تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 138732
ڈاؤنلوڈ: 3429

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138732 / ڈاؤنلوڈ: 3429
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

لیکن چونکہ زور و زبردستی اور سزائیں ویسے ہی برقرا رتھیں لہٰذا پھر مسلمانوں کا ایک دوسرا گروہ اسی راستے سے حبشہ پہنچا۔ اس مرتبہ ان کی تعداد (عورت و مرد ملا کر) ایک سو ایک افراد پر مشتمل تھی(١) اور ان کی سرپرستی جعفر ابن ابی طالب کے ذمہ تھی جب مہاجرین، حبشہ میں امن و سلامتی کے ساتھ رہنے لگے تو ایک مدت کے بعد قریش کو خطرے کا احساس ہوا اور انھوں نے اپنا نمائندہ، نجاشی کے دربار میں بھیجا تاکہ وہ بادشاہ سے مطالبہ کرے کہ مہاجرین کو ان کے شہر واپس بھیج دیا جائے۔ ادھر جناب ابوطالب اس سازش سے آگاہ ہوگئے اور انھوں نے ایک خط نجاشی کے پاس لکھا اور اس سے مہاجرین کی حمایت کی درخواست کی۔(٢)

نجاشی کے دربار میں قریش کے نمائندوں کے دعوے کے بعد، جناب جعفرابن ابی طالب نے مفصل طریقے سے سنجیدہ الفاظ میں موقع کے لحاظ سے گفتگو فرمائی۔ اور بہت اچھے انداز میں اپنے موقف کا دفاع کیا اور نجاشی کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی نجاشی نے پناہ گزینوں کو قریش کے

______________________

(١)ابن سعد، سابق، ص ٢٠٧۔ مہاجرین کی تعداد اس سے بھی کم لکھی گئی ہے لیکن مہاجرین کے ناموں کی تعداد جو کہ تاریخ میں درج ہے وہ پہلی تعداد کی تصدیق کرتی ہے۔ مراجعہ کریں: ابن ہشام، سابق، ص ٣٥٣۔ ٣٤٦؛ ڈاکٹر محمد ابراہیم آیتی، تاریخ ، (انتشارات تہران یونیورسٹی، ط ٢ ، ١٣٦١)، ص ١٣٢۔ ١٢٢.

(٢)ابن ہشام، سابق، ج١، ص ٣٥٧؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٨، ص ٤١٨؛ نقل طبرسی کے مطابق جناب ابوطالب نے اپنے خط میں یہ اشعار لکھے تھے :

تعلم ملیک الحبش ان محمداً

نبی کموسی والمسیح بن مریم

اتی بالهدی مثل الذی اتیابه

و کل بأمر اللّٰه یهدی ویعصم

وانکم تتلونه فی کتابکم

یصدق حدیث لاحدیث مرجم

فلاتجعلوا لله ندّاً و اسلموا

فان طریق الحق لیس بمظلم

(اعلام الوریٰ، ص٤٥)

۱۸۱

نمائندوں کے سپرد کرنے سے انکار کردیا اور ان کو اپنی حمایت میں رکھا۔(١)

البتہ تمام مہاجرین کو سزائیں نہیں ملی تھیں ان میں سے کچھ طاقت ور قبیلے کے لوگ بھی تھے اور مشرکین کی مجال نہیں تھی کہ ان کو اذیتیں یا سزائیں دیتے۔ لیکن بہرحال مکہ کا ماحول بہت پرآشوب اورتکلیف دہ ہوگیا تھا اور شاید پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا مقصد یہ بھی رہا ہو کہ مسلمانوں کوایسے ماحول سے دور رکھ کر حبشہ میں اسلام کی حمایت اور اس کے دین کے مخالفوں کے خلاف ایک مرکز وجود میں آئے۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ حبشہ میں مہاجرین کا بسنا تبلیغی اثرات کے لحاظ سے خالی نہ تھا جیسے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اسلام قبول کیا اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے روابط برقرار کئے۔(٢) گویا قریش نے اس اندیشے کے پیش نظر اپنے نمائندے کو بھیجا تھا۔

کچھ ایسے شواہد اور ثبوت ملتے ہیں کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مسلسل مہاجرین کے حالات کی خبرگیری فرماتے تھے جیسا کہ بعض کے ارتداد اور عبد اللہ بن جحش (ایک مہاجر) کے مرنے کی خبر آپ کو ملی۔(٣)

اس مرتبہ حبشہ میں مہاجروں کا قیام زیادہ رہا اور اس عرصے میں گیارہ لوگ وہاں فوت ہوگئے، ٣٩٠ ، افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے پہلے مکہ پلٹ آئے، کچھ عورتیں اور ٢٦ مرد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت اور جنگ بدر کے بعد مدینہ پلٹ آئے اور آخری گروہ جعفر ابن ابی طالب کی سرپرستی میں ہجرت کے ساتویں سال واپس ہوا اور جنگ خیبر کے تمام ہو جانے کے بعد اس مقام پرپیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی خدمت میں پہنچا۔(٤)

______________________

(١)طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٤۔ ٤٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص٣٦٠۔ ٣٥٦؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨١۔ ٧٩۔

(٢) بعض کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ حبشہ سے پلٹتے وقت جعفر ابن ابی طالب کے ہمراہ وہاں کے ستر افراد تھے ۔ اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے گفتگو کے بعد وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (مجمع البیان، ج٣، ص ٢٣٤)

(٣) ابن سعد، سابق، ص ٢٠٨

(٤)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص٩٧؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص٢٣٨؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبہ المعارف، ط١،١٩٦٦ئ)، ج٤، ص١٤٣؛ آیتی، گزشتہ حوالہ، ص١٣٢۔

۱۸۲

حضرت فاطمہ زہرا ٭ کی ولادت

شیعہ مورخین کے درمیان مشہور قول کی بنا پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بعثت کے پانچویں سال مکہ میں متولد ہوئیں۔(١) وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سب سے چھوٹی اولاد تھیں اور آپ کی شریک حیات جناب خدیجہ کے بطن سے پیدا ہوئیں اور ہجرت کے بعد مدینہ میں ان کی شادی علی کے ساتھ ہوئی۔ شہزادی نے اسی کمسنی کے عالم میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مشرکوں سے جہاد کیا اور طاقت فرسا مشکلات کو برداشت کیا اور اس زمانہ کے مصائب و آلام کو ہمیشہ یاد رکھا۔

