تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22121
ڈاؤنلوڈ: 2017


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22121 / ڈاؤنلوڈ: 2017
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

نتیجہ بحث

ان آیا ت کی تفسیر کے سلسلے میں مباحث بہت طویل ہو گئے ہیں اب مکمل نتیجہ حاصل کرنے کے لئے ہمیں چند نکات کی طرف توجہ کرنا چاہیئے ۔

۱ ۔لفظ ”سماء“(آسمان )بہت سی آیات قرآن میں ایسی مادی آسمان کے معنی میں مثلاً سورہ اعراف کی آیہ ۴۰ میں ہے :۔ان الذین کذبوا باٰیاتنا و استکبروا و اعنها لا تفتح لهم ابواب السماء

وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے اوران کے سامنے تکبر اختیار کیا ہے آسمان کے در وازے ان کے رخ پر نہیں کھلیں گے ۔

ہوسکتا ہے یہاں آسمان قرب خدا کے لئے کنایہ ہو جیسا کہ سورہ فاطر کی آیہ ۱۰ میں ہے ۔

( الیه یصعد الکلم الطیب و العمل الصالح یرفعه )

پاکیزہ باتیں اس کی طرف اوپر جاتی ہیں اور وہ عمل صالح کو بلند کرتا ہے ۔

واضح ہے کہ اعمال صالح اور پاکیزہ باتیں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو اس آسمان کی طرف اوپر جائیں بلکہ ان کی پیش رفت مقام قرب خدا کی طرف ہوتی ہے او وہ روحانی عظمت و رفعت حاصل کرتے ہیں ۔

اصولی طور پر آیات قرآن کے بارے میں ”انزل“ اور” نزل“کی تعبیر واضح طورپر بتاتی ہے کہ مقام قدس پروردگار سے قلب ِپیغمبر پر نزول مراد ہے ۔

سورہ ابراہیم کی آیہ ۲۴ میں ہے :۔الم ترا کیف ضرب الله مثلاًکلمة طیبة کشجرة طیبة اصلها ثابت فرعها فی السماء

کیا تونے نہیں دیکھا کہ خدا نے اچھی بات کی مثال پیش کی ہے کہ گویا ایک پاکیزہ درخت ہے اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ۔

اس کی تفسیر میں ہم نے پڑھا ہے کہ یہ پاکیزہ درخت جسے خدا نے مثال کے طورپر بیا ن کیا ہے اس کی جڑ پیغمبر ﷺ ہیں ۔ اور علی (علیہ السلام) اس کی جڑاور شاخ( وہی شاخ کہ جو آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ) اور دیگر آئمہ اس کی کچھ چھوٹی شاخیں ہیں(۱)

ایک حدیث میں ہے :کذٰلک الکافرون لاتصعد اعمالهم الیٰ السماء

اسی طرح کفا ر کہ جن کے اعمال آسمان کی طرف اوپر نہیں جاتے۔

واضح ہے کہ اسی احادیث میں آسمان اس حسی آسمان کی طرف اشار ہ نہیں ہے یہاں سے ہم نتیجہ نکال تے ہیں کہ آسمان مادی مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور معنوی مفہوم میں بھی ۔

۲ ۔نجوم ( ستارے) بھی ایک مادی مفہوم رکھتے ہیں کہ جو یہی ستارے ہیں جو آسمان میں نظر آتے ہیں اور ایک لفظ کا معنوی مفہوم ہے کہ جو علماء اور بڑی شخصیت کی طرف اشارہ ہے کہ جو انسانی معاشروں کو روشنی بخشتے ہیں اور جیسے لوگ ستاروں کے ذریعے تاریک راتوں میں بیابانوں میں اور سمندوں میں اپنا راستہ ڈھونڈتے ہیں ، انسا نی معاشروں میں عام لوگ بھی زندگی اور سعادت کی راہ علماء آگاہ اور صاحب ایمان رہبروں کی مدد سے پاتے ہیں ۔

مشہو حدیث جو پیغمبراکرم ﷺ سے نقل ہوئی ہے :۔مثل اصحابی فیکم کمثل النجوم بایها اخذ اهتدیٰ

میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں جس کی اقتداء ہو جائے باعث ہدایت ہے(۲)

سورہ انعام آیت اس طرح ہے :وهوالذی جعل لکم النجوم لتهتدوا بها فی الظمات البر و البحر

اور وہ ذات کہ جس نے تمہاے لئے ستارے بنائے تاکہ خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں ان کے ذریعے تمہاری ہدایت ہو ۔

تفسیر علی بن ابراہیم میں اس آیت کے ذیل میں منقول ہے کہ امام (علیہ السلام) فرمایا :النجوم آل محمد

ستارے سے مراد خاندان ِپیغمبر ہے ۔(۳)

۳ ۔ بحث آیات کی تفسیر میں وارد ہونے والی متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کی طرف شیاطین کے صعود کی ممانعت اور ستارو ں کے ذریعے ان کا ہانکا جانا پیغمبر اکرم کی ولادت کے وقت سے ہوا اور بعض روایات سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدائش کے وقت سے شیاطین ایک حد تک ممنوع ہوئے اور پیغمبر کی ولادت کے بعد مکمل طور پر ممنوع ہوگئے(۴)

