تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 138735
ڈاؤنلوڈ: 3429

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138735 / ڈاؤنلوڈ: 3429
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

نیز منافقین کے علاوہ مکہ کے شکست خوردہ دشمنان اسلام یا مکہ اور مدینہ کے اطراف میں بادیہ نشین قبیلوں کی طرف سے بھی فتنہ اور فساد کا امکان تھا اس بنا پر یہ ضروری تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا طاقت ور اور مضبوط شخص نئی اور تازہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالے اورکسی قسم کے فتنہ کا سر نہ ابھر نے دے کیونکہ بہت ممکن تھا کہ کچھ ناگوار حادثات پیش آجائیں، اسی بنا پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے حضرت علی کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا اور فرمایا: ''مدینہ کو سنبھالنے کے لئے یا میرا رہنا ضروری ہے یا تمہارا رہنا ضروری ہے''(١)

مسعودی لکھتے ہیں : سب سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ رسول خدا نے علی کو مدینہ میں اپنا جانشین اس لئے قرار دیا تاکہ جو لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ سفر میں نہیں جارہے ہیں ان کی نگرانی کرتے رہیں اور انھیں قابو میں رکھیں۔(٢)

حضرت علی اس جنگ کے علاوہ تمام جنگوں میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ(٣) اور آپ کے لشکر کے علمبردار رہ چکے تھے،(٤) اسی بنا پر منافقین نے یہ مشہور کردیا کہ رسول خدا نے حضرت علی کو مدینہ میں اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ آپ کو ان سے کوئی لگاؤ اور محبت نہیں رہ گئی ہے ،یہ افواہ سننے کے بعد حضرت علی کو بہت ملال ہوا، آپ اسلحہ سجا کر منزل جرف٭میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچے اورمنافقین

______________________

(١) مفید ، الارشاد (قم: مکتبہ بصیرتی)، ص٨٢؛ طبرسی، اعلام الوری، ص ١٢٢۔

(٢)و الاشهر ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و آله وسلم استخلف علیاً علی المدینة لیکون مع من ذکرنا من المتخلفین ۔ (التنبیہ و الاشرف۔ ص٢٣٦)۔

(٣)ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (حاشیہ الاصابہ میں) ، ج٣، ص ٣٤؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ص ١٠٤؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج١، ص٣٤٨۔

(٤) ابن عبد البر، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧؛ جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ١٤٠٣ھ۔ق، ج٤، ص ١٩٦۔ ١٩٣.

٭جرف، مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک محلہ تھا۔

۳۴۱

کی افواہ کو آپ کی خدمت میں بیان کیا اور آپ کے سامنے اس بات کا شکوہ بھی کیا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''وہ لوگ جھوٹے ہیں میں نے تم کو اپنا جانشین قرار دیا ہے۔ تم واپس جاؤ اور میرے اہل او رعیال اور اپنے گھر والوں کے درمیان میرے جانشین رہو کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے''(١) ۔

شیخ مفید کی روایت کے مطابق آپ نے یوں ارشاد فرمایا: ''اے میرے بھائی! تم اپنی جگہ واپس پلٹ جاؤ؛ چونکہ مدینہ کا نظام میرے یا تمہارے بغیر نہیں چل سکتا، بیشک تم میرے اہل بیت، دار ہجرت اور میری قوم کے درمیان میرے خلیفہ ہو۔ کیا تم راضی نہیں ہو کہ(٢)

ابن عبد البر قرطبی پانچویں صدی ہجری کے عالم اہل سنت تحریر کرتے ہیں کہ جنگ تبوک میں حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو مدینہ میں اپنے اہل خانہ کے درمیان اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ اوران سے فرمایا تھا کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی...''(٣)

بخاری اور مسلم کی نقل کے مطابق پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے حضرت علی کے شکوہ کے بعد جناب موسیٰ کے بھائی، ہارون سے ان کی تشبیہ دی اور مذکورہ جملہ ارشاد فرمایا:(٤)

______________________

(١)افلا ترضی یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص١٦٣؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ص١٠٤.)

(٢)ارجع یا اخی الی مکانک، فان المدینة لاتصلح الا بی او بک، فانت خلیفتی فی اهل بیتی و دار هجرتی و قومی، اما ترضی... (الارشاد، ص٨٣)

(۳)خلفه رسول اللّٰه علی المدینه و علی عیاله بعده فی غزوة تبوک و قال له انت منی .. (الاستیعاب، ج٣، ص٣٤.)

(۴)صحیح بخاری، شرح و تحقیق: شیخ قاسم شماعی رفاعی، (بیروت: دار القلم، ط١، ص١٤٠٧ھ.ق)، ج٦، ص٣٠٩؛ المغازی، باب ١٩٥، ح ٨٥٧؛ صحیح مسلم، بشرح النووی (بیروت: دار الفکر، ١٤٠١ھ.ق)، ج١٥،

ص ١٧٥؛ فضائل الصحابہ، فضائل علی بن ابی طالب۔ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث منزلت، مذکور کتابوں کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب میں بھی آئی ہے:المواہب اللدنیہ، ج١، ص٣٤٨؛ الاستعیاب فی معرفة الاصحاب، (الاصابہ کے حاشیہ میں)، ج٣، ص٣٤؛ البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٧ و ج٨، ص٧٧؛ مسند احمد، ج١، ص١٧٩؛ کنز العمال، ح ١٤٢٤٢، ٣٢٨٨١، ٣٦٥٧٢؛ الجامع الصحیح، ترمذی، المناقب، باب ٢١، ح ٣٧٣٠؛ النتبیہ والاشراف، ص٢٣٥؛ الصواعق المحرقہ، ص١٢١؛ الاصابہ، ج٢، ص٥٠٩، شمارۂ ٥٦٨٨؛ سیرۂ زینی دحلان، ج٢، ص١٢٦؛ مروج الذہب، ج٣، ص١٤؛ امالی شیخ طوسی، ص٥٩٩۔

۳۴۲

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ مشہور حدیث اور آپ کا یہ مشہور فرمان جو حدیث منزلت کے نام سے مشہور ہے یہ حضرت علی کی امامت اور جانشینی کی بہترین اور واضح دلیل ہے کیونکہ اگر چہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا یہ فرمان صرف ایک خاص واقعہ یعنی سفر تبوک سے متعلق تھا لیکن اس میں مستثنی منقطع اس بات کی دلیل ہے کہ

