تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 12%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25607 / ڈاؤنلوڈ: 4269
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

نتیجہ بحث

ان آیا ت کی تفسیر کے سلسلے میں مباحث بہت طویل ہو گئے ہیں اب مکمل نتیجہ حاصل کرنے کے لئے ہمیں چند نکات کی طرف توجہ کرنا چاہیئے ۔

۱ ۔لفظ ”سماء“(آسمان )بہت سی آیات قرآن میں ایسی مادی آسمان کے معنی میں مثلاً سورہ اعراف کی آیہ ۴۰ میں ہے :۔ان الذین کذبوا باٰیاتنا و استکبروا و اعنها لا تفتح لهم ابواب السماء

وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے اوران کے سامنے تکبر اختیار کیا ہے آسمان کے در وازے ان کے رخ پر نہیں کھلیں گے ۔

ہوسکتا ہے یہاں آسمان قرب خدا کے لئے کنایہ ہو جیسا کہ سورہ فاطر کی آیہ ۱۰ میں ہے ۔

( الیه یصعد الکلم الطیب و العمل الصالح یرفعه )

پاکیزہ باتیں اس کی طرف اوپر جاتی ہیں اور وہ عمل صالح کو بلند کرتا ہے ۔

واضح ہے کہ اعمال صالح اور پاکیزہ باتیں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو اس آسمان کی طرف اوپر جائیں بلکہ ان کی پیش رفت مقام قرب خدا کی طرف ہوتی ہے او وہ روحانی عظمت و رفعت حاصل کرتے ہیں ۔

اصولی طور پر آیات قرآن کے بارے میں ”انزل“ اور” نزل“کی تعبیر واضح طورپر بتاتی ہے کہ مقام قدس پروردگار سے قلب ِپیغمبر پر نزول مراد ہے ۔

سورہ ابراہیم کی آیہ ۲۴ میں ہے :۔الم ترا کیف ضرب الله مثلاًکلمة طیبة کشجرة طیبة اصلها ثابت فرعها فی السماء

کیا تونے نہیں دیکھا کہ خدا نے اچھی بات کی مثال پیش کی ہے کہ گویا ایک پاکیزہ درخت ہے اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ۔

اس کی تفسیر میں ہم نے پڑھا ہے کہ یہ پاکیزہ درخت جسے خدا نے مثال کے طورپر بیا ن کیا ہے اس کی جڑ پیغمبر ﷺ ہیں ۔ اور علی (علیہ السلام) اس کی جڑاور شاخ( وہی شاخ کہ جو آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ) اور دیگر آئمہ اس کی کچھ چھوٹی شاخیں ہیں(۱)

ایک حدیث میں ہے :کذٰلک الکافرون لاتصعد اعمالهم الیٰ السماء

اسی طرح کفا ر کہ جن کے اعمال آسمان کی طرف اوپر نہیں جاتے۔

واضح ہے کہ اسی احادیث میں آسمان اس حسی آسمان کی طرف اشار ہ نہیں ہے یہاں سے ہم نتیجہ نکال تے ہیں کہ آسمان مادی مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور معنوی مفہوم میں بھی ۔

۲ ۔نجوم ( ستارے) بھی ایک مادی مفہوم رکھتے ہیں کہ جو یہی ستارے ہیں جو آسمان میں نظر آتے ہیں اور ایک لفظ کا معنوی مفہوم ہے کہ جو علماء اور بڑی شخصیت کی طرف اشارہ ہے کہ جو انسانی معاشروں کو روشنی بخشتے ہیں اور جیسے لوگ ستاروں کے ذریعے تاریک راتوں میں بیابانوں میں اور سمندوں میں اپنا راستہ ڈھونڈتے ہیں ، انسا نی معاشروں میں عام لوگ بھی زندگی اور سعادت کی راہ علماء آگاہ اور صاحب ایمان رہبروں کی مدد سے پاتے ہیں ۔

مشہو حدیث جو پیغمبراکرم ﷺ سے نقل ہوئی ہے :۔مثل اصحابی فیکم کمثل النجوم بایها اخذ اهتدیٰ

میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں جس کی اقتداء ہو جائے باعث ہدایت ہے(۲)

سورہ انعام آیت اس طرح ہے :وهوالذی جعل لکم النجوم لتهتدوا بها فی الظمات البر و البحر

اور وہ ذات کہ جس نے تمہاے لئے ستارے بنائے تاکہ خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں ان کے ذریعے تمہاری ہدایت ہو ۔

تفسیر علی بن ابراہیم میں اس آیت کے ذیل میں منقول ہے کہ امام (علیہ السلام) فرمایا :النجوم آل محمد

ستارے سے مراد خاندان ِپیغمبر ہے ۔(۳)

۳ ۔ بحث آیات کی تفسیر میں وارد ہونے والی متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کی طرف شیاطین کے صعود کی ممانعت اور ستارو ں کے ذریعے ان کا ہانکا جانا پیغمبر اکرم کی ولادت کے وقت سے ہوا اور بعض روایات سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدائش کے وقت سے شیاطین ایک حد تک ممنوع ہوئے اور پیغمبر کی ولادت کے بعد مکمل طور پر ممنوع ہوگئے(۴)

