تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22148
ڈاؤنلوڈ: 2021


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22148 / ڈاؤنلوڈ: 2021
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵

۱۰ ۔( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی شِیَعِ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔

۱۱ ۔( وَمَا یَاٴْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ) ۔

۱۲ ۔( کَذَلِکَ نَسْلُکُهُ فِی قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ ) ۔

۱۳ ۔( لاَیُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔

۱۴ ۔( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهمْ بَابًا مِنْ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِیهِ یَعْرُجُونَ ) ۔

۱۵ ۔( لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ اٴَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُو )

ترجمہ

۱۰ ۔ ہم نے تجھ سے پہلے ( بھی ) گذشتہ امتوں کے درمیان پیغمبر بھیجے ہیں ۔

۱۱ ۔ کوئی پیغمبر ان کے پا س نہیں آیا تھا مگر یہ کہ وہ ا س کا مذاق اڑاتے تھے ۔

۱۲ ۔ ہم اسی طرح ( او ر تمام وسائل سے استفا دہ کرتے ہوئے ) قرآن کو مجرموں کے دلوں کے اندر راستہ دیتے ہیں ۔

۱۳ ۔ ( لیکن اس کے با وجود ) و ہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور گذشتہ امتوں کی روش بھی اسی طرح تھی ۔

۱۴ ۔ اور اگر ہم آسمان سے ان کے لئے کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ مسلسل اس میں اوپر کی طرف جائیں ۔

۱۵ ۔ تو کہیں گے کہ ہماری چشم بندی کی گئی ہے بلکہ ہمیں ( سر تاپا) مسحور کر دیا گیا ہے

تفسیر

ہٹ دھرمی اور محسوسات کا انکار

ان آیات میں پیغمبر اکرم اور مومنین کو اپنی دعوت میں در پیش مشکلات کے مقابلے میں تسلی و تشفی کے لئے گذشتہ انبیاء کی زندگی اور گمراہ و متعصب قوموں کے مقابلے میں ان کی مصیبتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : تجھ سے پہلے ہم نے گذشتہ امتوں کے درمیان بھی نبی بھیجے تھے( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی شِیَعِ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔

لیکن وہ لوگ ایسے ہٹ دھرم اور سخت مزاج تھے کہ ” جو پیغمبر بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا تمسخر اڑاتے( وَمَا یَاٴْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ) ۔

یہ استہزاء چند امور کی وجہ سے ہوتا تھا

۔انبیاء کی شان و شوکت کو کم کرنے اور حق کے متلاشی اور حق طلب افراد کو ان سے دور کرنے کے لئے ۔

۔ خدائی رسولوں کی منطق کے مقابلے میں ان کی اپنی ناتوانی کی وجہ سے چونکہ وہ لوگ ان کے دندان شکن دلائل کا جواب نہیں دے سکتے تھے لہٰذا تمسخر کا سہارا لیتے یعنی بے منطق ناداں کا حربہ استعمال کرتے تھے ۔

۔ اس بناء پر کہ انبیاء بد عت شکن تھے اور غیر مناسب رسوم و رواج کے خلاف قیام کرتے تھے لیکن جاہل متعصب کہ ان غلط رسول و رواج کو ابدی سمجھتے تھے انہیں ان کام پر تعجب ہو تا تھا اور وہ استہزاء کرنے لگتے تھے ۔

۔یہ لوگ اس لئے بھی استہزاء کرتے تھے کہ اپنے خوابیدہ ضمیر کو سلائے رکھیں اور کہیں کوئی ذمہ داری اور مسئولیت ان کے سر نہ آجائے ۔

۔ اس لئے کہ بہت سے انبیاء کے ہاتھ مالِ دنیا سے تہی ہوتے تھے اور ان کی زندگی سادہ ہوتی تھی جو لوگ اپنے دل کے اندھے پن کی وجہ سے شخصیت کو نئے لباس ، اعلیٰ سواری اور نگین زندگی میں منحصر سمجھتے تھے انھیں تعجب ہوتا تھا کہ کیا ایک فقیر اور تہی دست انسان ان دولت مندوں او ر خوشحال لوگوں کا رہبر ہوسکتا ہے ؟ لہٰذا وہ اس کا تمسخر اڑانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔

۔ آخر کار یہ بھی تھا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انبیاء کی دعوت قبول کرنے سے ان کی شہوات و خواہشات محدود ہ وجائیں گی او ر ان کی حیوانی آزادی چھن جائے گی ۔ اور ان کے لئے فرائض اور ذمہ دار یاں پیدا ہو جائیں گی لہٰذا وہ استہزاء سے کام لیتے تاکہ اپنے آپ کو ان فرائض اور ذمہ داریوں سے بچا سکیں ۔

اس کے بعد فرمایا گیا : اسی اسی طرح ہم آیات قرآن مجرموں کے دلوں میں ں بھیجتے ہیں( کَذَلِکَ نَسْلُکُهُ فِی قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ ) ۔

