نظارۂ حرم

نظارۂ حرم0%

نظارۂ حرم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 93

نظارۂ حرم

مؤلف: صادق اندوری
زمرہ جات:

صفحے: 93
مشاہدے: 28732
ڈاؤنلوڈ: 1121

تبصرے:

نظارۂ حرم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28732 / ڈاؤنلوڈ: 1121
سائز سائز سائز
نظارۂ حرم

نظارۂ حرم

مؤلف:
اردو

ہے رشک کے قابل اہل زمیں مقصودِ حیات سروردیں

سر اپنا کٹے پروا بھی نہیں ، امت کا سر اونچا ہو جائے

*

صادقؔ جو نگاہِ سرورِ دیں اٹھ جائے کرم سے میری طرف

دوزخ میں نمایاں ہو جنت ، ظلمت میں اجالا ہو جائے

*****

۸۱

جس دل میں درد شاہ کی لب تشنگی کا ہے

جس دل میں درد شاہ کی لب تشنگی کا ہے

کوثر اسی کا ساقیِ کوثر اسی کا ہے

*

ہر سانس پر ہو ذکر خدا ذکر پنجتن

گزرے جو اس طرح تو مزہ زندگی کا ہے

*

راز حیات شہ نے بتایا ہے یہ ہمیں

جو راہ حق میں قتل ہو جینا اسی کا ہے

*

دیکھ اے نگاہ شوق یہ اکبر نہ ہوں کہیں

نقشہ تو ہو بہو اسی شکل نبی کا ہے

*

لب خشک آنکھ نم رخ پر نور مضمحل

عالم یہی تو شاہ کی تشنہ لبی کا ہے

*

جنت کی آرزو ہے نہ فردوس کی طلب

میری نظر کے سامنے روضہ کسی کا ہے

*

صادقؔ پہ بھی نگاہ کرم ہو امام دیں

ادنیٰ سا اک گدا یہ تمہاری گلی کا ہے

*****

۸۲

مرتضیٰ کی جان ہے اور مصطفیٰ کا دل حسین

مرتضیٰ کی جان ہے اور مصطفیٰ کا دل حسین

راہِ اِلاللہ کی ہے آخری منزل حسین

*

بحر عصیاں میں کبھی وہ ڈگمگا سکتی نہیں

جب کہ دینِ حق کی کشتی کا بنے ساحل حسین

*

کفر و ایمان کے تفاوت کو سمجھنے کے لیے

درمیانِ حق و باطل ہے خط فاصل حسین

*

تربیت جس کو ملی ختم رسل کے ہاتھ سے

کیوں نہ ہو دنیا و دیں کا جوہر قابل حسین

*

ابتدائے آفرینش سے جمال راہ حق

انتہائے آخرت تک جلوۂ کامل حسین

*

سیدالکونین اگر ہے منتہائے معرفت

ابتدائے معرفت کا نقطۂ حاصل حسین

*

شرم کرنی چاہئے تھی تجھ کو اے نہرِ فرات

دور رہ کر بھی رہا آسودۂ ساحل حسین

*

۸۳

دونوں عالم کی میسرہیں اسے آسانیاں

جس کا یہ ایمان ہوا ہو ہے حلِّ ہر مشکل حسین

*

کیوں ازل سے تا ابد صادقؔ نہ ہوں لمعاتِ حق

حال و ماضی کی تجلی، شمع مستقبل حسین

*****

۸۴

نذر بزرگان

(منقبات)

منقبت محبوب سبحانی(رح)

ادھر بھی اک نظر بہر خدا محبوب سبحانی

بہت مضطر ہے جانِ مبتلا محبوب سبحانی

*

اگر ہوئے تم اپنے ناخدا محبوب سبحانی

سفینہ کیوں ہمارا ڈوبتا محبوب سبحانی

*

عقیدت مند جوش بندگی میں سر جھکا دیتے

اگر ہوتا تمہیں سجدہ روا محبوب سبحانی

*

تمہاری ذات نے وہ راز کھولے ہیں طریقت کے

زمانہ دیکھتا ہی رہ گیا محبوب سبحانی

*

گرا سکتا نہیں اس کو کوئی معراج الفت سے

جسے تم نے سہارا دے دیا محبوب سبحانی

*

تمہارا نام لے کر جب قدم آ گے بڑھاؤں گا

حوادث کیا کریں گے سامنامحبوب سبحانی

*

۸۵

محبت جھوم اٹھتی ہے تمنا رقص کرتی ہے

جب آتا ہے تصور آپ کا محبوب سبحانی

*

حجاب درمیاں سے مشق نظارہ کروں کب تک

یہ پردہ بھی اٹھا دیجے ذرا محبوب سبحانی

*

بڑھا ہوں سوئے منزل میں پیام زندگی لے کر

مدد کا ہے یہی تو وقت یا محبوب سبحانی

*****

۸۶

منقبت خواجہ معین الدین چشتی(رح)

