تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22096
ڈاؤنلوڈ: 2003


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22096 / ڈاؤنلوڈ: 2003
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۹۲،۹۳،۹۴،۹۵،۹۶،۹۷،۹۸،۹۹

۹۲ ۔( فَوَرَبِّکَ لَنَسْاٴَلَنّهُمْ اٴَجْمَعِینَ )

۹۳ ۔( عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون ) ۔

۹۴ ۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

۹۵ ۔( إِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَهْزِئِینَ ) ۔

۹۶ ۔( الَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُون ) ۔

۹۷ ۔( وَلَقَدْ نَعْلَمُ اٴَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُون ) ۔

۹۸ ۔( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنْ السَّاجِدِینَ ) ۔

۹۹ ۔( وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَاٴْتِیَکَ الْیَقِینُ ) ۔

ترجمہ

۹۲ ۔تیرے پروردگار کی قسم ہم ان سب سے سوال کریں گے ۔

۹۳ ۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں ۔

۹۴ ۔ جس چیز کے لئے مامور ہو اسے واضح طورپر بیان کرو اورمشرکین سے رخ پھیر لو( اور ان کی پر وانہ کرو) ۔

۹۵ ۔ہم تمسخر اڑانے والوں کے شر سے دو رکھیں گے۔

۹۶ ۔وہ کہ جنہوں نے خدا کے ساتھ اور خدا بنا رکھے ہیں لیکن وہ جلدی ہی جان جائیں گے ۔

۹۷ ۔ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کہتے ہیں اس پر تیرا سینہ تنگ ہو جاتا ہے (او ر تجھے سخت پریشان کرتے ہیں ) ۔

۹۸ ۔( اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے )اپنے پروردگار کی تسبیح کر ، حمد وثنا کر اور سجدہ گزاروں میں سے ہو جا ۔

۹۹ ۔اپنے پروردگار کی عبادت کر یہاں تک کہ یقین ( موت) آجائے۔

تفسیر

اپنے مکتب واضح طورپربیان کرو

یہ سورہ کی آخری آیات میں ہیں کہ ان سے سے پہلے”مقسمین “ کا انجام بیان کیا گیا ہے ۔جزا کے بارے میں گزشتہ آیات میں گفتگو ہوئی تھی ۔فرمایا گیا ہے : تیرے پر ور دگار کی قسم ! ہم یقینی طور پر ان سب سے سوال کریں گے( فَوَرَبِّکَ لَنَسْاٴَلَنّهُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

ان تمام کاموں کے بارے میں جو ہم انجام دیتے تھے ۔( عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون ) ۔

واضح ہے کہ خدا کا سوال اس لئے نہیں کہ وہ پو شیدہ بات ظاہر ہو جائے کیونکہ وہ اندرونی اور بیرونی اسرار سے آگاہ ہے اور زمین و آسمان کاکوئی ذرہ اس کے علم کے بے پایاں سے مخفی نہیں ہے۔ لہٰذا سوال خدا مخاطب کو سمجھانے کے لئے ہے تاکہ و ہ اپنے اعمال کی قباحت کو سمجھ لے یا یہ ایک قسم کی نفسیاتی سزا ہے کیونکہ غلط کاموں کے بارے میں باز پرس اور وہ بھی سر زنش اور ملامت کے ساتھ اور و ہ بھی ایسے جہان میں انسان حقائق سے زیادہ قریب اور آگاہ ہے بہت تکلیف دہ ہے ۔لہٰذایہ سوالات درحقیقت ان کی سزا کا ایک حصہ ہیں ۔

ضمنی طور پر ”( عماکانوا یعملون ) “کی عمومیت نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کے تمام اعمال کے بارے میں بلا استثناء سوال ہوگا اور خود تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ وہ لحظہ بھر بھی اپنے اعمال اعمال سے غافل نہ رہیں ۔۔

یہ جو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ سوال توحید اور انبیاء پر ایمان لانے یا مشرکین کے معبودوں سے مربوط ہے ایک ایسی بات ہے جو بغیر دلیل کے ہے،آیت کا مفہوم پورے طورپر عمومیت کا حامل ہے ۔

