تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22052
ڈاؤنلوڈ: 1980


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22052 / ڈاؤنلوڈ: 1980
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

۳ ۔جہنم کے دروازے

مندرجہ بالا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں ( بعیدنہیں کہ سات کا عدد یہاں عدد کثیر ہو یعنی جہنم کے بہت سے در وازے ہیں جیسا کہ سورہ لقمان کی آیہ ۲۷ میں بھی سات کا عدد اسی معنی میں آیا ہے ) ۔

لیکن واضح ہے کہ دروازوں کی یہ تعداد (جنت کے در وازوں کے طرح (نہ داخل ہونے والوں کی کثرت کی وجہ سے کہ وہ ایک چھوٹے سے در وازے سے نہیں گذرسکتے اور نہ ہی یہ تکلیف کے پہلو سے ہے بلکہ در حقیقت یہ ان مختلف عوامل کی طرف اشارہ ہے جو انسان کو جہنم کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں گناہوں کی ہر قسم جہنم کا ایک دروازہ ہے ۔

نہج البلاغہ کے خطبہ جہاد میں ہے :ان الجهاد باب من الجنة الله فتحه الله لخاصة اولیائه

جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک در وازہ ہے جسے خدا نے اپنے خاص بندوں کے لئے کھولا ہے ۔( نہج البلاغہ، خطبہ ۲۷ ۔)

ایک مشہور حدیث ہے ۔ان السیوف مقالید الجنة ۔

تلواریں جنت کی چابیاں ہیں ۔

ان تعبیرات سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ جنت اور دوزخ کے متعدد دروازوں سے کیا مراد ہے ۔

یہ قابل توجہ ہے کہ امام باقر علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جنت کے آٹھ در وازے ہیں ۔

خصال شیخ صدوق ابواب الثمانیة۔

جبکہ مندرجہ بالاآیات کہتی ہیں کہ جہنم کے سات دروازے ہیں ، یہ فر ق اس طرف اشارہ ہے کہ اگر چہ بد بختی اور عذاب میں داخل ہو نے کے بہت سے دروازے ہیں لیکن اس کے باوجود سعادت و خوش بختی تک پہنچنے کے در وازے اس سے زیادہ ہیں ( سورہ رعد کی آیہ ۲۳ کے ذیل میں بھی ہم اس سلسلے میں گفتگو کر چکے ہیں ) ۔

۴ ۔سیاہ کیچڑ اور خدا کی روح

یہ بات جاذب نظر ہے کہ ان آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ انسان دو مختلف چیزوں سے پیدا ہوا ہے ان میں سے ایک عظمت کی انتہائی بلندیوں پر ہے اور دوسری قدر و قیمت کے لحاظ سے ظاہراً بہت پست ہے ۔

انسان کا مادی پہلو بد بو دار سیاہ رنگ کیچڑ سے تشکیل پاتا ہے اور اس کا معنی پہلو وہ چیز ہے کہ جسے ” روح خدا“ سے یاد کیا گیا ہے البتہ اللہ تعالیٰ جس رکھتا ہے نہ روح ۔ روح کی خدا کی طرف نسبت اصطلاح کے مطابق اضافت و نسبت تشریفی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی قالب میں ایک بہت ہی پر عظمت چیز روح کو ڈالا گیا ہے ۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے خانہ کعبہ کو اس کی عظمت کی بناء پر ”بیت اللہ “ اور ماہ مبارک رمضان کو اس کی بر کت کی وجہ سے ”شہر اللہ “ ( اللہ کا مہینہ کہا جاتا ہے ۔

اسی بناء پر انسان کی قوس صعودی اس قد ر بلند ہے کہ وہ اس مقام پر پہنچتا ہے کہ اسے سوائے خدا کے کچھ نظر نہیں آتا اور اس کی قوسِ نزول اس قدر پست ہے کہ چوپایوں سے بھی پست ہے( بل هم اضل ) ۔

قوس صعودی اور نزولی میں اتنا زیادہ فاصلہ خود اس کی مخلوق کی انتہائی اہمیت کی دلیل ہے اور یہ مخصوص ترکیب اس امر کی بھی دلیل ہے کہ انسانی مقام کی عظمت اس کے مادی پہلو کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ اس کے مادی پہلو کی طرف نظر کریں تو وہ سیاہ کیچڑ سے زیادہ کچھ نہیں یہ روح الہٰی ہے کہ جس میں بہت زیادہ صلاحیتیں پنہاں ہیں اور وہ نوار الٰہی کا مقام ِ تجلی ہو سکتی ہے اسے یہ سب عظمتیں بخشی گئی ہیں اور ا س کے کمال و ارتقاء کا صرف یہی راستہ ہے کہ اسے تقویت دی جائے اور مادی پہلو کہ جو اسی مقصد کے لیے ذریعہ ہے ، اسے صرف اسی کے پیش رفت کے لئے استعمال کیا جائے (کیونکہ ممکن ہے اس عظیم ہدف تک پہنچنے کے لئے موثر مدد دے ) ۔

سورہ بقرہ کی ابتداء میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلقت کے متعلق جوآیات آئی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں ن کا آدم کے سامنے سجدہ کرنا ان کے مخصوص الہٰی علم کی وجہ سے تھا ۔

