تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 141215
ڈاؤنلوڈ: 3556

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 141215 / ڈاؤنلوڈ: 3556
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

سے واپس لے لی۔(١)

اس واقعہ کے بعد ایک زمانہ تک قبیلۂ بنی تمیم اس طرح کے اغوا شدہ افراد کو کسریٰ کی جانب سے قبول کرنے کو اپنے لئے بہت بڑا فخر سمجھتے تھے۔(٢) دوسری جانب سے چونکہ قبیلۂ ''بنی شیبان، عجلیوں اوریشکریوں'' کی مدد سے جنگ ''ذی قار'' میں خسرو پرویز پر فتح پاگیا تھا۔(٣) لہذا اس کامیابی کو بے انتہا اپنی عزت و سربلندی کا باعث سمجھتا تھا اوراس کے باوجود کہ وہ جیت گئے تھے۔

پھر بھی اس پر ان کو یقین نہیں آتا تھا اور ہر وقت اس کے بار ے میں فکر مند اور خوف زدہ رہتے تھے۔ اور ان کے اندر اتنی جرأت نہیں تھی کہ اس کامیابی اور فتح کو عربوں کی عجم پر کامیابی کہہ سکیں ۔ بلکہ اس کوایک اتفاقی حادثہ (نہ کہ عربوںکا افتخار) او رجنگ میں درگیر تین قبیلوں کا افتخار سمجھتے تھے۔ اس کامیابی کی بنا پر ان کی خود ستائی اس حد تک بڑھ گئی کہ ابو تمام(٤) شاعر نے قبیلۂ بنی تمیم کے مقابلہ میں

______________________

(١) آلوسی، بلوغ الارب، ج١، ص ٣١٣۔ ٣١١؛ محمد بن عبد ربہ، العقد الفرید (بیروت: دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٢، ص٢٠؛ ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروة عکاشہ (قم: منشورات الرضی)، ص ٦٠٨۔

(٢)احمد امین، ضحی الاسلام، ج١، ص١٩۔

(٣) اس جنگ کی ابتدا اس طرح سے ہوئی کہ خسرو پرویز حرہ کے حاکم نعمان بن منذر کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا لیکن نعمان نے اس کی مخالفت کی لہٰذا کسریٰ کی جانب سے اسے دربار میں بلاکر قید میں ڈال دیا گیااور قیدخانہ میں ہی وہ مرگیا اس وقت خسروپرویز نے ہانی بن مسعود شیبانی سے کہا کہ نعمان کے مال و دولت کو جواس کے پا س ہے اسے دیدے۔ اس نے دینے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں کسریٰ نے اپنے سپاہیوں کو بنی شیبان (جو کہ بکر بن وائل کا ایک خاندان تھا) سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا اور اس جنگ میں ایران کی فوج ہار گئی (ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت: دار اصادر ١٣٩٩ھ.ق، ج١، ص ٤٨٩۔ ٤٨٥، رجوع کریں مقدسی، البدء والتاریخ (پیریس: ١٩٠٣م)، ج٣، ص ٢٦.

(٤) ابو تمام حبیب بن اوس طائی۔

۶۱

(جو کہ ایک دن حاجب کی کمان کسریٰ کے پاس رکھنے کو افتخار سمجھتے تھے ) ابودلف عجلی(١) کی مدح میں اس طرح کے اشعار کہے:

اگر ایک دن تمیم اپنی کمان پر افتخار کرتے تھے اور اس کو اپنی عزت و شرف اور سربلندی کا باعث سمجھتے تھے تو تمہاری تلوروں نے جنگ ذی قار میں ایسے لوگوںکے تخت حکومت کو جو کہ کمان حاجب کو گروی رکھے ہوئے تھے، درہم و برہم کردیا۔(٢)

دور جاہلیت

ہم نے جزیرة العرب اور وہاں کے لوگوں کی بحث میں ظہور اسلام سے قبل کے دور کو، عصر جاہلیت، اوروہاں کے باشندوں کو، ''جاہل عرب'' کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہاں پر یہ بیان کرتا چلوں کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ''عصر جاہلیت'' کی اصطلاح ظہور اسلام کے بعد(قرآن کے الہام کے ذریعہ) اسلام سے قبل زمانہ کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان استعمال ہوتی تھی۔اور ایک خاص مفہوم رکھتی تھی۔(٣) کچھ معاصر مورخین نے اس دور کا تخمینہ ١٥٠ سال سے ٢٠٠ سال قبل از بعثت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لگایا ہے۔(٤)

______________________

(١) ابودلف قاسم بن عیسی عجلی

(٢) اذا افتخرت یوماً تمیم بقوسها

و زادت علی ما وطدت من مناقب

فانتم بذی قار، امالت سیوفکم

عروش الذین استرهنوا قوس حاجب

احمد امین، ضحی الاسلام، ج١، ص ١٩؛ مسعودی، التنبیہ او الاشراف، تصحیح: عبداللہ اسماعیل الصاوی (قم: مؤسسة نشر منابع الثقافیہ الاسلامیہ)، ص٢٠٩؛ جلال الدین ھمایی، شعوبیہ (اصفہان: کتابفروشی صائب، ٢٣٦٣)، ص ١٢۔ ١١

(٣)جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ص ٤٢۔ ٤١۔

(٤) عمر فروخ، تاریخ صدر الاسلام و الدولة لامویہ (بیروت: دار العلم للملایین، ط٣، ١٩٧٦ئ)، ص٤٠۔

۶۲

اگر چہ لفظ جاہلیت ''جہل'' سے نکلا ہے لیکن جہل یہاں پر علم کے مقابلہ میں نہیں ہے بلکہ عقل اور منطق کے مقابل میں ہے۔(١) یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میں جزیرة العرب کے لوگ (اس تشریح کی بنا پر جو دی گئی ہے) پڑھے لکھے نہیں تھے۔ اورعلم و دانش سے بے بہرہ تھے او راس زمانے کو ''عصر جاہلیت'' کہا جاتا تھا۔ نہ صرف یہ کہ جہالت کی بنا پر بلکہ غلط فکر اور عقل و منطق سے دور، بے بنیاد رسم و رواج، برے صفات، جیسے کینہ توزی، خود پسندی، فخر فروشی، اندھے تعصب کی بنا پر اسلام نے سختی کے ساتھ ان سے مقابلہ کیا ۔(٢)

شاید کہا جاسکتا ہے کہ یہاں پر جہل کا مفہوم ''نافہمی'' کے مانند ہے۔ جس کا لازمہ جہالت نہیں ہے بلکہ کج فکری، کم عقلی اور ہلکے دماغ کے افراد کو بھی جاہل کہہ سکتے ہیں۔(٣)

قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جاہلیت کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

١۔ اہل کتاب میں سے کچھ لوگوں کی بے جا، غلط توقعات اور امیدیں یہ تھی کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی مرضی کے مطابق مشورہ دیں، اسے ''حکم جاہلیت'' کہا گیاہے۔(٤)

______________________

(١) عمر فروخ کہتا ہے: جاہلیت اس جہل پر دلالت کرتی ہے جو حلم کے مقابلہ میں ہے نہ کہ جو علم کے مقابلہ میں ہے ۔ (تاریخ صدر الاسلام، ص٤٠).

