تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )14%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167188 / ڈاؤنلوڈ: 5428
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اس لحاظ سے امامت سے مربوط آیات کی بحث و تحقیق میں یہ آیہ کریمہ بھی نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ اس آیہ شریفہ کے سلسلہ میں بحث و تحقیق چند محوروں پرمشتمل ہے:

۱ ۔آیت کے مفردات اور مفاہیم کی تحقیق۔

۲ ۔مذکورہ آیت کااس سے پہلے والی آیات سے ربط

۳ ۔اس آیت کامسئلہ رہبری سے ربطہ اور اس کے قرائن کی چھان بین پڑتال۔

۴ ۔علما ء ومفسرین کے بیانات

۵ ۔شیعہ،سنی احادیث وروایات

آیت کے بارے مفردات میں بحث

اس حصہ میں جن الفاظ کی تحقیق ضروری ہے وہ لفظ”صدق“اور”صادقین“ہیں۔اس سلسلہ میں پہلے ہم ان کے لغوی معنی پر ایک نظرڈالیں گے اور ان کے بعد اس کے قرآنی استعمالات پر بحث کریں گے۔

استعمالا ت لغوی

اس سلسلہ میں ہم دو اہل لغت کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ ابن منظور نے ”لسان العرب(۱) “ میں لفظ”صدق“کے مختلف استعمالات کویوں بیان کیاہے:

الصدق:نقیض الکذب،سچ،جھوٹ کی ضدہے۔

رجل صدق:نقیض رجل سوء ۔اچھاانسان برے انسان کی ضدہے۔یعنی اچھائی اور برائی کی صفتیں ایک دوسرے کی ضدہیں۔

وکذالک ثواب صدق وخمارصدق،اسی طرح کہا جاتا ہے اچھا لباس اوراچھابرقعہ۔

ویقال: رجل صدق،مضاف بکسرالصادومعناه نعم الرجل هو نیزاسی

____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۰،ص۳۰۹۔۳۰۷

۱۶۱

طرح حالت اضا فت میں صاد کے کسرے کے ساتھ استعمال ہو تا ہے”رجل صدق“یعنی وہ ایک اچھا مردہے۔

رجل صدق اللقاء وصدق النظر، خوش اخلاق مرداور خوش بین انسان۔

والصّدق:بالفتح الصلب من الرماح وغیرها، ورمح صدق:مستو،وکذالک سیف صدق :

صاف اورسیدھا نیزہ ،اوراسی طرح سیدھی تلوارکو بھی صدق کہتے ہیں۔

عن ابن درستویہ:قال إنّما لصدق الجامع للاوصاف المحمودة۔ابن درستویہ کا کہنا ہے کہ”صدق“اس شخص کوکہاجاتاہے جس میں تمام پسندیدہ اوصاف موجودہوں۔

قال الخلیل:الصدق:الکامل کلّ شیءٍ ۔خلیل نے کہاہے کہ ہرمکمل چیزکو”صدق“کہتے ہیں۔

۲ ۔”مفردات قرآن(۱) “ میں راغب کاکہناہے:ویعبّرعن کل فعل فاضل ظاهراًوباطناًًبا لصدق،فیضاف إلیه ذٰلک الفعل الّذی یوصف به نحو قوله ۔۔۔“ہروہ کام جوظاہروباطن کے اعتبارسے اچھا اور پسندیدہ ہو اسے”صدق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کے موصوف کی”صدق“کی نسبت )اضافت) دی جاتی ہے۔استعما لات قرآ نی کے وقت ہم اس کے شاہدپیش کریں گے۔

استعمالات قرآنی

قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات نظر آتی ہیں جن میں لفظ”صدق“کوایسی چیزوں کی صفت قرار دیا گیاہے جوگفتگووکلام کے مقولہ نہیں ہےں۔نمونہ کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظ ہوں:

____________________

۱۔مفردات فی القرآن،ص۲۷۷،دارالمعرفة،بیروت

۱۶۲

( وبشّرالّذین آمنوا اٴنّ لهم قدم صدق عندربّهم )

(سورہ یونس/ ۲)

اس آیہء شریفہ میں ’ صدق“،”قدم“کی صفت واقع ہے۔

ولقدبوّاٴنا بنی اسرائیل مبوّاٴصدق )سورئہ یونس/ ۹۳)

اس آیہء شریفہ میں ”صدق“کو”جگہ“کی صفت قرار دیا گیاہے۔

وقل ربّ اٴدخلنی مدخل صدق واٴخرجنی مخرج صدق سورئہ اسراء/ ۸۰)

اس آیہء شریفہ میں ”مدخل“ و ”مخرج“ یااسم مکان)داخل اورخارج کرنے کی جگہ) ہیں یا مصدر) خودکوداخل کرنایاخارج کرنا)ہیں۔بہرحال کسی طرح بھی مقولہ کلام سے نہیں ہے۔

فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر (سورئہ قمر/ ۵۰)

اس آیہ شریفہ میں ”صدق“،”مقعد“)جگہ اوربیٹھنے)کی صفت ہے۔

( لیس البرّاٴن ُتوَلّوُاوجوهکم قبل المشرق والمغرب ولکنّ البرّمن آمن باللّٰه والیوم الآخروالملائکة والکتاب والنبیّین وآتی المال علی حبّه ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلوة وآتی الزکوةوالموفون بعهدهم إذاعاهدواوالصابرین فی الباٴسائ والضرّاء وحین الباٴس اولئک الّذین صدقواواٴُولئک هم المتّقون ) )سورئہ بقرہ/ ۱۷۷)

اس آیہء شریفہ میں خداوندمتعال نے پہلے نیکیوں کوعقائد کے شعبہ میں یعنی خدا،قیامت،فرشتوں،آسمانی کتابوں اورانبیاء پرایمان کے سلسلہ میں اس کے بعدعمل کے شعبہ میں یعنی اپنے رشتہ داروں،محتاجوں،ابن سبیل اورسائلوں کوانفاق کرنا،خداکی راہ میں بندوں کو آزادکرنانیزایفائے عہدکرنا وغیرہ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاہے۔اس کے بعداخلاقی شعبہ میں یعنی مشکلات و پریشاں نیوں میں صبروتحمل استقامت و پائیداری کا مظا ہرہ کر نے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اورمذکورہ تینوں شعبوں میں نیکیاں کرنے والوںصد ق وتقویٰ کے ذریعہ تعریف کرتاہے۔

۱۶۳

لغت اورآیات کریمہ میں مذکورہ استعمالات کے پیش نظرواضح ہوجاتاہے کہ”صدق“کاایک ایساوسیع مفہوم ہے کہ جس کا دائرہ صرف مقولہء،کلام،وعدہ وخبرتک محدود نہیں ہے،بلکہ یہ فکرواندیشہ عقا ئد و اخلا قیات نیزانسانی رفتارجیسے دیگر مواردپربھی اطلاق کرتا ہے اوراس کااستعمال ان موا رد میں حقیقی ہے۔

اس آیت کا گزشتہ آیات سے ربط

اس آیت سے پہلی والی آیت )جیساکہ تفسیر وحدیث کی کتابوں میں آیا ہے )ان مومنین کے بارے میں ہے کہ جنہوں نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جنگ تبوک میں جانے سے انکار کیا تھا اوراس کے بعدنادم اورپشیمان ہوکرانھوں نے توبہ کرلی تھی،مسلمانوں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ان کے ساتھ اپنے رشتہ نا طے توڑ دئے تھے،یہاں تک کہ ان کی بیویوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی تھی۔

انہوں نے جب شہر سے باہرنکل کربارگاہ الٰہی میں التماس والتجا کی اور خدا کی بار گاہ میں توبہ کی تو خدا وند متعال نے ان کی توبہ قبول کی اوروہ پھرسے اپنے لوگوں اوراپنے خانوادوں میں واپس لوٹے۔

بعد والی آیت میں بھی خدا وند متعال فرماتا ہے”اہل مدینہ اوراس کے اطراف کے لوگوں کو نہیں چا ہئیے کہ پیغمبر خدا (ص)کی مخالفت اوران سے رو گردانی کریں۔ اس کے بعد خدا کی راہ میں مشکلات و پریشا نیاں،بھوک وپیاس کی سختیاں برداشت کرنے کی قدرواہمیت کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔

اس آیہء شریفہ)زیر بحث آیت)میں مؤمنین کومخاطب کرکے انھیں تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے،اورانھیں اس بات کا پیغام دیا گیا ہے کہ وہ”صادقین“کے ساتھ ہوجائیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے مراد کون لوگ ہیں؟

۱۶۴

اس آیت کا ائمہ معصومین(ع)کی امامت سے ربط

ابتدائی نظر میں )جیسا کہ”صدق“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا گیا ) ایسالگتاہے کہ جملہ کونوامع الصادقین سے مرادسچوں کے ساتھ ہونے کاحکم ہے۔

قابل غور بات اورجو چیز ضروری ہے وہ سچ بولنااورجھوٹ بولنے سے پر ہیز کر نا ہے۔ لیکن سچ بولنے والوں کے ساتھ ہونا یہ شر عی واجبات میں سے نہیں ہے،جبکہ سچوں کے ساتھ ہونے کا یہ آیہ شریفہ میں حکم ہواہے اور یہ امروجوبی ہے اور جملہ( کونوامع الصادقین ) کا وقوع”إ تقوااللّٰہ“کے سیاق میں ہے کہ جس میں تقوائے الٰہی کا حکم تھالہذایہ بیشک وجوب کے لئے ہے اوراس سے وجوب کی مزیدتاکیدہوتی ہے۔

مفہوم صدق کی وسعت کے پیش نظرمقولہ کلا م و گفتگو تک محدودیت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ فکرو عقائد،اخلاق وکردار نیزرفتار و عمل تک پھیلا ہواہے کہ جس میں صادقین سے ہونے کو آیہء کریمہ میں واجب قرار دیا گیاہے،ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ صادقین کے ساتھ ہونے سے مرادجسمانی معیت اورہمراہی نہیں ہے بلکہ ہمراہی ہراس چیز میں ہے جس میں صحت وسچائی پا ئی جاتی ہو اورآیہء کریمہ میں صادقین سے مرادوہ لوگ ہیں جوصدق مطلق کے مالک ہیں نہ مطلق صدق کے۔او رصدق مطلق وہ ہے جوہر جہت سے سچااورصحیح ہواورفکروعقائد،گفتاروکرداراور اخلاقیات کے لحاظ سے کسی طرح کا انحراف نہ رکھتاہو۔اس طرح کا شخص معصوم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔اس طرح کے انسان کے ساتھ ہونے کامطلب اس کے افکار و عقائد، کردارواخلاق کی پیروی کر نا ہے۔

۱۶۵

چونکہ مسلمانوں کااس بات پراجماع ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی صاحب عصمت اور صدق مطلق کا مالک نہیں ہے،اس لئے”صادقین“ سے مرادپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں گے۔