باقی رہا یہ سوال کہ اس آیت میں خدا تعالیٰ سوال کرنے کے بارے میں تاکید کررہا ہے جبکہ سورہ رحمن کی آیہ ۳۹ میں ہے :( فیومئذلایسئل عن ذنبه انس و جان )

اس روز انسان اور جنوں میں سے کسی سے بھی کوئی سوال نہیں کیا جائے گا ۔

اس کا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں جس کاخلاصہ یہ ہے کہ قیامت میں کئی مراحل ہیں بعض مراحل میں لوگوں میں سے سوال ہوگا اور بعض میں نہیں ہوگا جہاں مسائل خود بخود واضح ہو ں گے یا یہ کہ زبانی سوال نہیں ہوگا کیونکہ سورہ یٰٓس کی آیت ۶۵ کے مطابق لبوں پر مہر لگی ہوگی اور سوال صرف جسم کے اعضاء سے کیا جائے گا یہاں تک کہ بدن کی کھال سے بھی پوچھا جائے گا ۔(۱)

اس کے بعد رسول اللہ کو ایک قطعی فرمان دیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : مشرکین کے شور وغل کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ ضعف و خوف اور سستی کو نہ آنے دو اور خاموش ہوکر نہ بیٹھ جاؤبلکہ ” جس کام کے لئے مامورکئے گئے ہواسے واضح طور پر بیان کرو“۔اور حقائق دین صراحت سے کہہ دو “( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ) ۔

اور مشرکین سے رخ موڑ لو اور ان سے بے اعتنائی کرو( وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

”فاصدع“” صدع“ کے مادہ سے ہے اس کا لغوی معنی ہے شگاف کرنا یا مضبوط چیزوں میں شگاف کرنااور چونکہ کسی چیز میں شگاف کرنے سے اسکا اندرونی حصہ آشکار ہو جاتا ہے اس لئے یہ لفظ اظہار ،افشاء، آشکار اور واضح کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ شدید درد سر کو بھی ”صداع“ کہتے ہیں کیونکہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ پھٹ رہا ہواور شگافتہ ہو رہا ہو ۔

بہرحال مشرکین سے اعراض کرنا یہاں یاتو بے اعتنائی کے معنی میں آیاہے یا پھر ان سے جنگ ترک کرنے کے معنی میں آیا ہے کیونکہ اس زمانے میں ابھی مسلمان اس مرحلے تک نہیں پہنچے تھے کہ دشمن کی سختی کے جواب میں مسلح مقابلہ کرسکیں ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ قلب پیغمبر کی تقویت کے لئے انھیں اطمینان دلاتا ہے کہ تمسخر اڑانے والوں کے مقابلے میں وہ اپنے نبی کی حمایت کرے گا ، ارشاد ہوتا ہے : ہم تمسخر اڑانے والوں کے شر کو تجھ سے دور کیا( إِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَهْزِئِینَ ) ۔

یہ جملہ فعل ماضی کے ساتھ آیا ہے حالانکہ اس کا تعلق آئندہ سے ہے ظاہرا ً اس حمایت کے حتمی ہونے کی طرف اشارہ ہے یعنی ہم ان کے شر کو یقینی طور پر تجھ سے دور کریں گے اور یہ بات حتمی اور طے شدہ ہے ۔

بعض مفسرین نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ چھ طرح کے گروہ تھے جس میں ہر ایک رسول اللہ ایک خاص قسم کا تمسخرکیا کرتا تھا اور جب آنحضرت دعوت کے لئے کھڑے ہوتے تووہ کوشش کرتے کہ اپنی باتوں سے لوگوں کو آپ کے پاس سے دور کریں لیکن خدا تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردیا اس طرح انھیں اپنی اپنی پڑ گئی اور رسول اللہ کو بھی بھول گئے ( بعض تفاسیر میں ان کی ابتلاء کی تفصیل آئی ہے ) ۔