(٢) رجوع کریں: طباطبائی، تفسیر المیزان، ج٤، ص ١٥٥۔ ١٥١، احمد امین، فجر الاسلام، ص ٧٨۔ ٧٤؛ آلوسی، بلوغ الارب، ج١، ص ١٨۔ ١٥؛ شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج١، ''العصر الجاہلی'' (قاہرہ دار المعارف، ط ٧)، ص ٣٩۔ اس مطلب کی تائید کے لئے ہماری کچھ احادیث ہیں جس میں جہل کو عقل کے مقابلہ میںقرار دیا گیا اور اصول کافی جیسی کتاب میں ''فصل العقل والجہل'' ، (ج١، ص ١١ کے بعد) میں اس طرح کی احادیث بیان ہوئی ہیں۔

(٣) جواد علی کہتے ہیں: ''میری نظر میں جاہلیت، بیوقوفی، کم عقلی، غرور، کند ذہنی، غصہ او رحکم ودستور الٰہی کے مقابلہ میں سر تسلیم خم نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے او ریہ وہ صفات ہیں جن کی اسلام نے مذمت کی ہے اس بنا پر یہ ویسے ہی ہے جیسے آج کوئی سفیہ اوراحمق گالی بکے اوراخلاق و تہذیب کا خیال نہ کرے تو ہم اس سے کہیں گے: اے نادان یہاں سے دور ہوجا! اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انسان جاہل ہے'' (المفصل فی تاریخ العرب فی الاسلام، ج١، ص ٤٠

(٤) ''افحکم الجاہلیة یبغون...'' سورۂ مائدہ، ٥،آیت ٥٠۔

۶۳

٢۔ خداوند عالم نے بت پرست عربوں کے اندھے تعصب کو ''جاہلیت کا تعصب'' قرار دیا ہے۔(١)

٣۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کو خبردار کیا گیاہے کہ اپنی گزشتہ جاہلیت کی رسم و رواج کے مطابق خود نمائی کے ساتھ گھر سے باہر نہ نکلیں۔(٢)

٤۔ خداوند عالم نے منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے ایک گروہ کو جنگ احد میں لشکر اسلام کے شکست کھا جانے کے بعد جن کے حوصلہ پست ہوگئے تھے اور تشویش و بدبینی کا شکار ہوگئے تھے۔ ان کی مذمت کی ہے کہ خدا کے بارے میں ''جاہلیت'' جیسا گمان رکھتے ہو۔(٣)

خداوند عالم نے بیان کیا ہے کہ جس وقت جنا ب موسیٰ نے اپنی قوم کو گائے کے کاٹنے کا حکم دیا تو ان کی قوم والوں نے کہا: ''کیا آپ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں؟ جناب موسیٰ نے فرمایا: خدا کی پناہ مانگتا ہوںکہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں''۔(٤)

امیر المومنین حضرت علی بت پرست عربوں کی ذلت و پستی اورتاریک زندگی کا نقشہ کھینچتے ہوئے ان کی جہالت کی بنا پر ان کی دماغی پستی کا ذکر فرماتے ہیں۔(٥)

______________________

(١) سورۂ فتح،٤٨( ِذْ جَعَلَ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی قُلُوبِهِمْ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّة) آیت ٢٦۔

(٢) سورۂ احزاب، ٣٣( وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الُْولَی ) آیت ٣٣۔

(٣) سورۂ آل عمران، ٣(...وَطَائِفَة قَدْ َهَمَّتْهُمْ َنْفُسُهُمْ یَظُنُّونَ بِاﷲِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ...) آیت ١٥٤۔

(٤) سورۂ بقرہ، ٢(قَالُوا َتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ َعُوذُ بِاﷲِ َنْ َکُونَ مِنْ الْجَاهِلِینَ ) آیت ٦٧۔

(٥)واستخفیتم الجاهلیة الجهلائ ۔ (صبحی صالح، نہج البلاغہ، خطبہ ٩٥)

۶۴

تیسری فصل

جزیرہ نمائے عرب اور ا سکے اطراف کے ادیان و مذاہب

ظہور اسلام کے وقت عرب کے اکثر پیشوا بت پرست تھے لیکن ملک عرب کے گوشہ و کنار میں مذہبی رہبروں کی پیروی کرنے والے اور مختلف ادیان جیسے عیسائیت، یہودیت، حنفیت، مانوی اور صابئی وغیرہ بھی موجودتھے۔ اس بنا پر عرب کے لوگ صرف ایک دین کی پیروی نہیں کرتے تھے اس کے علاوہ ہر ایک دین اور آئین، ابہام اور تیرگی سے خالی نہ تھا۔ اسی بنا پر ایک طرح کی سرگردانی اورحیرانگی ، ادیان کے سلسلے میں پائی جاتی تھی۔ ہم یہاں پر ہر ایک دین اور مذہب کے بارے میں مختصر توضیح دے رہے ہیں:

موحدین

موحدین یا دین حنیف(١) کے معتقد ایسے لوگ تھے جو مشرکین کے برخلاف بت پرستی سے بے زار، خداوند متعال اور قیامت کے عقاب و ثواب کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ان میں سے کچھ عیسائیت کے ماننے والے تھے۔ لیکن بعض مورخین، ان کو بھی دین حنیف پر سمجھتے ہیں و رقہ بن نوفل، عبد اللہ بن حجش، عثمان بن حویرث، زید بن عمر بن نفیل(٢) ، نابغۂ جعدی (قیس بن عبد اللہ) امیہ بن ابی ا لصلت، قس بن

______________________

(١) حنیف (جس کی جمع حنفاء ہے) اس شخص کو کہتے ہیں جودین ابراہیم کا پیرو ہو (طبرسی، مجمع البیان، شرکة المعارف، ج١، ص ٢١٦.)

(٢) محمد بن حبیب، (المحبر (بیروت: دار الافاق الجدیدہ)، ص ١٧١.