ان باتوں سے جو ہم نے بیان کی ہیں یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ”سماء“ کا یہاں معنوی مفہوم ہے اور یہ حق ،ایمان اور روحانیت کے آسمان کی طرف اشارہ ہے اور ہر وقت شیطانوں کی کوشش ہے کہ وہ اس چار دیواری میں داخل ہو نے کے لئے راہ پالیں اور سچے مومنین اور حامیان حق کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسوں کے ذرریعے نفوذپیدا کرلیں لیکن مرادانِ الٰہی اور راہبران راہ حق انبیاء و آئمہ سے لے کر مجتہد علماء تک اپنے علم و تقویٰ کی طاقتور موجوں کے ساتھ ان پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں اس آسمان سے قریب ہونے سے ہانکتے ہیں ۔

اسی مقام پر حضرت مسیح کے تولد اور اس سے بالا تر حضرت محمد ﷺکے تولد اور شیطان کے دھتکار نے کے درمیان ربط معلوم کیا جاسکتا ہے ۔

نیز یہیں پر آسمان کی طرف صعود اور اسرارر سے آگاہی کے درمیان ارتباط معلوم کیا جاسکتا ہے ۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس مادی آسمان میں کوئی خاص خبریں نہیں ہیں سوائے خلقت کی عجیب و غریب چیزوں کے جو روئے زمین سے بھی قابل مطالعہ ہیں ۔ نیز آج کی دنیا میں یہ مسئلہ یقینی ہوچکا ہے کہ اس بیکراں فضامیں پھیلے ہوئے آسمانی کرات میں سے بعض مردہ ہیں اور بعض زندہ ہیں او ر ان کے ساکنان بھی ہیں لیکن شاید ان کی زندگی ہم سے بہت زیادہ مختلف ہو ۔

یہ موضوع بھی بہت قابل ملاحظہ ہے کہ شہاب صرف زمین کی فضا سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اطراف زمیں کی ہوا سے پتھر کے ٹکڑے اٹھتے ہیں اور شعلہ ور ہوتے ہیں انہی سے شہاب پیدا ہوتے ہیں ورنہ زمین کی فضا سے باہر کوئی شہاب نہیں ہوتا البتہ زمینی فضا سے باہر کچھ پتھر سر گرداں ہیں لیکن انھیں شہاب نہیں کیا جاتا لیکن جب وہ زمینی فضامیں داخل ہوتے ہیں تو گرم ہوکر شعلہ ور ہوجاتے ہیں اور انسان کی نظروں سے سامنے آگ کی ایک لکیر کی صورت میں نمایاں ہوتے ہیں یو لگتا ہے کہ جیسے یہ حرکت کرتے ہوئے ستارے ہیں ۔

نیزہم یہ بھی جاتنے ہیں کہ آج کے انسان نے کئی مرتبہ زمین کی فضا سے باہر کی طرف عبور کیا ہے اور اس سے بہت بلند یہاں تک کہ چاند تک پہنچا ہے (توجہ رہے کہ زمین کی فضا ایک سوسے لیکر دوسو کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے جبکہ چاند ہم سے تیس لاکھ کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر ہے ) ۔

لہٰذااگر مراد یہی مادی شہاب اور مادی آسمان ہوتو یہ مان لینا چاہئیے کہ یہ علاقہ انسانی سائندانوں پر ظاہر ہوچکا ہے اور اس میں کوئی اسرار کی بات نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ کہ بہت سے قرائن و شواہد جو ہم نے ذکر کئے ہیں ،سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے مراد حق و حقیقت کا آسمان ہے ، اور شیاطین وہی وسوسہ پیدا کرنے والے ہیں کہ جو کوشش کرتے ہیں کہ اس آسمان تک رسائی حاصل کرسکیں اور مخفی طور پر کان لگا کر باتیں سنیں اور لوگوں کو گمراہ کریں ۔ ستاررے اور شہاب یعنی رہبران الہٰی اور علماء اپنے قلم کی طاقتور لہروں اور موجوں سے انھیں پیچھے کی طرف ہانکتے ہیں اور دھتکار تے دیتے ہیں ۔

لیکن قرآن بحر بیکراں ہے اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے علماء ان آیات کے سلسلے میں نئے حقائق تک دسترس حاصل کرلیں کہ آج جن تک ہم رسائی حاصل نہیں کرسکے۔

____________________

۱۔تفسیر بر ہان جلد ۲ ص۳۱۰۔

۲۔سفینة البحار جلد۲ ص ۹۔ یہ روایت سنی روایات سے ملتی جلتی ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق اور عموم قابل عمل نہیں ہے کیونکہ صحابہ میں ہر قسم کے لوگ حتی کہ منافقین بھی داخل ہیں اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس سے یاتو سلماو ابوذر جیسے خاص اصحاب مراد ہیں یا اصحاب کساء اور اہل بیت مراد ہیں ہمارے اس نظریہ کی تائید سورہ انعام کی آیہ۹۷ کے ذیل میں آنے والی مذکورہ بالا روایت کی بھی کرتی ہے ۔