ان باتوں سے جو ہم نے بیان کی ہیں یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ”سماء“ کا یہاں معنوی مفہوم ہے اور یہ حق ،ایمان اور روحانیت کے آسمان کی طرف اشارہ ہے اور ہر وقت شیطانوں کی کوشش ہے کہ وہ اس چار دیواری میں داخل ہو نے کے لئے راہ پالیں اور سچے مومنین اور حامیان حق کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسوں کے ذرریعے نفوذپیدا کرلیں لیکن مرادانِ الٰہی اور راہبران راہ حق انبیاء و آئمہ سے لے کر مجتہد علماء تک اپنے علم و تقویٰ کی طاقتور موجوں کے ساتھ ان پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں اس آسمان سے قریب ہونے سے ہانکتے ہیں ۔

اسی مقام پر حضرت مسیح کے تولد اور اس سے بالا تر حضرت محمد ﷺکے تولد اور شیطان کے دھتکار نے کے درمیان ربط معلوم کیا جاسکتا ہے ۔

نیز یہیں پر آسمان کی طرف صعود اور اسرارر سے آگاہی کے درمیان ارتباط معلوم کیا جاسکتا ہے ۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس مادی آسمان میں کوئی خاص خبریں نہیں ہیں سوائے خلقت کی عجیب و غریب چیزوں کے جو روئے زمین سے بھی قابل مطالعہ ہیں ۔ نیز آج کی دنیا میں یہ مسئلہ یقینی ہوچکا ہے کہ اس بیکراں فضامیں پھیلے ہوئے آسمانی کرات میں سے بعض مردہ ہیں اور بعض زندہ ہیں او ر ان کے ساکنان بھی ہیں لیکن شاید ان کی زندگی ہم سے بہت زیادہ مختلف ہو ۔

یہ موضوع بھی بہت قابل ملاحظہ ہے کہ شہاب صرف زمین کی فضا سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اطراف زمیں کی ہوا سے پتھر کے ٹکڑے اٹھتے ہیں اور شعلہ ور ہوتے ہیں انہی سے شہاب پیدا ہوتے ہیں ورنہ زمین کی فضا سے باہر کوئی شہاب نہیں ہوتا البتہ زمینی فضا سے باہر کچھ پتھر سر گرداں ہیں لیکن انھیں شہاب نہیں کیا جاتا لیکن جب وہ زمینی فضامیں داخل ہوتے ہیں تو گرم ہوکر شعلہ ور ہوجاتے ہیں اور انسان کی نظروں سے سامنے آگ کی ایک لکیر کی صورت میں نمایاں ہوتے ہیں یو لگتا ہے کہ جیسے یہ حرکت کرتے ہوئے ستارے ہیں ۔

نیزہم یہ بھی جاتنے ہیں کہ آج کے انسان نے کئی مرتبہ زمین کی فضا سے باہر کی طرف عبور کیا ہے اور اس سے بہت بلند یہاں تک کہ چاند تک پہنچا ہے (توجہ رہے کہ زمین کی فضا ایک سوسے لیکر دوسو کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے جبکہ چاند ہم سے تیس لاکھ کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر ہے ) ۔

لہٰذااگر مراد یہی مادی شہاب اور مادی آسمان ہوتو یہ مان لینا چاہئیے کہ یہ علاقہ انسانی سائندانوں پر ظاہر ہوچکا ہے اور اس میں کوئی اسرار کی بات نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ کہ بہت سے قرائن و شواہد جو ہم نے ذکر کئے ہیں ،سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے مراد حق و حقیقت کا آسمان ہے ، اور شیاطین وہی وسوسہ پیدا کرنے والے ہیں کہ جو کوشش کرتے ہیں کہ اس آسمان تک رسائی حاصل کرسکیں اور مخفی طور پر کان لگا کر باتیں سنیں اور لوگوں کو گمراہ کریں ۔ ستاررے اور شہاب یعنی رہبران الہٰی اور علماء اپنے قلم کی طاقتور لہروں اور موجوں سے انھیں پیچھے کی طرف ہانکتے ہیں اور دھتکار تے دیتے ہیں ۔

لیکن قرآن بحر بیکراں ہے اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے علماء ان آیات کے سلسلے میں نئے حقائق تک دسترس حاصل کرلیں کہ آج جن تک ہم رسائی حاصل نہیں کرسکے۔

____________________

۱۔تفسیر بر ہان جلد ۲ ص۳۱۰۔

۲۔سفینة البحار جلد۲ ص ۹۔ یہ روایت سنی روایات سے ملتی جلتی ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق اور عموم قابل عمل نہیں ہے کیونکہ صحابہ میں ہر قسم کے لوگ حتی کہ منافقین بھی داخل ہیں اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس سے یاتو سلماو ابوذر جیسے خاص اصحاب مراد ہیں یا اصحاب کساء اور اہل بیت مراد ہیں ہمارے اس نظریہ کی تائید سورہ انعام کی آیہ۹۷ کے ذیل میں آنے والی مذکورہ بالا روایت کی بھی کرتی ہے ۔

یہ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے ۔

۳ ۔نور الثقلین جلد۱ ص ۷۵۰۔

۴۔نور الثقلین جلد ۳ ،ص ۵ تفسیر قرطبی ج۵ م ص۳۶۲۶۔

آیات ۱۹،۲۰،۲۱

۱۹ ۔( وَالْاٴَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَاٴَلْقَیْنَا فِیهَا رَوَاسِیَ وَاٴَنْبَتْنَا فِیهَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ ) ۔

