تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22051
ڈاؤنلوڈ: 1980


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22051 / ڈاؤنلوڈ: 1980
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۶۱،۶۲،۶۳،۶۴،

۶۱ ۔( وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَکَ عَلَیْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَکِنْ یُؤَخِّرُهُمْ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی فَإِذَا جَاءَ اٴَجَلُهُمْ لاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ ) ۔

۶۲ ۔( وَیَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا یَکْرَهُونَ وَتَصِفُ اٴَلْسِنَتُهُمْ الْکَذِبَ اٴَنَّ لَهُمْ الْحُسْنَی لاَجَرَمَ اٴَنَّ لَهُمْ النَّارَ وَاٴَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ ) ۔

۶۳ ۔( تَاللهِ لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا إِلَی اٴُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ اٴَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِیُّهُمْ الْیَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

۶۴ ۔( وَمَا اٴَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَهُمْ الَّذِی اخْتَلَفُوا فِیهِ وَهُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) ۔

ترجمہ

۶۱ ۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے سزا دے تو مشیت ِ زمین پر چلنے والا کوئی باقی نہ رہے لیکن وہ ایک عرصے تک انھیں مؤخر کر دیتا ہے البتہ جب ان کی اجل آپہنچی ہے تو پھر وہ نہ ساعت بھر تا خیر کرتے ہیں او رنہ گھڑی بر تقدیم کرتے ہیں ۔

۶۲ ۔وہ خدا کے لئے وہ کچھ قرار دیتے ہیں کہ جسے خود ناپسند کرتے ہیں ( یعنی بیٹیاں ) اس کے باوجود جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کا انجام نیک ہے ، ناچار ان کے لئے آگ ہے اور وہ ( آتش جہنم کی طرف)پیش قدمی کرنے والے ہیں ۔

۶۳ ۔ بخدا تجھ سے پہلے ہم نے امتوں کی طرف نبی بھیجے لیکن شیطان نے (ان امتوں کو) ان کے اعمال انھیں سجا بنا کر دکھائے اور آجوہی ان کا ولی ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

۶۴ ۔ہم نے قرآن تجھ پر ناز ل نہیں کیا مگر اس لئے کہ جس امر میں وہ اختلاف کرتے ہیں تو ان سے بیان کردے اور یہ ان کے لئے ہدایت و رحمت ہے جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ۔

تفسیر

خد افوراً سزا کیوں نہیں دیتا؟

گذشتہ آیات میں مشرکین ِ عرب کے وحشت ناک جرائم اور قبیح بدعتوں کا ذکر ہے ان میں بتا یا گیا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے ۔ہو سکتا ہے اس مو قع پر بعض ذہنوں میں یہ سوال ابھرے کہ ایسے ظالمانہ اقدامات پر خدا تعالیٰ فوراًعذاب کیوں نہیں کرتا؟

زیر نظر آیت اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے : اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم و گناہ پر سزا دے تو سطح زمین پر کوئی حرکت کرنے والا باقی نہ رہے( وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَکَ عَلَیْهَا مِنْ دَابَّةٍ ) ۔(۱)

”دابة“ ہر قسم کے زندہ اور متحرک موجود کو کہتے ہیں یہاں ممکن ہے ”علیٰ ظلمھم “ کے قرینوں سے انسانوں کے لئے کنایہ ہو یعنی اگر خد ا انسانوں کا ان ظلم کی وجہ سے مواخذہ کرے تو کوئی انسان سطح زمین پر باقی نہ رہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد زمین پر تمام حرکت کرنے والے اور چلنے پھر نے والے ہوں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ زمین پر چلنے والے جانور معمولاً انسان کے لئے پید اکئے گئے ہیں جیسا کہ قرآن کہتا ہے :

( هو الذی خلق لکم ما فی الاض جمیعاً )

اللہ وہ ہے کہ جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے پیدا کیا ہے ۔ (بقرہ ۲۹)

لہٰذا جب انسان ختم ہو جائیں تو دوسرے چلنے پھرنے والے جانداروں کے وجود کا فلسفہ بھی ختم ہو جائے گا ، اس لئے ان کی نسل بھی منقطع ہو جائے گی۔

اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آیت کے مفہوم کی عمویت اور وسعت کو دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ زمین پر بسنے والے تمام انسان ظالم ہیں اور ہر شخص کسی نہ کسی ظلم کا مرتکب ہوا ہے اور اگر فوری سزا نافذ ہو تو کسی کا دامن نہیں بچے گا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ نہ صرف انبیاء و مر سلین اس زمین پر موجود رہے ہیں کہ جو معصوم ہیں اور اس ظلم کے مصداق نہیں ہیں بلکہ ہر زمانے میں ایسے نیک پاک اور سچے مجاہد رہے ہیں کہ جن کی نیکیاں یقینا ان کی چھو ٹی برائیوں سے زیادہ ہوتی ہیں اور جو ہر گز ایسی سزا کے مستحق نہیں ہوتے کہ جو نابود کردے ۔