۶۵

ساعدہ ، ابوقیس صرمہ بن ابی انس، زہیرابن ابی سلمیٰ، ابوعامر اوسی (عبد عمرو بن صیفی) عداس (عتبہ بن ربیعہ کا غلام) رئاب شنی او ربحیرہ راہب جیسے افراد کو بھی دین حنیف کے معتقدین میں سمجھا جاتا ہے۔(١) ان میں سے بعض ،حکماء یا مشہو رشعراء تھے۔

البتہ وحدانیت کی طرف رحجان کا سبب ان کی پاک فطرت او رروشن فکر اوراس زمانے کے رائج ادیان کی بے رونکی اور اس سماج میں پائے جانے والے مذہبی خلا میں تلاش کرنا چاہیئے۔ یہ لوگ اپنی پاک فطرت کے ذریعہ خلاق عالم، مدبر جہاں کے معتقد تھے او رعقل و خرد سے دور ایک پست آئین جیسے بت پرستی کو قبول نہیں کر سکتے تھے۔ اور یہودی مذہب بھی صدیاں گزر جانے کے بعد اپنی حقیقت اور معنویت کو کھو بیٹھا تھا۔ اور روشن فکر افراد کے اندر پائی جانے والی بے چینی کو اطمینان اور سکون میں نہیں بدل سکتے تھے اسی بنا پر بعض الوہیت کے متلاشی افراد کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آئین حق کی تلاش میںوہ اپنے اوپر سفر کی صعوبتوں اور پریشانیوں کو روا جانتے ہوئے مسیحی اور یہودی علماء اور دوسرے آگاہ لوگوں سے بحث اور گفتگو کیا کرتے تھے۔(٢) اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کی نشانیوں کے سلسلے میں آسمانی کتابوں میں جواشارے ملتے ہیں ان کے بارے میں تحقیق کرتے تھے اور چونکہ معمولاًکسی نتیجہ تک نہیں پہنچتے تھے لہٰذا اصل وحدانیت کو قبول کرتے تھے۔ بہرحال وہ اپنی مذہبی عبادتوں اور رسومات کو کس طرح انجام دیتے، یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔

______________________

(١) مسعودی، مروج الذہب، ترجمہ: ابو القاسم پایندہ (تہران: ادارۂ ترجمہ و نشر کتاب، ط٢، ١٣٥٦)، ج١، ص ٦٨۔ ٦٠؛ ابن ہشام، سیرة النبی، تحقیق: مصطفی السقاء و معاونین، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٢٣٧؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی عبد الواحد (قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحبی، ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص ١٦٥۔ ١٢٢؛ محمد بن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: ڈاکٹر سہیل زکار (بیروت: دار الفکر، ط٢، ١٤١٠ھ.ق)، ص١١٦۔ ١١٥؛ محمد بن حبیب بغدای، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق: خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب، ط١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص ١٩۔ ١٣۔

(٢) ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٦؛ محمد ابوالفضل ابراہیم (اور معاونین)، قصص العرب، (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ،ط٥)، (قم: آفسیٹ منشورات الرضی، ١٣٦٤)، ج١، ص٧٢۔

۶۶

اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ دین حنیف کے پیرو کار، بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف ہدایت اور عرب سماج کی تبدیلی میں توحید کے مسئلہ میں کوئی رول نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ جیسا کہ مورخین نے صراحت کی ہے کہ وہ لوگ تنہائی اور انفرادی شکل میں زندگی بسر کرتے تھے اور غور و فکر میں لگے رہتے تھے اور کبھی بھی ایک گروہ یا ایک منظم فرقہ کی شکل میں نہیں تھے اور ان کے پاس کوئی ایسا دین و آئین نہیں تھا جس میں ثابت اور معیّن احکام بیان کئے گئے ہوں۔ ان لوگوں نے آپس میں طے کر رکھا تھا کہ لوگوں کے اجتماعی مراکز سے دور رہیں اور بتوں کی پرستش سے بچیں اس قسم کے لوگ اپنی جگہ پر مطمئن تھے ا ور خیال کرتے تھے کہ ان کی قوم والوںکے عقائد باطل ہیں اور اپنے کو تبلیغ و دعوت کی زحمت میں مبتلا کرنے کے بجائے صرف اپنے نظریات کا اظہار کرتے تھے۔ اور اپنی قوم والوں سے ان کے تعلقات ٹھیک ٹھاک تھے ان کے درمیان کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں رہتا تھا۔(١)

عیسائیت

دین عیسائیت کے ماننے والے بھی عرب کے بعض علاقوں میں پائے جاتے تھے۔ یہ دین، جنوب کی سمت حبشہ سے اور شمال کی سمت سوریہ سے اور نیز جزیرہ نمائے سینا سے عرب میں آیا تھا۔ لیکن اس سرزمین کو کوئی خاص ترقی نہیں ملی۔(٢) جزیرة العرب کے شمال میں عیسائیت،( قبیلۂ تغلب )کے درمیان(قبیلۂ ربیعہ کی ایک شاخ) اور(غسان)اور قبیلۂ ''قضاعہ'' کے بعض لوگوں کے

______________________

(١) جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب، قبل الاسلام (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ١٩٦٨ئ)،ج٦، ص ٤٤٩؛ حسینی طباطبایی، خیانت در گزارش تاریخ (تہران: انتشارات چاپخش، ١٣٦٦ش)، ج١، ص١٢٠؛ ابن ہشام، سیرة النبی، ج١، ص ٢٣٧۔

(٢) حسن ابراہیمی حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط٥، ٢٣٦٢)، ج١، ص٦٤۔

۶۷

درمیان رائج تھی۔(١- ٢)

قس بن ساعدہ، حنظلہ طائی اور امیہ بن صلت کو بھی عیسائیوں کے بزرگوں میں شمار کیا ہے ان میں سے کچھ لوگوں نے اجتماعی جگہوں پر جانا چھوڑ دیاتھا اور جنگلوں میں جاکر آباد ہوگئے تھے۔(٣)

یمن میں عیسائیت

یمن میں عیسائیت چوتھی صدی عیسوی میں داخل ہوئی ''فلیپ حِتّی'' جو کہ خود ایک عیسائی ہے ، لکھتا ہے: ''عیسائیوں کا پہلا گروہ عربستان کے جنوب میں گیا یہ خبر صحیح ہے یہ وہی گروہ تھا جس کو ''کنتانیتوس'' نے ٣٥٦ئ عیسوئی میں تئوفیلوس اندوس اربوس کی سرپرستی میں بھیجا اور یہ کام اس زمانہ کے سیاسی عوامل اور عربستان کے جنوبی علاقہ میں ایران اور روم کے نفوذ کی خاطر انجام دیاگیا تھا عدن میں ایک اور ملک حمیربان میں دو دوسرے کلیسوں کی بنیاد رکھی ، نجران کے لوگ ٥٠٠ئ میں ایک نئے دین کے گرویدہ ہوگئے تھے۔(٤)

______________________

(١) گزشتہ حوالہ، ص ٦٤؛ شہاب الدین الابشہی، المستطرف فی کل فن مستظرف (بیروت:داراحیاء التراث العربی)، ج٢، ص٨٨؛ ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشہ (دار الکتب، ١٩٦٠ئ)، ص ٦٢١؛ الامیر ابوسعید الحمیری، الحور العین، تحقیق: کمال مصطفی، (تہران: ١٩٧٢ئ)، ص١٣٦۔

