تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 8%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26258 / ڈاؤنلوڈ: 4637
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

آیات ۲۶،۲۷،۲۸،۲۹،۳۰،۳۱،۳۲،۳۳،۳۴،۳۵،۳۶،۳۷،۳۸،۳۹،۴۰،۴۱،۴۲،۴۳،۴۴

۲۶ ۔( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ )

۲۷ ۔( وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ ) ۔

۲۸ ۔( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ ) ۔

۲۹ ۔( فَإِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ ) ۔

۳۰ ۔( فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّهُمْ اٴَجْمَعُونَ ) ۔

۳۱ ۔( إِلاَّ إِبْلِیسَ اٴَبَی اٴَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ ) ۔

۳۲ ۔( قَالَ یَاإِبْلِیسُ مَا لَکَ اٴَلاَّ تَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ ) ۔

۳۳ ۔( قَالَ لَمْ اٴَکُنْ لِاٴَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ ) ۔

۳۴ ۔( قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّکَ رَجِیم ) ۔

۳۵ ۔( وَإِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَةَ إِلَی یَوْمِ الدِّینِ ) ۔

۳۶ ۔( قَالَ رَبِّ فَاٴَنْظِرْنِی إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ۔

۳۷ ۔( قَالَ فَإِنَّکَ مِنْ الْمُنْظَرِینَ ) ۔

۳۸ ۔( إِلَی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ) ۔

۳۹ ۔( قَالَ رَبِّ بِمَا اٴَغْوَیْتَنِی لَاٴُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاٴَرْضِ وَلَاٴُغْوِیَنَّهُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

۴۰ ۔( إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْهُمْ الْمُخْلَصِینَ ) ۔

۴۱ ۔( قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ ) ۔

۴۲ ۔( إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْغَاوِینَ ) ۔

۴۳ ۔( وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

۴۴ ۔( لَهَا سَبْعَةُ اٴَبْوَابٍ لِکُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ ) ۔

ترجمہ

۲۶ ۔ ہم نے انسان کو خشک شدہ مٹی سے پیدا کیا کہ جو بد بو دار(سیاہ رنگ) کیچڑ سے لی گئی تھی ۔

۲۷ ۔اور اس سے پہلے ہم جن گرم او ر جلادینے والی آگ سے خلق کیا تھا ۔

۲۸ ۔اور یاد کرو وہ وقت جب تیرے پر وردگار نے فرشتوں سے کہا : میں بشرکو خشک شدہ مٹی جو بد بودار کیچڑ سے لی گئی ہے ، سے خلق کروں گا ۔

۲۹ ۔جب ہم اس کام کو انجام دے چکےں اور میں اپنی ( ایک شائستہ اور عظیم ) روح پھونکیں تو سب کے سب اسے سجدہ کرنا ۔

۳۰ ۔ تمام فرشتوں سے بلا استثناء سجدہ کیا ۔

۳۱ ۔ سوائے ابلیس کے کہ جس نے سجدہ کرنے والوں میں سے ہونے سے انکار کردیا ۔

۳۲ ۔(اللہ نے ) فرمایا اے ابلیس !تو ساجدین کے ساتھ کیوں شامل نہیں ہوا ؟

۳۳ ۔اس نے کہا : میں ہر گز ایسے بشر کو سجدہ نہیں کروں گا جسے تونے بد بودار کیچڑ سے لی گئی خشک شدہ مٹی سے بنایا ہے ۔

۳۴ ۔فرمایا: ان ( فرشتوں ) کی صف سے نکل جا کہ تو ہماری درگاہ سے راندہ گیا ہے ۔

۳۵ ۔اور تجھ پر روز قیامت تک لعنت (اور رحمت حق سے دوری ) ہوگی ۔

۳۶ ۔اس نے کہا: پر وردگارا!مجھے روز قیامت تک مہلت دے ( اور زندہ رکھ ) ۔

۳۷ ۔فرمایا: تو مہلت حاصل کرنے والوں میں سے ہے ۔

۳۸ ۔(لیکن روز قیامت تک نہیں بلکہ ) معین دن اور وقت تک۔

۳۹ ۔ اس نے کہا : پروردگارا!چونکہ تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں مادی نعمتوں کو زمین میں ان کی نگاہ میں مزین کروں گا اور سب کو گمراہ کروں گا ۔

۴۰ ۔مگر تیرے مخلص بندے ۔

۴۱ ۔ (اللہ نے) فرمایا:یہ میری مستقیم اور سیدھی راہ ہے ( ہمیشہ کی سنت ہے ) ۔

۴۲ ۔(کہ) تو میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں کرسکے گا مگر وہ گمراہ جو تیری پیروی کریں گے ۔

۴۳ ۔اور جہنم ان سب کی وعدہ گاہ ہے ۔

۴۴ ۔اس کے سات دروازے ہیں اور ہر در وازے کے لئے ان میں سے ایک معین گروہ تقسیم شدہ ہے ۔

تفسیر

خلقت ِ انسان

گذشتہ آیات میں مخلوق خدا کے ایک حصے اور نظام ِہستی کا بیان تھا ۔ اسی مناسبت سے ان آیات میں تخلیق کے عظیم شاہکار یعنی انسان کی خلقت کو بیان کیا گیا ہے ۔ متعدد پر معنی آیات کے ذریعے اس خلقت کے بہت سے پہلوؤں کو واضح کیا گیا ہے ۔

ہم پہلے تو آیات کی اجمالی تفسیر بیان کرتے ہیں اس کے بعد اہم نکات پر علیحدہ علیحدہ بحث کریں گے ۔

ارشاد ہوتا ہے ہم نے انسان کو صلصال سے ( یعنی اس مٹی سے جو خشک شدہ ہو اور کسی چیز سے ٹکراتے وقت آواز دیتی ہو ) پیدا کیا ہے کہ جو

حماٍمّسنون ( سخت تاریک ،متغیر اور بد بو دار کیچڑ ) سے لی گئی ہے( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ ) ۔

اور اس سے پہلے” جنّوں “کو ہم نے گرم اور جلانے والی آگ سے پیداکیاہے( وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ ) ۔

”سموم“ لغت میں جلانے والی ہوا کے معنی میں ہے گویایہ ہوا انسانی جسم کے تمام سوراخوں سے نفوذ کرتی ہے کیونکہ عرب انسانی جسم کے بہت ہی چھوٹے سوراخوں کو ”مسام“ کہتے ہیں ۔” سموم “ بھی اسی مناسبت سے ایسی ہوا کوکہا جاتا ہے مادہ ”سم “ (زہر)بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ بد ن میں نفوذ کرکے وانسان کو قتل کردیتی ہے یا بیمار کردیتی ہے ۔

جنوں نے ذکر کے بعد قرآن پھر خلقتِ انسان کے موضوع کی طرف لوٹتا ہے ۔ فرشتوں سے اللہ تعالیٰ کی خلقت ِ انسان کے بارے میں جو پہلی گفتگو ہو ئی اسے یوں بیان کیا گیا ہے :یاد کرو وہ وقت جب تیرے پر وردگار نے فرشتوں سے کہا ، فرمایا : میں بشر کو تاریک رنگ بد بو دار کیچڑ سے لی گئی خشک مٹی سے پیدا کروں گا( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ ) ۔

جب میں اس کی خلقت کو انجام و کمال تک پہنچالوں اور اور اپنی ( ایک شریف پاک اور باعظمت ) روح ان میں پھونک دوں تو سب کے سب اسے سجدہ کرنا( فَإِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ ) ۔

خلقت انسان تکمیل کو پہنچ گئی اور انسان کے لئے جو جسم و جان مناسب تھا اسے دے دیا گیا اور سب کچھ انجام پاگیا “تو اس وقت تمام فرشتوں نے بلا استثناء سجدہ کیا( فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّهُمْ اٴَجْمَعُونَ ) ۔