لیکن یہ سوال کہ غیر خدا کو سجدہ کس طرح ممکن ہے اور کیا واقعةً فرشتوں نے اس عجیب و خلقت کی وجہ سے خدا کو سجدہ کیا تھا یا انھوں نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا ۔

اس کا جواب سورہ بقرہ کی انہی آیات میں دیا جا چکا ہے جوخلقت ِ آدم سے متعلق ہیں ۔

۵ ۔جن کیا ہے ؟

لفظ ”جن “ در اصل ایسی چیز کے معنی میں ہے جو حسِ انسانی سے پوشیدہ ہو مثلاًہم کہتے ہیں ”جنة اللیل “ یا ”فلما جن علیه اللیل “ یعنی جس وقت سیاہ رات کے پر دے نے اسے چھپا لیا ۔ اسی بناء پر ” مجنون “ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی عقل پوشیدہ ہو ۔ ” جنین “ اس بچے کو کہتے ہیں کو رحم ِ مادر میں مخفی ہو ۔ ” جنت“ اس باغ کو کہتے ہیں جس کے درختوں نے اس زمین کو چھپا رکھا ہو ۔ ”جنان“ اس دل کو کہتے ہیں جو سینہ کے اندر چھپا ہواور ”جنة“ اس ڈھال کو کہتے ہیں جو انسان کو دشمن کی ضر بوں سے چھپائے ۔

البتہ آیات قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ”جن “ ایک موجود عاقل ہے کہ جو حس ِ انسانی سے پو شیدہ ہے اس کی خلقت در اصل آگ سے یا آگ کے صاف شعلوں سے ہوئی ہے ابلیس بھی اسی گروہ میں سے ہے ۔

بعض علماء انھیں ”ارواح عاقلہ “ کی ایک نوع سے تعبیر کرتے ہیں کہ جومادہ سے مجرد ہیں ( البتہ واضح ہے کہ تجرد کامل نہیں رکھتے کیونکہ جو چیز کسی مادہ سے پیدا ہوتی ہے وہ مادی ہے لیکن اس میں کچھ نہ کچھ تجرد ہے کیونکہ ہمارے حواس اس کا اداک نہیں کرسکتے ۔ دوسرے لفظوں میں ایک قسم کا جس لطیف ہے ) ۔

نیز آیات قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ۔ مطیع بھی ہیں اور سر کش بھی ۔ اور وہ بھی مکلف اور مسئول ہیں ۔

البتہ ان مسائل کی تشریح اور دو حاضر کے علم سے ان کی ہم آہنگی کے بارے میں مزید بحث کی ضرورت ہے ۔ اس کے بارے میں ہم مناسب حد تک انشاء اللہ سورہ جن کی تفسیر میں بحث کریں گے کہ جوقرآن کے پارہ انتیس میں ہے ۔

جس نکتہ کی طرف یہاں اشارہ کرنا ضروری ہے یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں لفظ ”جان “ آیا ہے جو اسی مادہ ”جن “ سے ہے ۔

کیا یہ دونوں الفاظ ( ”جن “ اور ”جان “)ایک معنی رکھتے ہیں یا جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ” جان “ ”جن “ کی ایک خاص قسم ہے ۔

قرآن کی وہ آیات جو اس سلسلہ میں آئی ہیں اگر انہیں ایک دوسرے کے سامنے رکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ دونوں ایک ہی معنی میں ہیں ۔ کیونکہ قرآن بھی ”جن “ انسان کے ساتھ آیا ہے ۔ اور کبھی ”جان “ مثلاً سورہ بنی اسرائیل کی آیہ ۸۸ میں ہے :( قل لئن اجتمعت الانس و الجن )

سورہ ذاریات کی آیہ ۵۶ میں آیاہے :( وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون )

حالانکہ سورہ رحمن کی آیہ ۱۴ ۔ ۱۵ میں ہے :( خلق الانسان من صلصال کالفخار و خلق الجان من مارج من نار )

اسی سورہ آیہ ۳۹ میں ہے :( فیومئذ لایسئل من ذنبه انس و لا جان )

مندر جہ بالا آیات اور قرآن کی دیگر آیات کے مجموعی مطالعے سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ”جان“ اور”جن “ دونوں کا ایک ہی معنی ہے ۔ لہٰذا مندرجہ بالا آیات میں کبھی ”جن “ انسان کے ساتھ آیا ہے اور کبھی ” جان “۔

البتہ قرآن حکیم میں ” جان “ ایک اور معنی میں بھی ہے ۔ کہ سانپ کی ایک قسم ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ہے :کانھا جان (قصص ۳۱) لیکن یہ ہماری بحث سے خارج ہے ۔

۶ ۔قرآن اور خلقت انسان

جیسا کہ ہم نے زیر بحث آیات میں دیکھا ہے کہ قرآن میں انسان کے بارے میں بڑی جچی تلی بحث ہے اور اس موضوع سے قرآن تقریبا ً سر بستہ اور اجمالی طور پر گذ رگیا کیونکہ اصلی مقصد تربیتی مسائل تھے ۔ قرآن کے چند اور مواقع پر اس بحث کی نظیر موجود ہے مثلاً سورہ سجدہ ، مومنون اور جن میں ۔ البتہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کوئی علوم طبیعی کتاب نہیں ہے بلکہ انسان سازی کی کتاب ہے لہٰذا ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہئیے کہ اس میں ان علوم کے جزئیات مثلا ً تکامل سے مر بوط مسائک ، تشریح جنین شناسی ، نباتات شناسی وغیرہ بیان ہوں ۔ لیکن یہ بات اس سے مانع نہیں کہ تر بیتی مباحث کی مناسبت سے ان علوم کی بعض جزئیات کی طرف قرآن میں مختصرسا اشارہ ہو جائے ۔ بہر حال اس مختصر سی تمہید کے بعد یہاں دو امور پر بحث کرنا ضروری معلوم ہوتاہے ۔