یہ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے ۔

۳ ۔نور الثقلین جلد۱ ص ۷۵۰۔

۴۔نور الثقلین جلد ۳ ،ص ۵ تفسیر قرطبی ج۵ م ص۳۶۲۶۔

آیات ۱۹،۲۰،۲۱

۱۹ ۔( وَالْاٴَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَاٴَلْقَیْنَا فِیهَا رَوَاسِیَ وَاٴَنْبَتْنَا فِیهَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ ) ۔

۲۰ ۔( وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیهَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِینَ ) ۔

۲۱ ۔( وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ )

ترجمہ

۱۹ ۔اورہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں ثابت پہاڑ ڈالے اورتمام موزوں نباتات میں سے اس میں اگایا ۔

۲۰ ۔اور ہم نے تمہارے لئے طرح طرح کے وسائل زندگی فراہم کئے اور اسی طرح ان کے لئے بھی جنھیں تم روزی نہیں دے سکتے ۔

۲۱ ۔تمام چیزوں کے خزانے ہمارے پاس ہیں لیکن ہم معین انداز سے سوا اسے نازل نہیں کرتے۔

تفسیر

ہرچیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے :

یہاں آیات آفرینش ایک حصہ اور زمین میں عظمت خدا کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں تاکہ گذشتہ بحث تکمیل کو پہنچے۔

پہلے بات زمین سے شروع کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہوتاہے:ہم نے زمین کو پھیلا یا( وَالْاٴَرْضَ مَدَدْنَاهَا ) ۔

”مد“ دراصل وسعت دینے او ر پھیلانے کے معنی میں ہے اور احتمال قوی یہ ہے کہ یہاں زمین کی خشکیوں کے ذریعے سے باہر نکلنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابتدا میں کرہ زمین کی ساری سطح سیلابی بارشوں کے زیر اثر پانی کے نیچے ڈوبی ہوئی تھی سالہاسال اسی حال میں گذرگئے ۔سیلابی بارشیں کم ہوئیں ، پانی زمین کے گڑہوں میں جاگزیں ہوا ۔ آہستہ آہستہ خشکیاں پانی کے نیچے سے نمودار ہونے لگیں ۔ یہی وہ چیز ہے جو روایات اسلامی میں ”دحو الارض “ کے نام سے مشہو ہے ۔ پہاڑوں کی خلقت چونکہ ان کے زیادہ فوائد کی وجہ سے توحید کی ایک نشانی ہے ، اسی لئے ان کا ذکر تے ہوئے مزید فرمایا گیا ہے : ہم نے زمین میں مستقر اور ثابت پہاڑ ڈالے ہیں( وَاٴَلْقَیْنَا فِیهَا رَوَاسِیَ ) ۔

پہاڑو ں کے لئے ”القاء“ (پھینکنا)کی تعبیر استعمال کی گئی ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ پہاڑ زمین کی وہ سلوٹیں ہیں جوزمین کے چمڑے کے تدریجاًسرد ہونے کی بناء پر یا آتش فشانی موادکی وجہ سے وجود میں آئے ہیں ۔ ہوئے ہیں ، ہوسکتا ہے یہ تعبیر اس لہٰذاہوکہ ” القاء “”ایجاد “ کے معنی میں بھی آیا ہے ، ہماپنی روز مرہ زبان میں کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں زمین کے لئے پلا ن بنایا ہے اور اس میں چند کمرے ڈالے ہیں یعنی بنائے اور ایجاد کئے ہیں ۔

بہر حال یہ پہاڑ علاوہ اس کے کہ جڑسے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں اور روزمرہ کی طرح زمین کے اندرونی خلفشار اور دباؤ کے مقابلے میں لرزتے نہیں ، طوفانوں کی طاقت کی بھی درہم برہم کرردیتے ہین اور ہوا کی رفتاری کوپوری طرح کنٹرول کرتے ہیں یہ پہاڑ ، پانی کے ذخیروں کے لئے بہت اچھی جگہ ہیں جو یہاں برف کی صورت میں یاچشموں کی صورت میں میں موجود ہوتا ہے ۔

خصوصاً لفظ ”رواسی “ استعمال کیا گیا ہے کہ جو”راسیہ“ جمع ہے اور یہ ثابت اور مضبوط کے معنی میں ہے جو کچھ ہم نے سطور بالا میں بیان کیا ہے اس کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ خود بھی ثابت اور مستقر ہیں اور زمین کے نازل چمڑے اور انسانی زندگی کے ثبات و قرار کا باعث ہیں ۔

انسانی زندگی اور تمام جانداروں کے زندگی کے لئے ، بہترین عامل یعنی نباتات کی طرف بات کا رخ رکھتے ہوئے فرمایا گیاہے :ہم نے زمین پر موزوں نباتات میں سے اگایا ہے( وَاٴَنْبَتْنَا فِیهَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ ) ۔

