نظارۂ حرم

نظارۂ حرم0%

نظارۂ حرم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 93

نظارۂ حرم

مؤلف: صادق اندوری
زمرہ جات:

صفحے: 93
مشاہدے: 28703
ڈاؤنلوڈ: 1120

تبصرے:

نظارۂ حرم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28703 / ڈاؤنلوڈ: 1120
سائز سائز سائز
نظارۂ حرم

نظارۂ حرم

مؤلف:
اردو

جبرئیل امیں آ کر خود کرتے ہیں دربانی

جبرئیل امیں آ کر خود کرتے ہیں دربانی

سرکار دو عالمؐ کا دربار ہے نورانی

*

محبوب و محب میں تو قوسین کی دوری تھی

جب عرش پہ خالق نے کی آپ کی مہمانی

*

جس نور نے عالم کی ظلمت کو مٹایا تھا

اب تک ہے خلاؤں میں اس نور کی تابانی

*

نظروں کے قریں جس دم طیبہ کا دیار آیا

ہرسمت نظر آئی جلووں کی فراوانی

*

جب نام محمد(ص) کا آتا ہے مرے لب پر

خود ذوق عقیدت سے جھک جاتی ہے پیشانی

*

ہم خوف قیامت سے کیوں کر ہوں سراسیمہ

سرکار کے صدقے میں حاصل ہے تن آسانی

*

مدت سے تمنا ہے اک روز تو اے صادقؔ

آ جائے نظر مجھ کو وہ پیکر نورانی

*****

۴۱

مالک دنیا و دیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

مالک دنیا و دیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

ہر مسلمان کا یقیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

اکتسابِ نور جس سے کرتے ہیں ماہ و نجوم

ایسے وہ مہرِ مبیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

سامنے جس کے نگوں سر ہیں سلاطین جہاں

تاجدار عالمیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

جس سے پائی روشنی غار حرا کی خاک نے

مشعلِ نور آفریں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

نقش ہو کیوں کر نہ ہر دل پر دلائے مصطفیٰ

خاتم حق کے نگیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

ہے سراپا قدرت خالق کا شہ کار جمیل

ماورائے ماو طیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

حضرت عیسیٰؑ رہے چرخ چہارم پر مگر

عرش کے مسند نشیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

۴۲

اپنے تو اپنے مگر بیگانوں کو تھا اعتراف

صادق الوعد و امیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

ہم خطا کاروں پہ فرماتے ہیں چشم التفات

وہ شفیع مذنبیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

مستحق ہیں کون لطف بے نہایت کے حضور

ہاں ہمیں ہیں ہاں ہمیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*

خوف ہو صادقؔ مجھے کیوں کر فشارِ حشر کا

جب مددگار و معیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ

*****

۴۳

جب استوار ہوا ہے خیال حُبِّ رسول(ص)

جب استوار ہوا ہے خیال حُبِّ رسول(ص)

سماگیا مرے دل میں جمال حُبِّ رسول(ص)

*

نگاہ و دل صفتِ آئینہ چمکتے ہیں

میسر آیا ہے جب سے جمالِ حُبِّ رسول(ص)

*

مرے حضور نگوں سر ہے کج کلاہی بھی

خوشا نصیب یہ اوجِ کمالِ حُبِّ رسول(ص)

*

یہ تند تند حوادث یہ زخم زخم حیات

کچھ اندمال ہوا اے اتصال حُبِّ رسول(ص)

*

بروز حشر وہی مغفرت کا ضامن ہے

جبیں پر ہو عرقِ الفغالِ حُبِّ رسول(ص)

*

فرشتے با ادب استفادہ حوریں صرفِ طواف

پس فنا یہ ملا ہے مالِ حُبِّ رسول(ص)

*

مدینے پہنچوں نہ پہنچوں کبھی مگر صادقؔ

رواں ہے رگ و پے میں خیال حُبِّ رسول(ص)