اس سوال کو جواب یوں دیا جا سکتا ہے

آیت کا حکم نوعی ہے نہ عمومی کہ جو سب کے لئے ہو ۔

اسے بیانات کی مثالیں عربی ادب میں اور دیگر زبانوں میں موجود ہیں یہ مشہور شعر ہم نے اکثر سنا ہے :

گر حکم شود مست گیرند در شھر ہر آنچہ ہست گیرند

اگر حکم ہو کہ جو بھی نشے میں ہو اسے پکڑ لیا جائے تو شہر میں کوئی بھی گرفتاری سے نہ بچ سکے ۔

اسی طرح ایک اور شاعر کہتا ہے :

گفت باید حد زندہشیار، مرد مست را گفت ہشیاری بیار ، اینجا کسی ہشیار نیست

اس نے کہا ہے جو ہوش میں ہے وہ اس مست شخص پر حد جاری کرے تو جواب ملا کہ پہلے کسی باہوش کو لے آؤ کیونکہ یہاں تو کوئی ہوش میں نہیں ہے ۔

اس استثناء کی شاہد سورہ فاطر کی آیہ ۳۲ ہے ، اس میں ارشاد الہٰی ہے :

( ثم اورثناالکتاب الذین اصطفینا من عبادنا فمنهم ظالم لنفسه و منهم مقتصد و منهم سابق بالخیرات باذن الله ذٰلک هو الفضل الکبیره ) ۔

پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے جھیں چن لیا انھیں کتاب کا وارث بنایا اور انسانوں میں تین طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، دوسرے وہ جو درمیانے سے ہیں اور تیسرے وہ کہ جو اذن الہٰی سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور یہ بڑے فضل کی بات ہے ۔

یہ بات یقینی ہے کہ زیر بحث آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے وہ سورہ فاطر کی مذکورہ آیت کے بیان کر دہ پہلے گروہ کے لئے ہے اور ایسے لوگوں ککی چونکہ معاشروں میں کثرت ہوتی ہے لہٰذا آیت کے انداز میں عمومیت کوئی قابل تعجب با ت نہیں ہے ۔

ہم نے جو کچھ کہا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت انبیاء کی عصمت کی نفی پر ہر گز دلالت نہیں کرتی اور جنھوں نے یہ خیال کیا ہے انھوں نے قرآن کی دیگر آیات اور کلام میں موجودقرائن کی طرف توجہ نہیں کی۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے : خدا سب ظالموں کو مہلت دیتا ہے اور اجل مسمیٰ ( ایک معین زمانے ) تک ان کی موت کو مؤخر کردیتا ہے( وَلَکِنْ یُؤَخِّرُهُمْ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی ) ۔

لیکن جب ان کی اجل آپہنچتی ہے تو ھر گھڑی بھر کی تاخیر ہوہے نہ تقدیم( فَإِذَا جَاءَ اٴَجَلُهُمْ لاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ ) ۔

بلکہ ٹھیک اسی لمحے موٹ انھیں دامن گیر ہوجاتی ہے اور لحظہ کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی ۔

اجل مسمیٰ کیا ہے ؟

”اجل مسمیٰ “ کے مفہوم کے بارے میں میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں البتہ قرآن حکیم کی دیگر آیات کہ جن میں سورہ انعام کی آیت ۲/ اور سورہ اعراف کی آیہ ۳۴ / شامل ہیں ، پر نظر رکھی جائے تو اس سے مراد موت کا آنا ہی ہے یعنی خد ابدنوں کو ان کی عمر کے آخر تک اتمام حجت کے لئے مہلت دیتا ہے کہ شاید ظالم اپنی اصلاح کی فکر کریں اور اپنے طرز عمل پر تجدید نظر کریں اور خدا ، حق اور عدالت کی طرف پلٹ آئیں ، جب مہلت یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو موت کا حکم جاری ہو جاتا ہے اور موت کے اسی لمحے سے سزا اورعذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

اجل مسمیٰ “ کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کی جلد ۵ ص ۱۳۳( اردو ترجمہ) اور جلد ۶ ص ۱۴۲( اردو ترجمہ )کی طرف رجوع کریں ۔

اگلی آیت میں قرآن ایک مرتبہ بھی زمانہ جاہلیت کے عرب کی بری رسموں کی مذمت کرتا ہے قبل ازیں بتا یا جاچکا ہے کہ وہ خود بیٹیوں سے نفرت کرتے تھے جبکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے : ایک طرف تو وہ خود اپنے لئے بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن دوسری طرف خدا کے لئے قائل ہیں( وَیَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا یَکْرَهُونَ ) ۔