”موزون “کس قدر خوبصورت اور رسا تعبیر ہے ۔ یہ لفظ د اصل ”وزن“ کے مادہ سے ہر چیز کے اندر شناسائی کے معنی میں لیا گیا ہے ۔(۱)

یہ دقیق حساب ، عجیب نظم و ضبط اورنباتات کے تمام اجزاء کے متناسب اندازوں کی طرف اشارہ ہے ۔ یہاس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک بلکہ ہر ایک کاہر جز ، شاخ ، پتہ، پھول، پھل، اور گٹھلی سب کچھ معین حساب کتاب کا حامل ہے ،۔

کرہ زمین میں شاید لاکھوں قسمکے نباتات ہیں کہ جو مختلف خواص اور طرح طرح کے آثار رکھتے ہیں ان میں سے ہر ایک اللہ کی پہچان کا دریچہ ہے ان میں سے ہر ایک کا پتہ پتہ معرفتِ کردگار کی ایک کتاب ہے ۔

اس جملہ کے معنی میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیاہے کہ اس سے مراد مختلف معدنیات کا پہاڑوں میں پیداہونا ہے کیونکہ عرب لفظ ”انبات“معدن اور کان کے بارے میں استعمال کرتے ہیں ۔

بعض روایات میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا:

مراد یہ ہے کہ خدا پہاڑوں میں سونے ، چاندی ، جواہرات او رباقی دھاتوں کی کانیں اور معدنیات پیدا کی ہیں ۔(۲)

یہ احتمال بھی ہے کہ ”انبات“ ( اُگانا)یہاں وسیع معنی میں ہوکہ جس میں تمام مخلوقات جنہیں خدا نے پیدا کیا ہے ، شامل ہوں ۔ سورہ نوح میں اس عظیم پیغمبر کی زبانی ہے کہ آپ لوگوں سے کہتے تھے :

( و الله انبتکم من الارض نباتا ) (نوح۔ ۱۷)

اور خدا نے تمہیں نباتات کی طرح زمین سے اُگایاہے ۔

بہرحال کوئی مانع نہیں کہ آیت وسیع مفہوم رکھتی ہو اور اس میں انسان ، نباتات اور معدنیات وغیرہ سبھی شامل ہوں ۔

انسان کے وسائل حیات چونکہ نباتات اور معدنیات میں منحصر نہیں ہیں لہٰذا بعد والی آیات میں ان تمام نعمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیاہے :ہم نے زمین میں تمہارے لئے انواع و اقسام کے وسائل زندگی بنائے ہیں( وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیهَا مَعَایِشَ ) ۔

نہ صر ف تمہارے لئے بلکہ تمام زندہ موجودات کے لئے اور وہ کہ جنہیں تم روزی نہیں دیتے اور تمہاری دسترس سے باہر ہیں( وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِینَ ) ۔

جی ہاں !ہم نے ان سب کو ان کی ضروریات فراہم کی ہیں ۔

”معایش“ ” معیشة“ کی جمع ہے اور یہ وسیلہ ہیں ، ذریعہ ، انسانی زندگی کی ضروریات کو کہتے ہیں کہ بعض اوقات جن کے پیچھے خود انسان جاتا ہے اور بعض اوقات وہ اس کے پیچھے آتی ہیں اگر چہ بعض مفسرین نے لفظ” معایش“کی تفسیر صرف زراعت ، نباتات اور کھانے پینے کی چیزوں سے کی ہے لیکن واضح ہے کہ مفہوم لغت پوری طرح وسیع ہے اور تمام وسائلِ حیات پر محیط ہے ۔

مفسرین نے”من لستم له برازقین “کی دو تفسیریں ہیں ۔

پہلی تفسیر یہ کہ خدا چاہتا ہے کہ انسانوں کو متوجہ کرے کہ ہم نے بھی تمہارے لئے زمین میں وسیلہ زندگی قرار دیا ہے اور زندہ موجودات بھی تماہرے اختیار میں دئے ہیں ( مثلاً چوپائے ) کہ جنہیں تمام روزی دینے کی توانائی نہیں رکتھے ۔ خدا انھیں روزی دیتا ہے اگرچہ یہ کام تمہارے ہاتھوں انجام پاتا ہے ۔(۲)

۱ ۔تفسیر اول کی بناء پر ”من“ (من لستم برازقین ) کا عطف ”لکم“ کی ضمیر پر ہوتا ہے اور دوسری تفسیر کی بناء پر ”معایش“ پر ۔ بعض نے پہلی تفسیر پر اعتراض کیا ہے کہ مجور کا اسم ظاہر ضمیر مجرور پر عطف نہیں ہوتا مگر یہ کہ حرف جر کی تکرار ہو یعنی یہاں ضروری تھا کہ لام ” من “ کے سر پر بھی آتی ۔

