی باتوں کو سنو اور اس کی اطاعت کرو''۔(١)

یہ واقعہ ہم کو ایک بنیادی مطلب کی طرف راہنمائی کرتاہے کہ ''نبوت'' اور ''امامت'' دو ایسے بنیادی اصول ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں کیونکہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اپنی رسالت کے ابتدائی

______________________

(١) یہ واقعہ اسلامی دانشوروں کے درمیان ''بدء الدعوة'' ،''یوم الدار'' اور ''یوم الانذار'' کے نام سے مشہور ہے، اکثر محدثین، مفسرین اور مورخین نے اس واقعہ کو تھوڑے سے الفاظ کے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ، ان میں سے محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ٢١٧؛ ابن اثیر، الکامل فی تاریخ ، ج٢، ص ٦٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٣، ص ٢١١؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ محمود مہدی دامغانی، ج١، ص ٢٧٨؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٧، ص ٢٠٦؛ شیخ مفید، الارشاد، ص ٢٩؛ علی بن موسی بن طاوس، الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف، ج١، ص٢٠؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون)، ج١، ص ٤٦١؛ مجلسی، بحارالانوار، ج١٨، ص ١٧٨؛ ١٨١، ١٩١، ٢١٤؛ علامہ امینی ، الغدیر، ج٢، ص ٢٨٩۔ ٢٧٨؛ سید مرتضی عسکری، نقش ائمہ در احیاء دین، ج٢، ص ٨٦؛ ج٦، ص ١٨۔ ١٧؛ احمد حنبل، مسند، ج١، ص ١٥٩۔ قابل ذکر ہیںجیسا کہ مرحوم علامہ امینی نے توجہ دی ہے کہ مورخین کے درمیان طبری نے اپنی تاریخ میں اسی طرح سے نقل کیا ہے جیسا کہ ہم نے لکھا ہے۔ لیکن اپنی تفسیر (جامع البیان، ج١٩، ص ٧٥) میں کلام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دو جگہ پر تحریف کر کے بجائے میرا وصی اور جانشین کے ''ایسااور ویسا'' لفظ ذکر کیا ہے:فأَیُّکم یؤازرنی علی هذا الامر علی ان یکون اخی و کذا و کذا ثم قال ان هذا اخی و کذا و کذا فأسمعوا له و اطیعوه ۔ اسماعیل بن کثیر شامی نے بھی اپنی تین کتابوں میں (تفسیر ، ج٣، ص ٣٥١، البدایہ و النہایہ، ج٣، ص ٤٠، السیرہ النبویہ، ج١، ص ٤٥٩) ، میں اس غلط روش میں اس کی پیروی کی ہے! البتہ ان دو افراد کے خاص نظریات کی بنا پر اس مسئلہ میں ان کے مقاصد کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

۱۶۴

سالوں میں اپنی نبوت کے اعلان کے دن، مسلمانوں کی آئندہ رہبری اور امامت کو بھی بیان کیا۔

دوسری طرف سے یہ تصور نہ ہو کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف ایک بار وہ بھی ''غدیر خم'' میں (اپنی زندگی کے آخری مہینے میں) علی کی امامت کو بیان کیا ہے۔ بلکہ دعوت ذو العشیرہ کے علاوہ بھی دوسری مناسبتوں سے (جیسے حدیث منزلت میں) بھی اس موضوع کو ذکر فرمایا ہے: البتہ غدیر میں سب سے زیادہ واضح اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، جہاں مجمع بھی بہت زیادہ تھا۔

سوروں کی ترتیب نزول کے لحاظ سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دعوت ذو العشیرہ کا واقعہ، دعوت ظاہری سے کچھ دن پہلے پیش آیا ہے۔(١)

______________________

(١)سورۂ ''شعرائ'' جس میں آیات انذار موجود ہے سورۂ واقعہ کے بعد نازل ہوا ہے اور پھر ترتیب وار سورۂ ''نمل، قصص، اسرائ، یونس، ھود، یوسف'' اور ''سورۂ حجر'' جس میں علنی دعوت کا حکم ''فاصدع بما تؤمر'' موجود ہے نازل ہوا ہے (محمد ہادی معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ج١، ص ١٠٥)

۱۶۵

دوسری فصل

علی الاعلان تبلیغ اور مخالفتوں کا آغاز

ظاہری تبلیغ کا آغاز

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ایک عرصہ سے مخفی دعوت کا آغاز کرچکے تھے اس کے بعد خداوند عالم کی طرف سے آپ کوحکم ملا کہ اپنی دعوت کو علی الاعلان پیش کیجئے اور مشرکین سے نہ ڈریئے۔ ''پس آپ اس بات کا واضح اعلان کردیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور مشرکین سے کنارہ کش ہو جائیں ہم ان استہزاء کرنے والوں کے لئے کافی ہیں''۔(١)

یہ فرمان ملنے پر ایک دن پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مقام ''ابطح''(٢) میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ''میں خدا کی جانب سے بھیجا گیا ہوں تم کو خدائے یکتا کی عبادت اور بتوں کی عبادت ترک کرنے کی دعوت دیتا

