تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22099
ڈاؤنلوڈ: 2005


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22099 / ڈاؤنلوڈ: 2005
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۷۰،۷۱،۷۲

۷۰ ۔( وَاللهُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفَّاکُمْ وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی اٴَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْ لاَیَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ قَدِیرٌ ) ۔

۷۱ ۔( وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوا بِرَادِّی رِزْقِهِمْ عَلَی مَا مَلَکَتْ اٴَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیهِ سَوَاءٌ اٴَفَبِنِعْمَةِ اللهِ یَجْحَدُونَ ) ۔

۷۲ ۔( وَاللهُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ اٴَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَکُمْ مِنْ اٴَزْوَاجِکُمْ بَنِینَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَکُمْ مِنْ الطَّیِّبَاتِ اٴَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللهِ هُمْ یَکْفُرُونَ ) ۔

ترجمہ

۷۰ ۔اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی تمہیں مارے گاتم میں سے بعض بڑھاپے کو جا پہنچتے ہیں کہ علم و آگاہی کے بعد ( ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے ) کہ کچھ نہیں جانتے (اور سب کچھ بھول جاتے ہیں ) بیشک خدا علیم و قدیر ہے ۔

۷۱ ۔ خد انے تم میں سے بعض کو بعض دوسروں پر رزق میں بر تری دی ہے ( کیونکہ تمہاری استعداد اور کوشش میں فرق ہے ) لیکن جنھیں برتری دی گئی ہے وہ اس بات پر تیار ہیں کہ اپنی روزی میں سے اپنے غلاموں کو دیں تاکہ سب کے سب برابر ہو جائیں کیا وہ نعمت ِ خدا کا انکار کرتے ہیں ؟

۷۲ ۔ اور اللہ نے تمہارے لئے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور ان بیویوں سے تمہیں پوتے نواسے اور بیٹے عطا کئے اور تمہارے لئے طیبات میں روزی قرار دی کیا پھر یہ باطل پر ایمان لے آتے ہیں اور نعمت ِ خدا کا انکار کرتے ہیں ۔

تفسیر

رز ق میں اختلاف کا سبب

گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی کچھ اہم نعمتوں اور عنا یا کا تذکرہ تھا کچھ نباتا ت اور حیوانات کی تخلیق کا بیان تھا تاکہ لوگ ان پر نظر کرتے ہوئے ان سب نعمتوں اور اس دقیق نظام کے خالق سے آشنا ہوں ۔

زیر بحث آیات میں بھی ایک اور حوالے سے خالق یکتا کے اثبات کے مسئلہ پر گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ آیات نعمتوں کے تغیرات کے حوالے سے بات کرتی ہیں ایسے تغیرات کا ذکر ہے کہ جو انسانی اختیار سے باہر ہیں اور ان کا فیصلہ کسی او رکی جانب سے ہوا ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : اللہ نے تمہیں پیدا کیا( وَاللهُ خَلَقَکُمْ ) اس کے بعد وہ تمہاری روح کو لے لے گا( ثُمَّ یَتَوَفَّاکُمْ ) ۔

زندگی بھی اسی کی طرف سے ہے اور موت بھی تاکہ تم جان لو کہ موت و حیات پیدا کرنے والے تم نہیں ہو لمبی عمر کا ہونا بھی تمہارے اختیار میں نہیں ہے بعض جوانی میں یا برھاپے کی سر حد پر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن ” تم میں سے بعض لمبی عمر پاتے ہیں ۔ عمر کے بد ترین انتہائی بڑھاپے تک جا پہنچتے ہیں( وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی اٴَرْذَلِ الْعُمُر ) (۱)

اور اس طولانی عمر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علم و آگاہی کے بغیر انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا اور وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں( لِکَیْ لاَیَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا ) ٌ)(۲)

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ علت و سبب کے معنی میں ہو یعنی اللہ انھیں ان بالائی سالوں کی طر ف لے جاتا ہے اس کی علت یہ ہے کہ ان پر حالت ِ نسیان طاری کرے تاکہ یہ انسان جا ں لیں کہ ان کے پاس جوکچھ ہے کچھ بھی ان کی اپنی طرف سے نہیں ہے ۔

بعینہ اس کی حالت بچپن کی سی ہو جاتی ہے کہ جب بھول جاتا ہے اور ناآگاہ بھی تھا جی ہاں ! ” خدا آگاہ اور قادر ہے “( إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ قَدِیر ) ۔

تمام قدرتیں اسی کے اختیار میں ہیں وہ جس قدر مصلحت سمجھتا ہے عطا کرتا ہے اور جس موقع پر ضروری سمجھتا ہے لے لیتا ہے ۔

اگلی آیت میں یہی بات جاری ہے اور فرمایاگیاکہ تمہاری روزی تک تمہارے اختیار میں نہیں ہے ” یہ خدا جو تم میں سے بعض کو رزق کے اعتبار سے دوسروں پر بر تری دیتا ہے ۔( وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ ) ۔