دوسرا یہ ”من “ کا اطلاق انسان کے علاوہ دیگر زندہ پر کس طرح ہوا ہے ۔ لیکن یہ دونوں اعتراض صحیح نہیں ہیں ۔کیونکہ عبارات عرب میں حرف جر کی تکرار نہ ہونے پر شواہد موجود ہیں اور اسی طرح غیر ذوی العقول موجودات ” من “ کے اطلاق کی بھی مثالیں ہیں ، دوسری تفسیر پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ لفظ” معایش“ اتنا وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ تمام وسائل زندگی یہاں تک کہ چوپائے وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں ۔لہٰذا ” معایش “ کے ذکرکے بعد اس کے ذکر کی ضرورت نہ تھی ۔اسی بناء پر ہم نے پہلی تفسیر کوترجیح دی ہے ۔

لیکن ہماری نظر میں پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور اس کی ادبی دلیل بھی ہم نے فٹ نوٹ میں بیان کردی ہے ۔

تفسیر علی بن ابراہیم میں موجود ایک حدیث میں ہم نے اس تفسیر کی تائید میں پاتے ہیں جہاں ”من لستم لہ برازقین “ کے بارے میں ہےلکل ضرب من الحیوان قدرنا شیئا مقدراً

تمام جانوروں کے لئے ہم نے کوئی نہ کوئی چیز مقدر کی ہے ۔(۳)

زیربحث آخری آیت در حقیقت ایک سوال کا جواب دیا جارہا ہے کہ جو بہت سے لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ خدا اس قد ازراق و نعمات انسانوں کے قبضے میں کیوں نہیں دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کی سعی و کوشش سے بے نیاز ہو جاتے ۔

رشادہوتا ہے : تمام چیزوں کے خزنے ہمارے پاس ہیں لیکن ہم ان کی معین مقدارکے علاوہ نازل نہیں کرتے( وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ ) ۔

لہٰذا ایسا نہیں کہ ہماری قدرت محدود ہے اور اپنی نعمات کے ختم ہونے پر ہم وحشت زدہ ہیں بلکہ ہر چیز کا منبع ،مخزن اور سر چشمہ ہمارے پاس ہے اور ہم ہر زمانے میں ہر مقدار ایجاد کر نے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن اس عالم کی تمام چیزیں کسی حساب کے ماتحت ہیں اور ارزاق بھی خدا کی طرف سے بمقدار حساب نازل ہوتی ہیں ایک اور جگہ قرآن کہتا ہے :۔

ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولٰکن ینزل بقدر مایشاء( شوری ۲۷)

اگر خدا اپنے بندوں کے لئے بے حساب روزی پھیلادیتا تو وہ جادہ حق سے منحرف ہو جاتے ، لیکن جتنی مقدار وہ چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔(شوریٰ ۔ ۲۷)

پوری طرح واضح ہے کہ سعی و کوشش ،انسانی زندگی سے سستی ، کاہلی اور دل مردگی دور کرنے کے علاوہ حرکت و نشاط پیدا کرتی ہے اوریہ انسانوں کی صحیح وسالم فکری و جسمانی مشغولیت کے لئے بہت ہی اچھا وسیلہ ہے اور اگر ایسا نہ ہوتاتو تمام چیزیں بے حساب انسان کے اختیار میں ہوتیں ۔اور نہ معلوم پھر دنیا کا کیا منظر ہوتا ۔

کچھ بیکار انسان سیر شکم کے ساتھ بغیر کسی کنٹرول کے شور و غل مچاتے کیونکہ ہم جاتے ہیں کہ ان جہان کے لوگ اہل جنت کی طرح نیک و بد صفات کے حامل ہیں انہیں اس جہان کی بھٹی سے کندن بن کے نکالنا چاہئیے۔ سعی وکو شش اور صحیح حرکت و اشتغال سے بہتر کندن بنا نے کے لئے کون سی چیز ہو سکتی ہے لہٰذا جس طرح فقرو فاقہ اور احتیاج و نیاز ی بھی فساد اور تباہی کا باعث ہے ۔

____________________

۱۔”الوزن معرفة قدر الشیء “ ( مفردات راغب)

۲۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۶ ( توجہ رہے کہ اس تفسیرکے مطابق ” فیھا“ کی ضمیر پہاڑوں کی طرف لوٹے گی ) ۔

۳۔تفسیر نو ر الثقلین جلد۳ ص۹۔

چند اہم نکات

۱ ۔ خدا کے خزنے کیا ہیں ؟

قرآن کریم کی متعدد آیات میں ہے کہ خدا خزانے رکھتا ہے ۔ آسمان و زمین کے خزانے خدا کی ملکیت ہیں یا ہر چیز کے خزانے اس کے پاس ہیں ۔