۱ ۔ تکامل انواع سائنسی لحاظ سے ۔

۲ ۔ تکامل انواع قرآن کی نظر سے ۔

پہلے اس موضوع پر آیات و روایات سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف علوم طبیعی کے خصوصی معیاروں کو سامنے رکھ بحث کرتے ہیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ علوم طبیعی کے علماء کے درمیان زندہ موجودات چاہے ،نباتات ہوں یا حیوانات ، ان کے بارے میں دو مفروضے موجود ہیں ۔

الف: تکامل انواع کا مفروضہ یا ( Transformism )اس مفروضے کے مطابق زندہ موجودات کی انواع ابتداء میں موجودہ شکل میں نہ تھیں بلکہ موجودات کا آغاز ایک ایک سلول سے ہوا ہے ۔ یہ سلول ( Cellule )سمندروں کے پانی اور دریاؤں کی تہہ کے چکنے سیاہ کیچڑ کے درمیان حرکت سے پیدا ہوئے یعنی بے جان موجودات تھے کہ جو خاص حالات میں تھے ان سے پہلے پہلی زندہ سلول ( Cellule )پیدا ہوئے ۔

ان انتہائی زندہ موجودات نے تدریجاً تکامل و ارتقاء شروع کیا اور ایک نوع سے دوسری نوع میں بدلتے ہوئے دریاؤں سے صحراؤں کی طرف اور وہاں سے ہوا اور فضا کی طرف منتقل ہو ئے ۔ اس طرح انواع و اقسام کے نباتات اور آبی و زمینی جانور اور پرندے وجود میں آئے ان تکامل اور ارتقاء کی کامل ترین صورت یہی آج کا انسان ہے جو بندر سے مشابہ موجود سے اور بھی انسان نما بندرسے ظاہر ہوا ۔

ب:ثبوت انواع کا مفروضہ یا ( fixism ) اس مفروضے کے مطابق جانداروں کی ہر نوع ابتداء ہی سے اسی موجود شکل میں ظاہر ہوئی اور کوئی نوع دوسری نوع میں تبدیل نہیں ہوئی اور فطرتاً انسان بھی مستقل خلقت کا حامل تھا کہ جو ابتداء سے اسی مشکل و صورت میں پیدا ہوا ۔

دونوں گروہوں کے سائنسدانوں نے اپنا نظر یہ ثابت کرنے کے لئے بہت سے مطالب لکھے ہیں اور عملی محافل میں اس مسئلے پر بہت سے نزاع اور جھگڑے ہوئے ہیں ان جھگڑو ں میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب لامارک ( مشہور جانورشناس فرانسی سائنسداں جو اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں ہوا ۔ اور اس کے بعد ڈارون ( جانور شناس انگریز سائنسداں جو انیسویں صدی میں ہوا )نے تکامل انواع کے سلسلے میں اپنے نظر یات نئے دلائل کے ساتھ پیش کئے۔

البتہ آج کی علوم طبیعی کی محافل میں شک نہیں کہ اکثریت تکامل ِ انواع کے مفروضے کے حامی سائنس دانوں کی ہے۔

تکامل انواع کے حامیوں کے دلائل

ان دلائل کوآسانی سے تین حصوں میں خلاصہ کرکے بیان کیا جاسکتا ہے ۔

۱) پہلے وہ دلائل ہیں جو قدیم نباتات وحیوانات کے آثار کے علم ( PALEONTOLOGIE )یعنی گذشتہ موجودا ت کے پتھرائے ہوئے ڈھانچوں کے مطالعے کے حوالے سے پیش کئے گئے ہیں ان کاک نظر یہ ہے کہ زمین کے مختلف طبقوں کا مطالعہ نشاندہی کرتا ہے کہ زندہ موجودات نے زیادہ تر شکلوں سے کامل تر اور زیادہ ترپیچیدہ شکلوں میں طرف تغیر کیا ہے ۔

ان قدیم حیوانات ونباتات کے آثار میں پیش آنے والے فرق کی تفسیر فقط مفروضہ تکامل کے ذریعے کی جاسکتی ہے ۔

۲) دوسری دلیل وہ قرائن ہیں جو علم تشریح ( Comparative Anotomy )سے اخذ کئے گئے ہیں اس سلسلے میں وہ لمبی چوڑی بحثیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس وقت مختلف جانوروں کی ہڈیوں کو جوڑنے کی تشریح کرکے ان کا ایک دوسرے سے موازنہ کیا گیا تو ان کے درمیان بہت زیادہ مشا بہت دکھائی دی ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ ان سب کا اصل اور بنیاد ایک ہی ہے ۔