______________________

بعض کتابوں کی نقل کے مطابق، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سفر میں محمد بن سلمیٰ کو اور بعض دوسرے نقل کے مطابق سباع بن عرفطہ کو اپنا جانشین مدینہ میں مقرر کیا تھا۔ (رجوع کریں: ابن ہشام، سیرة النبویہ، ج٤، ص ١٦٢؛ السیرة الحلبیہ، ج٣، ص١٠٢؛

تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص ١٤٣؛ طبقات الکبری، ج٢، ص١٦٥؛ المواہب اللدنیہ، ج١، ص ٣٤٨) لیکن جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ روایات کی کثرت اور تواتر کے باوجود علی کی جانشینی،کے متعلق جو شیعہ سنی کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ان کی مخالف روایتوں کے اوپر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ابن عبد البر، پانچویں صدی کا بزرگ مورخ، رجال نویس اور فقیہ لکھتا ہے: حدیث ''انت منی بمنزلة ہارون من موسی...'' کو صحابہ کے ایک گروہ نے نقل کیا ہے۔ اور یہ حدیث صحیح ترین اور موثق ترین روایات میں سے ہے۔ اور اس کو سعد بن ابی وقاص، ابن عباس، ابو سعید خدری، ام سلمہ، اسماء بنت عمیس، جابر بن عبداللہ انصاری، اور بے شمار روایوں نے نقل کیا ہے کہ جن کے نام یہاں پر نقل کرنے سے بہت طویل فہرست بن جائے گی۔(الاستیعاب، ج٣، ص٣٤)

۳۴۳

حضرت علی صرف عہدۂ نبوت کے علاوہ دوسرے تمام عہدوں میں جس میں سے ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی بھی ہے جناب موسیٰ کے بھائی جناب ہارون کے مثل اور برابر ہیں۔(١)

راستے کی دشواریاں

ان تمام زخمتوں اور مشکلات کے باوجود اسلامی فوج مدینہ سے کوچ کر گئی لیکن جیسا کہ پہلے سے ہی اس بات کااندازہ لگایا جا رہا تھا مسلمانوں کو تبوک کے راستے میں چند وجوہ کی بناپر مثلاً راستہ طولانی ہونے کی وجہ سے، سواریوں کی قلت (کہ ہر تین آدمیوں کے لئے ایک گھوڑا تھا) گرمی کی شدت، پانی کی کمی اور تشنگی جیسی بے پناہ مشکلات اور زحمتوں کا سامنا کرنا پڑا اسی بنا پر تاریخ اسلام میں اس جنگ کو ''غزوة العسرہ''(٢) یعنی مشکلات کی جنگ یا ''جیش العسرة''(٣) یعنی زحمت اور مشکلات کے لشکر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

______________________

(١)اس واضح اور روشن بیان کے باجود علمائے اہل سنت کے درمیان حلبی شامی اور ابن تیمیہ نے تعصب کی بنا پر اس حدیث کی دلالت میں شک و شبہ ڈال دیا ہے۔ اس حدیث کی دلالت اور اس کے حوالوں اور تقریباً سو سے زیادہ طرق سے منقول اس حدیث کے بارے میں مزید آگاہی کے لئے، کتاب الغدیر، ج٣، ص٢٠١۔ ١٩٧؛ احقاق الحق، ج٥، ص ٢٣٤۔ ١٣٣ و کتاب پیشوائی از نظر اسلام، تالیف استاد آیت اللہ جعفر سبحانی (انتشارات مکتب اسلام، ١٣٧٤ش)، پندرہویں فصل میں مراجعہ فرمائیں۔

(٢) ابن سعد، طبقات الکبری، ج٢، ص١٦٧؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج١، ص٣٤٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١٠٦

(٣)صحیح بخاری، ج٦، ص٣٠٨؛ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص٢٣٥؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٤٦۔ یہ نام اور عنوان، سورۂ توبہ کی آیت ١١٧ ''لقد تاب اللّٰه علی النبی والمهاجرین والانصار الذین اتبعوه فی ساعة العسرة ...'' سے لیا گیا ہے۔

۳۴۴

بہرحال اسلامی فوج اتنی طویل مسافت طے کرنے کے بعد سرزمین تبوک پہنچی ،لیکن وہاں رومی فوج کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں تھا. بعد میں معلوم ہوا کہ رومی فوج کی نقل و حرکت کی خبریں سب بے بنیاد تھیں۔(١) اور یہ افواہ صرف مسلمانوں کے اندر رعب اور اضطراب پیدا کرنے کے لئے پھیلائی گئی تھی۔(٢)

اس علاقہ کے سرداروں سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدے

رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا نے بیس دن تک تبوک میں قیام فرمایا(٣) اور اس مدت میں ''ایلہ'' کے حاکم اور سرزمین ''جربائ'' اور ''اذرخ'' کے لوگوں سے صلح کا معاہدہ ہوا اور انھوں نے جزیہ ادا کرنے کا عہد کیا اس کے علاوہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک مختصر فوجی نقل اور حرکت کے ذریعہ دومة الجندل کے مقتدر بادشاہ کے ساتھ ایک صلح نامہ پر دستخط کئے اور وہ بھی جزیہ اور ٹیکس دے کر آپ کے سامنے تسلیم ہوگیا۔(٤)

غزوہ تبوک رجب ٩ھ میں پیش آیا۔(٥) جس کے کچھ مناظر سورۂ توبہ میں منعکس ہوئے ہیں خاص طور سے اس میں وہ دشواریاں مشکلات اور فوج کے کوچ کرنے سے پہلے یا اس کے بعد بعض مسلمانوں کی سستی، کاہلی، اور منافقین کی خیانت اور گڑبڑیاں شامل ہیں۔ مسجد ضرار کا مشہور واقعہ بھی غزوۂ تبوک کے ساتھ ہی پیش آیا جس کا ذکر سورۂ توبہ کی ١٠٧ ویں آیت میں ہوا ہے۔

______________________

(١) واقدی، المغازی، ج٣، ص١١٩١۔ ١٩٩٠۔

(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩۔

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٦٦، ١٦٨؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١٠١٥۔

(٤) طبرسی، اعلام الوری، ص١٢٣؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٥٠؛ طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص١٤٦۔