*****

۴۴

نوحۂ فرات (سلام)

مظلوم جفا صابر و لب تشنہ حسین

اسلام کو تو نے ہی کیا زندہ حسین

جب قتل ہوئے دشتِ بلا میں صادقؔ

ہر ذرہ پکارا کہ ہیں پایندہ حسین

****

مزید رباعیات

سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ تبسم رقصاں

بھیگی ہوئی پلکوں میں جمال عرفان

آفت میں مصائب میں ہے شبّیر حزیں

سرتابہ قدم ایک مکمل انساں

٭٭٭

انسان کے رتبے کو بڑھایا جس نے

ہر کوہ گراں سرپر اٹھایا جس نے

انسانیت و حق کے تحفظ کے لیے

سر دے دیا اور سر نہ جھکایا جس نے

٭٭٭

۴۵

بے آسرا امت کا سہارا شبیر

اللہ کے محبوب کا پیارا شبیر

گزری ہیں کئی صدیاں مگر اے صادقؔ

اب تک ہے ہر اک آنکھ کا تارا شبیر

***

۴۶

مجرئی وار جب کیا قاسم چیرہ دست نے

مجرئی وار جب کیا قاسم چیرہ دست نے

رکھ دئے تیر اور سناں لشکر کس پرست نے

*

چشم زدن میں خیمہ سے دشت میں پہنچا ذوالجناح

ایک چھلا وہ دے دیا اشہب شہ کی جست نے

*

جنگ پہ مستعد ہوئے بانیِ شر تو دشت میں

قلزم خون بہا دیا تیغۂ صف گسست نے

*

سینکڑوں کلفتوں پہ بھی دیکھا جو صبر شاہ دیں

بڑھ کے قدم پکڑ لئے شام کے بندوبست نے

*

سرور دیں کے واسطے تم بھی کٹاؤ اپنا سر

بیٹوں سے اپنے یوں کہا زینتِ حال خست نے

*

عازم جنگ جب ہوئے شاہ تو رزم گاہ میں

اپنے قدم ہٹا لئے جلد ہی بس شکست نے

*

کیا کہوں صادقؔ حزیں پہنچا جو خلا کے قریں

مست مجھے بنا دیا ساقیِ چشم مست نے

*****

۴۷

دھنی تلوار کے یعنی وہ دشتِ کربلا والے

دھنی تلوار کے یعنی وہ دشتِ کربلا والے

بہتر تھے مگر لاکھوں پہ بھاری تھے خدا والے

*

جو پہنچے کربلا میں مجرئی صبر و رضا والے

بہت تھوڑے تھے لیکن چھا گئے سب پر خدا والے

*

تہلکہ مچ گیا جس وقت پہنچے کربلا والے

طلب گار شہادت اہل دیں صبر و رضا والے

*

کوئی دیکھے تو شانِ شاہ دیں کوفے کے میداں میں

قدم بوسی کی خاطر آئے ہیں ارض و سما والے

*

سبق سیکھیں حسین ابن علی سے جاں نثاری کا

خدا کے نام لیوا یعنی تسلیم و رضا والے

*

میں ہوں مداح شہ درسِ عمل سب کو سکھاتا ہوں

مری آواز کو سن لیں ذرا بزم عزا والے

*

یقیناً دید کے قابل وہ منظر ہوگا اے صادقؔ

جب آئیں گے سر محشر وہ زہد و اتقا والے

*****

۴۸

نطق حاصل مجھے مدح شہ ابرار میں ہے

نطق حاصل مجھے مدح شہ ابرار میں ہے

دل میں جو بات تھی اب طاقتِ گفتار میں ہے

*

کیسا جو ہر شہ دیں آپ کی تلوار میں ہے