لیکن جنھیں یہ برتری دی گئی ہے ان کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ ان کے اختیار میں ہے وہ اپنے غلاموں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور انھیں اپنے اموال میں شریک نہیں کرتے کہ وہ بھی ان کے برابر ہو جائیں( فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوا بِرَادِّی رِزْقِهِمْ عَلَی مَا مَلَکَتْ اٴَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیهِ سَوَاءٌ ) ۔

بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ جملہ مشرکین کے بعض احمقانہ افعال کی طرف اشارہ ہے کہ جو اپنے بتوں اور خدا ؤں کے لئے چوپاؤن اور زرعی پیدا وار کا ایک حصہ مختص کردیتے تھے حالانکہ یہ بے وقعت پتھر اور لکڑیاں ان کی زندگی پر ذرہ بھر اثر نہیں رکھتے تھے لیکن وہ اس بات پر تیار نہ تھے کہ اس دولت میں سے کچھ اپنے بے چارے غلاموں کو دیں کہ جو رات دن ان کی خدمت کرتے تھے ۔

کیا رزق کی تفریق عدالت پر مبنی ہے ؟

اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگوں میں تقسیم رزق میں اختلاف پید اکرنا اللہ کے اصولِ عدالت و مساوات کے مطابق ہے جبکہ اصول ِ عدالت و مساوات کو انسانی معاشروں پر حاکم ہونا چاہئیے ۔

اس سوال کے جواب میں دو نکتوں کی طرف توجہ رکھنا چاہئیے ۔

۱ ۔ اس میں شک نہیں کہ انسانوں میں موجود مادی فوائد وسائل اور آمد نی میں اختلاف کا ایک اہم حصہ ان کی استعداد اور صلا حیتوں میں اختلاف سے مربوط ہے ، جسمانی اور وحانی صلاحیتوں فرق اقتصادی کار کر دگی کی کمیت و کفییت کا سر چشمہ ہے اسی سے بعض کا حصہ رزق کم اور بعض کا زیادہ ہو جاتا ہے ۔

البتہ اس میں شک نہیں کہ بعض اوقات ایسے حوادث پیش آتے ہیں کہ جو ہمارے نزدیک اتفاقات ہوتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے بعض لوگوں کو زیادہ نعمات میسر آجاتی ہیں لیکن انھیں استثنائی امور شمار کرنا چاہئیے لیکن اکثر امور کی بنیادوہی سعی و کوشش کی کمیت و کیفیت کا فرق ہے ۔

البتہ ہماری مراد ایسے معاشر ے سے ہے جو صحیح نہج پر قائم ہو جو ظالمانہ لوٹ کھسوٹ سے پاک ہو نہ کہ ایسا معاشرہ جو منحرف اور کج رو ہو اور جو قوانین ِ آفرینش اور انسانی بنیادوں پرقائم نظام سے ہٹ گیا ہو۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم بعض لوگوں کو بے وقعت اور بے دست و پا سمجھتے ہیں لیکن ان کے پا س بہت وسائل اور مال و دولت ہوتی ہے ہم اس پر تعجب کرتے ہین لیکن اگر ہم بعض لوگوں کو بے وقعت اور بے دست و پاسمجھتے ہیں لیکن ان کے پاس بہت وسائل اور مال و دلت ہوتی ہے ہم اس تر تعجب کرتے ہین لیکن اگر ہم ان کے جسم ، روح اور اخلاق پر زیادہ غور کریں اور سطحی مطالعے پر مبنی فیصلہ ایک طرف کردیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ کوئی نہ کوئی ایسی قوت رکھتے ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچے ہیں ۔

ہم پھر یہ بات دہراتے ہیں کہ ہمارا موضوع بحث وہ صحیح و سالم معاشرہ ہے کہ جو ظالمانہ لوٹ کھسوٹ سے پاک ہو ۔

بہر حال آمدن اور وسائل کا یہ فرق صلاحیتوں کے فر ق پر مبنی ہے اور یہ صلاحتیں نعماتِ الہٰی ہیں البتہ ہو سکتا ہے کہ چند مواقع پر یہ اکتسابی ہوں ۔

لیکن بعض مواقع یقینا غیر اکتسابی ہوتے ہیں اور اس بناء پر ایک صحیح و سالم معاشرے میں بھی اقتصادی لحاظ سے آمدن کا فرق قابل انکار نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم سب لوگوں کا ہم شکل ، ہم رنگ ، ہم استعداد اور ہم قالب بنا سکیں ۔ سب لوگ ایسے ہو جائیں کہ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق باقی نہ رہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے ۔

۲ ۔انسان ، درخت یاپھول کے پودے کو دیکھیے کیا ممکن ہے ککہ ان کے بدن کی متناسب عمارت اعضاء کے لحاظ سے مساوی ہو۔ کیا پودے کی جڑیں اس کے پھولوں کی نازک پتیوں جیسی ہو سکتی ہیں ؟ کیا انسان کی ایڑی کی ہڈی اس کی آنکھ کی لطیف پتلی کے ہر لحاظ سے مساوی ہوسکتی ہے اور اگر ہم انھیں یکساں کرسکیں تو کیا آپ سمجھیں گے کہ ہم نے صحیح کام انجام دیا ہے ۔