اسراء اور معراج

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا بطور اعجاز راتوں رات مکہ سے بیت المقدس کی طرف سفر کرنا (اسرائ) اور وہاں سے خداوند عالم کی قدرت کاملہ کے ذریعہ آسمانوںکا سفر کرنا (معراج) کہلایا اور ان دونوں واقعات کو مکہ کے واقعات میں شامل کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں واقعات، مکی سوروں میں نقل ہوئے ہیں لیکن وقوع واقعہ کے سال میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے ان دونوں سفر کا مقصد یہ تھا کہ خداوند عالم کی عظمت کی نشانیوں کوا س وسیع و عریض کائنات اور آسمانوں میں آپ مشاہدہ کریں اور فرشتوں اور پیغمبروں کی روحوں سے ملاقات، بہشت و دوزخ کے اندر کا ماحول، اوراہل بہشت اورانکے درجات وغیرہ کا مشاہدہ فرمائیں جیسا کہ خداوند عالم نے سورۂ اسراء میں اس بات کا تذکرہ اس طرح سے کیا ہے۔

''پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جواپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک لے

______________________

(١) مجلسی، بحار الانوار، ج٤٣، ص٧ کے بعد۔ لیکن اہل سنت کے درمیان ان کی ولادت بعثت کے پانچ سال پہلے مشہورہے۔ (سید جعفر شہدی، زندگی فاطمہ زہرا) (تہران: دفتر نشر فرھنگ اسلامی، ١٣٦٥، ط٧)، ص ٣٢۔ ٢٤۔

۱۸۳

گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایاہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے''۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس سفر میں جن مراحل کو طے کیا اس کو بیان کرنے کے بعد ''معراج'' کے بارے میں بھی فرمایا: ''اس نے (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )اپنے پروردگار کی کچھ بڑی نشانیاں دیکھی ہیں''۔(٢)

ساتویں امام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ جب خدا مکان نہیں رکھتا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آسمانوں پر کیوں لے گیا؛ تو آپ نے فرمایا: خداوند عالم زمان و مکان سے مبرا ہے اس نے چاہا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعے فرشتوں اور آسمانوں کے ساکنوں کو عزیز اور بزرگ قرار دے اور آپ ان کا مشاہدہ کریں اور یہ بھی چاہا کہ آپ کو اپنی عظمت کی نشانیوں کا نظارہ کرائے تاکہ آپ وہاں سے زمین پر آنے کے بعد لوگوں سے سارا ماجرا بیان کریں اور یہ فعل ہرگز اس معنی میں نہیں ہے جس کو فرقۂ مشبہ کہتے ہیں اور خداوند عالم، جسم، مادہ اور مکان سے منزہ ہے۔(٣)

روایات معراج کی تحلیل اور ان کا تجزیہ

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے آسمانی سفر کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جس کو طبرسی (مشہور و معروف مفسر) نے چار حصوں پر تقسیم کیا ہے:

١۔ وہ روایات جو متواتر ہونے کی بنا پر قطعی اور مسلم ہیں جیسے اصل معراج۔

٢۔ وہ روایات جن میں ایسی باتوں کا تذکرہ ہوا ہے جس کو قبول کرنا عقل کی روسے قباحت نہیں

______________________

(١)سورۂ اسرائ، آیت١۔

(٢)لقد رأی من آیات ربه الکبریٰ (سورۂ نجم، آیت ١٨.)

(٣) بحرانی، تفسیرالبرہان، (قم: دار الکتب العلمیہ، ١٣٩٣ھ) ، ج٢، ص ٤٠٠.

۱۸۴

رکھتا ہے اور جو کسی مسلّم دستور کے خلاف نہیں ہیں جیسے آسمانوں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سفر کرنا، پیغمبروں کی زیارت، بہشت و دوزخ وغیرہ کی زیارت۔

٣۔ ایسی حدیثیں جن کا ظاہر، ان مسلّم اصولوں کے خلاف نہیں ہے جو آیات یا اسلامی روایات سے ماخوذ ہیں لیکن اس کے باوجود وہ قابل تاویل و توجیہ ہیں اس طرح کی حدیثوں کی ایسی تاویل کرنا چاہیئے جو صحیح اعتقاد اور محکم دلیل کے موافق ہو جیسے وہ روایات جو یہ کہتی ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل بہشت کے ایک گروہ کو بہشت میں اور اہل دوزخ کے ایک گروہ کو دوزخ میں دیکھا ہے ان مناظر کے بارے میں کہا جائے کہ یہ ایک طرح سے بہشت اوردوزخ واقعی کی مثال اور صورت تھی۔

٤۔ ایسے مطالب جو ظاہراً قابل قبول نہیں ہیں اور قابل تاویل و توجیہ بھی نہیں ہیں۔ جیسے یہ کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سفر میں خدا کو چشم ظاہری سے دیکھا اور اس سے باتیں کیں اور تخت الٰہی پر ا س کے بغل میں بیٹھے۔ اس طرح کی مطالب باطل اور بے بنیاد ہیں۔(١)

علمائے امامیہ کے عقیدہ کے مطابق پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی معراج جسمانی تھی یعنی وہ اپنے ''جسم'' اور ''روح'' کے ساتھ سفر پر گئے تھے۔(٢)

اسلامی روایات کی بنیاد پر روزانہ کی پنجگانہ نماز معراج کے سفر میں واجب ہوئی ہے۔(٣) اگر

______________________

(١) مجمع البیان، (تہران: شرکہ المعارف)، ج٦، ص ٣٩٥، تفسیر آیہ ٔ سورۂ اسرائ.

(٢) مجلسی، سابق، ج١٨، ص ٢٩٠؛ تفسیر نمونہ، ج١٢، ص ١٧ کے بعدآج کے علمی قوانین کے اعتبار سے واقعۂ معراج کا رونما ہونا ممکن ہے رجوع کیجئے: تفسیر نمونہ، ج١٢، ص ٣٠۔ ١٧؛ فروغ ابدیت ، ج٢، ص ٣٩٤.

(٣) کلینی، الفروع من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ط٢، ١٣٦٢)، ج٣، ص ٤٨٧۔ ٤٨٢؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص٢١٣؛ صحیح بخاری، تحقیق: الشیخ قاسم الشماعی الرفاعی، (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج٥، مناقب الانصار، باب ١٠٤، ص١٣٤۔ ١٣٢؛ شیخ محمد بن حسن حر عاملی، وسایل الشیعہ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٤)، ج٣، کتاب الصلاة، ص٧، حدیث٥، ص٣٥، حدیث ١٤، ص٦٠، حدیث٦؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٨، ص٣٤٨؛ سید ہاشم بحرانی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٩٣٣.