______________________

(١) سورۂ حجر، آیت ٩٥

(٢)ابطح سے مراد ، منیٰ کے نزدیک ایک درہ ہے (یاقوت حموی، معجم البلدان، ج١، ص ٧٤) گویا حج کے وقت منی میں حاجیوں کے اجتماع کے موقع پر فرمایا ہے۔

۱۶۶

ہوں جو کہ نہ تمہیں نفع پہنچاتے ہیں اور نہ نقصان، نہ تمہارے خالق ہیں اور نہ ہی رازق، اور نہ کسی کو زندہ کرتے ہیں اور نہ کسی کو مارتے ہیں''۔(١)

اس دن سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی اور آپ نے اجتماعی پروگراموں میںحج کے دوران، منیٰ اوراطراف مکہ میں رہنے والے قبائل کے درمیان دعوت و تبلیغ، شروع کردی۔

قریش کی کوششیں

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے ظاہری تبلیغ کے آغاز میں، قریش نے کوئی خاص عکس العمل (ریکشن) نہیںدکھایا؛ لیکن جس دن سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بتوں کا کھلے الفاظ میں سختی سے انکار کیا اور بتوں کوایک بے شعور اور بے اثر؛ موجود بتایا، ان کو طیش آگیا اور وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت اور ان کے خلاف گروپ بازی پر کمر بستہ ہوگئے۔(٢) لیکن چونکہ مکہ میں قبیلہ جاتی نظام پایا جاتا تھا لہٰذا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گزند پہنچانے پر انھیں قبیلۂ بنی ہاشم کے انتقام کا خطرہ لاحق تھا لہٰذا وہ قریش کے سرکردہ لوگوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودعوت سے روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ابو طالب پر جو کہ اس کے چچا ہیں اور ان کی نظر میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بڑا احترام ہے ،دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنے بھتیجے کو اس راہ پر چلنے سے منع کریں۔ لہٰذا وہ لوگ کئی بار جناب ابوطالب سے اس خیال سے ملے کہ وہ (ابوطالب) حسب و نسب اور سن کے لحاظ سے

______________________

(١) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ١٩۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی پہلی ظاہری دعوت مختلف صورتوں میں نقل ہوئی ہے۔ اور شایدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بت پرستوں کو اس طرح کے بیانات سے دعوت دی ہے۔ مراجعہ کریں: یعقوبی، سابق، ص ١٩؛ طبری ، سابق، ج٢، ص ٢١٦؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ١٢١؛ بیہقی، سابق، ج١، ص ٢٧٩؛ طبری ، اعلام الوریٰ ، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط ٣) ص ٣٩؛ مجلسی، بحار الانوار ، ج١٨، ص ١٨٥؛ حلبی، سابق، ج١، ص ٤٦١.

(٢)طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢١٨؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٢٨٢؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص١٩٩؛ ابناثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٦٣۔

۱۶۷

سماج میں اپناایک مقام رکھتے ہیں اور ان سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو منع کریں کہ وہ ان کے خداؤوں کو برا بھلا'' اور ان کے دین و آئین کو بیکار؛ اور ان کو بیوقوف اور ان کے آباء و اجداد کو گمراہ کہنے سے باز آجائے۔

وہ لوگ ان ملاقاتوں میں کبھی دھمکی کے ذریعہ اور کبھی مال و ثروت او رریاست کی لالچ دے کر ان سے مطالبہ کرتے تھے اور جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو ابوطالب سے پیش کش کی کہ اس کو (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) عمارہ بن ولید بن مغیرہ سے جو کہ ایک خوبصورت اور طاقت ور جوان، اور قریش کا شاعر ہے بدل لیں۔ لیکن ابوطالب نے اسے بھی قبول نہیں کیا۔ ایک مرتبہ کفار قریش نے جناب ابوطالب اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو جنگ اور قتل کی سخت دھمکی دی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی دھمکی کے جواب میں فرمایا: ''چچا جان! اگر سورج کو ہمارے داہنے ہاتھ پر اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیں پھر بھی میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا ۔ یہاں تک کہ خداوند اس کام کو کامیابی سے ہمکنار کردے یا میں اس راہ میں نابود ہوجاؤ ں۔(١)

______________________

(١)طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠٠۔ ٢١٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٧۔ ٢٨٢ اور ٣١٣، ٣١٦؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠٣۔ ٢٠٢؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ،ص ٢٣٢۔ ٢٣١؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٦٥۔ ٦٣؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٦٣۔ ٤٦٢؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحبی، ١٣٨٣ھ.ق)، ج١، ص٤٧٤۔