پر فریب اور شعور سے عاری نعروں سے قطع نظر کر کے فرض کیجئے کہ ایک دن ہم ہر لحاظ سے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے خیالی انسان بنالیں پوری دنیا کو پانچ ہزار ملین ( ۵/ ارب)ایسے انسان سے بھر دیں جو ہم شکل ، ہم لباس ، ہم ذوق، ہم فکر اور ہر لحاظ سے یکساں ہیں ۔ کسی کار خانے سے نکلنے والے ایک ہی برانڈ کے سگر ٹوں کی طرح ۔ تو ذرا سوچیں کہ کیا اس روز انسانوں کو اچھی زندگی نصیب ہو جائے گی ۔ مسلم ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ایک جہنم بن جائے گی ۔ سب کے سب ایک مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے سب کے سب ایک ہی طرف چل پڑےں گے سب کے سب ایک ہی چیز چاہیں گے سب ایک پوسٹ کے خواہش مند ہو ں گے ،سب ایک ہی قسم کی غذائیں چاہیں گے اور سب ایک کام کرنا چاہیں گے ۔ ظاہر ہے اس قسم کی زندگی بہت ہی جلد ختم ہو جائے گی اور فرض کریں کہ وہ باقی رہ جائے تو ایک تھا دینے والی روح ، بے کیف اور ایک ہی طرز کی زندگی ہو گی۔ ایسی زندگی جو موت سے زیادہ مختلف نہ ہوگی ۔

لہٰذا صلاحیتوں کا اختلاف اور اس کے لوازم نظام کی بقا کے لئے ناگریز ہے بلکہ ایسا ہونا استعداد و صلاحیت کی نشو ونما کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔ پر فریب نعروں سے اس حقیقت کو بدلا نہیں جاسکتا ۔

لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی ہماری اس گفتگو کا یہ مطلب سمجھنے لگے کہ ہم طبقاتی معاشرے اور لوٹ کھسوٹ اور استعماری نظام کو قبول کرتے ہیں نہیں ہر گز نہیں ہماری مراد طبعی اور فطری اختلاف ہے نہ کہ مصنوعی ہماری مراد وہ تفاوت اور فرق ہیں کہ جو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون و مدد گار ہیں نہ کہ ایک دوسرے پر تجاوزو ظلم کرنے والے ۔طقاتی فرق (توجہ رہے یہاں طبقاتی فرق سے مراد اس کا وہی اصلاحی مفہوم ہے یعنی ایک لوٹ کھسوٹ کرنے والا طبقہ اور دوسرا جسے لوٹا جا رہا ہے )ہر گز نظام آفرینش سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ نظام ِ خلقت سے ہم آہنگ استعدا اور کوشش کا فرق ہے اور ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ( غور کیجئے گا )

دوسرے لفظوں میں استعداد کے اختلاف کو اصلاح و تعمیر کے لئے استعمال ہو نا چاہیئے جیسے ایک بد ن کے اعضاء کا اختلاف ہوتا ہے جیسے ایک پھول کے پودے میں مختلف حصوں کااختلاف ہوتا ہے وہ اختلاف کو ایک دوسرے کے مزاحم نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہوتا ہے ۔

مختصر یہ کہ آمدن کے اختلاف سے طبقاتی معاشرہ پیدا کرنے کے لئے سوء ِ استفادہ نہیں کرنا چاہیئے ۔ اسی بناء پر زیر بحث آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : کیا وہ نعمت ِ خدا کا انکار کرتے ہیں( اٴَفَبِنِعْمَةِ اللهِ یَجْحَدُونَ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ اختلاف فطرت کی صورت میں ہوں نہ کہ مصنوعی اور ظالمانہ صورت میں خدا کی نعمت ہیں اور انسان کے نظام معاشرہ کی حفاظت کے لئے ہیں ۔

زیر بحث آخری آیت گزشتہ دوآیات کی طرح لفظ” اللہ “ سے شروع ہوتی ہے اس میں نعماتِ الہٰی کا ذکر ہے اس میں انسان کی انفرادی قوت ، انسان کے معاونین اور مددگاروں اور اسی طرح پاکیزہ رزق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اس طرح ان تین آیتوں میں جن نعمتوں کا ذکر شروع ہوا ہے اس کی تکمیل ہ وجاتی ہے یعنی بات زندگی اور موت کے نظام سے شروع کی گئی ہے پھر رزق اور استعداد میں فرق کا ذکر ہے کہ جو زندگی میں تنوع کا باعث ہے اور آخری آیت میں نسل انسانی کے زیادہ ہونے اور پاکیزہ رزق کی طرف اشارہ ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے :اللہ نے تمہاری نوع میں سے تمہارے لئے بیویاں بنائی ہیں( وَاللهُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ اٴَزْوَاجًا ) ۔وہ بیویاں کہ جو تسکین ِ جسم کی باعث بھی ہیں اور بقاء کا ذریعہ بھی اسی لئے ساتھ ہی اضافہ کیا گیا ہے : اور تمہاری بیویوں کے ذریعے تمہیں بیٹے، پوتے اور نواسے عطا کئے ہیں( وَجَعَلَ لَکُمْ مِنْ اٴَزْوَاجِکُمْ بَنِینَ وَحَفَدَةً ) ۔

