تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22044
ڈاؤنلوڈ: 1972


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22044 / ڈاؤنلوڈ: 1972
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۵۶،۵۷،۵۸،۵۹،۶۰

۵۶ ۔( وَیَجْعَلُونَ لِمَا لاَیَعْلَمُونَ نَصِیبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ تَاللهِ لَتُسْاٴَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُونَ ) ۔

۵۷ ۔( وَیَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُمْ مَا یَشْتَهُونَ ) ۔

۵۸ ۔( وَإِذَا بُشِّرَ اٴَحَدُهُمْ بِالْاٴُنثَی ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ کَظِیمٌ ) ۔

۵۹ ۔( یَتَوَارَی مِنْ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ اٴَیُمْسِکُهُ عَلَی هُونٍ اٴَمْ یَدُسُّهُ فِی التُّرَابِ اٴَلاَسَاءَ مَا یَحْکُمُونَ ) ۔

۶۰ ۔( لِلَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْاٴَعْلَی وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) ۔

ترجمہ

۵۶ ۔جو روزی ہم نے انھیں دی ہے وہ ا سکا ایک حصہ بتوں کے نام کردیتے ہیں جبکہ ان سے وہ کسی قسم کے سود و زیان کی خبر نہیں رکھتے ۔ خدا کی قسم ( قیامت کی عدالت میں ) ان جھوٹی تہمتوں پر ان سے باز پرس ہو گی ۔

۵۷ ۔ وہ ( اپنے خیال میں ) اللہ کے لئے بیٹیوں کے قاتل تھے وہ ( اس سے ) منزہ ہے (کہ اس کی اولاد ہو ) لیکن اپنے لئے وہ کچھ چاہتے جو انھیں پسند ہوتا ہے ۔

۵۸ ۔ حالانکہ جب ان مین سے کسی کو بشارت دی جائے کہ تمہارے ہاں بیٹی ہو ئی تو ( غم اور پریشانی کے مارے ) اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ زہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔

۵۹ ۔ اس بری خبر پر اپنے قوم قبیلے سے منہ چھپائے پھرتاہے اور اس فکر میں ہوتا ہے کہ ذلت اٹھا کر اسے زندہ رہنے دے یا تہہ خال چھپا دے یہ لوگ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں ۔

۶۰ ۔ بری صفتیں انھیں ہی جچتی ہیں جو دار آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ خدا کے لئے تو اعلیٰ صفات ہیں اور وہ عزیز و حکیم ہے ۔

تفسیر

جہاں بیٹی کو باعث ِرسوائی سمجھا تاتھا

گذشتہ آیات میں شرک و بت پرستی کے خلاف مدلّل بحث تھی۔اب زیر نظر آیات میں مشرکین کی بعض بری بد عتوں اور گھٹیا عادتوں کو بیان کیا گیا ہے تاکہ شرک پرستی کے خلاف ایک اور دلیل قائم ہو جائے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : ان مشرکوں کو ہم نے جو روزی دی ہے اس کا ایک حصہ بتوں کی نذر کر دیتے ہیں جبکہ انھیں ان سے کسی نفع و نقصان کی خبر تک نہیں( وَیَجْعَلُونَ لِمَا لاَیَعْلَمُونَ نَصِیبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ) ۔(۱)

پہلی یہ کہ ”لایعلمون “ کی ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہے یعنی مشرکین اپنے بتوں کے لئے ایک حصہ وقف کردیتے ہیں جبکہ ان سے کسی خیر و شر کی انھیں خبر نہیں ہم نے یہی تفسیرانتخاب کی ہے ۔

دوسری یہ کہ ”لایعلمون “ کی ضمیر خود بتوں کی طرف لوٹتی ہے یعنی وہ بت کہ جو علم ، شعور اور عقل نہیں رکھتے ، ان کے ل ئے ایک حصہ نذرکر تے تھے ۔

لیکن اس دوسری صورت میں آیت کی تعبیرات میں ایک تضاد سا محسوس ہوتا ہے کیونکہ ” ما“ عام طور پر غیر ذوی العقول موجودات کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ ”یعلمون “ عموماً ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔

جبکہ پہلی تفسیر کی بناء ”ما“ بتوں کی طرف اشارہ ہے اور ”لایعلمون “ عبادت کرنے والوں کی طرف ۔

جس حصے کا یہاں ذکر ہے اس میں کچھ اونٹ اور دیگر چوپائے شامل ہوتے ہیں اور کچھ حصہ وہ زرعی پیداوار کا وقف کرتے ہیں اس کی طرف سورہ انعام کی آیہ ۱۳۶ میں اشارہ ہوا ہے کہ مشرکین زمانہ جاہلیت میں اسے بتوں کے لئے مخصوس سمجھتے تھے اور ان کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ حالانکہ بتوں سے انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تھا نہ ضرر کا خوف ہو تا تھا یہ نہایت احمقانہ کام تھا جو وہ انجام دیتے تھے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا : قسم بخدا ! قیامت کی عدالت میں ان تہمتوں اور جھوٹوں کے بارے میں باز پرس ہو گی( تَاللهِ لَتُسْاٴَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُونَ ) ۔

اس باز پرس پر ان کے لئے اعراف کے سوال کوئی چارہ کار نہ ہو گا ۔ اس اعتراف ے بعد انھیں سزا ملے گی لہٰذا تمہارے اس برے منحوس عمل کا دنیاوی نقصان بھی ہے اور اخروی بھی ۔

ان کی دوسری منحوس بد عت یہ تھی کہ وہ اس خد اکے لئے بیٹیوں کے قائل تھے کہ جو ہر قسم کی آلائش ِ جسمانی سے پا ک ہے وہ معتقد تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں( وَیَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ ) ۔لیکن اپنی نوبت پر اپنے لئے وہ کچھ چاہتے جو انھیں پسند تھا( وَلَهُمْ مَا یَشْتَهُونَ ) ۔

یعنی وہ کسی صورت تیار نہ تھی کہ انہی بیٹیوں کو اپنے لئے پند کریں کہ جنہیں خدا کے لئے قرار دیتے تھے ۔ بیٹی تو ان کی نظر میں سخت ننگ و عار ، رسوائی اور بد بختی کی علامت تھی ۔اگلی آیت میں بات جاری رکھتے ہوئے ان کی تیسری بری عادت کی نشاندہی کی گئی ہے فرمایا گیا ہے : جب ان میں سے کسی کو بشارت دی جاتی ہے کہ خدا نے تجھے بیٹی دی ہے تو غم اور غصہ کے مارے ان کا رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے( وَإِذَا بُشِّرَ اٴَحَدُهُمْ بِالْاٴُنثَی ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا ) اور زہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا( وَهُوَ کَظِیمٌ ) ۔(۲) معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اپنے خیال باطل کے باعث وہ جس ننگ و عار میں مبتلا ہے اس میں اس کی حالت یہ ہے کہ ” یہ بری خبر سن کر وہ اپنی قوم قبیلے سے چھپتا چھپاتا ہے “( یَتَوَارَی مِنْ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ) بات اس پر بھی بس نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیشہ اس فکر میں غوطہ زن رہتا ہے کہ کیا وہ اس ننگ و عار کو قبول کر لے اور اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھتے یا اسے زندہ در گور کر دے( اٴَیُمْسِکُهُ عَلَی هُونٍ اٴَمْ یَدُسُّهُ فِی التُّرَاب ) ۔آخر میں اس ظالمانہ شقاوت آمیز غیر انسانی فیصلے کی انتہائی صراحت سے مذمت کرتے ہو ئے فرمایا گیا ہے : جان لو کہ وہ بہت با اور قبیح فیصلہ کرتے ہیں( اٴَلاَسَاءَ مَا یَحْکُمُونَ ) ۔

آخر میں ان تمام برائیوں اور قباحتوں کو آخرت پر ایمان نہ ہونے کا نتیجہ قرار دیتے ہو ئے فرمایا گیا ہے : جو دار آخر ت پر ایمان نہیں رکھتے انہی کی ایسی بری صفات ہوتی ہیں( لِلَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ) ۔