یہ عجیب و غریب تناقض اور تضاد ہے سورہ نجم کی آیہ ۲۲ میں ہے ؛

یہ ایک انتہائی ناپسند دیدہ تقسیم ہے ۔

فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ بیٹیان اچھی چیز ہیں تو پھر تم کیوں بیٹیاں پیدا ہونے پر پریشان ہوجاتے ہو اور اگر یہ بری چیز ہے تو پھر خدا کے لئے اس کے قائل کیوں ہوتے ہو؟

اس کے باوجود ان کا غلط دعویٰ ہے کہ ان کا انجام نیک ہے اور جزائے خیر انہی کے لئے ہے( وَتَصِفُ اٴَلْسِنَتُهُمْ الْکَذِبَ اٴَنَّ لَهُمْ الْحُسْنَی ) ۔

کس عمل کی وجہ سے وہ ایسی جزا کی توقع رکھتے ہیں کیا معصوم ، بے گناہ بے چاری بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے پر یا پر وردگار کی ساحتِ مقدس پر افتراء باندھنے پر؟

لفظ ” حسنیٰ “ ”احسن“کا مونث ہے اس کا معنی نہایت عمدہ ، بہت اچھا ۔یہاں بہترین جزا یا بہترین انجام کے معنی میں آیا ہے جس کی یہ مغرور اور گمراہ قوم اپنے تمام تر جرائم کے باوجود قائل تھی ۔ اس صورت میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب تو معاد اور قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے اس کے باوجود اس قسم کی باتیں کیوں کرتے تھے ۔

اس سلسلے میں توجہ رہے کہ وہ سب سے سب مطلقاً معاد کے منکر نہیں تھے بلکہ معاد ِ جسمانی کا انکار کرتے تھے انھیں اس بات سے انکار تھا کہ انسان کو پھر سے مادی زندگی دی جائے گی وہ اس بات پر تعجب کرتے تھے علاوہ ازیں ممکن ہے یہ تعبیر ” قضیہ شرطیہ“ کے طور پر ہو یعنی وہ کہتے تھے :یابالفرض دوسرا جہاں ہو تو ہمیں وہاں بہترین جزا ملے گی۔

بہت سے ظالم و جابر ، منحرف اور ہٹ دھرم افراد کی یہی طرز فکر ہے کہ خد اسے دور ہو نے کے باوجود وہ اپنے آپ کو خدا سے بہت نزدیک سمجھتے ہیں اور انتہائی مضحکہ خیز دعوے کرتے ہیں ۔

بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ”حسنیٰ“ سے ” نعمت حسنیٰ“ یعنی بیٹے مراد ہیں کیونکہ وہ بیٹیوں کو برا اور منحوس سمجھتے تھے لیکن بیٹوں کو اچھا اور اعلیٰ نعمت جانتے تھے ۔

لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اسی لئے بلا فاصلہ فرمایا گیا ہے : نا چار ان کے لئے جہنم کی آگ ہے( لاَجَرَمَ اٴَنَّ لَهُمْ النَّارَ ) ۔یعنی نہ صرف یہ کہ ان کی عاقبت بخیر نہیں بلکہ ان کا انجام کار جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ نہیں اور وہ اسی آگ کی طرف پیش قدمی کرنے والے ہیں ۔( وَاٴَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ ) ۔

”مفرط“ ”فرط“ ( بر وززن”فقط“)کے مادہ سے آگے بڑھنے کے معنی میں ہے ۔

ہو سکتا ہے زمانہ جاہلیت کے عربوں کی داستان سن کر بعض یہ سوال کریں کہ کسیے ممکن ہے کہ انسان اپنے جگر گوشہ کو اس بر بریّت کے ساتھ مٹی میں زندہ گاڑ دے ۔ اس سلسلے میں اگلی آیت میں فرمای اگیا ہے : بخدا ہم نے تجھ سے پہلے امتوں کی طرف نبی بھیجے لیکن شیطان نے ان امتوں کے اعمال انھیں بہت بنا سنوار کر پیش کئے تھے( تَاللهِ لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا إِلَی اٴُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ اٴَعْمَالَهُمْ ) ۔

جی ہاں شیطان اپنے وسوسوں میں تنا ماہر ہے کہ قبیح ترین اور بد ترین جرائم کو بھی بعض اوقات انسان کے سامنے بہت خوبصورت بنا کر پیش کردیتا ہے اور اسے باعث ِ فخر سمجھنے لگتا ہے جیسا کہ دورِ جاہلیت کے عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ د رگور کرنے کو پانے لئے سندافتخار جانتے تھے وہ اسے غیرت مندی کا مظاہرہ قرار دیتے اور قبیلے کی عز ت و آبرو کی حفاظت کے نام پر اس فعل کی تعریف کرتے ۔