دیدنی ہے وہ نظارہ جو ہر ایک وار میں ہے

*

رعب عباس یہ کہنا تھا کہ دیکھیں تو سہی

کس قدر تاب و تواں لشکر جرار میں ہے

*

وار کرتے تھے جو عباس تو کہتے تھے انہیں

کیا ید اللہ یہاں عرصۂ پیکار میں ہے

*

جس پراک وار پڑا پھر نہ ہوا وہ جاں بر

کاٹ کس قسم کی اس تیغ شرربار میں ہے

*

شاہ تنہا ہیں ہزاروں کے مقابل میں مگر

کس قدر صبر و سکون عرصۂ پیکار میں ہے

*

پاپیادہ حرم پاک سوئے شام چلیں

کیسی تنظیم الٰہی تری سرکار میں ہے

*

۴۹

آن بیٹھیں تو قیامت کا سماں دکھلا دیں

منظر حشر نہاں دیدۂ خون بار میں ہے

*

کر دے اس بات کا اعلان کوئی اے صادقؔ

خوشہ چیں کے لیے سب کچھ مرے گلزار میں ہے

*****

۵۰

سلامی دیکھنا بطحہ کے ان امینوں کو

سلامی دیکھنا بطحہ کے ان امینوں کو

لٹا رہے ہیں یہ الطاف کے خزینوں کو

*

یہ دیکھو امت مرحوم کے امینوں کو

وہ پار اتار رہے ہیں میرے سفینوں کو

*

کیا ہے مالک کوثر پہ بند آبِ فرات

یہ کیسی سوجھی ہے گرمی میں ان لعینوں کو

*

کبھی نہ ہوں گے عدو فتح مند سرور سے

چڑھا رہے ہیں وہ کیوں اپنی آستینوں کو

*

کہیں نہ ساقیِ کوثر سے شرم آئے انہیں

یہ دھیان ہے عرق آلودہ مہ جبینوں کو

*

مجھی کو فخر ہے ایجاد کا زمانے میں

تراشتا ہوں ہمیشہ نئی زمینوں کو

*

ہمیشہ پُر ہیں غم اہل بیت سے صادقؔ

ملی ہے نعمت کونین اپنے سینوں کو

*****

۵۱

دکھاتے تھے شہ دیں تیغ کے جوہر جو دشمن کو

دکھاتے تھے شہ دیں تیغ کے جوہر جو دشمن کو

یہ غل ہوتا تھا دے دو راستے شمشیر افگن کو

*

بین معلوم کیا سوجھی ہے ظالم شِمر رہزن کو

کہ آنکھوں دیکھتے کرتا ہے ویراں شہ کے گلشن کو

*

جو روتا ہے غم شہ میں تو گھر میں بیٹھ کر رو لے

کبھی ممنوع ٹھہراتا نہیں میں سوز و شیون کو

*

درِ شبیر کی مٹی کو ہے اکسیر کا رتبہ

زباں کھل جائے تھوڑی سی کھلا دیجئے جو الکن کو

*

کوئی پھرتا نہیں ناکام ہر گز شاہ کے در سے

دُرِ مقصد سے لے جاتا ہے بھرکر اپنے دامن کو

*

مرے دل میں جو یادِ پنجتن کی شمع سوزاں ہے

وہ روشن کر ہی دے گی صادقؔ اپنے کنج مدفن کو

*****

۵۲

زمین کربلا کا ذرہ ذرہ صرف ماتم ہے

زمین کربلا کا ذرہ ذرہ صرف ماتم ہے

سلامی شہ کے غم میں چرغ کی بھی آنکھ پرنم ہے

*

خیال گیسوئے شبیر میں یہ دل کا عالم ہے

پریشاں ہو رہا ہے کائناتِ ضبط برہم ہے

*

یہ تصویریں ہیں دو عون و محمد(ص) حسنِ قدرت کی

اگر یہ ماہِ تاباں ہے تو وہ خورشید اعظم ہے