علماء ومفسرین کے بیانات کی تحقیق

اس سلسلہ میں ہم صرف دوبزرگ علماء کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

علامہ بہبہانی کا قول:

پہلا قول شیعہ امامیہ کی ایک عظیم شخصیت وبزرگ عالم دین،گراں قدرمفکرمرحوم علامہ محقق سید علی بہبہانی کاہے۔وہ اپنی عظیم کتاب”مصباح الھدایہ“)کہ جوواقعاًامامت کے بارے میں ایک بے نظیرکتاب ہے )میں آیہء شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”وقداستفاضت الروایات من طریقناوطریق العامةاٴنّ الصادقین هم اٴهل بیت النبیّی المطهّرون“وقد ذکرفی غایة المرام عشرةخبارمن طریقنا وسبعة اٴخبار من طریق العامة(۱)

اٴقول:ویدّل علی اختصاص الصادقین فی الآیةالکریمه فی الاٴئمّة المعصومین الطبّین من آل محمد( ص) وعدم إرادة مطلق الصادقین منهکمادلّت علیه الروایات المستفیضة من الطر فین:اٴنّه لوکان المراد بالصدق مطلق الصدقالشامل لکلّ مرتبة منه المطلوب من کلّ مؤ من،وبالصادقین المعنی العام الشامل

____________________

۱۔نمایة المرام ،ص۲۴۸

۱۶۶

لکلّ من اتّصف بالصدق فی اٴیّ مرتبة کان،،لوجب اٴن یعبّرمکان”مع“ بکلمة”من“ضرورةاٴنّه یجب علی کلّ مؤمن اٴن یتحرزعن الکذب و یکون مع الصادقینفالعدول عن کلمة ”من“إلی”مع“ یکشف عن اٴن المراد ”باالصدق“مرتبةمخص صةو”باالصادقین“ طائفة معینةومن المعلوم اٴنّ هذه المرتبة مرتبة کاملة،بحیث یستحقالمتصفون بها اٴن یتبعهم سائر المؤمنین جمیعاً،وهذاالمرتبة الکاملة التی تکون بهذه المثا بة لیست إلاّ العصمة والطهارة التی لم یتطرّق معها کذب فی القول والفعل،إذفی الاٴمّة من طهّره اللّٰه تعالی واٴذهب عنه الرجس!وهم اٴهل بیت النبیّی بنصّایة التطهیرواتّفاق جمیع المسلمین

فلواٴُرید من الصّادقین غیر المعصومین لزم اٴن یکون المعصومون ماٴمورین بمتا بعة غیر المعصومین المتطرّق فیهم الکذب و لو جهلاً اٴو سهواً و هو قبیح عقلاً ، و تعیّن اٴن یکون المراد الصادقین المطهّرین الحائزین جمیع مراتب الصدق قولاً و فعلاً،ولا یصدق ذلک إلاّ علی اٴهل بیت النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الّذین اٴذهب اللّٰٰه عنهم الرجس و طهرَّهم تطهیراً، و إلیه یشیر قول مولانا الرضا( علیه السلام) ”هم الاٴئمّة الصدیقون بطا عتهم“(۱)

و یدلّ علی کونهم اٴئمّة کمانبّه علیه مولانا الرضا( علیه السلام) فی هذه الروایة اٴمره سبحانه وتعالی جمیع المؤ منین بعد اٴمرهم بالاٴتّقاء عن محارمه باٴن یکونوا مع الصادقین، و لا یصدق الکون

___________________

۱۔فی المصدر:”والصدیقون بطا عتہم “فراجع

۱۶۷

معهم إلا باٴن یکونوا تحت طاعتهم ،متحرّزین عن مخا لفتهم ولیس للإمامة معنی إلاّافتراض طاعة الإمام علی الماٴموم من قبله تعالی،بل لا تعبیراٴقرب إلی معنی الإمامة من اٴمر المؤمنین باٴن یکونوامعه،إذ حقیقة الإئتمام عبارة عن متابعة الماٴموم إمامه وعدم مفارقته عنه ۔(۱)

شیعہ اور اہل سنّت سے مستفیض(۲) روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ آیہء شریفہ میں صادقین سے مراد)پیغمبراسلام (ص))کے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔مرحوم بحرانی نے اپنی کتاب ”غایة المرام“ میں شیعہ طریقہ سے دس احادیث اورسنی طریقہ سے سات احادیث نقل کی ہیں۔

آیہء کریمہ میں ”صادقین“سے مراد)جیساکہ فریقین کی احادیثوں میں ایاہے )ائمہء معصومین علیہم السلام ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ”صدق“)سچائی)کہ جو”صادقین“کے عنوان میں ماخوذہے،اس سے مرادمطلق سچائی ہے کہ جوہرمرتبہ کو شامل ہے اور”صادقین“کے زمرے میں ہروہ شخص شامل ہوکہ جو صفت صدق کے کسی بھی مرتبہ سے متصف ہے تو آیہء کریمہ کی تعبیر ”کو نوا من الصا دقین“ہونی چا ہئے تھی اوراسصورت میں اس آیت کے معنی یہ ہو تے کہ ہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سچ بو لنے والوں سے ہو اورجھوٹ سے پرہیزکرے۔

یہ جو”مع الصادقین“تعبیرہے،یہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ”صدق“سے مراد ایک خاص مرتبہ و مقام ہے اور”صادقین“سے مرادایک مخصوص اور ممتازگروہ)اورصادقین کے ساتھ ہونے کا معنی ان کی پیروی کرنا)ہے۔

صفت صد ق کا کا مل اور نہائی مرتبہ وہی عصمت وطہارت ہے جس کی وجہ سے گفتار وکردار میں سچائی مکمل طورپرمحقق ہوتی ہے۔

____________________

۱-”مصباح الہدایة“ص۹۳۔۹۲،مطبع سلمان فارسی قم

۲۔سے دس تک کی احادیث پر”حدیث مستفیض“اطلاق ہوتا ہے

۱۶۸

(اس مطلب کاقطعی ثبوت یہ ہے کہ)اگر”صادقین“سے مرادائمہ معصومین(ع)کے علاوہ کوئی اورہوں تواس فرض کی بنیادپرکہ آیہء تطہیرکی نص مو جود ہے اورتمام مسلمانوں کا اہل بیت کے معصوم ہو نے پر اتفاق ہے ،اس کالازمہ یہ ہوتا کہ تمام انسان حتی کہ ائمہ معصو مین بھی غیرمعصوم کی اطاعت وپیروی کریں اوریہ عقلاًقبیح ہے۔لہذایہ مرتبہ)عصمت وطہارت)پیغمبر (ص)کے خاندان کے علاوہ کہیں اورنہیں پایا جاسکتاہے۔

دوسراثبوت یہ ہے کہ خدا وند متعال نے آیت کی ابتداء میں تمام مؤمنین کو تقویٰ اورگناہوں سے اجتبا ب کر نے کاحکم دیاہے اوراس کے بعد انہیں”صادقین“ کے ساتھ ہونے کا فرمان جاری کیا ہے،اوران کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کی اطاعت کرنے اوران کی نافرمانی نہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور امامت کے معنی بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہےں کہ ماموم پر امام کی اطاعت واجب ہے۔

اگرہم امامت واطاعت کی صحیح تعبیر کرناچاہیں توبہترین تعبیریہ ہے کہ امام کے ساتھ ہونا اوراس کی پیروی و اطا عت سے جدانہ ہو ناہے۔

فخررازی کا قول

دوسراقول اہل سنت کے مشہورومعرو ف علا مہ فخررازی کاہے۔وہ آیہء شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:

”و فی الآیة مسائل: المساٴلة الاٴولی: اٴنّه تعالی اٴمرالمؤمنین بالکون مع الصادقین! و متی وجب الکون مع الصادقین فلا بدّمن وجود الصادقین فی کلّ وقت، و ذلک یمنع من إطباق الکلّ علی الباطل، و متی إمتنع إطباق الکلّ علی الباطل وجب إذا اٴطبقوا علی شیء اٴن یکونوا محقّین فهذا یدل علی اٴنّ إجماع الاٴمّة حجّة

فإن قیل: لمَ لا یجوز اٴن یقال: المراد بقوله:( کونوا مع الصادقین ) اٴی کونوا علی طریقة الصادقین، کما اٴنّ الرجل إذا قال لولده: ”کن مع الصالحین“ لا یفید إلاّ ذلک؟

سلّمنا ذلک، لکن نقول: إن ّ هذا الاٴمر کان موجوداً فی زمان الرسول فقط، فکان هذا اٴمراً بالکون مع الرسول، فلا یدّل علی وجود صادق فی سائر الاٴز منة

۱۶۹

سلّمنا ذلک لکن لم لا یجوز اٴن یکون الصادق هو المعصوم الذی یمتنع خلوّ زمان التکلیف عنه کما تقو له الشیعة؟

و الجواب عن الاول: اٴنّ قوله:( کونوا مع الصادقین ) اٴمر بموافقة الصادقین، و نهی عن مفارقتهم، و ذلک مشروط بوجود الصادقین وما لا یتمّ الواجب إلاّ به فهو واجب فدّلت هذه الآیة علی وجود الصادقین و قوله: ” إنّه عدول عن الظاهر من غیر دلیل

قوله: ” هذا الاٴمر مختصّ بزمان الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴنّ التکالیف المذکورة فی القرآن متوجهة إلی المکلّفین إلی قیام القیامة، فکان الاٴمر فی هذا التکلیف کذلک

الثانی : اٴنّ الصیغة تتناولال اٴوقات کلّها بدلیل صحة الاستثناء الثالث: لمّا لم یکن الوقت المعین مذکوراً فی لفظ الآیة لم یکن حمل الآیة علی البعض اٴولی من حمله علی الباقی فإماّ اٴن لا یحمل علی شیء من الاٴوقات فیفضی إلی التعطیل و هو باطل ! اٴو علی الکلّ فهو المطلوبو الرابع: و هو اٴنّ قوله:( یا اٴیّها الّذین آمنوا اتّقوا اللّٰه ) اٴمر لهم بالتقوی و هذا الاٴمر إنّما یتناول من یصحّ منه اٴن لا یکون متّقیاً، و إنّما یکون کذلک لو کان جائز الخطاٴ فکانت الآیة دالّة علی اٴنّ من کان جائز الخطاٴ وجب کونه مقتدیاً بمن کان واجب المعصمة، و هم الّذین حکم اللّٰه تعالی بکونهم صادقین فهذ ایدّل علی اٴنّه واجب علی جائز الخطاٴ کونه مع المعصوم عن الخطاٴ حتی یکون المعصوم عن الخطاٴ مانعا لجائز الخطاٴ عن الخطاٴ! و هذا المعنی قائم فی جمیع الاٴزمان، فوجب حصوله فی کل الازمان