بیٹی کو زندہ گاڑ دینے والا باپ کہتا :

میں نے اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے زیر خاک دفن کردیا ہے تاکہ کل کو وہ کسی جنگ میں دشمن کے ہاتھ نہ لگے۔

ظاہر ہے جہاں ایسے شرمناک ترین اعمال شیطانی تزئین کے بعد ایسے پر فریب ہو جائیں تو باقی کاموں کی حالت کیا ہو گی۔

آج بھی شیطانی تزئین کے ایسے نمونے بہت سے افراد کے اعمال میں نظر آتے ہیں ۔ آج بھی چوری ، غارت گری، تجاوز اور جرم کو مختلف پر فریب نام دئے جاتے ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ دورِ حاضر کے مشرکین بھبی ان گزشتہ امتوں کے انحرافی طرز عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

شیطان نے جن کے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کیا تھا آج بھی شیطان ان کا ولی ، راہنما اور سر پرست ہے( فَهُوَ وَلِیُّهُمْ ) ۔اور یہ اسی کی راہنمائی میں قدم اٹھاتے ہیں ۔ اسی بناء پر دردناک عذابِ الٰہی ان کے انتظار میں ہے( الْیَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

( فَهُوَ وَلِیُّهُمْ الْیَوْمَ ) “( آج شیطان ان کا ولی و سر پرست ہے ) اس جملے کی مفسرین مختلف پیرائے میں تفسیر کی ہے ۔ شاید ان میں سے زیادہ واضح وہی ہے جو ہم کہہ چکے ہیں ۔ یعنی یہ جملہ دور جاہلیت کے مشرکین عرب کی کیفیت واضح کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ انھوں نے بھی گزشتہ منحرف امتوں کے طرز عمل کی پیروی کی اور شیطان ان کا سر پرست ہے جیسے وہ گزشتہ گمراہوں کا سر پرست تھا۔

ا۔لیکن اس تفسیر کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ”اعمالھم “ اور ” ولیھم“ کی ضمیر میں معنیٰ کے لحاظ سے فرق ہو پہلی ضمیر گذشتہ امتوں کے لئے ہو اور دوسری رسول اللہ کے زمانے کے مشر کین کی طرف اشارہ کرتی ہو ۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے یہ جملہ مقدر مانا جا سکتا ہے ۔هؤ لاء یتبعون الامم الماضیة ( غور کیجئے گا )

یہ اھتمال بھی ہے کہ اس سے مراد کیہ ہو کہ ابھی تک گزشتہ منحرف امتوں کے کچھ لوگ موجود ہیں اور وہ اپنے انحرافی طریقے کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ششیطان آج بھی پہلے کی طرح ان کا سر پرست ہے ۔

زیر بحث آخری آیت میں بعثت ِ انبیاء کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ تاکہ واضح ہو جائے کہ اگر قومیں اور ملتیں اپنی خود غرضیوں اور غلط طور طریقوں کو چھوڑ کر رہبری ِ انبیاء سے وابستہ ہو جائیں تو ایسے خرافات ، اختلافات اور عملی تضادات ختم ہو جائیں ۔ ارشاد ہو تا ہے : ہم نے قرآن تجھ پر صرف اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ جس امر میں اختلاف رکھتے ہیں تو اسے واضح کردے( وَمَا اٴَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَهُمْ الَّذِی اخْتَلَفُوا فِیهِ ) ۔

اور یہ قرآن ان لوگوں کے لئے باعثِ ہدایت و رحمت ہے جو ایمان رکھتے ہیں( وَهُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) ۔

شیطانی وسوسے ان کے دلوں سے نکال دیتا ہے نفس امارہ اور شیطان صفت لوگوں کے پہنائے ہوئے پر فریب پر دے حقائق کے چہرے سے ہٹا دیتا ہے ۔ پس پردہ خرافات و جرائم کو واضح کردیتا ہے خود غر ضیوں نے جو اختلافات پیداکر دئے ہوتے ہیں انھیں ختم کر دیتا ہے ۔ بربر یتوں کا خاتمہ کردیتا ہے اور ہر طرف ہدایت و رحمت کا نور پھیلا دیتا ہے ۔

____________________

۱۔”علیھا“ کی ضمیر “” ارض “ کی طرف لوٹتی ہے ۔ اگر چہ پہلے اس کا ذکر نہیں آیا اور یہ مطلب کی وضاحت کے لئے ہے اس کی نظیر عربی ادب میں اور دیگر زبانوں کے ادب میں بہت ملتی ہے ۔