لیکن ان تمام تبلیغ ، تاکید ، منطقی بیان اور معجزات دکھا نے کے باوجود یہ متعصب تمسخر اڑانے والے ” اس پر ایمان نہیں لاتے“( لاَیُؤْمِنُونَ بِه ) ۔

البتہ یہ انہی پر منحصر نہیں ہے ” ان سے پہلے گذشتہ اقوام کی بھی یہی روش تھی( وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔

شہوات میں غوطہ زنی اور باطل پر ہٹ دھرمی کے باعث معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اگر ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی در وازہ کھول دیں اور ہمیشہ آسمان کی طر ف چڑھیں اور اتریں( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهمْ بَابًا مِنْ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِیهِ یَعْرُجُونَ ) ۔

تو کہیں گے کہ ہماری چشم بندی کی گئی ہے( لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ اٴَبْصَارُنَا ) ۔بلکہ ہمیں جادو گر دیا گیا ہے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ، اس میں قطعاً کوئی حقیقت نہیں ہے( بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ ) ۔

یہ جائے تعجب نہیں کہ انسان عناد اور ہ دھرمی کے اس در جے پر پہنچ جائے کیونکہ انسان کی پاک روح اور خرابی سے بچی ہوئی فطرت کہ جو ادراک ِ حقائق اور واقعیات کے اصلی چہرے کے مشاہدہ پر قدرت رکھتی ہے ، گناہ جہالت اور حق سے دشمنی رکھنے کے زیر اثر آہستہ آہستہ تاریکی میں جا گرتی ہے البتہ ابتدائی مراحل میں اسے پاک کرنا پوری طرح ممکن ہے لیکن اگر خدا نخواستہ یہ حالت ِ انسان میں راسخ ہو جائے اور ” ملکہ “ کی شکل اختیار کرلے تو پھر اسے آسانی سے ختم کیا جاسکتا اور یہ وہ مقام ہے کہ حق کا چہرہ انسان کی نظر میں دگر گوں ہو جاتا ہے یہاں تک کہ محکم ترین عقلی دلائل اور واضح ترین حسی براہین اس کے دل پر اثر نہیں کرتے اور اس کا معاملہ معقولات اور محسوسات دونوں کے انکار تک جا پہنچتا ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”شیع کا مفہوم “

” شیع“” شیعہ “کی جمع ہے ۔ ” شیعہ“ ایسی جمیعت اور گروہ کو کہا جاتا ہے جس کے افراد خطِ ،مشترک کے حامل ہوں مفردات مین راغب نے کہا ہے :

”شیع “ ”شیاع“ کے مادہ سے پھیلاؤ اور تقویت کے معنی میں ہے ” شاع الخبر“ اس وقت کہا جاتا ہے جب خبر متعدد اور قوی ہو جائے ” شاع القوم “ اس وقت کہا جاتا ہے جب جمیعت پھیل جائے اور زیادہ تعداد میں ہو اور ” شیعہ “ ان لوگوں کو کہتے ہیں کہ انسان جن کی وجہ سے قوی ہو ۔

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں اس کی اصل ” مشایعت “ بمعنی متابعت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعہ پیرو کار اور تابع کے معنی میں ہے اور شیعہ علی(علیہ السلام) انھیں کہا جاتا ہے جو حضرت علی (علیہ السلام) انھیں کہا جا تا ہے جو حضرت علی (علیہ السلام) کے پیرو کار ہوں اور ان کی امامت کا اعتقاد رکھتے ہوں ۔ پیغمبر اکرم کی یہ مشہور حدیث حضرت امام سلمہ سے مروی ہے ۔شیعة علی هم الفائزون یوم القیامة

( قیامت کے دن نجات پانے والے علی (علیہ السلام) کے پیرو ہیں )

یہ حدیث بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔

بہر حال اس لفظ کی اصل ”شیاع“ بمعی پھیلاؤ اور تقویت سمجھیں یامشایعت بمعنی متابعت جانیں شیعہ اور تشیع کے مفہوم میں ایک طرح کی فکری و مکتبی ہم بستگی موجود ہونے کی دلیل ہے کہ وہ انبیاء کے خلاف پر اگندہ صورت میں عمل نہیں کرتے تھے بلکہ وہ خط مشترک اور ایک ہی پروگرام کے حامل تھے کہ جو ہم آہنگ اقدامات سے تقویت پاتا ہے ۔

اگر گمرا ہ لوگ اس طرح باہم مل کر اقدامات کرتے ہوئے تو کیا راہ ِ حق کے سچے پیرو کاروں کو اپنے راستے میں ہم آہنگی اور مشرکہ منصوبہ بندی اختیار نہیں کرنا چاہئیے ۔

۲ ۔”نسلکہ“ کی ضمیر کامرجع

یہ لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجرموں اور مخالفوں کو اپنی آیات اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ گویا ان کے دلوں میں داخل ہو گئی ہوں ۔