اس نقل کے مطابق، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سورج اور چاند سے جواب دینا قریش کی دھمکی سے ظاہراً مناسبت نہیں رکھتا تھا اور اس کے سند میں بھی بحث ہوئی ہے لیکن جو جواب بعض کتابوں میں نقل ہوا ہے وہ قریش کی دھمکی سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس نقل کی بنیاد پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے چچا سے قریش کے دھمکی آمیز پیغام کو سننے کے بعد آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا: ''میرے لئے تبلیغ اور رسالت کا چھوڑنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا تم میں سے کوئی ہاتھ پھیلائے اور چاہے کہ خورشید کا ایک شعلہ اپنے ہاتھ میں لے لے'' اس وقت جناب ابوطالب نے قریش کے نمائندوں سے کہا: خداکی قسم! میرے بھتیجے نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے۔ تم لوگ یہاں سے پلٹ جاؤ!'' (حافظ نور الدین ھیثمی، مجمع الزوائد، بیروت: دار الکتاب، ج٦، ص ١٥؛ معجم اوسط، کبیر طبرانی اور مسند ابی یعلی کے نقل کے مطابق) ھیثمی نے روایت ابویعلی کی سند کو صحیح بتایاہے اور مزید رجوع کریں۔ فقہ السیرةکی طرف۔ محمد غزالی، عالم المعرفہ، ص ١١٥۔ ١١٤.

۱۶۸

ابوطالب کی طرف سے حمایت کا اعلان

قریش کی دھمکیوں پر جناب ابوطالب نے (رشتہ داری کے ناتے) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کا اعلان کیا اور قبیلۂ بنی ہاشم کے لوگوں کو خواہ وہ مسلمان رہے ہوں یا بت پرست سب کو اسی کام کے لئے آمادہ کیا اور قریش کو خبر دار کیا کہ اگر ان کے بھتیجے کو گزند پہنچا تو بنی ہاشم کے انتقام سے وہ بچ نہیں سکتے ہیں۔(١) کیونکہ قبائلی جنگ ایک خطرناک کام تھا اور اس کے نتائج افسوس ناک اور غیر مشخص تھے اور قریش کے سردار ابھی اس قسم کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لہٰذا وہ اپنی اس دھمکی کو پورا نہیں کرسکے اور ناکام رہے۔ بنی ہاشم میں سے صرف ابولہب، دشمنوں کی صف میں تھا۔

قریش کی طرف سے مخالفت کے اسباب

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریش نے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی ظاہری دعوت کے ابتدائی سالوں میں جبکہ اس وقت اسلام کی تعلیمات اور قرآن کے احکام ابھی تھوڑے سے نازل ہوئے تھے، کن خطرات کا احساس کرلیا تھا کہ مخالفت کے لئے کمر بستہ ہوگئے تھے؟

کیا ان کی مخالفت فقط اس بنا پر تھی کہ وہ بت پرست تھے یا دوسرے اسباب و علل بھی پائے جاتے تھے۔ (البتہ یہ گفتگو قریش کے سرداروں او ران کے بزرگوں کے جذبات کے بارے میں ہے، لیکن عوام الناس اپنے قبائل کے سرداروں کی پیروی میں تھے۔ ان کے احساسات اور جذبات کو ابھارنا اور ان کو ایک نئے دین کے خلاف ورغلانا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے عقائد و

______________________

(١)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص٢٨٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٠؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص٥٩؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٦٥؛ ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٤٧٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٦٣۔

۱۶۹

آداب و رسوم کے اس قدر پابند تھے کہ کسی بھی جدید دین کے مقابلہ میں عکس العمل دکھا سکتے تھے۔(١)

مکہ میں قریش کی قدرت ، نفوذ او ران کے اعلیٰ مقام کو دیکھتے ہوئے شاید ان کی مخالفت کو سمجھنا دشوار نہ تھا اس لئے کہ تجارت اور خانہ کعبہ کی کنجی کی ذمہ داری کی بحث میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے کہ یہ قبیلہ مکہ کی اجتماعی اور اقتصادی قدرت کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھا اور اپنے کسی رقیب کو برداشت نہیں کرتا تھا او رکسی کو اجازت نہیں دیتاتھا کہ بغیر اس کی یا اس کے قبیلہ کی مرضی کے کوئی قدم اٹھا سکے۔ قریش دوسرے قبائل سیخراجلیتے تھے اوران کے ساتھ دوگانہ سلوک کرتے تھے۔ اور اپنی سیاست خانۂ خدا کے زائروں پر تھوپتے تھے۔

اس بنا پر یہ فطری بات تھی کہ بزرگان قریش، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین کو برداشت نہ کریں؛ کیونکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابتدائی بیانات سے سمجھ گئے تھے کہ اس کا دین ہمارے دین کے برخلاف اور ضد ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ پیش بینی کردی گئی تھی کہ بہرحال ایک گروہ، آپ کے دین کو قبول کرے گا اور آپ کو اس کے ذریعہ شہرت ملے گی۔ لہٰذا یہ چیزیں ہرگز قریش کی شان کے مطابق نہ تھیں۔

ان تمام باتوں کے پیش نظر مکہ میں نازل ابتدائی آیات اور سوروں اور تمام دستاویز اور شواہد کے تجزیہ و تحلیل سے قریش کی مخالفت کے اسباب و عوامل میں سے چند اہم اسباب کو شمار کیا جاسکتا ہے:

______________________

(١) خداوند عالم نے قرآن مجید میں، متعدد مقامات پر ان کے دینی تعصب؛اورموروثی عقائد اور رسم و رواج کی تقلید کے بارے میں ذکر فرمایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں: سورۂ بقرہ، آیت ١٧٠، مائدہ، آیت ١٠٤؛ یونس، آیت ٧٨؛ لقمان ، آیت ٢١؛ زخرف ، آیت ٣٢۔ ٢٢.