اس کے بعد ”مستھزئین“ کی توصیف ، قرآن یوں کرتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے ساتھ معبود بنارکھے ہیں لیکن بہت جلد وہ اپنے اس کام کے منحوس نتیجہ سے آگاہ ہو جائیں گے( الَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُون ) ۔

ہوسکتا ہے یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہو کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے افکار و اعمال خود مضحکہ خیز ہیں کیونکہ یہ اس قدر ناداں ہیں جہانِ ہستی کے خالق خدا کے مقابلے میں انھوں نے پتھر اور لکڑی کے معبود تراش رکھے ہیں اس کے باوجود وہ تیرے ساتھ تمسخر کرنا چاہتے ہیں ۔

دوبارہ روح پیغمبر کی دلجوئی اور تقویت کے لئے فرمایا گیاہے :ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تیرے سینے کو تنگ کردیتی ہیں اور تیری پریشانی کا باعث بنتی ہیں( وَلَقَدْ نَعْلَمُ اٴَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُون ) ۔تیری لطیف روح اور حساس دل یہ سب بد گوئی اور کفر و شرک آمیز باتیں بر داشت نہیں کرسکتا اور اسی بناء پر تو پریشان ہو جاتا ہے ۔لیکن تو پریشان نہ ہواو ر ان کی گھٹیا اور ناہنجار باتوں کے اثرات کم کرنے کے لئے ” اپنے پر ور دگار کی تسبیح بیان کر اور اس کی ذاتِ پاک کے سامنے سجدہ ریز ہو جا( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنْ السَّاجِدِینَ ) ۔کیونکہ اللہ کی تسبیح ان کی گفتگو کے برے اثرات کو مشتاقان خدا کے دلوں سے دور کردیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تجھے توانائی بخشتی ہے اور نور و صفا عطا کرتی ہے ، دل کو جلا دیتی ہے ، خدا سے تیرے رشتے کو محکم کردیتی ہے ،تیرے ارادے کو قوی کردیتی ہے ، زیادہ قوت بر داشت عطا کرتی ہے ،جہاد پر زیادہ آماد ہ کرتی ہے اور زیادہ راسخ قدم بنا دیتی ہے ، روایات میں ابن عباس سے مروی ہے :رسول اللہ غمگین ہو جاتے تو نماز کے لئے گھڑے ہو جاتے اور نماز کے ذریعے ان آثار حزن و ملال کو دل سے دور کرتے۔

اس سلسلے میں آخری حکم یہ دیا گیا ہے کہ اپنے پر وردگار کی عبادت سے زندگی بھر دستبردار نہ ہونا” ہمیشہ ان کی بندگی کرتا رہ یہاں تک کہ یقین (موت) آجائے( وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَاٴْتِیَکَ الْیَقِینُ ) ۔

مفسرین میں مشہور ہے کہ ”یقین “ مراد یہاں موت ہے اور موت کو اس لئے یقین کہا گیا ہے کہ یہ ایک امر مسلم ہے ۔

انسان ہر چیز میں شک کرسکتا ہے لیکن موت میں شک نہیں کرسکتا، یا اس لئے اسے یقین کہا گیا ہے کہ موت کے وقت پر دے ہٹ جاتے ہیں اور حقائق انسان کی آنکھوں کے سامنے آشکار ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں یقین کی حالت پید ہو جاتی ہے ۔

سورہ مدثرکی آیت ۴۶ ۔ ۴۷ ۔میں دوزخیوں کا یہ قول بیان کیا گیا ہے :( وکنا نکذب بیوم الدین حتی اتاناالیقین )

ہم ہمیشہ روز جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ یقین (موت) نے ہمیں آلیا ۔

یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جو صوفیاء نے زیر بحث آیت کو ترک عبادت کے لئے دستاویز بنا لیا ہے اور کہا ہے کہ آیت کہتی ہے کہ عبادت کرو یہاں تک کہ تمہیں یقین آجائے لہٰذا حصولِ یقین کے بعد عبادت کی ضرورت نہیں ، یہ ایک بے بنیاد گفتگو ہے ۔ کیونکہ :۔