”خزائن“ جمع ہے ” خزانہ“ کی جمس کا معنی ہے وہ جگہ جہاں انسان اپنے اموال حفاظت کے لئے جمع کرتا ہے یہ اصل میں مادہ ”خزن“ (بروزن”وزن“)سے کسی چیز کی حفظ و نگہداری کے معنی میں ہے واضح ہے کہ جمع آوری او ر ذخیرہ کرنے اور کسی چیز کو محفوظ کرنے کے لئے وہی شخص اقدام کتا ہے جس کی قدت محدود ہو اور جو ہر زمانے میں کچھ چاہے فراہم نہ کرسکے لہٰذا وہ قدرت کے موقع کے لئے ذخیرہ کرلیتا ہے اور خزانہ میں جمع کرلیتا ہے ۔

لیکن کیا یہ امور خدا کے بارے میں تصور کئے جاسکتے ہیں ؟یقینا نہیں یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین مثلاً طبرسی نے مجمع بیان میں ، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں اور راغب نے مفردات میں ”خزائن اللہ “ کی ”مقدراتِ الٰہی “ کے ساتھ تفسیر کی ہے یعنی تمام چیزیں قدرت خدا کے خزانے میں جمع ہیں اس میں سے جتنی مقدار وہ ضروری او قرین ِمصلحت سمجھتا ہے ایجاد کرتا ہے ۔

جبکہ بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ ”خزائن اللہ “ سے مراد امور کا وہ مجموعہ ہے کہ جو عالم ہستی اور جہان مادہ میں موجود ہیں لیکن اس عالم کی اعلیٰ اور مخصوص موجودات محدود مقدار میں پیدا ہوتی ہے بغیر اس کے امکان وجود انہی میں منحصر ہو ۔ (المیزان جلد ۱۲ ،ص ۱۴۸) ۔

یہ تفسیر اگرچہ اصولی طور پر قابل قبول مسئلہ ہے لیکن ”عندنا“ ( ہمارے پاس) کی تعبیر پہلی تفسیر کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے ۔ بہر حال خزائن اللہ جیسی تعبیرات کا انتخاب عام مفہوم میں خدا کے بارے میں صداق نہیں آتا ۔ لیکن خدا چاہتا ہے کہ خود لوگوں کی زبان میں ان سے بات کرے ۔

جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے ضمنی طورپر یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ بعض مفسرین کی طرف سے ”خزائن“ کے مفہوم کو پانی اور بارش میں معین و محدود کرنے پر نہ صرف کوئی دلیل ،موجود نہیں ہے بلکہ یہ امر مفہوم آیت کی وسعت کے ساتھ بھی مناسبت نہیں رکھتا ۔

۲ ۔نززول مقامی اور نزول مکانی

جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے نزول ہمیشہ نزول مکانی یعنی اوپر سے نیچے آنے کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ بلکہ کبھی نزول مقامی کے معنی میں بھی ہوتا ہے ۔مثلاًجس وقت کوئی بڑی نعمت کسی بڑے شخص کی طرف سے زیر دست لوگوں کوملے تو اسے نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی بناء پر قرآن مجید میں یہ لفظ خدا کی نعمتوں کے بارے میں استعمال ہوا ہے چاہے وہ آسمان سے نازل ہوں مثلاً بارش یا زمین پر پرورش پاتی ہوں مثلاً حیوانات ،جیسا کہ سورہ زمر کی آیت ۶ میں ہے :وانزل لکم من الانعام ثمانیة ازواج (اور اس نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے چوپائے نازل کئے۔نیزلوہے کے بارے سورہ حدید کی آیہ ۲۵ میں ہے ۔( و انزل الحدید )

ہم نے لوہا نازل کیا ۔

اسی طرح دیگر مثالیں بھی ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ ”نزول“ اور ”انزال“ یہاں وجود ، ایجاد اور خلقت کے معنی میں ہے البتہ چونکہ خدا کی طرف سے بندوں کے لئے ہے لہٰذا اس قسم کے تعبیر استعمال کی گئی ہے ۔

آیات ۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

۲۲ ۔( وَاٴَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَاٴَنْزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَسْقَیْنَاکُمُوهُ وَمَا اٴَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِینَ ) ۔

۲۳ ۔( وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْیِ وَنُمِیتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ ) ۔

۲۴ ۔( وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاٴْخِرِینَ ) ۔

۲۵ ۔( وَإِنَّ رَبَّکَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ إِنَّهُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۲۲ ۔ ہم نے ہوائیں (بادلوں کے ایک دوسرے سے ملنے ، ان کے بار آور ہونے اور ) تلقیح کے لئے بھیجیں ، اور آسمان سے ہم نے پانی نازل کیا اور اس سے سیراب کیا جبکہ تم ان کے حفاظت اور نگہداری کی طاقت نہیں رکھتے تھے ۔

۲۳ ۔اور ہم ہیں جو زندہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں اور ہم ( سارے عالم کے )وارث ہیں ۔

۲۴ ۔ ہم تمہارے متقدمین کو بھی جانتے تھے اور متاخرین کو بھی ۔

۲۵ ۔ تیرا پرورردگار یقینی طور پر(قیامت میں )سب کو جمع اور محشور کرے گا کیونکہ وہ حکیم اور دانا ہے ۔

