تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22054
ڈاؤنلوڈ: 1981


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22054 / ڈاؤنلوڈ: 1981
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

تفسیر

معاد اور اختلافات کا خاتمہ

گذشتہ آیات توحید اور رسالتِ انبیاء کے بارے میں تھیں ۔ زیر بحث آیات میں مباحثِ توحید کے ایک پہلو کاذکر ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے : وہ تاکیدکے ساتھ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ مر جانے والون کو خد اہرگز مبعوث نہیں کرے گا اور انھیں حیات نو عطا نہیں کرے گا( وَاٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَهدَ اٴَیْمَانِهمْ لاَیَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَمُوتُ ) ۔

بغیر کسی دلیل کے ان کا یہ انکار اور بھی تاکیدی قسموں کے ساتھ ان کی نادانی اور جہالت کی نشانی ہے لہٰذا ان کے جواب میں قرآن کہتا ہے : یہ خد اکا قطعی وعدہ ہے ( کہ وہ تمام مر نے والوں کو حیات نو عطا کرے گا تاکہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ دکھ لیں ) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے اور نہ جاننے کی وجہ سے انکار کردیتے ہیں( بَلَی وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

” بلی ٰ“ ( جی ہاں ) ”حقاً “ اور اس کے بعد وعدہ کا ذکر ، وہ وعدہ کہ جو خدا کی طرف سے ہے ۔ معاد کی تاکید اور قطعیت کی دلیل ہیں ۔

اصول طور پر جو شخص کسی حقیقت کا قاطعیت کے ساتھ انکار کرے اس جواب بھی قاطعیت کے ساتھ دیا جانا چاہئیے تاکہ اس انکار کے برے نفسیاتی اچرات اثباتِ قاطع کے ذریعہ دور ہو سکیں اور یہ بات واضح ہو جائے کہ اس کی طرف سے نفی ، بے خبری اور نادانی کی وجہ سے ہے ۔ اس طرح انکار اپنا اثر بالکل کھو دے گا ۔

اس کے بعد معاد و قیامت کا مقصد اور اس پر خدا کی قدرت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس امر کی نشاندہی کی جائے کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حیات نو قدر خدا میں نہیں ہے تو یہ ان کا بہت بڑا اشتباہ ہے اور اگر ان کا خیال ہے کہ معاد و قیامت بے مقصد ہے تو یہ بھی ان کی بہت بڑی غلطی ہے ۔

فرمایا گیا ہے : خدا مر نے والوں کو مبعوث کرے گا تاکہ جو چیز کے بارے میں وہ اختلاف کرتے تھے ان کے سامنے واضح کردے( لِیُبَیِّنَ لَهُمْ الَّذِی یَخْتَلِفُونَ فِیه ) ۔اور اس لئے کہ وہ جان لیں کہ وہ اس حقیقت کا جھوٹ انکار کرتے تھے ۔

( وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنّهُمْ کَانُوا کَاذِبِینَ ) ۔

کیونکہ وہ جہان تو ایسا ہے جس میں پر دے ہٹ جائیں گے ، اور حقائق آشکار ہو جائیں گے ۔

جیسا کہ سورہ ق ٓ کی آیت ۲۲ میں ہے :۔( لقد کنت فی غفلة من هٰذا فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید )

انسان سے کہا جائے گا کہ تو اس دن کے بارے میں غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیری آنکھوں کے سامنے سے پر دہ اٹھا دیا ہے اور آج تو خوب دیکھتا ہے ۔

سورہ طارق کی آیہ ۹ میں ہے :۔( یوم تبلی السرائر )

قیامت ایسا دن ہے کہ جب رازہائے پنہاں آشکار ہو جائیں گے ۔

نیز سورہ ابراہیم کی آیت ۴۸ میں ہے :( وبرزوا لله الواحد القهار )

اس روز سب کے سب خدا ئے واحد و قہار کی بار گاہ میں حاضر ہو ں گے ۔

خلاصہ یہ کہ وہ دن شہود ،کشف ِ اسرار اور ظہور کا دن ہے ۔ اس روز پنہاں چیزیں آشکار ہو جائیں گی ایسے حالات او رماحول میں اختلاف ِ عقیدہ کا کوئی معنی نہیں ہے اگر چہ ممکن ہے کہ بعض ہٹ دھرم من کر اپنے آپ کو بچانے کے لئے جھوٹے سہارے لینے کی کوشش کریں لیکن یہ ایک استثنائی اور زود گزر امر ہے یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے تواپنے تمام جرائم کا انکار کردے لیکن جب فوراً ٹیب ریکارڈ لگار کر اس کی آواز اسے سنائی جائے اس کے دستخظ اسے دیکھائے جائیں اور واضح ثبوت اس کے سامنے پیش کیے جائیں اور اسے ساتھ لے جاکر ، اس کے جرم کے آثار ، موقع و محل دکھا یا جائے تو اب جائے کلام باقی نہ رہے گی اور وہ اقرار کرلے گا ۔ عالم قیامت میں حقائق کا ظہور اس سے بھی زیادہ واضح اور آشکار ہو گا ۔