(٥) ابن سعد، طبقات الکبری، ج٢، ص١٦٥؛ ابنہشام، سیرة النبویہ، ج٤، ص١٥٩؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٤٦۔

۳۴۵

غزوۂ تبوک کے آثار اور نتائج

اگر چہ اس رنج و مشکلات بھرے سفر میں کوئی جنگ نہ ہوئی لیکن اس کے بہت ہی مفید نتائج سامنے آئے جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

١۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سفر میں حجاز اور شام کے سرحدی علاقوں کے قبائل اور سرداران قوم سے صلح کا معاہدہ کر کے ان علاقوں کی امنیت کو یقینی کردیا اور آپ کو یہ اطمینان ہوگیا کہ اب یہ لوگ قیصر روم سے ساز باز نہیں کریں گے۔

٢۔ آپ کی اس فوجی نقل و حرکت سے اسلامی فوج کے سپہ سالار اس علاقے کی مشکلات راہ و روش اورپانی کے ذخائر سے اچھی طرح واقف ہوگئے اور انھوں نے اس زمانے کی بڑی طاقتوں کے مقابلہ میں لشکر کشی کا طریقہ بھی سیکھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی وفات کے بعد مسلمانوں نے سب سے پہلے سرزمین شام کو ہی فتح کیا ۔

٣۔ اس عمومی رضا کارانہ مشن میں مومن اور منافق کی باقاعدہ پہچان ہوگئی اور مسلمانوں کی صفوں میں ایک طرح کا تصفیہ ہوگیا اور کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوگئی ۔(١)

٤۔اسلامی فوج کے اندر اعتماد نفس پیدا ہوا اور ان کا اعتبار بڑھ گیا اور دوسرے عرب قبائل بھی اسلام کی طرف مائل ہوگئے اور ان کے نمائندے بھی پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی اطاعت اور پیروی کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ بھی اس فوجی نقل و حرکت کا ایک بہترین اور اہم نتیجہ ہے جس کی وضاحت ہم مندرجہ ذیل سطروں میں پیش کر رہے ہیں۔

جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کا نفوذ اوراس کا پھیلاؤ

جس طرح کہ فتح مکہ جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے نفوذ اور اس کی وسعت کا اہم ترین موڑ تھا اسی طرح جنگ تبوک بھی اس راستے میں دوسرا اہم قدم تھا۔ کیونکہ یہ نقل و حرکت جو در حقیقت ایک بڑی

______________________

(١) جعفر سبحانی، فروغ ابدیت،( قم: انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ط٥، ١٣٦٨)، ج٢، ص٤٠٤۔ ٤٠٣۔

۳۴۶

فوجی مشق کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس سے مسلمانوں کی فوجی قوت اور طاقت کے اعتماد میں اضافہ ہوا اور سب نے یہ سمجھ لیا کہ اسلام کی فوجی طاقت اس منزل تک پہونچ چکی ہے کہ جو دور دراز علاقوں میں پہونچ کر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرلے سکتی ہے۔ اس فوجی نقل و حرکت کا سیاسی، فوجی اور نظامی اثر اتنا زیادہ تھا کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے واپس مدینہ پہونچ جانے کے بعد بہت سے قبیلوں کے وہ سردار جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انھوں نے بھی سمجھ لیا کہ اب شرک اور بت پرستی کے خاتمہ کا دور آ پہونچا ہے۔ چنانچہ وہ بھی مدینہ آئے اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی اطاعت کا اعلان کردیا۔ اس سال جن قبیلوں کے نمائندے اور ان کے وفود پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ٩ ھ کو ''سنة الوفود'' یعنی قبیلوں کے وفد اور ان کے سفیروں کے آنے کا سال قرار دیا گیا ہے۔(١)

مشرکین سے برائت کا اعلان

فتح مکہ کے بعد توحید کے پھلنے پھولنے اور شرک اور بت پرستی کے جڑ سے خاتمے اور دوسرے خرافات اور باطل افکار و خیالات جن کی بنیاد بھی بت پرستی ہی تھی سب کے خاتمے کا بہترین ماحول پیدا ہوچکا تھا اور اکثر شہروں او ردیہاتوں میں لوگ بت پرستی سے دور ہو کر اسلام کے پرچم تلے آگئے تھے لیکن کچھ متعصب، نادان اور ہٹ دھرم اب بھی اپنے جاہلانہ رسم و رواج سے دست بردار نہیں تھے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس نئے دین کو قبول کرنا ان کے لئے بہت ہی دشوار تھا۔

دوسری طرف اگر چہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس زمانہ تک چند بار عمرہ کیا تھا۔ لیکن آپ کو ابھی تک حج کرنے کا کوئی موقع نہیں مل سکا تھا اور مشرکین مکہ، حج کو اپنے اسی پرانے طور طریقے اور خرافات کے

______________________

(١) ابن ہشام، سیرة النبویہ، ج٤، ص ٢٠٥۔ سیرت لکھنے والوں نے ان فہرستوں کو ثبت کیا ہے او ران کی تعداد کو ٦٠ سے زیادہ لکھا ہے۔ رجوع کریں: طبقات الکبری، ج١، ص٢٩١؛ تاریخ پیامبر اسلام، محمد ابراہیم آیتی، ص٦٤٢۔ ٦٠٩۔

۳۴۷

ساتھ بجالاتے تھے اور تیسرے یہ کہ فتح مکہ کے بعد رسول خدا اور مشرکین کے درمیان دو طرح کے معاہدے ہوئے تھے:

١۔ ایک عام معاہدہ یہ تھا کہ حج میں ہر ایک کی شرکت آزاد ہے اور کسی کو حج سے نہیں روکا جائے گا اور محترم مہینوں میں ہر ایک کے لئے امنیت قائم رہے گی اور کسی سے کوئی برا سلوک نہیں کیا جائے گا۔

٢۔ دوسرا معاہدہ بعض عرب قبیلوں سے ایک معین مدت تک کیا گیا تھا۔(١)

غزوہ تبوک کے بعد سورۂ برائت نازل ہوا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ آپ مشرکین مکہ سے بیزاری کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ ان معاہدوں کی ایک آخری مدت معین کردیں اور اس کے علاوہ ان آیتوں میں جو دوسرے دستور العمل آئے ہیں ان کو بھی نافذ اور لاگو کریں۔