وہ تنہا شخص جس نے اس فرمان کی اطاعت نہ کہ وہ ”ابلیس“تھا لہٰذا مزید فرمایا: سوائے ابلیس کے کہ جس نے ساجدین کے ساتھ ہونے سے نکار کیا( إِلاَّ إِبْلِیسَ اٴَبَی اٴَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ ) ۔

اس موقع پر ابلیس سے باز پرس کی گئی اور خدا نے ”اس سے کہا “ اے ابلیس !تو ساجدین میں کیوں شامل نہیں ہے( قَالَ یَاإِبْلِیسُ مَا لَکَ اٴَلاَّ تَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ ) ۔

ابلیس کو جو غرور اور خود خواہی میں ایسا غرق تھا کہ اس کی عقل و ہوش غائب ہو چکے تھے ، پر وردگار کی پرستش کے جواب میں بڑی گستاخی سے بولا ”میں ہر گزایسے بشر کو سجدہ نہیں کروں گا جسے تو بدبو دار اور کیچڑ سے لی گئی خشک ٹی سے پیدا کیا ہے “( قَالَ لَمْ اٴَکُنْ لِاٴَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ ) ۔

نورانی اور چمکنے والی آگ کہاں اور سیاہ او متعفن مٹی کہاں ۔ کیا مجھ جیسا ایک اعلیٰ موجود پست ترموجود کے سامنے خضوع کرسکتا ہے ، یہ کونسان قانون ہے ؟

وہ چونکہ غرور اور خود خواہی کے باعث خلقت و آفرینش کے اسرا بے خبر تھا اور خاک کی بر کات کو فراموش کر چکا تھا کہ جو ہر خیر و بر کت کا منبع ہے اور اس سے بڑھ کر وہ شریف اور عظیم الٰہی روح تھی جو آدم میں موجود تھی اور اس نے اسے لائق اعتناء نہ سمجھا ۔اچانک اپنے بلند مقام سے گر پڑااب وہ اس لائق نہ رہا تھا کہ صفِ ملائکہ میں کھڑا ہوسکے لہٰذا خدا تعالیٰ نے اسے فوراً فرمایا :یہاں سے( بہشت سے یا آسمانوں سے یا ملائکہ کی صفوں سے ) باہر نکل جاکہ تو راندہ درگاہ ہے( قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّکَ رَجِیم ) ۔

اور جان لے کہ تیرا غرور تیرے کفر کا سبب بن گیا ہے اور اس کفر نے تجھے ہمیشہ کے لئے دھتکارا ہوا کردیا ہے تجھ پر روز قیامت تک خدا کی لعنت اور رحمت ِخدا سے دوری ہے( وَإِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَةَ إِلَی یَوْمِ الدِّینِ ) ۔

ابلیس نے جب اپنے آپ کو با رگاہ ِ الہٰی سے دھتکارا ہوا پایا اور احساس کیا کہ انسان اس بد بختی کا سبب بنا ہے تو کینہ کی آگ اس کے دل میں بھڑک اٹھی اور اس نے اولاد آدم سے انتقام لینے کی ٹھان لی حالانکہ اصلی مجرم وہ خود تھا نہ کہ آدم اور نہ فرمانِ خدا لیکن غرور اور خود خواہی نے جس میں اس کی ہٹ دھرمی بھی شامل تھی اس حقیقت کو سمجھنے کی اجازت نہ دی ۔لہٰذا اس نے عرض کیا پر وردگارا!: اب جب معاملہ ایسا ہے تو مجھے روز قیامت تک مہلت دے دے ۔( قَالَ رَبِّ فَاٴَنْظِرْنِی إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ۔

یہ تقاضااس لئے نہ تھا کہ وہ توبہ کرے ، اپنے کئے پر پشمان ہو یا تلافی کے در پے ہو بلکہ اس لئے تھا کہ اپنی ہٹ دھرمی ، عناد ، دشمنی اور خیرہ سری کو جاری رکھ سکے ۔ خدا نے اس کی خواہش کو قبول کرلیا اور فرمایا”یقینا تو مہلت یافتہ افراد میں سے ہے “( قَالَ فَإِنَّکَ مِنْ الْمُنْظَرِینَ ) ۔لیکن روز قیامت مخلوق کے مبعوث ہونے تک کے لئے نہیں بلکہ جیسا کہ تو نے چاہا ہے بلکہ معین وقت اور زمانے کے لئے( إِلَی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ) ۔

اس بارے میں کہ ”یوم الوقت المعلوم “سے کونسادن مراد ہے مفسرین نے کئی ایک احتمالات ذکر کئے ہیں :

بعض نے کہا کہ اس سے مراد اس جہاں کا اختتام ہے اور ذمہ داری کے دو ر کا خاتمہ ہے کیونکہ قرآن کی آیات کے ظاہری مفہوم کے مطابق اس کے بعد تمام مخلوق نا بود ہو جائے گی اور صرف خدا کی ذات باقی رہ جا ئے گی ، لہٰذا ابلیس کی در خواست ایک حد تک قبول کی گئی ۔

بعض دوسرے مفسرین نے کہا ”وقت معلوم “ سے ایک معین زمانہ مراد ہے جسے خدا جانتا ہے او ر اس کے علاوہ کوئی اس سے آگاہ نہیں ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ اسے واضح کردیتا تو ابلیس کو گناہ و سر کشی کی زیادہ تشویق ہوتی ۔

بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا کہ اس سے مراد یوم قیامت ہے کیونکہ وہ اس دن تک زندہ رہنا چاہتا تھا تاکہ حیات جاوید پائے اور اس کی بات مان لی گئی خصوصاً جبکہ سورہ واقعہ کی آیہ ۵۰ میں ”یوم الوقت المعلوم “ کی تعبیر روز قیامت کے بارے میں بھی آئی ہے لیکن یہ احتمال بہت ہی بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو خدا نے اس کی درخواست کو مکمل طور پر موافقت کی ہوتی جبکہ مندرجہ بالا آیات کاظاہری مفہوم یہ ہے کہ اس کی درخواست کی پوری موافقت نہیں کی گئی ہے اور صرف” یوم وقت المعلوم “ تک در خواست مانی گئی ہے۔

بہر حال پہلی تفسیر آیت کی روح اور ظاہری مفہوم کے ساتھ زیادہ موافقت رکھتی ہے اور امام صادق علیہ السلام سے منقول بعض روایات میں بھی اس معنی کی تصریح کی گئی ہے ۔(۱)

اس مقام پر ابلیس نے اپنی باطنی نیت کو آشکار کر دیا ، اگر چہ خدا سے کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی تاہم وہ کہنے لگا :” پروردگار ا!اس بناء پر کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے ( اور اس انسان نے میری بدبختی کا سامان فراہم کیا ہے )میں زمین کی مادی نعمتوں کو ان کی نگاہ مین دلفریب بناؤں گا اور انسانو ان میں مشغول رکھو گا اور آخرکار سب کو گمراہ کر کے رہوں گا( قَالَ رَبِّ بِمَا اٴَغْوَیْتَنِی لَاٴُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاٴَرْضِ وَلَاٴُغْوِیَنَّهُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

لیکن وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس کے وسوسے خدا کے مخلص بندو کے دل ہر گز اثر انداز نہیں ہوں گے او ا س کے جال انھیں نہیں پھانس سکیں گے ۔ خلاصہ یہ کہ خالص و مخلص بندے اس قدر طاقت ور ہیں کہ شیطانی زنجیریں توڑ ڈالیں گے ۔

لہٰذا فوراً اپنی بات میں استثناء کرتے ہوئے اس نے کہا :مگر تیرے وہ بندے جو خالص شدہ ہیں( إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْهُمْ الْمُخْلَصِینَ ) ۔