لیکن خدا کی صفات بہت عالی ہیں( وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْاٴَعْلَی ) ۔اور وہ زبر دست حکمت والا ہے( وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) ۔یہی سبب ہے کہ جو انسان اس عظیم و عزیز اور حکیم و دانا خدا کے نزدیک ہو ت اہے ا س کے علم و قدرت و حکمت کی بلند صفات کی طاقت و شعاعیں اس پر پڑتیں ہیں اور وہ خرافات اور گھٹیا بدعات سے الگ ہو جاتا ہے ۔

لیکن انسان جس قدر اللہ سے دور ہوتا ہے اسی قدر جہالت ، زبوں حالی اور ظلمتوں میں پھنستا چلا جا تا ہے ۔

اللہ اور اس کی عدالت کو بھول جانا تمام تر پستیوں ، برائیوں اور بے راہ رویوں کا باعث ہے ۔

ان دونوں بنیادی اصولوں کو یاد رکھا جائے تو انسان میں احساس مسئولیت زندہ رہتا ہے اور وہ جہالت و خرافات کے خلاف جنگ کے لئے توانائی کے حقیقی سر چشمہ سے مدد حاصل کرتارہتا ہے ۔

____________________

۱۔”لایعلمون “ کے معنی اور اس کی ضمیر کے بارے میں مفسرین نے دو تفسیریں بیان کی ہیں :

۲۔”کظیم “ اس شخص کو کہتے ہیں جوغم و اندوہ کے عالم میں اپنے تئیں سنبھالا دے رہا ہو یعنی زہر کے گھونٹ پی رہا ہو۔

چند اہم نکات

۱ ۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کیوں کہتے تھے ؟

قرآن کی متعدد آیات کے مطابق عرب کے مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں خیال کرتے تھے یا خدا کی طرف منسوب کیے بغیر انھیں عورتوں کی صنف میں سے سمجھتے تھے ۔

سورہ زخرف کی آیہ ۱۹ میں ہے :( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحٰمن انا ثاً ) ۔

فرشتے کہ جو رحمن کے بندے ہیں انھیں وہ عورتیں قرار دیتے تھے۔

سورہ بنی اسرائیل کی آیہ ۴۰ میں ہے :( افاصفا کم ربکم بالبنین واتخذمن الملائکة اناثاً )

کیا تمہیں خدا نے بیٹے دئے ہیں اور خود فرشتوں میں سے بیٹیاں بنا رکھی ہیں ۔

ہو سکتاہے یہ خیال گزشتہ اقوام کی خرافات میں سے زمانہ جاہلیت کے عربوں تک پہنچا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ فرشتے چونکہ نظروں سے پو شیدہ ہیں اور پردے مین رہنے کی صفت عورتوں میں پائی جاتی ہے اس لئے وہ انھیں مؤنث سمجھتے ہوں یہی وجہ ہے کہ بعض کے بقول عرب سورج کو مؤنث مجازی اور چاند کو مذکر مجازی کہتے تھے کیونکہ سورج کا قرص اپنے خیرہ کن نور میں چھپا ہوتا ہے اور اس کی طرف نگاہ کرنا آسان نہیں ہے جبکہ چاند کو ٹکیہ پوری طرح نمایاں ہے ۔

یہ بھی احتمال ہے کہ فرشتوں کے وجود کی لطافت اس توہم کا سبب بنی ہو کیونکہ عورت مرد کی نسبت زیادہ لطیف ہے ۔

بہر حال یہ ایک پرانا ، غلط اور فضول سا تصور ہے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس خیال باطل کی تلچھٹ ابھی تک بعض لوگوں کی فکر میں موجو د ہے یہاں تک کہ مختلف زبانوں کے ادب میں بھی یہ بات دکھائی دیتی ہے کہ کسی خوبصورت عورت کی تعریف کے لئے اسے فرشتہ کہتے ہیں اسی طرح فرشتوں کی تصویر بناتے ہیں تو اسے عورتوں کی شکل دیتے ہیں حالانکہ اصولی طور پر فرشتے مادی جسم ہی نہیں رکھتے کہ ان کے بارے میں مذکر و مونث کی بحث میں پڑا جائے ۔