۱۷۰

١۔ سماجی نظام کے بکھرنے کا خوف

مکہ میں رائج سماجی نظام کے قبائلی ہونے کے اعتبار سے، اور قریش کے پاس بہت ہی زیادہ امتیازات ہونے کی بنا پر ایک طرح سے وہاں قریش کی استکباری حکومت پائی جاتی تھی اور سرداران قریش اس

نظام کے عادی ہوگئے تھے لہٰذا وہ کسی طرح سے تیار نہیں تھے کہ ایک معمولی سی ضرب بھی اس نظام کے ڈھانچہ پر لگے!

یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرنے والاپہلا گروہ جوانوں، ضعیفوں، محروموں اور غلاموں کا تھا۔ او رخود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی سرمایہ داروں میں سے نہیں تھے بلکہ بچپن میں یتیم، جوانی میں نادار اور تہی دست اور قبیلہ کے ا ندر آپ کا شمار دوسرے درجہ کے افراد میں ہوتا تھا۔ آپ کے چچا ابوطالب بھی تمام خاندانی شرافتوں کے باوجود تنگدست تھے اور یہ تمام چیزیں سرداران قریش کو خبردار کر رہی تھیں کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت تبلیغ نے ان کے نظام اجتماعی کی بنیادوں کو خطرہ میں ڈال دیا اور ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ وہ لوگ، تبلیغ کے انھیں ابتدائی دنوں سے جوانوں، محروموں اور غلاموں کے رجحانات کا شکوہ کرتے تھے۔ اور حبشہ سے مہاجرین کو پلٹانے کے لئے قریش کے نمائندوں نے نجاشی کے دربار میں اپنے آپ کو مکہ کے سرمایہ داروں کا نمائندہ بتایا۔(١)

قرآن ان کے اس استکبارانہ نظریات پر معترض ہوا (کیونکہ مکہ یا طائف کا کوئی ثروتمند پیغمبری کے درجے پر فائز نہیں ہوا تھا) اوراس کو اس طرح سے بیان کیا: ''اور یہ کہنے لگے کہ آخر یہ قرآن دو بستیوں (مکہ و طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا ہے''۔(٢)

ایک تفسیر کی بنیاد پر مرد بزرگ سے مراد مکہ میں ولید بن مغیرہ (بنی مخزوم کا سردار) اور طائف میں عروہ بن مسعود ثقفی (مشہور دولتمند) ہے۔(٣) اس آیت کی شان نزول کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ایک دن ولید نے کہا: کس طرح سے یہ قرآن محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوا؟ اور مجھ پر نازل نہ ہوا؟ جبکہ میں

______________________

(١)وقد بعثنا فیهم اشراف قومهم ۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٥٨.

(٢)''و قالوا لولا نزل هذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم'' (سورۂ زخرف، آیت ٣١)

(٣) طبرسی، مجمع البیان، ج٩، ص ٤٦.

۱۷۱

قریش کا سید و سردار ہوں!''(١) لہٰذا ابتدا میں قریش حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت سے اس لئے مخالف ہوگئے کہ وہ ان کے اجتماعی نظام کے لئے خطرہ بن گئے تھے نہ اس لحاظ سے کہ انھوں نے ایک نیا آئین پیش کیا تھا۔

اقتصادی خوف

بعض معاصر محققین نے قریش کی مخالفت کا ایک قوی سبب اقتصادی مقاصدکو قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی مکی آیات کا ایک حصہ ثروتمند وں اور مالداروں کی شدت سے مذمت کرتاہے۔ مکہ کے بڑے سرمایہ داروں او ردولتمندوں نے (جیسا کہ تجارت اور کعبہ کی کنجی کی بحث میں، بعض افراد کی بے شمار دولت سے آگاہ ہوچکے ہیں) ان آیات کو سن کر، خطرے کا احسا س کیا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین کو ترقی ملنے پر، ان کے اقتصادی منافع خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس طرح کی کچھ آیات بطور نمہ پیش ہیں:

''اب مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا ہے۔ اور اس کے لئے کثیر مال قرار دیا ہے۔ او رنگاہ کے سامنے رہنے والے بیٹے قرار دئے ہیں ۔ اور ہر طرح کے سامان میں وسعت دی ہے اور پھر بھی چاہتا ہے کہ او راضافہ کروں۔ ہرگز نہیں یہ ہماری نشانیوں کا سخت دشمن تھا''۔(٢)