وااضح رہے کہ خدا نے شیطان کو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ ابلیس کی یہ بات شیطنت آمیز تھی ، اصطلاح کے مطابق اپنے آپ کو بری قرار دینے کے لئے اور گمراہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرنے کے لئے اس نے یہ بات کی تھی اور یہ سب ابلیسوں اور شیطانوں کی رسم ہے اولاًوہ اپنے گناہ دوسروں کے سر ڈال دیتے ہیں اور ثانیاًہر جگہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے برے اعمال کی غلط توجیہ پیش کریں نہ صرف بندگان خداکے سامنے بلکہ خود خدا کے سامنے بھی کہ جو ہر چیز سے آگاہ ہے ۔

ضمنا ً توجہ رہے کہ ”مخلصین “ ”مخلَص“(لام کی فتح کے ساتھ )جیسا کہ ہم سورہ کی تفسیرمیں بیان کر چکے ہیں کہ ”مخلص“ اس شخص کو کہتے جو ایمان و عمل کے اعلیٰ درجہ پرتعلیم و تربیت اور جہاد نفس کے بعد پہنچا ۔ جس پر شیطان اور کسی اور کے بھی وسوسوں کا کوئی اثر نہ ہو ۔(۲)

خدا نے شیطان کی تحقیر اور اور راہِ حق کے متلاشیوں اور طریق ِ توحید کے راہیوں کی تقویت کے لئے فرمایا:یہ میری مستقیم راہ ہے( قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ ) ۔

تو میرے بندوں پر کوئی تسلط نہیں رکھتا مگر وہ کہ جو ذاتی طور پر تیری پیروی کریں( إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْغَاوِینَ ) ۔

یعنی در حقیقت تو لوگو ں کو گمراہ نہیں کرسکتا بلکہ یہ تو منحرف انسان ہیں جو اپنے ارادے اور رغبت سے تیری دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور تیری نقش قدم ہر چلتے ہیں ۔

دوسرے لفظوں میں یہ آیت انسانوں کے ارادے کی آزادی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ واضح کرتی ہے کہ ابلیس اور اس کا لشکر کسی کو زبر دستی برائی کی طرف کھینچ کر نہیں لے جاتا بلکہ یہ خود انسان ہی ہیں جو اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور اپنے دل کا دریچہ اس کے لئے کھولتے ہیں اور اسے مداخلت کی اجازت دیتے ہیں خلاصہ یہ کہ شیطانی وسوسے اگر چہ موثر ہیں لیکن آخری فیصلہ شیطان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خود انسان کے بس میں ہے کیونکہ انسان اس کے مقابلے کھڑاہو کر اسے ٹھکرا سکتا ہے ۔ درحقیقت خدا تعالیٰ شیطان کے دفاع سے یہ خیال باطل اور تصور خام نکال دینا چاہتا ہے کہ وہ بلامقابلہ انسان پر حکومت حاصل کرلے گا ۔

اس کے بعد شیطان کے پیروں کاروں کو نہایت صریح دھمکی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جہنم ان کے سب کی وعدہ گاہ ہے( وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

یہ گمان نہ کریں کہ وہ سزا اور عذاب کے چنگل سے فرار کر سکیں گے یا معاملہ ان کے حساب و کتاب تک نہیں پہنچے گا ان سب کے حساب کتاب کی ایک ہی جگہ اور ایک ہی مقام پر دیکھ بھال کی جائے گی ۔

وہی دوزخ کے جس کے سات دروازے ہیں اور ہر در وازے کے لئے شیطان کے پیروکاروں کاایک گروہ تقسیم ہوا ہے( لَهَا سَبْعَةُ اٴَبْوَابٍ لِکُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ ) ۔

یہ دحقیقت گناہوں کے دروازے ہیں جن کے ذریعے مختلف افراد دوزخ میں داخل ہوں گے ۔ ہر گروہ ایک گناہ کے ارتکاب کے ذریعے ایک در سے دوزخ میں جائے گا ۔جیسا کہ جنت کے دروازے اطاعتیں ، اعمال صالح اور مجاہدات ہیں کہ جن کے ذریعے لوگ بہشت میں داخل ہو ں گے ۔

____________________

۱۔نور الثقلین جلد ۳ صفحہ ۱۳، حدیث ۴۵۔

۲۔تفسیر نمونہ جلد ۹ ،ص( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع کریں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔تکبرعظیم بدبختیوں کا سر چشمہ

ابلیس اور خلقت آدم (علیہ السلام) کی داستان قرآن کی مختلف سورتوں میں آئی ہے اس میں اہم ترین نکتہ ابلیس کا تکبر کی وجہ سے انتہائی بلند مقام سے محروم ہو جانا ہے کہ جس پر وہ فائز تھا ۔

ہم جانتے ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے نہیں تھا ( جیسا کہ سورہ کہف کی آیہ ۵۰ سے معلوم ہوتا ہے )لیکن اس نے اطاعت الہٰی کے ذریعے ایسا بلند مقام حاصل کر لیا تھا کہ ملائکہ کی صفوں میں شامل ہوگیا تھا بلکہ یہاں تک کہ بعض کہ بقول فرشتوں کا معلم بن گیا تھا اور جیسا کہ نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ سے معلوم ہوتا ہے اس نے ہزار سال خدا کی عبادت کی تھی لیکن وہ یہ تمام مقامات گھڑی بھر کے تکبر کے باعث کھو بیٹھا اور خود پرستی اور تعصب میں ایسا گرفتار ہوا کہ عذر خواہی اور توبہ کی طرف نہ لوٹا بلکہ اس نے اپنا کام ایسی طرح جاری رکھا اور ہٹ دھرمی کے راستے پر ایسا جما رہا کہ اس نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اولاد آدم میں سے تمام ظالموں او گنہ گاروں کے جرائم میں وسوسہ ڈال کر شرکت کرے گا اور ان سب کے کیفر کردار

یہ ہے خود خواہی ، غرور ، تعصب ، خود پسندی اور استکبار کا نتیجہ ۔

نہ صر ف ابلیس بلکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے شیطان صفت انسانوں کو دیکھا ہے یا ان کے حالات تاریخ کے سیاہ صفحات میں دیکھے ہیں کہ جس وقت وہ غرور و تکبر اور خود غرضی کے مرکب پر سوار ہوئے تو انہوں نے ایک دنیا کو خاک و خون میں غلطاں کردیا گویا آنکھوں میں اترے ہوئے خون اور جہالت کے پردے نے ان کے ظاہری اور باطنی آنکھوں کو بیکار کردیااور وہ کسی حقیقت کو نہ دیکھ پائے ۔ انہوں دیوانہ اور ظلم و جور کی راہ میں قدم اٹھا یا اور آخر کار اپنے آپ کو بد ترین گرھے میں گرا دیا یہ غرور و تکبر جلا ڈالنے والی اور وحشت ناک آگ ہے جیسا کہ ہوسکتا ہے کہ ایک انسان سالہا سال محنت و مشقت کرے ، گھر بنائے اس کا سا ز و سامان جمع کرے اور زندگی گذار نے کا سرمایہ فراہم کرے لیکن اس کی تمام محنتوں کا ماحصل آگ کا صرف ایک شعلہ چند لمحوں میں خاکستر بنادے ۔ اسی طرح پوری طرح ممکن ہے کہ ہزار ہا سال کی محنتوں کا ماحصل خدا کے سامنے ایک گھڑی کے غرور کے باعث کھو بیٹھے اس سے بڑھ کر واضح اور ہلادینے والا سبق اور کیا ہوگا ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کی توجہ اپنے واضح اور روشن نکتے کی کی طرف بھی نہ تھی کہ آگ خا ک پربر تری نہیں رکھتی کیونکہ تمام بر کات کا سر چشمہ خاہے ۔ نباتات ،حیوانات ، معدنیات، سب کا تعلق مٹی سے ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کے مقامات اسی کے ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ ہر زندہ موجود کی پیدا ئش سر چشمہ خاک ہے لیکن آگ کا کام جلانا ہے بہت مواقع پر ویرانی اور تباہی و بر بادی کاسبب بن جاتی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام اسی خطبہ قاصعہ میں ابلیس کو”عد و الله “ ( دشمن خدا ) امام المتعصبین ( متعصب اور ہٹ دھرم لوگوں کا پیشوا ) اور سلف المتکبرین (متکبرین کا بزرگ ) کہہ کر پکار تے ہیں اور فرماتے ہیں : اسی لئے خدا نے عزت کا لباس اس کے بدن سے اتار دیا اور ذلت کی چادر اس کے سر پر ڈال دی ۔