موت کے بعد کی زندگی اور قیامت کے مختلف اہداف و مقاصد ہیں جن کی مختلف مقامات پر آیات قرآنی میں نشاندہی کی گئی ہے مثلا ً انسان کا تکامل و ارتقاء ، اجرائے عدالت ، اس جہان کی زندگی کو با مقصد بنانا، فیض ِ الٰہی کو جاری وساری رکھنا وغیرہ ۔

زیر بحث آیت ایک اور مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ ہے اختلافات کو دور کرنا اور توحید طرف لوٹنا ۔

ہم جانتے ہیں کہ بہترین اصل کہ جو سارے عالم پر حکمران ہے وہ اصل توحید ہے ۔ یہ وسیع اور ہمہ گیر اصل خدا کی ذات ، صفات اور افعال پر صادق آتی ہے سارے عالم خلقت اور قوانین آفرینش پر بھی یہ اصل حکمران ہے اور ہر چیز کو آخر کار اسی اصل کی طرف پلٹنا چاہیئے لہٰذا ہماراعقیدہ ہے کہ یہ اختلافات اور اور نزاعات ایک دن ختم ہ وجائیں گے اور ساری دنیا کے لوگ ایک حکومت کے پرچم تلے جمع ہو جائیں گے اور یہ حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت ہو گی کیونکہ عالم ہستی کی روح یعنی توحید کے بر خلاف جو کچھ بھی ہے اسے آخر ایک دن ختم ہو نا جا چاہئیے ۔

لیکن عقائد کا یہ اختلاف دنیاسے مکمل طور پر ختم کبھی بھی ختم نہیں ہو گا کیونکہ یہ عالم غطا ہے یہاں بہت کچھ پر دے میں ہے ۔

البتہ ایک دن آئے گا کہ جب یہ پر دے ہٹ جائیں گے اور وہ ”یوم ظہور “ ہے ۔ اس بناء پر معاد کا ایک ہدف یہ ہے کہ سب وحدت کی طرف پلٹ آئیں اور تمام اختلافات ختم ہو جائیں ۔ اسی ہدف کی طرف مذکورہ بالا آیت میں اشارہ ہوا ہے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اس مسئلے کی تکرار اور تاکید موجود ہے کہ خدا وند عالم روز قیامت لوگوں کے درمیان عدالت کرے گا اور اختلا فات ختم ہو جائیں گے ۔ ۲

دوسرا نکتہ ایک اور حقیقت پر مبنی ہے وہ یہ کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی بازگشت اور نئی زندگی محال ہے تو یہ جان لیں گے قدرت خدا اس سے برتر اور بالاہے ”جب ہم کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو فقط یہ کہتے ہیں کہ ”ہو جا“ تو وہ فورا ً موجود ہو تی ہے “( إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا اٴَرَدْنَاهُ اٴَنْ نَقُولَ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ) ۔

ایسی قدرت کاملہ کہ جس میں صرف”ہو جا “ کا فرمان ہر چیز کے وجود کے لئے کافی ہو تو پھر اس کے لئے مردوں کے حیات ِ نو عطا کرنے کی قدرت کے بارے میں تردد و شک کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔

شاید وضاحت کی ضرورت نہ ہوکہ ”کن“( ہوجا)کی تعبیر بھی تنگی بیان کی وجہ سے ہے ورنہ خدا کے لئے ”کن “کی ضرورت نہیں ۔اس کا ارادہ ہی کام کا ہوجانا ہے ۔ اس کی ناقص سی مثال اپنی زندگی سے پیش کرنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ ہم ارادہ کرتے ہیں کس چیز کے تصور کا تو وہ ہمارے ذہن میں ایجا د ہو جاتا ہے ہم اگر کسی عظیم پہاڑ، وسیع ، سمندر، ، درختوں سے بھرے بہت بڑے باغ یا ایسی کسی چیز کا تصور کرنا چاہیں توہمارے لئے کیا مشکل ہے کیا اس کے لئے ہمیں کسی جملے اور لفظ کی احتیاج ہے ؟ ان موجودات تصویرکی تو صرف تصور ہی سے ہمارے صفحہ ذہن پر ابھر آتی ہے ۔ تو اسی طرح خدا کے ”ہو جا“ کہے بغیر ، صرف ارادہ سے چیز موجود ہو جاتی ہے ۔

امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے کہ ایک صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ خدا کے ارادہ او ر مخلوق کے ارادہ کے بارے میں وضاحت فرمائیے تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا :

مخلوق کا رادہ باطنی ہے اس کے بعد افعال ہیں کہ جو بعد میں آشکار ہو تے ہیں لیکن خدا کا ارادہ ہی اس کی ایجاد ہے نہ کہ اس کا غیر ، کیونکہ خدا میں سوچ بچار ، تصمیم اور فکر و نظر نہیں ہے (کیونکہ یہ صفات زائد بر ذات ہیں ) خدا کے بارے میں ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں ہے یہ مخلوقات کی صفات ہیں لہٰذا خد اکا ارادہ ہی ایجاد ، افعال ہے ۔ فقط خدا کہتا ہے : ”ہوجا“ تو وہ ہو جا تاہے بغیر کوئی لفظ ادا کئے ، اسے زبان سے ادا کرنے ، کمر ہمت باندھنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔(۳)

____________________

۱۔ تفسیر مجمع البیان ، تفسیر قرطبی اور تفسیر ابو الفتوح رازی ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔اس سلسلے میں آل عمران کی آیہ ۵۵، مائدہ کی ۴۸، انعام کی ۱۶۴، نحل کی ۹۲، اور حج کی ۶۹ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۳۔اصول کافی جلد ۱ ، باب الارادہ، حدیث نمبر ۳۔

آیات ۴۱،۴۲

۴۱ ۔( وَالَّذِینَ هَاجَرُوا فِی اللهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَلَاٴَجْرُ الْآخِرَةِ اٴَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ ) ۔

۴۲ ۔( الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۱ ۔جن لوگوں پر ظلم ہوا اور پھر انہوں نے خدا کے لئے ہجرت کی ہے ہم اس دنیا میں انھیں اچھا مقام دیں گے اور اگر وہ جانیں تو آخرت کی جزا بہت بڑی ہے ۔

۴۲ ۔وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں صبر و استقامت کو اختیار کیا ہے اور وہ صرف اپنے پر وردگار پر توکل کرتے ہیں ۔

شان نزول

ان آیات کی شان ِ نزول میں بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ مکہ میں اسلام لانے کے بعد بعض مسلمانوں مثلا ً بلال ، عمار یاسر صہیب اور خبّاب پر سخت تشدد کیا گیا اسلام کی تقویت اور دوسروں تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے پیغمبر اکرم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یہ ہجرت آپ کی اور دوسروں کی کامیابی کا باعث بنیصہیب سن رسیدہ شخص تھے انہوں نے مشرکین مکہ سے کہا کہ میں ایک بوڑھا آدمی ہو میں اگر تمہارے میں اگر تمہارے پاس رہوں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اگر میں تمہارا مخالف تو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا تم ایسا کرو کہ میرے مال لے لو اور مجھے مدینہ جانے دو ۔ اس پر صہیب سے لوگوں نے کہا کہ تم نے نفع کا سود کیا ہے اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں جن میں اس جہان میں ، دوسرے جہان میں ان کی اور ان جیسے لوگوں کی کامیابی کا تذکرہ ہے ۔

تاریخ میں ہے کہ خلفاء کے زمانے میں جب بیت المال کے اموال تقسیم ہوتے تھے تو مہاجرین کے باری آتی تھی تو انہیں کہا جا تا تھا کہ اپنا حصہ لے لو یہ وہی ہے کہ جو خدا نے تمہیں دنیا میں دینے کا وعدہ کیا ہے او ر جو کچھ دوسرے جہان میں تمہارے انتظار میں ہے وہ بہت زیادہ ہے اس کے بعد وہ مذکورہ بالا آیت کی تلاوت کرتے تھے ۔(۱)

____________________

۱۔مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

تفسیر

مہاجرین کی جزا

ہم نے بار ہا کہا ہے کہ قرآن اپنے تربیتی امور میں جس موثر ترین روش سے استفادہ کرتا ہے وہ ہے موازنہ اور تقابل ۔ قرآن ہر چیز کو ا س کے متضاد کے سامنے لے آتا ہے تاکہ ہر ایک کا مقام واضح اور متعین ہو جائے ۔ گزشتہ آیات میں منکرین قیامت اور ہٹ دھرم مشرکین کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیر بحث آیات سچے اور پاکباز مہاجرین کی بات کرتی ہیں تاکہ موازنہ اور تقابل سے دونوں کی کیفیت واضح ہو جائے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : جن لوگوں نے ستم اٹھائے اور راہ خدا میں ہجرت کی ہم اس دنیا میں انھیں اچھی جگہ اور مقام دیں گے( وَالَّذِینَ هَاجَرُوا فِی اللهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ) ۔

یہ ان کی دنیاوی جز اہے ، رہی اخروی جزا ، اگر وہ جانے تو بہت ہی بڑی ہے( وَلَاٴَجْرُ الْآخِرَةِ اٴَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ ) ۔