''ہم عنقریب اسے جہنم واصل کردیں گے۔ اور تم کیا جانو کہ جہنم کیاہے۔ وہ کسی کو چھوڑ نے والا اور باقی رکھنے والا نہیں ہے۔ بدن کو جلا کر سیاہ کردینے والا ہے''۔(٣)

______________________

(١) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص٣٨٧؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص٥٠۔

(٢) سورۂ مدثر، آیت ١٦۔ ١١۔

(٣)''سأصلیه سقر،وماادریٰک ما سقر،لاتبق ولاتذر،لواحة للبشر'' (سورۂ مدثر، آیت ٢٩۔ ٢٦) ، سورۂ مدثر کو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے چوتھا سورہ کہا گیا ہے۔ (التمہید، ج١، ص ١٠٤)

۱۷۲

''ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔ نہ اس کا مال ہی اس کے کام آیا او رنہ اس کا کمایا ہوا سامان ہی۔ وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا''۔(١)

''تباہی اور بردبادی ہے ہر طعنہ زن اور چغلخور کے لئے۔ جس نے مال کو جمع کیا اور خوب اس کا حساب رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا۔ ہرگز نہیں اسے یقینا حطمہ میں ڈال دیا جائے گا۔ او رتم کیا جانو کہ حطمہ کیا شے ہے۔ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ جو دلوں تک چڑھ جائے گی''۔(٢)

''پھر جس نے خدا کی راہ میں مال عطا کیا اور تقویٰ اختیار کیا۔اور نیکی کی تصدیق کی۔ تو اس کے لئے ہم آسان راہ کا انتظام کردیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور لاپرواہی برتی۔ اور نیکی کو جھٹلایاہے۔ اس کے لئے سختی کی راہ ہموار کردیں گے۔ اور اس کا مال کچھ کام نہ آئے گا جب وہ ہلاک ہو جائے گا''۔(٣)

ان آیات میں غور وغوض کرنے سے ا ور ان کی شان نزول کے بارے میں تحقیق کرنے سے پتہ چلتاہے کہ یہ آیات ان کی مخالفت کے اظہار کے بعد نازل ہوئی ہیں (اور ان کی ابتدائی مخالفت کی علت نہیں تھیں) اور شاید مخالفت اور دشمنی میں شدت پیدا کرنے کے لئے اور مخالفین کی تعداد کے بڑھنے میں مؤثر تھیں۔

بہرحال، مکہ کے بڑے سرمایہ دار اور تاجر حضرت کے اصل مخالفین میں تھے۔

______________________

(١)''تبَّت یدا ابی لهب و تب، ما اغنی عنه ماله و ماکسب، سیصلی ناراً ذات لهب'' ۔ (سورۂ مسد، آیت ٣۔ ١) سورۂ مسد کو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے چھٹا سورہ کہا گیاہے۔ (التمہید ، ج١، ص ١٠٤)

(٢)سورۂ ھمزة، آیت ٧۔ ١۔

(٣) ''فأما من اعطیٰ و اتقی و صدق بالحسنیٰ، فسنیسره للیسری، و اما من بخل و استغنیٰ و کذب بالحسنیٰ فسنیسره للعسری و مایغنی عنه ماله اذا تردیٰ''

(سورۂ لیل، آیت ١١۔ ٥) اس سورہ کو ترتیب نزول کے اعتبار سے نواں سورہ کہا گیا ہے۔ (التمہید، ج١، ص ١٠٤)

۱۷۳

ایک مورخ کہتا ہے: ''چونکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی قوم کو راہ راست اور اس نور کی طرف بلا رہے تھے جو ان پر نازل ہوا تھا لہٰذا دعوت کے آغاز میں وہ آپ سے دور نہیں ہوئے اور قریب تھا کہ وہ آپ کی باتوں کو قبول کرلیں۔ اسی اثنا میں آپ نے ان کے طاغوتوں اور خداؤوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور قریش کا ایک ثروتمند اور مالدار گروہ طائف سے آیا(١) اور آپ کی باتوں کو ناپسند کیا اور قبول کرنے سے انکار کردیااور آپ کے ساتھ بری طرح سے لڑنے کے لئے کھڑا ہوگیا اور اپنے چاہنے والوں کو آپ کے خلاف ورغلایا اس وقت کچھ لوگ آپ سے کنارہ کش ہوگئے اور آپ کو چھوڑ دیا۔(٢)

______________________

(١) گویا ان لوگوں نے اپناسرمایہ طائف میں لگا رکھا تھا اور مکہ کے علاوہ وہاں پر بھی تجارت کا ایک مرکز بنا رکھا تھا۔