اس کے بعد مزید فرماتے ہیں :

الا ترون کیف صغره الله بتکبره ، ووضعه بترفعه ، فجعله فی الدنیا مد حوراًو اعدله فی الاٰخره سعیراً

کیا دیکھتے نہیں ہو کہ کس طرح خدا نے اس سے اس کے تکبر کی وجہ سے حقیر اور چھوٹا کردیا اور بر تری کی خواہش کے سبب اسے پست کریا وہ دنیا میں راندہ در گاہ ہوا اور دار آخرت میں اس کے لئے دردناک عذاب فراہم کیا ۔(۳)

ضمنی طورپر جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے ابلیس مکتب جبر کا بانی و مبانی ہے وہ مکتب جو ہر انسان کے وجدان کے خلاف ہے اور اس کے پیدا ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کہ گنہ گار انسان اپنے اعمال سے اپنے آپ کو بری ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ مندرجہ بلا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ ابلیس نے اپنی برات کے لئے او ر یہ ثابت کر نے کے لئے کہ اولاد آدم (علیہ السلام)کو گمراہ کرنے کی کوشش کا حق رکھتا ہے ، اسی عظیم گنا ہ کا رتکاب کیا اور کہا : خدا وند ا! تو نے مجھے گمراہ کیا ہے لہٰذا میں بھی اسی بناء پر مخلصین کے علاوہ تمام اولاد آدم کو گمراہ کروں گا ۔

____________________

۳۔نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔

آیت ۹

۹( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون )

ترجمہ

۹ ۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم قطعی طور پر اس کی حفاظت کریں گے ۔

تفسیر

قرآن کی حفاظت

کفار نے بہت بہانہ سازیاں کیں ۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور قرآن کے بارے میں استہزا کیا ۔ گذشتہ آیات میں اس کا ذکر موجود ہے اس کے بعد زیر بحث آیت میں ایک عظیم اور نہایت اہم حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ یہ بیان حقیقت ایک طرف تو پیغمبر اکرم کی دلجوئی کے لئے ہے اور ہم یقینی طور پر اس کی حفاظت کریں گے (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) ۔

ایسا نہیں کہ یہ قرآن کسی یاور و مددگار کے بغیر ہے اور وہ اس کے آفتابِ وجود کو کیچڑ سے چھپادیں گے یا اس کے نور کو پھونکوں سے بجھا دیں گے یہ تو وہ چراغ ہے جسے حق تعالیٰ نے روشن کیا ہے اور یہ وہ آفتاب ہے جس کے لئے غروب ہونا نہیں ہے ۔

یہ چند ایک افراد اورناتواں گروہ تو معمولی سی چیز ہے اگر دنیا بھر کے جابر ، اہل اقتدار، سیا ستداں ، ظالم، منحرف، اہل فکراور جنگ آزما جمع ہو جائیں او ر اس کے نو رکو بجھا نا چاہیں تو وہ بھی ایسانہیں کرسکیں گے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے اوپرلے رکھا ہے ۔

یہ کہ قرآن کی حفاظت سے مراد کن امور کی حفاظت ہے اس سلسلے میں مفسریں کے مختلف اقوال ہیں :

۱ ۔ بعض نے کہا ہے کہ تحریف و تغیر اور کمی بیشی سے حفاظت مراد ہے ۔

۲ ۔ بعض نے کہا ہے کہ آخر دنیا تک فطا و نابودی سے حفاظت مراد ہے ۔

۳ ۔ بعض دیگر نے کہاہے کہ قرآن کے خلاف گمراہ کرنے والی منطق کے مقابلے میں حفاظت مراد ہے ۔

لیکن یہ تفاسیر یہ صرف کہ یہ ایک دوسرے سے تضاد نہیں رکھیتیں بلکہ ” انا لہ لحٰفظون“ کے عام مفہوم میں شامل ہیں تو پھر کیوں ہم اس محافظت کو ایک کونے میں محصور کردیں جبکہ یہ مطلق طور پر اور اصطلاح کے مطابق حذف متعلق کے ساتھ آئی ہے حق یہ ہے کہ اس آیت کے ذریعے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ قرآن کی ہر لحاظ سے حفاظت و نگہداری کرے گا اسے ہر قسم کی تحریف سے بچائے گا ۔

اسے فنادی نابودی سے محفوظ رکھے گا اور وسوسے پیدا کرنے والے سوفسطائیوں اور بد یہات کے منکردین سے اس کی محافظت کرے گا ۔

باقی رہا بعض قدماء مفسرین کا یہ احتمال کہ یہاں ذاتِ پیغمبر مراد ہے اور” لہ“ کی ضمیر پیغمبر کی طرف لوٹتی ہے ، کیونکہ قرآن کی بعض آیات ( مثلاً طلاق(۱) میں لفظ ”ذکر “ کا اطلاق ذاتِ پیغمبر پر ہوا ہے یہ بہت بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ زیر بحث آیت سے قبل آیت میں لفظ ” ذکر “ صراحت کے ساتھ قرآن کے معنی میں آیا ہے ۔ او ریہ مسلم ہے کہ یہ بعد والی آیت اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

عدم تحریف ِقرآن

تمام شیعہ سنی علماء مشہور و معروف یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی اور جو قرآن آج ہمارے ہاتھ میں ہے ، بالکل وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم پر نازل ہوا، یہاں تک کہ اس میں کوئی لفظ اور کوئی حرف بھی کم یا زیادہ نہیں ہوا ۔

قدماء اور متاخرین میں سے وہ عظیم شیعہ علماء کہ جنہوں نے اس حقیقت کی تصریح کی ہے ان میں سے کوئی حسب ذیل علماء کے نام لئے جاسکتے ہیں :

مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے اپنی مشہورکتاب ”تفسیر بیان “ کے آغاز میں اس سلسلے میں روشن واضھ اور قطعی بحث کی ہے ۔

۲ ۔ سید مرتضیٰ جو چوتھی صدی ہجری کے اعاظم علما ء امامیہ میں سے ہیں ۔

۳ ۔ رئیس المحدثین مرحوم صدوق محمد بن علی بن بابویہ وہ عقائد امامیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔” ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہوئی “۔

۴ ۔ عظیم مفسر مرحوم طبرسی سے بھی اپنی تفسیر کے مقدمہ میں اس سلسلے میں ایک واضح بحث کی ہے ۔

۵ ۔ مرحوم کاشف الغطاء جو بزرگ علماء متاخرین میں سے ہیں ۔

۶ ۔ مرحوم محقق یزدی نے کتاب عررہ الوثقیٰ میں جمہور مجتہدین شیعہ سے عدم تحریف قرآن نقل کیا ہے ۔

۷ ۔ بہت سے دوسرے بزرگواروں مثلاً شیخ مفید ، شیخ بہائی ، قاضی نور اللہ اور دیگر شیعہ محققین نے یہی عقیدہ نقل کیا ہے ۔ اہل سنت کے بزرگ اور محققین بھی زیادہ تر یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔

اگر چہ بعض شیعہ اور سنی محدثین کہ جن کی اطلا عات قرآن کے کے بارے میں ناقص تھیں انھوں نے قرآن میں وقوعِ تحریف کا ذکر کیا ہے لیکن دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی وضاحت سے یہ عقیدہ باطل قرار پاکر فراموش ہو چکا ہے ۔

یہاں تک کہ مرحوم سید مرتضیٰ ”المسائل الطرابلسیات“ کے جواب میں کہتے ہیں :