آیات ۶۵،۶۶،۶۷،

۶۵ ۔( وَاللهُ اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَحْیَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ) ۔

۶۶ ۔( وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْاٴَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِهِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِینَ ) ۔

۶۷ ۔( وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَالْاٴَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَکَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ) ۔

ترجمہ

۶۵ ۔ اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا اوراور جب زمین مردہ ہو چکی تھی اسے پھر سے حیات بخشی اس میں اس قوم کے لئے واضح نشانی ہے جو سننے والے کان رکھتی ہے ۔

۶۶ ۔اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت( کے درس)ہیں ۔ ان کے شکم کے اندر سے ہم تمہارے پینے کے لئے ہضم شدہ غذا اور خون میں سے خالص اور پسند یدہ دودھ فراہم کرتے ہیں ۔

۶۷ ۔ کھجور اور انگور کے درختوں کے میووں سے شراب(ناپاک) اور اچھا رزق حاصل کرتے ہو۔ اس میں عقل و دانائی سے کام لینے والی قوم کے لئے روشن نشانی ہے ۔

پانی ، پھل اور حیوانات

قرآن ایک مرتبہ پھر پر وردگار کی گونا گوں نعمتوں کا تذکرہ کرتا ہے یہ در اصل توحید اور خدا شناسی کے لئے ایک تاکید بھی ہے اور ساتھ ہی معاد کی طرف اشارہ ہے ۔ نیز نعمتوں کا تذکرہ بندوں کے احساس ِ تشکر کو بیدار کرنے کے لئے بھی ہے اس طرح انھیں زیادہ قرب ِ الہٰی کے حصول کی طرف مائل کیاگیا ہے ان تینوں پہلوؤں پر نظر رکھی جائے تو ان آیات کا گذشتہ آیا ت سے تعلق واضح ہو جاتا ہے ۔

دوسری طرف گذشتہ آیات میں سے آخری آیت قرآن کے نزول کے بارے میں تھی ۔ وہ آیات کہ روح ِ انسانی کے لئے حیات بخش ہیں اور زیر نظر پہلی آیت آسمان سے بارش کے نزول کے بارے میں ہے ۔ اور بارش جسمِ انسانی کے لئے حیات بخش ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے :خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس طرح زمین کو جو مردہ ہو چکی تھی اسے حیاتِ تازہ بخشی( وَاللهُ اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَحْیَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ) ۔

اس امر میں ان کے لئے عظمت ِ الہٰی کی واضح نشانی ہے کہ جو سننے والے کان رکھتے ہیں (إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ) ۔

آسمان سے بارش برسنے سے زمین کو جو حیات ِ نو ملتی ہے اس کا ذکر قرآن کی بہت سی آیات میں آیا ہے ۔ بعض اوقات خشک سالی زمین کو اس طرح سے خشک، سالی زمین کو اس طرح سے خشک ، خاموش اور بے روح کردیتی ہے کہ وہ بالکل بے کار اور بنجر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کسی کو یقین نہیں آتا کہ کبھی اس زمین پر بھی سر سبز کھیتیاں لہراتی رہی ہیں یا آئندہ کبھی اس دکھ سے کوئی زندگی جنم لے گی لیکن چند پے در پے باریشیں ہوتی ہیں اور پھر سورج کی حیات بخش شعاعیں اس میں حرکت پید اکردیتی ہیں گویا کوئی سورہاتھا اور اب بیدار ہو گیا ہے یا زیادہ صحیح الفاظ میں کوئی مردہ تھا کہ جس میں بارش کے دم ِ مسیحائی سے زندگی لوٹ آتی ہے اس میں طرح طرح کے پھل پھول اگنے لگتے ہیں ۔ سبز ے لہلہانہ شروع کر دیتے ہیں ۔ حشرات الارض اس پر رینگنے لگتے ہیں ۔ پرندے اس میں چہچہانے لگتے ہیں اور جانور پھر سے اس کا رخ کرنے لگتے ہیں اور اس طرح زمرمہ حیات پھر سے گونج اٹھتا ہے ۔

مختصر یہ کہ وہ زمین جو پہلے مردہ خاموش تھی اس میں ایسا غلغلہ جاگ اٹھتا ہے کہ انسان مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ عالم ِ آفرینش کا ایک شاہکار ہے یہ خالق کی قدرت و عظمت کی نشانی بھی ہے او رمعاد و قیامت کے امکان کی دلیل بھی ہے اس سے کھلتا ہے کہ مردے کس طرح دوبارہ لباس ِ حیات زیب تن کرتے ہیں یہ خدا کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت بھی ہے خصوصاً بارش ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کے حصول کے لئے بندے کچھ زحمت نہیں کرتے۔