۱۸۵

معراج سے قبل پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م یا علی کو نماز پڑھتے دیکھا گیا یا ان سے نماز نقل ہوئی تو وہ نماز غیر واجب یا ایسی نماز تھی جو روزانہ کی پنجگانہ نماز کے شرائط اور خصوصیات کے مطابق نہیں تھی۔(١)

بنی ہاشم کا سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ

جب قریش کے سرداروں کو جناب ابوطالب سے ملنے پر کوئی نتیجہ نہ نکلا اور حبشہ سے مہاجرین کے پلٹانے میں ناکام رہے اوردوسری طرف سے بڑی اور اہم شخصیتیں اسلام قبول کرنے لگیں اور مختلف قبائل سے اسلام کی پیروی کرنے والے افراد میں اضافہ ہونے لگا تو ناچار ہوکر یہ پلان بنایا کہ دباؤ کے نئے طریقوں کو اپنایا جائے اور وہ یہ کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خاندان کو اجتماعی اور اقتصادی طور پر دبائیں تاکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیں اور ان کو ہمارے سپرد کردیں۔ اس مشورے کے بعد آپس میں ایک عہدنامہ لکھا گیا کہ بنی ہاشم سے نہ لڑکی لیں اور نہ ان کو لڑکی دیں اور نہ ہی ان سے خرید و فروخت او رمعاملہ کریں۔(٢)

اس سے قبل بیان کرچکے ہیں کہ مکہ کے لوگوں کا ذریعہ معاش صرف تجارت تھا اور اقتصاد و تجارت پر اختیار اور کنٹرول سارا قریش کا تھا۔لہٰذا اگر وہ کسی شخص یا گروہ کا بائیکاٹ کر دیتے تھے تواس کا مطلب، اس کی مکمل محرومیت ہوتی تھی۔ اسی لئے ان کی نظر میں یہ بہت موثر حربہ تھا اور اس بات کی امید تھی کہ بنی ہاشم جلد ہی ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے۔

شادی کا بائیکاٹ اور بنی ہاشم کے ساتھ قطع روابط، جس کاکہ بعض کتابوں میں قریش کے عہدنامہ

______________________

(١)علامہ امینی، الغدیر، ج٣، ص٢٤٢۔

(٢) ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٧٥؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢٥؛ بلاذری ، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دارالمعارف، ط٣)، ج١، ص ٢٣٤.

۱۸۶

کے ایک بند کے طور پر ذکر ہوا ہے(١) زیادہ تراجتماعی پہلو رکھتا تھا گویا وہ لوگ چاہتے تھے کہ بنی ہاشم اس لحاظ سے بھی سخت مشکلات اور دباؤ میں رہیں۔

اس عہدنامہ پر دستخط کے بعد جناب ابوطالب کے مشورے(٢) سے بنی ہاشم کے تمام افراد چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر(٣) ، (سوائے ابولہب کے) ''شعب ابوطالب(٤) '' میں جمع ہوئے(٥) اور

______________________

(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٣٤؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢٠٩؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٤، ص ٥٨.

(٢) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٠؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٦٣؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار (بیروت: دارالفکر، ط ١، ١٣٩٨ھ)، ص ١٥٩؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٨.

(٣) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١.)، ج١٤، ص ٦٤؛ قتال نیشاپوری، روضة الواعظین (بیروت: موسسة العلمی للمطبوعات، ط ١، ١٤٠٦ھ، ص ٦٣.

(٤) دو پہاڑوں کے بیچ کے درّہ اورشگاف کو ''شعب'' کہتے ہیں۔ ''شعب ابوطالب'' جو کہ بعد میں ''ابویوسف'' کے نام سے مشہور ہوا، عبد المطلب کی وجہ سے قرار پایا ہے۔ جب ان کی آنکھیں ضعیف ہوگئیں تو انھوں نے اس کو اپنی اولاد کے درمیان تقسم کردیا۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی اپنے والد بزرگوار جناب عبد اللہ کا حصہ ملا۔ اس درّہ میں بنی ہاشم کے گھر تھے (یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٣، ص ٣٤٧) جدید تحقیقات کی روشنی میں شعب ابی طالب۔ بعض لوگوں کے تصور کے برخلاف، حجون میں جو کہ آج اہل مکہ کے درمیان ''جنة المَعلاة'' کے نام سے ا ورا یرانیوں کے درمیان ''قبرستان ابوطالب'' کے نام سے معروف ہے، نہیں ہے۔ بلکہ مسجد الحرام کے قریب، صفا و مروہ پہاڑی کے بغل اورابوقبیس پہاڑ کے شمالی حصہ میں واقع ہے۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی ولادت اور جناب خدیجہ کا گھر اسی درّہ میں تھا اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ہجرت کے وقت تک اسی درّہ میں رہتے تھے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد، عقیل ابن ابی طالب وہاں رہنے لگے اور ان کے بعد محمد بن یوسف ثقفی، (حجاج کے بھائی) نے اس کو عقیل کے لڑکوں سے خریدا اور اپنے گھر میں شامل کرلیا۔ گویا اس کے بعد اس کا نام شعب ابی یوسف پڑ گیا اور بعض قدیمی مورخ ا س کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں،پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی جائے ولادت اسی خاص جگہ پر ہے اور عبد العزیز کے زمانہ میں، مکہ کے میئر نے اسے لائبریری میں تبدیل کردیا اور ١٣٩٩ھ میں عزہ سڑک کی توسیع میں اسے ختم کردیا گیا۔ (فصلنامۂ میقات حج، شمارہ ٣، ماہ بہار ١٣٧٢، مقالہ سیدعلی قاضی عسکر، شعب ابی طالب کے بارے میں تحقیق، ص ١٧١۔ ١٤٩.