”صحت نقل قرآن دنیا کے مشہور شہروں ، تاریخ کے عظیم واقعات اور مشہور معروف کتب کے بارے میں ہماری اطلا عات کی طرح واضح اور روشن ہے ۔

کیا کوئی شخص مکہ اور مدینہ یا لندن اور پیرس جیسے شہروں کے ہونے میں کوئی شک و شبہ کرسکتا ہے اگر چہ اس نے کبھی بھی ان شہروں کی طرف سفر نہ کیا ہو ۔

کیا کوئی شخص ایران پر مغلوں کے حملے ، فرانس کے عظیم انقلاب یا پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا منکر ہو سکتا ہے ۔

ایسا کیوں نہیں ہوسکتا اس لئے یہ تمام چیزیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں ۔

قرآن کی آیات بھی اسی طرح ہیں اس تشریح کے ساتھ کہ جو ہم بعد میں بیان کریں گے ۔

اگر بعض افراد نے اپنے مفادات کی غرض سے شیعہ سنی میں تفرقہ ڈالنے کے لئے شیعوں کی طرف تحریف کے اعتقاد کی نسبت دی ہے تو ان کے دعوی کے بطلان کی دلیل علماء شیعہ کی بڑی اور عظیم کتب ہیں ۔

یہ بات عجب نہیں کہ فخر رازی جیسا شخص کہ جو شیعوں سے مربوط مسائل میں خاص حساسیت اور تعصب رکھتا ہے محل بحث آیت کے ذیل میں کہتا ہے کہ یہ آیت ”( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) “مذہب شیعہ کے بطلان کی دلیل ہے کیونکہ وہ قرآن میں تغیر اور کمی بیشی کے قائل ہوتے ہیں ۔

ہم صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس کی مراد بزرگان اور محققین شیعہ ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اس قسم کاعقیدہ نہیں رکھتا تھا اور نہ رکھتا ہے اور اگر ا س کی مراد یہ ہے کہ اس سلسلے میں میں شیعوں کے درمیان ایک ضعیف قوم موجود ہے تو اس کی نظیر اہل ِ سنت میں بھی موجود ہے کہ جس کی نہ وہ اعتناء کرتے ہیں نہ ہم۔

معروف محقق کاشف الغطاء اپنی کتاب ”کشف الغطاء“ میں کہتے ہیں :۔

لاریب انه ”ای القراٰن “ محفوظ من النقصان بحفظ الملک الدیان کما دل علیه صریح القراٰن وجماع العلماء فی کل زمان ولاعبرة بنادر ۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن کی حفاظت کے سائے میں ہر قسم کی کمی اور تحریف سے محفوظ رہا ہے جیسا کہ صریح قرآن اس پر دلالت کرتا ہے او رہر زمانے کے علماء کا اس پر اجماع رہا ہے اور شاذ و نادر افراد کی مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ( تفسیر آلاء الرحمن ص ۳۵)

تاریک اسلام نے اس قسم کی ناروا نسبتیں کہ جن کا سر چشمہ تعصب کے سوا کچھ نہیں ، بہت دیکھی ہیں ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بعض دشمنون کی طرف سے پیدا کردہ غلط فہمیاں تھیں کہ جو اس قسم کے مسائل کھڑے کرتے تھے کہ مسلمانوں کی صفوں اتحاد و حدت ہر گز بر قرار نہ رہے ۔

معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مشہور حجازی مؤلف عبد اللہ القصیمی اپنی کتاب الصراع میں شیعوں کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے :۔

شیعہ ہمیشہ سے مساجد کے دشمن تھے یہی وجہ ہے کہ جو شیعوں کے شہروں میں جائے ، شمال سے جنوب تک ، اور مشرق سے مغرب تک اسے بہت کم مساجد دکھائی دیں گی ۔(۲)

خوب غور کریں کہ ہم ان تمام مساجد کو شمار کرتے تھک جاتے ہیں کہ جو شاہراہوں ، بازاروں ، کوچوں بلکہ شیعہ محلوں میں موجود ہیں ۔ بعض مقامات پر تو ایک ہی علاقے میں اتنی مسجدیں ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بس کر، آؤ کوئی او رکام بھی کرو ۔

لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک مشہور مؤلف اس صراحت سے ایسی بات کرتا ہے جو ہم جیسے لوگوں کے نزدیک تو محض مضحکہ خیز ہے کہ جو ان مناطق اور شیعہ علاقوں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ان حالات میں اگر فخر رازی کوئی ایسی نسبت دیتا ہے تو زیادہ تعجب نہیں کرنا چاہیئے۔

عدم تحریف ِ قرآن کے دلائل

۱ ۔ حافظان قرآن :

عدم تحریف قرآن کے بارے میں ہمارے پاس بہت زیادہ دلائل و براہین موجود ہیں ان میں زیادہ واضح اور روشن زیر بحث آیت اور قرآ ن کی کچھ اور آیات کے علاوہ اس عظیم آسمانی کتاب کی تاریخ بھی ہے ۔

مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی یاد ہانی ضروری ہے کہ وہ ضعف اقلیت کہ جس نے تحریف ِ قرآن کا احتمال ذکر کیا ہے ، وہ صرف قرآن میں کمی کے سلسلے میں ہے ۔ ورنہ کسی نے بھی یہ احتمال پیش نہیں کیا کہ موجودہ قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیا گیا ہے ۔( غو ر کیجئے گا )

یہاں سے گذر کر اگر ہم اس موضوع پر غور و فکر کریں کہ قرآن مسلمانوں کے لئے کچھ تھ قانون ِ اساسی ، زندگی کا دستور العمل ، حکومت کاپروگرام ، مقدس آسمانی کتاب اور رمز عبادت سب کچھ تو قرآن تھا تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اصولی طور پر اس میں کمی بیشی کا امکان نہیں ۔

قرآن ایک ایسی کتاب تھی کہ پہلے دور کے مسلمان ہمیشہ نمازوں میں ، مسجدوں میں ،گھرون میں ، میدان جگ میں دشمن کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مکتب کی حقانیت پر استدلال کرنے کے لئے اسی سے استفادہ کرتے تھے یہان تک کہ تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم قرآن عورتوں ک اھق مہر قرار دیتے تھے اور اصولی ور پر تنہا وہ کتاب کہ جو تمام محافل کا موضوع تھی اور ہر بچے کو ابتدائے عمر سے جس سے آشنا کیا جاتا تھا اور جو شخص بھی اسلام کا کوئی درس پڑھنا چاہتا اسے اس کی تعلیم دی جاتی تھی جی ہاں وہ قرآن یہی قرآن مجید ہے ۔

کیا اس کیفیت کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو یہ شخص کویہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس آسمانی کتاب میں تغیر و تبدل ہو گیا ہو خصوصاًجبکہ ہم نے اسی تفسیر کی جلد اول کی ابتداء میں ثابت کیا ہے کہ قرآن ایک مجموعہ کی صورت میں اسی، موجود ہ صورت میں خود زمانہ پیغمبر میں جمع ہو چکا تھا اور مسلمان سختی سے اسے یاد کرنے اور حفظ کرنے کو اہمیت دیتے تھے ۔اصولی طور پر اس زمانے میں افراد کی شخصیت زیادہ تر اس بات سے پہچانی جاتی تھی کہ انھیں قرآن کی آیات کس حد تک یا د ہیں ۔

قرآن کے حافظوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ تواریخ میں ہے کہ حضرت ابو بکر کے زمانے میں ایک جنگ میں قرآن کے چار سو قاری مارے گئے تھے ۔(۱)

”بئر معونہ“ مدینہ کی نزدیکی آبادیوں میں سے تھی ۔ یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہو گی تھی ۔یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہوگئی ۔ اس جنگ میں اصحاب پیغمبر میں سے قاریانِ قرآن کی ایک کثیر جماعت نے شربت ِ شہادت نوش کیا یہ تقریباًستّر افرد تھے ۔(۲)