لیکن افوس کی بات ہے کہ عدم قابلیت اورعدم آمادگی کے سبب با ہر نکل آتی ہیں جیسے مقوی او رمفید غذا خراب اور غیر صحیح معدہ میں جذب نہیں ہوتی ۔بالک یہی حقیقت ”نسلکہ “ کہ جس کا مادہ اصلی ”سلوک “ سے ہے سمجھی جاسکتی ہے ۔

لہٰذا” نسلکہ “ کی ضمیر ” ذکر “ ( قرآن) کی طرف لوٹتی ہے کہ جو گذشتہ آیات میں آیا ہے کہ اس طرح بعد والے جملے ” لایومنون بہ “ میں ” بہ “ کی ضمیر اس کی معنی کی طرف لوٹتی ہے یعنی ان تمام چیزوں کے باوجود وہ لوگ ان آیات پر ایمان نہیں لائیں گے اس بناء پر دو ضمیروں کے درمیان پوری طرح ہم آہنگی موجود ہے ۔

اسی معنی میں اس تعبیر کی نظیر سورہ شعراء کی آیہ ۲۰۰ اور ۲۰۱ میں نظر آتی ہے ۔

بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ ” نسلکہ “ کی ضمیر استہزاء کی طرف لوٹتی ہے کہ جو گذشتہ آیت سے مستفاد ہو تا ہے لہٰذا جملے کا معنی یہ ہوگا : ہم نے اس استہزاء کرنے کو( ان کے گناہوں اور ہٹ دھرموں کی وجہسے ) ان کے دل میں داخل کردیا ہے ۔

لیکن یہ تفسیر کوئی اور اشکال نہ بھی رکھتی ہو تاہم دوضمیروں کے درمیان سے ہم آہنگی خم کردیتی ہے اور اس کی کمزوری کے لئے یہی کافی ہے ( غور کیجئے گا) ۔

ضمنی طور پر مندرجہ بالا جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ مبلغین کا فریضہ صرف یہ نہیں کہ مسائل لوگوں کے کانوں کو سنا دیں بلکہ انھیں تمام وسائل سے استفادہ کرنا چاہئیے تاکہ حق بات ان کے دل میں اتاردیں اس طرح سے کہ وہ دلنشیں ہو جائے یوں حق طلب لوگوں کو ارشاد و ہدایت ہو جائے گی اور ہٹ دھرم افراد پر اتمام حجت ہو جائے گی ۔

یعنی تمام سمعی و بصری اور عملی ذرائع سے استفادہ کرناچاہئیے ۔ واقعات اور داستانوں سے کام لینا چاہئیے ۔

شعر و ادب و ہنر و فن سے حقیقی اور اصلاحی معنی میں استفادہ کرنا چاہئیے ۔ تاکہ کلمات حق لوگوں کے دلوں میں جا گزیں ہو جائیں ۔

۳ ۔گذشتہ لوگوں کی روش

انبیاء پر طرف دار باطل کی نکتہ چینی اور مردانِ خد اسے لوگوں کو دور کرنے کی سازشیں کوئی نئی چیز نہیں اور کسی خاص زمانے یا علاقے میں منحصر نہیں بلکہ جیسا کہ مذکورہ بالا تعبیر سے معلوم ہوتا ہے قدیم زمانے سے گمراہ قوموں میں ایسی سازشیں موجود ہیں ۔

لہٰذا ان سے ہر گز وحشت زدہ نہیں ہونا چاہئیے اور اپنے اندر مایوسی اور ناامیدی کو جگہ نہیں دینا چاہئیے ۔ یا دشمنوں کی طرف سے پیدا کردہ کثیر مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئیے ۔

یہ بات تمام راہیان حق کے لئے ایک موثر دلجوئی اور تسلی ہے ۔

اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دور اور کسی علاقہ میں ہم دعوت ِحق نشر کریں اور پر چم عدم لہرائیں لیکن ہٹ دھرم اور سخت مخالفت کرنے والے دشمن کی طرف سے ہمیں رد عمل کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ہم بہت ہی زیادہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ انبیاء الہٰی اور ان کے سچے پیر و کار ان مخالفتوں کی وجہ سے کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ ان کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ ہر روز اپنی دعوت کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ کریں ۔

۴ ۔( فظلموا فیه یعرجون ) “ کا مفہوم

یہ جملہ اور مندرجہ بالا آیات میں آنے والے بعد کے جملے اچھی طرح نشاندہی کرتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ آسمان سے کوئی دروازہ ان کے لئے کھول دیا جائے (ظاہراً آسمان یہاں اس تہ بہ فضا کی طرف اشارہ ہے جو زمین کے اطراف میں ہے کہ جس سے آسانی سے نکلنا ممکن نہیں ہے )اور مسلسل روز روشن میں اس آئیں جائیں پھر بھی وہ شدید ہٹ دھرمی سے کہیں گے کہ ہماری چشم بندی کردی گئی ہے اور ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔

توجہ رہے کہ ” ظلموا “ دن میں کسی کام کو جاری رکھنے کی دلیل ہے عرب یہ لفظ رات کے موقع کے لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ ”باتوا“ کہتے ہیں جو مادہ ” بیتوتہ“ ( رات گزار نا) سے ہے ۔

زیادہ تر مفسرین نے یہی تفسیر انتخاب کی ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ ” ظلموا“ میں ضمیر فرشتوں کی طرف لوٹتی ہے یعنی اگر وہ فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ وہ آسمان کی طرف جارہے ہیں اور پلٹ رہے ہیں تو پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔

علاوہ اس کے کہ یہ تفسیر قبل اور بعد کی آیات سے کہ جوعموماً مشرکین کے بارے میں ہیں سے منا سبت رکھتی ( کیونکہ ملائکہ کا ذکر صرف پہلی چھ آیات میں آیا ہے اور ان کی طرف ضمیر کا لوٹنا بہت بعید ہے ) بلاغت کلام میں بھی نقص کا باعث ہے کیونکہ قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہاں تک کہ اگر یہ لوگ خود بصورت اعجاز روز روشن میں آسمان کی طرف جائیں اور پلٹ آئیں تو بھی حق کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے ۔ ( غور کیجئے گا) ۔

۵ ۔ سکرات ابصارنا“ کا مطلب

” سکرت“ ”سکر“ کے مادہ سے چھپانے کے معنی میں ہے یعنی ہٹ دھرم کا فر کہتے ہیں کہ ہماری حقیقت میں آنکھ پر گویا پر دہ ڈال دیا گیا ہے اور اگر ہم اپنے تئیں آسمان کی طرف محو پرواز دیکھیں تو یہ ایک خیالی بات ہے یہ بالکل وہی چیز ہے جسے فارسی زبان میں ”چشم بندی “اور نظر بندی ( اردو میں اسے فریب ِ نظر کہتے ہیں (مترجم ) ۔ سے تعبیرکرتے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے کے ہاتھ کی صفائی کی وجہ سے انسان حقیقت کو صحیح طور پر نہیں دیکھ سکتا بلکہ اس کے خلاف محسوس کرتا ہے ۔

یہ جو اس کے بعد جملہ ” بل نحن قوم مسحورون “( بلکہ ہم تو جادو زدہ ہیں ) آیا ہے اگر چہ فریب نظر بھی ایک قسم کا جادو ہے لیکن شاید یہ اس طرف اشارہ ہو کہ معاملہ چشم بندی سے بھی بالا ہو گیا ہے اور ہمیں سر تا پا جا دو کردیا گیا ہے نہ صرف ہماری آنکھ جادو کے زیر اثر ہے بلکہ ہمارا سارا وجود جادو کے سبب اپنا حقیقی احساس گنوابیٹھا ہے اور جو کچھ محسوس کرتا ہے ، خلافِ حقیقت ہے ۔

دوسرے لفظوں میں جب ہم کسی انسان کو کسی ذریعے سے اوپر لے جائیں اور نیچے لے آئیں تو وہ اس حالت کو نہ صرف اپنی آکھوں سے بلکہ پورے وجود کے ساتھ محسوس کرتا ہے لہٰذا اگر کسی کی پوری طرح چشم بندی کر دی جائے تو وہ پھر بھی اپنے اوپر نیچے آنے جانے کو محسوس کرے گا، یعنی فرض کریں کہ ان مشرکین کو ہم آسمان کی طرف لے جائیں تو پہلے کہیں گے کہ ہماری نظر کو فریب دیاگیا ہے اور بعد میں متوجہ ہوں گے کہ یہ حالت تو بدون چشم قابل احساس ہے تو کہیں گے اصولی طور پر تو سرسے لے کر پاؤں تک ہمارا وجود سحر زدہ ہے اور اس پر جادو کیا گیا ہے ۔

آیات ۱۶،۱۷،۱۸

۱۶ ۔( وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَیَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِینَ ) ۔

۱۷ ۔( وَحَفِظْنَاهَا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ رَجِیمٍ ) ۔

۱۸ ۔( إِلاَّ مَنْ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاٴَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِینٌ ) ۔

ترجمہ

۱۶ ۔ ہم نے آسمان میں برج قرار دئیے ہیں اور انھیں ناظرین کے لئے زینت عطا کی ہے ۔

۱۷ ۔اور اس کی ہر شیطان مردود سے حفاظت کی ہے ۔

۱۸ ۔ مگر اشتراق سمع کرنے والے کہ شہاب ِ مبین جن کا تعاقب کرتے ہیں ( اور انھیں ہانکتے ہیں ) ۔

تفسیر

شیطان شہاب کے ذریعے ہانکے جاتے ہیں :

ان آیات میں توحید اور شناخت ِ خدا کی دلیل کے طور پر نظام اافرینش کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان آیات کے ذریعے قرآن و نبوت کے بارے میں گذشتہ آیا ت کی بحث مکمل کی گئی ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : ہم نے آسمان میں برج قرار دئے ہیں( وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا ) ۔