بعد والی آیت میں ان سچے اور با استقامت اہل ایمان مہاجرین کی توصیف میں ان کے دو اوصاف بیان کئے گئے ہیں فرمایا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے صبر و استقامت کا دامن تھاما اور جو اللہ پر توکل رکھتے ہیں( الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ہجرت او رمہاجرین :

آغاز اسلام میں مسلمانوں نے دو ہجرتیں کیں ۔ پہلی ہجرت نسبتاً مختصر تھی اس میں چند مسلمانوں نے ھجرت جعفر بن ابی طالب (علیه السلام) کی سر براہی میں حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔ دوسری ہجرت ہمہ گیر تھی ۔ اس میں رسول اللہ اور تمام مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔ زیر نظر آیات دوسری ہجرت سے متعلق ہیں ۔ ان آیات کی شان نزول بھی اس امر کی تائید کرتی ہے ۔

گذشتہ زمانے میں اور دور حاضر میں مسلمانوں کے لئے ہجرت کی دائمی اہمیت کے متعلق ہم سورہ نساء کی آیہ ۱۰۰ اور سورہ انفال کی آیہ ۷۵ کے ذیل میں تفصیلی بحث کر چکے ہیں ۔(۲)

بہر حال مہاجرین کا مقام اسلام میں بہت بلند ہے ، خود پیغمبر اکرم اور بعد کے مسلمان سب ان کا خاص احترام کرتے تھے کیونکہ انہوں نے دعوت اسلام کی تو سیع کی خاطر اپنا تمام سر مایہ حیات کو ٹھوکر ماردی ۔ بعض نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالاصہیب بعض افراد نے اپنے سارے مال و متاع سے منھ پھیر لیا ۔

ان دنوں میں اگر ان مہاجرین کا ایثار نہ ہو تا تو مکہ کا تنگ ماحول اور اس میں موجود شیطانی عناصر ہر گز اجازت نہ دیتے کہ اسلام کی آواز کسی کے کانوں تک پہنچے یہ وہ آواز ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے حلقوم میں دبا دیتے لیکن یہ مہاجرین تھے کہ جن کی اس سوچی سمجھی تحریک اور انقلاب کے ذریعے نہ صرف مکہ ان کے یر تسلط آگیا بلکہ اسلام کی آواز پوری دنیا کے کانوں تک پہنچ گئی ان کا یہ طرز عمل بعد کے مسلمانوں کے لئے اس قسم کے حالات میں ایک دائمی سنت کی حیثیت رکھتا ہے ۔

۲ ۔”( هاجروا فی الله ) “کا مفہوم :

اس تعبیر میں لفظ ”سبیل “ تک ذکر نہیں ہوا۔ یہ در اصل ان مہاجرین کے انتہائی خلوص کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے صرف خدا کی راہ میں ، اس کی رضا کی خاطر اور ا س کے دین کی حفاظت کے لئے اس قسم کی ہجرت کی ، نہ کہ اپنی جان بچا نے کے لئے یا کسی دوسرے مادی مفاد کے لئے ۔

۳ ۔( من بعد ماظلموا ) “ کا مطلب :

یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ میدان فوراًخالی نہیں کردینا چاہئیے بلکہ جب تک ممکن ہو قیام کرنا چاہئیے اور مشکلات کو بر داشت کرنا چاہئیے ۔ البتہ جس وقت دشمن کے آثار اور مظالم بر داشت کرنے کا نتیجہ اس کی جسارت میں اضافہ ہو اور مومنین کی کمزوری کے سواکچھ نہ ہو اس وقت ہجرت کرنا چاہیئے تاکہ زیادہ طاقت جمع کرنے اور زیادہ مضبوط مورچے قائم کرنے کا موقع مل سکے اور ہمہ گیر جہاد کے لئے بہتر جگہ میسر آسکے اور اہل حق کو فوجی ، ثقافتی اور تبلیغی محاذ پر کامیابی حاصل ہو سکے ۔

۴ ۔( لنبوئنهم فی الدنیا حسنة ) “ کا مفہوم :

یہ جملہ”بواٴت له مکاناً “ ( وہ مکان کہ جو میں نے اس کے لئے تیار کیا اور اسے اس میں جگہ دی ) کے مادہ سے لیا گیا ہے ، یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ حقیقی مہاجرین اگر چہ ابتداء میں اپنے مادی وسائل کھوبیٹھے تھے لیکن آخر کار انھیں مادی زندگی کے لحاظ سے بھی کامیابی حاصل ہوئی۔(۳)

انسان آخر دشمن کی ضربوں میں رہ کر ذلت کے ساتھ کیوں مرجائے ؟ وہ شجاعت و جرا ء ت کے ساتھ ہجرت کیوں نہ کر جائے اور کیوں نہ نئی جگہ سے مقابلے کی تیاری کرے تاکہ اپنا حق لے سکے ۔