ان سے اور ان جیسے دیگر واقعات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حافظ و قاری اور معلمین قرآن اس قدر زیادہ تھے کہ صرف ایک میدان ِ جنگ میں ان میں سے اتنی تعداد نے جام ِ شہادت نوش کیا اور تعداد ایسی ہونا چاہئیے تھی کیونکہ ہم نے کہا ہے کہ قرآن مسلمانو کے لئے صرف قانون اساسی نہیں ہے بلکہ ان کا سب کچھ اسی سے تشکیل پاتا ہے ۔ خصوصاًابتدائے اسلام میں مسلمانوں کے پاس ا س کے علاوہ کوئی کتاب نہ تھی اور تلاوت و قرات اور حفظ و تعلیم تعلّم قرآن کے ساتھ مخصوص تھاقرآن ایک تروک کتاب نہ یہ گھر ی امسجد کے کسی کونے میں فراموشی کے گرد و غبار کے نیچے پڑی ہوئی نہ تھی کہ کوئی اس میں کمی یا زیادتی کردیتا ۔

حفظ قرآن کا مسئلہ ایک سنت اور ایک عظیم عبادت کے عنوان سے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان تھا اور ہے یہاں تک کہ قرآن ایک کتاب کی صورت میں بہت زیادہ پھیل گیا اور تمام جگہوں پر پہنچ گیا بلکہ آج بھی چھاپہ خانے کی صنعت کے وجود میں آنے کے بعد جبکہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ قرآن ہی چھپتا اور نشر ہوتا ہے پھر بھی حفظ قرآن کے مسئلے نے ایک قدیم سنت اور عظیم افتخار کے طور پر اپنی اہمیت و حیثیت کو محفوظ رکھا ہے اور ہر شہر و دیار میں ہمیشہ ایک جماعت حافظِ قرآن تھی اور آج بھی ہے ۔

اس وقت حجاز اور کئی دیگر اسلامی ممالک میں ”تحفظ القراٰن الکریم “ یا دوسرے ناموں سے ایسے مدارس موجود ہیں ، جہاں طالب علموں کو پہلے مرحلے میں قرآن حفظ کرایاجاتا ہے ۔ سفرمکہ کے دوران اس شہر مقدس میں ان مدارس ک بر براہوں سے جو ملاقات ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے ان مدارس میں بہت سے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں مشغول تحصیل ہیں ۔ جاننے والوں میں سے ایک شخص نے بتا یا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباًپندرہ لاکھ حافظان قرآن موجود ہیں ۔

جیسا کہ دائرة المعارف فرید وجدی نے نقل کیا ہے کہ جامعة الازھر مصر کی یونیورسٹی میں داخلے کی ایک شرط پورے قرآن کا حفظ ہونا ہے اس کے لئے چالیس میں سے کم کم بیس نمبر رکھے گئے ہیں ۔

مختصر یہ کہ خود آنحضرت کے حکم و تاکید سے کہ جو بہت زیادہ روایات میں آئی ہے حفظ ِ قرآن کی سنت زمانہ پیغمبر سے لے کر آج تک ہر دور میں جاری و ساری ہے ۔ کیا ایسی حالت میں تحریف ِقرآن کے بارے میں کسی احتمال کا امکان ہے ؟

۲ ۔ کاتبان وحی :

ان تمام امور کے علاوہ کاتبانِ وحی کا معاملہ بھی غور طلب ہے یہ وہ افراد تھے جو آنحضرت کے حکم اور تاکید سے آپ پر قرآن کی آیات نازل ہونے کے بعد انھیں لکھ لیتے تھے ان کی تعداد چودہ سے لے کر تنتالیس تک بیا ن کی گئی ہے ۔

ابو عبد اللہ زنجانی اپنی نہایت قیمتی کتاب”تاریخ قرآن “ میں لکھتے ہیں ۔

کان للنبی کتاباًیکتبون الوحی وهم ثلاثة و اربعون اشهر هم الخلفاء الاربعة و کان الزمهم للنبی زید بن ثابت و علی بن ابی طالب علیه السلام ۔

پیغمبر کے مختلف کاتب اور لکھنے والے کہ جو وحی لکھا کرتے تھے اور وہ تنتالیس افراد تھے کہ جن میں زیادہ مشہور خلفاء اربعہ تھے ۔ لیکن اس سلسلے میں پیغمبر کے سب سے بڑھ کر ساتھی زید بن ثابت اور علی ابن ابی طاللب علیہ السلام ۔(۳)

وہ کتاب کہ جسے اس قدر لکھنے والے تھے کیسے ممکن ہے کہ تحریف کرنے والے اس کی طرف ہاتھ بڑھاسکتے ۔

____________________

۱۔ البیان فی تفسیر القرآن ص ۲۶۰ بحوالہ منتخب کنزالعمال ۔

۲۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۵۷۔

۳۔تاریخ القرآن ص۳۴۔

۳ ۔ تمام رہبران اسلام نے اسی قرآن کی دعوت دی ہے :

یہ امر قابل توجہ ہے کہ اسلام کے عظیم پیشواؤں کے کلمات کا مطالعہ نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ابتدائے اسلام سے باہم بیک زبان لوگوں کو اسی موجودہ قرآن کی تلاوت ، مطالعہ اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے اور یہ امر خود نشاندہی کرتا ہے کہ یہ آسمانی کتاب اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر بعد تک تحریف ناپذیرمجموعہ کی صورت میں موجود ہی ہے ۔

نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کے کلمات اس دعویٰ کے زندہ گواہ ہیں ۔

خطبہ ۱۳۳ میں آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں :۔

وکتاب الله بین اظهر کم ، ناطق لایعیالسانه، و بیت لاتهدم ارکانه ، و عزلاتهزم اعوانه ۔

اور اللہ تمہارے درمیان ایسا ناطق ہے جس کی زبان کبھی گنگ نہیں ہوتی ۔ یہ ایسا گھر ہے جس کے ستون کبھی منہدم نہیں ہوتے اور یہ ایسا سرمایہ عزت ہے کے انصارکبھی مغلوب نہیں ہوتے ۔

خطبہ ۱۷۶ میں فرماتے ہیں :۔و اعلموا ان هٰذا القراٰن هو الناصح الذی الیغش والهادی الذی لایضل ۔

جان لو کہ یہ قرآن ایسا ناصح ہے جو اپنی نصیحت میں کبھی خیانت نہیں کرتا او ر ایسا ہادی ہے جوکبھی گمراہ نہیں کرتا ۔ نیز اسی خطبے میں ہے :وما جالس هٰذا القراٰن احد الاقام عنه بزیادة او نقصان،زیادة من هدی ، او نقصان من عمی ۔

کوئی شخص اس قرآن کا ہم نشین نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس سے پاس زیادتی یا نقصان کے ساتھ اٹھتا ہے ۔ ہدایت کی زیادتی یاگمراہی کی کمی ۔

اسی خطے کے آخر میں ہے :ان الله سبحانه لم یعظ احداًبمثل هٰذا القراٰن ، فانه حبل الله المتین و سببه الامین ۔

خدا نے کسی کو اس قرآن جیسی وعظ و نصیحت نہیں کی ۔ کیونکہ یہ خدا کی محکم رسی اور اس کا قابل اطمینان وسیلہ ہے ۔خطبہ ۱۹۸ میں ہے :۔ثم انزل علیه الکتاب نوراً لاتطفاٴ مصابیحة، و سراجاً لایخبوتوقده، و منها جا لا یضل نهجه و فرقاناً لایخمد بر هانه

اس کتاب کے بعد خدا نے اپنے نبی پر ایک کتاب نازل کی وہ کتاب جو خاموش نہ ہونے والا نور ہے اور جو ایسا چراغ پر فروغ ہے کہ جس میں تاریکی آہی نہیں سکتی اور یہ ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والے گمراہ نہیں ہوسکتے اور یہ حق کی باطل سے جدائی کا ایسا سبب ہے جس کی برہان خاموش نہیں ہوتی ۔