*

اگر اسلام کی توسیع ہے مد نظر تم کو

مقابل سے لعینوں کو ہٹا دینا مقدم ہے

*

جگادو نعرۂ تکبیر سے غفلت شعاروں کو

علم بردار بن جاؤ تمہیں کس بات کا غم ہے

*

سحر تک آسماں روتا ہے غم میں ابن حیدر کے

یہ آنسو ہیں فلک کے جس کو سب کہتے ہیں شبنم ہے

*

ہزاروں کے مقابل میں یہ چھوٹی سی جماعت کا

ہر اک بچہ تہمتن ہر جوان و پیر رستم ہے

*

۵۳

ابھی اس رمز سے نا آشنا ہے لشکر کونہ

نبی کا لاڈلا ہے جتنی بھی عزت کریں کم ہے

*

کہا شہ نے کہ دشمن کے مقابل میں مراقاسم

شجاعت میں زیادہ ہے اگر چہ عمر میں کم ہے

*

بڑی مشکل ہے صادقؔ روز یہ احباب کہتے ہیں

کوئی تازہ سلام اپنا سنا دیجئے محرّم ہے

*****

۵۴

مجرئی سبط رسول ذوالمنن ایسا تو ہو

مجرئی سبط رسول ذوالمنن ایسا تو ہو

بت شکن ایسا تو ہو بت خانہ کن ایسا تو ہو

*

رعبِ قاسم کہہ رہا تھا صف شکن ایسا تو ہو

نوجواں ایسا تو ہو شمشیر زن ایسا تو ہو

*

بے طلب ملتا ہے بر مدّاح کو جام طہور

ساقیِ کوثر سرِ نہرِ لبن ایسا تو ہو

*

ذرہ ذرہ کہہ رہا ہے دیکھ کر اکبر کا حسن

موت بھی صدقے ہو جس پر بانکپن ایسا تو ہو

*

لٹ چکا ہے سارا کہنہ پھر بھی شہ کو غم نہیں

ہو اگر صابر تو اے چرخ کہن ایسا تو ہو

*

جو منور کر دے اپنی ضو سے ظلمت قبر کی

کربلائے پاک کا اجلا کفن ایسا تو ہو

*

یاد ہیں اب تک مجھے ان کی جواہر پاشیاں

بے وطن ہو کر بھی ہمدردِ وطن ایسا تو ہو

*

۵۵

اللہ اللہ شہ کے رخسار مبارک کی ضیا

بدر کامل ہو اگر تو بے گہن ایسا تو ہو

*

چوٹی کے مضمون صادقؔ آپ لکھا کیجئے

حاسدوں کا دل تڑپ جائے سخن ایسا تو ہو

*****

۵۶

مجھے مدح شاہ نے وہ دیا جو کبھی کسی نے دیا نہ تھا

مجھے مدح شاہ نے وہ دیا جو کبھی کسی نے دیا نہ تھا

درِ اہل بیت سے وہ ملا جو کہیں سے مجھ کو ملا نہ تھا

*

وہ شجاع ہیں وہ دلیر بیں وہ فلک فگن ہیں وہ شیر ہیں

کبھی رن میں ان کی طرح کوئی نہ لڑے گا اور لڑا نہ تھا

*

رہِ عشق طے ہوئی صبر سے نہ کھلی زباں کبھی جبر پر

سہے ظلم شاہ نے سینکڑوں مگر ان کے لب پہ گلا نہ تھا

*

ہوئیں جس کی تیر سے دعوتیں ملیں جس کو خلد میں عزتیں

کبھی شاخ گلشن دہر پر کوئی پھول ایسا کھلا نہ تھا

*

جو اٹھی غضب میں وہ تیغِ شہ تو لعیں کے ہو گئے ہوش گم

کوئی تیر جو ڑ کے رہ گیا کوئی تیر جوڑ سکا نہ تھا

*

مجھے بادشاہ سعید سے وہ عطا ہوئی ہیں تسلّیاں