پانی کہ جو پہلا رکن حیات ہے اس کے ذکر کے بعد چوپایوں کے وجود کی نعمت کی طرف اشارہ ہے اس سلسلے میں خصوصیت سے دودھ کا تذکرہ ہے کہ جو انتہائی مفید غذائی عنصر ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے ایک بہت بڑا درسِ عبرت ہے( وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْاٴَنْعَامِ لَعِبْرَةً ) ۔

اس سے بڑھ کر عبرت کی بات کیا ہو گی کہ ہم تمہیں ان جانوروں کے شکم میں ہضم شدہ غذا اور خون کے درمیان میں سے تمہارے پینے کے لئے خالص اور عمدہ دودھ فراہم کرتے ہیں( نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِهِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِینَ ) ۔

” فرث“ لغت میں اس ہضم شدہ غذا کے معنی میں ہے کہ جو معدے کے اندر ہو اور جب وہ انتڑیوں تک پہنچتا ہے تو اس کا حیاتی مادہ بد ن میں جذب ہو جاتا ہے اور اس کا پھوک اور فضلہ باہر نکل جاتا ہے اس فضلے کو ” روث“ ( گوبر)کہتے ہیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ شکر کا کچھ مواد اور اسی طرح پانی وغیرہ کی کچھ مقدار معدے کی دیواروں کے ذریعے بدن میں جذب ہو جاتی ہے اور اس کا ایک اہم حصہ ہضم شدہ غذا کی صورت میں انتڑیوں کی طرف منتقل ہو کر خون میں داخل ہو جاتا ہے ۔ نیز ہم یہ بھی جاتے ہیں کہ دودھ پستان کے اندر موجود خا ص غدودوں سے نکلتا ہے اور اس کا اصلی مواد خون او رچربی ساز غدودوں سے لیا جاتا ہے ، اس طرح یہ سفید رنگ ، صاف ستھرا اور خالص مادہ ، یہ قوت بخش اور عمدہ غذا ہضم شدہ غذاؤں کے دمریان سے کہ جو فضلہ سے مخلوط ہیں اور خون کے بیچوں بیچ سے حاصل ہوتا ہے واقعاً یہ ایک عجیب و غریب چیز ہے ۔ سر چشمہ اس طرح سے آلودہ اور تنفر آمیز لیکن ماحصل خالص ، خوبصورت ، دل انگیز اور عمدہ دودھ ۔

جانوروں اور ان کے دودھ کے ذکر کے بعد کچھ نباتات کی نعمت کا تذکرہ ہے ارشاد ہوتا ہے : اللہ نے تمہیں کھجور اور انگور کی صورت میں پر برکت غذا عطا کی ہے کبھی تم اسے نقصان دہ شکل میں ڈھال لیتے ہو اور ا س سے شراب بناتے ہو اور کبھی اس سے پاک و پاکیزہ رزق حاصل کرتے ہو۔( وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَالْاٴَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَکَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ) ۔

اس امر میں اس کے لئے قدرت پر ور دگار کی ایک نشانی ہے جو عقل و خرد رکھتے ہیں( إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ) ۔

”سکر“ کے اگر چہ لغت میں مختلف معانی ہیں ۔ یہاں سکرات ، مشروبات الکحل اور شراب کے معنی میں ہے اور یہی اسی کا مشہور معنی ہے ۔

واضح ہے اس آیت میں قرآن نے کھجور اور انگور سے شراب بنانے کی ہر گز اجازت نہیں دی بلکہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” سکراً“ کو ” رزقاً“ کے بالمقابل بیان کیا گیا ہے یہ دراصل شراب کی حرمت اور اس کے غیر مطلقب ہونے کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے لہٰذا اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم کہیں کہ یہ آیت حرمت شراب نازل ہونے سے پہلے کی ہے اور اس کے حلال ہونے کی طرف اشارہ ہے بلکہ اس کے بر عکس آیت اس کے حرام ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور شاید یہ تحریم شراب کے لئے پہلا الارم ہے ۔

در حقیقت ایک جملہ معترضہ کی صورت میں خدا چاہتا ہے کہ نعمات الہٰی سے سوء ِ استفادہ کی طرف بھی اشارہ کرے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ دودھ کس طرح پیدا ہوتا ہے ؟

جیسا کہ ہم نے مندر جہ بالا آیات میں پڑھا ہے ، قرآن مجید کہتا ہے : کہ دودھ ”فرث“ ( معدے کے اندر ہضم شدہ غذا) اور ”دم“ (کون ) کے درمیان سے نکلتا ہے ۔