۲ ۔بیٹیوں کو زندہ در گور کیوں کیا جاتا تھا ؟

واقعاً یہ بات بری وحشت انگیز ہے کہ انسان اپنے انسانی جذبات و احساسات کو مسل کر اتنا آگے بڑھ جائے کہ دوسرے انسان کو قتل کر دے قتل بھی ایسا بد ترین کہ پھر جس پر وہ فخر کرتا پھرے پھر قتل بھی اسے کرے کہ جو اس کا اپنا جگر گوشہ ہو کمزور اور ننھی سے جان ہو اور پھر قتل بھی اس طرح سے کہ اس زندہ بولتی جاگتی جان کو اپنے ہاتھوں مٹی میں دفن کردے ۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ انسان ایسا وحشت ناک جرم کرنے لگے چاہے وہ نیم وحشی ہی کیوں نہ ہو ۔

اس کام کی یقینا کچھ معاشرتی ، نفسیاتی اور اقتصادی بنیادیں تھیں ۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ اس فعل کی ابتداء زمانہ جاہلیت میں یوں ہوئی کہ :۔

ایک مرتبہ دو گروہوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ فاتح گروہ نے مغلوب گروہ کی بیٹیوں اور عورتوں کو قید کرلیا ۔ ایک مدت بعد جب ان کے مابین صلح ہو گئی تو انھوں شکست کھانے والے گروہ کے قیدی واپس کرنا چاہے لیکن بعض قیدی لڑکیوں نے فتح مند گروہ کے مردوں سے شادی کرلی تھی انھوں نے یہی پسند کیا کہ دشمنوں کے ہاں ہی وہ جائیں اور پلٹ کر اپنے قبیلے میں نہ جائیں ان لڑکیوں کے والدوں پر یہ بات بہت گراں گذری ۔ انھیں اس پر بہت شرمساری اٹھانا پڑ ی یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے قسم کھائی کہ اگر آئندہ ان کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تو وہ خود اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں گے تاکہ وہ دشمنوں کے ہاتھ نہ لگے۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح وحشت ناک ترین جرائم اور مظالم ناموس شرافت کی حفاظت اور خاندان کی عزت کے نام پر انجام دئیے گئے ۔

بات یہاں جاپہنچی کہ اس قبیح اور شرمناک بد عت کو بعض لوگسراہنے لگے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا زمانہ جاہلیت کی ایک رسم بن گئی جس کی قرآن نے شدت کے ساتھ مذمت کی ہے ۔ قرآن کہتا ہے :

( و اذا المو ء و دة سئلت باٴی ذنب قتلت )

وہ لڑکی جسے زندہ د رگور کر دیا گیا تھا جب اس سے پو چھا جائے گا کہ بتا تجھے کس جرم میں قتل کیا گیا ۔ (تکویر ۸ ۔ ۹)

لڑکے چونکہ تولید کنندہ ہو تے ہیں اور لڑکیاں مصرف کنندہ لہٰذا یہ احتمال بھی ہے کہ اس امر نے بھی اس ظلم میں مدد کی ہو لڑکے کو وہ لوگ بڑا سر مایہ سمجھتے تھے ۔

لوٹ مار اور اونٹوں کی حفاظت وغیرہ میں اس سے کام لیتے تھے ۔ جب کہ بیٹیاں ایسے کسی کام نہ آتی تھیں ۔

دوسری طرف ان میں قبائلی جنگ کا ایک دائمی سلسلہ تھا ۔ جھگڑے فسا د ہوتے رہتے تھے ان میں سے بہت سے جنگجو مرد اور لڑکے کام آجاتے تھے لہٰذا لڑکوں اور لڑکیوں کی تعدا د میں توازن اور تناسب باقی نہیں رہتا تھا۔

لڑکوں کا وجود اس قدر نادر اور عزیز ہو چکا تھا کہ ایک لڑکا بھی پید اہوتا تو خاندان کے لئے بڑے فخر کی بات ہوتی جبکہ لڑکی پیدا ہوجاتی تو پورا خاندان رنجیدہ ہو جاتا۔