(٢) طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دارالقاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٢١؛ جو لوگ انسانی زندگی اور سماج کی تبدیلیوں کو صرف مادی نظر سے دیکھتے ہیں وہ اسلام سے قریش کی مخالفت کا سبب، اقتصادی مقاصد کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ درحقیقت مسئلے کے صرف ایک پہلو کو نظر میں رکھتے ہیں۔ پطروشف کی (جو کہ روس کا مشہور اسلام اور ایران شناس او رلنینگراڈ یونیورسٹی کے شرق شناسی کالج کا پروفیسر ہے، کو اس قسم کے مسئلہ میں قضاوت اورتفکر کا ایک نمونہ سمجھا جاسکتا ہے، وہ لکھتا ہے کہ ''... بزرگان مکہ، ربا خور اور غلاموں کی تجارت کرتے تے اور کھلم کھلا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغات کی مخالفت کرتے تھے یہ نہیں کہا جاسکتاہے کہ اس دشمنی کا سبب دینی تعصب تھا بلکہ بت پرستی کے خلاف محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغات مکہ کے تاجروں کے سیاسی اور تجارتی منافع کے لئے خطرہ بن گئی تھیں، کیونکہ آپ کی دعوت سے ممکن تھا کہ کعبہ اور بتوں کی پرستش ختم ہو جائے اور یہ نہ تنہا زوار کے ہجوم کو کم کرے گا بلکہ مکہ کے بازار کو بھی ماند اور اس شہر کے تجارتی معاملات کودوسرے علاقوں سے بھی کم کردے گا بلکہ مکہ کے سیاسی نفوذ کے ختم ہونے کا باعث بنے گا۔ یہی وجہ تھی کہ صنادیدمکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو اپنے منافع کے لحاظ بہت زیادہ خطرناک سمجھ رہے تھے اور آپ سے نفرت کرتے تھے (اسلام در ایران، ترجمۂ کریم کشاورزی، ج٧، تہران: انشارات پیام، ١٣٦٣، ص ٢٦)، متن میں جو وضاحت ہم نے کی ہے اس سے پطروشفتکی کے نظریہ کا بے بنیاد ہونا ثابت ہو جاتا ہے اور مزید توضیح کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

۱۷۴

پڑوسی طاقتوں کا خوف و ہراس

قرآن مجید نے ان کے خوف و ہراس کے اظہارات کو نقل کیا ہے جو انھیں پڑوسی ملکوں اور طاقتوں سے اسلام قبول کرنے کی صورت میں لاحق تھا۔ اور اس خوف و ہراس کو بے جا قرار دیا ہے۔

''اور کفار کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے تواپنی زمین سے اچک لئے جائیں گے۔ تو کیا ہم نے انھیں ایک محفوظ حرم پر قبضہ نہیں دیا ہے جس کی طرف ہر شے کے پھل ہماری دی ہوئے روزی کی بنا پر چلے آرہے ہیں لیکن ان کی اکثریت سمجھتی ہی نہیں ہے''۔(١)

ایک دن حارث بن نوفل بن عبد مناف نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا: ''ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ لیکن اگر ہم آپ پر ایمان لے آئیں اور آپ کے ہم عقیدہ ہو جائیں تو ہمیں ڈر ہے کہ کہیں عرب ہمیں اپنی سرزمین سے نکال نہ دیں اور ہم عرب سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں''۔(٢)

ان کے اظہارات سے پتہ چلتاہے کہ انھیں ایران و روم کے شہنشاہوں(٣) کی ناراضگی کا خوف بھی تھا۔ اور یہ چیز پڑوسی ملکوں کے مقابلہ میں عربوں کی حقارت اور کمزوری کی علامت بھی ہے۔ جیسا کہ ایک دن پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے عرب کے چند بڑے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن کریم کی کچھ آیات کو جو فطری اور اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھیں ان کے لئے تلاوت فرمائی ؛ تو وہ سب کے سب بے حد متاثر ہوئے اور ہر ایک نے اپنے طور پر آپ کی تحسین و تعریف کی لیکن مثنی بن حارثہ جو، ان کا رأس رئیس اور اصل سرغنہ تھا اس نے کہا: ''ہم دو پانی کے بیچ بسے ہوئے ہیں ایک طرف سے عرب کا دریا اور ساحلی علاقہ اور دوسری طرف سے ایران اور کسریٰ کی نہریں ہم کو گھیرے ہوئے ہیں، کسریٰ نے ہم سے عہد لے رکھا ہے کہ کوئی نئی بات نہ ہونے پائے اور کسی خطاکار کو پناہ نہ دی جائے ۔

____________________

(١) سورۂ قصص، آیت٥٧۔

(٢) طبرسی، مجمع البیان، ج٧، ص٢٦٠؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص٥١۔

(٣) مناقب، ج١، ص ٥٩۔

۱۷۵

لہٰذا شاید آپ کے آئین کو قبول کرنا شہنشاہوں کیلئے خوش آئند نہ ہو۔ اور اگر ہم سے ، سرزمین عرب میں کوئی غلطی ہو جائے تو وہ قابل چشم پوشی ہے لیکن اس طرح کی غلطیاں ایران کے علاقے میں (کسری کی طرف سے) قابل عفو و بخشش نہیں ہیں۔(١)