آج کی فزیالوجی ( Physiology )( علم الاعضاء)نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ جس وقت غذا معدے میں ہضم اور جذب کے لئے تیار ہو جاتی ہے تو معدے اور اتڑیوں کی سطح میں کئی ملین بالوں کی رگوں کے ساتھ ساتھ بہت پھیل جاتی ہے ۔ مفید اور ضروری عناصر اسے جذب کرکے اسے ایک جڑ دار درخت تک پہنچاتے ہیں وہی جڑدار درخت کہ جس کی جڑیں پستان کی نوک میں جاکر جمع اور تمام ہو تی ہیں ۔ ماں غذاکھاتی ہے تو اس کا نچوڑ خون میں داخل ہو جاتا ہے خون کی ان رگوں کی آخری شاخیں اور ” جنین“ کے گر دش ِ خون کا آخری مقام اور اس کی رگوں کی آخری شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں جب تک بچہ شکم ِ مادر میں ہوتا ہے اس طرح غذاملتی رہتی ہے لیکن وہ ماں سے الگ ہو جاتا ہے تو غذادینے والے قطب نما عقربہ کی نوک کی ماں کے پستان کی نوک کی طرف رخ کرتی ہے اس حالت میں اب ماں کا خون نوزاد بچے کے خون تک نہیں پہنچ سکتا یہاں ایک تغیر اور تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے اب ایک صاف شدہ محصول کی ضرورت ہوتی ہے جو بچے کے لئے گوارا اور مناسب ہو ایسے میں ” فرث“ اور ”دم“ کے درمیان میں سے دودھ پیدا ہو تا ہے ماں جو کچھ کھاتی ہے اس سے ” فرث“ بنتا ہے اور پھر اس سے خون پیدا ہوتا ہے اور پھر ان دونوں کے درمیان میں سے دودھ پیدا ہوتا ہے ۔

عجیب اتفاق ہے کہ دودھ کی ترکیب بھی ”خون“ اور”دم“کی درمیانی سی ترکیب ہے یہ نہ صاف شدہ خون ہے نہ ہضم شدہ غذا۔ یہ ” فرث“ سے بالا اورخون سے نیچے کی ایک چیز ہے ۔ دودھ کے بعض عناصر خون میں نہیں ہوتے اور پستان کی غدودد میں بنتے ہیں ۔ مثلاًکازوئین

خون کے کچھ عناصر جو دودھ میں موجود ہیں وہ بغیر کسی تغیر کے خون کے پالازما( Plasma )سے ترشح ہو کر دودھ میں داخل ہوتے ہیں مثلا ً مختلف وٹامن، خوردنی نمک اور مختلف فاسفیٹ ۔

کچھ اور مواد بھی خون سے حاصل ہوتا ہے مثلاً دودھ میں موجود شکر ( Lactose )خون میں موجود شکر سے حاصل ہوتی ہے جو پستان کے عمل میں مدد ہوتی ہے اور اس تغیر میں ایک اہم کردار کرتی ہے ۔

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں دودھ کی تو لید نتیجہ ہے خون کے ذریعہ ضذب ِ غذا کا اور خون کے پستانوں کی غدود سے براہ راست تعلق کا ، لیکن یہ بات جاذب نظر ہے کہ ”فرث“ کی مخصوص بو اور خون کا مخصوص رنگ دودھ میں منتقل نہیں ہوتے بلکہ یہ دودھ نئے رنگ اور نئی مہک کے ساتھ پستان کی نوک سے نکلتا ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ فزیالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ پستان میں ایک لڑ دود ھ پیدا ہونے کے لئے کم از پانچ سے لٹر خون کو اس حصے سے گزرنا چاہئیے تاکہ ایک لڑ دودھ کے لئے درکار ضروری مواد خون سے حاصل کیا جا سکے جبکہ رگوں میں ایک لٹر خون پید ا ہونے کے لئے ضروری مقدار میں غذائی مداد کو انتڑیوں سے گزر نا پڑتا ہے یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ” من بین فرث ودم “ ( ہضم شدہ غذا اور خون میں سے ) ک امفہوم پوری طرح واضح ہوتا ہے ۔ ۱

____________________

۱۔ کتاب ”شیمی حیاتی و پزشکی“ اور کتاب ” اولین دانشگاہ اور آخرین پیامبر “ جلد ۶ ص ۷۱، تا ص

۲ ۔ دودھ ایک اہم غذا

دودھ اہم حیاتی ن سے بھر پور ہے یہ اجزاء باہم مل کر ایک غذا بناتے ہیں ۔

دودھ کے اجزاء:۔ سوڈیم ( Sidiam )پوٹا شیم Pot) کیلشیم( Calcium )میگگنیشیم، کانسی ، تانبا، آئرن ، فاسفورس آیوڈ( lode )اور گندھک۔