اولاً: بعض قرآنی آیات گواہی دیتی ہیں ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیاہے کہ یقین موت کے معنی میں ہے کہ جومومنین کو بھی آئے گی اور دوزخیوں کو بھی ۔

ثانیاً:اس گفتگو کے مخاطب پیغمبر اکرم ہیں اور یقین پیغمبر کا مقام سب پر روشن ہے تو کیاکوئی دعوی ٰ کرسکتا ہے کہ آپ ایمان کے لحاظ سے اس مقامِ یقین کے حامل نہ تھے ۔

ثالثاً:تواریخ متواتر گواہی دیتی ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی عمر کی آخری گھڑیوں تک عبادت ترک نہیں کی اور حضرت علی (علیہ السلام) محراب عبادت میں شہید ہوئے اور اسی طرح باقی آئمہ ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ اعلانیہ دعوت ِ اسلام کا آغاز:

جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات:فاصدع بماتؤمر واعرض المشرکین انا کفیناک المستهزئین

مکہ میں نازل ہوئیں جبکہ پیغمبر اسلام تین برس تک مخفی طور پر دعوت دے چکے تھے اور آپ کے قریبوں میں سے چند افراد آپ پر ایمان لاچکے تھے جن مین عوررتوں میں سے سب سے پہلے جناب خدیجہ سلاماللہ علیھا تھیں اورمردوں میں حضرت علی علیہ السلام تھے ۔

واضح ہے کہ اس زمانے میں اور اس ماحول میں توحید خالص کی دعوت اور نظام ِ شرک و بت پرستی کو درہم برہم کرنا عجیب و غریب اور نہایت کٹھن کام تھا لہٰذا یہ بات تو شروع ہی سے نمایاں تھی کہ کچھ لوگ تمسخر اڑائیں گے لہٰذا خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر (ص)کے دل کو تقویت دیتا ہے ، استہزاء کرنے والوں اور دشمنوں کی کثرت سے نہ ڈریں اور اپنی دعوت کھلے بندوں شروع کردیں اور اس راہ میں ایک پیہم مسلسل اور منطقی جہاد کے لئے تیار ہو جائیں ۔(۱)

___________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۳ صفحہ ۲۳۔ تفسیر نمونہ جلد ۶ صفحہ۸۷

۲ ۔خدا کی طرف توجہ کا روحانی اثر

انسانی زندگی میں ہمیشہ مشکلات آتی رہستی ہیں یہ دنیاوی زندگی کا مزاج ہے انسان جس قدر بڑا ہوتا جا تا ہے مشکلات بھی بڑی ہو تی جاتی ہیں اس سے عظیم مشکلات کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے جن کا سامنا رسول اللہ کو اپنی عظیم دعوت کے لئے کرنا پڑا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ زیادہ قوت کے حصول کے لئے اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ وسعت قلب کے لئے تسبیح الٰہی ، دعا اور اس کے آستانے پر سجدہ ریزی کریں ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ انسانی روح میں ایمان اور ارادے کی تقویت کے لئے عبادت گہرا اثر رکھتی ہے ۔

مختلف روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب بزرگ پیشواؤں کو عظیم مشکلات اور بحرانوں کا سامنا ہوتا ہے تو وہ خانہ خدا کا رخ کرتے اس کی عبادت کے زیر سایہ راحت و آرام اور طاقت و قوت حاصل کرتے ۔

۳ ۔عبادت اور تکامل او ارتقاء

ہم جانتے ہیں کہ انسان ایسا موجود ہے جو تکامل و ارتقاء کی اعلیٰ ترین استعداد رکھتا ہے اس کے سفر کا آغاز نقطہ عدم سے ہوا ہے اور وہ لامتناہی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور اگر وہ راہ تکامل پر چلتا رہے تو کہیں بھی ٹھہراؤ نہیں آئے گا ۔