(٢) عثمان بن حویرث اور ورقہ بن نوفل (بنی اسد سے، قریش کا ایک خاندان) کو ہم نے دین حنیف کے معتقدین میں سے ذکرکیا ہے و نیز امرء القیس کے لڑکوں (قبیلۂ بنی تمیم سے تھے) کو مسیحی بیان کیاہے (تاریخ یعقوبی، ج١، ص ٢٢٥)

(٣) احمد امین، فجر الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط٩، ١٩٦٤ئ)، ص٢٧۔

(٤) تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: انتشارات آگاہ، ط ٢، ١٣٦٦)، ص ٧٨؛ کچھ مورخین نے یمن میںعیسائیوں کے نفوذ کا آغاز ایک فیمیون نامی شامی زاہد کے اس علاقہ میں آکر اس کے کام کرنے کے وقت بتاتے ہیں (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥۔ ٣٢؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، (بیروت: داراحیاء التراث العربی)، ج٥، ص ٢٦٦؛ لفظ نجران، لیکن یہ افسانوی شکل رکھتا ہے اور جو کچھ حتی سے نقل ہوا ہے اس کے مطابق نہیں ہے۔

۶۸

ظہور اسلام کے وقت، طی، مذحج، بہرائ، سلیح، تنوخ، غسّان اور لحم قبائل یمن میں عیسائی تھے۔(١)

عیسائیوں کا سب سے اہم مرکز یمن میں ''نجران شہر'' تھا نجران ایک آباد او رپررونق شہر تھا وہاں کے لوگوں کا مشغلہ زراعت، ریشمی کپڑوں کی بناؤٹی، کھال کی تجارت او ر اسلحہ سازی تھا۔ یہ شہر تاجروں کے راستوں میں پڑتا تھا جو حیرہ تک پھیلا ہوا تھا۔(٢)

عیسائیت اس طرح سے یمن میں رائج ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ یمن میں ذونواس برسراقتدار آیااور اس نے عیسائیوں پر سختیاں کی تاکہ وہ اپنے آئین سے دست بردار ہو جائیں۔ جس وقت عیسائیوں نے مقابلہ کیا تو ان کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں جلا دیاگیا۔(٣)

آخرکار ذونواس، حکومت حبشہ کی مداخلت سے ٥٢٥ئ میں شکست کھا گیا او رعیسائی دوبارہ برسر اقتدا

حیرہ میں عیسائیت

ایک دوسراعلاقہ جہاں پر عیسائیوں نے نفوذ کیا وہ ''شہر حیرہ'' تھا جو عربستان کے شرق میں واقع تھا۔ یہ مذہب رومی اسیروں کے ذریعہ اس علاقہ میں آیا تھا۔ حکومت ایران ہرمز اول کے زمانے سے ایسی جگہوں پر مسلط ہوگئی جہاں کے رہنے والے رومی اسیر تھے ان میں سے کچھ اسیر حیرہ میں رہتے تھے۔

______________________

(١) تاریخ یعقوبی، (نجف: مکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص ٢٢٤

(٢) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦

(٣) مفسرین کاایک گروہ کہتا ہے کہ سورۂ ''بروج'' کی ٤ سے ٩ تک آیتیں مسیحیوں کے قتل عام کے بارے میں نازل ہوئی ہیں یا یہ واقعہ ان آیتوں کا ایک مصداق ہے (تفسیر المیزان، ج٢، ص ٢٥٧۔ ٢٥١؛ جیسا کہ خداوند عالم سورۂ بروج کی ٩۔ ٤، آیتوں میں ارشاد فرماتا ہے۔

(٤) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧.

۶۹

بعض کے عقیدہ کے مطابق سرزمین حیرہ میں عیسائیت کے نفوذ کا سرچشمہ یہی اسیر تھے۔ بہرحال عیسائی مبلغین حیرہ میں رہتے تھے اور اپنے مذہب کی نشر واشاعت میں مشغول رہتے تھے۔ عربوں کے بازاروں میں وعظ و نصیحت او رتبلیغ کرتے تھے۔ اور قیامت، جنت و جہنم کے مسئلہ سے آگاہ کرتے تھے ان کی محنتوں اورکوششوں کے نتیجہ میں ایک گروہ اس آئین کا گرویدہ ہوگیا اور حد ہے کہ ہند (نعمان پنجم کی بیوی) نے بھی مذہب عیسائیت کو قبول کرلیا اور اس نے ایک معبد بنایا جو ''معبد ہند'' کے نام سے مشہو ر ہوا اور طبری کے زمانے تک باقی رہا۔ حنظلہ طائی، قس بن ساعدہ اور امیہ بن صلت (جن کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں) حیرہ کے لوگوں میں سے تھے۔(١)

نعمان بن منذر (بادشاہ حیرہ ) نے بھی عدی بن زید کی تشویق پر آئین مسیحیت قبول کرلیا۔(٢)

قرآن مجید میں ایسی متعدد آیات موجود ہیں جن میں عیسائیوں کے افکار وعقائد کو بیان کرکے ان میں سے جو غلط اور ضعیف عقائد اوراعمال ہیں (خاص طور پر حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے بارے میں) جوان کے خیالات ہیں، ان کو بیان کیا گیا ہے۔(٣) اور یہ چیزیں بہت اہم گواہ ہیں کہ یہ دین جزیرة العرب میں نزول قرآن کے وقت موجودتھا۔

اس کے علاوہ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مباہلہ (جوکہ تاریخ اسلام میں مشہور ہے) بھی اس بات کا ثبوت ہے۔(٤)

______________________

(١) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ١٨، ٢٥، ٢٦، ٢٨.

(٢) محمد ابو الفضل ابراہیم (اور اس کے ساتھی) قصص العرب،ج١، ص ٧٣؛ احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧

(٣) سورۂ مائدہ، آیت ١٨، ٧٢، ٧٣؛ سورۂ نسائ، آیت ١٧١؛ سورۂ توبہ، آیت ٣٠؛ لیکن قرآن نے، عیسائیوں کو یہودیوں کے مقابلہ میں جو کہ مسلمانوں کے سخت دشمن تھے ان کا قریبی دوست بتایا ہے۔ (مائدہ، ٥، آیت ٨٢).

(٤) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، (مطبوعاتی اسماعیلیان، ط ٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج٣، ص ٢٢٨ و ٢٣٣).