سورہ برائت کی ابتدائی آیات کا ترجمہ یہ ہے:

مسلمانوں جن مشرکین سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا اب ان سے خدا اور رسول کی طرف سے مکمل بیزاری کا اعلان ہے ۔ لہٰذا کافرو! چار مہینے تک آزادی سے زمین میں سیر کرو اور یہ یاد رکھو کہ خدا سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو اور خدا کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے۔ اور اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے حج اکبر کے دن انسانوں کے لئے اعلان عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں مشرکین سے بیزار ہیں لہٰذا اگر تم توبہ کرلو گے تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر انحراف کیا تو یاد رکھنا کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہو اور پیغمبر آپ کافروں کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیجئے، علاوہ ان افراد کے جن سے تم مسلمانوں نے معاہدہ کر رکھا ہے اور انھوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور تمہارے خلاف ایک دوسرے کی مدد نہیں کی ہے تو چار مہینے کے بجائے جو مدت طے کی ہے اس وقت تک عہد کو پورا کرو کہ خدا تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ پھر جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو کفار کو جہاں پاؤ قتل کردو اور گرفت میں لے لو اور قید کردو اور ہر راستہ اور گزرگاہ پر ان کے لئے بیٹھ جاؤ اور راستہ تنگ کردو۔ پھر اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔(٢)

______________________

(١) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ١٩٠۔

(٢) سورۂ برائت، آیت ٥۔ ١.

۳۴۸

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مخصوص نمائندہ اور سفیر

ان آیات کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اسلام نے اس سورہ ٔ برائت کی ابتدائی آیتوں کی تعلیم حضرت ابوبکر کو دی اور ان کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ان آیتوں کو عید قربان کے دن حاجیوں کے درمیان پڑھ کر سنائیں حضرت ابوبکر مکہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ اسی دوران وحی الٰہی نازل ہوئی اور پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ یہ پیغام یا آپ خود پہنچائیں یا وہ شخص پہنچائے جو آپ سے ہو۔(١)

یہ حکم الٰہی نازل ہونے کے بعد آپ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ مکہ کی طرف روانہ ہو جائیں اور راستے میں ابوبکر سے آیتوں کو لے لیں اور پھر حاجیوں کے مجمع میں ان کو مشرکین سامنے پڑھ کر سنادیں۔ حضرت علی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخصوص اونٹ پر سوار ہوکر مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام ابوبکر تک پہنچایا ،انھوں نے آیتیں حضرت علی کے حوالے کردیں اور مایوس و دل ملول اور ناراض و غمگین ہوکر مدینہ واپس پلٹ آئے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر یہ عرض کیا کہ ''آپ نے مجھے اس کام کے لئے لائق اورشائستہ سمجھا لیکن کچھ وقت نہیں گزرا تھا کہ آپ نے مجھے اس عہدے سے معزول کردیا ۔ کیا اس بارے میں خدا کا کوئی پیغام آیا ہے؟''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''ہاں! خدا کا نمائندہ آیا ہے جس نے یہ کہا ہے کہ میرے علاوہ یا جو شخص مجھ سے ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص میں اس کام کی صلاحیت نہیں ہے''۔

اعلان برائت کا متن اورپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اَلٹی میٹم

حضرت علی مکہ میں داخل ہوئے او ردس ذی الحجہ کو سورۂ برائت کی ابتدائی آیات کو حاجیوں کے عام مجمع کے درمیان پڑھ کر سنایا ،(٢) اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا درج ذیل شرح کے ساتھ الٹی میٹم تمام حاجیوں کے گوش گزار کردیا۔

______________________

(١)''لایؤدیها عنک الا انت او رجل منک'' ۔

(٢) یہ واقعہ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص١٥٤؛ سیرۂ ابن ہشام، ج٤، ص ١٩٠؛ الکامل فی التاریخ ، ج٢، ص٢٩١؛ تفسیر مجمع البیان، ج٥، ص ٣؛ تذکرة الخواص، ص٥٧؛ البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٣٧ اور ٣٨ اور ج٧، ص٣٥٨؛ تفسیر روح المعانی، ج١، تفسیر سورۂ توبہ؛ تفسیر المنار، ج١٠، ص١٥٧۔

۳۴۹

١۔ خدا اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مشرکین سے بیزار اور دور ہیں۔

٢۔ آئندہ سال کسی مشرک کو حج کرنے کا حق نہیں ہے۔

٣۔ کسی شخص کو برہنہ ہوکر طواف کعبے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔(١)

٤۔ مشرکین کو آج سے لے کر چار مہینے تک یہ مہلت ہے کہ وہ اپنی پناہ گاہ اور اپنی سر زمین کی طرف لوٹ جائیں اور چار مہینے کے بعد کسی مشرک کیلئے کوئی عہد و پیمان نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو رسول اللہ سے عہد و پیمان رکھتے ہیں، ان لوگوں کا معاہدہ اس کی معینہ مدت تک اپنی پرانی شکل و صورت پر باقی رہے گا۔

٥۔ کوئی کافر جنت میں نہیں جاسکتا۔(٢)

آپ کے اس الٹی میٹم اور اعلان برائت کے بعد جب تمام مشرکین اپنے وطن واپس گئے تو انھوں نے ایک دوسرے کی ملامت کرنا شروع کردی اور یہ کہا کہ جب قریش ہی مسلمان ہوگئے تو اب ہم کیا کریں چنانچہ وہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔(٣) اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہیں آیا کسی شخص نے برہنہ ہوکر خانہء کعبہ کا طواف نہیں کیا۔(٤)

______________________

(١) برہنہ ہوکر طواف کرنا مشرکوں کی دینی پستی کا ایک نمونہ تھا اور یہ قریش کی انحصار طلبی کی بنا پر تھا ۔ اس سلسلے میں اس کتاب کے پہلے حصہ کی تیسری فصل میں ''پریشان کن'' دینی حالات کے بحث میں توضیح دی گئی ہے۔

(٢) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ الٹی میٹم اختصاریا تفصیل کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوا ہے:

سیرۂ ابن ہشام، ج٤، ص ١٩١؛ تفسیر المیزان، ج٩، ص١٦٣ اور ١٦٥؛ تفسیر المنار، ج ١٠، ص١٥٧؛ البدایہ والنہایہ، ج٧، ص ٥٨؛ الغدیر، ج٦، ص٣٤٧ اور ٣٤٨۔

(٣)طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص١٥٤؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٢٩١.