تفسیر

ہوا اور بارش

گذشتہ آیات میں بعض اسرار آفرینش کا تذکرہ تھا اور خدا کی نعمتوں کا بیان تھا ۔ مثلاً زمین ، پہاڑ، نباتات اور وسائل زندگی کی خلقت۔

زیر نظر پہلی آیت میں ہواؤں کے چلنے اور بارشوں کے نزول میں ان اسرار ِ آفرینش کے نقشِ مؤثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : ہم نے ہوائیں بھیجیں جبکہ وہ بار آور کرنے والی ہیں ( بادلوں کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں اور انھیں بار آور کرتی ہیں )( وَاٴَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ ) ۔

اور ان کے پیچھے ہم نے آسمان سے پانی نازل کیا( فَاٴَنْزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً ) ۔اور اس ذریعہ سے ہم نے سب کو سیراب کیا( فَاٴَسْقَیْنَاکُمُوهُ ) ۔حالانکہ تم اس کی حفاظت و نگہداری کی طاقت نہ رکھتے تھے ۔( وَمَا اٴَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِینَ ) ۔

”لواقح “”لاقح“ کی جمع ہے جس کا معنی بار آور کرنے والا ۔ یہاں ان ہواؤں کی طرف اشارہ ہے جو بادلوں کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں اور باہم پیوند کرتی ہیں اور انھیں بارش کے لئے تیا ر کرتی ہیں ۔

بعض معاصرین اس آیت کو ہواؤں کے ذریعے نباتات کی تلقیح اور گردافشانی کے لئے اشارہ قرار دیا ہے او ر اس طرح ایک سائنسی مسئلے کے حوالے سے اس کی تفسیر کی ہے کہ جو نزو ل قرآن کے زمانے میں انسانی معاشرے میں محل توجہ نہ تھا اس طرح انہوں نے اسے قرآن کے اعجاز علمی کے دلائل میں سے شمار کیا ہے لیکن اس حقیقت کو قبول کرنے باوجود کہ ہواؤں کا چلنا نر نباتات کے نطفے کو مادہ نباتات تک پہنچانے اور انھیں بار آور کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ، مندرجہ بالا آیت کو اس طرف اشارہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس لفظ کے فوراً بعد آسمان سے نزول باران کا ذکر ( وہ بھی فاء تفریع کے ساتھ )آیا ہے جو نشاندہی کرتا ہے کہ ہواؤں کا تلقیح کرنا بارش برسنے کی تمہید ہے ۔

بہر حال مذکورہ بالا تعبیر بادلوں اور اس سے بارش پیدا ہونے کے لئے خوبصورت ترین تعبیر ہے ہو سکتا ہے کہ کہا جائے کہ بادلوں کو ماں باپ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ جو ہواؤں مدد سے ملاپ کرتے ہیں اور بار آورہوتے ہیں ، او ر اپنی اولاد یعنی بارش کے دانوں کو زمین پر رکھتے ہیں ۔

( وَمَا اٴَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِینَ ) ( تم ان پانیوں کی حفاظت اور ذخیرہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ) ممکن ہے یہ جملہ آب باران کو نزول سے پہلے ذخیرہ کرنے کی طرف اشارہ ہو یعنی ان بادلوں پر تمہارا بس نہیں کہ جو بارش کے اصلی منبع ہیں ، نیز مکن ہے نزول باران کے بعد ذخیرہ کرنے کی طرف اشارہ ہو یعنی تم میں یہ طاقت نہیں کہ نزول باران کے بعد زیادہ مقدار میں پانی جمع اور محفوظ رکھ سکو ، یہ خدا ہے جو اسے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی صورت میں منجمد کرکے یا زمین کی گہرائیوں میں بھیج کر محفوظ کرلیتا ہے جو بعد میں چشموں ، ند یوں اور کنوؤں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔

مباحث توحید کے بعد معاد و قیامت اور اس کے مقدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے ہم ہیں جو زندہ کر تے ہیں اور ہم ہیں جو مارتے ہیں( وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْیِ وَنُمِیتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ ) ۔

یہ حیات و موت کے مسئلے کی طرف اشارہ ہے جو در حقیقت اہم ترین اور قطعی ترین مسائل میں سے ہے یہ مسئلہ معاد کی بحث کے لئے تمہید بھی بن سکتا ہے اور توحید کی بحث کا نقطہ تکمیل بھی ۔ کیونکہ ظہور حیات عالم ہستی کے عجیب ترین مسائل میں سے ہے اور اس مظہر کی تحقیق اور اس کا مطالعہ ہمیں خالق ِ حیات سے اچھی طرح آشنا کرسکتا ہے ۔ اصولی طو ر پر موت اور حیات کا نظام بے پایا ں قدرت و علم کے بغیر ممکن نہیں ۔ دوسری طرف موت و حیات کا وجود خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس عالم موجودات خود سے کچھ نہیں رکھتے اور جو کچھ رکھتے ہیں وہ کسی اور کی طرف ہے اور آخر کار ان سب کا واث اللہ ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : ہم ان کے گذشتگان اورآنے والوں کو جانتے ہیں( وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاٴْخِرِینَ ) ۔