سورہ نساء کی آیہ ۱۰۰ میں یہی مسئلہ زیادہ صرحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد الہٰی ہے :

( ومن یهاجر فی سبیل الله یجد فی الارض مراغماً کثیراً وسعة )

جو لوگ اللہ کی راہ میں ہجرت کریں انھیں دنیا میں امن کی بہت وسیع جگہ ملے گی کہ جہاں رہ کر وہ دشمن کو رسوال کرسکتے ہیں ۔

۵ ۔ مہاجرین کی صفات: مہاجرین کی دو صفات بیان کی گئی ہیں صبر اور توکل ۔ ان کی ان صفات کو بیان کرنے کا مقصد واضح ہے کیونکہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے ایسے روح فرسا حوادث میں سب سے پہلے صبر و استقامت ضروری ہے جتنی مصیبت زیادہ ہوگی پھر اللہ پر توکل اور اعتماد بھی ضروری ہے اصول طور پر ایسی مشکلات میں اگر انسان کا کوئی مستحکم اور قابل ِ اطمینان سہارا نہ ہو تو اس کے لئے صبر و استقامت ممکن نہیں ہے ۔

بعض نے کہا کہ صبر کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس راہ میں پہلے خواہشات ِ نفسانی کے مقابلے میں صبر و استقامت ضروری ہے اور توکل کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس راستے کا آخری یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر کسی سے کٹ جائے اور اس سے پیوستہ ہو جائے لہٰذا پہلی صفت آغاز سفر ہے اور دوسری اختتام سفر ۔(۴)

بہر حال بیرونی ہجرت اندرونی ہجرت کے بغیر ممکن نہیں ہے انسان کو چاہئیے کہ پہلے وہ اندرونی مادی برائیوں کو چھو ڑکر اخلاقی فضائل کی طرف ہجرت کرے تاکہ وہ بہرونی طور پر اس قسم کی ہجرت کرسکے اور دار الکفر کی ہر چیز کو ٹھو کر مار کر دار الایمان کی طرف منتقل ہو سکے ۔

____________________

۱۔مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔تفسیر نمونہ جلد ۴ ص ۸۵( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع کریں ۔

۳۔”لنبوئنهم “ اصل میں ” بواء“ کے مادہ سے جگہ کے اجزاء مساوی ہونے کے معنی میں ہے ۔ اس کے برعکس ”نبوہ“( بر وزن ”مبدء “) جگہ کے اجزاء مساوی نہ ہونے کے میں ہے ۔ لہٰذا ” بوات لہ مکانا“ کا معنی ہے : میں نے اس کے لئے جگہ صاف کی لہٰذا یہ کسی کے لئے کوئی جگہ تیار کرنے کے معنی میں ہے ۔

۴۔ تفسیر کبیر فخر رازی ، شیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

آیات ۴۳،۴۴

۴۳ ۔( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالاً نُوحِی إِلَیْهِمْ فَاسْاٴَلُوا اٴَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

۴۴ ۔( بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۳ ۔ ہم نے تجھ سے پہلے بھی ایسے مرد کہ جن پر وحی نازل کی، کے سواکسی کو نہیں بھیجا ، اگر تم نہیں جانتے تو باخبر لوگوں سے پوچھ لو ۔

۴۴ ۔ ( اور وہ لوگ جو ) واضح دلائل اور ( گزشتہ انبیاء کی ) کتب سے (آگاہ ہیں )اور ہم نے اس ذکر ( قرآن) کو تجھ پر نازل کیا تاکہ لوگوں کی طرف جو کچھ ہم نے بھیجا ہے وہ ان سے بیان کرو شاید وہ غرو رفکر کریں ۔

تفسیر

نہیں جانتے تو پوچھ لو

گذشتہ دو آیتیں حقیقی مہاجرین کے بارے میں تھیں البتہ زیر بحث آیات کے بارے میں دوبارہ اصول ِ دین سے متعلق گزشتہ مسائل کا ذکر ہے ان میں مشرکین کے ایک مشہور اعتراض کا جواب دیا گیا ہے ۔

وہ کہتے تھے کہ خدا نے تبلغ رسالت کے لئے کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا ( یا وہ کہتے تھے کہ پیغمبر کے پاس کوئی ایسی غیر معمولی قوت کیوں نہیں ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں یہ کام ترک کرنے پر مجبور کردے کہ جو ہم انجام دیتے ہیں )ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ہم نے تجھ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں اور وہ بھی بس ایسے ہی مرد تھے کہ جن پر وحی نازل ہوتی تھی( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالاً نُوحِی إِلَیْهِمْ ) ۔