ایک طرف ہم جانتے ہیں کہ عیادت تربیت ِ انسان کا اعلیٰ ترین مکتب اور عبادت انسانی سوچ کو بیدار کرتی ہے اور اس کی فکر کو لامتناہی منزل کی طرف متوجہ کرتی ہے اس کے قلب و روح سے گناہ اور غفلت کا گرد وغبار دور کرتی ہے اس کے وجود میں اعلیٰ انسانی صفات کی پر ورش کا باعث بنتی ہے ۔ روح ایمان کو تقویت دیتی ہے اور انسان کو آگاہ اور مسئولیت عطا کرتی ہے لہٰذا ممکن ہے کہ انسان لمحہ بھر کے لئے بھی اس عظیم تربیتی مکتب سے بے نیاز ہو اور وہ لوگ یہ جو سوچتے ہیں ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ انسان ایک ایسا مقام پر پہنچ جائے کہ جہاں عبادت کرنے کی ضرورت نہ ہو انھوں نے انسان کے تکامل و ارتقاء کو محدود خیال کیا ہے یا وہ مفہوم عبادت نہیں سمجھ سکے۔

علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں اس سلسل میں ایک بحث کی ہے ہم اسے اختصار کے ساتھ ذیل میں پیش کرتے ہیں :۔

اس عالم کے تمام موجودات کمال کی طرف محو سفر ہیں اور انسانی تکامل معاشرے کے اندر ہوتا ہے لہٰذا انسان ذاتی طور پر سماجی فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ایک طرف انسانی معاشرے اس صورت میں انسان کی تربیت اور تکامل کا ضامن بن سکتا ہے کہ وہ منظم قوانین کے احترام کے زیر سایہ اپنے امور بجا لائیں ، ٹکرائی سے بچیں اور ذمہ داریوں کی حدود واضح کریں ۔

دوسرے لفظوں میں اگر انسانی معاشرہ صالح ہوجائے تو لوگ اس میں رہ کر اپنے اصلی ہدف تک پہنچ سکتے ہیں اور اگر معاشرہ خراب ہو تو پھر لوگ اس تکامل و ارتقاء سے رک جاتے ہیں یہ احکام و قوانین و ارتقاء سے رک جاتے ہیں یہ احکام وقوانین اجتماعی ہوں یا عبادتی اس صورت میں موثر ہوں گے جب نبوت اور آسمانی وحی سے لئے گئے ہوں ۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ عبادتی احکام انفرادی ہوں یا اجتماعی تکامل کے ایک حصے پر پر مبنی ہوتے ہیں ۔

یہاں سے واضح ہوجاتاہے کہ جب تک انسانی معاشرہ موجود ہے اور اس دنیا میں اس کی زندگی جاری و ساری ہے الہٰی ذمہ داریاں اور احکام بھی جاری ہیں اور انسان کی ذمہ داریوں اور قوانین کے خاتمے کا مطلب احکام و قوانین کی فراموشی ہے اوور اس کا نتیجہ انسانی معاشرے کی خرابی اور فساد ہے ۔

یہ نکتہ بھی قابل ِ توجہ ہے کہ نیک اعمال اور عبادات انسان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے حصول کا سر چشمہ ہیں اور جب یہ اعمال کافی حد تک انجام پائیں اور انسان کے اندر یہ اعلیٰ صلاحتیں اور ملکات بیدار ہو جائیں تو یہ ملکات بھی اپنی باری پر زیادہ نیک اعمال اور خدا کی زیادہ عطاعت و بندگی کا سر چشمہ بن جاتے ہیں ۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جن کا گمان ہے کہ حکم کا مقصد انسانی تکمیل ہے لہٰذا جب انسان اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو پھر بقاء کا کوئی معنی نہیں ان کا خیال مغالطے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ اگر انسان ذمہ داریوں اور احکام کی انجام دہی سے دستبردار ہو جائے تو معاشرہ فوراً ابتری کا رخ کرے گا لہٰذا ایسے معاشرے میں ایک فرد ِ کامل کیسے زندگی بسر کرسکتا ہے اور اگر ملکات اپنے حقیقی اثرات سے رو گردان ہو گئے ہیں (غور کیجئے گا)

سوره نحل

آیات ۱،۲

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱ ۔( اٴَتَی اٴَمْرُ اللهِ فَلاَتَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ) ۔

