نظارۂ حرم

نظارۂ حرم0%

نظارۂ حرم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 93

نظارۂ حرم

مؤلف: صادق اندوری
زمرہ جات:

صفحے: 93
مشاہدے: 28740
ڈاؤنلوڈ: 1124

تبصرے:

نظارۂ حرم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28740 / ڈاؤنلوڈ: 1124
سائز سائز سائز
نظارۂ حرم

نظارۂ حرم

مؤلف:
اردو

وجہِ بنائے دوسرا صلِّ علیٰ محمد(ص)

وجہِ بنائے دوسرا صلِّ علیٰ محمد(ص)

نور حبیب کبریا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

موجب دفع ہر بلا صلِّ علیٰ محمد(ص)

داروئے درد لادوا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

معرفت خدا ملی آپ کی ذات سے ہمیں

مظہر جلوۂ خدا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

بد ر و احد کی وادیاں محو ثنا ہیں آج تک

رہبر جادۂ رضا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

بدر و احد کی وادیاں محو ثنا ہیں آج تک

رہبر جادۂ رضا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

جس کے ظہور پاک سے لرزہ میں آ گئی تمام

لات و منات کی بنا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

قطع جنوں کے واسطے دل کے سکوں کے واسطے

وردِ زباں ہو برملا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

۲۱

اختر و مہ کا ذکر کیا، مہر بھی منفعِل ہوا

دیکھ کے حسنِ مصطفیٰ صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

کشمکشِ حیات سے کاش نجات مل سکے

کہتی ہے جانِ مبتلا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

بھٹکی ہوئی ہے کائنات ایک نگاہِ التفات

منزل حق کے رہنما صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

آپ کے لطف سے حضور آس بندھی ہوئی تو ہے

ٹوٹ نہ جائے آسرا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*

صادقِؔ بدسرشت پر لطف و کرم کی اک نظر

قبلۂ زہد و اتقا صلِّ علیٰ محمد(ص)