قوله:”لم لا یجوزاٴن یکون المراد هو کون المؤمن مع المعصوم الموجود فی کلّ زمان“

قلنا:نحن نعترف باٴنّه لابدّ من معصوم فی کلّ زمان،إلا اٴناّ نقول: ذلک المعصوم هو مجموع الاٴمّة و اٴنتم تقولون ذلک المعصوم واحد منهم فنقول: هذا الثانی باطل، لاٴنّه تعالی اٴوجب علی کلّ واحدمن المؤمنین اٴن یکون مع الصادقین،وإنّما یمکنه ذلک لو کان عالماً بان ذلک الصادق من هو ،لاالجاهلباٴنّه من هو

فلو کان ماٴموراً بالکون معه کان ذلک تکلیف مالا یطاق، واٴنّه لا یجوز، لکنّا لا نعلم إنساناً معیّناً موصوفاً بوصف العصمة، و العلم

۱۷۰

باٴنّا لانعلم هذا الانسان حاصل بالضرورة، فثبت اٴنّ قوله: وکونوا مع الصادقین لیس اٴمراً بالکون مع شخص معیّن

و لمّا بطل هذا بقی اٴنّ المراد منه الکون مع مجموع الاُمّة، وذلک یدل علی اٴنّ قول مجموع الاُمّة حقّ و صواب ، و لا معنی لقولنا،”الإجماع حجة“إلاّ ذلک“(۱)

ترجمہ:

”خداوند متعال نے مو منین کو صادقین کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا ہے۔اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کاوجودہو اور یہ اس بات کے لئے ما نع ہے کہ پوری امت کسی باطل امر پر ا تفاق کر ے ۔اس لئے اگر پوری امت کسی چیز پر اتفاق کرتی ہے تو ان کا یہ اتفاق صحیح و بر حق ہو گا اوریہ،اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔

اگر کہا جائے:صادقین کے ساتھ ہو نے کا مقصد یہ کیوں نہیں ہے کہ صادقین کے طریقہ کار کی پیروی کرے ،چنانچہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے:”صالحین کے ساتھ ہو جاؤ“یعنی صالحین کی روش پر چلو )اور یہ امر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کا وجود ہو)

جواب یہ ہے کہ:یہ خلاف ظاہر ہے،کیونکہ وکون امع الصادقین یہ ہے کہ پہلے ان صادقین کا و جود ہو جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے۔

مزید اگریہ کہا جائے کہ:یہ جملہ صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں موضوعیت رکھتا تھا،کیونکہ اس زمانہ میں صرف آنحضرت (ص)کی ذات صادق کے عنوان سے مو جود تھی اور یہ اس بات پردلالت نہیں کرتاہے کہ ہرزمانہ میں صادقین موجود ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ خطاب قرآن مجید کے دوسرے خطابوں کے مانندقیامت تک

____________________

۱۔التفسیر الکبیر ،فخررازی ،ص۲۲۱۔۲۲۰،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۱۷۱

کے لئے تمام مکلفین سے متعلق و مر بوط ہے اوراس میں ہر زمانہ کے مکلفین سے مخطاب ہے اور یہ خطاب رسول اللہ (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ استثناء صحیح ہے)اوراستثناء کے صحیح ہو نے کی دلیل ہمیشہ مستثنی منہ میں عمومیت کا پا یا جا تا ہے ) ۔

اس کے علاوہ خدا وند متعال نے پہلے مرحلہ میں مؤ منین کو تقویٰ کا حکم دیا ہے،اور یہ انھیں تمام افراد کے لئے تقویٰ کا حکم ہے کہ جن کے لئے امکان ہے کہ متقی نہ ہوں اوراس خطاب کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جو جائزالخطاء ہیں۔لہذاآیہء شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جائز الخطاء افراد کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جو خطا سے معصوم ہوں تاکہ وہ معصوم لوگ انھیں خطا سے بچا سکیں۔اور اس طرح کاامکان ہرزمانہ میں ہے۔اس لئے آیہء شریفہ تمام زمانوں سے متعلق ہے اورصرف پیغمبر (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔

یہاں تک فخررازی کے بیان سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ صادقین سے مراد خطا سے معصوم افراد ہیں اور یہ افراد ہر زمانہ میں موجود ہیں اوریہ مطلب صحیح اور نا قابل اشکال ہے۔ لیکن فخررازی کاکہنا ہے:

”معصوم”صادقین“ امت کے مجموعی افراد ہیں اور یہ امت کے خاص اورمشخص افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ہر ایک پر لازم ہے کہ ان معین مشخص افراد کو پہچانے ان کی معرفت حاصل کرے تا کہ ان کے ساتھ ہو جائے جبکہ یہ معرفت اورآگا ہی ممکن نہیں ہے اورہم ایسے خاص افراد کو نہیں پہچانتے ہیں کہ جو خطا و غلطی سے پاک اورمعصوم ہوں۔ لہذااس بات کے پیش نظر معصوم صادقین سے مراد مجموعہ امت ہے کہ جس کا نتیجہ اجماع کی حجیّت ہے۔“

۱۷۲

فخررازی کے قول کا جواب

فخررازی کے بیان میں دونمایاں نکتے ہیں:

پہلانکتہ:یہ ہے کہ معصوم صادقین سے مراد مشخص و معیّن افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں علم وآگاہی نہیں ہے۔

اس قول کا صحیح نہ ہو نا واضح و روشن ہے،کیونکہ شیعہ اما موں کی عصمت کی دلیلوں کی طرف رجوع کرنا ہرایک کے لئے ممکن ہے،جن احادیث میں ان معصوم اما موں کاصراحتاًنام لیا گیا ہے،وہ تواتر کی مقدار سے زیادہ ہیں نیزیہ حدیثیں بعض سنی منابع اور بے شما ر شیعہ منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔

دوسرا نکتہ:یہ کہ” معصوم صادقین سے مراد تمام امت ہے“اس پر بہت سا رے اعتراضات ہیں ذیل کے عبا رت میں ملا حظہ ہو:

۱ ۔چودہ معصومین(ع)کی عصمت کے علاوہ کسی اور کی عصمت کا قول تمام مسلمانوں کے قطعی اجماع کے خلاف ہے

۲ ۔آیہ شریفہ میں صادقین کے عنوان )جو ایک عام عنوان ہے )سے جو چیز ظاہر ہے وہ اس کااستغراقی اورشمولی ہو نا ہے نہ کہ مجموعی ہونا اور فخررازی کے کلام سے جو بات ظاہر اور واضح ہے کہ عصمت مجموعہ امت کی صورت میں ہے نہ جمیع امت کی صورت میں اور”مجموعہ“ایک اعتباری عنوان ہے جووحدت افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیتا ہے۔عنوان عام میں اصل”استغراقی ہو نا“ہے،کیونکہ عام مجموعی مجازہے اور اسے قرینہ کی ضرورت ہے جبکہ اصالةالحقیقة کا تقاضا یہ ہے کہ عام،جس کا حقیقی عنوان استغراقی ہو نا ہے اس پر حمل ہو۔

۳ ۔عصمت ایک حقیقی عنوان ہے اوراسے ایک حقیقی موضوع کی ضرورت ہے،اور عام مجموعی ایک اعتباری موضوع ہے اورحقیقی موجود کا اعتباری موضوع پر قائم ہو نا محال ہے۔

۱۷۳

۴ ۔فخررازی کا قول”( یاایهاالذین آمنوا ) “اور صا دقینکے درمیان ایک دوسرے مقابل ہو نے کا جو قرینہ پا یا جا تا ہے اس کے خلاف ہے اور ان دو عناوین کے درمیان مقا بلہ کا تقاضا ہے کہ وہ مومنین کہ جن کو خطاب کیا جا رہا ہے وہ دوسرے ہوں اور وہ صادقین جوان کے مقا بل میں قرار دیئے گئے ہیں اور جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے وہ دوسرے ہوں۔

۵ ۔صادقین سے مراد مجموعہ امت )عام مجموعی) ہونا خود فخررازی کے بیان سے متناقص ہے،کیونکہ اس نے اس مطلب کی توجیہ میں کہ صادقین کا اطلاق فقط پیغمبر (ص)کی ذات میں منحصر نہیں ہے ،کہاہے:

”آیہء شریفہ اس پہلو کو بیان کر نے والی ہے کہ ہرزمانے میں ایسے مؤ منین کا وجود رہا ہے کہ جو جائزالخطا ہوں اور ایسے صادقین بھی پائے جاتے رہے ہیں کہ جوخطا سے محفوظ اورمعصوم ہوں اور ان مؤمنین کو چاہئیے کہ ہمیشہ ان صادقین کے ساتھ ہوں۔“

لہذا فخر رازی نے ان مؤمنین کو کہ جن کوخطاب کیا گیا ہے جائز الخطا اور صادقین کو خطا سے معصوم فرض کیا ہے۔

اس آیت کے بارے میں شیعہ اورسنّی احادیث

حاکم حسکانی(۱) نے تفسیر”شواہد التنزیل(۲) “ میں چند ایسی حدیثیں ذکرکی ہیں،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ آیہ شریفہ میں ”صادقین“ سے مراد (ص)اورحضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام یاپیغمبراکرم (ص)کے اھل بیت(ع)ہیں۔یہاں پرہم ان احادیث میں سے صرف

____________________

۱۔اہل سنت کے بڑے مشہور معروف عالم دین، ذہبی نے حسکانی کے بارے میں کہاہے:”شیخ متقن ذوعنایة تامة بعلم الحدیث،وکان معمّراً عالی الاسناد۔تذکرة الحفاظ،ج۳،ص۱۲۰۰،دارالکتب العلمیة بیروت۔یعنی:متقن اورمحکم اسناد میں علم حدیث کے بارے میں خاص اہمیت و توجہ کے کامل رکھتے ہیں۔انہوں نے ایک طولانی عمر گذاری ہے اور)حدیث میں )عالی اسنادکے مالک تھے ۔

۲۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۱

۱۷۴

ایک کی جا نب اشارہ کرتے ہیں:

”حدثنایعقوب بن سفیان البسوی قال:حدثناابن قعنب،عن مالک بن اٴنس،عن نافع،عن عبداللّٰه بن عمرفی قوله تعالی:

( اتقوااللّٰه ) قال:اٴمراللّٰه اصحاب محمد( ص) باٴجمعهم اٴن یخافوا للّٰه،ثمّ قال لهم :( کونوامع الصادقین ) یعنی محمداً واهل بیته“(۱)

”یعقوب بن سفیان بسوی نے ابن قنعب سے،اس نے مالک بن انس سے،اس نے نافع سے اس نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ خداوندمتعال کے اس قول:”اتقوااللّٰہ“کے بارے میں کہا:خداوندمتعال نے پیغمبراکرم (ص)کے تمام اصحاب کوحکم دیاکہ خداسے ڈریں۔اس کے بعدان سے کہا’:’صادقین“یعنی پیغمبر (ص)اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ہوجائیں۔“

اسی حدیث کوشیعوں کے عظیم محدث اوربزرگ عالم دین ابن شہر آشوب(۲) نے تفسیر یعقوب بن سفیان سے،مالک بن انس سے،نافع بن عمرسے روایت کی ہے۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے محدث کلینی نے اس سلسلہ میں اصول کافی میں یوں روایت کی ہے:

”عن ابن اُذینه،عن برید بن معاویةالعجلی قال: اٴباجعفر-علیه السلام-عن قول اللّٰه عزّوجلّ: ( اتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) قال: إیاّ نا عنی“ ۔(۳)

___________________

۱۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۵،ح۳۵۷

۲۔ذہبی نے تاریخ اسلام میں ۵۸۱ئھ سے ۵۹۰ئھ کے حوادث کے بارے میں بعض بزرگ علماء )ابن ابی طی)کی زبانی اس کی تمجیدکی ہے اور اسے اپنے زمانہ کے امام اورمختلف علوم میں بے مثال شمار کیا ہے اورعلم حدیث میں اسے خطیب بغدادی کے ہم پلہ اورعلم رجال میں یحیی بن معین کے مانند قراردیاہے اور اس کی سچائی وسیع معلو مات نیز،کثرت خشوع وعبادت اورتہجدکا پابند ہو نے سے متصف کیاہے۔مناقب،ابن شہرآشوب،ج۳،ص۱۱۱،ذوی القربیٰ

۳۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۰۸،مکتبةالصدق

۱۷۵

”ابن اذینہ نے برید بن معاویہ عجلی سے روایت کی ہے انھوں نے کہا:میں نےخداوندمتعال کے قول( اتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) کے بارے میں امام باقر(علیہ السلام)سے سوال کیا،حضرت(ع)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اس سے صرف ہمارے)اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے)بارے میں قصدکیاہے۔“

اہل سنّت کے ایک بہت بڑے محدث جوینی نے ایک روایت میں یوں نقل کیا ہے:

”ثمّ قال علیّ( علیه السلام) :اٴنشدکم اللّٰه اٴتعلمون اٴنّ اللّٰه اٴنزل( یااٴیّهاالّذین آمنوااتّقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) فقال سلمان:

یارسول اللّٰه،عامّة هذااٴم خاصّة؟قال:اٴماّ المؤمنون فعامّة المؤمنین اٴمروابذلک،واٴمّاالصادقون فخاصّة لاٴخی علیّ واٴوصیائی من بعد إلی یوم القیامة قالوا:اللّهمّ نعم“(۱)

”اس کے بعد علی(علیہ السلام) نے فرمایا:تمھیں خداکا واسطہ دے کر کہتا ہوں۔کیاتم جانتے ہو،جب یہ آیہء یا ایّہاالذین آمنوا اتقوااللّٰہ وکونوامع الصادقین نازل ہوئی،توسلمان نے آنحضرت سے کہا :یارسول اللہ! (ص)کیا یہ آیت اس قدرعمومیت رکھتی ہے تمام مؤمنین اس میں شامل ہو جا ئیںیا اس سے کچھ خاص افراد مراد ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:جنہیںیہ حکم دیا گیا ہے اس سے مرادعام مؤمنین ہیں،لیکن صادقین سے مرادمیرے بھائی علی(علیہ السلام)اوراس کے بعدقیامت تک آنے والے میرے دوسرے اوصیاء ہیں؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے،جی ہاں۔“

البتہ اہل سنت کی حدیث وتفسیرکی بعض کتا بوں میں چند دوسری ایسی روایتیں بھی نقل

___________________

۱۔فرائدالسبطین ،ج۱،ص،۳۱۷،مؤسسہ المحمودی للطبا عة والنشر ،بیروت،کماالدین ،ص۲۶۴۔بحار الا نور ،ج۳۳ص۱۴۹۔مصباح الہدایة،ص۹۱طبع سلمان الفارسی۔قابل ذکر ہے کہ مؤخر الذکر مد رک میں بجائے ”انشدکم اللّٰہ“’اسالکم باللّٰہ“آیا ہے۔

۱۷۶

ہوئی ہیں،جن میں ”صادقین“سے مرادکے بارے میں ابوبکروعمریا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب کو لیا گیا ہے۔البتہ یہ روایتیں سندکے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ابن عساکرنے ضحاک سے روایت کی ہے کہ:( یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) قال:مع ابی بکروعمراصحابهما (۱)

آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے ابوبکر،عمراوران کے اصحاب کا قصد کیا گیا ہے ۲ ۔طبری نے سعیدبن جبیرسے ایک اورروایت نقل کی ہے کہ”صادقین“سے مراد ابوبکروعمرہیں۔(۲)

ان احادیث کاجواب:

پہلی حدیث کی سندمیں جویبربن سعیدازدی ہے کہ ابن حجرنے تہذیب التہذیب(۳) میں علم رجال کے بہت سارے علما،جیسے ابن معین،ابن داؤد،ابن عدی اورنسائی کے قول سے اسے ضعیف بتا یاہے،اورطبری(۴) نے اسی روایت کوضحاک سے نقل کیاہے کہ اس کی سندمیں بھی جویبرہے۔

دوسری روایت کی سندمیں اسحاق بن بشرکاہلی ہے کہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں(۵) ابن ابی شیبہ،موسی بن ہارون،ابوذرعہ اوردارقطنی کی روایت سے اسے جھوٹا اور حدیث روایت سے اسے جھوٹااورحدیث جعل کرنے والابتایاہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کے بعدکہ ہم نے خود آیہء شریفہ اوراس کے شواہد سے جان لیاکہ آیت میں ”صادقین“ سے مرادوہ معصوم ہیں جن کے ساتھ ہونے کا ہمیں حکم دیا گیاہے،اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جو بھی مسلمانوں کے اتفاق نظر سے معصوم نہ ہووہ اس آیت)صادقین کے دائرے) سے خارج ہے۔

____________________

۱۔تاریخ مدینةدمشق،ج۳۰،ص۳۱۰دارالفکر

۲۔جامع البیان،ج ۱۱،ص۴۶

۳۔تہذیب التہذیب، ج۲ص۱۰۶دارالفکر۔

۴۔جامع البیان،ج۱۱،ص۴۶

۵۔میزان الاعتدال،ج۱،ص۱۸۶،دارالفکر

۱۷۷

چھٹاباب :

امامت آیہء تطہیرکی روشنی میں

( إنّمایریداللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهرا ) (سورہرئہ احزاب/ ۳۳)

”بس اللہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت!تم سے ہرقسم کی برائی کودوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“

ایک اورآیت جوشیعوں کے ائمہء معصومین(ع)کی عصمت پر دلالت کرتی ہے وہ آیہ تطہیرہے۔یہ آیہء کریمہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپکے اہل بیت علیہم السلام،یعنی حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہااورشیعہ امامیہ کے بارہ معصوم اماموں کی عصمت پردلالت کرتی ہے۔

آیہء کریمہ کی دلالت کو بیان کرنے کے لئے اس کے چند پہلوقابل بحث ہیں:

۱ ۔آیہء کریمہ میں لفظ”إنّما“فقط اورانحصارپردلالت کرتاہے۔

۲ ۔آیہء کریمہ میں ارادہ سے مرادارادہ،تکو ینی ہے نہ ارادہ تشریعی۔

۳ ۔آیہء کریمہ میں ”اہل بیت“سے مرادصرف حضرت علی،فاطمہ،وحسن وحسین )علیہم السلام)اوران کے علاوہ شیعوں کے دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں اورپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس سے خارج ہیں۔

۴ ۔آیہء کریمہ کے بارے میں چندسوالات اوران کے جوابات

۱۷۸

”إنّما“حصرکا فائدئہ دیتا ہے

جیساکہ ہم نے آیہء ولایت کی تفسیرمیں اشارہ کیاکہ علمائے لغت وادبیات نے صراحتاًبیان کیاہے لفظ”إنّما“حصرپردلالت کرتاہے۔لہذااس سلسلہ میں جوکچھ ہم نے وہاں بیان کیااس کی طرف رجوع کیاجائے۔اس سلسلہ میں فخررازی کے اعتراض کاجواب بھی آیہ ولایت کے اعتراضات کے جوابات میں دے دیاگیاہے۔

آیہء تطہیرمیں ارادے سے مرادارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی

آیہء شریفہ کے بارے میں بحث کادوسراپہلویہ ہے کہ:آیہء شریفہ میں جوارادہ ذکر کیاگیاہے،اس سے مرادارادہ تکوینی ہے نہ ارادہ تشریعی۔خداوندمتعال کے ارادے دوقسم کے ہیں:

۱ ۔ارادہ تکوینی:اس ارادہ میں ارادہ کامتعلق اس کے ساتھ ہی واقع ہوتاہے،جیسے، خداوندمتعال نے ارادہ کیاکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام پرآگ ٹھنڈی اورسالم)بے ضرر)ہو جائے توایساہی ہوا۔

۲ ۔ارادہ تشریعی:یہ ارادہ انسانوں کی تکالیف سے متعلق ہے۔واضح ر ہے کہ اس قسم کے ارادہ میں ارادہ اپنے مراداورمقصودکے لئے لازم وملزوم نہیں ہے۔خداوندمتعال نے چاہاہے کہ تمام انسان نماز پڑھیں، لیکن بہت سے لوگ نماز نہیں پڑھتے ہیں۔تشریعی ارادہ میں مقصود اور مراد کی خلات ورزی ممکن ہے، اس کے برعکس تکوینی ارادہ میں ارادے کی اپنے مراد اور مقصود سے خلاف ورزی ممکن نہیں ہے۔

اس آیہ شریفہ میں ارادے سے مراد ارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی اور اس کے معنی یہ ہے کہ:خداوند متعال نے ارادہ کیاہے کہ اہل بیت)علیہم اسلام)کو ہرقسم کی ناپاکی من جملہ گناہ و معصیت سے محفوظ رکھے اورانھیں پاک و پاکیزہ قراردے۔

۱۷۹

خداوندمتعال کے اس ارادہ کے ساتھ ہی اہل بیت اطہارسے ناپاکیاں دور نیزمعنوی طہارت اور پاکیزہ گی محقق ہوگئی ،خداوندمتعال نے یہ ارادہ نہیں کیاہے کہ وہ خود اپنے آپ کو گناہ کی پلیدی اور ناپاکی سے محفوظ رکھیں اورخداوندمتعال کے حکم اور فرائض پر عمل کرکے اپنے آپ کوپاک وپاکیزہ بنائیں۔

آیہ تطہیر میں ارادہ کے تکوینی ہونے کے دلائل:

۱ ۔ارادہ تشریعی فریضہ شرعی کے مانند،دوسروں کے امورسے متعلق ہوتا ہے، جبکہ آیہ شریفہ میں ارادہ کا تعلق ناپاکی اور پلیدی کودورکرنے سے ہے جو ایک الہی فعل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیہ شریفہ میں ارا دے سے مرادارادہ،تشریعی نہیں ہے۔