لہٰذاوہ خود بھی اور اس کے اعمال بھی ہمارے علم کے سامنے واضح اور آشکار ہیں اور اس لحاظ سے معاد و قیامت اور ان کے اعمال کا حساب و کتاب پوری طرح ہمارے سامنے ہے ۔

اس بناء اس گفتگو کے فوراً بعد فرمایا گیا ہے:یقینا تیرا پروردگا ر ان سب کو قیامت میں ایک نئی زندگی کی طرف پلٹائے گا اور انھیں جمع و محشور کرے گا( وَإِنَّ رَبَّکَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ ) ۔کیونکہ وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی( إِنَّهُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔

اس کی” حکمت “کا تقاضا ہے کہ موت تمام چیزوں کا اختتام نہ بنے کیونکہ اگر زندگی اس جہاں کی انہیں چار دن کی حیات میں منحصر ہو تو آفرینش جہاں لغو اور بے معنی ہو جائے اور خدا وند کلیم سے بعید ہے کہ اس کی خلقت ایسی بے نتیجہ ہو لیکن اگر یہ آفرینش ایک لامتناہی حیات اور دائمی سیر و ملوک کی تیاری کے لئے مقدمہ ہے ہوگی یا دو لفظو میں ابدی اور جاوداں زندگی کے لئے تمہید ہوتو ایک مکمل مفہوم و معنی کی حامل ہو گی اور اس کی حکمت سے ہم آہنگ ہوگی اس لئے کہ کلیم کوئی کام بے حساب و کتاب نہیں کرتااور اس کا علیم ہونا سبب بنتا ہے کہ معاد و حشر کے معاملے میں کوئی مشکل پیدا نہ ہو ہ ذرہ خاکی جو کسی بھی انسان کاکسی گوشے میں جاپڑاہے وہ اسے جمع کرے گا اور اسے نئی حیات بخشے گا ۔ دوسری طرف سب کے اعمال کا دفتراس جہان طبیعت کے دلمیں بھی ثبت ہے اور انسانوں کے قلب و روح میں بھی اور وہ ان سب سے آگاہ ہے ۔

اس بناء پر خدا کا علیم و حکیم ہونا حشر و نش او معاد و قیامت پر جچی تلی اور پر مغز دلیل شمار ہوتا ہے ۔

متقدمین او ر متاخرین کون ہیں ؟

( لقد علمنا المستقدمین منکم و ل؛قد علمنا المستاخرین ) “ اس آیت کے بارے میں مفسرین نے بہت سے احتمالات کا ذکر کیا ہے ۔

مرحوم طبرسی نے مجمع لابیان میں چھ تفسیریں بیان کی ہیں ۔

قرطبی نے آٹھ احتمال ذکر کئے ہیں

ابو الفتح رازی نے تقریباً دس احتمال پیش کئے ہیں ۔

لیکن ان سب کا گہرا مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو ظاہر ہو تا ہے کہ ان سب کوایک ہیں تفسیر میں جمع کیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ :۔

لفظ” متقدمین“ اور” متاخرین “وسیع معنی رکھتے ہیں ، ان میں زمانے کے لحاظ سے پہلے اور بعد میں آنے والے اعمال خیر میں آگے بڑھ جانے والے ،جہاد اور دشمنانِ حق سے مبارزہ کرنے والے یہاں تک کہ نماز ِ جماعت کی صفوں میں آگے اورپیچھے رہنے والے اور اسی قسم کے دیگر لوگ شامل ہیں ۔

اس جامع معنی کی طرف توجہ رکھتے ہوئے وہ تمام احتمالات جمع کرکے قبول کئے جاسکتے ہیں اور اس آیت میں تقدم و تاخر کے بارے میں ذکر کئے گئے ہیں

ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم نمازنے جماعت کی پہلی صف میں شرکت کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔

آپ نے فرمایا :۔ خدا اور اس کے فرشتے ان صفوں میں پیش قدمی کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں “

اس تاکید کے بعد لوگوں نے پہلی صف میں شرکت کے لئے بہت ہجوم کیا ۔ ایک قبیلہ ” بنی عذرہ “تھا ان لوگوں کے گھر مسجد سے دور تھے انہوں نے کہا کہ ہم اپنے گھر بیچ ک مسجد نبوی کے قریب ہی گھر خرید لیتے ہیں تاکہ صف اول میں پہنچ سکیں ۔

اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ خدا تمہاری نیتوں کو جانتا ہے اور یہاں تک کہ تم اگر آخری صف میں بھی کھڑے ہوئے تو بھی تمہاری نیت چونکہ صف میں کھڑا ہونے کی ہے تمہیں اپنی نیت کی جزا ملے گی ۔(۱)

مسلم ہے کہ اس شان ِ نزول کا محدود ہونا آیت کے وسیع مفہوم کے محدود ہونے کاہر گز سبب نہیں ہوسکتا ۔

____________________

۱ ۔مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