”حفدة“ ”حافد“کی جمع ہے ۔ در اصل اس کا معنی ہے وہ شخص جو کسی جزا کی توقع کے بغیر تعاون کرے لیکن یر نظر آیت میں بہت سے مفسرین کے نظرے کے مطابق ” حفدة“ اس سے مراد پوتے اور نواسے ہیں ، بعض اس سے مرا د صرف نواسے لیتے ہیں اور بعض نے ”بنین“ سے چھوٹے بیٹے مراد لیا ہے اور ”حفدة“ سے بڑے بیٹے کہ جو مدد اور ہمکاری کرسکتے ہیں بعض نے ”حفدة“ مراد ہر طرح کے معاون و مدد گار لئے ہیں چاہے وہ بیٹے ہوں یا کوئی اور۔(۳)

بہر حال اس میں شک نہیں ہر شخص کے ارد گرد ، بیٹوں ، پوتوں اور نواسوں اور بیویوں کی صورت میں انسانی قوتوں کا وجود اس کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے یہ روحانی لحاظ سے بھی مدد کرتے ہیں اور مادی لحاظ سے بھی ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے : اللہ نے تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا ہے( وَرَزَقَکُمْ مِنْ الطَّیِّبَاتِ ) ۔

”طیبات“کا یہاں وسیع مفہوم ہے اس میں ہر قسم کے پاکیزہ رزق شامل ہے چاہے وہ مادی پہلو سے ہو یا روحانی پہلو سے ، انفرادی حوالے سے ۔

آخر میں اس بحث سے نتیجہ نکالتے ہوئے فرمایا گیا ہے :کیا وہ خدا کی عظمت و قدرت کے یہ سب آثار دیکھنے کے باوجود اس کی جانب سے اپنے اوپر ہونے والی ان تمام نعمتوں کے باوجود بتوں کے پیچے لگے ہوئے ہیں ” کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں( اٴَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللهِ هُمْ یَکْفُرُونَ ) ۔

یہ ان کا کیسا غلط طرز عمل ہے کہ وہ نعمتوں کے سر چشمے کو فراموش کرکے اس کے پیچے جاتے ہیں کہ ان کی زندگی پر کچھ بھی اثر نہیں رکھتا اور ہر لحاظ سے ” باطل“ کامصداق ہے۔

____________________

۱۔”ارذل“ ”رذل“کے مادہ سے پست ، ناچیز اور حقیر شے کے معنی میں ہے ” ارذل العمر “ سے مراد بڑھاپے کا وہ دور ہے کہ جب ناتوانی اور نسیان انسان کو اس طرح سے آلے کہ وہ اپنی ابتدئی ضروریات بھی پورانہ کر سکے اسی بناء پر قرآن اس مدت کو عمر کا غیر مطلوب حصہ قرار دیتا ہے ۔ بعض مفسرین اسے ۷۵سال کی عمر سمجھتے ہیں ۔ بعض ۹۰ اور بعض ۹۵ شمار کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ یہ کوئی معین عمر نہیں ہے بلکہ شخص شخص میں فرق ہوتا ہے ۔

۲۔لِکَیْ لاَیَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا “ہوسکتا ہے عمر کے بالائی سالوں تک پہنچنے کا نتیجہ ہو۔ اس طرح اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ ان سالوں میں انسنا کے اعصاب اور دماغ تمر کز اور حافظہ کی طاقت گنوا بیٹھے ہیں اور انسان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ فراموشی اور بے خبری میں گھرا ہواتا ہے ۔

۳۔اس صورت میں ” حفدة“ کا عطف” بنین“ پر ہونا چاہیئے بلکہ ” ازدواج“ پر ہو نا چاہئیے یہ خلاف ظاہر ہے ، جبکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ ”بنین“پر ہی عطف ہے (غور کیجئے گا) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ رزق کے اسباب اور سر چشمے

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس میں شک نہیں کہ خدا داد صلاحیتوں اور نعمتوں کے لحاظ سے انسان مختلف ہیں لیکن کامیابیوں کی اصل بنیاد انسان کی سعی و کوشش اور جدو جہد ہی ہے ۔ زیادہ کوشش کرنے والے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اور سست و کم و کوش محروم رہتے ہیں ۔

اسی بناء پر انسان کے نصیب کو اس کی سعی و کوشش سے مربوط قرار دیتا ہے اور صراحت سے کہتا ہے :