”بروج“ ”برج“ کی جمع ہے اس کا اصلی معنی ”ظہور“ ہے اسی بنا پر اطراف ِ شہر کی دیوار یا اجتماع ِ لشکر کے اس مخصوص حصے کو برج کہا جاتا ہے جو خاص ظہور کرتا ہو ۔ نیز اسی بناء پرجب عورت اپنی زینت ظاہر و آشاکر کرے تو ” تبرجت المرائة“ کہتے ہیں ۔

بہرحال آسمانی برج سورج اور چاند کی منازل کی طرف اشارہ ہیں زیادہ دقیق تعبیر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ہم کرہ زمین سے چاند اور سورج کی رف نگاہ کریں تو سال کے مختلف مواقع پر انھیں ہم ایک خاص صورت فلکی میں دیکھتے ہیں ( سیاروں کے مختلف مجموعے ہیں ان میں سے ہر ایک نے ایک خاص شکل اختیار کی ہوتی ہے ، اسے صورت فلکی کہتے ہیں ) اور کہا جاتا ہے کہ سورج برج حمل، ثور ، میزان ، عقرت، یاقوس میں ہے ۔(۱)

ان آسمانی برجوں کا وجود ، آفتاب و ماہتاب کی منزلیں اور وہ خاص نظام جو ان کی حرکت کے لئے ان پر بر جوں میں موجود ہے کہ جس سے ہماری دنیائے ہستی کی تقویم بنتی ہے آفریدگار اور خالق کے علم و قدرت پر یہ ایک واضح دلیل ہے یہ عجیب و غریب نظام جو دقیق بھی ہے اور باریک حساب کا حامل ہے ۔ مسلسل اور رواں دواں ہے ، ظاہر کرتا ہے کہ جہان کی خلقت ایک منصوبے اور ہدف کے تحت ہے اور اس میں ہم جتنا زیادہ غور و فکر کریں ہم اس جہان کے خالق اتناہی قریب ہو جاتے ہیں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : ہم نے آسمان کو اور ان کی فلکی صورتوں کو ناظرین کی زینت عطا کی ہے( وَزَیَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِینَ ) ۔(۲)

ایک تاریک ستاروں بھری رات میں آسمان کی طرف نظر اٹھائیں تو ہم دیکھیں گے کہ مختلف گوشوں میں ستاروں کے مختلف گروہ موجود ہیں گویا ہ رگروہ کی اپنی انجمن ہے ۔ اور وہ آپس میں آہستہ آہستہ راز و نیاز کی باتیں کررہے ہیں ۔ بعض خیرہ خیرہ ہماری طرف دیکھتے ہیں مگر آنکھ سے اشارہ بھی نہیں کرتے اور بعض ہیں کہ مسلسل اشارہ کررہے ہیں گویا ہمیں اپنی طرف بلارہے ہیں ۔ بعض چمکتے ہوئے یوں لگتے ہیں کہ جیسے ہمارے قریب ہو تے جارہے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے کم رنگ نور کے ساتھ گویاآسمانوں کی ان پہنائیوں سے بغیر آواز کے صدا دے رہے ہیں کہ ہم بھی یہاں ہیں یہ خوبصورت شاعرانہ منظر جو شاید بعض کے لئے مشاہدہ کے باعث معمول کا جلوہ ہو لیکن اس پر جتنا بھی غور و فکر کریں یہ قابل ِ دید، جاذب نظر اور شوق انگیز ہے اور جب چاند اپنی مختلف شکلوں میں ان گروہ د رگروہ ستاروں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو یہ منظر اور بھی تازہ اور اعجاب انگیز ہو جاتا ہے ۔

غروبِ آفتاب کے بعد ستارے یکے بعد دیگرے نمودار ہوتے ہیں گویا کسی پر دے کی اوٹ سے باہر کی طرف دوڑ رہے ہوں ۔ یہی تارے دم صبح خیرہ کن آفتاب کی قوت کے سامنے ٹھہر نہیں پاتے ، بھاگ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو چھپالیتے ہیں ۔

اس سے قطع نظر علمی زیبائیوں اور فراواں اسرار کی نگاہ سے آسمان کاچہرہ اس قدر خوبصورت ہے کہ ہزاروں سال تمام علماء اور دانش مندوں کی آنکھ اسی کی طرف لگی ہوئی ہے ۔ خصوصاً آج کی دنیا میں نہایت طاقتور ٹیلی سکو پس اور ستارے دیکھنے والی عظیم دوربینوں کے ذریعے اس کی طرف دیکھا جاتا ہے اور ہر وقت اس سے ظاہر اً خاموش مگر غوغا حا کم کے تازہ اسرار اہل ِ دنیا کے لئے منکشف ہو رہے ہیں ، سچ ہے کہ :

چرخ بایں اختران نغزو خوش و زیبا ستی

آسمان ان عمدہ ، اچھے اور زیبا ستاروں کے ساتھ ہے

بعد والی آیت میں مزید فرمایا گیا ہے : ہم نے اس آسمان ک وپر مردود، شوم اور ملعون شیطان سے محفوظ رکھا ہے ۔( وَحَفِظْنَاهَا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ رَجِیمٍ ) ۔