(٤) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص١٩١؛ ابن اثیر، البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٣٧۔

۳۵۰

نجران کے عیسائی نمائندوں کی انجمن سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مباہلہ٭

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس طرح دنیا کے مختلف بادشاہوں اوراہل حکومت کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے خطوط لکھتے تھے اسی طرح آپ نے ایک خط اسقف نجران کے پاس بھی لکھا اس خط میں آپ نے جناب ابراہیم و اسماعیل، اسحاق و یعقوب کے خدا کی حمد و ثنا کیساتھ اس سے (اور دوسرے عیسائیوں سے) یہ تقاضا اور خواہش کی کہ بندوں کی عبادت سے پرہیز کرتے ہوئے خداوند عالم کی اطاعت کریں. اور بندوں کی ولایت و بندگی سے نکل کر خدا کی بندگی کریں اور اس کی ولایت کے سامنے سر تسلیم خم کردیں یا ٹیکس ادا کرو۔ ورنہ جنگ کیلئے تیار رہیں(١) بعض روایات کے مطابق پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے سورۂ آل عمران کی ٦٤ ویں آیت(٢) کو بھی اپنے خط میں ذکر کیا تھا۔(٣)

______________________

٭نجران یمن کا ایک علاقہ تھا جو مکہ کی سمت تھا۔ (یاقوت حموی، معجم البلدان (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ج٥، ص٢٦٦)، عماد الدین ابوالفدائ( ٧٣٢۔ ٦٧٢) لکھتے ہیں کہ ''نجران ایک چھوٹا سا شہر ہے جو نخلستان سے بھرا پڑا ہے، معتدل راستہ کے ذریعے مکہ سے نجران تک کا فاصلہ تقریباً بیس دن میں طے ہوتا ہے۔ (تقویم البلدان، عبد المحمد آیتی، انتشارات فرہنگ بنیاد ایران، ١٣٤١، ص ١٢٧۔) یہ شہر چند صدیوں کے بعد وسیع و عریض ہوگیا تھا؛ کیونکہ زینی دحلان (١٣٠٤۔ ١٢٣١ھ۔ق)، لکھتے ہیں: کہ نجران ایک بڑا شہر ہے جو مکہ سے سات منزلوں پر ہے ۔ یمن کی سمت جس میں ٧٣ قریہ ہیں، سعودی عرب کے موجودہ نقشہ کے مطابق نجران اسی ملک کا ایک شہر ہے۔ جویمن کی سرحد کے پاس ہے۔

(١) ابن واضح، تاریخ یعقوبی (نجف: مکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص٧١۔٧٠؛ رجوع کریں: البدایہ والنہایہ (بیروت: مکتبة المعارف، ١٩٧٧ئ)، ج٥، ص٥٣؛ بحار الانوار، ج٢١، ص ٢٨٥؛ وثائق، محمد حمید اللہ، ترجمہ: ڈاکٹر محمود مہدوی دامغانی، ص٣٤؛ علی احمدی، مکاتیب الرسول، (ط٣، ١٣٦٣ش)، ج١، ص ١٧٥۔

(٢) ''قل یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا اللّٰه و لانشرک به شیئاً ولایتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰه فان تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون ۔''

(٣)سید بن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنه فیما یعمل مرة فی السنه، تحقیق: جواد الفیومی الاصفهانی (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات حوزۂ علمیہ قم، ط٢، ص١٣٧٧)، ج٢، ص٣١١۔

۳۵۱

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا خط ملنے کے بعدنجران کے پادری نے بزرگان نجران او روہاں کی مذہبی اور سیاسی شخصیتوں کو ایک جگہ جمع کیا تاکہ ان سے اس موضوع کے بارے میں گفتگو کرسکے، کیونکہ عیسائی علماء کے پاس بعثت پیغمبر کی قریب الوقوع علامتیں موجود تھیں، لہٰذا ان کی میٹنگ میں یہ طے پایا کہ ایک وفد مدینہ جائے جو قریب سے پیغمبر سے گفتگو کرے اور آپ کی نبوت کے دلائل کے بارے میں تحقیق کرے۔

نصارائے نجران کا یہ وفد جب مدینے پہونچا۔ تو اس میں اس وقت کی ان کی تینبڑی شخصیتیں بھی موجود تھیں جس میں خود اسقف (پاپ) بھی موجود تھا، پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے ان سے گفتگو کر کے ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی نیز ان کے سامنے قرآن مجید کی بعض آیتوں کی تلاوت بھی فرمائی۔ عیسائیوں نے کہا: ہم آپ سے پہلے ہی مسلمان تھے۔

حضرت نے فرمایا: تم لوگ جھوٹ کہتے ہو اسلام لانے سے تمہارے لئے تین چیزیں مانع ہیں (یعنی تم لوگوں کو تین چیزوں کی بنا پر مسلمان نہیں کہا جاسکتا) تم لوگ صلیب کی عبادت کرتے ہو، سور کا گوشت کھاتے ہو اور خدا کو صاحب اولاد سمجھتے ہو (یعنی جناب عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہو) ۔

اس کے بعد جناب عیسیٰ کی بندگی اورالوہیت کے بارے میں بحث شروع ہوگئی انھوں نے جناب عیسیٰ کے معجزات کو دلیل بنا کر، جیسے آپ مردوں کو زندہ کرتے تھے، غیب کی خبر دیتے تھے، مریضوں کو شفا عطا کرتے تھے۔ کیونکہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے لہٰذا آپ کو وہ لوگ خدا کہہ رہے تھے۔ جب کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م آپ کی بشریت اور آپ کے بشر ہونے کے بارے میں تاکید فرما رہے تھے، یہ بحث اور گفتگو کافی طولانی ہوگئی اور انھوں نے بالآخر جناب عیسیٰ کی بشریت کو قبول نہیں کیا، اسی دور ان خداوند عالم کی طرف سے پیغمبر پر یہ وحی نازل ہوئی۔

جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ خدا وہی عیسی بن مریم ہے وہ کافر ہوگئے ہیں(١) در حقیقت جناب عیسیٰ کی مثال خدا کے نزدیک خلقت آدم کی طرح ہے کہ جن کو خاک سے پیدا کیا او ران سے کہا ہو جاؤ تو وہ