۷۰

البتہ جیساکہ اشارہ ہوچکا ہے کہ مذہب عیسائیت بھی زمانہ کے گزرنے کے ساتھ اس کی اصالت اور معنویت کا نورماند پڑ گیا ہے اور وہ تحریفات کا شکار ہوگیاہے۔ لہٰذا اس زمانہ کے لوگوں کے فکری اور عقیدتی خلاء کو پر نہیںکیا جاسکتا اور ان کے مضطرب و پریشان قلب و ضمیر کو سکون نہیں بخشا جاسکتا ۔

دین یہود

دین یہودکا ظہور اسلام سے چند صدی قبل عربستان میں نفوذ ہواتھا اور بعض یہودی نشین علاقے ظہور میں آچکے تھے جن میں سے سب سے معروف ''یثرب'' تھا جسے بعد میں ''مدینہ'' کہا گیا ''تیمائ،(١) ''فدک''(٢) اور ''خیبر''(٣) بھی یہودی نشین علاقے تھے۔ یثرب کے یہودی تین گروہ میں بٹے ہوئے تھے:١۔ طائفہ ٔ بنی نظیر ٢۔ طائفہ ٔ بنی قینقاع ٣۔ طائفہ ٔ بنی قریظہ۔(٤)

______________________

(١) یاقوت حموی کے بقول، تیماء ایک چھوٹا سا شہر تھا جو شام او روادی القریٰ کے بیچ پڑتا تھا (معجم البلدان، ج٢، ص ٦٧)، او روادی القری مدینہ او رشام کے بیچ مدینہ کا ایک علاقہ تھا۔ وہی حوالہ، ج٥، ص ٣٤٥.) لہٰذا تیماء شام اور مدینہ کے بیچ پڑتا تھا ؛ مقدسی چوتھی صدی کا اسلامی دانشور ، کہتا ہے کہ ''تیمائ'' ایک ایسا قدیمی شہر ہے جوایک وسیع زمین میں کھجوروں کے درختوں سے پُر بے شمار باغات پانی کی فراوانی ابلتے ہوئے چشموں کی بنا پر دلکش اور حسین منظر جو کہ ایک لوہے کی جالی سے تالاب میں گرتاہے اور پھر باغوں میں جاتا ہے، میٹھے پانی کے کنویں بھی موجود تھے، جنگل میں واقع تھا لیکن اب اس کا اکثر حصہ ویران ہوگیا ہے'' (احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، ترجمہ: علی نقی منتروی (گروہ مولفین و مترجمین ایران)

(٢)فدک ایک گاؤں ہے جس کا فاصلہ مدینہ سے دو یا تین روز پیدل مسافت کے ذریعہ طے ہوتا ہے (معجم البلدان، ج٤، ص ٢٣٨)

(٣)خیبر ایک ایسا علاقہ ہے جو تقریباً ٩٦ میل (١٩٢کلو میٹر) مدینہ کے شمال کی جانب (شام کی طرف) پڑتا ہے کہ جہاں سات قلعے کاشتکاری کی زمینیں اور بہت سے کھجور کے باغات تھے (معجم البلدان، ج٢، ص ٤٠٩) اس کا فاصلہ مدینہ سے اس سے بھی کم او رزیادہ بیان کیا گیا ہے (ابوالفداء تقویم، ترجمہ: عبد المحمد آیتی (انتشارات بنیاد فرہنگی ایران)، ص ١٢٣۔

(٤)حسن ابراہیم حسن، گزشتہ حوالہ، ص ٦٤.

۷۱

مدینہ میں مذکورہ تین قبیلوں کے علاوہ دو قبیلے اوس او رخزرج بھی رہتے تھے جو تیسری صدی عیسوئی کے نزدیک، یمن سے آئے تھے۔ یہ دونوں قبیلے یثرب میں یہودیوں کے مقیم اور مستقر ہو جانے کے بعد وہاں مستقر ہوئے تھے۔ یہ دو قبیلے بت پرست تھے اور یہودیوں کے پہلو میں رہنے کی بنا پران میں سے کچھ لوگ، دین یہود کے گرویدہ ہوگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ طائف میں بھی کچھ یہودی رہتے تھے جویمن او ریثرب سے نکالے گئے تھے۔(١)

یہودی عربستان کے جس علاقہ میں رہتے تھے وہاں اپنی مہارت کی بنا پر زراعت میں مشہور تھے یہ لوگ مدینہ میں بھی زراعت کے علاوہ دوسرے ہنر کی وجہ سے جیسے آہنگری، رنگریزی، اوراسلحوں کے بنانے کی بنا پر مشہور ہوگئے تھے۔(٢)

دین یہود کے ماننے والے قبیلۂ حمیر ،بنی کنانہ، بنی حارث بن کعب، کندہ(٢) غسّان و جذام میں بھی پائے جاتے تھے۔(٣)

یمن میں یہودی

یہودی جس علاقہ میں رہتے تھے اپنے عقائد و افکار او رتوریت کی تعلیمات کو ترویج دیتے تھے۔ یمن بھی ایک زمانہ تک یہودیوں کے زیر نفوذ رہا ہے اور ذونواس (بادشاہ یمن ) نے جو کہ یہودی ہوگیاتھا۔

______________________

(١) بلاذری، فتوح البلدان (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ١٣٩٨ھ.ق)، ص٦٧۔

(٢) احمد امین، فجر الاسلام، ص ٢٤

(٢) ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشہ(قم: منشورات الرضی)، ط١، ص ١٤١٥ھ.ق)، ص ٦٢١؛ الامیر ابو سعید بن نشوار الحمیری، الحور العین، تحقیق: کمال مصطفی (تہران: ١٩٧٢.)، ص ١٣٦، کتاب المستطرف ، ج٢، ص ٨٨، پر قبیلۂ حمیر کا نام (نمیر) لکھا ہوا ہے جو غلط چھپا ہے۔

(٣) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ٢٥٧.

۷۲

عیسائیوں کو کچل کر، دین یہود کے قانونی دین ہونے کا اعلان کردیاتھا۔ بعض مورخین کے عقیدے کے مطابق ذونواس کا یہ اقدام مذہبی جذبہ کے تحت نہیں تھا بلکہ قومی اور وطن پرستی کے جذبہ کی خاطر تھا۔ اس اعتبار سے کہ نجران کے عیسائی ملک حبشہ سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور حکومت حبشہ، نجران میں عیسائیوں کی حمایت کو مدعا بناکر ، یمن کے امور میں مداخلت کرتی تھی اور اس طرح وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔ ذونواس اوراس کے طرفداروں نے چاہا کہ وہاں پر عیسائیوں کو کچل کر، حبشہ کو اس علاقہ اورمرکز سے محروم کردیں۔ اسی بنا پر اس نے عیسائیوں کا قتل عام شروع کردیا۔

نجران کے عیسائیوں کے قتل عام کے بعد ان میں کا ایک آدمی بچ گیا تھا جو بھاگ کر حبشہ پہنچا اوروہاں کے بادشاہ سے مدد مانگی ۔ جس کی بنا پر دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ گئی اور ذونواس ٥٢٥ئ میں شکست کھا گیا او رنجران کا علاقہ دوبارہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ تک عیسائیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔(١)