۳) ان کی تیسری دلیل وہ قرائن ہیں کہ جو جنین ( Foeuts )سے ہاتھ لگے ہیں ان کا نظر یہ ہے کہ اگر جانوروں کا حالت جنین میں تقابلی جائزہ کیا جائے جبکہ انہوں نے ابھی ضروری تکامل حاصل نہ کیا ہو تو ہم دیکھیں گے کہ تکامل سے قبل جانور شکم مادر میں یا حالت نطفہ میں ایک دوسرے سے کس قدر مشابہت رکھتے ہیں یہ امر بھی نشاندہی کرتا ہے کہ سب کے سب ابتداء میں ایک ہی اصل سے لئے گئے ہیں ۔

ثبوت انواع کے حامیوں کے جوابات

مفروضہ ثبوت انواع ( Fixism )کے حامی ان تمام دلائل کا ایک کلی جواب دیتے ہیں اور وہ یہ کہ ان قرائن میں سے کوئی بھی اطمینان بخش نہیں ہے البتہ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ان تین طرح کے قرائن میں سے ہر ایک احتمال ِتکامل کو ایک ” ظنی احتمال“ کے طورپر پیش کرتا ہے لیکن یقین ہر گز پیدا نہیں کرتا ۔

واضح لفظوں میں مفروضہ تکامل کو عقلی دلیل کے ذریعے ایک علمی اور قطعی قانون ثابت کرنا چاہئیے یا محسوسات یا تجر بہ کے ذریعے اوور ان دو کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے ۔

لیکن ایک طرف تو ہم جانتے ہیں کہ عقلی اور فلسفیانہ دلائل سے ان مسائل کو ثابت نہیں کیا جا سکتااور دوسری طرف یہ مسائل کہ جن کی جڑیں لاکھوں بر س قبل کے معاملات میں چھپی ہوئی ہیں ان تک تجربے کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا ۔ تجربے اور مشاہدہ سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوتا ہے وہ سطحی تغیرات ہیں جو زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ نباتات و حیوانات میں کسی اچانک تبدیلی جہش تاسیون کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں مثلاً عام بھڑوں میں سے اچانک کوئی ایسی بھڑ پیدا ہوتی ہے جس کی کھال عام بھڑوں کے کھال سے مختلف ہوتی ہے ، یعنی بہت نرم اور ملایم ہوتی ہے اور پھر اس کی کھال کی ان خصوصیات کی وجہ سے بھڑوں کی ایک نسل گوسفند مرینوس کے نام سے پیدا ہوتی ہے ۔

یا بعض جانوروں میں کسی تغیر کی وجہ سے ، آنکھ ، ناخن ، بدن یا کھال کے رنگ میں یا اس قسم کی کوئی اور تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے لیکن آج تک کوئی ایسی اچانک تبدیلی نہیں دیکھی گئی جو کسی حیوان کے بدن کے اصلی اعضاء میں کوئی اہم تغیر پیدا کردے یا ایک نوع کو دوسری نوع میں تبدیل کردے ۔

اس بناء پر صرف ایک قیاس اور گمان ہی کیا جاسکتا ہے کہ پے در پے جست و خیز اور یکے بعد دیگرے تبدیلیوں کے ذریعے ہوسکتا ہے کسی روز کسی حیوان کی نوع تبدیل ہو جائے مثلاً پیٹ کے پل زمین پر ینگنے والا جانور پرندے میں تبدیل ہو جائے لیکن یہ قیاس و تخمین ہر گز یقینی نہیں ہے بلکہ صرف ایک ظنی مسئلہ ہے کیونکہ ہم نے آج تک ایسے ناگہانی تغیرات کا تجربہ نہیں کیا جو اصلی اعضاء کو تبدیل کردیں ۔

جو کچھ کہا گیا اس سے ہم مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تبدیلی ِ نوع ( Tranformism )کے حامیوں کی تین دلیلیں اس نظر یے کو ایک مفروضے سے اوپر نہیں لے جاسکتےں اسی بناء پر اس نظر یہ پر دقت ِ نظر سے بحث کرنے والے لوگ ہمیشہ اس پر تکامل ِ انواع کے مفروضے کے طور پر گفتگو کرتے ہیں نہ کہ ایک قانون کے طورپر۔

مفروضہ تکامل اور مسئلہ خدا شناسی

بہت سے لوگ اس مفروضے اور مسئلہ خدا شناسی کے درمیان ایک قسم کا تضاد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شاید ایک لحاظ سے وہ حق بجانب بھی ہیں کیونکہ ڈارون کے نظریہ نے ارباب ِ کلیسا اور اس مفروضے کے حامیوں کے درمیان ایک شدید جنگ چھیڑ دی ہے ۔

اس مسئلے کی بنیاد اس زمانے میں سیاسی اور اجتماعی وجوہات کی بنیاد پر جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے بہت پراپیگنڈا کیا گیا کہ ڈارونیسم خدا شناسی سے مطابقت نہیں رکھتا ۔

لیکن آج یہ مسئلہ ہمارے لئے واضح ہے کہ یہ دونوں امور آپس میں کوئی تضا د نہیں رکھتے یعنی چاہے مفروضہ تکامل کو قبول کریں چاہے فقدان دلیل کے باعث اسے رد کریں دونوں صورتوں میں ہم خدا شناس ہوسکتے ہیں ۔

فرض کریں کہ مفروضہ تکامل ثابت بھی ہو جائے تو وہ ایک ایسے قانون علمی کے شکل اختیار کرلے گا جو طبیعی علت و معلوم سے پر دہ اٹھا دے اور جانداروں اور دیگر موجودات کے درمیان اس علت و معلوم کے رابطے سے کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا ۔