۲۰ ۔( وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیهَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِینَ ) ۔

۲۱ ۔( وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ )

ترجمہ

۱۹ ۔اورہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں ثابت پہاڑ ڈالے اورتمام موزوں نباتات میں سے اس میں اگایا ۔

۲۰ ۔اور ہم نے تمہارے لئے طرح طرح کے وسائل زندگی فراہم کئے اور اسی طرح ان کے لئے بھی جنھیں تم روزی نہیں دے سکتے ۔

۲۱ ۔تمام چیزوں کے خزانے ہمارے پاس ہیں لیکن ہم معین انداز سے سوا اسے نازل نہیں کرتے۔

تفسیر

ہرچیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے :

یہاں آیات آفرینش ایک حصہ اور زمین میں عظمت خدا کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں تاکہ گذشتہ بحث تکمیل کو پہنچے۔

پہلے بات زمین سے شروع کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہوتاہے:ہم نے زمین کو پھیلا یا( وَالْاٴَرْضَ مَدَدْنَاهَا ) ۔

”مد“ دراصل وسعت دینے او ر پھیلانے کے معنی میں ہے اور احتمال قوی یہ ہے کہ یہاں زمین کی خشکیوں کے ذریعے سے باہر نکلنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابتدا میں کرہ زمین کی ساری سطح سیلابی بارشوں کے زیر اثر پانی کے نیچے ڈوبی ہوئی تھی سالہاسال اسی حال میں گذرگئے ۔سیلابی بارشیں کم ہوئیں ، پانی زمین کے گڑہوں میں جاگزیں ہوا ۔ آہستہ آہستہ خشکیاں پانی کے نیچے سے نمودار ہونے لگیں ۔ یہی وہ چیز ہے جو روایات اسلامی میں ”دحو الارض “ کے نام سے مشہو ہے ۔ پہاڑوں کی خلقت چونکہ ان کے زیادہ فوائد کی وجہ سے توحید کی ایک نشانی ہے ، اسی لئے ان کا ذکر تے ہوئے مزید فرمایا گیا ہے : ہم نے زمین میں مستقر اور ثابت پہاڑ ڈالے ہیں( وَاٴَلْقَیْنَا فِیهَا رَوَاسِیَ ) ۔

پہاڑو ں کے لئے ”القاء“ (پھینکنا)کی تعبیر استعمال کی گئی ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ پہاڑ زمین کی وہ سلوٹیں ہیں جوزمین کے چمڑے کے تدریجاًسرد ہونے کی بناء پر یا آتش فشانی موادکی وجہ سے وجود میں آئے ہیں ۔ ہوئے ہیں ، ہوسکتا ہے یہ تعبیر اس لہٰذاہوکہ ” القاء “”ایجاد “ کے معنی میں بھی آیا ہے ، ہماپنی روز مرہ زبان میں کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں زمین کے لئے پلا ن بنایا ہے اور اس میں چند کمرے ڈالے ہیں یعنی بنائے اور ایجاد کئے ہیں ۔

بہر حال یہ پہاڑ علاوہ اس کے کہ جڑسے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں اور روزمرہ کی طرح زمین کے اندرونی خلفشار اور دباؤ کے مقابلے میں لرزتے نہیں ، طوفانوں کی طاقت کی بھی درہم برہم کرردیتے ہین اور ہوا کی رفتاری کوپوری طرح کنٹرول کرتے ہیں یہ پہاڑ ، پانی کے ذخیروں کے لئے بہت اچھی جگہ ہیں جو یہاں برف کی صورت میں یاچشموں کی صورت میں میں موجود ہوتا ہے ۔

خصوصاً لفظ ”رواسی “ استعمال کیا گیا ہے کہ جو”راسیہ“ جمع ہے اور یہ ثابت اور مضبوط کے معنی میں ہے جو کچھ ہم نے سطور بالا میں بیان کیا ہے اس کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ خود بھی ثابت اور مستقر ہیں اور زمین کے نازل چمڑے اور انسانی زندگی کے ثبات و قرار کا باعث ہیں ۔

انسانی زندگی اور تمام جانداروں کے زندگی کے لئے ، بہترین عامل یعنی نباتات کی طرف بات کا رخ رکھتے ہوئے فرمایا گیاہے :ہم نے زمین پر موزوں نباتات میں سے اگایا ہے( وَاٴَنْبَتْنَا فِیهَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ ) ۔

”موزون “کس قدر خوبصورت اور رسا تعبیر ہے ۔ یہ لفظ د اصل ”وزن“ کے مادہ سے ہر چیز کے اندر شناسائی کے معنی میں لیا گیا ہے ۔(۱)

یہ دقیق حساب ، عجیب نظم و ضبط اورنباتات کے تمام اجزاء کے متناسب اندازوں کی طرف اشارہ ہے ۔ یہاس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک بلکہ ہر ایک کاہر جز ، شاخ ، پتہ، پھول، پھل، اور گٹھلی سب کچھ معین حساب کتاب کا حامل ہے ،۔

کرہ زمین میں شاید لاکھوں قسمکے نباتات ہیں کہ جو مختلف خواص اور طرح طرح کے آثار رکھتے ہیں ان میں سے ہر ایک اللہ کی پہچان کا دریچہ ہے ان میں سے ہر ایک کا پتہ پتہ معرفتِ کردگار کی ایک کتاب ہے ۔