ایسی تعبیرات حضرت علی السلام اور دیگر پیشوایانِ دین کے کلمات و ارشادات میں بہت زیادہ ہیں ۔

فرض کریں کہ اگر دست تحریف اس آسمانی کتاب کی طرف بڑھا ہوتا تو کیا پھر بھی ممکن تھا کہ اس کی طرف دعوت دی جاتی ۔ اور اسے راہ کشا ، حق کی باطل جدائی کا ذریعہ ، نہ بجھنے والانور ، خاموش نہ ہونے والا چراغ، خدا کی محکم رسی اور اس کا امین و قابل اطمینان وسیلہ قرار دے کر تعارف کروایا جاتا ۔

۴ ۔ آخری دین اور ختم نبوت کا تقاضا :

۔ اصولی طور پر پیغمبر اسلام کی خاتمیت قبول کرلینے کے بعد اور یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ دین اسلام آخری خدائی دین ہے اور قرآن کا پیغام دنیا کے خاتمے تک بر قرار رہے گا کس طرح یہ باور کیا جا سکتا ہے خدا اسلام اور پیغمبر خاتم کی اس واحد سند کی حفاظر نہیں کرے گا ۔

اسلام کے ہزاروں سال کے بعد باقی رہنے ، جاوداں ہونے اور آخری دنیا تک رہنے کے ساتھ کیا تحریف ِ قرآن کاکوئی مفہوم ہو سکتا ہے ؟

۵ ۔ روایات ِ ثقلین :

۔ روایات ثقلین کہ جو طرق معتبر و متعدد ہ سے پیغمبر اسلام سے نقل ہوئی ہیں قرآن کی اصالت اور ہر قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ رہنے پر ایک ایک اور دلیل ہیں کیونکہ ان روایات کے مطابق پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :

میں تمہارے درمیان میں سے جارہاہوں اور دو گرانمایہ چیزیں تماہرے لئے بطور یاد گار چھوڑے جارہاہوں ، پہلی اور دوسری میری اہل بیت ۔ اگر تم نے ان کا دامن نہ چھوڑا ، تو ہ رگز گمراہ نہیں ہوگے ۔(۱)

____________________

۱۔حدیث ثقلین متواتر احادیث میں سے ہے یہ حدیث اہل سنت کی بہت سے کتب میں صحابہ کی ایک جماعت کی وساطت سے پیغمبر اکرم سے نقل ہوئی ہے ان صحابہ میں ابو سعید خدری ، زید بن ارقم ، زید بن ثابت، ابو ہریرہ ،حذیفہ بن اسید ، جابر بن عبد اللہ انصاری ، عبد اللہ حنطب، عبدبن حمید، جبیر بن مطعم ، ضمرہ اسلمی ، ابوذر غفاری ، ابو رافع اور ام سلمہ وغیرہ شامل ہیں ۔

کیا ایسی با ت کسی ایسی کتاب کے لئے صحیح ہے جو تحریف کا شکار ہو گئی ہو ۔

۶ ۔ قرآن جھوٹی اور سچی روایات کے لئے کسوٹی ہے :

ان سب پہلوؤں سے قطع نظر قرآن کا تعارف سچی اور جھوٹی روایات و احادیث کو پرکھنے کے لئے معیار کے طور پر کروایا گیا ہے بہت سے روایات کہ جو منابع اسلام میں آئی ہیں ان میں سے کہ جو حدیث کے سچے یا جھوٹے ہونے کے بارے میں شک کرو اسے قرآن کے سامنے پیش کرو، جو حدیث کے موافق وہ حق ہے اور جو حدیث اس کے مخالف ہے وہ باطل اور غلط ہے ۔

فرض کریں کہ قرآن میں کمی کے لحاظ سے ہی تحریف ہوتی تبب بھی ہر گز ممکن نہ تھا کہ اس کا تعارف حق و باطل کو پرکھنے کی کسوٹی کے طور پر کر وایا جاتا ۔

روایات ِ تحریف

مسئلہ تحریف کے بارے میں جو بعض لوگوں کے ہاتھ اہم ترین دستاویز ہے وہ ایسی مختلف روایات ہیں جن کا حقیقی مفہوم نہیں سمجھا گیا یا پھر ان کی سند کے بارے میں تحقیق نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس قسم کی بری تعبیر وجود میں آئی ہے ۔

ایسی روایات مختلف قسم کی ہیں :

۱ ۔ ایسی روایات جن میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے قرآن جمع کرنا شروع کیا جب اسے جمع کرچکے تو اسے صھابہ کے ایک گروہ کے پاس لے آئے انہوں نے مقامِ خلافت کے ارد گرد کو گھیر رکھا تھا ۔ آپ نے پیش فرمایا تو انھوں نے اسے قبول نہ کیا اس پر حضرت علی (علیہ السلام) نے کہا :پھر تم اسے کبھی نہ دیکھو گے ۔

لیکن ان روایات میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس جو قرآ تھا وہ دوسرے قرآنوں سے مختلف نہیں تھا ۔ البتہ تین چیزوں کا فرق تھا ۔

پہلا یہ کہ اس کی آیات اور سورتیں ترتیب ِ نزولی کے مطابق منظم کی گئی تھیں ۔

دوسرا یہ کہ ہر آیت اور سورة کی شان ِ نزول اس کے ساتھ لکھی گئی تھی ۔

تیسرا یہ کہ جو تفاسیر آپ نے پیغمبر اکرم سے سنی تھیں وہ اس میں درج تھیں ، نیز اس میں آیاتِ ناسخ و منسوخ کی نشاندہی بھی کی گئی تھی ۔

لہٰذا وہ قرآن جو حضرت علی علیہ السلام نے جمع کیا تھا اس میں اس قرآ ن سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہ تھی اور جو چیز زیادہ تھہ تھی وہ تفسیر تاویل ، شان ِ نزول اور ناسخ و منسوخ کی تمیز وغیرہ تھی دوسرے لفظوں میں وہ قرآن بھی تھا اور قرآن کی اصلی تفسیر بھی تھی ۔

کتاب سلیم بن قیس میں ہے :۔

ان امیر المؤمنین (علیه السلام) لما رای غدر الصحابة وقلة و فائهم لزم بیته، و اقبل علی القرآن ، فلما جمعه کله، وکتابه بیده، و تاٴویله الناسخ و المنسوخ، بعثت الیه ان اخرج فبایع، فبعث الیه انی مشغول فقد آلیت علی نفسی لا ارتدی بردائی الا لصلاة حتی اؤلف القراٰن و اجمعه ۔(۱)

جس وقت امیر المومومنین (علیہ السلام) نے صحابہ کی بے وفائی اور دوستوں کی کمی دیکھی تو گھر نہ چھوڑا اور قرآن کی طرف توجہ ہوئے آپ قرآن جمع کرنے اور اسے اپنے ہاتھ سے لکھنے میں مشغول ہوگئے یہان تک کہ تاویل اور ناسخ و منسوخ سب کو جمع کرلیا اس دورانمیں انہوں نے آپ کے پاس کسی کو بھیجا کہ گھرسے باہر نکلےں اور بیعت کریں آپ نے جواب میں کہلابھیجا کہ مشغول ہو ں ، میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک قرآن جمع نہ کرلوں سوائے نماز کے عباکندے پر نہیں ڈالوں گا ۔

۲ ۔ روایات کی دوسری قسم وہ ہے جو تحریف معنوی کی طرف اشارہ کرتی ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تحریف تین طرح کی ہے :۔

۱ ۔ تحریف لفظی

۲ ۔ تحریف معنوی

۳ ۔ تحریف معنوی

۱ ۔ لفظی یہ ہے کہ قرآن کے الفا اور عبارت میں کمی بیشی اور تغیر کیا جائے اور یہ وہ تحریف ہے جس کا ہم اور تمام محققین ِ اسلام شدت سے انکار کرتے ہیں ۔