۲ ۔ انسانوں کوپلیدی اور ناپاکیوں سے دور رہنے اورپاک وپاکیزہ ہونے کے بارے میں خداوند متعال کا تشریعی ارادہ پیغمبر اکر (ص)کے اہل بیت (ع)سے مخصوص نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کا یہ ارادہ ہے کہ تمام انسان ناپاکیوں سے محفوظ رہیں اورطہارت وپاکیزگی کے مالک بن جائیں۔جبکہ آیہ تطہیرسے استفادہ ہوتاہے کہ یہ ارادہ صرف پیغمبراکرم (ص)کے اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص ہے اور یہ اس کلمہ حصر کی وجہ سے ہے کہ جو آیہ شریفہ کی شروع میں آیا ہے۔ اس سے بالکل واضح ہو جا تا ہے کہ ارادہ کامتعلق)جوناپا کیوں سے دوری اورخداکی جا نب سے خاص طہا رت ہے )خارج میں متحقق ہے۔

۳ ۔آیہ شریفہ شیعوں اورسنیوں کے تفسیرواحادیث کی کتا بوں میں مذکوربے شمار احادیث اورروایتوں کے مطابق اہل بیت پیغمبر (ص)کی فضیلت وستائش کی ضامن ہے۔ اگرآیہ شریفہ میں ارادہ الہی سے مراد،ارادہ تشریعی ہوتاتویہ آیت فضیلت وستائش کی حامل نہیں ہوتی۔اس بناپر،جوکچھ ہمیں اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتاہے،وہ اہل بیت پیغمبر (ص)سے مخصوص طہارت و پاکیزگی اوران کاپلیدی اورناپاکیوں سے دور ہو ناارادہ الٰہی کے تحقق سے مر بوط ہے۔اوریہ ان منتخب انسانوں کے بارے میں خداکی جانب سے عصمت ہے۔ اس ارادہ الٰہی کے تکوینی ہونے کا ایک اورثبوت وہ احادیث ہیں جو خاص طور سے خدا وند متعال کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی طہارت پر دلالت کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے دوحدیثوں کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں:

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

٣۔ زینب بنت جحش:

زینب، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی کی لڑکی تھیں اور اس سے قبل (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منھ بولے بیٹے) زید بن حارثہ کی زوجہ تھیں۔(١) اور زید سے جدائی کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقد میں آگئیں۔

زید پہلے حضرت خدیجہ کے غلام تھے انھوں نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شادی کرنے کے بعد زید کو اپنے شوہر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے کردیا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعثت سے قبل اس کو آزاد کردیا اور پھر اپنا منھ بولا بیٹا قرار دیا۔ اس دن سے اس کو ''زید بن محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' کہا جانے لگا۔(٢)

بعثت کے بعد خداوند عالم نے منھ بولے بیٹے کی رسم کو باطل اور بے اعتبار قرار دیا۔

''اللہ نے نہ تمہاری منھ بولی اولاد کواولاد قرارنہیں دیا یہ سب تمہاری زبانی باتیں ہیں اور اللہ تو صرف حق کی بات کہتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے''۔

ان بچوں کوان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ہو تو یہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور تمہارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ہوگئی ہے۔ البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ہو جو تمہارے دلوں نے قصداً انجام دیاہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔(٣)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان آیات کے نزول کے بعد زید سے فرمایا: تم زید بن حارثہ ہو اور اس دن سے وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آزاد کردہ (مولیٰ رسول اللہ) کہا جانے لگا۔(٤)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے زینب کی شادی کرنا چاہی۔ زینب جو کہ عبد المطلب کی نواسی اور جن کا تعلق قریش کے مشہور قبیلہ سے تھا پہلے راضی نہیں ہوئیں کیونکہ زید نہ صرف قریش سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک آزاد

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص ١٠١؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٢، ص ٢٢٦؛ ابن حجر ، الاصابہ، ج٤، ص ٥٦٤.

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢٤؛ ابن حجر ، گزشتہ حوالہ، ص ٥٦٣.

(٣)سورۂ احزاب، آیت ٤، ٥.

(٤) آلوسی، تفسیر روح المعانی، (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٢١، ص ١٤٧.

۲۰۱

شدہ غلام تھے لیکن چونکہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس کی شادی کے بارے میں زیادہ تاکید فرمائی لہٰذا زینب راضی ہوگئیں یہ شادی نسلی اور طبقاتی امتیازات کے خاتمہ کا ایک نمونہ تھی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصرار کا راز بھی یہی تھا۔

طرفین میں بدسلوکی اور بدخلقی کی وجہ سے کچھ دن میں اس جوڑے کی مشترک زندگی کی بنیادیں ہلنے لگیں اور جدائی کے قریب پہنچ گئیں۔ چند مرتبہ زید نے چاہا کہ اس کو طلاق دیدیں لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے مصالحت کرنے کے لئے کہا اور فرمایا: اپنی زوجہ کو رکھو!۔(١)

آخر کار زید نے اس کو طلاق دیدی، جدائی کے بعد پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م خدا کی طرف سے مامور ہوئے کہ زینب کے ساتھ شادی کریں تاکہ منھ بولے بیٹے کی مطلقہ کے ساتھ شادی کرنا مسلمانوں کے لئے دشوار نہ ہواور غلط رسم و رواج جو کہ زمانہ ٔ جاہلیت سے لوگوں کے درمیان رائج تھا۔ عملی طور سے اسے ختم کردیں۔ کیونکہ عرب منھ بولے بیٹے کو ہر لحاظ سے اپنا واقعی بیٹا سمجھتے تھے۔ لہٰذا اس کی زوجہ کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں جانتے تھے قرآن مجید نے اس شادی کے مقصد اور سبب کواس طرح سے بیان کیا ہے:

''او راس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو، اور اللہ سے ڈرو اورتم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا(٢) اور تمھیں لوگوںکے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدا رہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص ١٠٣.

(٢) مفسروں کے عقیدہ کے مطابق جو کچھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں تھا وہ یہ تھا کہ خداوند عالم نے ان کو باخبر کردیا تھا کہ زید اپنی زوجہ کو طلاق دے گا اور وہ اس کے ساتھ شادی کریں گے تاکہ اس جاہلانہ رسم کوتوڑیں لیکن پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے لوگوںکے ڈر سے اس کا اظہار نہیں کیا۔ یہ مطلب چوتھے امام سے نقل ہوا ہے (آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٢، ص ٢٤؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص ٣٦٠.)

۲۰۲

اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منھ بولے بیٹوںکی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اور اللہ کا حکم بہرحال نافذ ہو کر رہتا ہے''۔(١)

منافقوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تہمت اور بدگوئی کے لئے اس شادی کو دلیل اور بہانہ بنایا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے لڑکے کی زوجہ (بہو) کے ساتھ شادی کی ہے۔(٢)

خداوند عالم ان کے جواب میں فرماتا ہے:

''محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شی کو خوب جاننے والا ہے''۔(٣)

بعض مسیحی مورخین نے اس شادی کوایک عشقیہ داستان کی صورت میں پیش کیاہے اور اس کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔(٤)

______________________

(١) سورۂ احزاب، آیت ٣٧.

(٢) ابن اثیر ، گزشتہ حوالہ، ج٧، ص ٤٩٤؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص ٣٣٨؛ قسطلانی ، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، تحقیق: صالح احمد الشامی، (بیروت: المکتب السلامی ط١، ١٤١٢ھ)، ج٢، ص ٨٧.

(٣) سورۂ احزاب، آیت ٤٠.

(٤) دائرة المعارف الاسلامیہ، عربی ترجمہ احمد السنتناوی (اور اس کے معاونین) ، ج١١، ص ٢٩، کلمۂ زینب؛ محمد حسین ھیکل، حیات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ص ٣٢٣۔ ٣١٦۔ مغربی مورخین کے کہنے کے مطابق پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ایک دن زید کے گھر گئے اور وہاں اچانک ان کی نظر زینب پر پڑی اور وہ اس کے حسن و خوبصورتی کے عاشق ہوگئے جب زید کو اس بات کی خبر لگی تو اس نے زینب کو طلاق دیدی! اور...جبکہ زینب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ داروں میں سے تھی اور حجاب اس زمانہ میں معمول نہیں تھا اور وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کوئی نئی فرد نہیں تھیں۔ عام طور سے ایک خاندان کے لوگ ایک دوسرے سے آگاہ رہتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد دہانی کرانی چاہئے کہ اس طرح کے کچھ واقعات جو مغربی مورخین کے سوء استفادہ کا باعث بنے ہیں وہ غیر معتبر اور بے بنیاد روایتوں سے ماخوذ ہیںجو بعض تاریخ اسلام (جیسے تاریخ طبری ، ج٢، ص ٤٢، طبقات الکبریٰ، ج ٨، ص ١٠١)، میں نقل ہوئے ہیں اور دوسرے مؤلفین نے بھی بغیر توجہ کے ان سے نقل کیا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ قرآن نے بھی اس واقعہ کو وضاحت کے ساتھ دوسرے انداز میں بیان کیا ہے اور علمائے اسلام نے بھی ان روایات کو غیر قابل قبول قرار دیا ہے ان میں سے سید مرتضی علم الہدی، شیعوں کے نامور عالم دین (م: ٤٣٦ھ)، نے اس روایت کو ''روایت خبیثہ'' کہا ہے۔ (تنزیہ الانبیائ، ص ١١٤) اور آلوسی بغدادی نے اس کو واقعہ نگاروںکی ناقابل قبول بات کہی اور شارح مواقف سے نقل ہوا ہے اس نے کہا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس ناروا نسبت سے مبرا سمجھنا چاہئے (روح المعانی، ج٢٢، ص ٢٥۔ ٢٤)

۲۰۳

لیکن ان کا یہ دعوا، پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی نبوت اور عصمت کی شان کے مطابق نہیں ہے اور اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ مسئلہ کچھ اور تھا جو تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے اور قرآن نے بھی اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی ازواج میں سے ان چند کا تذکرہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعدد ازواج کے ہونے کے مقصد کو واضح کردیتا ہے اور بقیہ کے حالات بھی تقریباً انھیں کے مثل ہیں لہٰذا ان کے تذکرہ کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔

قرآن کی جاذبیت

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں بہت کم اپنی طرف سے کچھ کہتے تھے. ان کی دعوت کا بہترین وسیلہ قرآن کی آیات ہوا کرتی تھیں جو عربوں کی سماعتوں کو سحر انگیز کشش میں بدل دیتی تھیں۔

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے جو فصاحت و بلاغت، الفاظ و کلمات، جملوں کی ترکیب، انتخاب الفاظ اور آیات قرآن کی ایک خاص صدا کے لحاظ سے معجزہ ہے جس میں بے انتہا زیبائی ،دلکشی اور جذابیت پائی جاتی ہے کہ جس کا مثل پیش کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید ''چیلنج'' کرتا ہے اور منکروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اگر تمھیں ا س میں کوئی شک ہے تو اس کے ایک سورہ کا جواب لے آؤ۔(١)