______________________

(١) سورۂ مائدہ، آیت ١٧۔

۳۵۲

وجود میں آگئے۔٭(اگر جناب عیسیٰ کا بن باپ کے متولد ہونا ان کے فرزند خدا ہونے کی دلیل ہے تو جناب آدم تو اس منصب کے لئے زیادہ اولیٰ اور برتر تھے کیونکہ نہ ان کا کوئی باپ تھا اور نہ ماں۔ (جو کچھ جناب عیسیٰ کے بارے میں کہا گیا وہ) حق (ہے جو) آپ کے پروردگار کی طرف سے ہے پس آپ انکار کرنے والوں میں سے نہ ہوجائیں)،(١) پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزندوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔(٢)

ان آیات کے نزول کے بعد پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فرمایا: ''خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم اسلام قبول نہیں کرتے ہو تو میں تمہارے ساتھ ''مباہلہ''(٣) کروں۔''

انھوں نے کہا کہ ہم اس بارے میں غور کریں گے۔ اس کے بعد وہ اپنی اپنی قیام گاہ کی طرف واپس چلے گئے پھر آپس میں بیٹھ کر مشورہ کیا ان کے پادری اور وفد کے سردار نے ان کو اس خطرے کی طرف متوجہ کردیا کہ دیکھو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے رسول ہیں اوراگر تم ان سے مباہلہ کرو گے تو عذاب نازل ہو جائے گا لیکن اس کے ساتھیوں نے اس کی ایک نہ سنی، مباہلہ پراصرار کرتے رہے۔ آئندہ روز، مباہلے کا

______________________

٭طبری کے نقل کے مطابق سورۂ آل عمران کی تقریباً ستر (٧٠) آیتیں اسی مناسب سے نازل ہوئیں ہیں۔(اعلام الوری، ص١٢٩.)

(١)سورۂ آل عمران، آیت ٦٠.

(٢)سورۂ آل عمران، آیت٦١۔

(٣) حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج٣، ص٢٣٦۔ ٢٣٥؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص١٤٤؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢١، ص٣٤٧ (تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ) علامہ مجلسی نے عیسائیوں کے وفود کے ساتھ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مناظرہ اورملاقات کو بحار الانوار کی ٢١ ویں جلد میں صفحہ ٣١٩ سے ٣٥٥ تک مختلف کتابوں سے جمع کیا ہے۔

۳۵۳

وقت طے پایا۔ اس وقت ان کے پادری نے کہا دیکھو کل یہ دیکھنا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے کس طرح آتے ہیں اگر اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ آئیں تو ان سے مباہلہ نہ کرنا کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انھیں اپنی بات پر یقین و اعتماد ہے او روہ اس راستے میں صرف اپنی ہی جان نہیں بلکہ اپنے قریب ترین بچوں اور خاندان والوں کی جان کو بھی خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور اگر بالفرض وہ اپنے ساتھیوں اور اصحاب کے ساتھ آتے ہیں تو ان سے مباہلہ کرلو او ریاد رکھو کہ ان کی بات اور دعویٰ بے بنیاد اور بے دلیل ہے۔ یعنی وہ اپنے ساتھ ان لوگوں کو لاکر اپنے ظاہری عظمت و جلال کو ہمارے اوپر ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔(١)

آئندہ روز پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقررہ وقت پر اپنے ساتھ حضرت علی ، جناب فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین کو لیکر مباہلہ کے لئے روانہ ہوئے۔(٢)

پادری نے آپ کے ساتھ ان حضرات کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ جواب دیا گیا کہ پیغمبر کے ابن عم ہیں وہ آپ کی بیٹی ہیں اور یہ دونوں آپ کی بیٹی کے بیٹے ہیں۔(٣)

پادری نے کہا : میں اس وقت ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور روئے زمین پر ایک عیسائی بھی باقی نہ رہ جائے گا۔

______________________

(١) طبرسی، اعلام الوری، (تہران: دار الکتب، الاسلامیہ، ط٣)، ص١٢٩؛ مجمع البیان، ج٢، ص٤٥٢؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢١، ص ٣٣٧۔

(٢)حلبی، سیرة الحلییہ، ج٣، ص٢٣٦؛ زینی دحلان، السیرة النبیویہ والآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٤٤۔

(٣) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧٢؛ طبرسی، اعلام الوری، ص١٢٩۔

۳۵۴

پادری کی اس خطرے کی گھنٹی سے عیسائی مباہلہ کرنے سے باز رہے(١) اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے ٹیکس دینے کے لئے تیار ہوگئے جس کی تفصیل تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔(٢)

______________________

(١) حلبی، گزشتہ حوالہ، زینی دحلان، گزشتہ حوالہ؛ زمخشری، تفسیر الکشاف، (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص١٩٣؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، (التفسیر الکبیر) (بیروت: دار التراث الاسلامی)، ج٨، ص٨٢؛ سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج٣، ص ٢٣١ (تفسیر ثعلبی کی نقل کے مطابق)؛ قاضی بیضاوی، انوار التنزیل، ص٧٤۔

(٢) رجوع کریں: تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧٢؛ طبقات الکبری، ج٢، ص ٣٥٨؛ فتوح البلدان، ص٧٦۔ ٧٥. وثائق، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی، ص١٣٥۔ ١٣٤؛ السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٤٤؛ السیرة الحلبیہ، ج٣، ص٢٣٦؛ تفسیر کشاف، ج١، ص١٩١؛ التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، ج٨، ص١٨٢؛ المیزان فی تفسیران ، ج٣، ص٢٣٢۔

۳۵۵

تیسری فصل

حجة الوداع اور رحلت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حجة الوداع

حج؛ اسلام کا ایک عبادی اور سیاسی رکن ہے جس کے بانی حضرت ابراہیم ـ تھے، اس کتاب کے پہلے حصہ کی دوسری فصل میں ہم نے ظہور اسلام سے پہلے تک قدرت و طاقت اور قریش کے نفوذ اور ان کی دینی حالتوں کی بحث میں روشنی ڈالی ہے کہ قریش اور تمام مشرکین کس طرح حج اور عمرہ کیا کرتے تھے جو ایک واقعی حج نہیں تھا بلکہ انھوں نے حج ابراہیمی کو بالکل مسخ کر کے رکھ دیاتھا اور اس میں طرح طرح کی رسم و رواج اور خرافات کی آمیزش کردی تھی۔