مگر وہ شیطان کہ جو اشتراق سمع“ ( خبریں چرانا ) کی ہوس کرتے ہیں ان کا تعاقب شہابِ مبین کرتے ہیں اور انھیں پیچھے کی طرف ہانکتے ہیں( إِلاَّ مَنْ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاٴَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِینٌ ) ۔

شیطان شہاب کے ذریعے کیسے ہانکے جاتے ہیں ؟

زیر نظر آخری آیت ان آیات میں سے ہے جس کے متعلق مفسرین نے بہت کچھ کہا ہے اور ہر ایک نے ایک خاص راستہ طے کیا ہے اور اسے ایک معین نتیجہ نکالا ہے ۔

چونکہ بعینہ یہی مضمون سورہ صافات ( آیہ ۶،۷) اور سورہ جن (آیہ ۹) میں آیا ہے اور یہ ایسے مسائل میں سے ہے کہ جس کے بارے میں ممکن ہے بے خبر افراد کچھ ایسے سوالات اٹھائیں جو جواب کے بغیر رہ جائیں لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے بزرگ عظیم اسلامی مفسرین کی آراء پر ایک نگاہ ڈال لیں اور پھر جس رائے کو ہم ترجیح دیں اسے بیان کیا جائے ۔

۱ ۔ بعض مفسرین مثلاًتفسری فی ظلا ل کا مولف ان آیات اور اس قسم کی دیگر آیات سے برے آرام سے یہ کہہ کر گزرگئے ہیں کہ یہ ایسے حقائق ہیں جن ک اادراک ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اور ضروری ہے کہ جو کچھ ہمارے حقیقی اعمال میں سے ہماری زندگی میں مؤثر ہے اسے اہمیت دیں ۔ لہٰذا انھوں نے ان آیات کی اجمالی سی تفسیر پر قناعت کرتے ہوئے اس مسئلے کی توضیح سے صرف ِ نظر کیا ہے ۔

تفسیر فی ظلا ل کا مولف لکھتا ہے :

شیطان کیا ہے وہ کس طرح اشترا ق سمع کرنا چاہتا ہے اور وہ کیا چرانا چاہتا ہے ؟

یہ سب چیزیں خدائی غیوب میں سے ہیں کہ نصوص کے ذریعے جن کی دست یابی نہی ہوسکتی اور ان کے بارے میں تحقیق و جستجو کاکوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے ہمارے عقیدے میں کوئی آضافہ نہیں ہوتا ۔ اس کا اس کے سواکوئی فائدہ نہیں کہ فکر انسانی ایسی چیزمیں مشغول ہ وجاتی ہے جو اس کے ساتھ کوئی خاص ربط نہیں رکھتی اور اسے انسان اپنی زندگی میں حقیقی عمل انجام دینے سے رک جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں ان کے بارے میں تحقیق سے کسی جدید حقیقت کے بارے میں ہمیں کوئی نیا ادراک نہیں ملتا(۳)

لیکن اس میں نہیں کہ قرآن ایک ایسی عظیم انسان ساز ، تربیت کنندہ اورحیات بخش کتب ہے کہ اگر کوئی چیز حیاتِ انسانی کے ساتھ ربط نہ رکھتی ہو تو وہ اس میں ہر گز نہ ہوگی ۔

یہ کتاب ساری کی ساری درس ہے درسِ زندگی ہے علاوہ ازیں کوئی شخص اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ قرآن میں ایسے حقائق ہوں کہ جنہیں معلوم نہ کیا جاسکتا ہو ، کیا قرآن نور کتاب ِ مبین نہیں ہے اور کیا یہ لوگوں کے فہم و تدبراور ہدایت کے لئے نازل نہیں ہوا ۔ تو کیسے ان آیات کو سمجھنا ہم سے ربط نہیں رکھتا ؟

بہر حال ان آیات اور ان جیسی آیات کے بارے میں یہ طرز اعتراض ہمیں پسند نہیں ہے ۔

۲ ۔ مفسرین کی ایک اہم جماعت خصوصاً متقدین مفسرین کا اصرار ہے کہ آیت کے ظاہری معنی کو پوری طرح محفوظ رکھا جائے ۔ ان کے نزدیک ”سماء “ اسی آسمان کی طرف اشارہ ہے اور ”شہاب“ اسی ”شہاب “ کی طرف اشارہ ہے یعنی وہی سرگرداں سنگریزے جو اس فضائے بیکراں میں گر دش کررہے ہیں اور کبھی کبھاروہ زمین کی قوت ثقل کی زد میں آجاتے ہیں تو زمین کی طرف کھنچ آتے ہیں ۔ہوا کی لہروں سے تیزی سے ٹکرانے کی بنا وہ سرخ اور شعلہ ور ہو جاتے ہیں اور خاکستر بن جاتے ہیں ۔