بات یہاں تک جاپہونچی کہ بعض مفسرین نے بقول جب کسی عورت کے ہاں بچے کی پیدا ئش کا وقت قریب ہو تا تو اس کا شوہر کہیں غائب ہو جاتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی پیدا ہو جائے اور وہ گھر پر موجود ہو اس کے بعد اگر اسے خبر ملتی کہ لڑکا پیدا ہوا ہے تو ناقابل توصیف خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اور شور مچاتے ہوئے گھر میں لٹ آتا لیکن اگر اسے پتہ چلتا کہ بیٹی ہوئی ہے تو اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی(۱)

بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کی داستان بڑی ہی درناک ہے ان واقعات پر نظر پڑے تو حالت غیر ہو جاتی ہے ۔

ایسے ہی ایک واقعے کے بارے میں لکھا ہے :ایک شخص پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے اسلام قبول کرلیا ، سچا اسلام ،ایک روز وہ آنحضرت کی خدمت میں آیا اور سوال کیا: اگر میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟

آپ نے فرمایا : خدا تواب و رحیم ہے ۔

اس نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرا گناہ بہت بڑا ہے ۔

آپ نے فرمایا :وائے ہو تجھ پر ، تیرا گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو خدا کی پخشش سے تو بڑا نہیں ؟

وہ کہنے لگا : اب جب آپ یہکہتے ہیں تو میں عرض کروں ۔ زمانہ جاہلیت میں میں ایک دوردراز کے سفر پر گیا ہوا تھا ان دنوں میری بیوی حاملہ تھی میں چال سال کے بعد گھر واپس لوٹا ۔ میری بیوی نے میرا استقبال کیا میں گھر میں آیا تو مجھے ایک بچی نظر پڑی ۔ میں نے پوچھا یہ کس کی لڑکی ہے ؟ اس نے کہا :اس نے کہا ایک ہمسایہ کی لرکی ہے ۔ میں سوچا گھنٹہ بھر تک چلی جائے گی لیکن مجھے بڑا تعجب ہوا کہ وہ نہ گئی ۔ مجھے علم نہ تھا کہ میری لڑکی ہے اور اس کی ماں حقیقت کو چھپا رہی ہے کہ کہیں یہ میرے ہاتھوں قتل نہ ہو جائے ۔

اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: آخر کار میں نے بیوی سے کہا: سچ بتاؤ یہ کس کی لڑکی ہے ؟

بیوی نے جواب دیا : جب تم سفر پر چلے گئے تھے تو میں امید سے تھی بعد میں یہ بیٹی پیدا ہوئی ۔ یہ تمہاری ہی بیٹی ہے ۔

اس شخص نے مزید کہا : میں وہ رات بڑی پریشانی کے عالم میں گزاری کبھی آنکھ لگ جاتی اور کبھی میں بیدار ہو جاتا۔ صبح قریب تھی ، میں بستر سے اٹھا ، لڑکی کے بستر کے پاس گیا وہ اپنی ماں کے پاس سو رہی تھی ۔ میں نے اسے بستر سے نکا لا ، اسے جگایا ، اس سے کہا : میرے ساتھ نخلستان کی طرف چلو۔

اس نے بات جاری رکھی: وہ میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی یہاں تک کہ ہم نخلستان میں پہنچ گئے میں نے گڑھا کھودنا شروع کیا وہ میری مدد کر رہی تھی میرے ساتھ مل کر مٹی باہر پھینک رہی تھی گڑھا مکمل ہو گیا میں نے اسے بغل کے نیچے سے پکڑ کر اس گڑھے کے درمیان دے مارا ۔

اتنا سننا تھا کہ رسول اللہ کی آنکھیں بھر آئیں

اس نے مزیدبتا یا : میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا وہ باہر نہ نکل سکے دائیں ہاتھ سے میں اس پر مٹی ڈالنے لگا اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے ، بڑی مظلومہ فرمایاد کی : وہ کہتی تھی ابو جان ! آپ مجھ سے یہ سلوک کیوں کر رہے ہیں ؟

اس نے بتا یا : میں اس پر مٹی ڈال رہا تھا کہ کچھ مٹی میری داڑھی پر آپڑی بیٹی نے ہاتھا بڑھا یا اور میرے چہرے سے مٹی صاف کی لیکن میں اسی قساوت اور سنگدلی سے اس کے منھ پر مٹی ڈالتا رہا یہاں تک کہ میرے نالہ و فریاد کی آخری آواز تہہ خاک دم توڑ گئی۔