یہاں پر یہ بھی بیان کرنا مناسب ہوگا کہ قریش اپنے کو ''سکان حرم اللہ'' (حرم نشین) ،(١) سمجھتے تھے اور چونکہ سرزمین ''عرفہ'' حرم سے باہر ہے اس لئے قریش حج کے زمانے میں مشرکین کے برخلاف، میدان عرفات میں نہیں جاتے تھے بلکہ وہ لوگ مزدلفہ ''مشعر'' میں وقوف (ٹھہرا) کرتے تھے۔(٢) اور وہاں سے منیٰ چلے جاتے تھے۔ دوسری طرف یثرب کے لوگ ''منات'' نامی بت کے

______________________

(١) ازرقی، اخبار مکہ، تحقیق: رشدی (قم: منشوراتالرضی، ط١، ١٤١١ھ۔ق)، ج١، ١٧٦؛ ابن عبد ربہ، العقدالفرید، (بیروت: دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ۔ق)، ج٣، ص٣١٣۔

(٢)واقدی، المغازی، ج٣، ص١١٠٢؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص١٤٣۔

۳۵۶

پاس جو یثرب اور مکہ کے راستے میں سمندر کے کنارے پر موجود تھا۔ وہاں سے احرام باندھتے تھے۔(١) اور جو لوگ وہاں مُحرِم ہوتے تھے وہ لوگ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرتے تھے۔(٢)

اسی طرح مشرکین حج کرتے وقت سنت ابراہیمی کے برخلاف غروب سے پہلے ہی میدان عرفات سے مزدلفہ کی طرف کوچ کرجاتے تھے(٣) ان تمام باتوں کی وجہ سے حج ابراہیمی کا چہرہ بالکل تبدیل ہوگیا تھا اور یہ عظیم الٰہی اور توحیدی عبادت، شرک اورخرافات کا پلندہ بن گئی تھی وجوب حج کی آیت(٤) نازل ہونے کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے پہلے سے اعلان شدہ پروگرام کے مطابق مدینہ او راطراف کے مسلمانوں کے ساتھ حج کی طرف روانہ ہوئے اور(٥) اس سفر میں آپ نے جناب ابراہیم کے حقیقی اورواقعی حج کی، عملی طور پر مسلمانوں کو تعلیم دی، حضرت، مناسک حج کے دوران مسلسل یہ تاکید فرماتے رہے کہ مسلمان مناسک حج کو آپ سے اچھی طرح سیکھ لیں کیونکہ شاید آئندہ سال آپ کو حج نصیب نہ ہو،(٦) آپ فرماتے تھے کہ مواقف اور مشاعر حج کو دھیان میں رکھو کیونکہ یہ جناب ابراہیم کی میراث ہے۔(٧)

______________________

(١)ہشام کلبی، الاصنام، ترجمہ: سید محمد رضا جلالی نایینی، ١٣٤٨ش، ص١٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص٨٨؛ محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، تصحیح محمد بھجة الاثری، (قاہرہ: دارالکتب الحدیث)، ج٢، ص٢٠٢۔

(٢) حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ٣١٧۔

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١١٠٤۔

(٤)سورۂ حج، آیت ٢٧۔

(٥)کلینی، الفروع من الکافی (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢١، ص٣٩٠۔

(٦)ابن سعد، الطبقات الکبری، ج٢، ١٨١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٣٢٧۔

(٧)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١١٠٤۔

۳۵۷

آپ نے اس سفر میں، مشرکین، خاص طور سے قریش کی بدعتوں سے حج کو پاک اور صاف کردیا باوجودیکہ آپ خود قریش سے تعلق رکھتے تھے آپ نے عرفات میں وقوف کیا اور وہاں سے مزدلفہ تشریف لے گئے۔(١) کیونکہ حکم خدا یہی تھا کہ'' پھر جہاں سے لوگ روانہ ہوتے ہیں وہیں سے آ پ بھی روانہ ہوں''(٢) اسی طرح آپ نے میدان عرفات سے سورج غروب ہونے کے بعد مزدلفہ کی طرف کوچ کیا۔(٣) یہ حج مختلف اسباب اورمناسبتوںکی وجہ سے'' حجة الوداع '''' حجة الاسلام '' اور ''حجة البلاغ'' کہا گیا۔(٤)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا تاریخی خطبہ

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مناسک حج کے دوران روز عرفہ، عرفات کے میدان میں حاجیوں کے جم غفیر میں ایک بہت ہی اہم اور تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا اور اس کے دوران بہت سے اہم مسائل پر روشنی ڈالی اور ان کے بارے میں بار بار تاکید او روصیت فرمائی اس میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جب آپ نے ذی الحجہ اور خاص طور سے اس روز عرفہ کی عظمت اور قداست کا تمام حاضرین سے اعتراف لے لیا توفرمایا:

اے لوگو! جب تک تم لوگ خدا سے ملاقات نہ کرلو تم سب لوگوں کے خون، اموال ناموس اور آبرو بالکل اس مہینے اور اس دن کی حرمت اور قداست کی طرح محترم ہیں اور ان میں سے کسی پر تجاوز کرنا حرام ہے آپ نے فرمایا: جاہلیت میں بہائے جانے والے خون کا بدلہ، اسلام کے زمانہ میں

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١١٠٢؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٤٣؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢١، ص٣٩٢۔

(٢)سورۂ بقرہ، آیت ١٩٩۔

(٣)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١١٠٤؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص٣٧٩۔

(٤)زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٤٣۔

۳۵۸

ناقابل اجراء ہے۔ اور ربا حرام ہے۔

اسی طرح آپ نے حرام مہینوں میں تبدیلی یا ان کے مؤخر کرنے کا سبب کفر میں افراط کو قرار دیا اور فرمایا کہ یہ بات بھی آج کے بعد ممنوع ہے۔(١)

عورتوں کے حقوق کے بارے میں یہ تاکید اور وصیت فرمائی: ''عورتوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کیونکہ وہ تمہارے ہاتھوں میں خدا کی امانتیں ہیں اور قوانین الٰہی کے ذریعہ تمہارے اوپر حلال ہوئی ہیں'' اس کے بعد فرمایا: ''حاضرین، غائبین تک میرایہ پیغام پہونچا دیں کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے اور تم مسلمانوں کے بعد کوئی امت نہ ہوگی''۔ اس کے بعد آپ نے جاہلیت کی رسم و رواج اورعقائد کو بالکل باطل اور کالعدم قرار دیدیا۔(٢)