نیز” شیطان “ وہی خبیث، راندہ اور سر کش موجودات ہیں جو آسمانوں کی طرف جانا چاہتے ہیں اور ہمارے اس جہان کی کچھ خبریں کہ جو آسمان میں منعکس ہوتی ہیں انھیں استراق سمع سے ( مخفی طور پر کان لگا کر ) معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن شہاب تیروں کی طرح ان کی طرف آتے ہیں اور انھیں ایسا کرنے سے باز رکھتے ہیں ۔(۴)

۳ ۔ مفسرین کی ایک اور جماعت نے ان آیات کی تعبیرات کو تشبیہ کنایہ اور امثال کے طور پر لیا ہے ۔ یعنی اصطلاحاًانھیں سمبالک( SYM BOLIC )سمجھا ہے ان مفسرین میں المیزان کے عالی قدر مفسر اور صاحب تفسیر الجواہرطنطاوی شامل ہیں ۔ ان مفسرین نے اس تشبیہ و کنایہ کو مختلف صورتوں میں بیان کیا ہے ۔

الف ۔تفسیر المیزان میں ہے :

مفسرین نے شیاطین کے استراق سمع اور شہاب کے ذریعے ان کے ہانکے جانے کے بارے میں جو مختلف توجیہات کی ہیں ایسی چیزپرمبنی ہیں جو کبھی کبھی ظاہر آیات وروایات سے ذہن میں آتی ہیں وہ یہ کہ افلاک زمین پر محیط ہیں ان میں فرشتوں کے مختلف گروہ موجود ہیں ہر گروہ کے لئے ان افلاک میں کئی دروازے ہیں کہ جن میں سے ان فرشتوں کے علاوہ کوئی نہیں آجا سکتا ۔ ان فرشتوں میں سے کچھ اپنے ہاتھ میں شہاب لئے ہوئے ہیں اور وہ استراق سمع کرنے والے شیاطین کی تاک ہیں کہ ان کے ذریعے ان کی سر کوبی کریں اور انھیں ہانکیں ۔

حالانکہ آج کی دنیا میں واضح ہو چکا ہے کہ ایسے نظر یات بے بنیاد ہیں ایسے کوئی افلاک ہیں نہ دروازے اور نہ ہی ایسی اور چیزیں ۔

جو کچھ یہاں بطور احتمال کہا جا سکتا ہے یہ ہے کہ ایسے بیانات کلام ِ الہٰی میں امثال کی طرح ہیں کہ جو غیر حسی حقائق واضح کرنے کے لئے حسی لباس میں ذکر ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے :( و لک الامثال نضربها للناس وما یعقلها الا العالمون )

(یہ امثال ہیں کہ جو ہم لوگون کے لئے بیان کرتے ہیں اور صاحبان ِ علم کے علاوہ انھیں کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ ( عنکبوت ۴۳) ۔

ایسی مثالیں قرآن میں بہت زیادہ ہیں مثلاًعرش، کرسی ، لوح اور کتاب ۔

لہٰذا آسمان کہ جو فرشتوں کا مسکن ہے سے مراد ایک عالم ِ ملکوتی ہے جو عالم طبیعت سے ماوراء ہے کہ جو اس جہانِ محسوس سے برتر و بالاتر ہے اور اس آسمان کی باتیں چوری چھپے سننے کے لئے شیطانوں کے قریب ہونے اور ان کی طرف شہاب پھینکے جانے سے مراد ہے کہ وہچاہتے ہیں کہ عالم ِ ملائکہ قریب ہوں تاکہ اسرار خلقت اور حوادث آئندہ کے بارے میں آگاہی حاصل کریں لیکن وہ ملائکہ معنوی و ملکوتی انوا سے شیطانوں کو ہانکتے ہیں ۔کیونکہ ان انوارکو بر داشت کرنے کی وہ تاب نہیں رکھتے(۵)

ب:طنطاوی اپنی مشہو ر تفسیر میں لکھتا ہے :۔

ایسے علماء جو حیلہ گر اور ریا کار ہیں اور عام لوگ جو ان کی پیروری کرتے ہیں یہ اہلیت نہیں رکھتے کہ آسمانوں کی عجائب، عالم بالا کی شگفیاں ، اس کے بے کراں کرات اور ان پر حکم فرماں نظم و حساب سے آگاہ ہوں خدا نے انھیں اس علم دانش سے محروم رکھا ہے اور ستاروں بھرے ،خوبصورت اور مززین ازآسمان کے تمام اسرار ان کے افراد کے اختیار میں دئیے ہیں جو عقل و ہوش اور اخلاص و ایمان رکھتے ہیں ۔

فطری او رطبیعی ہے کہ پہلا گروہ اس آسمان کے اسرار میں نفوذ سے روک دیا جاتا ہے اور درگاہ الٰہی سے دھتکار ا ہوا شیطان چاہے نوع بشر سے ہو یا غیر بشر سے ، ان حقائق تک رسائی کا حق نہیں رکھتا اور جس وقت وہ ان کے نزدیک ہوتا ہے تو دھتکار دیا جا ہے ۔