*****

۲۲

ہر لمحہ ان کی الفت تسکین دے رہی ہے

ہر لمحہ ان کی الفت تسکین دے رہی ہے

سرکار کی محبت تسکین دے رہی ہے

*

نظروں میں پھر رہی ہے فردوس کی لطافت

عشقِ نبی کی شدت تسکین دے رہی ہے

*

خود پاؤں اٹھ رہے ہیں یا رب سوئے مدینہ

طیبہ کی جاذبیت تسکین دے رہی ہے

*

مجھ ناتوانِ غم کو عقبیٰ کا خوف کیوں ہو

دونوں جہاں کی رحمت تسکین دے رہی ہے

*

باطل کے سرد جھونکے گھبرا رہے ہیں لیکن

ایمان کی حرارت تسکین دے رہی ہے

*

بدر اور احد میں جس نے بخشی تھی فتح کامل

ان حوصلوں کی عظمت تسکین دے رہی ہے

*

پر پیچ راستہ ہے، منزل ہے دور لیکن

صادقؔ نبی کی تُربت تسکین دے رہی ہے

*****

۲۳

آئی جو دل میں یاد رسول(ص) انام کی

آئی جو دل میں یاد رسول(ص) انام کی

اک شمع جل اٹھی ہے ضیائے دوام کی

*

آنسو نکل رہے ہیں جو ہجر رسول(ص) میں

ان موتیوں میں آب ہے حسنِ دوام کی

*

یہ چاند یہ ستارے یہ سورج یہ کائنات

سب طلعتیں ہیں ذات رسول(ص) انام کی

*

سرشار ہیں جو رحمت عالم کے عشق سے

کیوں کر ہو آرزو انہیں کوثر کے جام کی

*

حسن مہ و نجوم کی سمت آنکھ کیوں اٹھے

تصویر ہے نظر میں مدینہ کی شام کی

*

اللہ رے آفرینش سرکار کا اثر

ہر ذرّے کی زباں پہ صدا ہے سلام کی

*

فرشِ زمیں سے چرخ بریں تک کیا جو غور

اب تک فضا میں گونج ہے حق کے پیام کی

*

۲۴

بندوں میں بھی شریک ہیں واصل خدا سے بھی

کیا سمجھے عظمتیں کوئی ان کے مقام کی

*

کیوں خوف کھائیں موج حوادث کے زور سے

صادقؔ نظر ہے ہم پہ رسول(ص) انام کی

*****

۲۵

نہ ہار ہمت منزل اسی مدینے میں

نہ ہار ہمت منزل اسی مدینے میں

ملے گی قیمت درماندگی مدینے میں

*

جو بخشتی ہے ضیاء زندگی کی قدروں کو

ہر اک طرف ہے وہی روشنی مدینے میں

*

نوید ہو مرے دل کو، نظر کو مژدہ ہو

دل و نظر کی ہے آسودگی مدینے میں

*

ہر ایک گام پہ ملتا ہے زندگی کو شعور

خرد نواز ہے دیوانگی مدینے میں

*

کروں گا نذرِ نبی(ص) زندگی کا سرمایہ

خوشا نصیب جو پہنچا کبھی مدینے میں

*

مجھے ہو کیوں تری جنت کی آرزو رضواں

جوابِ خلد ہے اک اک گلی مدینے میں

*

الم سے کیوں ہے پریشان، رہروِ ہستی

قدم قدم پہ ملے گی خوشی مدینے میں

*

۲۶

بہشت و کوثر و تسنیم سے نہیں ہے غرض

کسی بھی شے کی نہیں ہے کمی مدینے میں

*

ہوئی تلاش جو صادقؔ جمالِ عرفان کی

ہوائے شوق مجھے لے گئی مدینے میں

*****

۲۷

مجھے لامکاں کی ہے جستجو نہ مجھے مکاں کی تلاش ہے

مجھے لامکاں کی ہے جستجو نہ مجھے مکاں کی تلاش ہے

جو جواب خلد نعیم ہے اسی آستاں کی تلاش ہے

*

میں چلا ہوں سوئے در نبی(ص) لئے دل میں عزم سبک روی

وہی انتظار میں ہیں ابھی جنہیں کارواں کی تلاش ہے

*

مری خلد بطحہ کی سرزمیں مرا گلستان ہے درِ نبی(ص)

مجھے ان سے کچھ نہیں واسطہ جنہیں گلستاں کی تلاش ہے

*

وہی بادہ جس سے جنوں مٹے، وہی بادہ جس سے سکوں ملے

ہر اک انجمن میں مجھے اسی مئے ارغواں کی تلاش ہے

*

مری مغفرت کا وسیلہ ہے وہ نگاہ لطف شہِ الم

سرِ حشر اس کا یہ پوچھنا، مجھے ناتواں کی تلاش ہے

*

شہ دیں کی سیرت پاک کا ہے یہ رُخ بھی کتنا سکون فزا

کہیں جستجو ہے یتیم کی ، کہیں ناتواں کی تلاش ہے

*

کوئی بحر عشق میں نا خدا نہیں اپنا صادقؔ بے نوا

جو بھنور سے پار اتار دے اسی مہرباں کی تلاش ہے

*****

۲۸

(ذو قافیتین)