عظیم فضیلت

جیسا کہ بزرگ محدثین اور مفسرین نے بیان کیا ہے کہ آیۂ مباہلہ کے نزول کے بعد پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے ساتھ چار لوگ مباہلہ کے لئے آئے تھے، یہ ان کے لئے بہت بڑی اور عظیم فضیلت ہے کیونکہ آیت اور واقعۂ مباہلہ نے یہ واضح کردیا کہ حسن و حسین رسول خدا کے فرزند اور حضرت علی آپ کا نفس ہیں اور آپ کی بیٹی جناب فاطمہ وہ تنہا خاتون ہیں جو مباہلہ میں تشریف لائیں آیت میں نساء کا مصداق آپ کے علاوہ او رکوئی نہیں ہو سکتا ۔

جناب عائشہ سے نقل ہوا ہے کہ روز مباہلہ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان چاروں افراد کو اپنی سیاہ (اور لکیر دار) عبا کے نیچے لیکر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( انما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیراً ) (٣)

اس بارے میں تمام علماء شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ مباہلہ کے دن یہی چاروں حضرات

______________________

(١) حرام مہینوں کی تبدیلی اوران کے ناموں میں الٹ پھیر اس کتاب کے پہلے حصہ میں ''اسلام سے پہلے عرب کی معاشرتی صورت حال، کی بحث میں''حرام مہینوں'' کے عنوان کے تحت کی ہے۔

(٢)ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص٢٥٢۔ ٢٥٠؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ص٣١٢؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج٢، ص١٨٦؛ واقدی، المغازی، ج٣، ص١١١١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢١، ص٣٨٠۔ اس بات کا خیال رہے کہ ابن سعداور واقدی کے کہنے کے مطابق پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ خطبہ میدان منی میں ارشاد فرمایا ہے۔

(٣)( سورۂ احزاب، آیت ٣٢)؛ زمخشری، گزشتہ حوالہ، ؛ فخر رازی نے عائشہ کا نام لئے بغیر، اس روایت کونقل کیا ہے اور یہ جملہ بڑھایاہے ''جان لو کہ یہ روایت اہل تفسیر و حدیث کے درمیان صحیح حدیث کی طرح ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے'' (تفسیر کبیر، ج٨، ص٨٢)؛ شبلنجی کہتا ہے: ''یہ روایت متعدد صحیح سندوںکے ساتھ نقل ہوئی ہے۔

۳۵۹

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے ساتھ آئے تھے اور کتب تاریخ و تفسیر و حدیث میں اس بارے میں بے شمار روایتیں نقل ہوئیہیں(١) اور تمام محققین نے ان حضرات کی اس عظیم فضیلت پر تاکید کی ہے۔

______________________

(١) منجملہ مندرجہ ذیل منابع:تفسیر الکشاف، ج١، ص١٩٣؛ مفاتیح الغیب، (تفسیر الکبیر)، ج٨، ص٨٢ ؛ الدر المنثور، (دار الفکر)، ج٢، ص ٢٣١ تا ٢٣٣؛ (کتاب الدلائل میں حاکم ، ابن مردویہ، ابونعیم کے نقل کے مطابق؛ ترمذی، ابن المنذر، بیہقی، در کتاب السنن، و ابن جریر)، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧١؛ ابوسعید واعظ خرگوشی، شرف النبی، ترجمہ: نجم الدین محمود راوندی (تہران: انتشارات بابک، ١٣٦١)، ص٢٦٢؛ قاضی بیضاوی، انوار التنزیل، (ط قدیم رحلی)، ص٧٤؛ نورالابصار، ص١١١؛ مناقب علی بن ابی طالب، ابن مردویہ، تدوین و ترتیب و مقدمہ: عبدالرزاق حرز الدین، ص٢٢٦۔ لیکن اس ضمن میں وسیع ترین اور تفصیلی بحث مرحوم سید بن طاووس کی کتاب ''الاقبال بالاعمال الحسنة فیما یعمل مرة فی السنہ'' ،ج٢، ص٣٤٨۔ ٣١٠؛ میں پائی جاتی ہے۔میدان مباہلہ میں اہلبیت کی موجودگی کے بارے میں ان تمام روایات کی حکایت کے باوجود بعض مورخین کی طرف سے تعصب کے تحت مباہلہ کی روایت میں خرد برد ہوئی ہے اور اپنے اپنے سلیقہ کے مطابق اس میں کمی اور زیادتی کی گئی ہے ان میں سے ، بلاذری، ابن کثیر اور شعبی نے حضرت علی کے نام کو حدیث مباہلہ سے حذف کردیا ہے (رجوع کریں: فتح البلدان، ص٧٥، البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٥٤؛ الدر المنثور، ج٢، ص ٢٣٢) اور حلبی و زینی دحلان نے عائشہ اور حفصہ کو میدان مباہلہ میں موجودگی کیلئے نامزد قرار دیتے ہوئے عمر سے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر عیسائیوں سے میں مباہلہ کرتا تو علی، فاطمہ، حسن، حسین، ٪ عائشہ اور حفصہ کو لیتا اور حاضر ہوتا ۔ (السیرةالحلبیہ، ج٣،ص٢٣٦.السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٤٥۔ ١٤٤؛ اور سیوطی نے ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مباہلہ کے لئے، ابوبکر اور ان کے لڑکوں کو ، عمر اور ان کے لڑکوں کو، عثمان اور ان کے لڑکوں کو اور علی اور ان کے لڑکوں کو دعوت دی!! (الدر المنثور، ص٣٣٣.)ان روایات کا جعلی اور تحریف شدہ ہونا اس قدر واضح ہے کہ توضیح کی ضرورت نہیں ہے ۔صرف بطور اشارہ یادہانی کراتے ہیں کہ اگر کلمہ ''نسائنا'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج کو بھی شامل ہوتا تو کیوں اور کس طرح صرف ان میں سے دو بیویاں( دو خلیفہ کی لڑکیاں) مباہلہ میں حاضر ہونے کی لیاقت رکھتی تھیں؟!

۳۶۰