اس جملہ کے معنی میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیاہے کہ اس سے مراد مختلف معدنیات کا پہاڑوں میں پیداہونا ہے کیونکہ عرب لفظ ”انبات“معدن اور کان کے بارے میں استعمال کرتے ہیں ۔

بعض روایات میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا:

مراد یہ ہے کہ خدا پہاڑوں میں سونے ، چاندی ، جواہرات او رباقی دھاتوں کی کانیں اور معدنیات پیدا کی ہیں ۔(۲)

یہ احتمال بھی ہے کہ ”انبات“ ( اُگانا)یہاں وسیع معنی میں ہوکہ جس میں تمام مخلوقات جنہیں خدا نے پیدا کیا ہے ، شامل ہوں ۔ سورہ نوح میں اس عظیم پیغمبر کی زبانی ہے کہ آپ لوگوں سے کہتے تھے :

( و الله انبتکم من الارض نباتا ) (نوح۔ ۱۷)

اور خدا نے تمہیں نباتات کی طرح زمین سے اُگایاہے ۔

بہرحال کوئی مانع نہیں کہ آیت وسیع مفہوم رکھتی ہو اور اس میں انسان ، نباتات اور معدنیات وغیرہ سبھی شامل ہوں ۔

انسان کے وسائل حیات چونکہ نباتات اور معدنیات میں منحصر نہیں ہیں لہٰذا بعد والی آیات میں ان تمام نعمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیاہے :ہم نے زمین میں تمہارے لئے انواع و اقسام کے وسائل زندگی بنائے ہیں( وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیهَا مَعَایِشَ ) ۔

نہ صر ف تمہارے لئے بلکہ تمام زندہ موجودات کے لئے اور وہ کہ جنہیں تم روزی نہیں دیتے اور تمہاری دسترس سے باہر ہیں( وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِینَ ) ۔

جی ہاں !ہم نے ان سب کو ان کی ضروریات فراہم کی ہیں ۔

”معایش“ ” معیشة“ کی جمع ہے اور یہ وسیلہ ہیں ، ذریعہ ، انسانی زندگی کی ضروریات کو کہتے ہیں کہ بعض اوقات جن کے پیچھے خود انسان جاتا ہے اور بعض اوقات وہ اس کے پیچھے آتی ہیں اگر چہ بعض مفسرین نے لفظ” معایش“کی تفسیر صرف زراعت ، نباتات اور کھانے پینے کی چیزوں سے کی ہے لیکن واضح ہے کہ مفہوم لغت پوری طرح وسیع ہے اور تمام وسائلِ حیات پر محیط ہے ۔

مفسرین نے”من لستم له برازقین “کی دو تفسیریں ہیں ۔

پہلی تفسیر یہ کہ خدا چاہتا ہے کہ انسانوں کو متوجہ کرے کہ ہم نے بھی تمہارے لئے زمین میں وسیلہ زندگی قرار دیا ہے اور زندہ موجودات بھی تماہرے اختیار میں دئے ہیں ( مثلاً چوپائے ) کہ جنہیں تمام روزی دینے کی توانائی نہیں رکتھے ۔ خدا انھیں روزی دیتا ہے اگرچہ یہ کام تمہارے ہاتھوں انجام پاتا ہے ۔(۲)

۱ ۔تفسیر اول کی بناء پر ”من“ (من لستم برازقین ) کا عطف ”لکم“ کی ضمیر پر ہوتا ہے اور دوسری تفسیر کی بناء پر ”معایش“ پر ۔ بعض نے پہلی تفسیر پر اعتراض کیا ہے کہ مجور کا اسم ظاہر ضمیر مجرور پر عطف نہیں ہوتا مگر یہ کہ حرف جر کی تکرار ہو یعنی یہاں ضروری تھا کہ لام ” من “ کے سر پر بھی آتی ۔

دوسرا یہ ”من “ کا اطلاق انسان کے علاوہ دیگر زندہ پر کس طرح ہوا ہے ۔ لیکن یہ دونوں اعتراض صحیح نہیں ہیں ۔کیونکہ عبارات عرب میں حرف جر کی تکرار نہ ہونے پر شواہد موجود ہیں اور اسی طرح غیر ذوی العقول موجودات ” من “ کے اطلاق کی بھی مثالیں ہیں ، دوسری تفسیر پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ لفظ” معایش“ اتنا وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ تمام وسائل زندگی یہاں تک کہ چوپائے وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں ۔لہٰذا ” معایش “ کے ذکرکے بعد اس کے ذکر کی ضرورت نہ تھی ۔اسی بناء پر ہم نے پہلی تفسیر کوترجیح دی ہے ۔

لیکن ہماری نظر میں پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور اس کی ادبی دلیل بھی ہم نے فٹ نوٹ میں بیان کردی ہے ۔

تفسیر علی بن ابراہیم میں موجود ایک حدیث میں ہم نے اس تفسیر کی تائید میں پاتے ہیں جہاں ”من لستم لہ برازقین “ کے بارے میں ہےلکل ضرب من الحیوان قدرنا شیئا مقدراً

تمام جانوروں کے لئے ہم نے کوئی نہ کوئی چیز مقدر کی ہے ۔(۳)