جی ہاں یہ مرد نوع بشر میں سے تھے ان میں تمام تر انسانی جذبات و احساسات موجود تھے یہ لوگوں کی مشکلات اور مصائب کو سب سے زیادہ سمجھتے تھے ۔ ان کی ضروریا ت کو جانتے تھے جبکہ کوئی فرشتہ ان امور سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کے اندر جو گذرتی ہے فرشتہ اسے نہیں سمجھ پاتا۔

مسلم ہے صاحبان وحی کی اس کے سواکوئی اور ذمہ داری نہ تھی کہ وہ ابلاغ ِ رسالت کریں ۔ ان کا کام تھا کہ وہ پیام وحی حاصل کریں ۔ اسے انسانوں تک پہنچائیں اور معمول کے ذرائع کے ساتھ مقاصد وحی کے حصول کی جد و جہد کریں ۔ ان کا یہ کام نہ تھا کہ کسی غیر معمولی خدائی طاقت کے ذریعے تمام طبیعی قونین کو توڑتے ہوئے لوگوں کو قبولیت کی دعوت دیں اور انہیں انحرافات ترک کرنے پر مجبور کریں کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو پھر کسی کا ایمان لانا کوئی افتخار کی بات نہ ہوتی اور نہ ہی ایسا ایمان ترقی اور کمال کا ذریعہ ہوتا ۔

اس حقیقت پر تاکید اور اس کی تائید کے لئے مزید فرمایا گیا ہے : اگر اس بات کا تمہیں علم نہیں تو جاؤ با خبر لوگوں سے پوچھو( فَاسْاٴَلُوا اٴَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

”ذکر“ آگاہی اور اطلاع کے معنی میں ہے اور ”اهل الذکر “ ایک وسیع مفہوم ہے ۔ مختلف سطح پر ا سکے مفہوم میں تمام آگاہ او رباخبر لوگ شامل ہیں ۔

بہت سے مفسرین نے ”اهل الذکر “ سے اہل کتاب کے علماء مراد لیتے ہیں ۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ”اهل الذکر “ کا مفہوم اسی میں محدود سمجھ لی اجائے بلکہ در حقیقت اس کے کلی مفہوم کا ایک مصداق ہے کیونہ اس کے بارے میں سوال قاعدتاً اہل کتاب کے اور یہود و نصاریٰ کے علماء سے کیا جانا چاہئیے کہ گذشتہ انبیاء و مر سلین نوع بشر میں سے تھے اور مرد تھے کہ جو خدائی احکام کی تبلیغ اور اجراء کے لئے مامور ہوئے تھے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ اہل کتاب ہر لحاظ سے مشر کین کے ہم آہنگ نہ تھے بلکہ اسلام کی مخالفت میں وہ ان سے ہم آہنگ تھے لہٰذا گذشتہ انبیاء کے حالات بیان کرنے کے لئے اہل کتاب کے علماء بہتر ذریعہ تھے ۔

مفردات میں راغب نے کہا ہے کہ ”ذکر“ کے دو معنی ہیں یہ لفظ کبھی ”حفظ“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی ”یاد آوری“ کے معنی میں ۔

البتہ ممکن ہے یاد آوری دل ہی سے ہو( دل سے یاد کرنا در اصل باطنی ذکر شمار ہوتا ہے ) یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کو ذکر کہا جاتا ہے یہ اس بناء پر ہے کہ قرآن حقائق کو واضح کرتا ہے ۔

اگلی آیت میں ہے : اگر تم انبیاء اور ان کی کتب کے واضح دلائل سے آگاہ نہیں ہوتو آگاہ اور باخبر لوگوں کی طرف رجوع کرو( بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ) ۔(۱)

توجہ رہے کہ علم باء کے بغیر اور باء کے ساتھ متعدی ہوتا ہے ۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے پہلے ”ارسلنا “ مقدر ہے اور اصل میں یوں تھا ”ارسلناھم بالبینات و الزبر“

بعض نے کہا ہے کہ اس کا متعلق ”و ما ارسلنا “ قبل کی آیت میں ہے۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ”نوحی الیهم “ سے متعلق ہے ۔

واضح ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے مطابق آیت کا ایک خاص مفہوم ہوگا لیکن مجموعی طور پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

”بینات“ ” بینة“ کی جمع ہے اس کا معنی ہے ”واضح دلائل “ ، ہو سکتا ہے یہاں یہ انبیاء کے معجزات اور ان کی حقانیت کے دیگر دلائل کی طرف اشارہ ہو ۔

”زبر“ ” زبور“ کی جمع ہے ا س کا معنی ہے ” کتاب “۔

در حقیقت ”بینات“ کا مفہوم ہے اثبات کے دلائل اور ” زبر“ ان کتب کی طرف اشارہ ہے جن میں انبیاء کی تعلیمات جمع تھیں ۔

اس کے بعد قرآن روی سخن پیغمبر اکرم کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے :ہم نے یہ ذکر ( قرآن) تجھ پر نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے جو کچھ نازل ہوا ہے تو ان سے بیان کرے( وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْهِمْ ) ۔