حجاز کے عرب، شاعر اور شعر شناس تھے، قرآن کی آیات کی فصاحت و بلاغت اور زیبائی کودیکھ کر وہ اس کے شیدائی اوراس میں مجذوب ہوجاتے تھے۔ وحی کے کلمات ، ان کی سماعتوں میں دلکش نغموں اور دلنشین صداؤوں سے زیادہ، لذت بخش محسوس ہوتے تھے اور کبھی تو شدت تاثیر سے قرآن کی

______________________

(١)سورۂ بقرہ، آیت ٢٣۔

۲۰۴

آیات ان کے وجود کی تہوں تک اس قدر نفوذ کرجاتی تھیں کہ کافی دیر تک اپنی جگہ پر لذت و کشش میں غرق کھڑے رہتے تھے!۔

ایک شب قریش کے کچھ سردار جیسے ابوسفیان اورابوجہل ایک دوسرے سے بے خبر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کے اطراف میں چھپ گئے اور صبح تک قرآن کی آیات کو سنتے رہے جو آپ نماز شب میں تلاوت فرماتے تھے اور صبح سویرے پلٹتے وقت جب ایک نے دوسرے کو دیکھا تو ایک دوسرے کی ملامت کرنے لگے اور کہا: پھر ایسی حرکت نہیں کریں گے کیونکہ اگر احمقوں نے ہمیں دیکھ لیا تو ہمارے بارے میں کچھ اور سوچیں گے (سوچیں گے کہ ہم مسلمان ہوگئے) لیکن اس کے باوجود یہ حرکت کئی دوسری راتوں میں پھر انجام دی اور ہر مرتبہ یہ طے کرتے تھے کہ دوبارہ اس طرح کی بے احتیاطیاں نہیں کریں گے۔(١)

جادوگری کا الزام

حج کا موسم پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغ او ردعوت کے لئے مناسب موقع ہوا کرتا تھا کیونکہ عرب کے مختلف قبیلوں کے لوگ اعمال حج بجالانے کے لئے مکہ میں آیا کرتے تھے ،لہٰذا اس موقع پر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے صدائے توحید کو جزیرة العرب کے تمام رہنے والوں تک پہنچانا آسان کام تھا۔ لہٰذا اس لحاظ سے حج کا موسم سرداران قریش کے لئے خطرناک بن گیا تھا اور وہ اس سے خوف زدہ رہتے تھے لہٰذا موسم حج کے شروع ہوتے ہی بزرگان قریش کا ایک گروہ، ولید بن مغیرہ (جوکہ ایک سن رسیدہ شخص اور قبیلہ بنی مخزوم کا سردار تھا) کے پاس جمع ہوا ،اس نے کہا کہ حج کا موسم آگیا ہے لوگ ہر طرف سے تمہارے شہر میں آرہے ہیں اور انھوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں سن رکھا ہے۔ لہٰذا تم سب اس کے بارے میں ایک

______________________

(١) ابن ہشام، الشیرة النبویہ، ج١، ص ٣٣٧.

۲۰۵

ہی بات کہو، مختلف باتیں کہہ کر ایک دوسرے کو جھٹلاؤ نہیں۔

ان لوگوں نے کہا: جو کچھ تم کہو وہی ہم بھی کہیں گے۔

اس نے کہا: تم لوگ کہو، میں سنتا ہوں۔

ہم اسے کاہن کہیں گے۔

نہیں، خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہے ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے وہ نہ کاہنوں کی طرح پڑھتا ہے اور نہ مسجع کلام کرتا ہے۔

ہم اسے دیوانہ کہیں گے۔

نہیں وہ دیوانہ بھی نہیں ہے۔ ہم نے دیوانگی کودیکھا ہے اور اس کے آثار کو بھی جانتے ہیں نہ اس کا جسم غیر ارادی طور پر لرزتا ہے اور نہ ہی دیو اس میں وسوسہ کرتا ہے۔

ہم اسے شاعر کہیں!

شاعر بھی نہیں ہے۔ ہم شعر کی قسموں کو پہچانتے ہیں جو وہ کہتاہے وہ شعر نہیں ہے۔

ہم اسے ساحر اور جادوگر کہیں۔

نہیں وہ ساحر بھی نہیں ہے۔ ہم نے ساحروں کے سحر کو دیکھا ہے کہ کس طرح وہ رسیوں کو پھونکتے اور ان کو گرہ لگاتے ہیں۔! اس کا کام سحر نہیں ہے۔

پھر ہم اسے کیا کہیں؟

خدا کی قسم اس کا کلام شیرین اور دلنشین ہے اور اس کا درخت شاداب اور اس کی ٹہنیاں پرثمر ہیں اس طرح کی جتنی باتیں اس کے بارے میں کہوگے، اس کا غلط ہونا واضح ہو جائے گا۔ لہٰذا تمام چیزوں سے بہتر ہے کہ ہم اسے جادوگر کہیں ۔ کیونکہ وہ اپنے سحر آمیز کلمات کے ذریعہ باپ بیٹے، بھائی بھائی ، عورت مرد اور ایک قبیلہ کے افراد میں جدائی ڈال دیتا ہے۔!

۲۰۶

لہٰذا قریش کے سردار، اس ارادہ سے متفرق ہوگئے اوراس دن سے حاجیوں کے راستے میں بیٹھتے تھے اور ان کو ہوشیار کرتے تھے کہ رسو لخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات نہ کریں۔(١)

قریش کی اعلی کمیٹی نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جس کلام کو ''جادو'' کہا وہ قرآن مجید کی دلنشین آیات تھیں کہ جس کو سننے کے بعد ہر شخص متاثر ہو جاتا تھا اور اس کو قرآن کا گرویدہ اور عاشق بنا دیتا تھا۔قرآن کی آیات سننے پر پابندی ا س حد تک لگائی کہ قریش کے سردار، بڑی شخصیتوں سے جیسے اسعد بن زرارہ جو کہ مدینہ سے مکہ آیا ہوا تھا اس سے جاکر کہا کہ طواف کے وقت اپنے کان میں روئی لگالیں تاکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سحر کے خطرہ سے محفوظ رہیں!!(٢)

طائف کا تبلیغی سفر

طائف مکہ سے ١٢ فرسخ (تقریباً ٧٢ کلومیٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے یہ علاقہ اور یہاں کی آب و ہوا بہترین اور موسم خوش گوار ہے ۔ اس زمانہ میں طائف کے باغوں کے انگور مشہور تھے۔(٣)

قریش کے بعض ثروتمندوں کے باغ اور زمینیں وہاں تھیں۔ خود طائف کے لوگ بھی دولت مند تھے اور رباخوری میں مشہور تھے اور طائف میں اس وقت ایک قدرت مند قبیلہ ''ثقیف'' رہا کرتا تھا۔

جناب خدیجہ اور جناب ابوطالب کی رحلت کے بعد قریش کی جانب سے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دباؤ اور اذیتیں بڑھ گئیں اورمکہ میں تبلیغی کام دشوار ہوگیااور دوسری طرف سے یہ بھی ضروری تھا کہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کا کام نہ رکے، لہٰذا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارادہ کیا کہ طائف جائیں اور وہاں کے لوگوں کواسلام کی طرف دعوت دیں، شاید وہاں پر ان کا کوئی ناصر و مددگار پیدا ہوجائے اس سفر میں

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٩۔ ٢٨٨.

(٢) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٦.

(٣) یاقوت حموی، معجم البلدان، ج ٤، ص٩.

۲۰۷

زید ابن حارثہ(١) اور حضرت علی(٢) آپ کے ساتھ تھے۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طائف میں قبیلۂ ثقیب کے تین افراد سے، جن میں ایک کی زوجہ، قبیلۂ قریش ''خاندان بنی جمح''(٣) سے تھی ملاقات کی اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور ان سے مدد چاہی۔ لیکن انھوں نے آپ کی بات قبول نہیں کی اور آپ کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آئے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے درخواست کی کہ وہ اس بات کو چھپالیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چیز مکہ تک پہنچ جائے اور قریش کی دشمنیاں اور گستاخیاں ہم سے زیادہ نہ بڑھ جائیں۔ لیکن ان لوگوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسرے بزرگان طائف کے پاس بھی گئے لیکن ان لوگوں نے بھی آپ کی بات قبول نہیں کی اور اپنے جوانوں کے بارے میں ڈرے کہ کہیں وہ نئے دین کے گرویدہ نہ ہوجائیں۔(٤)

طائف کے بزرگوں نے، اوباشوں کمینوں پست لوگوں اور غلاموں کو ورغلایا اور ان لوگوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہلّڑ، ہنگامہ اور گالم گلوج کرتے ہوئے پیچھا کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پتھر برسائے جس سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دونوں پیر اور زید کا سر زخمی ہوگیا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک انگور کے باغ میں جو عتبہ اور شیبہ (قریش کے سرمایہ دار) کا تھا وہاں چلے گئے اور ایک

______________________

(١) طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٣٠؛ بلاذری، انساب الاشراف۔ تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج١، ص ٢٣٧.

(٢) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمدابوالفضل ابراہیم، (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١٤، ص٩٧و ج٤، ص ١٢٨۔ ١٢٧؛ مدائنی کی نقل کے مطابق۔

(٣) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٠.

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٢.

۲۰۸

انگور کے درخت کے سایہ میں پناہ لی اور وہاں بیٹھ کر خدا سے مناجات کی۔

عتبہ اور شیبہ جوانگور کے باغ کے اندر سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تعاقب اور اذیت کا منظر دیکھ رہے تھے ان کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حالت زار پر ترس آیا۔ لہٰذا کچھ انگور اپنے مسیحی غلام ''عدّاس'' (جوکہ نینوا کا رہنے والا تھا) کے ذریعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس بھیجا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو نوش فرماتے وقت ''بسم اللہ'' کہی یہ دیکھ کر ''عداس'' کے اندر تحقیق و جستجو کا جذبہ بھڑک اٹھا۔اور پھر اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مختصر گفتگو کے بعد کہ جس میں آپ نے اپنی رسالت کا تذکرہ کیا۔ آپ کے قدموں پر گر پڑا اور آپ کے ہاتھ پیر اور سرکا بوسہ لینے لگا(١) اور مسلمان ہوگیا۔(٢)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م دس دن طائف میں(٣) رہنے کے بعد ثقیف کی عدم حمایت اور ان کے اسلام نہ قبول کرنے پر مایوس ہوکر دوبارہ مکہ واپس آگئے۔

کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی سے پناہ مانگی؟

کہا جاتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ میں دوبارہ پلٹنے کے بعد مطعم بن عدی سے پناہ مانگی اور اس کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے لیکن اس سلسلے میں جو قرائن اور شواہد ملتے ہیں ان کودیکھنے کے بعد یہ بات بالکل بعید نظر آتی ہے. ان میں سے کچھ شواہد یہ ہیں:

١۔ یہ بات کس طرح سے قبول کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے دس سال تبلیغ و دعوت اور بت

______________________

(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٣٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٢.