(٥)پہلی محرم سات بعثت (ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢٠٩)

۱۸۷

تین سال(١) تک جب تک بائیکاٹ جاری رہا) وہاں گزارے۔

اگر چہ قریش کا پیمان اجتماعی اور اقتصادی پہلو رکھتا تھا لیکن چونکہ قریش کو پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م اور بنی ہاشم سے بہت زیادہ بغض و عناد تھااور وہ اعلان کرچکے تھے کہ ہم میں اور بنی ہاشم میں حل کا واحد راستہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قتل ہے اسی وجہ سے جناب ابوطالب، حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بنی ہاشم کی جان کے بارے میں بہت فکرمند تھے لہٰذا انھوں نے درّہ میں جاکر پناہ لی تاکہ ان کی حفاظت اور نگرانی کرنا آسان رہے۔ اور تاریخ میں بنی ہاشم کے مردوں کی تعداد چالیس افراد(٢) نقل ہوئی ہے جنھیں آپ نے شعب کی نگہبانی کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ ہر شب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتے تھے کہ کچھ دیر استراحت کرنے کے بعد اپنی جگہ بدل دیں او ران کی جگہ اپنے فرزند علی کو لٹادیتے تھے(٣) تاکہ اس طرح محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان قریش کے حملہ اور سوء قصد سے محفوظ رہ سکے۔

اس دوران قریش نے شعب میں راشن غلہ کے پہنچنے میں رکاوٹ کھڑی کردی اور بنی ہاشم، ہر طرح کے لین دین سے محروم اور سخت مشکلات میں گرفتار ہوگئے صرف وہ محرم کے مہینہ میں (حج اور عمرہ کے موسم میں) آذوقہ کی فراہمی کے لئے شہر میں جاتے تھے۔(٤) اس وقت بھی، قریش مکہ کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کو خبردار کردیتے تھے کہ بنی ہاشم کو کوئی چیز فروخت نہ کریں ورنہ ان کے اموال غارت کردیئے جائیں گے۔(٥) اور اگر بنی ہاشم؛ قریش سے کوئی چیز خریدنا چاہتے

______________________

(١)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٩؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٤۔ ٢٣٣؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٥؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)؛ ج٢، ص ٨٧؛ فتال نیشاپوری، گزشتہ حوالہ، ص ٦٤۔ ٦٣.

(٢) ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٦٣؛ طبرسی، اعلام الوریٰ (تہران: دار الکتب الاسلامیہ: ط ٣)، ص ٤٩.

(٣) فتال نیشاپوری، روضة الواعظین، (بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ط ١، ١٤٠٦ھ)، ص ٦٣؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ٦٤؛ طبرسی گزشتہ حوالہ، ص ٥٠؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٦٤؛ رجوع کریں: گزشتہ حوالہ، ص ١٦٠.

(٤)ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص٦٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٩؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٤؛ ابن اسحاق ، گزشتہ حوالہ، ص ٥٩.

(٥) طبرسی، گزشتہ حوالہ.

۱۸۸

تھے تووہ اس کی قیمت بہت زیادہ بتاتے تھے تاکہ وہ خرید نہ سکیں۔(١)

بعض اوقات ابو العاص بن ربیع(٢) اور کبھی حکیم بن حزام(٣) قریش کی نظروں سے بچا کر شعب کے اندر غلہ اور راشن پہنچاتے تھے بنی ہاشم سے حضرت علی راتوںکو چھپ کر شعب سے نکلتے تھے اور کھانے کا سامان فراہم کرتے تھے۔(٤)

اس عرصہ میں جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی دولت تمام ہوگئی اور وہ تہی دست اور مشکلات میں گرفتار ہوگئے۔(٥) خاص طور سے جناب خدیجہ نے اپنی ساری دولت شعب میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی راہ میں خرچ کردی۔(٦)

تین سال گزر نے کے بعد جب پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے دیمکوں کے ذریعہ اس عہدنامہ کے کھا جانے کی اطلاع ابوطالب کے ذریعہ، قریش کودی۔(٧) اور دوسری طرف سے عہدنامہ پردستخط کرنے والے بعض افراد جو بنی ہاشم کی حالت زار پر رنجیدہ تھے۔(٨) وہ اس عہد سے، بیزار ہوگئے اور ان کی

______________________

(١) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ١٩؛ ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٩.

(٢) ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص٦٥؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص٥١۔

(٣) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص١٦١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٧٩؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٢٣٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص١٩۔

(٤) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٣، ص ٢٥٤۔

(٥) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٢٥؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٠

(٦)طبرسی، ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٦٤.

(٧) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ١٦١؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٣٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٠؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٦٥.

(٨) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ١٦٢، ١٦٥، ١٦٦؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٤؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٥٩؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٨٨؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٩۔

۱۸۹

پیش قدمی سے یہ عہد لغو ہوگیا۔(١) اور اس طرح بنی ہاشم اپنے گھروں کی طرف پلٹ آئے۔(٢)

حضرت علی نے اپنے ایک خط میں معاویہ سے اس مشکل اور پُررنج دور کا تذکرہ اس طرح سے کیاہے:

''... تو ہماری قوم نے ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ہماری جڑ اکھاڑ دینے کا ارادہ کرلیااور ہمارے خلاف کتنے ہی ناپاک عزائم استوار کئے اور کون سی ناشائستہ حرکت ہوگی جس کا ہمیں نشانہ نہ بنایا ہو۔ ہمارا جینا حرام کردیا اور خوف و ہراس کوہمارا اوڑھنا بچھونا بنادیا اور ہمیں ایک دشوار گزار پہاڑ (کی گھاٹی) میں سر چھپانے پر مجبور کردیا اور (آخرکار) ہمارے لئے جنگ کی آگ بھڑکادی (اس برے وقت میں) اللہ تعالیٰ نے ہم (بنی ہاشم) کو (ایسی) ہمت عطا فرمائی کہ ہم نے حریم رسالت کا بچاؤ کیا اور آپ کی شان حرمت پرآنچ نہ آنے دی۔ ہمارے مومن یہ خدمات ثواب کی خاطر بجالاتے تھے اور ہمارے کافر خونی قرابت کے پیش نظر حمایت کرتے تھے. قریش کے جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ ان مصائب سے بچے ہوئے تھے جن میں ہم گرفتار تھے کیونکہ کسی کی حفاظت تو باہمی معاہدہ کر رہا تھا او رکسی کا قبیلہ اس کے بچاؤ کے لئے تیار کھڑا تھا اس لئے اسے قتل ہو جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔(٣)

جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی وفات

بعثت کے دسویں سال شعب سے بنی ہاشم کے نکلنے کے کچھ ہی دن بعد پہلے جناب خدیجہ اوراس کے بعد ابوطالب کی وفات ہوگئی۔(٤)

______________________

(١) بعثت کے دسویں سال میں (ابن سعد، گزشتہ)، ج١، ص ٢١٠، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٣٦۔

(٢) طبرسی ، گزشتہ حوالہ، ص ٥٢۔ ٥١۔

(٣) نہج البلاغہ، تحقیق: صبحی صالح، مکتوب نمبر ٩.

(٤) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٣٦؛ ابن اثیر ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٩.