قریب آ رہا ہے دیارِِ مدینہ

قریب آ رہا ہے دیارِِ مدینہ

زہے ذوق بے اختیارِ مدینہ

*

دو عالم میں پھیلی ہوئی ہے تجلی

ضیا در ضیا ہے غبارِ مدینہ

*

ہوئی اجلی اجلی فضا آسماں کی

فلک پر جو پہنچا غبارِ مدینہ

*

دکھاتا ہے بھٹکے مسافر کو رستہ

بڑا رہنما ہے غبارِ مدینہ

*

بہ ظاہر ہے اک خاک لیکن بہ باطن

زرِ کیمیا ہے غبارِ مدینہ

*

سمٹ آئیں رعنائیاں دو جہاں کی

نہ ہوگا جوابِ غبار مدینہ

*

جگر کا مداوا مرے دل کا مرہم

نگاہوں کی ٹھنڈک غبار مدینہ

*

۲۹

ملے دولتِ دو جہاں بھی تو کر دوں

فدائے محمد(ص) نثارِ مدینہ

*

گلوں کا تبسم بہاروں کی نزہت

چمن کا چمن ہے نثارِ مدینہ

*

دل و دیدہ تو خیر اپنی جگہ ہیں

مری روح تک ہے نثارِ مدینہ

*

کرم کی نظر صادقؔ خستہ دل پر

ہے یہ بھی تو اک جاں نثارِ مدینہ

*****

۳۰

میری طلب کا مقصد تنہا رسول(ص) ہیں

میری طلب کا مقصد تنہا رسول(ص) ہیں

آنکھوں کا چین دل کی تمنّا رسول(ص) ہیں

*

تخلیق کائنات کا منشا رسول(ص) ہیں

دونوں جہاں کے والی و آقا رسول(ص) ہیں

*

جس کی ہر اک ادا پہ فدا ذات کبریا

کونین میں وہ حسنِ سراپا رسول(ص) ہیں

*

صف بستہ انبیاء ہیں، فرشتے ہیں با ادب

کس شان سے وہ انجمنِ آرا رسول(ص) ہیں

*

درماں کی جستجو میں ہے کیوں سر گراں حیات

بیمار زندگی کا مداوا رسول(ص) ہیں

*

اسریٰ کی رات اصل میں ہے جشن مصطفیٰ

ہر اک طرف ہے دھوم کہ دُلہا رسول(ص) ہیں

*

ولّیل ان کی زلف ہے والشّمس روئے پاک

کونین میں جواب خود اپنا رسول(ص) ہیں

*

صادقؔ کہو یہ بھٹکی ہوئی کائنات سے

انسانیت کے مظہر اولیٰ رسول(ص) ہیں

*****

۳۱

تجلی دوجہاں کا مظہر رسولِ عرش آستاں ملا ہے

تجلی دوجہاں کا مظہر رسولِ عرش آستاں ملا ہے

مبارک اے تیرہ زندگانی، زمین کو آسماں ملا ہے

*

کہانی امن و سلامتی کی ورق ورق ہو گئی مکمل

جواب جس کا نہیں جہاں میں وہ صاحبِ داستاں ملا ہے

*

تمام رحمت تمام راحت ، وہ سرسے پاتک تمام نعمت

گزشتہ اقوام میں کسی کو پیمبر ایسا کہاں ملا ہے

*

جو ہیں محمد(ص) کے جان لیوا انہیں ہو کیوں خوف گردشوں کا

ہمیشہ طیبہ کی سرزمیں سے پیام امن و اماں ملا ہے

*

پنپ سکے غربت و یتیمی جہاں میں اب ہے یہ غیر ممکن

غریب کا ہم زباں ملا ہے یتیم کا مہرباں ملا ہے

*

غلط روش پر نہ چل سکے گا مسافرِ راہِ زندگانی

جو منزلوں کا پتہ بتائے وہ صاحب کارواں ملا ہے

*

جھکے نہ کیوں سر در نبی(ص) پر بصد محبت بصد عقیدت

ہمیں ہمالہ کی چوٹیوں سے بلند تر آسماں ملا ہے

*

رسول(ص) کی یاد سے مسلسل مہک رہا ہے مشامِ صادقؔ

خزاں رسیدہ جہاں میں ہم کو بہار زا گلستان ملا ہے

*****

۳۲

پیو اے تشنہ کا مو چل کے پیمانے محمد(ص) کے

پیو اے تشنہ کا مو چل کے پیمانے محمد(ص) کے

مئے وحدت سے ہیں لبریز خُم خانے محمد(ص) کے

*

اثر ایسا کیا حسنِ سراپا نے محمد(ص) کے

جدھر دیکھو نظر آتے ہیں دیوانے محمد(ص) کے

*

حقیقت کرمک شب تاب و انجم کی نہیں کچھ بھی

کیا حیراں قمر کو روئے زیبا نے محمد(ص) کے

*

اندھیروں کے پرستارو اجالوں کی طرف آؤ

دکھائیں گے تمہیں ہم آئینہ خانے محمد(ص) کے

*

جمال مصطفیٰؐ کی جستجو کا شوق کیا کہنا

قدم چومے ہیں گلزار تمنا نے محمد(ص) کے

*

بدل جاتی ہیں قدریں زیست کی جن کے اشاروں پر

ہیں ایسی منزل ہستی میں دیوانے محمد(ص) کے

*

ابھی کھوئی ہوئی ہے کائنات اپنے اندھیروں میں

ابھی رتبے کہاں سمجھے ہیں دنیا نے محمد(ص) کے

*

تکلم سنگریزوں کا ، کبھی شق القمر صادقؔ