مرے دل نے غم و ہ اٹھا لیا کہ جو آسماں سے اٹھا نہ تھا

*

پس مرگ شاہ کے ہاتھ سے وہ ایاغِ صاف ملا مجھے

کبھی زیست میں جو ملا نہ تھا کبھی دہر میں جو پیا نہ تھا

*

سرِ بزم صادقؔ خوش بیاں ترے دم سے تھیں وہ تجلیاں

کوئی تجھ سا نغمہ نوا نہ تھا کوئی تجھ سا مدح سرا نہ تھا

*****

۵۷

گریہ کناں ہے خلقت اک شور الاماں ہے

گریہ کناں ہے خلقت اک شور الاماں ہے

کربل کو جانے والا یثرب کا کارواں ہے

*

ذکر خدا ہے جاری سوکھی ہوئی زباں ہے

حالانکہ تین دن سے پیاسایہ کارواں ہے

*

شبّیر کے لہو کی اک بوند تک گراں ہے

ادنیٰ سی جس کی قیمت کون و مکاں کی جاں ہے

*

سجاد کیا کھڑے ہیں میداں میں شامِ غربت

اک چاند آسماں پر اک زیر آسماں ہے

*

آنسو نکل نکل کر چمکا رہے ہیں رخ کو

تاروں کی انجمن میں اک چاند ضو فشاں ہے

*

شبیر تشنہ لب ہے حکم خدا سے ورنہ

دنیا یہ جانتی ہے خود بحر بے کراں ہے

*

صادقؔ امام دیں کو گھیرے کھڑے ہیں کوفی

اک مہر نور افشاں ظلمت کے درمیاں ہے

*****

۵۸

زباں وقفِ غم سجاد بسمل ہوتی جاتی ہے

زباں وقفِ غم سجاد بسمل ہوتی جاتی ہے

جو اب ہر بات تفسیرِ سلاسل ہوتی جاتی ہے

*

جہاں تک کذب سے جنگ آزما ہے صدق میداں میں

دلیلِ حق شناسی نقش باطل ہوتی جاتی ہے

*

کسے ہے تاب جو شہ کے مقابل آئے لڑنے کو

ہر اک تدبیر مشکل سے بھی مشکل ہوتی جاتی ہے

*

تلاشِ روزۂ شبیر ہے تسکین کا باعث

مری منزل رہینِ ذوقِ کامل ہوتی جاتی ہے

*

میسّر ہے سکونِ دل مجھے جذب محبت سے

بہت نزدیکِ مقصد میری منزل ہوتی جاتی ہے

*

نکلتے ہی چلے آئے ہیں چست اشعار اتنے ہی

زمینِ شعر صادقؔ جتنی مشکل ہوتی جاتی ہے

*****

۵۹

فزوں تر جتنی شمع حق کی تابش ہوتی جاتی ہے

فزوں تر جتنی شمع حق کی تابش ہوتی جاتی ہے

چراغِ محفلِ باطل کو لرزش ہوتی جاتی ہے

*

شہ کونین کی مجھ پر نوازش ہوتی جاتی ہے

خدا کا شکر تکمیل ستائش ہوتی جاتی ہے

*

جہاں تک پائے استقلال محکم ہوتا جاتا ہے

عدو کے جذبۂ باطل کو جنبش ہوتی جاتی ہے

*

عدو کا خون پی کر بھی علی کی تیغ ہے پیاسی

بہ ہر صورت زیادہ اس کی خواہش ہوتی جاتی ہے

*

ہوا جاتا ہے مستحکم قناعت کا ہر اک رشتہ

جہاں تک دشمنوں کی شہ پہ یورش ہوتی جاتی ہے

*

مقابل میں تو لڑنے کے لیے آتا نہیں کوئی

مگر پوشیدہ ہی پوشیدہ سازش ہوتی جاتی ہے

*

شہ کونین سے جنگ آزمائی کی ہے تیاری

مگر ہر گام پر دشمن کو لغزش ہوتی جاتی ہے

*

۶۰