کیا بارشوں کے نزول ، سمندرروں کے مدو جزر اور زلزلوں وغیرہ کے طبیعی علل معلوم ہونے سے خدا شناسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ؟ مسلماً نہیں ۔ لہٰذا انواع موجودات کے درمیان ایک تکاملی و ارتقائی رابطے کا انکشاف خدا شناسی کے راستے میں مانع کیسے ہوسکتا ہے ایسی باتیں تو صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جن کا خیال ہے کہ علل طبیعی کا انکشاف وجود خدا قنول کرنے کے منافی ہے لیکن ہم آج اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان علل و اسباب کا انکشاف نہ صرف یہ کہ عقیدہ توحید کو ضرر نہیں پہنچاتا بلکہ وہ تو وجود خدا کے اثبات کے لئے نظام خلقت سے ہمارے لئے مزید دلائل مہیا کرتا ہے ۔

یہ بات جاذب توجہ ہے کہ خود ڈارون پر جب الحاد اور نے دینی کا الزام لگا یا گیا تو اس نے اس کی تردید کی اور اصل ِ انواع کے بارے میں اپنی کتاب میں تصریح کی کہ میں تکامل ِ انواع کو قبول کرنے کے باوجود خدا پرست ہو ں ،اصولی طور پر خدا کو قبول کئے بغیر تکامل کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ۔

اس عبارت پر غور کریں ۔

وہ جانوروں کی مختلف انواع کے ظہور کے لئے علل ِطبیعی کو قبول کر نے کے باوجود ہمیشہ خدائے بیگانہ پر ایمان رکھتا ہے او ر تدریجاً جب اس کا سن آگے بڑھ تا ہے تو اس میں مافوق بشر قدرت کوسمجھنے کا ایک خاص اور اندرونی احساس شدید تر ہو جاتا ہے اس حد تک کہ وہ انسان کے لئے معمائے آفرینش کو لاینحل سمجھتا ہے ۔(۵)

اصولی طور پر اس کا عقیدہ تھا کہ تکامل کے اس عجیب و غریب پیچ و خم میں انواع کی ہدایت اور ایک عام زندہ موجود کا ان مختلف انواع اور متنوع جانوروں میں تبدیلی ہونا کسی عقل کل کی طرف سے حساب شدہ او ر دقیق منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اور واقعاً ہے بھی ایسا ہی ۔ کیا تنہا مادہ جو عام اور پست ہے ایسی تعجب خیز اور عجیب و غریب مشتقات کو ایک بے پایا ں علم و قدرت کے سہارے کے بغیر کیسے وجود بخش ہو سکتا ہے جبکہ ان میں سے ہر کو اپنی مفصل تشکیلات ہیں ۔

نتیجہ یہ کہ یہ شور و غوغا بالکل بے بنیاد ہے ہے کہ تکامل انواع کا نظریہ خدا شناسی کے نظریہ سے تضاد رکھتا ہے ( چاہے ہم مفروضہ تکامل کو قبول کریں یا نہ کریں ) ۔

یہاں صرف ایک مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ قتآن نے پیدائش آدم کی جو مختصر تاریخ بیان کی ہے کیا تکامل انواع کا مفروضہ اس سے تضاد رکھتا ہے یا نہیں ۔ اس کے بارے میں ذیل میں بحث کریں گے ۔

قرآن اور مسئلہ تکامل انواع

یہ بات جاذب نظر ہے کہ مسلمانوں میں تکامل انواع کے حامیوں اور مخالفوں دونوں نے اپنے مقصد کے اثبات کے لئے آیات ِ قرآن سے تمسک کیا ہے لیکن شاید دونوں نے بعض اوقات اپنے عقیدے اور نظرے کے زیر اثرہوکر ایسی آیات سے استدلال کیا ہے کہ جو ان کے مقصود سے بہت کم ربط رکھتی ہیں ۔ لہٰذا وہ دونوں طرف سے زیر بحث آنے والی آیات کا انتخاب پیش کرتے ہیں ۔

اہم ترین آیت کے جس کا تکامل کے طرفداروں نے سہارا لیا ہے سورہ آل عمران کی آیہ ۳۳ ہے ۔

( ان الله اصطفیٰ آدم و نوحاً و آل ابراهیم و اٰل عمران علی العالمین )

اللہ نے آدم (علیہ السلام) ، نوح (علیہ السلام) ، آل ابراہیم (علیہ السلام) اور آل عمران ایک گروہ کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے اور ان میں سے چنے گئے ، آدم کو بھی اسی طرح ہو نا چاہئیے یعنی ان کے زمانے میں بھی وہ انسان کے جس پر ”عالمین “ کا اطلاق ہوتا ہے یقینا موجود تھے اور آدم (علیہ السلام) انہی میں سے چنے گئے تھے یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) روی زمین کے پہلے انسان نہ تھے بلکہ قبل ازیں بھی دوسرے انسان موجود تھے اور آدم (علیہ السلام) کا امتیاز وہی ان کا فکری اور روحانی ارتقاء و تکامل ہے کہ جس کے سبب وہ اپنے جیسے افراد میں سے چنے گئے ۔