(٢)ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٠.

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٢؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٩١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٢٢؛ طائف میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قیام کی مدت اس سے بھی زیادہ لکھی گئی ہے۔

۲۰۹

پرستوں سے مقابلہ کرنے کے بعد، پناہندگی کی ذلت و خواری کو قبول کیا ہو؟ جبکہ اپنی ساری عمر میں کسی کے احسان مند نہیں ہوئے۔

٢۔ اگر چہ جناب ابوطالب، اس وقت دنیا سے رحلت فرماگئے تھے لیکن بقیہ بنی ہاشم وہاں موجود تھے او ران کے درمیان بہادر افراد جیسے جناب حمزہ موجود تھے جن سے قریش کو ڈر تھا کہ کہیں وہ انتقام نہ لیں جیسا کہ شب ہجرت کے واقعہ میں بھی سردار ان قریش نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی سازش میں بنی ہاشم کے خون خواہی او ر انتقام کے خوف سے چند قبیلوں کو اپنے ساتھ کرلیا تھا۔

٣۔ بعض تاریخی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ زید آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھے اور بعض مورخین کی نقل کے مطابق حضرت علی بھی آپ کے ہمراہ تھے (اصولی طور پر یہ بعید ہے کہ حضرت علی ایسے سفر میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ نہ رہے ہوں) لہٰذا تین افراد کا ایک گروہ موجودتھا جو اپنا دفاع کرسکتا تھا۔ لہٰذا پناہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

٤۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م عرب کے بہادروں میں سے تھے لہٰذا ان کوایک کمزور اور ضعیف انسان نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو بھی چاہے انھیں ضرر پہنچا دے۔ جیسا کہ حضرت علی نے میدان جنگ میں ان کی شجاعت کی تعریف ا س طرح کی ہے:

''جس وقت جنگ کی آگ شدید شعلہ ور ہوتی تھی تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پناہ مانگتے تھے اور اس وقت ہم میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ دشمن سے نزدیک نہیں ہوتا تھا''۔(١)

٥۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے قبیلہ جاتی نظام سے جو کہ بہت ساری مشکلات اور پریشانیوںکی جڑ تھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،پناہندگی کی رسم جو کہ قبیلہ جاتی نظام کا ایک حصہ تھی اس کا سہارا لیتے اور اس کی تائید فرماتے ۔

______________________

(١) کنا اذا احمر البأس اتقینا برسول اللّٰہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلم یکن احد منا اقرب الی العدو منہ (نہج البلاغہ، تحقیق: صبحی صالح، ص٥٣٠؛ غریب کلامہ، نمبر ٩٠).

۲۱۰

٦۔ بلاذری(١) اور ابن سعد(٢) کی خبر میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طائف کی طرف سفر شوال کے آخری دنوں میں ہوا تھا اگر اس خبر کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طائف میں قیام اور پھر مکہ واپسی، حرام مہینے میں ہوئی تھی اور حرام مہینوں میں عام طور سے لڑائی جھگڑا اور خون ریزی بند ہو جاتی تھی اسی بنا پر آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا تاکہ پناھندگی کا مسئلہ پیداہوتا۔

ان قرائن کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طائف سے واپس ہونے کے بعد (کہتے ہیں کہ ایک شب آپ نے ''نخلہ''(٣) میں قیام کیا اور وہاں جنّات کے ایک گروہ نے، قرآن کی آیات کو سنا)،(٤) وادی نخلہ کے راستے سے مکہ آگئے۔(٥)

عرب قبائل کو اسلام کی دعوت

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مکہ اور اس کے اطراف میں رہنے والے قبائل عرب کو اسلام کی طرف دعوت دی جیسا کہ آپ کِندَہ، کَلب، بَنی حنیفہ اور بنی عامر بن صعصعہ ، قبیلے کے پاس تشریف لے گئے او ران کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ ابولہب بھی آپ کے پیچھے گیا اور لوگوں کو آپ کی پیروی کرنے سے منع کیا۔(٦)

______________________

(١) انساب الاشراف، ج١، ص ٢٣٧.

(٢) طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢١٠.

(٣) طائف اور مکہ کے درمیان ایک محلہ ہے جس کی دوری ایک رات میں طے ہوتی ہے۔ (السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٣)

(٤)طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣.

(٥) مراجعہ کریں: الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٢، ص ١٦٨۔ ١٦٧.

(٦) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦۔ ٦٥؛ طبری ، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث) ، ج٢، ص ٢٣٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٢٣٨۔ ٢٣٧؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار، ص ٢٣٢؛ نیز قبائل: بنی فزارہ ،غسان، بنی مرہ، بنی سلیم، بنی عبس، بنی حارث، بنی عذرہ، حضارمہ، بنی نضر اور بنی بکاء میں سے ہر ایک کودعوت دی لیکن کسی نے قبول نہیں کیا۔ (ابن سعد، طبقات الکبریٰ)، (بیروت: دار صادر، ج١، ص ٢١٧۔ ٢١٦)

۲۱۱

جس وقت پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے بنی عامر سے گفتگو کی، ان کے بزرگوں میں سے ایک شخص جس کا نام بحیرہ بن فراس تھا ، اس نے کہا: ''اگر ہم آپ کی بیعت کریں اور دعوت کو قبول کریں او رخدا آپ کو آپ کے دشمنوں پر کامیاب کرے تو کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کا جانشین ہم میں سے ہوگا؟''

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''یہ کام خدا سے مربوط ہے وہ ا س امر کو جہاں چاہے گا وہاں قرار دے گا''(١)

اس نے تعجب اور انکار کے عالم میں جواب دیا: ہم آپ کی راہ میں قبائل عرب سے مقابلہ کریں اورآپ سینہ سپر بنیں اور جب خدا آپ کو کامیاب کردے تو مسئلہ دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے؟ہم کو آپ کے دین کی ضرورت نہیں ہے۔(٢)

منقول ہے کہ ایسی پیش کش قبیلۂ کندہ کی طرف سے بھی ہوئی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جواب بھی وہی تھا۔(٣)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جواب اور رد عمل دو اعتبار سے قابل توجہ ہے:

اول: یہ کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تاکید فرماناکہ ان کی جانشینی کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے، خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی کے انتصابی ہونے پر گواہ ہے یعنی یہ منصب ایک الٰہی منصب ہے اور اس سلسلے میں انتخاب، خدا کی طرف سے انجام پاتا ہے نہ لوگوں کی طرف سے۔

دوسرا: سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے انسانی حکمرانوں کے برخلاف جو کہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر طرح کی چال چلتے تھے اور اس کی توجیہ و تاویل کرتے تھے ، امر تبلیغ میں غیر

______________________

(١) الأمر للہ {الی اللّٰہ} یضعہ حیث یشائ۔

(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ حلبی ، السیرة الحلبیہ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج٢، ص ١٥٤؛ ذینی دحلان، السیرة النبویہ والآثار المحمدیہ، (بیروت: دار المعرفہ، ط٢)، ج١، ص ١٤٧؛ سید جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج ٢، ص ١٧٦۔ ١٧٥

(٣) ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبہ المعارف، ط ١، ١٩٦٦.)، ج٣، ص ١٤٠

۲۱۲

اخلاقی روش اختیار نہیں کی ۔ جبکہ اس زمانہ میں ایک بہت بڑے قبیلہ کا مسلمان ہو جانا بہت اہمیت رکھتا تھا لیکن (اس کے باوجود بھی آپ تیار نہیں ہوئے کہ لوگوں سے ایسے وعدے کریں جس کا پورا کرنا آپ کے بس سے باہر ہو)۔

بہر حال حج و عمرہ کے موسم میں، اور حرام مہینوں کے احترام میں، امنیت پیدا ہوئی اور بہت سے گروہ مختلف علاقوںسے مکہ اور منی یا مکہ کے اطراف میں لگنے والی بازاروں جیسے موسمی بازار عکاظ، مجنّہ اورذی المجاز میں جاتے تھے(١) اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں پر اپنے تبلیغی مشن کو جاری رکھتے اور اس کو اور توسیع دیتے تھے ۔

آپ بزرگان قبائل کے پاس جاتے تھے اور ان کو تبلیغ کرتے اور اگر مکہ کے مسافر اور زائر خود مسلمان نہیں ہوتے تھے تو کم از کم آپ کے بعثت کی خبر اپنے علاقہ میں پھیلاتے تھے اور یہ کام آپ کی کامیابی کی راہ میں ایک قدم تھا۔

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٦.

۲۱۳

چوتھا حصہ

ہجرت سے عالمی تبلیغ تک

پہلی فصل: مدینہ کی طرف ہجرت

دوسری فصل: مدینہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے بنیادی اقدامات

تیسری فصل: یہودیوں کی سازشیں

چوتھی فصل: اسلامی فوج کی تشکیل

۲۱۴

پہلی فصل

مدینہ کی طرف ہجرت

مدینہ میں اسلام کے نفوذ کا ماحول

وادی القریٰ ایک بڑا درّہ ہے جہاں سے، یمن کے تاجروں کا شام جانے کا راستہ مکہ کے اطراف سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اس درّے کی لمبائی شمال سے جنوب تک ہے اور اس میں چند ایسی زمینیں بھی تھیں جو آب و گیاہ سے مالا مال اور کھیتی باڑی کے لائق تھیں ۔(١) اور وہاں سے قافلے گزرتے وقت اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ مکہ کے شمال میں ٥٠٠ کلومیٹر کے فاصلہ پر انھیں زمینوں میں سے ایک زمین میں قدیمی شہر ''مدینہ'' پڑتاتھا جو ہجرت رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کے بعد ''مدینة الرسول'' اور پھر ''مدینہ'' کہا جانے لگا۔

اس شہر کے لوگوں کا پیشہ اہل مکہ کے برخلاف کھیتی باڑی اور باغبانی تھا۔ مدینہ کے اجتماعی حالات اور آبادی کا تناسب بھی مکہ سے بالکل الگ تھا۔ اس شہر میں یہودیوں کے تین بڑے قبیلے ''بنی نضیر''، ''بنی قینقاع'' اور ''بنی قریظہ'' رہتے تھے۔ دو مشہور قبیلہ ''اوس اور خزرج'' بھی جن کی اصالت یمنی (قحطانی) تھی مأرب بند ٹوٹنے کے بعد(٢) جنوب سے ہجرت کر کے اس شہر میں یہودیوں کے بغل

______________________

(١) یاقوت حموی ، معجم البلدان، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٩٩ھ) ج٤ ، ص ٣٣٨.

( ۲) وہی مصنف، ج٥، ص ٣٦، مأرب بند ٹوٹنے کا تذکرہ ہم اس کتاب کے پہلے حصہ میں کرچکے ہیں.