ایسے افراد ممکن ہے بہت سال جئےں اور مر جائیں مگر ان اسرار تک ہر گز نہیں پہنچ پاتے ۔ ان کی آنکھیں کھلی تو ہوتیں ہیں لیکن حقایق دیکھنے کی تاب نہیں رکھتیں ۔

کی ایسا نہیں کہ اس کا علم اس کے عاشقوں کے سوا کسی کو نہیں ملتا اور اس کے جمال کا نظار ہ اس کے عارفوں کے سواکوئی نہیں کرسکتا ۔(۶)

اس میں کیا مانع ہے کہ یہ تعبیرات کنایہ ہوں ، منع حسی منع عقلی کی طرف اشارہ ہوجبکہ کنایہ بلاغت کی بہترین انواع میں سے ہے ۔

کیا ہم دیکھتے نہیں کہ بہت سے لوگ جو ہمارے آس پاس زندگی کزار تے ہیں وہ اس زمین کے حدود اربعہ میں محبوس اور قید ہیں ان کی آنکھ کبھی جہان وبلا کی طرف نہیں اٹھتی اور وہ صدائے بالا پر کان نہیں دھرتے اور ا س جہان کے امور اور عجائبات کی انھیں کوئی خبر نہیں وہ خود خواہی ، شہوت ، کینہ وری، طمع و حرص اور خانماں ن ساز شہاب کے ذریعے ان اعلی ٰ معانی کے ادراک سے ہانکے گئے ہیں (اور اگر کسی روز وہ ایسی خواہش ظاہر کریں تو اپنے قلب وروح کی ان آلودگیوں کے باعث وہ ہانکے جائیں گے(۷)

ج:۔ایک او رمقام پر اس نے جو گفتگو کی ہے اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے :

جس وقت انسانوں کی ارواح اس دنیا سے جہان برزخ کی طرف منتقل ہوتی ہیں ان کا زندوں کی روح کے ساتھ تعلق او ارتباط ہوتا ہے او رجہاں ان کے درمیان مناسبت او میلان ہواور وہ احضار ارواح وغیرہ کے ذریعے ان سے ارتباط اور تفاہم بر قرار رکھ سکیں تو کچھ مسائل ان کے اختیار میں دئے جاتے ہیں جو بعض اوقات حق او ر بعض اوقات باطل ہوتے ہیں کیونکہ وہ عوالم اعلیٰ تک رسائی نہیں کرسکتے بلکہ ان کی رسائی صرف نچلے عوالم تک ہوسکتی ہے ، مثلاًجسے مچھلی اپنے محیط سے باہر نکل کر ہوا میں پرواز نہیں کر سکتی ، وہ بھی طاقت رکھتے کہ اپنے جہان کے حدود اربعہ سے نکل کر بالاتر چلے جائیں ۔

د:بعض دوسرے کہتے ہیں جدید سائنسی انکشافات نشاندہی کرتے ہیں کہ بہت دور کی فضا سے طاقتور ریڈلہروں کا ایک سلسلہ جاری ہے انھی کرہ زمین میں ریڈیائی پیغامات وصول کرنے والے مخصوص مرکزکے لئے اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ کسی شخص کو معلوم نہیں کہ ان انتہائی طاقتورلہروں کا سرچشمہ کہاں ہے ۔

بعض سائنسداں کہتے ہیں کہ قوی احتمال ہے کہ دور کے آسمانی کروں میں بہت سی زندہ موجودات کہ جوتمدن کے لحاظ سے ہم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں لہٰذا وہ چاہتی ہیں کہ اپنی خبریں اس دنیا تک پہنچائیں ان خبروں میں ایسے مسائل بھی موجود ہیں جو ہمارے لئے نئے ہیں اور موجودات کہ جنھیں دیو اورپری کہتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ ان لہروں سے فائدہ اٹھائیں لیکن طاقتور شعائیں انھیں دور پھینک دیتی ہیں(۸)

____________________

۳۔ تفسیر فی ظلال ج۵ ص ۳۹۶۔

۴۔فخر رازی نے اپنی تفسیر کبیر اور آلوسی نے روح المعانی میں اس تفسیر کا ذکر کرنے کے بعد ہیئت قدیمہ کے حوالے سے پیدا ہونے والے مختلف اشکالات کے جواب بھی دئیے ہیں اور کہا ہے کہ آج کی ہیئت کی طرف توجہ کرتے ہوئے افلاک کا پیاز کے چھلکوں کی طرح ہونے کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

۵۔المیزان ج۱۷ص۱۳۰۔ سورہ صافات کی آیات کے ذیل میں ۔

۶۔تفسیر طنتاوی ،ج۸ ص۱۱۔

۷۔تفسیر طنطاوی ،ج۱۸ ص ۱۰

۸تفسیر قرآن بر فرا زاعصار۔مولفہ ع نوفل صفحہ ۲۵۸۔