صابئین

بعض مورخین اس گروہ کے آغاز کو ''سلطنت تہمورث'' کے زمانہ میں بتاتے ہیں او راس کا بانی ''بوذاسف'' کو جانتے ہیں۔ ابوریحان بیرونی (٤٤٠ھ۔ ٣٦٠ھ) اس گروہ کے آغاز کی تاریخ بیان کرنے کے بعد کہتا ہے: ''ہم ان کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتے تھے کہ وہ خداوند عالم کی وحدانیت کے قائل ہیں اوراس کو ہر طرح کے صفات بد سے منزہ اور بے عیب جانتے ہیں جیسے وہ کہتے ہیں :خدا محدود نہیں ہے، دکھائی نہیںدیتا ، ظلم نہیں کرتا، تدبیر عالم کو فلک اور آسمانی کہکشاؤوں کی طرف نسبت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ حیات افلاک اوراس کے نطق، شنوائی اور بینائی کے معتقد

______________________

(١) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣، ٢٤ اور ٢٧؛ رجوع کریں: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٧؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٥، ص ٢٦٦

۷۳

ہیں،انوار کی تعظیم کرتے ہیں۔ یہ لوگ ستاروں پر عقیدہ رکھنے کی بنا پر، ان کی حرکتوں سے زمین کے مقدرات کو مربوط جانتے تھے اور ان کے مجسموں کو اپنے معبد میں نصب کرتے تھے ۔ جیسا کہ انھوں نے سورج کے مجسمہ کو بعلبک میں، چاند کے مجسمہ کو حران میں اور زھرہ کے مجسمہ کوایک قریہ میں نصب کر رکھا تھا۔(١)

صابئین کامرکز ''حران''(٢) شہر تھا۔ یہ دین ایک زمانہ میں روم، یونان، بابل اوردنیا کے دوسرے علاقوں تک پھیل گیاتھا۔(٣)

قرآن مجید نے ان میں سے تین مقامات کاذکر کیا ہے۔(٤) یہ فرقہ ہمارے زمانے میں ختم ہوتا جارہا ہے ان میں سے کچھ لوگ صرف خوزستان(٥) ، اور عراق(٦) میں باقی رہ گئے ہیں۔(٧)

______________________

(١) الآثار الباقیہ، ترجمہ: اکبر دانا سرشت، (تہران: ط ٣، ١٣٦٣)، ص ٢٩٥۔ ٢٩٤.

(٢) حران، دجلہ اور فرات کے درمیان ایک بڑا شہر تھا لیکن آج ویران ہوگیاہے اورایک کھنڈر دیہات میں تبدیل ہوگیاہے .صدر اسلام میں یہ شہر آباد تھا اور اور جید علماء یہاں سے پیدا ہوئے ہیں (معجم البلدان، ج٢، ص ٢٣٦۔ ٢٣٥؛ تقویم البلدان، ص ٣٠٧۔ ٣٠٦؛ محمد معین: فرہنگ فارسی، (تہران: امیر کبیر)، ج٥، ص ٤٥٧.

(٣) طباطبائی، تفسیر المیزان، ج١٠، ص ٢٧٩.

(٤) سورۂ بقرہ، ٢، آیت ٦٢؛ سورۂ مائدہ،٥، ٦٩؛ سورۂ حج، ٢٢، آیت ١٧.

(٥)دریائے کارون کے ساحلی علاقے، اہواز،خرم شہر، آبادان، شادگان اور دشت میشان ہیں)

(٦) بغداد میں دجلہ او رفرات کے ساحلی علاقے حلہ، ناصریہ، عمارہ، کوت، دیالی، کرکوک ،موصل ،رمادی ،سلیمانیہ ، اور کربلا ہیں۔

(٧) کلمۂ صابئی کے ریشہ اوراصل کے سلسلہ میں اور کیا یہ عربی کلمہ ہے یا عبری؟ اور اس کے معنی کیا ہیں اور نیز صابئیوں کے عقائد اور یہ کسی نبی کے ماننے والے ہیں ، رجوع کریں آلوسی، بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٢٨۔ ٢٢٣؛ یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشری، (تہران: موسسہ مطبوعاتی فراہانی، ط ٢، ١٣٤٦)، ص ٤٣٢۔ ٤٣١؛ شہرستانی، الملل و نحل، تحقیق: محمد سید گیلانی (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ٣٣٠، ج٢، ص ٥.

۷۴

مانی دین

دین زردشتی، مزدکی اور مانوی کا منبع او رمرکز ایران رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادیان ظہور اسلام سے قبل بھی حجاز میں موجودتھے یانہیں؟ اس بار ے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض معاصر مورخین کا کہنا ہے کہ یہ ادیان ظہور اسلام سے قبل حجاز میں موجودتھے لیکن تاریخی دستاویزات اس علاقہ میں صرف دین مانوی کے وجود کی تصدیق کرتی ہیں۔

یعقوبی لکھتا ہے: عربوں کا ایک گروہ دین یہودیت کا گرویدہ ہوگیاتھا اور ایک گروہ دین عیسائیت کو ماننے لگا تھا اور ایک گروہ جو زندیق ہوگیاتھااس نے دین ثنوی (دوگانہ پرستی) کو اپنا لیا تھا۔(١)

اگرچہ کلمۂ ''زندیق'' ملحد اور منکر خدا کے معنی میں استعمال ہوتا تھا لیکن صاحبان نظر کے عقیدے کے مطابق، دراصل ایک ایسا فرقہ تھا جو دین مانوی کی پیروی کرتا تھا اور پھر یہ کلمہ تمام مانویوں کے لئے بولا جانے لگا۔ اس رو سے کافر اور دھری اس میں شامل ہوگئے اسی وجہ سے قدیم حوالوں میں ''زندقہ'' سے مراد دین مانی ہے(٢) اور دین مانوی عیسائیت اور یہودیت سے مل کر بنا ہے۔(٣)

______________________

(١) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ٢٢٦.

(٢) احمد امین، فجر الاسلام، ص ١٠٨؛ داؤد الہامی، ایران و اسلام (قم: مرکز نشر جدید)، ص ٣٩٢۔ بیرونی اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ مزدکیان زند، کی پیروی کرنے کی وجہ سے زنادقہ کہے جاتے ہیں۔ لکھتاہے: ''مانویان کو بھی مجازی طور سے زنادقہ کہتے ہیں۔ اور فرقہ باطنیہ کو بھی اسلام میں ایسے کہتے ہیں: کیونکہ یہ دو گروہ خداوندعالم کو بعض صفات سے متصف کرنے میں او رنیز ظواہر کی تاویل کرنے میں مزدکیہ کے مشابہ ہیں'' (الآثار الباقیہ، ترجمہ: اکبردانا سرشت، ص ٣١٢)

عبد الحسین زرین کوب اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: ''لفظ زندیق کہ جس کی اصل زندیک پہلوی ہے، جوآج کل تقریباً مسلم سمجھا جاتاہے، اسلامی عہد میں اس سے قطع نظر کہ یہ مانوی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تمام ایسے افراد جو ایک طرح سے شک و الحاد اور بے اعتقادی میں متہم تھے ان کو بھی زندیق کہا جاتا ہے؛ ( نہ شرقی نہ غربی، انسانی، ص ١١٠)۔