تصدق تم پہ میری جاں کہ جانِ زندگی تم ہو

جگر بندِ رسول اللہ، اولادِ علی تم ہو

*

تمہارے آستانے سے کوئی مایوس کیوں جاۓ

کہ اے خواجہؒ حقیقت میں سخی تم ہو، غنی تم ہو

*

تمہارے ذکر سے تسکین ہوتی ہے مرے دل کو

سبب یہ ہے کہ اطمینانِ جانِ عاشقی تم ہو

*

تمہاری ذات سے ہندوستاں پر نور ہے خواجہؒ

ضیائے نورِ یزداں، جلوۂ نورِ نبی تم ہو

*

میں کب سے کہہ رہا ہوں سامنے روضے کے رو رو کر

جگا دو میری قسمت کو کہ قسمت کے دھنی تم ہو

*

حکومت مقتدر تم سے، قیادت مفتخر تم سے

وقارِ سلطنت، تاجِ سرِ شاہنشہہی تم ہو

*

تمہارے در کو خواجہ چھوڑ کر جاۓ کہاں صادقؔ

تم اس کے درد کے درماں ہو، وجہِ زندگی تم ہو

*****

۸۷

منقبت خواجہ غریب نواز(رح)

عطا ہو بہر خدا تو کبھی غریب نوازؒ

دل و نگاہ کو آسودگی غریب نوازؒ

*

تھکا دیا ہے مجھے حادثات دوراں نے

مٹائیں آپ مری خستگی غریب نوازؒ

*

ضرور ہے کوئی خامی میری محبت میں

وفا کو مل نہ سکی آگہی غریب نوازؒ

*

نگاہ بڑھ نہ سکی سرحد تعین سے

الجھ کے رہ گئی حسرت مری غریب نوازؒ

*

سنوار دیجئے صادقؔ کے بخت خفتہ کو

بصد خلوص یہ ہے بلتی غریب نواز

*****

۸۸

منقبت حضرت شاہ عالم(رح)