۱۹۰

ان دو بڑی شخصیتوں کا اس دنیا سے اٹھ جانا جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بہت بڑی اور جانگداز مصیبت تھی۔(١) ان دو گہرے دوست اور وفادار ناصر کے رحلت کر جانے کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے مسلسل سخت او رناگوار واقعات پیش آئے۔(٢) اور زندگی آپ پر دشوار ہوگئی۔

جناب خدیجہ کا کارنامہ

ان دو بڑی شخصیتوں کے غیر متوقع فقدان کا اثر، فطری تھا اس لئے کہ اگر چہ جناب خدیجہ سطح شہر میں جناب ابوطالب جیسا دفاعی کردار نہیں ادا کرسکتی تھیں لیکن گھر کے اندر نہ تنہا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے مہربان جانثار اور دلسوز شریک حیات تھیں بلکہ اسلام کی سچی اور واقعی مددگار تھیں بلکہ مشکلات اور پریشانیوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسکین قلب اور سکون کا باعث تھیں۔(٣)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م اپنی زندگی کے آخری لمحات تک جناب خدیجہ کو یاد کیا کرتے تھے۔(٤) اور اسلام کے سلسلے میں ان کی پیش قدمی، زحمات اور رنج و الم کو فراموش نہیں کرتے تھے۔ آپ نے ایک دن عائشہ سے فرمایا: ''خداوند عالم نے خدیجہ سے بہترمجھے زوجہ نہیں دی جس وقت سب کافر تھے وہ ہم پر ایمان لائیں۔ جب سب نے مجھے جھٹلایاتوانھوں نے میری تصدیق کی اور جب دوسروں نے مجھے محروم کیا تو اس نے اپنی ساری دولت میرے لئے خرچ کردی۔ اور خداوند عالم نے مجھے اس سے فرزند عطا کیاہے۔(٥)

______________________

(١) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٢٩؛ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس سال کا نام ''عام الحزن'' رکھا۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٢٥.)

(٢) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٧؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٣.

(٣)وکا نت وزیرة صدق علی الاسلام و کان یسکن الیها ۔ (ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٣؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ.

(٤)امیرمهنا الخیامی، زوجات النبی واولاده، (بیروت موسسہ عز الدین، ط ١، ١٤١١ھ)، ص ٦٣۔ ٦٢.

(٥) ابن عبد البر، الاستیعاب (در حاشیہ الاصابہ)، ج ٤، ص ٢٨٧؛ دولابی، گزشتہ حوالہ، ص ٥١.

۱۹۱

جناب ابوطالب کا کارنامہ !

جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے کہ جناب ابوطالب نہ صرف بچپنے اور نوجوانی میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرپرست تھے بلکہ ان کی رسالت کے زمانہ میں بھی بے انتہا ان کے حامی اور پشت پناہ تھے۔ اور مشرکوںکی عداوتوں او رکارشکنیوں کے مقابل میں ایک عظیم دیوار تھے۔ ابوطالب کی حیات کے زمانے میں قریش بہت کم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانی آزار و اذیت کی جرأت رکھتے تھے ایک دن بزرگان قریش میں سے کچھ لوگوں نے ایک شخص کو ورغلایا کہ مسجد الحرام میں جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسم پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا جب جناب ابوطالب کو واقعہ کی خبر ملی توآپ نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور

''حمزہ'' کے ہمراہ ان کو ڈھونڈنے کے لئے نکل پڑے او رحمزہ سے کہا کہ یہی اوجھڑی ان میں سے ہر ایک کے جسم پر مل دیں۔(١)

ابوطالب کی رحلت کے بعد قریش بہت گستاخ ہوگئے تھے ۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م پر کوڑا پھینکتے تھے۔(٢) خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ ''قریش مجھے ضرر نہیں پہنچا سکے یہاں تک کہ ابوطالب کی وفات ہوگئی۔(٣)

______________________

(١) کلینی ، الاصول من الکافی، (تہران: دار الکتاب الاسلامیہ، ١٣٨١ھ)، ج١، ص ٤٤٩؛ علامہ امینی، الغدیر، ج٧، ص ٣٩٣؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج١٨، ص ١٨٧؛ رجوع کریں: الغدیر، ج٧، ص ٩ ٣٥، ٣٨٨، ٣٩٣؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٢٠.

(٢) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢١١؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ٢٢٩؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ترجمہ، محمود مہدوی دامغانی، (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١)، ج٢، ص٨٠؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٩١۔

(٣) ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص٢٣٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٨؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٩؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ٦٨؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٩١؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٠، سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، (نجف:المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ)، ص ٩.

۱۹۲

ایمان ابوطالب

تمام شیعہ علماء کا عقیدہ ہے کہ ابوطالب مسلمان اور مومن تھے۔(١) لیکن پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی حمایت کی خاطر آپ نے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور چونکہ اس سماج میں خاندانی تعصب پایا جاتا تھا۔ لہٰذا ظاہری طور پر آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کی خاطر خاندان کا عنوان دیا تھا۔(٢)

''ابوطالب اصحاب کہف کے مانند تھے جو اپنے ایمان کو چھپائے رہے اور تظاہر بہ شرک کرتے تھے اور خدا نے ان کو دو اجر عطا کیا ہے''۔(٣)

اہل سنت کے ایک گروہ نے جناب ابوطالب کے ایمان کا انکار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ مرتے دم تک ایمان نہیں لائے اور دنیا سے کفر کی حالت میں گئے۔ لیکن ان کے اس کے دعوے کے برخلاف بے شمار دلیلیں اور شواہد موجود ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ آئین اسلام اور نبوت حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے ۔اختصار کے طور پر ہم صرف دو دلیل پیش کرتے ہیں:

١۔ ان کے اشعار اور اقوال: جنا ب ابوطالب کے بے شمار اشعار و اقوال جو ہم تک پہنچے ہیں ان میں سے بعض میں آپ نے صراحت کے ساتھ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی نبوت اور ان کی حقانیت کا ذکر فرمایا

______________________

(١) شیخ مفید، اوائل المقالات (قم: مکتبة الداوری،)، ص ١٣؛ قتال نیشاپوری، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٥؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٤، ص ٦٥؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٣، ص ٢٨٧، تفسیر آیۂ ٢٦ سورۂ انعام ؛ علی بن طاووس، الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف (قم: مطبعة الخیام، ١٤٠٠ھ)، ص ٢٩٨.

(٢) طبرسی، گزشتہ حوالہ، ج٧، ص ٣٦٠، تفسیر آیۂ ٥٦ سورۂ قصص.

(٣) کلینی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٤٨؛ صدوق الامالی، (قم: المطبعة الحکمہ)، ص ٣٦٦؛ (مجلسی ٨٩)؛ قتال نیشاپوری، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٦؛ علامہ امینی، الغدیر، ج٧، ص ٣٩٠؛ مفید، الاختصاص، (قم: منشورات جماعة المدرسین)، ص ٢٤١.