( و ان لیس للانسان الا ما سعیٰ )

یقینا انسان کے لئے بس وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے (نجم ۳۹)

نیز اس کے ساتھ ساتھ تقویٰ درست راستے کا انتخاب ، امانتداری ، نظام قوانین ِ الہٰی کی پاسداری اور عدل و انصاف کے اصولوں کے مطابق عمل بھی اس میں غیر معمولی اثر رکھتا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے :

( ولو ان اهل القریٰ اٰمنوا و اتقوا لفتحنا علیهم برکات من السماء و الارض )

اگر شہروں اور قصبوں کے باسی ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کریں توہم ان پر زمین و آسمان کی بر کتوں کے دروازے کھول دیں ۔ (اعراف ۹۶)

نیزوہ فرماتا ہے :( ومن یتق الله یجعل له مخرجاًو یر زقه من حیث لا یحتسب )

جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اسے رزق کی فراوانی عطاکرتا ہے اور جہاں سے اسے گمان نہیں ہوتا وہاں سے عطا کرتا ہے ۔(طارق ۲،۳)

اسی بناء پر انفاق اورراہ خدا میں خرچ کرنے کو وسعت رزق کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے :۔

( ان تقرضوا الله قرضاًحسناً یضاعفه لکم )

اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اسے کئی گناہ کر دے گا ۔ (تغابن ۱۷)

شاید یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ اجتماعی زندگی میں سے ایک فرد یا ایک گروہ کے چلے جانے سے سارے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اسی لئے فرد کی نگہداری اور مدد کرنا سارے معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے (اس لئے کہ معنوی اور انسانی پہلوؤں سے قطع نظر بھی یہ فائدہ ہے ) ۔

خلاصہ یہ کہ معاشرے کے اقتصادی نظام پر تقویٰ ، درست روی، پاکیزگی ، امداد باہمی ایک دوسرے سے تعاون اور اتفاق کے اصول کار فرما ہوں تو وہ طاقت و ر اور سر بلند ہوگا۔

لیکن اس کے برعکس معاشرے میں لوٹ کھسوٹ ، دھوکا دہی ، غارتگری ، تجاوزاور دوسروں کو نظر انداز کردینے کا عمل جاری ہوتو وہ اقتصادی لحاظ سے پس ماندہ رہے گا اور اس کی مادی زندگی بھی پراگندگی اور انتشار کا شکار ہو جائے گی۔

اسلامی روایات میں حصول رزق کے لئے سعی وکوشش پر زور دیتے ہوئے اسے تقویٰ کے ساتھ ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے یہاں تک کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

لاتکسلوا فی طلب معایشکم فان اٰبائناکانوا یرکضون فیهاو یصٰلیونها

حصول رزق میں سستی سے کام نہ لو ۔ کیونکہ ہمارے آباء اجداد اس راہ میں دوڑتے تھے اور اسے طلب کرتے تھے ۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۴۸) ۔

ان ہی امام بزرگوار سے منقول ہے :( الکاد علی عیاله کالمجاهد فی سبیل الله )

جو شخص اپنے ہل و عیال کے تلاش رزق کے لئے نکلتا ہے وہ مجاہد ِ راہ خدا کی طرح ہے ۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۴۳)

یہاں تک کہ حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان صبح سویرے جتنی جلدی ہو سکے اپنے گھروں نکلیں اور اپنی زندگی کے لئے سعی و کوشش کریں ۔ (وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۵۰)

وہ اشخاص کہ جن کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ان میں سے وہ افراد بھی شامل ہیں جن کا جسم صحیح و سالم ہو مگر وہ گھر میں پڑے رہتے ہوں اور کشایش رزق کے لئے صرف دعا کرتے رہتے ہوں ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پھر بہت سی روایات میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ روزی خداکے ہاتھ میں ہے اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے کی مذمت کی گئی ہے ۔

اس سوال کے جواب میں مندرضہ ذیل دو نکات کی طرف توجہ کرنا چاہئیے :

۱ ۔ اسلامی مصادر میں غور و خوض کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ زیر بحث مسئلہ ہو یا کوئی اور، جو آیات و روایات ابتدائی نظر میں ایک دوسرے سے متضاد نظر آتی ہے در اصل ان میں سے ہر ایک مسئلے کے ایک پہلو کے بارے میں ہوتی ہے جبکہ دوسرے پہلوؤں سے غفلت کے باعث تضاد کا شک گذرتا ہے ۔

وہ مقام کہ جہاں لوگ دنیا پر ریجھ جاتے ہیں ان کا حرص بہت زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ مادی دنیا کی زرق و برق زندگی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے کسی جرم اور زیادتی سے نہیں چوکتے وہاں پیہم تاکیدی احکام کے ذریعے انھیں اس دنیا کی ناپائیداری اور دنیا وی مال و جاہ کی بے وقعتی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جبکہ وہ مقام کہ جہاں کچھ لوگ زہد وتقویٰ کے بہانہ سے کام اور سعی و کوشش سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں وہاں انھیں محنت ، کام کاج اور کوشش کی اہمیت یا دلائی گئی ہے ۔