اس نظریہ کے حامیوں نے کچھ اور آیات بھی ذکر کی ہیں کہ جن میں سے بعض مسئلہ تکامل سے بالکل ربط نہیں رکھیتیں اور ان کی تفسیر تکامل کے مفہوم میں کرنا زیادہ تر تفسیر بالرای بن جاتی ہے ۔

ان میں سے بعض آیات ایسی بھی ہیں کہ جو تکامل انواع کے مفہوم سے بھی مطابقت رکھتی ہیں ،ثبوت انواع سے بھی او رآدم (علیہ السلام) کی مستقل خلقت سے بھی ۔اسی بناء پر ہم نے بہتر سمجھا ہے کہ ان کے ذکر سے صرف نظر کیا جائے ۔

باقی رہا وہ اعتراض جو اس استدلال پر کیا جاسکتا ہے یہ ہے کہ ہے ’عالمین “ اگر معاصر لوگوں کے معنی میں ہو اور ”اصطفیٰ “ (چننا)یقینا ایسے ہی اشخاص میں سے ہو تو پھر یہ استدلال قابل قبول ہو سکے گا لیکن اگر کوئی کہے کے ”عالمین “ معاصرین اور غیر معاصرین سب کے لئے ہے تو اس صورت میں مندرجہ بالا آیت اس امر پر دلالت نہیں کرے گی جیسا کہ پیغمبر اسلام کی مشہور حدیث میں خاتون اسلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکی فضیلت میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:اماابنتی فاطمه فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و الاٰخرین

باقی رہی میری بیٹی فاطمہ تو وہ اولین و آخرین کے سب جہانوں کے عورتوں کی سردار ہے ۔

یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی کہے کہ کچھ لوگوں کو خدا نے تمام اور ادوار کے انسانوں میں سے چن لیا ہے اور ان میں سے ایک آدم ہیں اس صورت میں ضروری نہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانے میں دوسرے انسان بھی موجود ہوں کہ جن پر ”عالمین “ کا اطلاق ہو یا آدم ان میں سے چنے جائیں ، خصوصاً جبکہ گفتگو خدا کے چننے کے بارے میں ہے جو آئندہ آنے والی اوربعد کے زمانوں میں آنے والی نسلوں میں سے اچھی طرح آگاہ ہے ۔(۱)

لیکن اہم ترین دلیل جو ثبو ت انواع کے حامیوں نے آیاتِ قرآن میں سے منتخب کی ہے وہ زیر بحث اور اس جیسی آیات ہیں کہ جوکہتی ہیں کہ خدا نے انسنا کو خشک مٹی سے پیدا کیا کہ جو سیاہ رنگ بد بو دار اور کیچڑ سے لی گئی تھی ۔

یہ امر لائق توجہ ہے کہ ”انسان“ کی خلقت کے موقع پر بھی یہ تعبیر استعمال ہوئی ہے :

( لقد خلقنا الانسان من صلصال من حماٴٍ مسنون ) ( حجر: ۲۶) ۔

نیزبشر کے بارے میں بھی یہ تعبیر آئی ہے :

( و اذقال ربک للملائکة انی خالق بشراً من صلصال من حماٴٍ مسنون ) (حجر: ۲۸) ۔

نیز یہ بھی ہے کہ فرشتوں نے خود ذات ِ آدم کو سجدہ کیا اس سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ( سورہ حجر کی آیات ۲۹ ، ۳۰ اور ۳۱ جو سطور بالا میں ہم بیان کرآئے ہیں ان میں غور و فکر کیجئے ) ۔

پہلی نظر میں ان آیات مفہوم یہی نکلتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) پہلے سیاہ رنگ کے کیچڑ سے پیدا ہوئے ، اعضاء و جوارح کی تکمیل کے بعد ان میں خدائی روح پھینکی گئی اور اس کے ساتھ ابلیس کے سوا تمام فرشتے ان کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔

ان آیات کا طرز بیان نشاندہی کرتا ہے کہ آدم کی مٹی سے خلقت او ر موجودہ شکل و صورت پیدا ہونے کے درمیان دیگر انواع موجود نہ تھیں ۔بعض مندرجہ بالا آیات میں ”ثم“ کی تعبیر آئی ہے یہ لفظ لغت عرب میں فاصلہ ترتیب کے لئے استعمال ہوتا ہے یہ لفظ ہر گز لاکھوں سال گذر نے اور ہزاروں انواع کے موجود ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ کوئی مانع نہیں کہ یہ ایسے فاصلوں کی طرف اشارہ ہو جو آدم کی مٹی سے خلقت اور پھر خشک مٹی اور پھر روح الٰہی پھونکے جانے کے مراحل میں موجود تھے اسی لئے لفظ ”ثم“ عالم جنین میں انسان کی خلقت اور ان مراحل کے بارے میں آیا ہے کہ جو جنین یکے بعد دیگررے طے کرتا ہے ،مثلاً

( یا ایها الناس ان کنتم فی ریب من البعث فانا خلقناکم من تراب ثم من نطفة ثم من علقةثم من مضغة ثم لنخرجکم طفلاًثم لتبلغوا اشد کم ) ۔

اے لوگو!اگر تمہیں بعث اور قیامت کے بارے میں شک ہے (تو انسان کی خلقت کے بارے میں قدرت خداپر غور و فکر کروکہ)ہم نے تمہیں خاک سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھرمضغہ( گوشت کے جبائے ٹکڑے )سے پھر ہم تمہیں بچہ کی شکل میں باہر نکالتے ہیں پھر تم مرحلہ بلوغ تک پہنچتے ہو (حجر : ۵)