۲ ۔( یُنَزِّلُ الْمَلاَئِکَةَ بِالرُّوحِ مِنْ اٴَمْرِهِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ اٴَنْ اٴَنذِرُوا اٴَنَّهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ اٴَنَا فَاتَّقُونِی ) ۔

ترجمہ

بخشنے والے مہر بان خدا کے نام سے ۔

۱ ۔ (مشرکوں اور مجرموں کے سزا کے بارے میں ) حکم خدا پہنچ گیا ہے اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ خدا اس سے منزہ و بر تر ہے کہ اس کے لئے شریک قراردئے جائیں ۔

۲ ۔ روح الہٰی کے ساتھ ملائکہ کو اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نازل کرتا ہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو ڈراؤ اور ( ان سے کہو کہ) میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا ( میرے حکم کی ) مخالفت سے پر ہیز کرو ۔

تفسیر

حکم ِ عذاب قریب ہے ۔

جیسا کہ پہلے کہا چکا ہے کہ سورہ کی ابتدائی آیات کا اہم حصہ مکہ میں نازل ہوا ہے یہ وہ دن تھے جب پیغمبراسلام مشرکوں اور بت پرستوں کی طرف سے شدید الجھاؤ اور سختی کا سامنا تھا ۔ ہر روز وہ آپ کی حیات آفریں اور آزادی بخش دعوت کے خلاف کوئی نیا بہانہ تراشتے ۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ جس وقت رسول اکرم انھیں عذاب الہٰی کی تہدید کرتے تو بعض ہٹ دھرم کہتے کہ اگر یہ عذا ب اور سزا جس کی دھمکی دیتے ہو سچ ہے تو پھر وہ ہم پر نازل کیوں نہیں ہوتا اور شاید کبھی مزید کہتے کہ اگر فرض کیا عذاب آیابھی تو ہم بتوں کا دامن تھا م لیں گے ۔ تاکہ وہ بارگاہ الہٰی میں سفارش کریں کہ وہ ہم سے عذاب اٹھالے کیا وہ اس کی بارگاہ کے شفیع نہیں ہیں ۔

اس سورہ کی پہلی آیت ان اوہام پر خط بطلان کھینچتے ہوئے کہتی ہے :جلدی نہ کرو ۔ مشرکوں اور مجرموں کی سزا کے بارے میں حکم الہٰی یقینا پہنچ چکا ہے( اٴَتَی اٴَمْرُ اللهِ فَلاَتَسْتَعْجِلُوهُ ) ۔اور اگر تمہارا خیال ہے کہ بت اس کی بارگاہ کے سفارشی ہیں تو تم سخت غلطی اور اشتباہ میں ۔ خدا اس سے منزہ اور بر تر ہے کہ جسے تم اس کا شریک بناتے ہو( سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ) ۔

لہٰذا اس آیت میں ” امر اللہ “مشرکین کے لئے عذاب کے بارے میں حکم خدا کی طرف اشارہ ہے اور لفظ ”اتٰی“ اگر چہ فعل ماضی ہے اور گذشتہ زمانے میں اس حکم کے تحقق کی نشاندہی کرتا ہے لیکن اس کا مفہوم مضارع ہے اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حکم یقینا اور قطعاً تحقق پذیر ہو گا ۔ ایسا قرآن میں کثرت سے ہے کہ قطعی الوقوع صیغہ مضارع ماضی کےساتھ ذکر ہوا ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ”امر اللہ “ خود عذاب کی طرف اشار ہ ہے نہ کہ حکم عذب کی طرف ۔

بعض نے اس سے ”روز قیامت “مراد لیا ہے ۔

لیکن جو تفسیر ہم نے بیان کی ہے وہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔

نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عذاب اور سزا کا فی دوافی بیان اور عادلانہ اتمام حجت کے بغیر نہیں ہے لہٰذا بعد والی آیت میں مزید فرمایاگیا ہے :خدا ملائکہ کو خدا ئی روح کے ساتھ حکم ِ الہٰی کے ہمراہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے( یُنَزِّلُ الْمَلاَئِکَةَ بِالرُّوحِ مِنْ اٴَمْرِهِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ )

(”من امر “ من“ بے کے معنی میں ہے اور یہاں سببیت کے معنی دیتا ہے ) ۔

اور انھیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو ڈراؤ ، شرک و بت پرستی پر متنبہ کرو اور کہہو کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے( اٴَنْ اٴَنذِرُوا اٴَنَّهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ اٴَنَا ) ۔لہٰذا صرف میری نافرمانی سے ڈرو اور میرے سامنے احساسِ ذمہ داری کرو( فَاتَّقُون ) ۔

اس آیت میں روح سے کیا مراد ہے ؟اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد وحی، قرآن اور نبوت ہے کہ جو انسانوں کی زندگی کا باعث ہے اگرچہ بعض مفسرین نے یہاں وحی کو قرآن سے اور دونوں کو نبوت سے جدا کیا ہے ،اور انھیں تین تفاسیر کی شکل میں بیان کیا ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف لوٹتے ہیں ۔

بہر حال ”روح“ یہاں معنوی اور روحانی پہلو سے ہے اور ہر اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو دلوں کی زندگی کا سبب ہیں اور نفوس کی تربیت اور عقلوں کی ہدایت کا باعث ہے جیسا کہ سورہ انفال کی آیہ ۲۴ میں ہے ۔

( یا یهاالذین اٰمنوا استجیبوا الله و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم )

اے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول کی دعوت قبول کرو ۔ جبکہ وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف پکارتے ہیں جو تمہاری زندگی جا باعث ہے ۔

سورہ مومن کی آیت ۱۵ میں ہے :( یلقی الروح من امره علی من یشاء من عباده )

وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح القاء کرتاہے ۔

نیز سورہ شوریٰ کی آیہ ۵۲ میں ہے ۔( وکذٰلک اوحینا الیک روحا من امر نا ماکنت تدری ماالکتاب و لاالایمان )

اس طرح ہم نے اپنے حکم سے تجھ پر روح کو وحی کیا اس سے پہلے کتاب و ایمان سے آگاہ نہ تھا ۔

واضح ہے کہ ان آیات میں ”روح“ قرآن ، مضامین وحی اور فرمان ِنبوت کے معنی میں ہے اگر چہ روح قرآن کی دیگر آیات میں اور معانی بھی آیات ہے لیکن ان مذکورہ قرائن کی طرف توجہ کرتے ہوئے زیر بحث آیت میں روح کا مفہوم قرآن اورر مضمون وحی ہے ۔

اس نکتہ کا ذکر بھی بہت ضروری ہے کہ ” علیٰ من یشاء من عبادنا “ ( اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے )کاہرگز یہ مبلن نہیں کہ وحی و نبی کی نبوت بغیر کسی حساب کتاب کے ہے کیونکہ مشیت الہٰی کبھی اس کی حکمت سے جدا نہیں ہوتی اور حکیم ہونے کے تقاضا سے وہ یہ انعام اسے عطا کرتا ہے جواس کا اہل ہو ۔۔

ارشاد الہٰی ہے ۔( الله اعلم حیث یجعل رسالاته )

خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہا ں قرار دے ( انعام ۱۲۴)

یہ نکتہ بھی نظر سے اوجھل نہ رہے کہ اگر انبیاء کے لئے پہلا فرمان الہٰی(ان انذروا“ ( ڈاراؤ) ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک گمراہ اور آلوشرک وفساد قوم کو بیدا ر کرنے کےلئے انذار سے بڑھ کر مؤثر کوئی چیز نہیں انذار بیدار کرنے والا ۔ آگاہ اور اور حرکت آفرین ۔

یہ ٹھیک ہے کہ انسان نفع کا طالب اور نقصان پسند نہیں کرتا لیکن تجربہ نشاندہی کرتا ہے کہ تشویق کا اثر آمادہ افراد پر زیادہ ہوتا ہے جب کہ آلودہ افراد پر یہ تہمت کا اثر بہت ہوتا ہے اور ابتدائے نبوت میں انذار اور ڈرانے وال امور ہونا چاہیئیں ۔