(٣) شہرستانی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٤، ایک مستشرق کہتا ہے: اگر دین مانی کوایسا زردشتی دین سمجھیں جس میں مسیحیت کی آمیزش ہوئی ہے تو یہ کلام حقیقت سے بہت قریب ہے بہ نسبت اس کے اسے ایسا عیسائی دین سمجھیں جس میں زردشت کی آمیزش ہوئی ہے۔ (احمد امین، فجر الاسلام، ص ١٠٤)، مانی او راس کے دین کے بارے میں رجوع کریں: عبد الحسین زرین کوب، نہ شرقی نہ غربی، انسانی، ص ٧٦۔ ٧٢۔

۷۵

مورخین کے ایک گروہ نے وضاحت کی ہے کہ زندقہ کا قریش کے درمیان وجود تھااور اس کو، انھوں نے اہل حیرہ سے اپنایا تھا۔(١) اور اس دین کو حیرہ سے لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مراد ''دوگانہ پرستی'' ہے کیونکہ حیرہ، ایران کا پڑوسی اوراس کے زیر اثر تھا اورادیان ایرانی جنکی بنیاد دوگانہ پرستی پر قائم تھی، وہاں تک پہنچ گئے تھے۔

ستاروں کی عبادت

زمانۂ جاہلیت میں جزیرة العرب میں رہنے والوں کا ایک گروہ، بہت سارے دوسرے علاقہ کے لوگوں کی طرح اجرام آسمانی جیسے سورج، چاند اور بعض ستاروں کی عبادت کرتا تھا۔ اور انہیں بہت ہی

______________________

(١) ابن قتیبہ، المعارف (قم: منشورات الرضی، ط١، ١٤١٥ھ.ق)، ص ٦٢١؛ الابشہی، المستطرف فی کل فن مستظرف، ج٢، ص ٨٨؛ ابن رستہ، املاق النفسیہ، ترجمہ: حسین قرہ چانلو، (تہران: امیر کبیر، ط١، ١٣٦٥)، ص ٢٦٤؛ احمد امین، فجر الاسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ص ١٠٨؛ محمد بن حبیب بغدادی کے بقول، قریش سے صخر بن حرب (ابوسفیان) عقبہ بن ابی معیط، ابی بن خلف، ابوعزہ (عمربن عبداللہ جمحی) نضر بن حارث، نبیہ و منبہ (مجاج بن عامر سہمی کے لڑکے) عاص بن وائل سہمی، اور ولید بن مغیرہ مخرومی، اس گروہ میں تھے۔ (المنمق فی اخبار قریش) ص ٢٨٩۔ ٢٨٨؛ المحبر ص ١٦١)، لیکن اسلام کے مقابلہ میں ان کا کوئی بھی کلام یا موقف اس مطلب کی تصدیق نہیں کرتا ہے، بلکہ شواہد و قرائن سے ان کی بت پرستی کا پتہ چلتا ہے ۔ عبد الحسین زرین کوب، زندیق و زنادقہ کی بحث میں لکھتے ہیں : ''... لفظ زندقہ جیسا کہ ثعلب سے نقل کیا گیا ہے دہریہ کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ دہریہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو حوادث اور امور عالم کوایک صانع مختار کی طرف نسبت دینے کے منکر ہوئے ہیں قریش کے زنادقہ کے نام ابوسفیان ، عقبہ بن معیط، نضر بن حارث، عاص بن وائل او رولید بن مغیرہ بھی انھیں میں سے ہیں جودرحقیقت اس طرح کا عقیدہ رکھتے تھے۔ قریش کے بزرگوں اور اہم شخصیتوں کی خبروں اوران کے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ زندقہ ان کو کہا گیا ہے جو صانع عالم، حشر و حیات، عقبیٰ کے عقیدہ کا انکار کرتے تھے۔ (نہ شرقی نہ غربی، انسانی ، ص ١٠٧)۔

۷۶

طاقتور اور قوی شے سمجھتا تھا۔ جن کے ذریعہ دنیا اور دنیا والوں کے انجام کا پتہ چلتا تھا مثلاً قبیلۂ خزاعہ او رحمیر، ستارۂ ''شعریٰ'' کو جو کہ ایک ثابت او ردرخشان ستارہ ہے اس کی پرستش کرتے تھے اور اسی طرح ابوکبشہ جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مادری اجداد میں سے تھے، وہ اس ستارہ کی پرستش کرنے والوں میں سے تھے۔(١)

قبیلۂ طیٔ کے کچھ لوگ ''ستارۂ ثریا'' کی پرستش کیا کرتے تھے۔(٢) افلاک اور ستاروںکی پرستش کا مسئلہ اتنا رائج ہوگیا تھاکہ عرب کے افسانوں ادبیات اور خرافات میں اس کا ذکر ملتا ہے۔(٣) صابئین جو کہ سورج اور چاندکی پرستش کیا کرتے تھے ان کے علاوہ دوسرے تمام بت پرست بھی ان دو آسمانی موجود کو مقدس سمجھتے تھے۔(٤)

قرآن مجیدنے آسمانی اجرام کی پرستش کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی پرستش کی مذمت کی ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ یہ محدود موجودات، خود پروردگار عالم کی مخلوق اوراس کے فرمان اورارادہ کے تابع ہیں اور بارگاہ پروردگار میں سجدہ ریز او رخاضع ہیں۔ اس وجہ سے وہ خداوند عالم کی جانب سے بشر کے لئے دلیل اور راہنما قرار دیئے گئے ہیں کیونکہ یہ ساری چیزیں اس کی قدرت او رعلم کی نشانیاں ہیں۔ ''اور اسی نے تمہارے لئے رات اور دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو مسخر کردیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں بیشک اس میں بھی صاحبان عقل کے لئے قدرت کی بہت ساری نشانیاں پائی جاتی ہیں''۔(٥)

اور اسی خدا کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور آفتاب و ماہتاب ہیں لہٰذا آفتاب و ماہتاب کو

______________________

(١) طباطبائی، تفسیر المیزان، ج١٩، ص ٤٩.

(٢) آلوسی، بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٤٠.

(٣) رجوع کریں: وہی حوالہ، ص ٢١٥، ٢٢٠، ٢٣٠، ٢٣٧، ٢٣٩، ٢٤٠، اسلام و عقائد اور آراء بشری، ص ٢٩٧۔ ٢٩٥۔

(٤) طباطبائی ، گزشتہ حوالہ، ج١٧، ص ٣٩٣۔

(٥) سورہ نحل، ١٦، آیت ١٢.