آپ دیکھ رہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ”ثم“ ایک طولانی فاصلہ کے لئے آئے بلکہ جیسے یہ ایک طولانی فاصلوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ویسے ہی مختصرفاصلوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔

جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے اس سے مجموعی طورپر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آگر چہ آیات قرآن نے براہ راست مسئلہ تکامل یا ثبوت انواع بیان نہیں کیا ۔ (لیکن بالخصوص انسان کے بارے میں )آیات کا ظاہری مفہوم مستقل خلقت سے زیاد ہ مناسبت رکھتا ہے اگر چہ اس کے بارے میں کامل صراحت نہیں ہے لیکن خلقت ِآدم سے متعلقہ آیات کا ظاہر زیادہ مستقل خلقت ِ آدم سے متعلقہ آیات کا ظاہر مستقل خلقت کے مفہوم کے گرد گر دش کرتا ہے البتہ دیگر جانوروں کے بارے میں قرآن خاموش ہے ۔

___________________

۱۔یہ احتمال بھی ہے کہ ایک مختصر مدت میں اولاد آدم پر مشتمل ایک معاشرہ تشکیل پایا گیا ہو او ران میں سے آدم بر گزید ہ اور چنے ہوئے ہوں ۔

آیات ۴۵،۴۶،۴۷،۴۸،۴۹،۵۰

۴۵ ۔( إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُون ) ۔

۴۶ ۔( ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِینَ ) ۔

۴۷ ۔( وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَی سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ ) ۔

۴۸ ۔( لاَیَمَسُّهُمْ فِیهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِینَ ) ۔

۴۹ ۔( نَبِّءْ عِبَادِی اٴَنِّی اٴَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ) ۔

۵۰ ۔( وَاٴَنَّ عَذَابِی هُوَ الْعَذَابُ الْاٴَلِیمُ ) ۔

ترجمہ

۴۵ ۔پرہیزکار( بہشت کے سر سبز )باغوں اور اس کے سر چشمہ کے کنارے ہوں گے۔

۴۶ ۔ ( خدا کے فرشتے ان سے کہیں گے ) امن و سلامتی کے ساتھ ان باغوں میں داخل ہو جاؤ۔

۴۷ ۔ہم ان کے سینوں سے پر قسم کا غل ( حسد ، کینہ ، عداوت او ر خیانت ) اتارلیں گے ( اور ان کی روح پاک کریں گے ) اس حالت میں کہ سب بھائی بھائی بن کر تختوں میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے ۔

۴۸ ۔ انھیں ہر گز کوئی خستگی اور تکان نہ ہوگی اور انھیں اس سے کبھی بھی نکالا نہیں جائے گا ۔

۴۹ ۔ میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ میں غفو ررحیم ہوں ۔

۵۰ ۔نیز(انھیں بتا دو کہ) میرا عذاب اور سزا دردناک ہے ۔

تفسیر

بہشت کی آٹھ نعمتیں

گذشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ خدا نے کس طرح تفصیل سے شیطان اور اس کے ساتھیوں ، ہمجولیوں اور پیرو کاروں کا نتیجہ کار بیان کیا ہے اور ان کے سامنے جہنم کے سات دروازے کھولے ہیں ۔

قرآن کی روش ہے کہ وہ موازنہ پیش کرکے تعلیم و تربیت کے لئے استفادہ کرتا ہے اسی روش کے مطابق ان آیات میں بہشت، اہل بہشت ،مادی او ر معنوی نعمات او ر جسمانی و روحانی عنایات کے بارے میں گفتگو ہے ۔ درحقیقت ان آیات میں آٹھ عظیم مادی اور معنوی نعمات کا تذکرہ بہشت کے در وازوں کی تعدا د کے مطابق آیا ہے ۔

۱ ۔ پہلے ایک عظیم مادی نعمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : پر ہیزگار بہشت کے سرسبز باغوں میں ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشموں کے کنارے ہوں گے( إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُون ) ۔

یہ امر جاذب نظر ہے کہ یہاں تمام صفات میں سے صرف ”تقویٰ“ کا ذکر کیا گیا ہے ، وہی تقویٰ ، پر ہیز گاری تعہد اور مسئولیت کہ جس میں تمام عمدہ انسانی صفات جمع ہیں ۔

”جنت وعیون “ کا صیغہ جمع کے ساتھ ذکر ہوا ہے یہ طرح طرح کے باغات ، فراوان چشموں اور گوناگوں بہشتوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں سے ہر ایک کا ایک نیا لطف اور خا ص خصوصیت ہے ۔

۲ ۔ ۳ ۔ اس کے بعد دو اہم معنوی نعمات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ ہیں ”سلامتی “ اور ”امن “۔ ہر قسم کے رنج و ناراحتی اور تکلیف سے سلامتی اور ہر قسم کے خطرے سے امن و امان ۔ ار شاد ہوتا ہے کہ اللہ کے فرشتے انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان باغوں میں کامل سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہوجاؤ( ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِینَ ) ۔

بعد والی آیت میں تین اور معنوی نعمات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے ۔