۲۱۵

میں آکر رہنے لگے تھے۔

جس زمانے میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مکہ میں تبلیغ الٰہی میں سرگرم تھے مدینہ میں ایسے واقعات رونما ہو رہے تھے جن سے ہجرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ماحول ہموار ہو رہا تھا اور پھر یہ شہر اسلام کے پیغام اور تبلیغی مرکز میں تبدیل ہوگیا ان واقعات میں سے چند یہ ہیں۔

١۔ یہودیوں کے پاس شہر کے اطراف میں زرخیز زمینیں تھیں اور ان میں انھوں نے کھجور کے باغات لگا رکھے تھے جن سے ان کی مالی حالت اچھی ہوگئی تھی(١) کبھی کبھار ان کے اور اوس و خزرج کے درمیان نوک جھوک ہوجایا کرتی تھی۔ یہودی ان سے کہتے تھے کہ عنقریب ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آنے والا ہے ہم اس کی پیروی کریں گے اور اس کی مدد سے تم کو قوم عاد وارم کی طرح نابود کردیں گے۔(٢)

______________________

(١) مونٹگری واٹ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی المدینہ، تعریف: شعبان برکات (بیروت: منشورات المکتبة العصریہ) ، ص ٢٩٤ پرکہتے ہیں کہ اوس و خزرج کے مدینہ آنے سے قبل ،قبائل عرب ١٣ قلعوں اور کالونیوں کے مقابلے میںیہودیوں کے پاس ٥٩ قلعہ تھے (گزشتہ حوالہ، ٢٩٣؛ وفاء الوفاء ، ج١، ص ١٦٥.) اس سے دونوں کی زندگی کے معیار اور فاصلہ کا پتہ چلتا ہے۔

(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج ٢، ص ٧٠؛ طبری ، ج٢، ص ٢٣٤؛ بیہقی، دلائل، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی (تہران، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١) ج٢، ص١٢٨۔ مراجعہ کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج١، ص ٥١؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٦، جو یہودی بعثت پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے بارے میں اس طرح پیشین گوئی کرتے تھے ،وہی بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان سے دشمنی کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اس وجہ سے قرآن ان سے اس طرح سے معترض ہوا ''اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی ہے جوان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس کے پہلے وہ دشمنوں کے مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہوگئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب ان کافروں پر خدا کی لعنت ہو۔

۲۱۶

چونکہ یہودیوں کے کلچر کا معیار بلند تھا اور بت پرست انھیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ لہٰذا اس سلسلے میں ان کی باتوں کو باور کرتے تھے اور چونکہ یہ دھمکیاں کئی بار دی گئیں تھیں لہٰذا مسئلہ مکمل طور سے اوس و خزرج کے ذھن میں جاگزیں ہوگیا تھا اور ذہنی طور پر مدینہ والے ظہور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے لئے آمادہ ہوگئے تھے۔

٢۔ برسوں پہلے سے اوس و خزرج کے درمیان کئی مرتبہ جنگ و خونریزی ہوچکی تھی ان میں سے آخری جنگ ''بغاث'' تھی جس کے نتیجہ میں بے انتہا جانی نقصانات او ربربادیاںدونوں طرف ہوئی تھیں اور دونوں گروہ نادم و پشیمان ہوکر صلح کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی معتبر اور بے طرف شخص نہیں مل رہا تھا جو ان کے درمیان صلح کراسکے۔ عبد اللہ بن ابی جو خزرج کے بزرگوں میں سے تھاجنگ بعاث میں بے طرف ہوگیا اور چاہتا تھا کہ دونوں گروہ میں صلح کرا کے ان پر حکومت کرے اور اس کی تاج پوشی کے اسباب بھی مہیا ہوچکے تھے۔(١) لیکن مکہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے اوس و خزرج کی ملاقاتوں نے (جن کا عنقریب ذکر کریں گے) واقعات کا رخ یکسر بدل دیا۔ اور عبد اللہ بن ابی اپنا مقام کھو بیٹھا۔

مدینہ کے مسلمانوں کا پہلا گروہ

مکہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے ظاہری پیغام کے ابتدائی سالوں میں مدینہ کے لوگ مکہ کے مسافروں اور زائروں کے ذریعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے آگاہ ہوگئے تھے اور ان میں سے کچھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت سے مشرف ہوکر مسلمان ہوگئے لیکن کچھ ہی دنوں بعد وہ رحلت کرگئے یا قتل کر دیئے گئے تھے۔(٢) بہرحال وہ، لوگوں کواسلام کی طرف نہیں بلا سکے تھے۔

______________________

(١) طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٨٠.

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٠۔ ٦٧؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٣٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص٢٣٨؛ بیہقی ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١١٨.

۲۱۷

بعثت کے گیارہویں سال پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بزرگان خزرج میں سے چھ لوگوں کو حج کے موسم میں منیٰ میں دیکھا اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: جان لو! یہ وہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے جس کی بعثت سے یہودی ہمیں ڈراتے ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے پہلے اس کے دین کو قبول کرلیں۔ لہٰذا وہ سب اسلام لے آئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا: ہم اپنی قوم کو دشمنی اور ٹکراؤ کی بدترین حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال آپ کے ذریعہ ان میں الفت ڈال دے گا۔ اب ہم مدینہ واپس جارہے ہیں اور ان کواس دین کی طرف بلائیں گے۔ اگر ان لوگوں نے بھی اس دین کو قبول کرلیا تو کوئی بھی ہماری نظروں میں اپ سے زیادہ عزیز و محترم نہ ہوگا۔

اس گروہ نے مدینہ واپس جانے کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ نغمۂ اسلام پورے یثرب میں پھیل گیا اور کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی باتیں نہ ہوتی ہوں۔(١)

عقبہ کا پہلا معاہدہ

بعثت کے بارہویں سال مدینہ کے بارہ لوگوں نے حج کے موسم میں ''عقبۂ منیٰ''(٢) کے کنارے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی۔(٣) اس گروہ میں دس خزرجی اور دو اوسی تھے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں قبیلے گزشتہ کدورتوں کو بھول کر ایک دوسرے کے دوش بدوش اسلام کے پرچم تلے جمع ہوگئے تھے۔

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٧٣۔ ٧٠؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٥۔ ٢٣٤؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٢٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٢٥.

(٢) ''عقبہ''

(٣)گزشتہ سال، بیعت کرنے والے ٥ افراد تھے جن میں ٧ افراد کا اور اضافہ ہوا

۲۱۸

اور بیعت کی تھی کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے، چوری اور زنا نہیں کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کریں گے، ایک دوسرے پر تہمت (زنا کا الزام) نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی مخالفت نہیں کریں گے۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس عہد کی پابندی کرنے والوں سے ، اس کے عوض میں بہشت کا وعدہ کیا۔(٢)

وہ موسم حج کے بعد مدینہ آگئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تقاضا کیا کہ ایک شخص کو ان کے شہر میں بھیجیں تاکہ وہ مدینہ کے لوگوں کو اسلام اور قرآن کی تعلیم دے۔رسول خدا نے مصعب بن عمیرکو بھیجا۔(٣)

مصعب کی تبلیغ اور کوششوں سے مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ مکہ کے اہم اور خاص لوگ اسلام کی مخالفت کے لئے کمر بستہ ہوگئے تھے مگر جوانوں اور مستضعفوں نے آپ کا استقبال کیا۔ لیکن مدینہ میں تقریباً اس کے بالکل برعکس ماحول تھا یعنی اہم اور خاص لوگ پیش قدم اور آگے تھے اور عوام ان کے پیچھے چل رہی تھی یہ ایک ایسا سبب تھا جس کی وجہ سے اسلام تیزی کے ساتھ اس شہر میں پھیلا۔

______________________

(١) چونکہ اس عہد میں جنگ و جہاد کی بات نہیں ہوئی ۔ لہٰذا اس کو ''بیعة النسائ'' کہا گیا جیسا کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس کے بعد فتح مکہ میں اس شہر کی مسلمان عورتوں سے اسی طرح کا عہدو پیمان کیا جس کا ذکر سورۂ ممتحنہ کی آیت ١٢ میں ہوا ہے

(٢) وہی حوالہ؛ ابن طبقات الکبریٰ ج١، ص ٢٢٠

(٣) مصعب، قریش کے ایک جوان اور قبیلہ بنی عبددار کے ایک ثروتمند اور مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اوران کے والدین ان سے بہت محبت کرتے تھے لیکن مسلمان ہو جانے کی وجہ سے انھیں گھر سے نکال دیا اور مال و ثروت سے محروم کردیا، وہ ایک حقیقی اور انقلابی مسلمان تھے اوردوبار حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے (ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٤، ص٣٧٠۔٣٦٨)

۲۱۹

عقبہ کا دوسرا معاہدہ

بعثت کے تیرہویں سال حج کے موسم میں ٧٥ افراد جن میں سے گیارہ افراد او سی (اور بقیہ خزرجی) اور دو خاتون تھیں قافلۂ حج کے ساتھ مدینہ سے مکہ آئے اور ١٢ ذی الحجہ کو ''عقبۂ منیٰ'' کے کنارے دوسرا عہد شب کی تاریکی میں (مخفی صورت میں) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کیا۔ اس عہد میں انھوں عہد کیا کہ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے شہر کی طرف ہجرت کی تو وہ اسی طرح ان کی حمایت کریں گے جیسے وہ اپنی ناموس اور اولاد کی حمایت کرتے ہیں اور جن لوگوں سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ کریں گے ان سے وہ لڑیں گے۔ اس اعتبارسے اس بیعت کو ''بیت الحرب'' بھی کہا گیا ہے۔

عہد کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے بارہ افراد نمائندے کے طور پر(نقیب) انتخاب ہوئے (مرکزی کمیٹی) تاکہ مدینہ پلٹنے کے بعد ہجرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے تک ان کے امور کی سرپرستی کرسکیں۔(١)

اور یہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی کارکردگی کا ایک طریقہ تھا اور موجودہ افراد کو منظم کرنے میں آپ کی سعی و کوشش تھی۔

عہد نامہ کے تمام ممبران کے نام تاریخ اسلام کی مفصل کتابوں میں تحریر ہیں۔

مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز

تمام مخفیانہ امور کے باوجود جو کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مدینہ والوں کے درمیان انجام پائے تھے، قریش اس بیعت سے آگاہ ہوکر بیعت کرنے والوں کی گرفتاری میں لگ گئے۔ مگر انھوں نے اتنی تیزی سے کام کیا کہ فوراً مکہ کو ترک کردیا اورصرف ایک شخص کے علاوہ کوئی گرفتار نہ ہوا۔

______________________

(١) بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٤٠۔ ١٣٢؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ٩٠۔ ٨١؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٥٤۔ ٢٤٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٣۔ ٢٢١؛ گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٧؛ طبرسی، اعلام الوریٰ ، ص ٦٠۔ ٥٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج ١٩، ص ٢٦ ۔ ٢٥.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403