در اصل سچے رہبروں کا یہی طرز عمل ہونا چاہئیے کہ وہ افراط سے بھی مناسب طریقے سے روکیں اور تفریط سے بھی ۔

جن آیات و روایات میں تاکید کی گئی ہے کہ رزق خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس نے ہر شخص کا حصہ معین کیا ہوا ہے در حقیقت یہ حرص و طمع ، دنیا پرستی اور بے اصول و بے حدود سمیٹنے سے روکنے کے لئے ہے اور ان کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسان کے نشاط کار کے ولولوں کو ختم کر دیا جائے ۔ اور ایک آبر ومندانہ ، خود کفایت اور اپنے قدموں پر کھڑی زندگی کی جد و جہد کو ختم کردیا جائے ۔

اس حقیقت کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان روایات کی تعبیر واضح ہو جاتی ہے کہ جن میں کہا گیا ہے کہ بہت سی روز یاں ایسی ہیں کہ اگر تم ان کے پیچے نہ جاؤتو وہ تمہارے پیچھے آئیں گی۔

۲ ۔ توحیدی نقطہ نگاہ سے کائنات کو دیکھا جائے تو ہر چیز خد اکی طرف منتہی ہو تی ہے اور ایک خدا پرست سچا موحد کسی چیز کو اپنی طرف سے نہیں سمجھتا بلکہ اس تک جو بھی نعمت پہنچی ہے اس کا سر چشمہ خدا ہی کو جانتا ہے وہ کہتا ہے ۔

بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر

ہر طرح کی نیکی اور خیرکی کلید تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قادر اور توانا ہے (آلِ عمران ۲۶)

اس لحاظ سے ایک حقیقی توحید پرست کو ہر موقع پر اس حقیقت کی طرف متوجہ رہا چاہئیے یہاں تک کہ اس کی سعی و کا وش ، فکر اور آلات و اسبات ِ پیدا وار بھی دراصل خدا ہی کی طرف سے ہیں ۔ اس کی نگاہ ِ لطف لمحہ بھر کے لئے پھر جائے تو سب کچھ ختم ہو جائے۔

خد اپر ایمان رکھنا والا ایک شخص جب کسی سواری پر سوار ہوتا ہے تو کہتا ہے :

( سبحان الذی سخرلنا هٰذا )

پاک ہے وہ خدا کہ جس نے اسے ہمارے لئے مسخر کیاہے ۔

جب وہ کوئی نعمت پاتا ہے تو زمزمہ توحید اس کے ہونٹوں سے نکلتا ہے :( وما بنا نعمة فمنک )

ہمارے پاس جو بھی نعمت ہے بار الہٰا !تیری طرف سے ہے ۔

یہاں تک کہ انسانوں کی نجات کے لئے جب کوئی قدم اٹھاتا ہے تو پیروی انبیاء میں کہتا ہے :۔

( وما توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب )

میری توفیق صرف اللہ کی طرف سے ، میں نے اسی پر توکل کیا ہے او رمیں ایس کی طرف پلٹتا ہوں (ہود، ۸۸)

لیکن ان تمام مباحث میں جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ تلاش رزق کو نکلنا چاہیئے ۔ سعی و کو شش کرنا چاہئیے اور ا س کے لئے مثبت اور اصلاحی راستہ اختیار کرنا چاہئیے وہ راستہ کہ جو ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک ہو ۔

رہی اس روزی کی بات کہ جو انسان کو بغیر کوشش کے مل جاتی ہے تو وہ فرعی مسئلہ نہ کہ اساسی اور بنیادی ۔ شاید اسی بناء پر حضرت علی علیہ السلام نے اپنے کلمات قصار میں پہلے درجے میں اس رزق کا ذکر فرمایا ہے کہ انسان جس کے لئے نکلتا ہے اور اس کے بعد رزق کا جو خود انسان کے پیچھے آتا ہے ۔

یا بن اٰدم ! الرزق رزقان : رزق تطلبه ورزق طلبه

اے ابن آدم ! رزق دو قسموں کا ہوتا ہے ایک وہ کہ جس کی تلاش میں تو نکلتا ہے اور دوسرا وہ کہ جو تیری تلاش میں آتا ہے ۔ ۱

____________________

۔۱کتب دعا میں اس جملے کا ذکر نماز عصر کی تعقیبات میں کیاگیا ہے ۔

۲ ۔ دوسروں سے برابری کا سلوک

زیر نظر آیات میں بہت سے انسانوں کی تنگ نظری اوربخل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : فرمای اگیا ہے کہ وہ اس بات کے لئے تیار نہیں کہ ان کے اختیار میں جو بہت سے نعمتیں دی گئی ہیں وہ اپنے زیر دست افراد کو بخشیں البتہ وہی لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جو انبیاء اور ہادیان الہٰی کے تربیتی مکتب کے تربیت یافتہ ہیں ۔