۱۹۳

ہے۔(١) او ریہ اشعار و اقوال اسلام کے سلسلہ میں ان کے ایمان اور عقیدہ کا واضح اور روشن ثبوت ہیں۔ ان کے چند اشعار نمونہ کے طور پر یہاں پیش ہیں:

تعلم ملیک الحبش ان محمداً نبی کموسیٰ و المسیح بن مریم

أتیٰ بالهدیٰ مثل الذی اتیابه و کل بامر اللّٰه یهدی و یعصم(٢)

(اے حبشہ کے بادشاہ یہ جان لے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مانند موسیٰ او رمسیح پیغمبر ہیں وہی نور ہدایت جسے وہ دونوں لے کر آئے تھے وہ بھی لیکر آئے ہیں اور تمام پیغمبران الٰہی خدا کے حکم سے لوگوں کی ہدایت کر کے گناہ سے روکتے ہیں)

الم تعلموا اَنَّا وَجَدنَا محمداً ٭رسولاً کموسیٰ خطّ فی اول الکتب (٣)

______________________

(١) ابوطالب کے شعر کا ایک دیوان ہے جس کو ابونعیم علی بن حمزہ بصری تمیمی لغوی (م ٣٧٥ھ.ق سیسیل میں) نے جمع کیا ہے اور شیخ آغا بزرگ تہرانی نے اس کا ایک نسخہ بغداد میں آل سید عیسی عطار کی لائیریری میں دیکھا ہے۔ (الذریعہ، ج٩، قسم اول، ص ٤٣۔ ٤٢) اور اسی طرح قبیلۂ بنی مھرم سے ابو ھفان عبد اللہ بن احمد عبدی (جو کہ ایک شیعہ شاعر، مشہور ادیب اور بصرہ کے رہنے والے تھے) کے پاس ایک کتاب، شعر ابی طالب بن عبد المطلب و اخبارہ، کے نام سے تھی (رجال نجاشی، تحقیق: محمد جواد النائینی، بیروت، ط ١، ١٤٠٨ھ) ، ج٢، ص ١٦، نمبر ٥٦٨) مرحوم شیخ آغا بزرگ تہرانی نے اس کا ایک نسخہ بغداد میں آل سید عطار کی لائبریری میں دیکھاہے جس میں پانچ سو (٠٠ ٥) سے زیادہ اشعار تھے اور ١٣٥٦ھ میں نجف میں شائع ہوا۔ (الذریعہ، ج١٤، ص ١٩٥)، امیر المومنین علی چاہتے تھے کہ ابوطالب کے اشعار نقل اور جمع اوری ہوں اور آپ نے فرمایا: ''ان کو یاد کرو اور اپنی اولاد کو بھی یاد کرواؤ، ابوطالب دین خدا کے پیرو تھے او ران اشعار میں بے شمار علوم پائے جاتے ہیں''۔ (الغدیر، ج٧، ص ٣٩٣)۔

(٢) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٤٥؛ مجمع البیان، ج٤، ص ٢٨٨؛ علامہ امینی، الغدیر، ج٧، ص ٣٣١.

(٣) کلینی ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٤٩؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٤، ص ٢٨٧؛ ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٧٧؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ١٨١؛ شیخ ابوالفتح الکراجکی، کنز الفوائد، تحقیق: الشیخ عبداللہ نعمہ (قم: دار الذخائر، ط ١، ١٤١٠ھ)، ج١، ص ١٨١؛ امینی، الغدیر، ج٧، ص ٣٣٢۔

۱۹۴

(کیا تمھیں نہیں معلوم کہ ہم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مانند موسیٰ پیغمبر پایاہے اور اس کا نام و نشان گزشتہ آسمانی کتابوں میں ذکر ہے)

و لقد علمت ان دین محمدٍ

من خیر ادیان البریه دیناً(١)

(مجھے یقینی طور پر معلوم ہے کہ دین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، دنیا کے بہترین ادیان میں سے ہے)

٢۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے ابوطالب کی حمایتیں: پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے لئے جناب ابوطالب کی بے انتہا پشت پناہی اور حمایتیں جو تقریباً سات سال تک بغیر کسی وقفہ اور سستی کے جاری رہیں اور اس مدت میں قریش کے مقابل میں مقاومت اور بے شمار مصائب اور مشکلات کو برداشت کرنا آپ کے ایمان اور عقیدے کے سلسلے میں دوسرا واضح ثبوت ہے۔ آپ کے ایمان کے منکر یہ تصور کرتے ہیں کہ آپ نے یہ ساری مشکلات اور پریشانیاں خاندانی جذبہ کے تحت سہیں۔ جبکہ خاندانی روابط انسان کو اس طرح کی طاقت فرسا زحمتوں اور قربانیوں اور طرح طرح کے خطرات مول لینے پر ہرگز آمادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی قربانیوں کے لئے ہمیشہ ایمانی اوراعتقادی جذبہ ضروری ہے۔ اگر جناب ابوطالب کا جذبہ صرف خاندانی روابط تھا تو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے چچاؤوں نے جیسے عباس اورابولہب نے ایساکام کیوں نہیں کیا؟!۔(٢)

محققین کے ایک گروہ کی نظر میں، بعض لوگوں نے جو کوشش کی ہے کہ جناب ابوطالب کے کفر کو ثابت کریں

______________________

(١) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ص ٥٥؛ امینی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٤؛ عسقلانی، الاصابہ فی تمییزالصحابہ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٤، ص ١١٦؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف، ط ٢، ١٩٧٧م)، ج٣، ص ٤٢.

(٢) ایمان ابوطالب کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں کہ جن میں سے کچھ کا تذکرہ شیخ آغا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں، ج ٢، ص ٥١٠ سے ٥١٤ پر کیا ہے ۔او رمرحوم علامہ امینی نے بھی کتاب الغدیر میں ، ج ٧، ص ٣٣٠ سے ٤٠٣ تک تفصیلی طور پر بحث کی ہے اور انیس کتابیں جو کہ اسلام کے جید علماء کے ذریعہ ایمان ابوطالب کے اثبات اوران کے حسن عاقبت کے سلسلے میں لکھی گئی ہیں ان کا ذکر فرمایا ہے۔ او رچالیس حدیثیں ان کے ایمان کے اثبات میں نقل کی ہیں۔ اورجلد ہشتم کے آغاز میں بھی اس سلسلے میں مخالفوں کے اعتراضات او رشبہات کا جواب دیاہے۔