جمال مصطفیٰ تنویر ذات کبریائی ہے

جمال شاہیہ عکس جمال مصطفائی ہے

*

شریعت ہو، طریقت ہو، حقیقت ، معرفت کچھ ہو

یہاں چاروں ستون دین کی جلوہ نمائی ہے

*

گدائی آپ کے در کی میسر ہو گئی جس کو

خدا اس کا رسول(ص) اس کے ہیں اور اس کی خدائی ہے

*

مشامِ جاں معطر کیوں نہ ہو روضے کی قربت سے

اسی دروازہ سے خوشبوئے جنت پاس آئی ہے

*

تمنا جھوم اٹھتی ہے مرادیں وجد کرتی ہیں

محبت شاہ کی جب سے مرے دل میں سمائی ہے

*

جو آیا زیر گنبد مل گئی شاہنشہہی اس کو

یہ گنبد درحقیقت صورت ظل ہُمائی ہے

*

اندھیرا ہی اندھیرا تھا مرے اقدار ہستی میں

نگاہ منقبت سے آج قسمت جگمگائی ہے

*

۸۹

بڑی مدت سے پژ مردہ تھا گلشن آرزوؤں کا

مرادوں کی کلی اس در پر آ کر مسکرائی ہے

*

عقیدت مند کھنچ کھنچ کر پئے دیدار آتے ہیں

جمال شاہ عالم میں غضب کی دل ربائی ہے

*

فقط گجرات کیا ہے ناصعہ سابزم عالم بھی

حقیقت میں یہی در موجب مشکل کشائی ہے

*

علوئے مرتبت کا کوئی حصہ کاش مل جائے

یہاں صادقؔ نے آ کر اپنی قسمت آزمائی ہے

*****

والدِ مرحوم کی اس کتاب کو جملہ حقوق سے آزاد رکھا گیا ہے۔

اعجاز عبید

***

ٹائپنگ: مخدوم محی الدین

پرو ف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

۹۰

فہرست

احادیث مدینہ ۴

رسول(ص) برحق ۴

وہ ماہ عرب وہ ابر کرم لو جلوہ افگن ہوتا ہے ۱۰

(سہ قافیتین) ۱۱

معراج کی شب بالائے فلک انوارِ ہدایت آیا ہے ۱۱

کہاں تو اور کہاں وہ روئے تاباں شاہ اطہر کا ۱۲

آئینۂ حق ہے رخ تاباں محمد(ص) ۱۳

میرے دل کے چین ، تسکین نظر یا مصطفیٰ ۱۵

حبیب کبریا محبوب داور سرورِ عالم(ص) ۱۶

ادھر بھی اک نظر فردوس منظر سرورِ عالم(ص) ۱۷

تمہارا رتبۂ بالا و برتر یرسول(ص) اللہؐ ۱۹

وجہِ بنائے دوسرا صلِّ علیٰ محمد(ص) ۲۱

ہر لمحہ ان کی الفت تسکین دے رہی ہے ۲۳

آئی جو دل میں یاد رسول(ص) انام کی ۲۴

نہ ہار ہمت منزل اسی مدینے میں ۲۶

مجھے لامکاں کی ہے جستجو نہ مجھے مکاں کی تلاش ہے ۲۸

(ذو قافیتین) قریب آ رہا ہے دیارِِ مدینہ ۲۹

میری طلب کا مقصد تنہا رسول(ص) ہیں ۳۱

۹۱

تجلی دوجہاں کا مظہر رسولِ عرش آستاں ملا ہے ۳۲

پیو اے تشنہ کا مو چل کے پیمانے محمد(ص) کے ۳۳

وقت کی چارہ گری ہم نہ کسی دم مانگیں ۳۴

جو کوچۂ حبیب کا شیدا دکھائی دے ۳۵

چلنا بنا کے سر کو قدم یہ اصول ہے ۳۷

نہ کیوں ہو دونوں جہاں کی کشش مدینے میں ۳۹

جبرئیل امیں آ کر خود کرتے ہیں دربانی ۴۱

مالک دنیا و دیں ہیں رحمۃ اللعالمینؐ ۴۲

جب استوار ہوا ہے خیال حُبِّ رسول(ص) ۴۴

نوحۂ فرات (سلام) ۴۵

مزید رباعیات ۴۵

مجرئی وار جب کیا قاسم چیرہ دست نے ۴۷

دھنی تلوار کے یعنی وہ دشتِ کربلا والے ۴۸

نطق حاصل مجھے مدح شہ ابرار میں ہے ۴۹

سلامی دیکھنا بطحہ کے ان امینوں کو ۵۱

دکھاتے تھے شہ دیں تیغ کے جوہر جو دشمن کو ۵۲

زمین کربلا کا ذرہ ذرہ صرف ماتم ہے ۵۳

مجرئی سبط رسول ذوالمنن ایسا تو ہو ۵۵

مجھے مدح شاہ نے وہ دیا جو کبھی کسی نے دیا نہ تھا ۵۷

گریہ کناں ہے خلقت اک شور الاماں ہے ۵۸

۹۲

زباں وقفِ غم سجاد بسمل ہوتی جاتی ہے ۵۹

فزوں تر جتنی شمع حق کی تابش ہوتی جاتی ہے ۶۰

بے حس ہے کیوں حسین کا ذوق وفا تو دیکھ ۶۲

شبیر کے غم میں آنکھوں سے اک اشک کا دریا بہتا ہے ۶۴

زلف میں ہے رخ شہ عکس فگن دریا میں ۶۵

مجرائی کیا کہوں میں محبت حسین کی ۶۷

مجرائی مصیبت سرور کی جس وقت مجھے یاد آتی ہے ۶۸

مجرائی میرے لب پر جب شہ کا نام آیا ۷۰

یہ دل ہے داغ شاہ شہیداں لیے ہوئے ۷۱

مرے دل سے ابھر کر جب زباں پر شہ کا نام آیا ۷۳

سلامی مطمئن دل ہے غم شبیر و شبّر سے ۷۵

سلامی دل میں بر پا ہے جو غم شاہ شہیداں کا ۷۷

جب کبھی مسلماں پر کوئی وقت آیا ہے ۷۹

تسلیم و رضا کی منزل میں ایسا کوئی سجدا ہو جائے ۸۰

جس دل میں درد شاہ کی لب تشنگی کا ہے ۸۲

مرتضیٰ کی جان ہے اور مصطفیٰ کا دل حسین ۸۳

نذر بزرگان (منقبات) منقبت محبوب سبحانی(رح) ۸۵

منقبت خواجہ معین الدین چشتی(رح) ۸۷

منقبت خواجہ غریب نواز(رح) ۸۸

منقبت حضرت شاہ عالم(رح) ۸۹

۹۳