رسول اللہ (ص)نے داستان بڑے غم کے عالم میں سنی وہ بہت دکھی اور پریشان تھے اپنی آنکھوں سے آنسو ں صاف کرتے جارہے تھے

آپ نے فرمایا : اگر رحمت خدا کو اس کے غضب پر سبقت نہ ہوتی تو ضروری تھا کہ جتنا جلدی ہوتا وہ تجھ سے انتقام لیتا۔(۲)

قیس بن عاصم بنی تمیم کے سرداروں میں سے تھا ۔ظہور رسالت مآب کے بعد وہ اسلام لے آیا تھا اس کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک روز وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ چاہتا تھا کہ جو سنگین بوجھ وہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے پھر تا ہے اسے کچھ ہلکا کرے ۔اس نے رسول اکرم کی خدمت میں عرض کیا :گزشتہ زمانے میں بعض باپ ایسے بھی تھے جنہوں نے جہالت کے باعث اپنی بے گناہ بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا تھا میری بھی بارہ بیٹیاں ہوئیں میں نے سب کے ساتھ یہ گھناؤنا سلوک کیا لیکن جب میرے ہاں تیر ہویں بیٹی ہوئی تو میری بیوی نے اسے مخفی طورپر جنم دیا اس نے یہ ظاہر کیا کیا کہ نو مود مردہ پیدا ہوئی ہے ۔ لیکن اسے چھپ چھپا کر اپنے قبیلوں والوں کے ہاں بھیج دیا اس وقت تو میں مطمئن ہو گیا لیکن بعد میں مجھے اس ماجرا کا علم ہو گیا میں نے اسے حاصل کیا اور اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا ۔

اس نے بہت آ ہ و زاری کی ، میری منتیں کیں گر یہ و بکا کی مگرمیں نے پر وا ہ نہ کی اور اسے زندہ در گور کردیا۔

رسول اللہ (ص)نے یہ واقعہ سنا تو بہت ناراحت ہو ئے۔ آپ نے آنکھوں سے آنسوجاری تھے کہ آپ نے فرمایا:

من لایرحم لایرحم

جو کسی پر رحم نہیں کھا تا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔

اس کے بعد آپ نے قیس کی طرف رخ کیا اور یوں گویا ہوئے :

تمہیں سخت دن در پیش ہے ۔

قیس نے عرض کیا:

میں کیا عرض کروں اس گناہ کابوجھ میرے کندھے سے ہلکا ہو جائے ؟

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

تونے جتنی بیٹیوں کو قتل کیا ہے اتنے ہی غلام آزادکر (شاید تیرے گناہ کا بوجھ ہلکا ہو جائے ۔)(۳) ۔

نیز مشہو ر شاعر فرزدق کے دادا صعصعہ بن ناحیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ حریت فکر رکھنے والا ایک شریف انسان تھا ۔زمانہ جاہلیت میں وہ لوگوں کی بہت سے بری عادات کے خلاف جد و جہد کرتا تھا یہاں تک کہ اس نے ۳۶۰ لڑکیاں ان کے والدوں سے خرید کر انھیں موت سے نجات بخشی۔ ایک مر تبہ اس نے دیکھا کہ ایک باپ اپنی نو مولود بیٹی کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کر چکا ہے ۔ اس بچی کی نجات کے لئے اس نے اپنے سواری کا گھوڑا تک اور دو اونٹ اس کے باپ کو دئے اور اس بچی کو نجات دلائی ۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا :

تونے بہت ہی بڑا کام انجام دیا ہے اور تیری جزا اللہ کے ہاں محفوظ ہے ۔

فرزدق نے اپنے دادا کے اس کام پر فخر کرتے ہوئے کہا:ومناالذی منع الوائدات فاحیا الوئید فلم توائد

اور وہ شخص ہمارے خاندان میں سے تھا جس نے بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کے خلاف قیام کیا۔ اس نے لڑکیوں کو لیا اور انھیں زندگی عطا کی اور انھیں تہہ خاک دفن نہ ہونے دیا۔(۴)