۱۹۵

یہ سیاسی جذبہ اور بعض تعصبات کی بنا پر ہے کیونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے اصحاب (جوکہ بعد میں علی کے سیاسی رقیب بنے) عام طور پر پہلے بت پرست تھے۔ صرف علی تھے جو سابقۂ بت پرستی نہیں رکھتے تھے اور بچپنے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مکتب میں پرورش پائی۔ جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ علی کے مقام اور مرتبہ کو کم کریں اور نیچہ دکھائیں تاکہ آئندہ ان کے برابر ہوسکیں، مجبوری کی بنا پر ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ ان کے والد بزرگوار کے کفر کو ثابت کریں تاکہ ان کا بت پرست ہونا ثابت ہوسکے۔ درحقیقت ابوطالب کا اس کے علاوہ کوئی جرم نہیں تھا کہ وہ علی کے باپ تھے اگر علی جیسے فرزند نہ رکھتے تو ایسے اتہامات ان پر نہ لگائے جاتے!۔

ان حق پامالیوں اور عباسی اور اموی کوششوں کو بھی، نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان میں سے کسی ایک کے جد، اس مرتبہ پر فائز نہیں ہوئے تھے۔اور اسلام میں پہل نہیں رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ کوشش کرتے تھے کہ ان کے باپ کے کفر کو ثابت کریں تاکہ اس طریقہ سے ان کے مقام اور مرتبہ کو کم کرسکیں! ۔

جو اتہام جناب ابوطالب پر لگایا گیاوہ آپ کی بہ نسبت عباس بن عبد المطلب (پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م اور حضرت علی کے چچا او رسلسلۂ خلفاء عباسی کے جد) سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا ، کیونکہ عباس، فتح مکہ ٨ھ تک کفر کی حالت میں مکہ میںرہے اور جنگ بدر میں مشرکوں کے لشکر کے ساتھ اسیر ہوئے اور فدیہ دیکر آزاد ہوئے۔ فتح مکہ کے واقعہ پر مکہ کے راستے میں آپ لشکر اسلام تک گئے اور پھر مکہ واپس پلٹ آئے اور بہت ہی کوششوں کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ابوسفیان (مشرکوں کا سرغنہ) کے لئے امان لی! اس کے باوجود کسی نے نہیں کہا کہ عباس کافر تھے! کیااس طرح کا فیصلہ ان دو لوگوں کے بارے میں فطری اور عقلی نظر آتا ہے؟!اس اعتبار سے محققین جنا ب ابوطالب کے کفر کے سلسلے میں پائی جانے والی حدیثوں کو جعلی سمجھتے ہیں۔(١)

______________________

(١) ڈاکٹر عباس زریاب، سیرۂ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( تہران: سروش، ج١، ١٣٧٠)، ص ١٧٨و ١٧٩.

۱۹۶

ازواج پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م

جب تک جناب خدیجہ زندہ رہیں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی(١) ان کے انتقال کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوسری خواتین سے شادی کی جن میں حضرت عائشہ کے علاوہ سب بیوہ تھیں۔ان میں سے پہلی سودہ اور ان کے شوہر سکران بن عمرو حبشہ کے مہاجروں میں سے تھے جو وہاں انتقال کرگئے تھے اور وہ بغیر سرپرست کے ہوگئی تھیں۔

بعض مستشرقین نے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی شادیوں کے بارے میں بزدلانہ تہمتوں کو دستاویز بناکر اس کو ہوس بازی اور شہوت پرستی سے تفسیر کیا ہے۔(٢)

جبکہ مسئلہ کی منصفانہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شادیاں معمولاً عام جذبہ کے تحت نہیں ہوئیں تھیں بلکہ سیاسی، سماجی اور اسلام کی مصلحتوں کے پیش نظر ہوئی تھیں ان میں سے بعض خواتین بے سرپرست اور بیوہ تھیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے شادی کر کے ان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اور بعض دوسرے بڑے خاندان یا قبائل سے تعلق رکھتی تھیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد ان قبائل یا خاندان کی حمایت حاصل کرنا تھا۔اور بعض وقت شادی کا مقصد جاہلی رسم و رواج کو مٹانے کی خاطر تھا۔ اس مطالب کی وضاحت کے لئے کچھ قرائن اورشواہد پیش ہیں۔

١۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے پچیس سال کی عمر میں یعنی مکمل جوانی کے عالم میں جناب خدیجہ کے ساتھ شادی کی جن کی عمر بر بنائے مشہور آپ سے زیادہ تھی اور ان کے جوانی کا دور گزر چکا تھا۔ ٢٥ سال تک ان کے ساتھ زندگی گزاری۔

٢۔ جب تک جناب خدیجہ زندہ رہیں کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی۔ جبکہ ا س دور کے سماج میں متعدد ازواج کا ہونا ایک عام رسم تھی۔

______________________

(١) ابن عبد البر، الاستیعاب، (حاشیہ الاصابہ میں) ، ج ٤، ص ٢٨٢؛ صحیح مسلم؛ امام النووی کی شرح (بیروت: دار الفکر)، ج١٥ھ ص ٢٠١.

(٢) محمد حسین ھیکل، حیات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (قاھرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط ٨، ١٩٦٣.)، ص ٣١٥و ٣١٦ و ٣٢٥.

۱۹۷

٣۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی بعد کی شادیاں ٥٠ سال کے بعد (ہجرت سے پہلے کم ، اور ہجرت کے بعد زیادہ) ہوئی تھیں۔ ایک طرف سے پیری کا زمانہ اور دوسری طرف سے سیاسی، سماجی اور نظامی مشکلات اور پریشانیوں کے عروج کا زمانہ تھا ایسے حالات میں کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شہوت پرستی کی فکر میں لگا ہوگا؟ کیا اصولی طور پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں اس طرح کے کاموں کی فرصت رکھتے تھے؟

٤۔ کیا ایسی عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا عیش و شہوت پرستی کی خاطر تھا جو مختلف طرح کے سلیقے اور اخلاق رکھتی ہوں اور ان میں سے بعض نے اپنے برے اخلاق او اطوار اور ز نانہ حسادت کی وجہ سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو رنجیدہ اور ملول کیاہو۔(١)

٥۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج میں سے ہر ایک، الگ الگ قبیلہ سے تعلق رکھتی تھیں اوران میں آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ کیاپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مختلف قبائل سے تعلق رکھنا اتفاقی مسئلہ تھا؟