۴ ۔ ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کا حسد کینہ ، عداوت او ر خیانت دھودیں گے اور ایسی آلائشیں ان سے دور کردیں گے( وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِهِمْ مِنْ غِلّ ) (۱)

۵ ۔ اور وہ یوں ہوں گے جیسے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں ،اور ان کے درمیان محبت کا قریبی تعلق کار فرما ہے( إِخْوَانًا ) ۔

۶ ۔اس حالت میں کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے( عَلَی سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ ) ۔(۲)

ان کی اجتماعی نشستیں اس کے دنیا کے تکلیف و تکلفات کی طرح نہیں ہیں ۔ ان مجلس میں کوئی اوپر اور کوئی نیچے ہے ۔اس دنیا کے المناک طبقاتی زندگی کا کوئی اصول وہاں نہیں ہے وہاں سب آپس میں بھائی ہیں سب ایک دوسرے کے آمنے سامنے اور ایک ہی صف میں ہیں ایسا نہیں کہ کوئی تو مجلس میں بالا نشیں ہے اور ددسرا جوتے اتارنے کی جگہ پر بیٹھا ہے ۔

البتہ یہ امر معنوی درجات مختلف ہونے کے منافی نہیں ہے یہ تو ان کی اجتماعی نشستوں سے مر بوط ہے ورنہ ہر ایک کا اپنے تقویٰ و ایمان کے لحاظ سے اپنا مقام ہے ۔

اس کے بعد ساتویں مادی اور معنوی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما یا گیا ہے انھیں ہر گز کوئی خستگی او ر تکان لاحق نہ ہو گی( لاَیَمَسُّهُمْ فِیهَا نَصَبٌ ) ۔

جب کہ اس دنیا میں آرام کے ایک دن سے پہلے اور بعد کتنی مشکلات سے گز رنا پڑتا ہے کہ جن کا تصور انسان کے راحت و آرام کو درہم بر ہم کر دیتا ہے ایساوہاں نہیں ہے ۔

۸ ۔اسی طرح انھیں فنا اور نعمتوں کے ختم ہونے کا خیال بھی نہیں ستا تا کیونکہ ”وہ ہر گز ان پر مسرت نعمتوں بھرے ہوئے باغوں سے باہر نہیں نکلیں گے “( وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِینَ ) ۔

اب جبکہ بہشت کی فراوان اور دل انگیز نعمتوں کا مؤثر طریقے سے بیان ہوچکا اور یہ بتا یا جاچکا کہ وہ کاملاً متقین کے سپرد ہوں گیں تو اس بات کے پیش نظر کہ کہیں گنہ گار افراد ان غم و انداہ میں ڈوب کر نہ رہ جائیں کہ اے کاش ! ہم بھی ان نعمتوں کا تک پہنچ سکتے اس مقام پر رحمن و رحیم خدا بھی ان کے لئے بھی جنت کے در وازے کھولتا ہے مگر مشروط طور پر ۔

بہت محبت بھرے لہجے میں اور نوازشات کے نہایت اعلیٰ انداز میں اپنے پیغمبر کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے کہتا ہے : اے نبی ! میرے بندوں کو آگاہ کردے کہ میں غفور و رحیم ہو ں ۔ گناہ بخشنے والا اور محبت سے معمو ر ہوں( بَنیٴ عِبَادِی اٴَنِّی اٴَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ) ۔

”عبادی “ (میرے بندے )یہ ایک لطیف تعبیر ہے کہ جو ہر انسان کو اشتیاق دلاتی ہے اور اس کے بعد خدا کی یہ توصیف کہ وہ بخشنے والا مہر بان ہے ۔ اس اشتیاق کو اوجِ کمال تک پہنچا دیتی ہے۔

لیکن قرآن چونکہ ہمیشہ رحمت الٰہی کے مظاہرے سے سوء استفادہ کو روکتا ہے لہٰذا اس کے ہلادینے والے جملوں کے ذریعے اس کے خشم و غضب کا ذکر ہے یہ اس لئے ہے کہ تاکہ خوف و رجا کے درمیان اعتدال بر قرار رہے کیونکہ یہ تکامل و ارتقاء اور تربیت کا راز ہے ۔ لہٰذا بغیر کسی فاصلے کے فرما یا گیا ہے : میرے بندوں سے یہ بھی کہہ دو کہ میرا عذاب دردناک ہے( وَاٴَنَّ عَذَابِی هُوَ الْعَذَابُ الْاٴَلِیمُ ) ۔

____________________

۱۔”غل“ دراصل کسی چیز کے مخفیانہ نفوذ کے معنی میں ہے اسی لئے حسد ، کینہ اور دشمنی کو جو چپکے سے انسانی روح میں نفوذکرجاتے ہیں انہیں ”غل “ کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا” غل“ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جس میں بہت سی بری اور خلاف ِ اخلاق صفات شامل ہیں ( مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد سوم صفحہ ۱۱۸ ،اردو ترجمہ کے حاشیے کی طرف رجوع کریں ) ۔

۲۔”سرر“ ”سریر“ کی جمع ہے جو دراصل تخت، کرسی یا اس قسم کی کسی چیز کے معنی میں ہے کہ جس پر بیٹھتے ہیں اور خوشی کی محفلیں بر پا کرتے ہیں ( توجہ رہے کہ ”سرر“ او ”سرور“ ایک ہی مادہ سے ہیں ) ۔