تاکہ وہ ان آیات پر غور و فکر کریں اور ان کے حوالے سے جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کی طرف متوجہ ہوں( وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

در حقیقت تیری دعوت اور رسالت کا پروگرام اصول طور پر کوئی نئی چیز نہیں ۔ گزشتہ رسولوں پر بھی ہم نے آسمانی کتابیں نازل کی ہیں تاکہ وہ لوگوں کو ان ذمہ داریوں سے آگاہ کریں کہ جو خد ا، مخلوق اور خود اپنی ذات کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں ہم نے تجھ پر قرآن نازل کیا ہے تاکہ تو اس کے مفاہیم اور تعلیمات کو بیان کرے اور انسانون کی فکر کو بیدار کرے تاکہ وہ مسئولیت اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ قدم اٹھائیں اور رشد و کمال کی طرف آگے بڑھیں ( نہ کہ جبری طریقے سے اور خدا کی خلافِ معمول جبری طاقت سے ) ۔

___________________

۱۔”بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُر “ترکیب کے لحاظ سے کس فعل سے متعلق ہے اس سلسلے میں مفسرین نے کئی ایک احتمالات ذکر کئے ہیں بعض نے اسے ”لاتعلمون “ سے متعلق سمجھا ہے (جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے اور ظاہری مفہوم سے یہی بات مطابقت رکھتی ہے ) ۔

ایک اہم نکتہ

اہل ذکر کون ہیں ؟

اہلبیت علیہم السلام کے ذرائع سے مروی متعدد روایات میں ہے کہ اہل ذکر آئمہ اہلِ بیت ہیں ۔

ان میں سے ایک روایت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے مروی ہے ۔ اس آیت کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا:نحم اهل الذکر و نحن المسئولون

ہم ہے اہل ذکر اور ہم ہی سوال کیا جانا چاہئیے(۱)

ایک اور روایت میں ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں فرمایا:

الذکر القرآن ، وآل الرسول اهل الذکر و هم المسئولون

ذکر قرآن ہے اور آلِ رسول اہل ِ ذکر ہیں اور انھیں سے سوال کیا جانا چاہئیے ۔(۲)

بعض روایات میں ہے کہ ذکر خود رسول اللہ ہیں اور ان کے اہل بیت اہل الذکر ہیں ۔(۳)

اس مضمون کی اور بھی کئی روایات ہیں ۔

اہل سنت کی تفاسیر اور کتب میں بھی اسی مضمون کی بہت سی روایات ہیں ان میں سے ایک روایت ابن ِ عباس سے مروی ہے جسے اہل سنت کی مشہوربارہ تفاسیر میں زیر بحث آیت کی تفسیر کے ضمن میں نقل کیا گیا ہے ۔ ابن عباس کہتے ہیں :هو محمد و علی و فاطمه و الحسن و الحسین هم اهل الذکر و العقل و البیان

محمد ، علی ، فاطمہ، حسن ، اور حسین ہی اہل ذکر ، اہل عقل اور اہل بیان ہیں ۔(۴)

بارہ تفاسیر سے مندرجہ ذیل تفاسیر مراد ہیں :

۱ ۔ تفسیر ابو یوسف ۲ ۔ تفسیر ابن حجر ۳ ۔ تفسیر مقاتل بن سلیمان ۴ ۔ تفسیر وکیع بن جراح

۵ ۔ تفسیر یوسف بن موسیٰ ۶ ۔ تفسیر قتادہ ۷ ۔ تفسیر حرب الطائی ۸ ۔ تفسیر سدی

۹ ۔ تفسیر مجاہد ۱۰ ۔ تفسیر مقاتل بن حیان ۱۱ ۔ تفسیر ابو صالح ۱۲ ۔تفسیر محمد بن موسیٰ الشیرازی

اسی آیت کی تفسیر میں جابر جعفی کی ایک حدیث ثعلبی کی کتاب میں مرقوم ہے ۔ وہ کہتا ہے :۔

لما نزلت هٰذه الاٰیة قال علی (علیه السلام) نحن اهل الذکر

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ، حضرت علی (علیه السلام) نے فرمایا: ”اہم اہل ِ ذکر ہیں “۔(مذکورہ بالا مدر ک کی طرف رجوع کریں )

آیات قرآن کی تفسیر میں معین مصادیق پر مبنی روایات سے یہ ہمارا پہلا سابقہ نہیں ہے ایسا مصداق آیت کے وسیع مفہوم کو کبھی محدود نہیں کرتا۔