٦۔ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد اسلام وہاں تیزی سے پھیلنے لگا تھا اور لوگوں کے دلوں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معنوی نفوذ کے علاوہ آپ کی اجتماعی اور سیاسی قدرت بھی زیادہ ہوگئی تھی لہٰذا قبائل عرب کے رؤسا اپنے لئے افتخار سمجھتے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی لڑکی سے شادی کریں لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جن خواتین کو شادی کے لئے چنا تھا وہ عموماً ضعیف اور بیوہ اور لاوارث تھیں جبکہ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مردوںکو کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کے لئے تشویق کرتے تھے۔ ہم یہاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج میں سے چند کا تذکرہ بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔

۱ام حبیبہ:

وہ اسلام کے کٹر دشمن ابوسفیان کی لڑکی تھیں وہ اپنے شوہر عبید اللہ بن جحش (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی کے لڑکے) کے ساتھ حبشہ چلی گئیں تھیں۔ عبید اللہ وہاں جاکر مرتد اور مسیحی ہوگئے اور شراب نوشی میں افراط کی وجہ سے کفر کی حالت میں دنیا سے گئے۔(٢)

______________________

(١) اس بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے سورۂ تحریم کی آیت ١ سے ٥ تک مراجعہ کریں۔

(٢) محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٧، ص ٩٧؛ شیخ عباس قمی، سفینة البحار ، ج١، لفظ حب ، ص ٢٠٤.

۱۹۸

جب پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کواس واقعہ کی خبر ملی تو آپ نے ٦ھ میں(١) عمرو بن امیہ ضمیری کو حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ ام حبیبہ کا عقد ان سے کردیا جائے۔نجاشی نے ام حبیبہ کی شادی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کردی۔ اس کے بعد وہ ایک سال تک حبشہ میں رہیں اور ٨ھ میں مہاجروں کے آخری گروہ کے ساتھ مدینہ پلٹ آئیں۔(٢) اس وقت ان کی عمر ٣٠ سے ٤٠ سال کے بیچ تھی۔(٣)

ظاہر ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا یہ اقدام اس نومسلم خاتون سے دلجوئی کی خاطر تھا۔ کیونکہ وہ اپنے باپ اور خاندان والوں سے الگ ہوکر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ چلی گئی تھیں اور پھر عالم غربت میں شوہر کا سایہ بھی اٹھ گیا تھا لہٰذا ان کے ساتھ اس سے بہتر کیا اقدام ہوسکتا تھا کہ انھیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ ہونے کا شرف ملے؟

جن اسباب کا دعوا مسیحی مورخین نے کیا ہے اگر اس کو فرض کرلیا جائے تو یہ کس طرح سے معقول ہوگا کہ ایک شخص ایسی خاتون سے شادی کرے جو دوسرے ملک میں رہ رہی ہو اور اس کے پلٹنے کی کوئی امید نہ ہو؟!

٢۔ ام سلمہ:

ام سلمہ (ھند) ابی امیہ مخزومی کی لڑکی تھیں ان کے پہلے شوہر ابوسلمہ (عبد اللہ) مخزومی(٤) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔(٥) ان سے چار لڑکے ہوئے جن میں سے ایک کا نام سلمہ تھا اسی کی مناسبت سے انھیں ''ام سلمہ'' اور ''ابوسلمہ'' کہا جانے لگا۔(٦)

______________________

(١) ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص ٤٥٨؛ مسعودی، مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس)، ج٢، ص ٢٨٩، حمد اللہ متوفی، تاریخ خلاصۂ تاریخ، بہ اہتمام عبدالحسین نوالی )تہران: امیر کبیر، ١٣٦٢)، ص ١٦١.

(٢) ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٤، ص ١٤٤، حمد اللہ مستوفی، گزشتہ حوالہ، ص ١٦١.

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩؛ شیخ عباس قمی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٤.

(٤) عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج٤، ص ٤٥٨، ابن اثیر، اسدالغابہ، ج٥، ص ٥٨٨.

(٥) ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٨.

(٦) گزشتہ حوالہ، ص ٥٨٨؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ٢٩٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٥، ص ٥٨٨.

۱۹۹

ابو سلمہ جنگ احد میں زخمی ہوئے اور اسی زخم کے اثر سے جمادی الثانی ٣ھ میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے(١) گویا ام سلمہ اور ان کے شوہر (بنی مخزوم) کے قبیلہ اور خاندان سے مدینہ میں کوئی نہیں رہ گیا تھا۔ اس لئے کہ وہ کہتی ہیں کہ جس وقت ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں بہت غمگین ہوئی اور اپنے آپ سے کہا: عالم غربت میں! میں اس طرح سے گریہ کروںگی کہ ہر جگہ میرے گریہ کا تذکرہ ہوگا۔(٢)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ٤ھ میں ان سے شادی کی(٣) اس وقت وہ بڑھاپے اور ضعیفی کی منزلوں میں قدم رکھ چکی تھیں۔(٤) اور ان کا سب سے چھوٹا بچہ شیرخوار تھا۔(٥)

واضح رہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا اس شادی سے مقصد یہ تھا کہ اس کی اور اس کے یتیم بچوں کی سرپرستی کرسکیں۔ کیاایک بیوہ اور سن رسیدہ خاتون سے شادی کرنا اور اس کے چاریتیم بچوں کی کفالت اور نگہہ داشت کرنا اپنی جگہ پر ایک ریاضت نہ تھی؟!

ام سلمہ زہد و تقویٰ اور فضیلت کے لحاظ سے حضرت خدیجہ کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج میں سے سرفہرست تھیں(٦) انھیں خاندان امامت سے خاص تعلق اور انسیت تھی اور وہ بارہا خاندان اہل بیت کی طرف سے علوم و اسرار ولایت کی امانتوںکی محافظ رہی ہیں۔(٧)

______________________

(١) ابن عبد البر، الاستیعاب، ج٤، ص ٨٢.

(٢) امیر مھنا الخیامی، زوجات النبی او اولادہ (بیروت: موسسہ عز الدین، ط ١، ١٤١١ھ)، ص ١٩٩.

(٣) ابن حجر، گزشتہ حوالہ، ص ٤٥٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص ٨٧.

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٩٠، ٩١؛ محمد بن حبیب، المحبر (بیروت: دار الافاق الجدیدہ)، ص ٨٤

(٥) ابن حجر، گزشتہ حوالہ، ص ٤٥٨؛ ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ص ٩١.

(٦) مامقانی، تنقیح المقال، ج٣، (فصل النسائ)، ص٧٢.

(٧) مامقانی، گزشتہ حوالہ، شیخ محمد تقی التستری، قاموس الرجال (تہران: مرکز نشر الکتاب ، ١٣٧٩ھ)، ج١٠، ص ٣٩٦.

۲۰۰