۷۷

سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اگر واقعاً اس کے عبادت کرنے والے ہو''(١) اور وہی ستارہ شعریٰ کا مالک ہے''(٢)

یہ آیات اس بات کی گواہ ہیں کہ بعثت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں ان اجرام کی پرستش اور عبادت رائج تھی۔

جنات اور فرشتوں کی عبادت

اس بات سے قطع نظر کہ ہم نے سابق میں مختلف ادیان کے ماننے والوں کا تذکرہ کیا ہے، عرب میں ایسے گروہ بھی موجود تھے جو جِن اور فرشتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ عبد اللہ بن زبعری (جو کہ مکہ کا ایک سردار تھا) کہتا ہے ہم لوگ فرشتوںکی عبادت کرتے تھے۔ یہودی، عزیر کی اور عیسائی عیسیٰ کی پرستش کرتے تھے، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھیں کیا ہم سب ان معبودوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے؟۔(٣)

بنو ملیح جو قبیلۂ خزاعہ کی ایک شاخ تھی وہ جن کی عبادت کرتے تھے(٤) ، کہتے ہیں جن لوگوں نے سب سے پہلے جن کی پرستش کی وہ یمن کے لوگ تھے اس کے بعد قبیلۂ بنی حنیفہ تھا اور پھر آہستہ آہستہ عربوں میں یہ بات رائج ہوگئی۔(٥) بعض مفسرین کے کہنے کے مطابق ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ خداوند عالم نے جنات کے ساتھ شادی کی ہے اور فرشتے اس کی اولاد ہیں۔(٦)

خداوندعالم نے قرآن مجید میں جن اور فرشتوںکی عبادت اور ان کے بارے میں غلط اعتقاد کی مذمت فرمائی ہے۔ اور ان لوگوں نے جنات کو خدا کا شریک بنادیا ہے حالانکہ خدا نے انھیں پیدا کیا

______________________

(١) سورۂ فصلت، ٤١، آیت ٣٧.

(٢) سورۂ نجم، ٥٣،آیت ٤٩.

(٣) ابن ہشام، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٣٨٥۔

(٤) ہشام بن محمد کلبی، کتاب الاصنام، ترجمہ: سید محمد رضا جلالی نائینی، تہران: ١٣٤٨، ص ٤٢.

(٥) طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٢.

(٦) طبرسی، مجمع البیان، شرکة المعارف الاسلامیہ، ١٣٧٩ھ.ق، ج٨، ص ٤٦.

۷۸

ہے۔(١) اور جس دن خداسب کو جمع کرے گا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے۔ تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز او رہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اوران کی اکثریت انھیں پر ایمان رکھتی تھی۔(٢)

یہ بالکل واضح ہے کہ یہ سوال، استفہامی پہلو رکھتا ہے اور اس سے مجہول کا پتہ نہیں چل سکتا ہے کیونکہ خداوند عالم تمام چیزوں سے واقف ہے بلکہ اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ حقائق فرشتوں کی زبان سے بیان ہوں تاکہ ان کی عبادت کرنے والوں کا سرجھکا رہے اور فرشتوں کے جواب سے بھی بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اس بات سے راضی نہیں تھے کہ انسانوں کا ایک گروہ ان کی پرستش کرے۔ لیکن جنّات اس بات سے راضی تھے۔

بہرحال ان دو ناقابل دید موجودات کی پرستش، ثنوی آئین سے مشابہت رکھتی تھی کیونکہ وہ لوگ جنات کو باعث شر و اذیت اور فرشتوںکو سرچشمۂ نور اور رحمت و برکت سمجھتے تھے بعض عرب،رات کے وقت جب کسی درہ میں داخل ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ اس سرزمین کے احمقوں کے شر سے ان کے بزرگ اور رئیس سے پناہ مانگتا ہوں۔(٣) اور عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ بات کہنے سے ان کا بڑا جِن، احمقوں کے شر سے ان کو محفوظ رکھتا ہے ۔ اس بات کی تصدیق قرآن میں کلام خدا کے ذریعہ ہوئی ہے۔ ''اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات کے بعض لوگوں کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انھوں نے گرفتاری میں اوراضافہ کرلیا''۔(٤)

______________________

(١) سورۂ انعام، ٦،آیت ١٠٠.

(٢) سورۂ سبا ، ٣٤،آیت ١٤۔ ٤٠.

(٣)اعوذ بعزیز هذا الوادی من شر سفهاء قومه (آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٣٢.

(٤)و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقاً'' سورۂ جن،٧٢، آیت٦

۷۹

شہرمکہ کی ابتدائ

شہر مکہ کی تاریخ حضرت ابراہیم کے زمانے سے ملتی ہے کہ جب آپ حکم خدا سے اپنی زوجہ محترمہ ہاجرہ اور اپنے شیر خوار فرزند جناب اسماعیل کو شام لیکر آئے اور انھیں ایک خشک اور بے آب و گیاہ سرزمین میں لاکر ٹھہرا دیا۔(١) اور حکم و ارادۂ الٰہی سے آب زمزم ان دونوںکے لئے جاری ہوا(٢) اس کے بعد جنوب کے قبائل میں سے قبیلۂ جرہم (جو کہ قحطی اور خشک سالی کی بنا پر شمال کی جانب حرکت میں تھا) اس جگہ جاکر بس گیا۔(٣) جناب اسماعیل جوان ہوئے اور جرہمی قبیلہ کی لڑکی سے شادی کی.(٤) جناب ابراہیم خدا کی جانب سے مامور ہوئے کہ اپنے فرزند اسماعیل کی مدد سے کعبہ کی بنیاد ڈالیں(٥) چنانچہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ شہر مکہ کا قیام عمل میں آیا اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ نسل اسماعیل وہاں بڑھنے لگی۔

دین ابراہیم کی باقی ماندہ تعلیمات

جناب عدنان، عرب عدنانی ( عرب مکہ)کے جد اعلی اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیسویں جد، جناب اسماعیل کی نسل سے تھے۔ اور حجاز، نجد، تہامہ میں رہنے والے عدنانی جناب اسماعیل(٦) کی اولاد، میں سے

______________________

(١) سورۂ ابراہیم، ١٤،آیت ٣٧.

(٢) ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٥٥ و ١١٦؛ ازرقی، تاریخ مکہ، تحقیق: رشدی الصالح ملحس (قم: منشورات الرضی، ١٣٦٩)، ج١، ص٥٥؛ تاریخ یعقوبی (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٤٨ھ.ق)، ج١، ص١٨؛ ابن رستہ، الاعلاق النفیسہ، ترجمہ: حسین قرہ چانلو (تہران: امیر کبیر، ١٣٦٥)، ص ٥١۔

(٣)ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٧؛ مسعودی، مروج الذہب (بیروت: دار الاندلس، ط١، ١٩٦٥.)، ج٢، ص ٢٠.

(٤) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ١٩؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٧.

(٥)سورۂ بقرہ،٢، آیت ١٢٧.

(٦) ایک تفسیر کی بنیاد پر سورۂ حج کی ٧٩ ویں آیت ''ملة ابیکم ابراہیم'' میں اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے (طبرسی، مجمع البیان، ج٧، ص ٩٧.)

۸۰