زیربحث آخری آیت در حقیقت ایک سوال کا جواب دیا جارہا ہے کہ جو بہت سے لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ خدا اس قد ازراق و نعمات انسانوں کے قبضے میں کیوں نہیں دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کی سعی و کوشش سے بے نیاز ہو جاتے ۔

رشادہوتا ہے : تمام چیزوں کے خزنے ہمارے پاس ہیں لیکن ہم ان کی معین مقدارکے علاوہ نازل نہیں کرتے( وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ ) ۔

لہٰذا ایسا نہیں کہ ہماری قدرت محدود ہے اور اپنی نعمات کے ختم ہونے پر ہم وحشت زدہ ہیں بلکہ ہر چیز کا منبع ،مخزن اور سر چشمہ ہمارے پاس ہے اور ہم ہر زمانے میں ہر مقدار ایجاد کر نے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن اس عالم کی تمام چیزیں کسی حساب کے ماتحت ہیں اور ارزاق بھی خدا کی طرف سے بمقدار حساب نازل ہوتی ہیں ایک اور جگہ قرآن کہتا ہے :۔

ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولٰکن ینزل بقدر مایشاء( شوری ۲۷)

اگر خدا اپنے بندوں کے لئے بے حساب روزی پھیلادیتا تو وہ جادہ حق سے منحرف ہو جاتے ، لیکن جتنی مقدار وہ چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔(شوریٰ ۔ ۲۷)

پوری طرح واضح ہے کہ سعی و کوشش ،انسانی زندگی سے سستی ، کاہلی اور دل مردگی دور کرنے کے علاوہ حرکت و نشاط پیدا کرتی ہے اوریہ انسانوں کی صحیح وسالم فکری و جسمانی مشغولیت کے لئے بہت ہی اچھا وسیلہ ہے اور اگر ایسا نہ ہوتاتو تمام چیزیں بے حساب انسان کے اختیار میں ہوتیں ۔اور نہ معلوم پھر دنیا کا کیا منظر ہوتا ۔

کچھ بیکار انسان سیر شکم کے ساتھ بغیر کسی کنٹرول کے شور و غل مچاتے کیونکہ ہم جاتے ہیں کہ ان جہان کے لوگ اہل جنت کی طرح نیک و بد صفات کے حامل ہیں انہیں اس جہان کی بھٹی سے کندن بن کے نکالنا چاہئیے۔ سعی وکو شش اور صحیح حرکت و اشتغال سے بہتر کندن بنا نے کے لئے کون سی چیز ہو سکتی ہے لہٰذا جس طرح فقرو فاقہ اور احتیاج و نیاز ی بھی فساد اور تباہی کا باعث ہے ۔

____________________

۱۔”الوزن معرفة قدر الشیء “ ( مفردات راغب)

۲۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۶ ( توجہ رہے کہ اس تفسیرکے مطابق ” فیھا“ کی ضمیر پہاڑوں کی طرف لوٹے گی ) ۔

۳۔تفسیر نو ر الثقلین جلد۳ ص۹۔

چند اہم نکات

۱ ۔ خدا کے خزنے کیا ہیں ؟

قرآن کریم کی متعدد آیات میں ہے کہ خدا خزانے رکھتا ہے ۔ آسمان و زمین کے خزانے خدا کی ملکیت ہیں یا ہر چیز کے خزانے اس کے پاس ہیں ۔

”خزائن“ جمع ہے ” خزانہ“ کی جمس کا معنی ہے وہ جگہ جہاں انسان اپنے اموال حفاظت کے لئے جمع کرتا ہے یہ اصل میں مادہ ”خزن“ (بروزن”وزن“)سے کسی چیز کی حفظ و نگہداری کے معنی میں ہے واضح ہے کہ جمع آوری او ر ذخیرہ کرنے اور کسی چیز کو محفوظ کرنے کے لئے وہی شخص اقدام کتا ہے جس کی قدت محدود ہو اور جو ہر زمانے میں کچھ چاہے فراہم نہ کرسکے لہٰذا وہ قدرت کے موقع کے لئے ذخیرہ کرلیتا ہے اور خزانہ میں جمع کرلیتا ہے ۔

لیکن کیا یہ امور خدا کے بارے میں تصور کئے جاسکتے ہیں ؟یقینا نہیں یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین مثلاً طبرسی نے مجمع بیان میں ، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں اور راغب نے مفردات میں ”خزائن اللہ “ کی ”مقدراتِ الٰہی “ کے ساتھ تفسیر کی ہے یعنی تمام چیزیں قدرت خدا کے خزانے میں جمع ہیں اس میں سے جتنی مقدار وہ ضروری او قرین ِمصلحت سمجھتا ہے ایجاد کرتا ہے ۔

جبکہ بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ ”خزائن اللہ “ سے مراد امور کا وہ مجموعہ ہے کہ جو عالم ہستی اور جہان مادہ میں موجود ہیں لیکن اس عالم کی اعلیٰ اور مخصوص موجودات محدود مقدار میں پیدا ہوتی ہے بغیر اس کے امکان وجود انہی میں منحصر ہو ۔ (المیزان جلد ۱۲ ،ص ۱۴۸) ۔

یہ تفسیر اگرچہ اصولی طور پر قابل قبول مسئلہ ہے لیکن ”عندنا“ ( ہمارے پاس) کی تعبیر پہلی تفسیر کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے ۔ بہر حال خزائن اللہ جیسی تعبیرات کا انتخاب عام مفہوم میں خدا کے بارے میں صداق نہیں آتا ۔ لیکن خدا چاہتا ہے کہ خود لوگوں کی زبان میں ان سے بات کرے ۔

جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے ضمنی طورپر یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ بعض مفسرین کی طرف سے ”خزائن“ کے مفہوم کو پانی اور بارش میں معین و محدود کرنے پر نہ صرف کوئی دلیل ،موجود نہیں ہے بلکہ یہ امر مفہوم آیت کی وسعت کے ساتھ بھی مناسبت نہیں رکھتا ۔

۲ ۔نززول مقامی اور نزول مکانی

جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے نزول ہمیشہ نزول مکانی یعنی اوپر سے نیچے آنے کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ بلکہ کبھی نزول مقامی کے معنی میں بھی ہوتا ہے ۔مثلاًجس وقت کوئی بڑی نعمت کسی بڑے شخص کی طرف سے زیر دست لوگوں کوملے تو اسے نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی بناء پر قرآن مجید میں یہ لفظ خدا کی نعمتوں کے بارے میں استعمال ہوا ہے چاہے وہ آسمان سے نازل ہوں مثلاً بارش یا زمین پر پرورش پاتی ہوں مثلاً حیوانات ،جیسا کہ سورہ زمر کی آیت ۶ میں ہے :وانزل لکم من الانعام ثمانیة ازواج (اور اس نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے چوپائے نازل کئے۔نیزلوہے کے بارے سورہ حدید کی آیہ ۲۵ میں ہے ۔( و انزل الحدید )

ہم نے لوہا نازل کیا ۔

اسی طرح دیگر مثالیں بھی ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ ”نزول“ اور ”انزال“ یہاں وجود ، ایجاد اور خلقت کے معنی میں ہے البتہ چونکہ خدا کی طرف سے بندوں کے لئے ہے لہٰذا اس قسم کے تعبیر استعمال کی گئی ہے ۔

آیات ۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

۲۲ ۔( وَاٴَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَاٴَنْزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَسْقَیْنَاکُمُوهُ وَمَا اٴَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِینَ ) ۔

۲۳ ۔( وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْیِ وَنُمِیتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ ) ۔

۲۴ ۔( وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاٴْخِرِینَ ) ۔

۲۵ ۔( وَإِنَّ رَبَّکَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ إِنَّهُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۲۲ ۔ ہم نے ہوائیں (بادلوں کے ایک دوسرے سے ملنے ، ان کے بار آور ہونے اور ) تلقیح کے لئے بھیجیں ، اور آسمان سے ہم نے پانی نازل کیا اور اس سے سیراب کیا جبکہ تم ان کے حفاظت اور نگہداری کی طاقت نہیں رکھتے تھے ۔

۲۳ ۔اور ہم ہیں جو زندہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں اور ہم ( سارے عالم کے )وارث ہیں ۔

۲۴ ۔ ہم تمہارے متقدمین کو بھی جانتے تھے اور متاخرین کو بھی ۔

۲۵ ۔ تیرا پرورردگار یقینی طور پر(قیامت میں )سب کو جمع اور محشور کرے گا کیونکہ وہ حکیم اور دانا ہے ۔

تفسیر

ہوا اور بارش

گذشتہ آیات میں بعض اسرار آفرینش کا تذکرہ تھا اور خدا کی نعمتوں کا بیان تھا ۔ مثلاً زمین ، پہاڑ، نباتات اور وسائل زندگی کی خلقت۔

زیر نظر پہلی آیت میں ہواؤں کے چلنے اور بارشوں کے نزول میں ان اسرار ِ آفرینش کے نقشِ مؤثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : ہم نے ہوائیں بھیجیں جبکہ وہ بار آور کرنے والی ہیں ( بادلوں کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں اور انھیں بار آور کرتی ہیں )( وَاٴَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ ) ۔

اور ان کے پیچھے ہم نے آسمان سے پانی نازل کیا( فَاٴَنْزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً ) ۔اور اس ذریعہ سے ہم نے سب کو سیراب کیا( فَاٴَسْقَیْنَاکُمُوهُ ) ۔حالانکہ تم اس کی حفاظت و نگہداری کی طاقت نہ رکھتے تھے ۔( وَمَا اٴَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِینَ ) ۔

”لواقح “”لاقح“ کی جمع ہے جس کا معنی بار آور کرنے والا ۔ یہاں ان ہواؤں کی طرف اشارہ ہے جو بادلوں کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں اور باہم پیوند کرتی ہیں اور انھیں بارش کے لئے تیا ر کرتی ہیں ۔

بعض معاصرین اس آیت کو ہواؤں کے ذریعے نباتات کی تلقیح اور گردافشانی کے لئے اشارہ قرار دیا ہے او ر اس طرح ایک سائنسی مسئلے کے حوالے سے اس کی تفسیر کی ہے کہ جو نزو ل قرآن کے زمانے میں انسانی معاشرے میں محل توجہ نہ تھا اس طرح انہوں نے اسے قرآن کے اعجاز علمی کے دلائل میں سے شمار کیا ہے لیکن اس حقیقت کو قبول کرنے باوجود کہ ہواؤں کا چلنا نر نباتات کے نطفے کو مادہ نباتات تک پہنچانے اور انھیں بار آور کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ، مندرجہ بالا آیت کو اس طرف اشارہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس لفظ کے فوراً بعد آسمان سے نزول باران کا ذکر ( وہ بھی فاء تفریع کے ساتھ )آیا ہے جو نشاندہی کرتا ہے کہ ہواؤں کا تلقیح کرنا بارش برسنے کی تمہید ہے ۔