اسی طرح یہاں بھی جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ذکر ہر قسم کی آگاہی ، یا د آوری اور اطلاع کے معنی میں ہے اور اہل ذکر کے مفہوم میں ہر سطح کے آگاہ اور باخبر افراد شامل ہیں لیکن قرآن مجید چونکہ یا د آوری ، علم اور آگہی کا زیادہ واضح نمونہ ہے لہٰذا اس پر ”ذکر“ کا اطلاق ہوا ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ کی ذات بھی اس کا واضح مصداق ہے اسی طرح آئمہ معصومین کہ جوآنحضرت کے اہل ِ بیت اور آپ کے علم کے وارث ہیں وہ ” اہل الذکر “ کا واضح ترین مصداق ہیں ۔

اس کے سارے مسئلے کو قبول کرلیا جائے تو یہ آیت کے عمومی مفہوم کے منافی نہیں اور نہ ہی اس بات کے منافی ہے کہ اہل کتاب کے علماء کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء ِ اصول اور فقہاء نے اس سے اجتہاد او ر تقلید کرنا چاہئیے ۔

اس موقع پر ایک روایت کے حوالے سے ایک سوال ابھر تا ہے ۔ روایت عیون الاخبار میں امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے مروی ہے روایت کے مطابق جو لوگ اس آیت کی تفسیر میں کہتے تھے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف رجوع کرو اور ان پر آپ نے اعتراض کیا اور فرمایا:

سبحان اللہ ! کیسے ممکن ہے کہ ہم علماء یہود و نصاریٰ کی طرف رجوع کریں کیونکہ اس طرح تو یقینا وہ ہمیں اپنے مذہب کی طرف دعوت دیں گے ۔

پھر فرمایا:اہل ذکر ہم ہیں ۔(۵)

اس سوال کا جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ امام نے یہ بات ان لوگوں سے کہی ہے جو آیت سے یہ مراد سمجھتے ہیں کہ ہر دور میں صرف علماء ِ اہل کتاب کی طرف رجوع کیا جائے حالانہ یہ بات ہر زمانے کے لئے نہیں ہے ۔ مثلاًامام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کی ہر گز یہ ذمہ داری نہ تھی کہ وہ حقائق جاننے کے لئے یہودی اور عیسائی علماء کے پاس جائیں ایسے زمانے میں علماء اسلام مرجع ہیں اور علماء اسلام کے سید و سردار آئمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں ۔

دوسرے لفظوں میں پیغمبر اکرم کے زمانے کے مشرکین کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس مسئلے سے آگاہی کے لئے کہ اللہ نبی نوعِ بشر میں سے تھے ، علماء اہل کتاب کی طرف رجوع کریں بلکہ چاہئیے کہ ہر مسئلہ اس مسئلے سے آگاہ افراد سے پو چھا جائے اور یہ ایک بدیہی بات ہے ۔

بہر حال زیر بحث آیت میں ایک بیادی اسلامی اصول بیان کیا گیا ہے یہ آیت مادی و روحانی تمام پہلوؤں پ رمحیط ہے اور تمام مسلمانوں کو تاکید کرتی ہے کہ جو چیز وہ نہیں جانتے اس کے بارے میں آگاہ افراد سے پوچھیں اور جن مسائل سے جو لوگ آگاہ نہیں ہیں وہ ان میں دخل اندازی نہ کریں ۔ اس طرح سے قرآن نے نہ صرف اسلامی دینی مسائل میں ” تخصص“ (۔ specilaliza Tion )کی ضرورت ک وباقاعدہ قانونی طورپر تسلیم کیا ہے بلکہ تمام شعبوں ، تمام مواقعاور تمام علاقوں میں اس کے لئے تاکید کی ہے اس بناء پر تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہر زمانے میں ہر شعبے اور ہر موضوع پر ان کے پاس آگاہ اور ماہر افراد موجود ہوں ۔ تاکہ نہ جاننے والے ان کی طرف رجوع کریں ۔

اس نکتے کا ذکر نا بھی ضروری ہے کہ ہمیں ایسے متخصصین اور ماہرین کی طرف رجوع کرنا چاہیئے جن کی صداقت ، بے غرضی اور دوستی ثابت ہو ۔ کیا ہم کبھی کسی ایسے ماہر ڈاکٹرکی طرف رجوع کریں گے خود جس کے کام سے ہم مطمئن نہ ہوں ۔

یہی وجہ ہے کہ تقلید اور مر جعیت کی بحث میں اجتہادیااعلمیت کے ساتھ عدالت کو بھی قرار دیا جاتا ہے یعنی مرجع تقلید اسلامی مسائل کا عالم و آگاہ ہو ، صاحبِ تقویٰ بھی ہو ۔

____________________

۱۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۵۵تا ۵۶۔

۲۔ ۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۵۵تا ۵۶۔

۳۔۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۵۵تا ۵۶۔

۴۔ احقاق الحق جلد ۳ ص۴۸۲۔

۵۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۳ ص ۵۷۔