۲ ۔ تحریف معنوی یہ ہے کہ آیت کا معنی اور تفسیر اس طرح سے کی جائے کہ وہ اس کے حقیقی مفہوم کے برخلاف ہو ۔

۳ ۔ تحریف عملی یہ ہے کہ اس کے خلاف عمل کیا جائے ۔

مثلاً تفسیر علی بن ابراہیم میں ابو ذر منقول ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی :۔

یوم بیض وجوه و تسودوجوه

جس دن کچھ لوگوں کے چہرے تو سفید ہوں گے اور کچھ کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔ (آلِ عمران ۱۰۶) ۔

تو پیغمبر نے فرمایا:۔

روز قیامت لوگوں سوال کیا جائے گا تم تم نے ثقلین ( قرآن و عترتِ پیغمبر ) کے ساتھ کیا سلوک کیا تو لوگ کہیں گے :اما الاکبر فحرقناه،ونبذناه وراء طهورن

ہم نے ثقل اکبر ( قرآن ) کی تحریف کی اور اسے پس پشت ڈال دی

واضح ہے کہ یہاں تحریف سے مراد وہی مفہوم قرآن کو دگر گوں کرنا اور اسے پس، پشت ڈال دیناہے ۔

۳ ۔ تیسری قسم ان روایات کی ایسی روایا ت ہیں ۔ یہ روایات دشمنوں ، منحرفوں یا ناداں نے قرآن کو بے اعتبار کرنے کے لئے گھڑی ہیں مثلاً وہ متعدد روایات جو احمد بن سیاری سے نقل ہوئی ہیں کہ جن کی تعداد ایک سو اٹھاسی (یہ تعداد کتاب”برہان روشن“ کے مؤلف نے لکھی ہے ) ۔ تک جاپہنچی ہے ۔ مرحوم حاجی نوری نے کتاب ”فصل الخطاب“ میں انھیں فروانی سے نقل کیا ہے ۔

ان احادیث کاراوی سیاری بہت سے بزرگ علماء ِ رجال کے بقول فاسد المذہب، ناقابل اعتماد ضعیف الحدیث تھا اور بعض کے بقول صاحب غلو، منحرف ، تناسخ کے ساتھ مشہور اورکذاب تھا ۔ مشہور صاحب ِ کتاب رجال کشی کے بقول امام جواد علیہ السلام نے اپنے خط میں سیاری کے دعووں کو باطل اور بے بنیاد قرار دیا ہے ۔

البتہ روایاتِ تحریف سیاری میں منحصر نہیں ہیں لیکن ان کا زیادہ ترحصہ اسی کی طرف سے ہے ۔

ان جعلی روایات میں کچھ مضحکہ خیز روایات بھی نظر آتی ہیں جو شخص تھوڑا بہت بھی مطالعہ رکھتا ہے وہ فوراً ان روایات کی خرابی کو سمجھ لیتا ہے مثلاًایک روایت کہتی ہے کہ سورہ نساء کی آیہ ۳ میں ”( وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فانکحوا ماطاب لکم من النساء ) “( اور اگر تمہیں ڈر ہو کے تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں اچھی لگتی ہیں ) شرط اور جزاء کے درمیان میں سے ایک تنہائی سے زیادہ قرآن ساقط ہو گیا ہے ۔

حالانکہ ہم سورہ نساء کی تفسیر میں کہہ چکے ہیں کہ اس اایت میں شرط اور جزاء پوری طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں یہاں تک کہ اس مین سے ایک لفظ بھی ساقط نہیں ہوا ۔

علاوہ ازیں ایک تہائی سے زیادہ تو پھر اس حساب سے کم ازکم چودہ پاروں کے برابر بنتا ہے ۔

یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ان سب کا تبان، وحی اور زمانہ پیغمبر سے لے کر آج تک قرآن کے حافظوں اور قاریوں کے ہوتے ہوئے اس کے چودہ پارے ضائع ہوگئے او رکوئی آگاہ نہ ہوا ۔

ان جھوٹوں اور جعل سازوں نے اس تاریخی حقیقت کی طرف توجہ نہیں کہ قرآن کہ جو اسلام کاقانون اساسی ہے اور شروع سے مسلمانوں کا سب کچھ اسی سے تشکیل پاتا ہے رات دن گھروں اور مسجدوں میں اس کی تلاوت ہوتی رہتی ہے کیا اس عالم میں اس کا ایک لفظ بھی ساقط کیا جا سکتا ہے تھا چہ جائیکہ اس کے چودہ پارے غائب کردئے جائیں ۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ایسی احایدث گھڑنے والوں کے پیدا ہونے کی واضح دلیل ہے ۔

بہت سے بہانہ تراش کتاب فصل الخطاب کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس کتاب کی طرف ہم نے سطور بالا میں اشارہ کیا ہے یہ مرحوم حاجی نوری کی تالیف ہے اور تحریف کے سلسلے میں لکھی گئی ہے اس کے ابرے میں ہم نے جو کچھ اوپر کہا ہے اس کے علاوہ اس با تی اس کی کیفیت واضھ ہو جاتی ہے کہ مرحوم حاج شیخ آقابزرگ تہرانی کہ جو مرحوم حاجی نوری کے شاگرد مبرز ہیں ، اپنے استاد کے حالات کے ذیل میں ”مستدرک الوسائل “ کی پہلی جلد میں لکھتے ہیں :۔

باقی رہا کتاب ” فصل الخطاب“ کے بارے میں تو میں نے بارہا اپنے استاد سے سنا ہے کہ فرماتے تھے کہ وہ مطالب جو فصل الخطاب میں ہے وہ میراذاتی عقیدہ نہیں ہے ۔ یہ کتاب تو میں نے بحث و اشکال کے لئے لکھی ہے اور اشارتاًعدم تحریف کے بارے میں اپنا عقیدہ بھی بیان کردیا ہے اور بہتر تھا کہ میں کتاب کا نام ” فصل الخطاب فی عدم تحریف الکتاب“ رکھتا ۔

اس کے بعد مرحوم محدث تھرانی کہتے ہیں :

عملی لحاظ سے ہم اپنے استاد کی روش اچھی طرح دیکھتے تھے کہ وہ روایات تحریف کو کچھ بھی وزن دینے کے قائل نہ تھے بلکہ انھیں ایسی ورایات سمجھتے تھے جنہیں دہوار پر دے مارنا چاہئیے ۔ ہمارے استاد کی طرف تحریف کی نسبت وہی شخص دے سکتا ہے جو ان کے عقیدہ سے آشنائی نہ رکھتا ہو ۔

آخری بات یہ ہے کہ بعض ایسے لوگ جو مسلمانوں کے لئے اس آسمانی کتاب کی عظمت کو محسوس نہیں کرتے تھے انھوں نے کوشش کی کہاس قسم کے خرافات اور اباطیل سے قرآن کو اس کی اصالت اور بنیاد سے گرادیں ۔ گذشتہ اور موجودہ زمانے میں بہت سی آیات تبدیل کردیں لیکن یہ ان کا اندھا پن تھا ،علماء ِ اسلام فوراً دشمن کی اس سازش سے آگاہ ہوئے اور ان نسخوں کو اکھٹا کرلیا ۔ یہ سیاہ دل دشمن نہیں جانتے تھے کہ قرآن میں سے ایک نقطہ بھی تبدیل ہو جائے تو قرآن کے مفسرین ، حفاظاور قارئین فوراً اس سے آگاہ ہو جائیں گے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ نور ِ خدا کو بجھا دیں لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے ۔( یریدون ان یطفؤا نور الله بافواههم و یاٴبی الله الا ان یتم نوره ولو کره الکافرون ) ( توبہ ۔ ۳۲)

____________________

۱۔اس کی عبارت اس طرح ہے ۔و الشیعة هم ابدا اعداء المساجد ولهٰذا یقل ان یشاهد الضارب فی طول بلادهم عرضها مسجداً

۲۔تاریخ القرآن ص۳۴۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24