بہر حال مذکورہ بالا تعبیر بادلوں اور اس سے بارش پیدا ہونے کے لئے خوبصورت ترین تعبیر ہے ہو سکتا ہے کہ کہا جائے کہ بادلوں کو ماں باپ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ جو ہواؤں مدد سے ملاپ کرتے ہیں اور بار آورہوتے ہیں ، او ر اپنی اولاد یعنی بارش کے دانوں کو زمین پر رکھتے ہیں ۔

( وَمَا اٴَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِینَ ) ( تم ان پانیوں کی حفاظت اور ذخیرہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ) ممکن ہے یہ جملہ آب باران کو نزول سے پہلے ذخیرہ کرنے کی طرف اشارہ ہو یعنی ان بادلوں پر تمہارا بس نہیں کہ جو بارش کے اصلی منبع ہیں ، نیز مکن ہے نزول باران کے بعد ذخیرہ کرنے کی طرف اشارہ ہو یعنی تم میں یہ طاقت نہیں کہ نزول باران کے بعد زیادہ مقدار میں پانی جمع اور محفوظ رکھ سکو ، یہ خدا ہے جو اسے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی صورت میں منجمد کرکے یا زمین کی گہرائیوں میں بھیج کر محفوظ کرلیتا ہے جو بعد میں چشموں ، ند یوں اور کنوؤں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔

مباحث توحید کے بعد معاد و قیامت اور اس کے مقدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے ہم ہیں جو زندہ کر تے ہیں اور ہم ہیں جو مارتے ہیں( وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْیِ وَنُمِیتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ ) ۔

یہ حیات و موت کے مسئلے کی طرف اشارہ ہے جو در حقیقت اہم ترین اور قطعی ترین مسائل میں سے ہے یہ مسئلہ معاد کی بحث کے لئے تمہید بھی بن سکتا ہے اور توحید کی بحث کا نقطہ تکمیل بھی ۔ کیونکہ ظہور حیات عالم ہستی کے عجیب ترین مسائل میں سے ہے اور اس مظہر کی تحقیق اور اس کا مطالعہ ہمیں خالق ِ حیات سے اچھی طرح آشنا کرسکتا ہے ۔ اصولی طو ر پر موت اور حیات کا نظام بے پایا ں قدرت و علم کے بغیر ممکن نہیں ۔ دوسری طرف موت و حیات کا وجود خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس عالم موجودات خود سے کچھ نہیں رکھتے اور جو کچھ رکھتے ہیں وہ کسی اور کی طرف ہے اور آخر کار ان سب کا واث اللہ ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : ہم ان کے گذشتگان اورآنے والوں کو جانتے ہیں( وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاٴْخِرِینَ ) ۔

لہٰذاوہ خود بھی اور اس کے اعمال بھی ہمارے علم کے سامنے واضح اور آشکار ہیں اور اس لحاظ سے معاد و قیامت اور ان کے اعمال کا حساب و کتاب پوری طرح ہمارے سامنے ہے ۔

اس بناء اس گفتگو کے فوراً بعد فرمایا گیا ہے:یقینا تیرا پروردگا ر ان سب کو قیامت میں ایک نئی زندگی کی طرف پلٹائے گا اور انھیں جمع و محشور کرے گا( وَإِنَّ رَبَّکَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ ) ۔کیونکہ وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی( إِنَّهُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔

اس کی” حکمت “کا تقاضا ہے کہ موت تمام چیزوں کا اختتام نہ بنے کیونکہ اگر زندگی اس جہاں کی انہیں چار دن کی حیات میں منحصر ہو تو آفرینش جہاں لغو اور بے معنی ہو جائے اور خدا وند کلیم سے بعید ہے کہ اس کی خلقت ایسی بے نتیجہ ہو لیکن اگر یہ آفرینش ایک لامتناہی حیات اور دائمی سیر و ملوک کی تیاری کے لئے مقدمہ ہے ہوگی یا دو لفظو میں ابدی اور جاوداں زندگی کے لئے تمہید ہوتو ایک مکمل مفہوم و معنی کی حامل ہو گی اور اس کی حکمت سے ہم آہنگ ہوگی اس لئے کہ کلیم کوئی کام بے حساب و کتاب نہیں کرتااور اس کا علیم ہونا سبب بنتا ہے کہ معاد و حشر کے معاملے میں کوئی مشکل پیدا نہ ہو ہ ذرہ خاکی جو کسی بھی انسان کاکسی گوشے میں جاپڑاہے وہ اسے جمع کرے گا اور اسے نئی حیات بخشے گا ۔ دوسری طرف سب کے اعمال کا دفتراس جہان طبیعت کے دلمیں بھی ثبت ہے اور انسانوں کے قلب و روح میں بھی اور وہ ان سب سے آگاہ ہے ۔

اس بناء پر خدا کا علیم و حکیم ہونا حشر و نش او معاد و قیامت پر جچی تلی اور پر مغز دلیل شمار ہوتا ہے ۔