ابھی ہم اس مسئلہ پر گفتگو تفصیلی کریں گے اور دیکھیں گے اسلام نے کس طرح ان تمام قباحتوں ، مظالم اور جرائم کو ختم کردیا اور عورت کو ایک ایسا مقام بخشا کہ تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی ۔

____________________

۱.۔تفسیر فخرالدین رازی جلد ۲۰ ص۵۵۔

۲۔القرآن یواکب الدھر جلد ۲ ص ۲۱۴۔

۳۔جاہلیت و اسلام صفحہ۶۳۲۔

۴۔قاموس الرجال جلد۵ ص۱۲۵۔

۳ ۔عورت کے مقام کے احیاء میں اسلام کا کر دار

عورت کی تحقیر و تذلیل اور اس کی حیثیت کی تباہی زمانہ جاہلیت کے عربوں ہی میں نہ تھی بلکہ اس زمانے کی سب سے زیادہ متمدن قوموں نکا بھی یہی حال تھا وہ عورت کو ایک حقیر وجود سمجھتے تھے اس سے زیادہ ایک متاع بازارکا سلوک کرتے تھے نہ کہ انسان کاسا۔ البتہ دور جاہلیت کے عربوں کے ہاں عورت کی تذلیل زیادہ تکلیف دہ اور زیادہ وحشت ناک تھی یہاں تک کہ وہ نسب کو صرف مرد سے مربوط سمجھتے تھے اور عورت کو تو قبل پید ائش بچے کی پر ورش کے لئے ایک ظرف شمار کرتے تھے ۔ زمانہ جاہلیت کے اس شعر سے بھی ان کا یہ نظریہ ظاہر ہوتا ہے :۔

بنو نا بنو ابنائنا و بناتنا بنوهن ابناء الرجال الاباعد

ہمارے بیٹے تو صرف ہمارے بیٹوں کے بیٹے ہیں ۔ باقی رہے ہماری بیٹیوں کے بیٹے تو وہ تو اور مردوں کے بیٹے ہیں

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ عورت کے لئے حق میراث کے قطعاً قائل نہ تھے اور تعداد ازدواج کے لئے بھی کسی حد و حدود کے قائل نہ تھے وہ شادی اس ااسانی سے کرلیتے جیسے پانی پیتے ہیں اور اسی آسانی سے طلاق دیدیتے تھے ۔

اسلام نے ظہور کیا تو اس نے اس فضول اور بے ہودہ روش کے خلاف مختلف حوالوں اور طریقوں سے سخت جنگ کی ۔ اسلام نے خاص طور پر بیٹی کی پیدا ئش کو ننگ و عار سمجھنے کے خلاف بہت جنگ کی ہے احادیثِ اسلامی میں کسی خاندان میں بیٹی کسی پیدائش کو رحمت الہٰی کی آبشاجاری ہوجانے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ رسول ِ اسلام خود اپنی بیٹی بانوئے اسلام فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کا اس قدر احترام کرتے کہ لوگوں کو تعجب ہوتا آپ اپنے اس قدر مقام و منزلت کے ہوتے ہوئے اپنی بیٹی کے ہاتھ چومتے ، کسی سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی فاطمہ(علیه السلام) سے ملنے جاتے اور اس کے بر عکس جب کسی سفر کے لئے روانہ ہوتے تو آخری گھر جس میں خدا حافظ کہنے کے لئے آتے وہ فاطمہ (علیه السلام) کا ہی گھر ہوتا۔

ایک حدیث میں ہے :جب رسول اللہ کو خبر دی گئی کہ خد انے انھیں بیٹی عطا فرمائی ہے تو اچانک آپ نے اپنے اصحاب کے چہروں کی طرف دیکھا ان کے چہروں کی طرف دیکھا ان کے چہروں پر افسوس کے آثار نمایاں تھے (گویا زمانہ جاہلیت کی رسموں کے کچھ آثار ابھی ان کے دماغوں میں باقی تھے ) ۔