قبیلہ جاتی رقابت اور حسد

قبائلی ڈھانچے کا ایک اثر یہ ہوا کہ اہم موضوعات پر رقابت اور بے حد فخر و مباہات شروع ہوگئے جس کی وجہ سے اس قبائلی سماج میں ناانصافی ہونا شروع ہوگئی اور چونکہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م قبیلۂ بنی ہاشم سے تھے لہٰذا سارے سرداران قبائل رقابت اور قبائلی حسد کے جذبہ کے تحت آپ کی نبوت کو (جو کہ بنی ہاشم کی شرافت اور فخر و مباہات کا باعث تھی) قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ ابوجہل قبیلۂ بنی مخزوم سے تھا،جو کہ قبائل قریش میں سے ثروتمندترین اور پرنفوذ ترین قبیلہ تھا اس نے اس بات کو کھل کر بیان کیا:

''ہم نے عبد مناف کے لڑکوں سے شرف و بزرگی کی خاطر جنگ کی، وہ لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے لہٰذا ہم نے بھی لوگوں کو کھانا کھلانا شروع کردیا وہ لوگوں کے لئے سواری کا انتظام کرتے تھے۔ لہٰذا ہم نے بھی ایسا کیا وہ لوگوں کو پیسہ دیتے تھے تو ہم نے بھی ایسا کیا۔ یہاں تک ہم دونوں برابر ہوگئے اور دو گھوڑوں کی طرح دونوں میں مسابقہ ہوا اس وقت وہ کہنے لگے کہ ہم میں سے ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درجہ پر فائز ہوا جس کے اوپر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے لہٰذا اب ہم کس طرح سے اس مرتبہ میں ا س کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خدا کی قسم ہم ہرگز اس پر ایمان نہ لائیں گے او رنہ ہی اس کی تصدیق کریں گے''!۔(٢)

______________________

(١) محمد ابوالفضل ابراہیم (اور ان کے معاونین)، قصص العرب (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٨٢ھ.ق)،ج٢، ص ٢٥٨؛ ابن کثیر، الدایہ و النہایہ (بیروت: مطبعة المعارف، ط٢، ١٩٧٧ئ)، ج٣، ص ١٤٤۔

(٢)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٣٧؛ ابن شہر آشوب، ج١، ص ٥٠؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی عبد الواحد (قاہرہ: ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص ٥٠٧۔ ٥٠٦۔

۱۷۶

امیہ بن ابوالصلت ، جو کہ طائف کا بہت بڑا شاعر اور رئیس تھا اور پہلے حنفاء میں رہتا تھا۔(١) اور اسی جذبہ کے تحت اس نے اسلام کو قبول نہیں کیا کہ وہ برسوں سے پیغمبر موعود کے انتظار میں تھا لیکن وہ خود ایک حد تک امید لگائے بیٹھا ہوا تھا کہ اس درجہ پر فائز ہوگا۔ لہٰذا اس نے جیسے ہی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعثت کی خبر سنی ، آپ کی پیروی سے کنارہ کش ہوگیا اور اس کی وجہ اس نے زنان ثقیف سے حیاء و شرم بتائی اور کہا: ''مدتوں سے ہم نے ان سے کہا تھا کہ ہم پیغمبر موعود بنیں گے اب کس طرح سے یہ برداشت کریں کہ وہ ہم کو عبد مناف کے ایک جوان کا پیرو دیکھیں''۔(٢)

______________________

(١) مراجعہ کریں: ا س کتاب کے باب ''جزیرة العرب او راس کے اطراف میں ادیان و مذاہب'' میں (حنفا).

(٢) ابن کثیر ، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٣٠.

۱۷۷

تیسری فصل

قریش کی مخالفت کے نتائج او ران کے اقدامات

مسلمانوں پر ظلم و تشدد

مسلمانوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ جناب ابوطالب سے قریش کی گفتگو کرنے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بنی ہاشم پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی حمایت کے لئے کھڑے ہوگئے تو وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جانی نقصان پہنچانے سے ناتواں ہوگئے اور مسلمانوں کو نئی نئی اذیتیں اور سزائیں دینا شروع کردیں تاکہ اس طرح سے انھیں اسلام کی طرف جانے سے منع کردیں گے۔(١)

قریش کے لئے مشکل یہ تھی کہ نومسلم افراد صرف ایک دو قبیلہ سے نہیں تھے جن کو آسانی سے روکا جاسکتا ہے بلکہ ہر قبیلہ سے چند افراد اس نئے دین کو اپنائے ہوئے تھے۔ مشرکین مکہ کے آزار و اذیت سے تنگ آکر جن مسلمانوں نے ٥ ھ میں حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی ان کی فہرست پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ عورتیں اور مرد مختلف قبائل (جیسے بنی عبد شمس، بنی اسد، بنی عبد الدار، بنی زہرہ، بنی مخزوم، بنی جمح، بنی عدی، بنی حارث، بنی عامر اور نبی امیہ) سے مسلمان ہوئے تھے۔

______________________

(١) طبری، تاریخ الامم والملوک، (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص٢٢١۔