اس کے علاوہ دودھ میں آکسیجن ، ازاٹ( Azote )اور کارناک ایسڈ کے اجزاے بھی موجود ہوتے ہیں ۔ دودھ میں شکر کافی مقدار میں لکٹوز ( Lactose )کی شکل میں ہوتی ہے ۔

دودھ میں تحلیل شدہ وٹامن اے ، بی ، سی اور ڈی ہوتے ہیں ۔ دور حاضر میں ثابت ہو چکا ہے کہ اگ رجانور نے خوب چارہ چرلیا تو اس کے دودھ میں ہر طرح کے وٹامن موجود ہوتے ہیں سب کی تفصیل اس کتاب میں نہیں آسکتی نیز اس مسئلے پر بھی تقریباً اتفاق ہے کہ دودھ ایک مکمل غذا ہے ۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں رسول اللہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

لیس یجزی مکان الطعام والشراب الااللبن

دودھ کے سواکوئی چیز کھانے پینے کا مکمل نعم البدل نہیں ہے ۔

نیز روایات میں ہے :

دودھ عقل انسان کو بڑھاتا ہے ، ذہن انسانی کو شفا بخشتا ہے ، آنکھوں کی بینائی میں اضافے کا باعث بنتا ہے ، نسیان کو ختم کرتا ہے ، دل کو تقویت دیتا ہے اور کمر کو مضبوط کرتا ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ آثار دودھ میں موجودحیاتین سے قریبی ربط رکھتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱۔ کتاب” اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر“ جلد ۶ میں موجود دودھ کی بحث سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

۳ ۔ دودھ ایک خاص اور عمدہ غذا

زیر بحث آیات میں دودھ کو ”خالص “ اور ”گوارا“ غذا قرار دیا گیا ہے اور یہ بات پہلی نظر ہی میں ہر شخص کے لئے واضح ہے کہ دودھ کم حجم، پر قوت اور اضافی مواد سے پاک ایک خالص غذا ہے اور ساتھ ہی یہ ہر سن و سال کے شخص کے لئے ، بچپن سے لیکر بڑھاپے تک کے لئے نہایت گوارا ، مفید اور مناسب ہے ۔

انہی وجودہ کی بناء پر بہت سے بیمار اس غذا سے استفادہ کرتے ہیں خصوصاً ہڈیوں کی نشو و نما کے لئے اس کی بہت زیادہ تاثیر مانی گئی ہے ، یہی وہ ہے کہ ہڈی ٹوٹ جانے کی صورت میں اس کی سفارش کی گئی ہے ۔

”خلوص“ کا معنی ”پیوند“ بھی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ اس قرآنی تعبیر کو ہڈی جوڑنے میں دودھ کے بہت مؤثر ہونے کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔

یہ بات جاذب نظر ہے کہ دودھ پلانے کے بارے میں جو اسلامی احکام وارد ہوئے ہیں ان میں یہ معنی وضاحت سے نظر آتا ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ فقہا کہتے ہیں :

اگر بچہ کسی عورت کااس قدر دودھ پئے کہ اس کی ہڈی مضبوط ہو جائے اور گوشت اگ آئے تو یہ اس عورت کامحرم اور رضاعی بیٹا ہو جائے گا۔

اسی طرح کا حکم اس عورت کے شوہر اور دیگر رشتہ داروں کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے ۔(۱)

دوسری طری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فقہاء کے نزدیک پندرہ مرتبہ پے در پے دودھ پینے سے یہاں تک کہ ایک شب و روز دودھ پینے والا اس عورت کا محرم ہو جاتا ہے جس کا اس نے دودھ پیا ہے۔

ان دونوں باتوں کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کیا اس کا یہ مفہوم نہیں ہو گا کہ چوبیس گھنٹے دودھ پینا بھی ہڈیوں کی تقویت اور گوشت اگنے کے لئے موثر ہے ۔

اس نکتے کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ اسلامی احکام میں پہلے دن کے دودھ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے یہاں تک کہ اسلام کی فقہی کتب میں بچے کی زندگی کو ا س سے وابستہ سمجھا گیا ہے ۔ اسی بناء پر بچے کو پہلا دودھ پلانا واجبات میں شمار کیا گیا ہے ۔

شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بارے میں سورہ قصص کی آیہ ۷ میں ہے ۔

( و اوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ار ضعیه فاذا خفت علیه فاقیه فی الیم )

موسیٰ کی ماں کو ہم نے وحی کی کہ اسے دودھ پلاؤ اور جب تمہیں اس کے بارے میں خوف لاحق ہوتو اسے دریا کی موجوں کے سپرد کردو۔

____________________

۱۔ شرح لمعہ، کتاب نکاح الاولاد و منہا الرضاع ۔