ان روایا ت کے ضمن میں کئی ایک روایات میں مساوات اور مواسات کی تاکید کی گئی ہے ۔ تفسیر علی بن ابراہیم میں اس سلسلے میں ہے :لایجوز للرجل ان یختص نفسه بشیء من الماٴکول دون عیاله

کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے لئے گھر میں مخصوص غذا رکھے اور وہ کچھ کھائے کہ جس سے اس کے گھر والے محروم رہیں ۔(۱)

نیز حضرت ابوذر سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا :

انما ھم خوانکم فاکسوھم مما تکسون ، و اطعموھم مما تطعمون، فمارؤی عبدہ بعد ذٰلک الاوردٰئہ، وازارہ ازارہ ، من غیر تفاوت

جو افراد تمہارے زیر دست اور ماتحت ہیں وہ تمہارے بھائی ہیں جو کچھ خود پہنتے ہو انھیں ۔ پہناؤ اورجو کچھ خود کھاتے ہو انھیں کھلاؤ۔

رسول اللہ کی اس وصیت کے بعد ابوذر کا طرز عمل اپنے ماتحت افرد سے یہ تھا کہ ان کا لباس ان کے اپنے لباس سے بالکل مختلف نہ ہوتا تھا ۔۔(۲)

مذکور ہ روایات اور اسی طرح خود زیر بحث آیت کہ جو کہتی ہے ”فھم فیہ سوآءُ“(بس وہ اس میں مساوی ہیں ) سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نصیحت کرتا ہے کہ تمام مسلمان اسلامی اخلاق کے طرز عمل کے طور پر اپنے گھر کے تمام افراد اور اپنے تحت افراد سے حتی الامکان مساوات کریں اور برابری کا سلوک کریں گھریلوماحال اور اپنے ماتحت افراد میں اپنے لئے کوئی امتیاز نہ برتیں ۔

____________________

۱.۔نہج البلاغہ ، کلمات قصارص ۳۷۹۔

۲. ۔تفسیر نور الثقلین جلد ۳ ص۶۸۔

آیات ۷۳،۷۴

۷۳ ۔( وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَمْلِکُ لَهُمْ رِزْقًا مِنْ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ شَیْئًا وَلاَیَسْتَطِیعُونَ ) ۔

۷۴ ۔( فَلاَتَضْرِبُوا لِلَّهِ الْاٴَمْثَالَ إِنَّ اللهَ یَعْلَمُ وَاٴَنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ

۷۳ ۔ وہ خدا کو چھوڑکر کچھ ایسے موجودات کی پر ستش کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں سے ان کے رزق کے مالک نہیں ہیں اوریہ کام جن کے بس کا نہیں ۔

۷۴ ۔لہٰذا اللہ کے لئے امثال (اور شبیہ) کا عقیدہ رکھو کیونکہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

تفسیر

خدا کے لئے شبیہ کا عقیدہ نہ رکھو :

گذشتہ آیات میں توحید کے بارے میں گفتگو تھی اب زیر بحث آیات میں مسئلہ شرک کے بارے میں بات کی گئی ہے سر زنش و ملامت کے لہجے میں فرمایا گیا ہے : وہ خدا کو چھوڑ کر ایسے موجودات کی پرستش کرتے ہیں کہ جو آسمان و زمین میں سے ان کی روزی کے مالک نہیں ہیں اور اس سلسلے میں ان کا ذرہ بھر بھی کوئی اثر نہیں( وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَمْلِکُ لَهُمْ رِزْقًا مِنْ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ شَیْئًا ) ۔

نہ صرف یہ کہ اس سلسلے میں وہ کسی چیز کے مالک نہیں بلکہ خلق و ایجاد اور ان پر دست رسی کی طاقت نہیں رکھتے( وَلاَیَسْتَطِیعُونَ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مشرکین اس لئے بتوں کی پوجا پاٹ کرتے تھے کہ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کی زندگی اور نفع و نقصان میں کوئی اہم کردار ادا کرتے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ رزق کا مسئلہ انسانی زندگی کے اہم ترین مسائل میں سے ہے چاہے وہ آسمان سے بارش کے حیات بخش قطروں اور سورج سے زندگی بخش شعاعوں کی صورت میں )ہو یا وہ زمین سے نکلنے والا ہو اس میں سے کچھ بھی بتوں کے اختیار میں نہیں وہ تو بے اہمیت اور بے قیمت موجودات ہیں کہ جن کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا یہ تو صرف خرافات اور جہالت پر مبنی تعصبات ہیں کہ جھنہوں نے انھیں اہمیت دے رکھی ہے ۔

در حقیقت ”( لایستطیعون ) “”( لایملکون ) “ ( وہ کسی چیز کے مالک نہیں ) کی دلیل ہے اس لئے کہ وہ ان کی خلقت یا حفاظت کی ذرہ بھر قدرت بھی نہیں رکھتے۔