رسول اللہ نے فوراً فرمایا:۔

مالکم ؟

ریحانة اشمها، و رزقها علی الله عزوجل

تمہیں کیا ہوا ؟اللہ نے مجھے ایک مہکتا ہوا پھول دیا ہے جس کی خوشبو سونگھوں گا (رہی بات اس کی روزی ی تو) اس کا رزق خدا کے ذمہ ہے ۔(۱)

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا:

نعم الولد البنات ،ملطفات، مهزات، موانسات مفلیات ۔

بیٹی کتنی اچھی ہوتی ہے ، وہ محبت کرنے والی ، مددگار ۔مونس و غمخوار اور پاک وپاک کنندہ ہوتی ہے ۔(۲)

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

من دخل السوق فاشتری تحفة فحملها الیٰ عیاله کان کهامل الصدقة الیٰ قوم محاویج ولیبدء بالاناث قبل الذکور، فانه من فسرح ابنته فکانما اعتق رقبة من ولد اسمٰعیل ۔

جو شخص بازار جائے اور اپنے گھر والوں کے لئے کوئی تحفہ خریدے وہ اس شخص کی طرح ہے جو حاجتمندوں کی مدد کرے ( اسے اس شخص کی سی جزا ملے گی ) اور جب گھر آکر اسے بانٹنے لگے تو سب سے پہلے بیٹیوں کو دے کیونک جو شخص اپنی بیٹی کو خوش کرے ایسے ہے گویا اس نے اولادِ اسماعیل میں سے کسی غلام کو آزاد کیا ہے ۔(۳)

در حقیقت عورت کو اسلام نے جو احترام عطاکیا ہے اسی کے سبب اسے معاشرے میں آزادی نصیب ہوئی اور اس کے سبب عورتوں کی غلامی کا دور ختم ہوا۔

اس سلسلے میں اور بھی بہت سی کہنے کی باتیں ہیں جو متعلقہ آیات کی تفسیر میں بیان کی جائیں کی لیکن اس حقیقت کو یہاں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی اسلامی معاشروں میں دور جاہلیت کے آثار باقی ہیں ۔ اب بھی ایسے گھرانوں نے کمی نہیں جو لڑکے کی پیدا ئش پر تو خوش ہوتے ہیں لیکن لڑکی پیدائش پر افسردہ اور پریشان ہوجاتے ہیں یا کم از کم لڑکے کی پیدائش کو لڑکی کی پیدائش پر ترجیح دیتے ہیں ۔

البتہ ہو سکتا ہے معاشرے میں عورتوں کی کیفیت کے حوالے سے خاص قسم کے اقتصادی اور معاشرتی حالات ایسی غلط عادات ورسوم کا باعث ہوں لیکن کچھ بھی ہو تمام سچے مسلمانوں کو چاہئیے کہ ایسے طرز فکر کو ختم کرنے کی جد و جہد کریں اور اس فکر کی معاشرتی اور اقتصادی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکیں کیونکہ اسلام یہ بات پسند نہیں کرتا کہ چودہ صدیوں بعد اس کے پیروکار دورِ جاہلیت کے افکار و نظر یات کی طرف پلٹ جائیں ۔ اور ایک نئے دور جاہلیت کا آغاز ہو جائے ۔

حالت تو یہ ہے کہ مغرب کے معاشرے میں بھی جہاں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کے لئے اعلیٰ مقام کے قائل ہیں عملی طور پر اسے اس قدر ذلیل کیا گیا ہے کہ اس کی حیثیت ایک بے قیمت گڑیا ، آتش ِ شہوت کو خاموش کرے والے وجود یا مال اسباب کے لئے ایک اشتہار سے زیادہ نہیں رہی۔(۴)

۳ ۔یہ بات جاذب نظر ہے کہ اتفاق سے یہ سطور ۲۰ جمادی الثانیہ ۱۴۰۱ ھئکو لکھی جارہی ہے ہیں کہ جو بانوئے اسلام حضرت فاطمہ اللہ علیھا کا روز ولادت ہے اور اسی دن کو اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے ”یوم خواتین “ قرارد یا گیا ہے ۔

____________________

۱. وسائل الشیعہ جلد ۱۵ص۱۰۲۔

۲۔وسائل الشیعہ جلد۱۵ صفحہ ۱۰۰۔

۳. ۔مکارم الاخلاق ص ۵۴۔