متقدمین او ر متاخرین کون ہیں ؟

( لقد علمنا المستقدمین منکم و ل؛قد علمنا المستاخرین ) “ اس آیت کے بارے میں مفسرین نے بہت سے احتمالات کا ذکر کیا ہے ۔

مرحوم طبرسی نے مجمع لابیان میں چھ تفسیریں بیان کی ہیں ۔

قرطبی نے آٹھ احتمال ذکر کئے ہیں

ابو الفتح رازی نے تقریباً دس احتمال پیش کئے ہیں ۔

لیکن ان سب کا گہرا مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو ظاہر ہو تا ہے کہ ان سب کوایک ہیں تفسیر میں جمع کیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ :۔

لفظ” متقدمین“ اور” متاخرین “وسیع معنی رکھتے ہیں ، ان میں زمانے کے لحاظ سے پہلے اور بعد میں آنے والے اعمال خیر میں آگے بڑھ جانے والے ،جہاد اور دشمنانِ حق سے مبارزہ کرنے والے یہاں تک کہ نماز ِ جماعت کی صفوں میں آگے اورپیچھے رہنے والے اور اسی قسم کے دیگر لوگ شامل ہیں ۔

اس جامع معنی کی طرف توجہ رکھتے ہوئے وہ تمام احتمالات جمع کرکے قبول کئے جاسکتے ہیں اور اس آیت میں تقدم و تاخر کے بارے میں ذکر کئے گئے ہیں

ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم نمازنے جماعت کی پہلی صف میں شرکت کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔

آپ نے فرمایا :۔ خدا اور اس کے فرشتے ان صفوں میں پیش قدمی کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں “

اس تاکید کے بعد لوگوں نے پہلی صف میں شرکت کے لئے بہت ہجوم کیا ۔ ایک قبیلہ ” بنی عذرہ “تھا ان لوگوں کے گھر مسجد سے دور تھے انہوں نے کہا کہ ہم اپنے گھر بیچ ک مسجد نبوی کے قریب ہی گھر خرید لیتے ہیں تاکہ صف اول میں پہنچ سکیں ۔

اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ خدا تمہاری نیتوں کو جانتا ہے اور یہاں تک کہ تم اگر آخری صف میں بھی کھڑے ہوئے تو بھی تمہاری نیت چونکہ صف میں کھڑا ہونے کی ہے تمہیں اپنی نیت کی جزا ملے گی ۔(۱)

مسلم ہے کہ اس شان ِ نزول کا محدود ہونا آیت کے وسیع مفہوم کے محدود ہونے کاہر گز سبب نہیں ہوسکتا ۔

____________________

۱ ۔مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

مرتد کو جلانے کی روایتيں

انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر

جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔

ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،

علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :

١۔ کشی مزید کہتا ہے:

جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔

امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔

کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !

افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!

انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔

اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:

”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”

کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”

کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔

٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :

ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔

ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ

تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!

اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!

اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :

جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔

ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔

جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !

اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”

ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔

٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:

کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔

۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔

۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:

آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:

” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “

۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔

ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :

”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا

٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔

جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:

وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات ”۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔

اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !

امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!

مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،

حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟

-جی ہاں ۔

-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟

- نہيں ۔

- دین مسيح کے پيرو ہو؟

- نہيں ۔

- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟

- ہم مسلمان ہيں ۔

-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟

- نہيں ۔

- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔

-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔

اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟

-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔

-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔

- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔

-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!

-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔

پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔

انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا ۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔

اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔

راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔

امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔

اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟

ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟

علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟

رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!

علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!

سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔

حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:

اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔

یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!

امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔

اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:

” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “

ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١

٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:

اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟

” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔

یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔

ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔

یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔

روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات

علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔

اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:

اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔

اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛

یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔

یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔

ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔

ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔

ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“

یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ

شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم

مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔

” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟

ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل ” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔

امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔

گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔

پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،

فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١

ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔

بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،

قتل ہے نہ جلانا۔

اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔

مرتد کو جلانے کی روایتيں

انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر

جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔

ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،

علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :

١۔ کشی مزید کہتا ہے:

جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔

امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔

کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !

افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!

انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔

اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:

”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”

کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”

کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔

٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :

ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔

ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ

تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!

اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!

اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :

جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔

ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔

جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !

اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”

ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔

٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:

کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔

۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔

۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:

آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:

” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “

۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔

ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :

”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا

٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔

جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:

وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات ”۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔

اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !

امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!

مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،

حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟

-جی ہاں ۔

-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟

- نہيں ۔

- دین مسيح کے پيرو ہو؟

- نہيں ۔

- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟

- ہم مسلمان ہيں ۔

-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟

- نہيں ۔

- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔

-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔

اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟

-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔

-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔

- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔

-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!

-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔

پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔

انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا ۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔

اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔

راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔

امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔

اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟

ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟

علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟

رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!

علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!

سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔

حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:

اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔

یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!

امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔

اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:

” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “

ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١

٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:

اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟

” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔

یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔

ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔

یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔

روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات

علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔

اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:

اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔

اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛

یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔

یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔

ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔

ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔

ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“

یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ

شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم

مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔

” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟

ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل ” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔

امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔

گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔

پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،

فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١

ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔

بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،

قتل ہے نہ جلانا۔

اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24