کرشمے دیکھے ہیں چشم تماشا نے محمد(ص) کے

*****

۳۳

وقت کی چارہ گری ہم نہ کسی دم مانگیں

وقت کی چارہ گری ہم نہ کسی دم مانگیں

زخم عصیاں کے لیے دین کار ہم مانگیں

*

روح اک طائر لاہوت ہے محبوس حسد

اس پرندے کے لیے ورثۂ آدم مانگیں

*

زندگانی کی کڑی دھوپ میں گھبرانا کیا

دامنِ رحمت سرکارِ دو عالمؐ مانگیں

*

فتح کرنا ہے اگر ظلم و تشدد کا حصار

شاہِ کونینؐ کے اخلاق کا پرچم مانگیں

*

دونوں عالم کے لیے ذات ہے جس کی رحمت

عیش دنیا کے عوض اس کا ہی بس غم مانگیں

*

گریۂ شوق سے ہوتی ہے تلافیِ گناہ

آؤ اللہ سے ہم دیدۂ پرنم مانگیں

*

حشر کے روز شفاعت کے لیے ہم صادقؔ

داورِ حشر سے قربِ شہ اکرمؐ مانگیں

*****

۳۴

جو کوچۂ حبیب کا شیدا دکھائی دے

جو کوچۂ حبیب کا شیدا دکھائی دے

وہ بے نیاز نعمتِ دنیا دکھائی دے

*

سردار انبیاء کا سراپا دکھائی دے

ہرسمت ایک نور کا ہالا دکھائی دے

*

ہو اسوۂ رسول(ص) کی پابند اگر حیات

تاریکیوں میں اب بھی اجالا دکھائی دے

*

یوں سرکے بل چلا ہوں سر کوئے مصطفیٰؐ

اک روز ان کا نقشِ کف پا دکھائی دے

*

توحید کا پیام تو لے کر بڑھے کوئی

ہر گام پر خلوص کا جلوہ دکھائی دے

*

محبوبِ حق ، شفیعِ امم، جانِ عاشقاں

دیدار ہو نصیب تو کیا کیا دکھائی دے

*

جو سرزمین طیبہ پہ رکھے کوئی قدم

اک جنت نعیم کا نقشا دکھائی دے

*

۳۵

صحرائے زندگی کے ہر اک تازہ موڑ پر

ان کے سوا نہ کوئی سہارا دکھائی دے

*

صادقؔ شفیع روز جزا کے غلام ہیں

کیوں ہم کو پل صراط کا دھڑکا دکھائی دے

*****

۳۶

چلنا بنا کے سر کو قدم یہ اصول ہے

چلنا بنا کے سر کو قدم یہ اصول ہے

اے راہ رو ادب کہ دیارِ رسول(ص) ہے

*

سورج کہ چاند پر تو حسنِ قبول ہے

یہ کہکشاں تو آپ کے قدموں کی دھول ہے

*

بے سایہ ہے وہ نور مجسم خدا گواہ

کچھ اور اگر کہیں تو عقیدت کی بھول ہے

*

تخلیق کائنات کا باعث ہے ان کی ذات

موجود جو بھی ہے وہ رہینِ رسول(ص) ہے

*

اسلام کیا ہے، باغ شریعت کا اک نہال

ایمان کیا ہے گلشن وحدت کا پھول ہے

*

مخلوق کے قریب بھی خالق کے بھی قریب

واللہ کیا بلند مقام رسول(ص) ہے

*

ہے روح وجد میں ، دہن و دل درود خواں

نظروں کے سامنے جو مزار رسول(ص) ہے

*

۳۷

ظاہر ہوں جس سے قریب قیامت کے واقعات

شاید یہی وہ دور ظلوم و جہول ہے

*

صادقؔ کہ لوگ کہتے ہیں جس کو گناہ گار

طاعت گزار حق ہے غلام رسول(ص) ہے

*****

۳۸

نہ کیوں ہو دونوں جہاں کی کشش مدینے میں

نہ کیوں ہو دونوں جہاں کی کشش مدینے میں

وہ ہے درِ شہِ اعلیٰ منش مدینے میں

*

جہاں کے ذروں نے چومے تھے پائے شاہ امم

وہ رہ گذار بھی ہے پرکشش مدینے میں

*

ستارے کاہکشاں چاند وقت کا سورج

جھکے ہوئے ہیں پئے کورنش مدینے میں

*

حضور آپ کی موجودگی ہے جلوہ فشاں

ضیاء نواز ہے اک اک روش مدینے میں

*

ادب ادب کہ قدم بے ادب نہ اٹھ جائیں

ہر ایک ذرّہ ہے اک سر زنش مدینے میں

*

حیات حاصل حسنِ حیات بن جائے

اگر حیات کی ہو پرورش مدینے میں

*

چلیں سمیٹ کے لے آئیں دولت کونین

کھلا خزینۂ داد و دہش مدینے میں

*

۳۹

حضورِ شاہ اممؐ ہو نہ کوئی بے ادبی

نفس نفس ہے مرا مرتعش مدینے میں

*

نگاہ لطف محمد(ص) میں کیا طراوت ہے

خنک ہوئی مرے غم کی تپش مدینے میں

*

خدا نے جس کو بنایا ہے شہرِ امن و خلوص

کبھی نہ ہوگی کوئی چپقلش مدینے میں

*

ستا رہے تھے جدائی کے خار اے صادقؔ

سکون پا گئی دل کی خلش مدینے میں

*****

۴۰