اگلی آیت میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اب جبکہ ایسا ہے تو پھر خدا کی کسی مثل ، شبیہ اور نظیرکے قائل نہ بنو( فَلاَتَضْرِبُوا لِلَّهِ الْاٴَمْثَالَ ) ۔کیونکہ خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے( إِنَّ اللهَ یَعْلَمُ وَاٴَنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

بعض مفسرین کاکہنا ہے کہ ”فَلاَتَضْرِبُوا لِلَّهِ الْاٴَمْثَال “زمانہ جاہلیت کے مشرکین کی ایک منطق کی طرف اشارہ ہے ( ہمارے زمانے کے بعض مشرکین بھی یہ بات کرتے ہیں ) وہ کہتے تھے کہ اگرہم بتوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں تو ا س کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس لائق نہیں کہ خدا کی پرستش کریں لہٰذا ہمیں بتوں کی طرف رجوع کرنا چاہئیے کہ جو ا س کے مقرب بارگاہ ہیں ۔ خدا ایک عظیم شہنشاہ کی طرح ہے کہ جو وزراء اور خواص ہی اس سے رابطہ کرسکتے ہیں اور عام لوگ جن کی اس بادشاہ تک رسائی نہیں وہ باد شاہ کے قریبی خواص اور مقربین کے پیچھے ہی لگیں گے۔

اس قسم کی قبیح اور غلط منطق بہت خطر ناک ہے بعض اوقات بڑے انحرافی انداز میں اسے خوب صورت بناکر پیش کیا جاتا ہے قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے :

خدا کے لئے مثالیں بیان نہ کرو۔

یعنی ایسی مثال اس کے لئے پیش نہ کروجو محدود افکار اور ممکن موجودات کے حوالے سے ہو اور نقائص سے مامور ہو کیونکہ ایسی مثال اس سے مناسبت نہیں رکھتی تو اگر اس امر کی طرف توجہ رکھتے کہ تمام موجودات اللہ کے احاطہ وجودی میں ہیں اور اس کے غیر متناعی لطف و رحمت کے سایے میں ہیں اور وہ خود تم سے تمہاری نسبت زیادہ نزدیک ہے تو کبھی بھی وسائط و وسائل کی طرف متوجہ نہ ہوتے ۔

وہ خدا جو براہ راست اپنے سے راز و نیاز اور گفتگو کی دعوت دیتا ہے اور جس نے اپنے گھر کے دروازے شب و روز تمہارے لئے کھول رکھے ہیں اسے کسی جابر و متکبر باد شاہ سے تشبیہ نہیں دیناچاہئیے کیونکہ یہ باد شاہ تو محل نشیں رہتے ہیں اور گنتی کے چند افراد کے سوا کوئی ان کے محل میں نہیں جاسکتا( فَلاَتَضْرِبُوا لِلَّهِ الْاٴَمْثَال )

صفات خدا کی بحثوں میں ہم اس نکتے کی طرف خصوصی طور پر متوجہ ہوتے ہیں کہ صفات الہٰی کی شناخت کی راہ میں تشبیہ کا مسئلہ نہایت خطرناک ہے یعنی اس کی صفات کو بندوں پر قیاس کرنا اور ان سے مشابہ قراردینا کیونکہ خدا ہر لحاظ سے ایک لامتناہی وجود ہے اور دوسرے لحاظ سے محدود وجود ہیں لہٰذا ہر قسم کی تشبیہ و تمثیل ہمیں اس کی ذات سے دور لے جائے گی۔

یہاں تک کہ جہاں ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس کی ذات مقدس کو نور یا اس قسم کی چیز کے ساتھ تشبیہ دیں وہاں بھی ہمیں متوجہ رہنا چاہئیے کہ ایسی تشبیہات بہر حال ناقص اور نا رسا ہیں اور صرف کسی ایک پہلو سے قابل قبول ہیں نہ کہ ہر پہلو سے (غور کیجئے گا) ۔

جبکہ بہت سے لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور زیادہ تر تشبیہ و قیاس کی گمراہ کن وادیوں میں گھر جاتے ہیں ، اور حقیقت ِ توحید سے بہت دور جا پڑتے ہیں لہٰذا قرآن بار بار بیدار کرتا ہے اور تنبیہ کرتاہے کبھی کہتا ہے :

( ولم یکن له کفواً احد )

کوئی چیز اس کے ہم پلہ اور اس کی مثل نہیں ۔ (اخلاص ۔ ۴)

کبھی کہتاہے :( لیس کمثله شیء )

کوئی شے اس کی مانند و مثل نہیں ہے ۔ ( شورایٰ ۔ ۱۱)

کبھی فرماتا ہے :( فلا تضربوا لله الامثال )

یہ در اصل اسی حقیقت کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے ہے اور شاید ”( ان الله یعلم و انتم لاتعلمون ) “ ( خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے) اسی مسئلے کی طرف اشارہ کررہا ہو کہ عام لوگ صفات ِ الہٰی کے اسرار سے بے خبر ہیں ۔