۱۷۸

اس بنا پر مشرکوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ ہر قبیلہ، اپنے مسلمانوں کو سزائیں دے تاکہ دوسرے قبائل کے افراد کے مداخلہ کرنے سے ان میں تعصب نہ پیدا ہو اور وہ کوئی عکس العمل نہ دکھائیں۔

زیادہ تر تکلیفیں اور سزائیں نومسلم مستضعفوں کو دی جاتیں تھیں کہ جن کے بارے میں ہم نے بتایا ہے کہ وہ غلام، پردیسی اور بغیر کسی قبیلہ کی حمایت کے رہتے تھے۔(١) یاسر اور ان کے فرزند عمار، بلال بن رباح، خبّاب بن ارت، ابوفُکَیہ، عامر بن فُھَیر، صُھَیب بن سنان اور خواتین اور کنیزوں میں سُمَیّہ، ام عُبَیس، (یا اُم عُنَیس)، زِنِّیرہ، لَبیبہ (یا لُبَنیہ) اور نَہدیّہ؛ یہ وہ افراد تھے(٢) جن کو مختلف مواقع پر بھوک اور پیاس، قید و بند، ضرب و شتم اور مکہ کے تپتے ہوئے ریگ زار پر لٹاکر شدید گرمی کے عالم میں سزائیں دی گئیں یا تپتے ہوئے صحرا میں آھنی زرہ پہنا کر یا ان کی گردنوں میں رسی باندھ کر بچوں کے ذریعہ پھرایا گیا۔

حبشہ کی طرف ہجرت

خود پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ، جناب ابوطالب اور بنی ہاشم کی حمایت کے سایہ میں قریش کے جانی نقصان سے محفوظ تھے۔ لیکن اور دوسرے مسلمانوں کی بے پناہ اذیتوں اور سزاؤوں کو دیکھ کر (ایک وقتی راہ حل اور امان کی خاطر) آپ نے ان کو سمجھایا کہ، ملک حبشہ ہجرت کرجائیں اور فرمایا کہ ''وہاں کا بادشاہ انصاف پسند اور وہاں کی سرزمین سچی اور با امن ہے۔(٣)

______________________

(١)بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: ڈاکٹر محمد حمیداللہ (قاہرہ: دار المعارف، ط٣)، ج١، ص١٩٧؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص٦٦۔

(٢) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٦۔ ١٥٦؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٠۔ ٦٦۔

(٣) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٤٤؛ تاریخ الامم والملوک، ج٢، ص٢٢٢؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٧٦۔

۱۷۹

اس زمانہ میں صرف حبشہ مسلمانوں کے ہجرت کے لئے مناسب جگہ تھی ۔ ایران و روم یا اس کے زیر اثر دوسرے علاقے جیسے شام اور یمن ہر ایک کے لئے ممکن تھا کہ کسی نہ کسی وجہ سے (قریش کے ورغلانے یا اپنی سیاست کی بنا پر) مسلمانوں کو قبول نہ کریں یا ہجرت کے بعد ان کے لئے مشکلات اور پریشانیاں کھڑی کردیں۔ اس کے علاوہ حبشہ مسلمانوں کے لئے ایک جانی پہچانی جگہ تھی۔ کیونکہ اہل مکہ تجارت کی غرض سے وہاں آیا جایا کرتے تھے۔(١)

اس کے علاوہ حبشہ کے لوگ مسیحی تھے۔ خدا پرستی کے عقیدہ میں وہ مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حبشہ کے مسیحی ''یعقوبی'' فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہ فرقہ خدا کو اکیلی ماہیت (یک اقنوم) جانتا تھا اور تثلیث (یعنی تین خداؤوں کا عقیدہ) نہیں رکھتا تھا اور اس لحاظ سے ان کا عقیدہ توحید اسلامی سے قریب تھا۔(٢)

بہرحال پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کہنے پر بعثت کے پانچویں سال(٣) ، مسلمانوں کا ایک ١٥ نفری(٤) گروہ خفیہ طریقے سے مکہ چھوڑ کر، بندر شعیبہ کے راستے سے، بحر احمر کو عبور کرتا ہوا حبشہ پہنچا۔ یہ گروہ دو تین مہینے حبشہ میں رہنے کے بعد قریش کے اسلام لانے کی افواہ اور مسلمانوں پر سے اذیتوں او ردباؤ کے ختم ہونے کی خبر سن کر دوبارہ مکہ پلٹ آیا۔(٥)

______________________

(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ص٢٢١۔

(٢) عمر فروخ، تاریخ صدر الاسلام و الدولة الامویہ (بیروت: دار العلم، للملایین، ط٣، ١٩٧٦ئ)، ص ٥٤؛ ڈاکٹر عباس زریاب، سیرۂ رسول اللہ، تہران؛ سروش، ط١، ١٣٧٠)، ص١٦٩۔

(٣) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص٢٠٤؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص٢٢٨؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص٧٧۔

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٢٠٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٤؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٢۔ ٢٢١۔

(٥) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٧۔

۱۸۰